مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

مسیح کی خوشخبری پر توجہ دلائیں

مسیح کی خوشخبری پر توجہ دلائیں

مسیح کی خوشخبری پر توجہ دلائیں

‏”‏انجیل .‏ .‏ .‏ ہر ایک ایمان لانے والے کے واسطے .‏ .‏ .‏ نجات کے لئے خدا کی قدرت ہے۔‏“‏—‏روم ۱:‏۱۶‏۔‏

۱،‏ ۲.‏ (‏الف)‏ آپ دوسروں کو ”‏بادشاہی کی خوشخبری“‏ کیوں سناتے ہیں؟‏ (‏ب)‏ خوشخبری سناتے وقت آپ لوگوں کی توجہ کن باتوں پر دلاتے ہیں؟‏

‏”‏میرا دل چاہتا ہے کہ مَیں ہر روز دوسروں کو خوشخبری سناؤں۔‏“‏ بِلاشُبہ آپ ایسا ہی محسوس کرتے ہیں۔‏ یہوواہ کے گواہ کے طور پر آپ جانتے ہیں کہ ’‏بادشاہی کی خوشخبری کی مُنادی‘‏ کرنا کس قدر اہم ہے۔‏ شاید آپ کو اِس سلسلے میں یسوع مسیح کی وہ پیشینگوئی بھی زبانی یاد ہے جو اُنہوں نے متی ۲۴:‏۱۴ میں کی تھی۔‏

۲ جب آپ لوگوں کو ”‏بادشاہی کی خوشخبری“‏ سناتے ہیں تو آپ اُس کام کو جاری رکھتے ہیں جسے یسوع مسیح نے شروع کِیا تھا۔‏ ‏(‏لوقا ۴:‏۴۳ کو پڑھیں۔‏)‏ اِس کام کے دوران آپ لوگوں کی توجہ اِس بات پر دلاتے ہیں کہ خدا بہت جلد دُنیا کے حالات بدل دے گا۔‏ وہ ”‏بڑی مصیبت“‏ میں جھوٹے مذاہب کو ختم کر دے گا اور زمین پر سے بُرائی کو مٹا دے گا۔‏ (‏متی ۲۴:‏۲۱‏)‏ آپ لوگوں کو یہ بھی بتاتے ہیں کہ خدا کی بادشاہت زمین کو فردوس بنا دے گی۔‏ اُس وقت سب لوگ خوشی‌خوشی رہیں گے اور زمین پر امن ہوگا۔‏ دراصل ”‏بادشاہی کی خوشخبری“‏ اُس خوشخبری کا ایک پہلو ہے جو ’‏پہلے ہی سے ابرہام کو سنا دی گئی تھی کہ تیرے باعث سب قومیں برکت پائیں گی۔‏‘‏—‏گل ۳:‏۸‏۔‏

۳.‏ ہم کیسے جانتے ہیں کہ پولس رسول نے رومیوں کی کتاب میں ”‏انجیل“‏ یعنی خوشخبری پر توجہ دلائی ہے؟‏

۳ البتہ پولس رسول نے رومیوں کی کتاب میں خوشخبری کے ایک ایسے پہلو پر توجہ دلائی جس پر ہم دوسروں کے ساتھ شاید زیادہ بات نہیں کرتے۔‏ غور کریں کہ پولس رسول نے اِس خط میں اصطلاح خدا کی بادشاہی صرف ایک بار استعمال کی جبکہ اُنہوں نے لفظ انجیل کو دو بار اور لفظ خوشخبری کو دس بار استعمال کِیا۔‏ * ‏(‏رومیوں ۱۴:‏۱۷ کو پڑھیں۔‏)‏ پولس رسول نے اِس کتاب میں ”‏انجیل“‏ یعنی خوشخبری کے کس پہلو پر توجہ دلائی؟‏ خوشخبری کا یہ پہلو اِتنا اہم کیوں ہے؟‏ جب ہم اپنے علاقے کے لوگوں کو ”‏خدا کی خوشخبری“‏ سناتے ہیں تو ہمیں اُن کی توجہ خوشخبری کے اِس پہلو پر کیوں دلانی چاہئے؟‏—‏مر ۱:‏۱۴؛‏ روم ۱۵:‏۱۶؛‏ ۱-‏تھس ۲:‏۲‏۔‏

مسیح کی خوشخبری

۴.‏ جب پولس رسول کو پہلی بار روم میں قید کِیا گیا تو اُنہوں نے لوگوں کے ساتھ کن موضوعات پر بات کی؟‏

۴ ذرا غور کریں کہ جب پولس رسول کو پہلی بار روم میں قید کِیا گیا تو اُنہوں نے لوگوں کے ساتھ کن موضوعات پر بات کی۔‏ ایک موقعے پر جب کچھ یہودی پولس رسول سے ملنے کے لئے آئے تو پولس رسول نے (‏۱)‏ ’‏خدا کی بادشاہی کی گواہی دےدے کر اور (‏۲)‏ یسوع کی بابت سمجھاسمجھا کر صبح سے شام تک اُن سے باتیں کیں۔‏‘‏ اِس کے نتیجے میں ’‏بعض نے اُن کی باتوں کو مان لیا اور بعض نے نہ مانا۔‏‘‏ اِس کے بعد پولس رسول ’‏اُن سب سے ملتے رہے جو اُن کے پاس آتے تھے اور (‏۱)‏ خدا کی بادشاہی کی مُنادی کرتے اور (‏۲)‏ خداوند یسوع مسیح کی باتیں سکھاتے رہے۔‏‘‏ (‏اعما ۲۸:‏۱۷،‏ ۲۳-‏۳۱‏)‏ اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پولس رسول نے لوگوں کی توجہ خدا کی بادشاہی پر دلائی۔‏ لیکن اِس کے ساتھ‌ساتھ اُنہوں نے ایک اَور بات پر بھی زور دیا۔‏ یہ کونسی بات تھی؟‏ اُنہوں نے لوگوں کی توجہ اِس بات پر دلائی کہ یسوع مسیح نے یہوواہ خدا کے اِرادوں کو پورا کرنے میں کیا کردار ادا کِیا۔‏

۵.‏ پولس رسول نے رومیوں کی کتاب میں کس بات پر توجہ دلائی اور اُنہوں نے ایسا کیوں کِیا؟‏

۵ یہ بہت اہم ہے کہ سب لوگ یسوع مسیح کی بارے میں سیکھیں اور اُن پر ایمان لائیں۔‏ اِس لئے پولس رسول نے رومیوں کی کتاب میں یسوع مسیح کے بارے میں خوشخبری پر توجہ دلائی۔‏ اِس کتاب کے پہلے باب میں اُنہوں نے لکھا:‏ ”‏خدا جس کی عبادت مَیں اپنی رُوح سے اُس کے بیٹے کی خوشخبری دینے میں کرتا ہوں۔‏“‏ پھر اُنہوں نے لکھا:‏ ”‏مَیں انجیل سے شرماتا نہیں۔‏ اِس لئے کہ وہ ہر ایک ایمان لانے والے کے واسطے .‏ .‏ .‏ نجات کے لئے خدا کی قدرت ہے۔‏“‏ بعد میں پولس رسول نے اُس روز کا ذکر کِیا جب ’‏خدا اُن کی خوشخبری کے مطابق یسوع مسیح کی معرفت آدمیوں کی پوشیدہ باتوں کا انصاف کرے گا۔‏‘‏ پولس رسول نے یہ بھی لکھا کہ ”‏مَیں نے یرؔوشلیم سے لے کر چاروں طرف اِلرِکمؔ تک مسیح کی خوشخبری کی پوری‌پوری مُنادی کی۔‏“‏ * (‏روم ۱:‏۹،‏ ۱۶؛‏ ۲:‏۱۶؛‏ ۱۵:‏۱۹‏)‏ آپ کے خیال میں پولس رسول نے روم کے مسیحیوں کی توجہ یسوع مسیح کی خوشخبری پر کیوں دلائی؟‏

۶،‏ ۷.‏ ہم روم کی کلیسیا کے بارے میں کیا جانتے ہیں؟‏

۶ ہم یہ نہیں جانتے کہ روم کی کلیسیا کیسے وجود میں آئی۔‏ سن ۳۳ کی عیدِپنتِکُست پر روم سے بھی یہودی آئے تھے۔‏ (‏اعما ۲:‏۱۰‏)‏ ہو سکتا ہے کہ اِن میں سے کچھ مسیحی بن گئے اور پھر واپس روم چلے گئے۔‏ یا پھر ہو سکتا ہے کچھ سوداگر اور مسافر جو مسیحی بن گئے تھے،‏ اُنہوں نے روم میں خوشخبری سنائی ہو۔‏ معاملہ چاہے کچھ بھی ہو،‏ جب پولس رسول نے ۵۶ء میں روم کی کلیسیا کے نام خط لکھا تو یہ کلیسیا کافی عرصے سے قائم تھی۔‏ (‏روم ۱:‏۸‏)‏ لیکن اِس کلیسیا کے افراد کن‌کن قوموں سے تعلق رکھتے تھے؟‏

۷ کچھ لوگ یہودی قوم سے تعلق رکھتے تھے۔‏ مثال کے طور پر پولس رسول نے اندرُنیکس اور یونیاس کے بارے میں لکھا کہ ”‏وہ میرے رشتہ‌دار ہیں۔‏“‏ اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ بھی پولس رسول کی طرح یہودی تھے۔‏ اَکوِلہ اور پرسکہ بھی یہودی تھے اور روم میں رہتے تھے۔‏ (‏روم ۴:‏۱؛‏ ۹:‏۳،‏ ۴؛‏ ۱۶:‏۳،‏ ۷؛‏ اعما ۱۸:‏۲‏)‏ اِس کے علاوہ پولس رسول نے اپنے خط میں روم کی کلیسیا کے بہت سے ایسے بہن‌بھائیوں کو بھی سلام کہا جو یہودی نہیں تھے۔‏ شاید اِن میں سے کچھ ”‏قیصرؔ کے گھر والے“‏ بھی تھے۔‏ ہو سکتا ہے کہ وہ قیصر کے غلام تھے یا اُس کے ہاں چھوٹےموٹے عہدے رکھتے تھے۔‏—‏فل ۴:‏۲۲؛‏ روم ۱:‏۵،‏ ۶؛‏ ۱۱:‏۱۳‏۔‏

۸.‏ روم کے مسیحی کس افسوس‌ناک صورتحال سے دوچار تھے؟‏

۸ پولس رسول نے اپنے خط میں لکھا کہ ”‏سب نے گُناہ کِیا اور خدا کے جلال سے محروم ہیں۔‏“‏ (‏روم ۳:‏۲۳‏)‏ اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ نہ صرف روم کے مسیحی بلکہ سب لوگ ایک افسوس‌ناک صورتحال سے دوچار ہیں یعنی ہم سب گُناہ‌گار ہیں۔‏ اِس صورتحال سے نجات پانے کے لئے ہمیں اِس بات کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ ہم گُناہ‌گار ہیں اور ہمیں اُس بندوبست پر ایمان لانا ہوگا جو خدا نے گُناہ سے نجات دلانے کے لئے بنایا ہے۔‏

سب نے گُناہ کِیا ہے

۹.‏ جس خوشخبری کا پولس رسول نے ذکر کِیا،‏ اِس کی کیا اہمیت ہے؟‏

۹ جس خوشخبری کا ذکر پولس رسول نے باربار کِیا،‏ اِس کی اہمیت اُنہوں نے یوں بتائی:‏ ”‏مَیں انجیل [‏یعنی خوشخبری]‏ سے شرماتا نہیں۔‏ اِس لئے کہ وہ ہر ایک ایمان لانے والے کے واسطے پہلے یہودی پھر یونانی کے واسطے نجات کے لئے خدا کی قدرت ہے۔‏“‏ اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہوواہ خدا نے انسانوں کو نجات دلانے کا بندوبست کِیا ہے۔‏ لیکن نجات حاصل کرنے کے لئے ایمان لانا لازمی ہے۔‏ اِس حقیقت پر زور دینے کے لئے پولس رسول نے حبقوق ۲:‏۴ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا:‏ ”‏راست‌باز ایمان سے جیتا رہے گا۔‏“‏ (‏روم ۱:‏۱۶،‏ ۱۷؛‏ گل ۳:‏۱۱؛‏ عبر ۱۰:‏۳۸‏)‏ لیکن ”‏مسیح کی خوشخبری“‏ کا اِس حقیقت سے کیا تعلق ہے کہ ”‏سب نے گُناہ کِیا“‏؟‏

۱۰،‏ ۱۱.‏ کچھ لوگ رومیوں ۳:‏۲۳ میں درج بات کا مطلب کیوں سمجھتے ہیں جبکہ دوسرے اِس کا مطلب نہیں سمجھتے؟‏

۱۰ اِس سے پہلے کہ ایک شخص نجات حاصل کرنے کے لئے ایمان لائے،‏ اُسے اِس بات کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ وہ گُناہ‌گار ہے۔‏ یہ خیال شاید اُن لوگوں کو عجیب نہ لگے جو خدا کے وجود پر ایمان رکھتے ہیں اور بائبل کا تھوڑا بہت علم بھی رکھتے ہیں۔‏ ‏(‏واعظ ۷:‏۲۰ کو پڑھیں۔‏)‏ ایسے لوگ پولس رسول کی اِس بات کا مطلب کسی حد تک سمجھتے ہیں کہ ’‏سب نے گُناہ کِیا ہے،‏‘‏ چاہے وہ اِس بات سے متفق ہوں یا نہ ہوں۔‏ (‏روم ۳:‏۲۳‏)‏ لیکن مُنادی کے کام میں شاید ہم ایسے لوگوں سے بھی ملیں جن کو اِس بات کا مطلب بالکل سمجھ میں نہ آئے کہ ’‏سب نے گُناہ کِیا ہے۔‏‘‏ آئیں،‏ دیکھیں کہ اِس کی کیا وجہ ہے۔‏

۱۱ بعض ملکوں میں لوگ ایک ایسے ماحول میں پرورش پاتے ہیں جس میں اُنہیں یہ تعلیم نہیں دی جاتی کہ انسان پیدائش سے ہی گُناہ‌گار ہیں۔‏ ایسے لوگ اِس بات کو مانتے ہیں کہ اُن سے غلطیاں ہوتی ہیں،‏ اُن میں خامیاں ہیں اور اُنہوں نے زندگی میں کچھ بُرے کام کئے ہیں۔‏ وہ یہ بھی دیکھتے ہیں کہ دوسرے بھی غلطیاں کرتے ہیں۔‏ لیکن وہ یہ نہیں جانتے کہ ایسا کیوں ہوتا ہے۔‏ کئی قوموں میں اگر کسی شخص کے بارے میں کہا جائے کہ وہ گُناہ‌گار ہے تو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اُس شخص نے کوئی جُرم کِیا ہے یا اُس نے کوئی قانون توڑا ہے۔‏ ظاہر ہے کہ جو لوگ ایسے ماحول میں پرورش پاتے ہیں،‏ وہ یہ نہیں جانتے کہ اُنہوں نے گُناہ کو ورثے میں پایا ہے۔‏ اِس لئے وہ پولس رسول کی اِس بات کا مطلب نہیں سمجھتے کہ ’‏سب نے گُناہ کِیا ہے۔‏‘‏

۱۲.‏ بہت سے لوگ یہ کیوں نہیں مانتے کہ انسان پیدائش سے ہی گُناہ‌گار ہیں؟‏

۱۲ ایسے ملک جہاں زیادہ‌تر لوگ مسیحی مذہب سے تعلق رکھتے ہیں،‏ وہاں بھی بہت سے لوگ یہ نہیں مانتے کہ وہ پیدائش سے ہی گُناہ‌گار ہیں۔‏ اِس کی کیا وجہ ہے؟‏ جو لوگ کبھی‌کبھی چرچ جاتے ہیں،‏ اُن میں سے زیادہ‌تر کا خیال یہ ہے کہ بائبل میں آدم اور حوا کا واقعہ محض کہانی یا افسانہ ہے۔‏ بعض لوگ ایسے ماحول میں پرورش پاتے ہیں جس میں مذہب کو اہم نہیں سمجھا جاتا۔‏ اِس لئے وہ خدا کے وجود پر شک کرنے لگتے ہیں۔‏ وہ نہیں مانتے کہ ایک عظیم ہستی ہے جس نے صحیح اور غلط میں امتیاز کرنے کے لئے معیار قائم کئے ہیں۔‏ وہ یہ بھی نہیں مانتے کہ جو اِنسان اِن معیاروں پر پورا نہیں اُترتے،‏ وہ گُناہ کرتے ہیں۔‏ یہ لوگ پہلی صدی کے اُن لوگوں کی طرح ہیں جن کے بارے میں پولس رسول نے کہا تھا کہ وہ ’‏نااُمید اور خدا سے جُدا ہیں۔‏‘‏—‏افس ۲:‏۱۲‏۔‏

۱۳،‏ ۱۴.‏ (‏الف)‏ اُن لوگوں کے پاس کوئی عُذر کیوں نہیں ہے جو خدا کے وجود سے انکار کرتے ہیں اور یہ نہیں مانتے کہ تمام انسان گُناہ‌گار ہیں؟‏ (‏ب)‏ جو لوگ خالق کے وجود سے انکار کرتے ہیں،‏ اکثر وہ کونسے کام کرنے لگتے ہیں؟‏

۱۳ لیکن چاہے لوگوں نے کسی بھی ماحول میں پرورش پائی ہو،‏ سب کو یہ تسلیم کرنا چاہئے کہ خدا کا وجود ہے اور تمام انسان گُناہ‌گار ہیں۔‏ پولس رسول نے اِس کی ایک وجہ یہ بتائی کہ زمین اور آسمان میں پائی جانے والی چیزوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ اُن کا کوئی بنانے والا ہے۔‏ لہٰذا انسانوں کے پاس خدا کے وجود سے انکار کرنے کا کوئی عُذر نہیں ہے۔‏ ‏(‏رومیوں ۱:‏۱۹،‏ ۲۰ کو پڑھیں۔‏)‏ پولس رسول نے عبرانیوں کے نام اپنے خط میں لکھا:‏ ”‏چُنانچہ ہر ایک گھر کا کوئی نہ کوئی بنانے والا ہوتا ہے مگر جس نے سب چیزیں بنائیں وہ خدا ہے۔‏“‏ (‏عبر ۳:‏۴‏)‏ اِس آیت سے ہم یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ جس طرح ایک گھر کا کوئی بنانے والا ہوتا ہے اِسی طرح کائنات کو بھی کسی نے بنایا ہے۔‏

۱۴ اِس وجہ سے پولس رسول نے کہا کہ جو لوگ خالق کی بجائے بُتوں کی پوجا کرتے ہیں،‏ چاہے وہ کسی بھی قوم سے ہوں،‏ ”‏اُن کو کچھ عُذر باقی نہیں۔‏“‏ یہ اُن لوگوں کے بارے میں بھی سچ ہے جو خالق کے معیاروں کو نظرانداز کرتے ہوئے ہم‌جنس‌پرستی جیسے گندے کام کرتے ہیں۔‏ (‏روم ۱:‏۲۲-‏۲۷‏)‏ پولس رسول نے یہ نتیجہ اخذ کِیا کہ ’‏یہودی اور یونانی سب کے سب گُناہ کے ماتحت ہیں۔‏‘‏—‏روم ۳:‏۹‏۔‏

ضمیر کی آواز

۱۵.‏ خدا نے سب لوگوں کو کونسی نعمت عطا کی ہے اور لوگ اِس کی بدولت کیا کرنے کے قابل ہیں؟‏

۱۵ رومیوں کی کتاب میں پولس رسول نے ایک اَور وجہ بتائی جس کی بِنا پر لوگوں کو یہ تسلیم کرنا چاہئے کہ تمام انسان گُناہ‌گار ہیں اور اُنہیں نجات کی ضرورت ہے۔‏ پولس رسول نے کہا:‏ ”‏جنہوں نے شریعت کے ماتحت ہو کر گُناہ کِیا اُن کی سزا شریعت کے موافق ہوگی۔‏“‏ (‏روم ۲:‏۱۲‏)‏ اِس آیت میں پولس رسول اُس شریعت کے بارے میں بات کر رہے تھے جو خدا نے بنی‌اسرائیل کو دی تھی۔‏ پھر اُنہوں نے کہا کہ جن قوموں کے پاس یہ شریعت نہیں ہے،‏ وہ بھی ”‏اپنی طبیعت سے شریعت کے کام کرتی ہیں۔‏“‏ مثال کے طور پر ایسی قوموں میں بھی قتل،‏ چوری اور قریبی رشتہ‌داروں کے ساتھ جنسی تعلقات قائم کرنا غلط سمجھا جاتا ہے۔‏ ایسا کیوں ہے جبکہ اُن کے پاس خدا کی شریعت نہیں ہے؟‏ پولس رسول نے اِس کی وجہ یوں بتائی کہ اِن لوگوں کا دل یعنی ضمیر ایسے کاموں کو غلط قرار دیتا ہے۔‏ اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ خدا نے سب لوگوں کو ضمیر کی نعمت عطا کی ہے۔‏‏—‏رومیوں ۲:‏۱۴،‏ ۱۵ کو پڑھیں۔‏

۱۶.‏ حالانکہ لوگوں کا ضمیر ہوتا ہے لیکن پھر بھی وہ گُناہ کیوں کرتے ہیں؟‏

۱۶ حالانکہ سب لوگوں کا ضمیر ہوتا ہے جو اُن کو غلط کاموں سے آگاہ کرتا ہے لیکن آپ نے دیکھا ہوگا کہ بہت سے لوگ اپنے ضمیر کی آواز پر کان نہیں لگاتے۔‏ اِس سلسلے میں بنی‌اسرائیل کی مثال پر غور کریں۔‏ خدا نے اُن کو نہ صرف ضمیر کی نعمت عطا کی تھی بلکہ اُنہیں ایسے قانون بھی دئے تھے جن میں چوری اور زناکاری سے منع کِیا گیا تھا۔‏ اِس کے باوجود بنی‌اسرائیل نے باربار اپنے ضمیر کی آواز کو نظرانداز کِیا اور اِن قوانین کو توڑا۔‏ (‏روم ۲:‏۲۱-‏۲۳‏)‏ اِس وجہ سے وہ دو طرح سے خدا کے حضور گُناہ‌گار تھے۔‏ چونکہ وہ خدا کے معیاروں پر پورا نہیں اُترے اِس لئے وہ اپنے خالق سے دُور ہو گئے۔‏—‏احبا ۱۹:‏۱۱؛‏ ۲۰:‏۱۰؛‏ روم ۳:‏۲۰‏۔‏

۱۷.‏ رومیوں کی کتاب میں کونسی اُمید دی گئی ہے؟‏

۱۷ ہم نے ابھی تک رومیوں کی کتاب سے یہ سیکھا ہے کہ ہم سب خدا کی نظر میں گُناہ‌گار ہیں۔‏ یہ بڑی افسوس‌ناک صورتحال ہے۔‏ لیکن پولس رسول نے اپنے خط میں یہ اُمید دی کہ گُناہ سے نجات حاصل کرنا ممکن ہے۔‏ اُنہوں نے زبور ۳۲:‏۱،‏ ۲ کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا:‏ ”‏مبارک وہ ہیں جن کی بدکاریاں معاف ہوئیں اور جن کے گُناہ ڈھانکے گئے۔‏ مبارک وہ شخص ہے جس کے گُناہ [‏یہوواہ]‏ محسوب نہ کرے گا۔‏“‏ (‏روم ۴:‏۷،‏ ۸‏)‏ اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ خدا نے ایک ایسا بندوبست بنایا ہے جس کی بِنا پر وہ اپنے اصولوں کی خلاف‌ورزی کئے بغیر ہمارے گُناہ معاف کر سکتا ہے۔‏

مسیح کی خوشخبری پر توجہ دلائیں

۱۸،‏ ۱۹.‏ (‏الف)‏ پولس رسول نے رومیوں کی کتاب میں خوشخبری کے کس پہلو پر توجہ دلائی؟‏ (‏ب)‏ اگر ہم اُن برکات کو حاصل کرنا چاہتے ہیں جو خدا کی بادشاہت میں ملیں گی تو ہمیں کیا تسلیم کرنا پڑے گا؟‏

۱۸ جب لوگوں کو پتہ چلتا ہے کہ خدا نے انسانوں کے گُناہ معاف کرنے کا بندوبست کِیا ہے تو اکثر وہ کہتے ہیں:‏ ”‏یہ تو واقعی خوشخبری ہے!‏“‏ یہ سُن کر ہمیں خوشخبری کا وہ پہلو یاد آتا ہے جس پر پولس رسول نے رومیوں کی کتاب میں توجہ دلائی تھی۔‏ اُنہوں نے لکھا:‏ ”‏مَیں انجیل [‏یعنی خوشخبری]‏ سے شرماتا نہیں۔‏ اِس لئے کہ وہ ہر ایک ایمان لانے والے کے واسطے .‏ .‏ .‏ نجات کے لئے خدا کی قدرت ہے۔‏“‏—‏روم ۱:‏۱۵،‏ ۱۶‏۔‏

۱۹ پولس رسول جس خوشخبری پر توجہ دلا رہے تھے،‏ اِس کا تعلق یسوع مسیح سے تھا جنہوں نے یہوواہ خدا کے اِرادوں کو پورا کرنے میں مرکزی کردار ادا کِیا۔‏ پولس رسول نے کہا:‏ ”‏خدا میری خوشخبری کے مطابق یسوؔع مسیح کی معرفت آدمیوں کی پوشیدہ باتوں کا انصاف کرے گا۔‏“‏ (‏روم ۲:‏۱۶‏)‏ ”‏میری خوشخبری“‏ کا ذکر کرنے سے پولس رسول یہ نہیں کہنا چاہتے تھے کہ ”‏مسیح اور خدا کی بادشاہی“‏ کی اِتنی اہمیت نہیں ہے۔‏ (‏افس ۵:‏۵‏)‏ دراصل وہ یہ کہنا چاہتے تھے کہ اگر ہم اُن برکات کو حاصل کرنا چاہتے ہیں جو خدا کی بادشاہت میں ملیں گی تو ہمیں یہ دو باتیں تسلیم کرنی پڑیں گی:‏ (‏۱)‏ ہم سب خدا کی نظر میں گُناہ‌گار ہیں۔‏ (‏۲)‏ خدا تب ہی ہمارے گُناہ معاف کرے گا جب ہم یسوع مسیح پر ایمان رکھیں گے۔‏ جب ایک شخص اِن باتوں کو سمجھ جاتا ہے اور اِنہیں تسلیم کرتا ہے تو اُسے مستقبل کے لئے اُمید ملتی ہے۔‏ اِس طرح یہ باتیں اُس کے لئے واقعی خوشخبری ثابت ہوتی ہے۔‏

۲۰،‏ ۲۱.‏ (‏الف)‏ ہمیں مُنادی کے کام میں حصہ لیتے وقت مسیح کی خوشخبری کو ذہن میں کیوں رکھنا چاہئے؟‏ (‏ب)‏ اگر ہم دوسروں کو مسیح کی خوشخبری سنائیں گے تو اِس کا کیا نتیجہ ہوگا؟‏

۲۰ جب ہم مُنادی کے کام میں حصہ لیتے ہیں تو ہمیں خوشخبری کے اِس پہلو کو ذہن میں رکھنا چاہئے۔‏ پولس رسول نے یسعیاہ ۲۸:‏۱۶ کا حوالہ دیتے ہوئے یسوع مسیح کے بارے میں کہا:‏ ”‏جو کوئی اُس پر ایمان لائے گا وہ شرمندہ نہ ہوگا۔‏“‏ (‏روم ۱۰:‏۱۱‏)‏ جو لوگ بائبل کے بارے میں تھوڑا بہت علم رکھتے ہیں،‏ وہ کسی حد تک جانتے ہیں کہ یسوع مسیح انسانوں کو گُناہ سے نجات دلانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔‏ لیکن بعض قوموں کے لوگ بائبل کی تعلیمات کو نہیں جانتے اور اِس لئے اُنہیں یہ بات بالکل انوکھی لگتی ہے۔‏ جب ایسے لوگ خدا اور اُس کے کلام پر ایمان لاتے ہیں تو ہمیں اُن کو یہ بھی سمجھانا چاہئے کہ یسوع مسیح نے ہمیں نجات دلانے کے لئے کیا کردار ادا کِیا ہے۔‏ اگلے مضمون میں ہم دیکھیں گے کہ رومیوں ۵ باب میں خوشخبری کے اِس پہلو کے بارے میں اَور کیا کچھ کہا گیا ہے۔‏ یہ مضمون مُنادی کے کام میں آپ کے لئے بڑا فائدہ‌مند ثابت ہوگا۔‏

۲۱ رومیوں کی کتاب میں باربار اُس خوشخبری کا ذکر کِیا گیا ہے جو ’‏ایمان لانے والوں کے واسطے نجات کے لئے خدا کی قدرت ہے۔‏‘‏ (‏روم ۱:‏۱۶‏)‏ جب ہم خلوص‌دل لوگوں کی مدد کرتے ہیں کہ وہ اِس خوشخبری کو سمجھ جائیں تو ہمیں بڑی خوشی ملتی ہے۔‏ اور جب لوگ اِس خوشخبری کو قبول کرتے ہیں تو وہ پولس رسول کی طرح محسوس کرتے ہیں جنہوں نے رومیوں ۱۰:‏۱۵ میں کہا:‏ ”‏کیا ہی خوشنما ہیں اُن کے قدم جو اچھی چیزوں کی خوشخبری دیتے ہیں۔‏“‏—‏یسع ۵۲:‏۷‏۔‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 3 یونانی زبان میں انجیل اور خوشخبری کے لئے ایک ہی لفظ استعمال ہوا ہے۔‏

^ پیراگراف 5 بائبل کی دوسری کتابوں میں بھی مسیح کی خوشخبری کا ذکر ہوا ہے۔‏—‏مر ۱:‏۱؛‏ اعما ۵:‏۴۲؛‏ ۱-‏کر ۹:‏۱۲؛‏ فل ۱:‏۲۷‏۔‏

کیا آپ کو یاد ہے؟‏

‏• رومیوں کی کتاب میں کس خوشخبری پر توجہ دلائی گئی ہے؟‏

‏• ہمیں مُنادی کے کام میں لوگوں کو کونسی حقیقت سمجھنے میں مدد دینی چاہئے؟‏

‏• ”‏مسیح کی خوشخبری“‏ کس صورت میں ہمارے لئے اور دوسروں کے لئے برکات کا باعث بن سکتی ہے؟‏

‏[‏مطالعے کے سوالات]‏

‏[‏صفحہ ۱۲ پر عبارت]‏

رومیوں کی کتاب میں جس خوشخبری پر توجہ دلائی گئی ہے،‏ اِس کا تعلق یسوع مسیح سے تھا جنہوں نے یہوواہ خدا کے اِرادوں کو پورا کرنے میں مرکزی کردار ادا کِیا۔‏

‏[‏صفحہ ۱۳ پر تصویر]‏

ہم سب پیدائش سے ہی گُناہ‌گار ہیں۔‏