مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

کیا آپ خدا کے آرام میں داخل ہو گئے ہیں؟‏

کیا آپ خدا کے آرام میں داخل ہو گئے ہیں؟‏

کیا آپ خدا کے آرام میں داخل ہو گئے ہیں؟‏

‏”‏خدا کا کلام زندہ اور مؤثر .‏ .‏ .‏ ہے۔‏“‏—‏عبر ۴:‏۱۲‏۔‏

۱.‏ (‏الف)‏ ہم خدا کے آرام میں کیسے داخل ہو سکتے ہیں؟‏ (‏ب)‏ کبھی‌کبھی ہمیں یہوواہ خدا کا کہنا ماننا مشکل کیوں لگتا ہے؟‏

پچھلے مضمون میں ہم نے سیکھا تھا کہ خدا کے آرام میں داخل ہونے کے لئے ہمیں خدا کا کہنا ماننا ہوگا اور اُس کی تنظیم کے ساتھ تعاون کرنا ہوگا۔‏ جب ہم یہوواہ خدا کے فرمانبردار رہتے ہیں تو اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہم چاہتے ہیں کہ اُس کے ارادے پورے ہوں۔‏ لیکن کبھی‌کبھار ہمیں یہوواہ خدا کا کہنا ماننا مشکل لگتا ہے۔‏ مثال کے طور پر شاید ہم سیکھتے ہیں کہ یہوواہ خدا کو ایک ایسا کام پسند نہیں ہے جو ہمیں بہت پسند ہے۔‏ اِس صورت میں ہمیں یہ کام چھوڑنا مشکل لگ سکتا ہے۔‏ لیکن ہمیں ”‏تربیت‌پذیر“‏ ہونا چاہئے یعنی ہمیں یہ سیکھنا چاہئے کہ ہم ہر بات میں یہوواہ خدا کا کہنا مانیں۔‏ (‏یعقو ۳:‏۱۷‏)‏ اِس مضمون میں ہم کچھ ایسی صورتحال کے بارے میں بات کریں گے جن میں ہم ثابت کر سکتے ہیں کہ ہم دل سے خدا کے فرمانبردار ہیں۔‏

۲،‏ ۳.‏ یہوواہ خدا کو خوش کرنے کے لئے ہمیں زندگی بھر کیا کرنے کی ضرورت ہے؟‏

۲ جب آپ کو بائبل سے پتہ چلتا ہے کہ آپ کو اپنی زندگی میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے تو آپ کیا کرتے ہیں؟‏ کیا آپ یہوواہ خدا کا کہنا ماننے کے لئے تیار ہوتے ہیں؟‏ یاد رکھیں کہ یہوواہ خدا ’‏سب قوموں کی مرغوب چیزوں‘‏ کو اپنی تنظیم میں شامل ہونے کی دعوت دیتا ہے۔‏ (‏حج ۲:‏۷‏)‏ جو لوگ سچائی سے محبت رکھتے ہیں،‏ وہ یہوواہ خدا کے لئے مرغوب ہیں یعنی خدا اُنہیں بہت پسند کرتا ہے۔‏ سچ ہے کہ بائبل کا مطالعہ کرنے سے پہلے ہم سب نے غلط کام کئے تھے۔‏ لیکن پھر جب ہم نے بائبل کا مطالعہ شروع کِیا تو ہمارے دل میں یہوواہ خدا اور یسوع مسیح کے لئے محبت پیدا ہو گئی۔‏ ہم یہوواہ خدا کو خوش کرنے کے لئے اپنی زندگی میں بڑی سے بڑی تبدیلی لانے کو تیار تھے۔‏ ہم نے یہوواہ خدا سے دُعا کی کہ وہ ہماری مدد کرے اور پھر ہم نے اپنے طور طریقے بدلنے کی کوشش کی۔‏ آخرکار ہماری محنت رنگ لائی اور ہم بپتسمہ لے سکے۔‏ اِس طرح ہمیں یہوواہ خدا کی خوشنودی حاصل ہوئی۔‏‏—‏کلسیوں ۱:‏۹،‏ ۱۰ کو پڑھیں۔‏

۳ لیکن بپتسمہ لینے کے بعد بھی ہم میں کمزوریاں اور خامیاں رہتی ہیں۔‏ اِس لئے ہمیں بعد میں بھی اپنی زندگی میں تبدیلیاں لانے کی ضرورت ہوتی ہے۔‏ یہوواہ خدا نے وعدہ کِیا ہے کہ وہ ایسا کرنے میں ہماری مدد کرے گا بشرطیکہ ہم اُس کو خوش کرنے کی ہر ممکن کوشش کریں۔‏

کیا ہم اصلاح کو قبول کریں گے؟‏

۴.‏ اگر ہم میں کوئی خامی ہے تو یہوواہ خدا کن تین طریقوں سے ہماری رہنمائی کرتا ہے؟‏

۴ ہمیں کیسے پتہ چلتا ہے کہ ہمیں کن معاملوں میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے؟‏ اگر ہماری سوچ یا ہمارے کاموں میں کوئی خامی ہے تو یہوواہ خدا تین طریقوں سے ہماری رہنمائی کرتا ہے۔‏ وہ کلیسیا میں دی جانے والی کسی تقریر کے ذریعے یا ہمارے رسالوں میں کسی مضمون کے ذریعے ہمیں اِس خامی سے آگاہ کرتا ہے۔‏ کبھی‌کبھار ہمیں تقریر کو سننے کے بعد یا پھر مضمون کو پڑھنے کے بعد بھی یہ نہیں لگتا کہ ہمیں خود میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔‏ اِس صورت میں یہوواہ خدا کلیسیا کے کسی بھائی یا بہن کے ذریعے ہماری اصلاح کرتا ہے۔‏‏—‏گلتیوں ۶:‏۱ کو پڑھیں۔‏

۵.‏ (‏الف)‏ جب کوئی ہماری اصلاح کرتا ہے تو کبھی‌کبھی ہم کیا کرتے ہیں؟‏ (‏ب)‏ یہ کیوں اہم ہے کہ بزرگ بہن‌بھائیوں کی اصلاح کریں؟‏

۵ اگر کوئی انسان ہماری اصلاح کرتا ہے تو اِسے قبول کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔‏ یہ اُس وقت بھی مشکل ہوتا ہے جب اُس نے بڑی نرمی سے ہم سے بات کی ہو۔‏ لیکن یاد رکھیں کہ یہوواہ خدا ہی نے بزرگوں کو حکم دیا ہے کہ وہ ہمیں ”‏حلم‌مزاجی سے بحال“‏ کریں یعنی اگر اُن کو ہم میں کوئی خامی نظر آئے تو وہ نرمی سے ہماری اصلاح کریں۔‏ (‏گل ۶:‏۱‏)‏ اگر ہم اصلاح کو قبول کریں گے تو ہم یہوواہ خدا کے لئے اَور بھی زیادہ ”‏مرغوب“‏ ہوں گے۔‏ یہ سچ ہے کہ ہم اپنی دُعاؤں میں تو اکثر اِس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ ہم گُناہ‌گار ہیں اور بہت سی غلطیاں کرتے ہیں۔‏ لیکن جب کوئی بزرگ ہم سے کہتا ہے کہ ”‏آپ نے فلاں غلطی کی ہے“‏ تو پھر شاید ہمیں اپنی غلطی کو تسلیم کرنا مشکل لگے۔‏ ایسی صورت میں شاید ہم اپنی صفائیاں پیش کرنے لگیں یا پھر کہیں کہ ”‏مَیں نے اِتنی بھی بڑی غلطی نہیں کی۔‏“‏ ہو سکتا ہے کہ ہم سوچیں کہ ”‏یہ بزرگ تو مجھے ویسے بھی پسند نہیں کرتے“‏ یا پھر یہ کہ ”‏اُنہوں نے میرے ساتھ بڑی سختی سے بات کی۔‏“‏ (‏۲-‏سلا ۵:‏۱۱‏)‏ ہو سکتا ہے کہ بزرگ ہم سے کوئی ایسی بات کہیں جو ہمیں بہت ہی بُری لگے۔‏ مثال کے طور پر شاید وہ ہماری توجہ اِس بات پر دلائیں کہ ہمارے گھر کا کوئی فرد غلط کام کر رہا ہے یا یہ کہ ہم جس طرح کے کپڑے پہنتے ہیں،‏ وہ مسیحیوں کے لئے مناسب نہیں ہے۔‏ شاید وہ ہمیں صاف‌ستھرا رہنے کے بارے میں مشورہ دیں۔‏ یا پھر شاید وہ ہمیں اِس بات سے آگاہ کریں کہ یہوواہ خدا کو ہماری پسندیدہ تفریح سے نفرت ہے۔‏ اگر بزرگ ہم سے کوئی ایسی بات کہتے ہیں تو شاید ہم غصے میں آکر کچھ ایسا کہہ دیں جس سے اُن کو دُکھ ہو اور ہمیں بھی شرمندگی ہو۔‏ پھر جب ہمارا غصہ ٹھنڈا ہو جاتا ہے تو شاید ہم اِس بات کو تسلیم کریں کہ بزرگ نے جو کچھ کہا تھا،‏ وہ ہمارے بھلے کے لئے تھا۔‏

۶.‏ خدا کا کلام ’‏دل کے خیالوں اور اِرادوں کو کیسے جانچتا ہے‘‏؟‏

۶ اِس مضمون کی مرکزی آیت میں بتایا گیا ہے کہ ’‏خدا کا کلام مؤثر ہے۔‏‘‏ اِس کا مطلب ہے کہ خدا کا کلام لوگوں کے دلوں پر اثر کرتا ہے تاکہ وہ اپنی زندگی میں تبدیلیاں لائیں۔‏ بائبل کو پڑھنے سے ہم نہ صرف بپتسمہ لینے سے پہلے بلکہ اِس کے بعد بھی اپنے طور طریقوں کو بدلنے میں کامیاب رہے ہیں۔‏ پولس رسول نے عبرانیوں ۴:‏۱۲ میں یہ بھی کہا کہ ”‏خدا کا کلام .‏ .‏ .‏ دل کے خیالوں اور اِرادوں کو جانچتا ہے۔‏“‏ آئیں،‏ دیکھیں کہ اِس کا کیا مطلب ہے۔‏ جب ہم بائبل کو پڑھتے ہیں اور سمجھ جاتے ہیں کہ خدا ہم سے کیا چاہتا ہے تو اِس پر ہمارا ردِعمل کیا ہوتا ہے؟‏ پولس رسول یہ کہہ رہے تھے کہ ہمارے ردِعمل سے ظاہر ہوگا کہ ہم دراصل کس طرح کے انسان ہیں۔‏ کیا بعض اوقات ہم دوسروں کی نظر میں تو کچھ اَور ہوتے ہیں جبکہ دل میں کچھ اَور؟‏ ‏(‏متی ۲۳:‏۲۷،‏ ۲۸ کو پڑھیں۔‏)‏ اب ہم مختلف صورتحال پر غور کریں گے۔‏ خود سے پوچھیں کہ ”‏اِن صورتحال میں میرا کیا ردِعمل ہوگا؟‏“‏

کیا ہم خدا کی تنظیم کے ساتھ‌ساتھ چلتے رہیں گے؟‏

۷،‏ ۸.‏ (‏الف)‏ بعض مسیحی موسیٰ کی شریعت کے کچھ قوانین پر کیوں عمل کرنا چاہتے تھے؟‏ (‏ب)‏ ہم کیسے جانتے ہیں کہ یہ مسیحی یہوواہ خدا کی مرضی کے خلاف کام کر رہے تھے؟‏

۷ بہت سے بہن‌بھائیوں کو امثال ۴:‏۱۸ زبانی یاد ہے جس میں لکھا ہے کہ ”‏صادقوں کی راہ نورِسحر کی مانند ہے جس کی روشنی دوپہر تک بڑھتی ہی جاتی ہے۔‏“‏ اِس کا مطلب ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ‌ساتھ اِس بارے میں ہماری سمجھ بڑھتی ہے کہ یہوواہ خدا مسیحیوں سے کیا چاہتا ہے اور مسیحی خدا کی خدمت کرنے میں بہتری کیسے لا سکتے ہیں۔‏

۸ پچھلے مضمون میں ہم نے سیکھا تھا کہ بہت سے مسیحی جو یہودی قوم سے تعلق رکھتے تھے،‏ وہ یسوع مسیح کی موت کے بعد بھی موسیٰ کی شریعت کی پابندی کرتے تھے۔‏ (‏اعما ۲۱:‏۲۰‏)‏ لیکن اب یہوواہ خدا کی مرضی یہ تھی کہ مسیحی،‏ شریعت پر عمل نہ کریں۔‏ پولس رسول نے مسیحیوں کو یہ بات صاف‌صاف بتا دی تھی۔‏ اِس کے باوجود بعض مسیحی پولس رسول کی با ت کو ماننے کے لئے تیار نہیں تھے۔‏ (‏کل ۲:‏۱۳-‏۱۵‏)‏ شاید اِن مسیحیوں نے سوچا ہو کہ موسیٰ کی شریعت کے کچھ قوانین پر عمل کرنے سے وہ اُس اذیت سے بچ جائیں گے جو یہودی لوگ مسیحیوں پر ڈھا رہے تھے۔‏ لیکن پولس رسول نے اُن پر واضح کر دیا تھا کہ اگر وہ خدا کی مرضی کے خلاف کام کرتے رہیں گے تو وہ خدا کے آرام میں داخل نہیں ہو سکیں گے۔‏ * (‏عبر ۴:‏۱،‏ ۲،‏ ۶؛‏ عبرانیوں ۴:‏۱۱ کو پڑھیں۔‏‏)‏ خدا کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے اِن مسیحیوں کو یہ بات تسلیم کرنی تھی کہ اب اُنہیں موسیٰ کی شریعت پر عمل کرنے ضرورت نہیں رہی۔‏

۹.‏ جب دیانت‌دار اور عقل‌مند نوکر جماعت بائبل کی کسی تعلیم کے متعلق یہوواہ کے گواہوں کی سمجھ میں تبدیلی لاتی ہے تو ہمارا ردِعمل کیا ہونا چاہئے؟‏

۹ آج‌کل بھی بعض اوقات بائبل میں سے کسی تعلیم کے بارے میں یہوواہ کے گواہوں کی سمجھ میں تبدیلی آتی ہے۔‏ جب ایسا ہوتا ہے تو ہمیں شکرگزار ہونا چاہئے کہ سچائی کے بارے میں ہماری سمجھ بڑھ رہی ہے۔‏ دراصل اِن تبدیلیوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہوواہ خدا دیانت‌دار اور عقل‌مند نوکر جماعت کے ذریعے ہماری رہنمائی کر رہا ہے۔‏ دیانت‌دار اور عقل‌مند نوکر جماعت کی نمائندگی گورننگ باڈی کرتی ہے۔‏ وقتاًفوقتاً گورننگ باڈی اِس بات پر سوچ‌بچار کرتی ہے کہ آیا بائبل کی کسی تعلیم کے متعلق یہوواہ کے گواہوں کی سمجھ درست ہے یا نہیں۔‏ اگر اُن کو اندازہ ہوتا ہے کہ ہماری سمجھ میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے تو وہ ایسا کرنے سے ہچکچاتے نہیں۔‏ وہ جانتے ہیں کہ اِس وجہ سے لوگ دیانت‌دار اور عقل‌مند نوکر جماعت کی تنقید کریں گے لیکن وہ اِس کی پرواہ نہیں کرتے۔‏ اُن کی نظر میں زیادہ اہم یہ ہے کہ وہ خدا کی مرضی کے مطابق کام کریں۔‏ خود سے پوچھیں:‏ ”‏جب دیانت‌دار اور عقل‌مند نوکر جماعت بائبل کی کسی تعلیم کے متعلق ہماری سمجھ میں تبدیلی لاتی ہے تو میرا ردِعمل کیا ہوتا ہے؟‏“‏‏—‏لوقا ۵:‏۳۹ کو پڑھیں۔‏

۱۰،‏ ۱۱.‏ (‏الف)‏ جب یہوواہ خدا کے خادموں کو گھرگھر جا کر خوشخبری سنانے کو کہا گیا تو اُن میں سے بعض نے کیا ردِعمل دکھایا؟‏ (‏ب)‏ ہم اِن مسیحیوں کی مثال سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟‏

۱۰ دیانت‌دار اور عقل‌مند نوکر جماعت ہمیں یہ بھی بتاتی ہے کہ ہم خدا کی خدمت کرنے کے طریقوں میں بہتری کیسے لا سکتے ہیں۔‏ اِس پر ہمارا ردِعمل کیا ہوتا ہے؟‏ آئیں،‏ اِس سلسلے میں ایک مثال پر غور کریں۔‏ تقریباً ۱۰۰ سال پہلے کی بات ہے کہ یہوواہ خدا کے بعض خادموں کا خیال تھا کہ تقریریں پیش کرنا خوشخبری سنانے کا بہترین طریقہ ہے۔‏ اُن کی تقریریں بڑی زوردار اور بااثر ہوتی تھیں۔‏ اُنہیں بڑے مجمع کے سامنے کھڑے ہو کر تقریریں دینا اچھا لگتا تھا اور جب لوگ اُن کی تعریف کرتے تھے تو وہ خوشی سے پھولے نہیں سماتے تھے۔‏ لیکن بعد میں یہوواہ خدا کے خادم یہ سمجھ گئے کہ خوشخبری سنانے کے لئے محض تقریریں دینا کافی نہیں۔‏ یہوواہ خدا چاہتا ہے کہ اُس کے خادم گھرگھر جا کر اور جہاں کہیں لوگ ملیں،‏ خوشخبری سنائیں۔‏ لیکن بعض بھائی جو بڑی مہارت سے تقریریں پیش کرتے تھے،‏ اُن کو یہ بات بالکل اچھی نہیں لگی۔‏ اُن کی تقریروں سے تو لگتا تھا کہ وہ یہوواہ خدا سے محبت رکھتے ہیں اور اُس کے فرمانبردار ہیں۔‏ لیکن اِس صورتحال میں اُنہوں نے جو ردِعمل دکھایا،‏ اِس سے ظاہر ہوا کہ وہ دل سے خدا کے فرمانبردار نہیں تھے۔‏ ہم جانتے ہیں کہ یہوواہ خدا اُن سے خوش نہیں تھا۔‏ آخرکار اُنہوں نے یہوواہ خدا کی تنظیم کو چھوڑ دیا۔‏—‏متی ۱۰:‏۱-‏۶؛‏ اعما ۵:‏۴۲؛‏ ۲۰:‏۲۰‏۔‏

۱۱ اُس زمانے میں یہوواہ خدا کے باقی خادموں کو بھی گھرگھر جا کر خوشخبری سنانا مشکل لگتا تھا۔‏ لیکن وہ خدا اور اُس کی تنظیم کے وفادار رہے۔‏ وقت گزرنے کے ساتھ‌ساتھ اُن کو گھرگھر خوشخبری سنانا قدراً آسان لگنے لگا۔‏ چونکہ اُنہوں نے یہوواہ خدا کا کہنا مانا اِس لئے یہوواہ خدا نے اُن کو بہت برکت دی۔‏ جب دیانت‌دار اور عقل‌مند نوکر جماعت مُنادی کرنے کے سلسلے میں ہمیں کوئی نیا طریقہ آزمانے کو کہتی ہے تو ہمارا ردِعمل کیا ہوتا ہے؟‏ کیا ہم تب بھی اُن کا کہنا مانتے ہیں جب ہمیں یہ طریقہ اپنانا مشکل لگتا ہے؟‏

کیا ہم خارج‌شُدہ رشتہ‌داروں کے ساتھ میل‌جول رکھیں گے؟‏

۱۲،‏ ۱۳.‏ (‏الف)‏ یہوواہ خدا نے یہ کیوں کہا کہ ”‏شریر آدمی کو اپنے درمیان سے نکال دو“‏؟‏ (‏ب)‏ مسیحی والدین کے لئے کونسی صورتحال مشکل ہو سکتی ہے؟‏

۱۲ یہوواہ خدا کا حکم ہے کہ مسیحیوں کو خود کو ہر لحاظ سے پاک‌صاف رکھنا چاہئے۔‏ ‏(‏ططس ۲:‏۱۴ کو پڑھیں۔‏)‏ اِس حکم پر عمل کرنے سے ہم یہوواہ خدا کی خوشنودی حاصل کر سکتے ہیں۔‏ لیکن ہو سکتا ہے کہ بعض صورتحال میں ہمیں اِس حکم پر عمل کرنا مشکل لگے۔‏ فرض کریں کہ ایک میاں‌بیوی کا ایک ہی بیٹا ہے اور وہ تینوں یہوواہ کے گواہ ہیں۔‏ لیکن پھر اُن کا بیٹا ”‏گُناہ کا چند روزہ لطف اُٹھانے“‏ کی خاطر یہوواہ خدا اور اپنے والدین سے تعلق توڑ دینے کو تیار ہو جاتا ہے۔‏ اُسے کلیسیا سے خارج کر دیا جاتا ہے۔‏—‏عبر ۱۱:‏۲۵‏۔‏

۱۳ ذرا سوچیں کہ اُس کے والدین پر کیا گزرتی ہے؟‏ وہ جانتے ہیں کہ بائبل میں لکھا ہے کہ ”‏اگر کوئی بھائی کہلا کر حرام‌کار یا لالچی یا بُت‌پرست یا گالی دینے والا یا شرابی یا ظالم ہو تو اُس سے صحبت نہ رکھو بلکہ ایسے کے ساتھ کھانا تک نہ کھانا۔‏“‏ بائبل میں یہ بھی لکھا ہے کہ ”‏شریر آدمی کو اپنے درمیان سے نکال دو۔‏“‏ (‏۱-‏کر ۵:‏۱۱،‏ ۱۳‏)‏ وہ یہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ ۱-‏کرنتھیوں ۵:‏۱۳ میں اصطلاح ”‏کوئی بھائی“‏ کا اشارہ اُن رشتہ‌داروں کی طرف بھی ہے جو ہمارے ساتھ ایک ہی گھر میں نہیں رہتے۔‏ اُن کا بیٹا گھر چھوڑ کر چلا گیا ہے۔‏ چونکہ اُنہیں اپنے بیٹے سے بہت محبت ہے اِس لئے شاید وہ سوچیں کہ ”‏ہم اپنے بیٹے سے جتنی زیادہ بات‌چیت کریں گے،‏ اُتنی ہی ہم اُس کی مدد کر سکیں گے۔‏“‏ *

۱۴،‏ ۱۵.‏ جب مسیحی والدین کو فیصلہ کرنا پڑتا ہے کہ وہ اپنے خارج‌شُدہ بچے کے ساتھ کیسے پیش آئیں گے تو اُنہیں کیا یاد رکھنا چاہئے؟‏

۱۴ ہم اِن والدین کے احساسات کو اچھی طرح سے سمجھ سکتے ہیں۔‏ اگر اُن کا بیٹا چاہتا تو وہ اپنے چال‌چلن میں تبدیلی لا سکتا تھا۔‏ وہ جانتا تھا کہ اگر وہ اپنے طور طریقے نہیں بدلے گا تو اُسے کلیسیا سے خارج کر دیا جائے گا۔‏ لیکن اُسے اپنے ماں‌باپ اور کلیسیا کا اِتنا احساس نہیں تھا کہ وہ اُن کی خاطر اپنے بُرے چال‌چلن کو چھوڑ دیتا۔‏ اِس میں والدین کی غلطی نہیں۔‏ وہ تو اپنے بیٹے کی مدد کرنا چاہتے تھے لیکن اُن کا بیٹا اپنی من‌مانی کرنے پر تلا ہوا تھا۔‏

۱۵ جب اِن والدین کا بیٹا کلیسیا سے خارج ہو جاتا ہے تو اُن کو یہ فیصلہ کرنا پڑے گا کہ آیا وہ یہوواہ خدا کے فرمانبردار رہیں گے یا نہیں؟‏ ہو سکتا ہے کہ اُنہیں کچھ خاندانی معاملوں کو نمٹانے کے لئے کبھی‌کبھار اپنے بیٹے سے بات کرنی پڑے۔‏ لیکن کیا وہ اپنے بیٹے سے بات‌چیت کرنے کے بہانے ڈھونڈیں گے؟‏ جب وہ یہ فیصلہ کریں گے کہ آگے کو وہ اپنے بیٹے کے ساتھ کیسے پیش آئیں گے تو اُنہیں یاد رکھنا چاہئے کہ اِس سلسلے میں یہوواہ خدا کا کیا حکم ہے۔‏ یہوواہ خدا چاہتا ہے کہ اُس کے خادم ہر لحاظ سے پاک‌صاف ہوں اور اِس لئے اُس نے یہ حکم دیا ہے:‏ ”‏شریر آدمی کو اپنے درمیان سے نکال دو“‏ یعنی اُسے کلیسیا سے خارج کر دو۔‏ یہوواہ خدا یہ بھی چاہتا ہے کہ خارج‌شُدہ شخص کو اپنی غلطی کا احساس ہو اور وہ اپنے چال‌چلن میں تبدیلیاں لا کر دوبارہ سے کلیسیا کا رُکن بن جائے۔‏ مسیحی والدین کیسے ظاہر کر سکتے ہیں کہ وہ اِس معاملے میں یہوواہ خدا جیسی سوچ رکھتے ہیں؟‏

۱۶،‏ ۱۷.‏ ہارون جس صورتحال سے گزرے،‏ اِس سے ہم کیا سیکھ سکتے ہیں؟‏

۱۶ موسیٰ کے بھائی ہارون کو بھی اِس طرح کی مشکل صورتحال سے گزرنا پڑا۔‏ اُن کے بیٹوں،‏ ندب اور ابیہو نے ایک ایسی قربانی گزرانی جس کا حکم یہوواہ خدا نے نہیں دیا تھا۔‏ اِس پر یہوواہ خدا کی طرف سے آگ نازل ہوئی اور وہ دونوں بھسم ہو گئے۔‏ یہ دیکھ کر ہارون کو بڑا دُکھ ہوا ہوگا۔‏ ہارون کے بیٹے مر چکے تھے اِس لئے اُن کے لئے اپنے بیٹوں سے بات کرنا ممکن نہیں رہا تھا۔‏ البتہ ہارون کی صورتحال ایک اَور لحاظ سے بھی مشکل تھی۔‏ یہوواہ خدا نے ہارون اور اُن کے دوسرے بیٹوں کو یہ حکم دیا:‏ ”‏نہ تمہارے سر کے بال بکھرنے پائیں اور نہ تُم اپنے کپڑے پھاڑنا تاکہ نہ تُم ہی مرو اور نہ ساری جماعت پر [‏یہوواہ]‏ کا غضب نازل ہو۔‏“‏ (‏احبا ۱۰:‏۱-‏۶‏)‏ یہوواہ خدا نے اُنہیں ندب اور ابیہو کے لئے ماتم کرنے سے منع کِیا۔‏ اِس واقعے سے ہم یہ سیکھتے ہیں کہ جب محبت کی بات آتی ہے تو ہمیں اپنے رشتہ‌داروں سے اِتنی محبت نہیں رکھنی چاہئے جتنی کہ یہوواہ خدا سے۔‏ یہ خاص طور پر خارج‌شُدہ رشتہ‌داروں کے سلسلے میں سچ ہے۔‏

۱۷ آج‌کل جب کوئی یہوواہ کا گواہ غلط کام کرتا ہے تو یہوواہ خدا اُسے فوراً ہلاک نہیں کرتا۔‏ وہ اُس شخص کو اپنی بُری روش سے باز آنے کا موقع دیتا ہے۔‏ اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہوواہ خدا کو اپنے خادموں سے بڑی محبت ہے۔‏ لیکن جب والدین یہوواہ خدا کے حکم کو نظرانداز کرتے ہوئے اپنے خارج‌شُدہ بیٹے یا بیٹی سے میل‌جول رکھتے ہیں تو آپ کے خیال میں یہوواہ خدا کیسا محسوس کرتا ہے؟‏

۱۸،‏ ۱۹.‏ جب یہوواہ کے گواہ اپنے خارج‌شُدہ رشتہ‌داروں کے سلسلے میں خدا کے فرمانبردار رہتے ہیں تو اِس کے کونسے نتائج ہو سکتے ہیں؟‏

۱۸ بعض خارج‌شُدہ اشخاص کچھ عرصے کے بعد کلیسیا میں واپس لوٹ آتے ہیں۔‏ اِن میں سے بہت سے بہن‌بھائی کہتے ہیں کہ وہ اِس لئے کلیسیا میں واپس لوٹ آئے کیونکہ اُن کے رشتہ‌دار اور دوست یہوواہ خدا کے فرمانبردار رہے اور اُن سے بات نہیں کی۔‏ مثال کے طور پر ایک بہن نے بزرگوں سے کہا:‏ ”‏مَیں نے اِس لئے بھی اپنے طورطریقے بدلے کیونکہ میرے بھائی نے یہوواہ خدا کا حکم مانا اور مجھ سے میل‌جول رکھنا چھوڑ دیا۔‏“‏ چونکہ اِس بہن کا بھائی یہوواہ خدا کا فرمانبردار رہا اِس لئے اِس بہن کے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ وہ کلیسیا میں لوٹ آئے۔‏

۱۹ اِس سے ہم کیا سیکھتے ہیں؟‏ ہمیں ہمیشہ یہوواہ خدا کا کہنا ماننا چاہئے۔‏ سچ ہے کہ کبھی‌کبھار ہمیں ایسا کرنا مشکل لگتا ہے کیونکہ ہم گُناہ کی طرف مائل ہیں۔‏ لیکن ہمیں اِس بات پر پورا یقین رکھنا چاہئے کہ یہوواہ خدا جو بھی حکم دیتا ہے،‏ اُس کو ماننے میں ہمارا ہی بھلا ہے۔‏

‏’‏خدا کا کلام زندہ ہے‘‏

۲۰.‏ عبرانیوں ۴:‏۱۲ میں اصطلاح ”‏خدا کا کلام“‏ کس کی طرف اشارہ کرتی ہے؟‏ (‏فٹ‌نوٹ کو بھی دیکھیں۔‏)‏

۲۰ جب پولس رسول نے لکھا کہ ’‏خدا کا کلام زندہ ہے‘‏ تو وہ بائبل کے بارے میں بات نہیں کر رہے تھے۔‏ * (‏عبر ۴:‏۱۲‏)‏ عبرانیوں ۴ باب کی دیگر آیتوں سے پتہ چلتا ہے کہ پولس رسول دراصل خدا کے وعدوں کے بارے میں بات کر رہے تھے۔‏ وہ یہ واضح کر رہے تھے کہ خدا ہمیشہ اپنے وعدے پورے کرتا ہے۔‏ یسعیاہ ۵۵:‏۱۱ میں یہوواہ خدا نے کہا:‏ ”‏میرا کلام .‏ .‏ .‏ بےانجام میرے پاس واپس نہ آئے گا بلکہ .‏ .‏ .‏ اُس کام میں جس کے لئے مَیں نے اُسے بھیجا مؤثر ہوگا۔‏“‏ کبھی‌کبھار ہمیں لگتا ہے کہ یہوواہ خدا اپنے وعدے پورے کرنے میں دیر کر رہا ہے۔‏ لیکن ہمیں صبر سے کام لینا چاہئے۔‏ اِس بات میں کوئی شک نہیں کہ یہوواہ خدا زمین کے لئے اپنے ارادوں کو پورا کرنے کے لئے کام کر رہا ہے اور وہ اپنے ارادوں کو ضرور پورا کرے گا۔‏—‏یوح ۵:‏۱۷‏۔‏

۲۱.‏ عبرانیوں ۴:‏۱۲ پر غور کرنے سے عمررسیدہ مسیحیوں کا حوصلہ کیوں بڑھتا ہے؟‏

۲۱ ‏”‏بڑی بِھیڑ“‏ میں بہت سے ایسے مسیحی شامل ہیں جو بڑے عرصے سے یہوواہ خدا کی خدمت کر رہے ہیں۔‏ (‏مکا ۷:‏۹‏)‏ اُن کا خیال تھا کہ اِس سے پہلے کہ وہ بوڑھے ہوں گے،‏ نئی دُنیا آ چکی ہو گی۔‏ لیکن ایسا نہیں ہوا۔‏ اِس کے باوجود وہ دل‌وجان سے یہوواہ خدا کی خدمت کر رہے ہیں۔‏ (‏زبور ۹۲:‏۱۴‏)‏ اُنہیں معلوم ہے کہ ’‏خدا کا کلام زندہ ہے‘‏ اور اُنہیں یقین ہے کہ یہوواہ خدا اپنے وعدوں کو ضرور پورا کرے گا۔‏ (‏عبر ۴:‏۱۲‏)‏ وہ جانتے ہیں کہ یہوواہ خدا زمین اور انسانوں کے لئے اپنے ارادوں کو پورا کرنے کے لئے ابھی بھی کام کر رہا ہے۔‏ یہوواہ خدا کے نزدیک اُس کے ارادے بہت اہم ہیں۔‏ جب ہمارے کاموں سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہم بھی اُس کے ارادوں کو اہم خیال کرتے ہیں تو وہ بہت خوش ہوتا ہے۔‏ جیسا کہ ہم نے پچھلے مضمون میں دیکھا،‏ خدا کے آرام کا دن یعنی ساتواں دن ابھی ختم نہیں ہوا ہے۔‏ اِس دن کے دوران یہوواہ خدا زمین کے لئے اپنے ارادے کو ضرور پورا کرے گا۔‏ کوئی اُسے ایسا کرنے سے روک نہیں سکتا۔‏ یہوواہ خدا جانتا ہے کہ اُس کے خادم مجموعی طور پر اُس کی مرضی پر عمل کریں گے۔‏ کیا آپ بھی خدا کی مرضی پر عمل کر رہے ہیں؟‏ کیا آپ بھی خدا کے آرام میں داخل ہو گئے ہیں؟‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 8 یہودیوں کے بہت سے مذہبی پیشوا موسیٰ کی شریعت کے چھوٹے سے چھوٹے حکم پر عمل کرنے کی کوشش کرتے تھے۔‏ لیکن جب یسوع زمین پر آئے تو اِن پیشواؤں نے اِس بات کو تسلیم نہیں کِیا کہ وہ خدا کے بھیجے ہوئے مسیح ہیں۔‏ اِس طرح اِن پیشواؤں نے خدا کی مرضی کے خلاف کام کِیا۔‏

^ پیراگراف 20 آج‌کل خدا بائبل کے ذریعے ہم سے بات کرتا ہے۔‏ بائبل لوگوں کے دلوں پر اثر کرتی ہے جس کی وجہ سے وہ اپنی زندگی میں تبدیلیاں لاتے ہیں۔‏ لہٰذا جو بات عبرانیوں ۴:‏۱۲ میں لکھی ہے،‏ یہ بائبل کے سلسلے میں بھی سچ ہے۔‏

کیا آپ کو یاد ہے؟‏

‏• ہمیں خدا کے آرام میں داخل ہونے کے لئے کیا کرنا ہوگا؟‏

‏• جب بائبل سے ہماری اصلاح کی جاتی ہے تو ہم خدا کو کیسے خوش کر سکتے ہیں؟‏

‏• ہمارے لئے کن صورتحال میں خدا کا کہنا ماننا مشکل ہو سکتا ہے؟‏ لیکن یہ کیوں اہم ہے کہ ہم ہمیشہ یہوواہ خدا کا کہنا مانیں؟‏

‏• عبرانیوں ۴:‏۱۲ میں اصطلاح ”‏خدا کا کلام“‏ کس کی طرف اشارہ کرتی ہے؟‏

‏[‏مطالعے کے سوالات]‏

‏[‏صفحہ ۳۱ پر تصویر]‏

اِن ماں‌باپ کا دل ٹوٹ گیا ہے!‏