مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

کیا یہوواہ خدا آپ کو اپنا سمجھتا ہے؟‏

کیا یہوواہ خدا آپ کو اپنا سمجھتا ہے؟‏

کیا یہوواہ خدا آپ کو اپنا سمجھتا ہے؟‏

‏”‏[‏یہوواہ]‏ اپنوں کو پہچانتا ہے۔‏“‏—‏۲-‏تیم ۲:‏۱۹‏۔‏

۱،‏ ۲.‏ (‏الف)‏ یسوع مسیح کیا حاصل کرنا چاہتے تھے؟‏ (‏ب)‏ ہمیں خود سے کونسے سوال پوچھنے چاہئیں؟‏

ایک مرتبہ ایک فریسی نے یسوع مسیح سے پوچھا:‏ ”‏اَے اُستاد توریت میں کونسا حکم بڑا ہے؟‏“‏ یسوع مسیح نے جواب دیا:‏ ”‏[‏یہوواہ]‏ اپنے خدا سے اپنے سارے دل اور اپنی ساری جان اور اپنی ساری عقل سے محبت رکھ۔‏“‏ (‏متی ۲۲:‏۳۵-‏۳۷‏)‏ یسوع مسیح کو یہوواہ خدا سے بڑی محبت تھی۔‏ اُنہوں نے اپنی زندگی میں جو کچھ کِیا،‏ اِس سے ظاہر ہوا کہ وہ خدا کی خوشنودی حاصل کرنا چاہتے ہیں۔‏ اِس وجہ سے وہ اپنی موت سے پہلے کہہ سکتے تھے کہ ”‏مَیں نے اپنے باپ کے حکموں پر عمل کِیا ہے اور اُس کی محبت میں قائم ہوں۔‏“‏—‏یوح ۱۵:‏۱۰‏۔‏

۲ بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ وہ خدا سے محبت رکھتے ہیں۔‏ ہم بھی یہی کہتے ہیں۔‏ لیکن ہمیں اِس سلسلے میں خود سے یہ سوال پوچھنے چاہئیں:‏ ”‏یہوواہ خدا میرے متعلق کیسا خیال کرتا ہے؟‏“‏ ”‏کیا یہوواہ خدا مجھے پہچانتا ہے یعنی کیا مجھے اُس کی خوشنودی حاصل ہے؟‏“‏ ”‏کیا یہوواہ خدا مجھے اپنوں میں شمار کرتا ہے؟‏“‏ (‏۲-‏تیم ۲:‏۱۹‏)‏ واقعی یہ کسی اعزاز سے کم نہیں کہ ہمیں کائنات کے مالک کے قریبی دوست بننے کا موقع ملا ہے۔‏

۳.‏ (‏الف)‏ بعض لوگوں کو کیوں لگتا ہے کہ وہ خدا کے دوست نہیں بن سکتے؟‏ (‏ب)‏ ایسے لوگوں کو کن باتوں پر غور کرنا چاہئے؟‏

۳ بعض لوگ خدا سے محبت رکھتے ہیں لیکن اُن کا خیال ہے کہ وہ خدا کے دوست نہیں بن سکتے۔‏ وہ احساسِ‌کمتری کا شکار ہیں۔‏ اِس لئے وہ خود کو اِس لائق ہی نہیں سمجھتے کہ اُن کا شمار اُن لوگوں میں ہو جنہیں خدا اپنا سمجھتا ہے۔‏ لیکن ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ یہوواہ خدا ہمیں اُس نظر سے نہیں دیکھتا جس سے ہم خود کو دیکھتے ہیں۔‏ (‏۱-‏سمو ۱۶:‏۷‏)‏ پولس رسول نے لکھا:‏ ”‏جو کوئی خدا سے محبت رکھتا ہے اُس کو خدا پہچانتا ہے۔‏“‏ (‏۱-‏کر ۸:‏۳‏)‏ اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ خدا اُن لوگوں کو اپنوں میں شمار کرتا ہے جو اُس سے محبت رکھتے ہیں۔‏ ذرا اِن باتوں پر غور کریں:‏ آپ اِس رسالے کو کیوں پڑھ رہے ہیں؟‏ آپ اپنے پورے دل اور اپنی پوری جان،‏ عقل اور قوت سے خدا کی خدمت کیوں کر رہے ہیں؟‏ اگر آپ نے اپنی زندگی یہوواہ خدا کے لئے وقف کی ہے اور بپتسمہ لے لیا ہے تو اِس کی کیا وجہ تھی؟‏ بائبل میں لکھا ہے کہ یہوواہ خدا سب قوموں کو چھانتا ہے اور اُن کی ’‏مرغوب چیزوں‘‏ کو اپنی طرف ’‏کھینچ لاتا ہے‘‏ یعنی اُن کو اپنا دوست بننے کی دعوت دیتا ہے۔‏ ‏(‏حجی ۲:‏۷؛‏ یوحنا ۶:‏۴۴ کو پڑھیں۔‏)‏ اگر یہوواہ خدا آپ کو اپنی طرف نہ کھینچتا تو آپ اُس کی خدمت نہ کر رہے ہوتے۔‏ اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ آپ کی دوستی چاہتا ہے۔‏ یہوواہ خدا اپنے دوستوں کو کبھی ترک نہیں کرتا بشرطیکہ وہ اُس کے وفادار رہیں۔‏ وہ اپنے دوستوں سے گہری محبت رکھتا ہے۔‏—‏زبور ۹۴:‏۱۴‏۔‏

۴.‏ ہمیں کیوں یاد رکھنا چاہئے کہ خدا کی دوستی ہمارے لئے بہت بڑا اعزاز ہے؟‏

۴ بِلاشُبہ ہم بہت خوش ہیں کہ خدا ہمیں اپنی طرف کھینچ لایا ہے۔‏ لیکن ہمیں اپنے آپ کو خدا کی محبت میں قائم رکھنا چاہئے۔‏ ‏(‏یہوداہ ۲۰،‏ ۲۱ کو پڑھیں۔‏)‏ یاد رکھیں کہ کچھ لوگ جو خدا کے دوست تھے،‏ وہ اُس سے دُور ہو گئے یہاں تک کہ اُن کا دل خدا سے پھر گیا۔‏ (‏عبر ۲:‏۱؛‏ ۳:‏۱۲،‏ ۱۳‏)‏ اِس سلسلے میں کچھ مثالوں پر غور کریں۔‏ اِس سے پہلے کہ پولس رسول نے لکھا کہ ”‏[‏یہوواہ]‏ اپنوں کو پہچانتا ہے،‏“‏ اُس نے ہمنیس اور فلیتس کا ذکر کِیا۔‏ اِن آدمیوں نے کچھ عرصے تک یہوواہ خدا کی خدمت کی لیکن پھر اُنہوں نے ایسا کرنا چھوڑ دیا۔‏ (‏۲-‏تیم ۲:‏۱۶-‏۱۸‏)‏ اِسی طرح گلتیہ کی کلیسیا کے کچھ مسیحیوں نے سچے خدا کی عبادت کرنا چھوڑ دی۔‏ (‏گل ۴:‏۹‏)‏ کبھی نہ بھولیں کہ خدا کی دوستی ہمارے لئے بہت بڑا اعزاز ہے،‏ اِس کی قدر کریں۔‏

۵.‏ (‏الف)‏ خدا کی دوستی حاصل کرنے کے لئے ہمیں خود میں کونسی خوبیاں پیدا کرنی ہوں گی؟‏ (‏ب)‏ اب ہم کن کے بارے میں بات کریں گے؟‏

۵ خدا کی دوستی حاصل کرنے کے لئے ہمیں خود میں چند خوبیاں پیدا کرنی ہوں گی۔‏ (‏زبور ۱۵:‏۱-‏۵؛‏ ۱-‏پطر ۳:‏۴‏)‏ مثال کے طور پر ہمارا ایمان مضبوط ہونا چاہئے اور ہمیں فروتنی سے کام لینا چاہئے۔‏ اب ہم دو آدمیوں کے بارے میں بات کریں گے جن سے یہوواہ خدا محبت رکھتا تھا کیونکہ اُن میں یہ خوبیاں پائی جاتی تھیں۔‏ ہم ایک ایسے آدمی کے بارے میں بھی بات کریں گے جس کو خدا نے ترک کر دیا کیونکہ وہ مغرور بن گیا تھا۔‏ ہم اِن آدمیوں سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔‏

مضبوط ایمان کے مالک

۶.‏ (‏الف)‏ ہم کیسے جانتے ہیں کہ ابرہام مضبوط ایمان کے مالک تھے؟‏ (‏ب)‏ یہوواہ خدا ابرہام کے متعلق کیسا خیال کرتا تھا؟‏

۶ بائبل میں لکھا ہے کہ ابرہام ”‏[‏یہوواہ]‏ پر ایمان لایا۔‏“‏ ابرہام کو ”‏اُن سب کا باپ“‏ کہا گیا ہے ’‏جو ایمان لاتے ہیں۔‏‘‏ (‏پید ۱۵:‏۶؛‏ روم ۴:‏۱۱‏)‏ ابرہام کا ایمان اِتنا مضبوط تھا کہ وہ اپنا گھر،‏ اپنے دوستوں اور اپنا کاروبار چھوڑ کر ایک دُوردراز ملک میں جا کر رہنے کو تیار تھے۔‏ (‏پید ۱۲:‏۱-‏۴؛‏ عبر ۱۱:‏۸-‏۱۰‏)‏ اِس کے بہت سال بعد جب یہوواہ خدا نے ابرہام کو حکم دیا کہ وہ اپنے بیٹے اضحاق کو قربانی کے طور پر چڑھائیں تو وہ فوراً ایسا کرنے کو تیار ہو گئے۔‏ اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ابرہام کا ایمان ساری عمر مضبوط رہا۔‏ (‏عبر ۱۱:‏۱۷-‏۱۹‏)‏ ابرہام کو پکا یقین تھا کہ خدا اپنے وعدوں کو پورا کرے گا۔‏ اِس لئے وہ یہوواہ خدا کو بہت عزیز تھے۔‏ یہوواہ خدا کو ابرہام سے اِتنی گہری محبت تھی جتنی کہ اچھے دوستوں میں ہوتی ہے۔‏‏—‏یعقوب ۲:‏۲۲،‏ ۲۳ کو پڑھیں۔‏

۷.‏ (‏الف)‏ ابرہام کو کس بات کا یقین تھا؟‏ (‏ب)‏ چونکہ ابرہام کو پکا یقین تھا کہ خدا اپنے وعدے پورے کرے گا اِس لئے اُنہوں نے کس طرح کی زندگی گزاری؟‏

۷ یہوواہ خدا نے ابرہام سے وعدہ کِیا کہ اُن کی اولاد ”‏اپنے دُشمنوں کے پھاٹک کی مالک ہوگی“‏ اور ’‏سمندر کے کنارے کی ریت کی مانند ہو گی۔‏‘‏ (‏پید ۲۲:‏۱۷،‏ ۱۸‏)‏ یہ وعدے ابرہام کے جیتے جی پورے نہیں ہوئے۔‏ اِس کے باوجود ابرہام،‏ یہوواہ خدا پر مضبوط ایمان رکھتے تھے۔‏ اُن کے ہر کام سے ظاہر ہوتا تھا کہ وہ اِس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ خدا اپنے وعدے پورے کرے گا۔‏ ‏(‏عبرانیوں ۱۱:‏۱۳ کو پڑھیں۔‏)‏ کیا ہمارا ایمان بھی اِتنا ہی مضبوط ہے جتنا کہ ابرہام کا ایمان تھا؟‏

آپ کا ایمان کتنا مضبوط ہے؟‏

۸.‏ لوگ عام طور پر کن چیزوں کی خواہش رکھتے ہیں؟‏

۸ ہو سکتا ہے کہ ہم کسی نہ کسی چیز کی بڑی خواہش رکھتے ہوں۔‏ مثال کے طور پر شاید ہم شادی کرنا چاہتے ہوں یا اولاد کی خواہش رکھتے ہوں یا پھر یہ چاہتے ہوں کہ ہماری صحت اچھی ہو جائے۔‏ ایسی خواہشیں غلط نہیں ہوتیں۔‏ لیکن کبھی‌کبھار ہم جس چیز کی شدید خواہش رکھتے ہیں،‏ وہ پوری نہیں ہوتی۔‏ اِس صورت میں ہم جو کچھ کرتے ہیں،‏ اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہمارا ایمان کتنا مضبوط ہے۔‏

۹،‏ ۱۰.‏ (‏الف)‏ بعض مسیحیوں نے اپنی خواہشوں کو حاصل کرنے کے لئے کیا کِیا ہے؟‏ (‏ب)‏ آپ اِس بات پر کیوں ایمان رکھتے ہیں کہ یہوواہ خدا اپنے وعدے پورا کرے گا؟‏

۹ کیا ہم اپنی خواہش کو حاصل کرنے کے لئے خدا کی ہدایتوں کو چھوڑ دیں گے؟‏ مثال کے طور پر کچھ مسیحیوں نے ایسے علاج کروائے ہیں جو خدا کے اصولوں کے خلا ف ہیں۔‏ بعض نے ایسی ملازمت اختیار کر لی ہے جس کی وجہ سے اُن کے پاس اپنے بیوی‌بچوں کے لئے وقت نہیں رہا یا پھر اُن کے لئے اجلاسوں پر جانا ناممکن ہو گیا ہے۔‏ اور کچھ مسیحی کسی ایسے شخص کے ساتھ چکر چلانے لگے ہیں جو یہوواہ کا گواہ نہیں ہے۔‏ لیکن خدا کی ہدایتوں کو چھوڑ دینا بڑی بےوقوفی ہوتی ہے کیونکہ اِس طرح ہم خدا کی دوستی کھو سکتے ہیں۔‏ ابرہام بھی یہ سوچ سکتے تھے کہ ”‏لگتا ہے کہ خدا اپنے وعدے نہیں پورے کر رہا۔‏ کیوں نہ مَیں اپنے لئے ایک گھر بناؤں اور اُس میں رہوں۔‏“‏ وہ یہوواہ خدا پر بھروسا کرنے کی بجائے اپنا نام مشہور کرنے کے لئے ہاتھ پیر مار سکتے تھے۔‏ (‏پیدایش ۱۱:‏۴ پر غور کریں۔‏)‏ لیکن ایسی صورت میں یہوواہ خدا کیسا محسوس کرتا؟‏ کیا وہ آئندہ بھی ابرہام کو اپنا دوست خیال کرتا؟‏

۱۰ آپ کن چیزوں کی شدید خواہش رکھتے ہیں؟‏ کیا آپ کو یقین ہے کہ یہوواہ خدا وقت آنے پر آپ کی خواہشوں کو پورا کرے گا؟‏ کیا آپ اِس وقت کا انتظار کرنے کو تیار ہیں؟‏ خدا کا وعدہ ہے کہ وہ ہر جاندار کی جائز خواہشوں کو پورا کرے گا۔‏ (‏زبور ۱۴۵:‏۱۶‏)‏ ہو سکتا ہے کہ یہوواہ خدا کے بعض وعدے اِتنے جلد پورے نہ ہوں جتنا کہ ہم چاہتے ہیں۔‏ کیا ہم ایسی صورت میں بھی اپنے اعمال سے ظاہر کریں گے کہ ہمارا ایمان مضبوط ہے؟‏ تب یہوواہ خدا ہمیں ضرور انعام دے گا۔‏—‏عبر ۱۱:‏۶‏۔‏

غرور کی مثال؛‏ فروتنی کی مثال

۱۱.‏ (‏الف)‏ قورح نے جتنے عرصے تک خدا کی خدمت کی،‏ اُس دوران اُنہوں نے کیا کچھ کِیا؟‏ (‏ب)‏ بنی‌اسرائیل قورح کا احترام کیوں کرتے تھے؟‏

۱۱ آئیں،‏ موسیٰ کی اچھی مثال اور قورح کی بُری مثال پر غور کریں۔‏ یوں ہم جان جائیں گے کہ خدا کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے ہمیں اُس کے فیصلوں کو قبول کرنا ہوگا اور اُس کی ہدایتوں پر عمل کرنا ہوگا۔‏ قورح،‏ لاوی کے قبیلے میں قہات کے خاندان سے تھے۔‏ ہو سکتا ہے کہ وہ اُس وقت موجود تھے جب یہوواہ خدا بنی‌اسرائیل کو بڑے شاندار طریقے سے بحرِقلزم کے پار لایا۔‏ پھر جب بنی‌اسرائیل نے کوہِ‌سینا کے دامن میں یہوواہ خدا کے خلاف بغاوت کی تو قورح نے باغیوں کو ہلاک کرنے میں حصہ لیا۔‏ اِس کے علاوہ قورح نے عہد کے صندوق کو اُٹھانے کا کام کِیا کیونکہ یہ ذمہ‌داری بنی‌قہات کو دی گئی تھی۔‏ (‏خر ۳۲:‏۲۶-‏۲۹؛‏ گن ۳:‏۳۰،‏ ۳۱‏)‏ لگتا ہے کہ قورح بہت سال تک یہوواہ خدا کے وفادار رہے اور اِس وجہ سے بنی‌اسرائیل اُن کا بڑا احترام کرتے تھے۔‏

۱۲.‏ خدا نے قورح سے دوستی کیوں توڑ دی؟‏ صفحہ ۳۱ پر تصویر کو دیکھیں۔‏

۱۲ جب بنی‌اسرائیل بیابان میں تھے تو قورح کی سوچ میں تبدیلی آ گئی۔‏ اُن کا خیال تھا کہ یہوواہ خدا جس طریقے سے بنی‌اسرائیل کی رہنمائی کر رہا ہے،‏ وہ صحیح نہیں۔‏ اِس لئے اُنہوں نے موسیٰ کے خلاف بغاوت کی۔‏ بنی‌اسرائیل میں سے ۲۵۰ آدمیوں نے قورح کا ساتھ دیا۔‏ اِن آدمیوں کا خیال تھا کہ اُنہیں یہوواہ خدا کی خوشنودی حاصل ہے۔‏ اِس لئے اُنہوں نے موسیٰ سے کہا:‏ ”‏تمہارے تو بڑے دعوے ہو چلے۔‏ کیونکہ جماعت کا ایک‌ایک آدمی مُقدس ہے اور [‏یہوواہ]‏ اُن کے بیچ رہتا ہے سو تُم اپنے آپ کو [‏یہوواہ]‏ کی جماعت سے بڑا کیونکر ٹھہراتے ہو؟‏“‏ (‏گن ۱۶:‏۱-‏۳‏)‏ اِن آدمیوں کی باتوں سے اُن کا غرور جھلکتا تھا۔‏ اُن کو خود پر بڑا اعتماد تھا۔‏ لیکن موسیٰ نے اُن سے کہا:‏ ”‏[‏یہوواہ]‏ دکھا دے گا کہ کون اُس کا ہے۔‏“‏ ‏(‏گنتی ۱۶:‏۵ کو پڑھیں۔‏)‏ اور ایسا ہی ہوا۔‏ اگلے روز ہی یہوواہ خدا نے قورح اور اُن کے ساتھیوں کو ہلاک کر دیا۔‏ یوں صاف ظاہر ہو گیا کہ اُنہیں یہوواہ خدا کی خوشنودی حاصل نہیں تھی۔‏—‏گن ۱۶:‏۳۱-‏۳۵‏۔‏

۱۳،‏ ۱۴.‏ ہم کیسے جانتے ہیں کہ موسیٰ فروتن تھے؟‏

۱۳ آئیں،‏ اب موسیٰ کی اچھی مثال پر غور کریں۔‏ وہ ’‏رویِ‌زمین کے سب آدمیوں سے زیادہ حلیم تھے۔‏‘‏ (‏گن ۱۲:‏۳‏)‏ موسیٰ ویسا ہی کرتے جیسا یہوواہ خدا اُنہیں کرنے کو کہتا۔‏ اِس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ بڑے حلیم اور فروتن تھے۔‏ (‏خر ۷:‏۶؛‏ ۴۰:‏۱۶‏)‏ جب ہم بائبل پڑھتے ہیں تو ہمیں کہیں یہ تاثر نہیں ملتا کہ موسیٰ کو خدا کے حکموں پر اعتراض کرنے کی عادت تھی۔‏ جب یہوواہ خدا موسیٰ کو بڑی تفصیل سے بتاتا کہ اُنہیں ایک کام کیسے کرنا ہے تو موسیٰ یہ نہیں سوچتے تھے کہ ”‏یہوواہ خدا کو مجھ پر اعتبار ہی نہیں ہے۔‏“‏ مثال کے طور پر یہوواہ خدا نے موسیٰ کو مسکن تعمیر کرنے کے سلسلے میں بڑی تفصیل سے ہدایت دی۔‏ یہوواہ خدا نے کہا کہ مسکن کے پردے بنانے کے لئے کس رنگ کا دھاگہ استعمال کِیا جائے اور پردوں کے کنارے پر کتنے تکمے یعنی کنڈل ہوں۔‏ (‏خر ۲۶:‏۱-‏۶‏)‏ اگر کلیسیا کا ایک نگہبان کسی کام کے سلسلے میں آپ کو اِتنی تفصیل سے ہدایت دے تو شاید آپ کو اچھا نہ لگے۔‏ لیکن جب یہوواہ خدا اپنے خادموں کو ایک کام دیتا ہے تو اُس کو اعتبار ہوتا ہے کہ وہ اِسے اچھی طرح سے کر پائیں گے۔‏ اِس لئے جب یہوواہ خدا ہمیں بڑی تفصیل سے بتاتا ہے کہ ہمیں فلاں کام کیسے کرنا چاہئے تو اِس کے پیچھے کوئی نہ کوئی وجہ ہوتی ہے۔‏ بہرحال موسیٰ،‏ یہوواہ خدا سے ناراض نہیں ہوئے۔‏ اُنہوں نے یہ نہیں سوچا کہ ”‏یہوواہ خدا مجھے اِس کام کے لائق ہی نہیں سمجھتا۔‏“‏ اُنہوں نے یہ بھی نہیں سوچا کہ ”‏یہوواہ خدا نے تو مجھے بالکل ہی دبا کر رکھا ہوا ہے۔‏“‏ موسیٰ نے کاریگروں سے کہا کہ وہ بالکل ویسا ہی کریں جیسا یہوواہ خدا نے حکم دیا ہے۔‏ (‏خر ۳۹:‏۳۲‏)‏ اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ موسیٰ بہت ہی فروتن تھے۔‏ موسیٰ خود کو ایک اوزار کی طرح سمجھتے تھے جسے یہوواہ خدا مسکن بنانے کے لئے استعمال کر رہا ہے۔‏

۱۴ موسیٰ تب بھی بڑی فروتنی سے کام لیتے تھے جب اُنہیں مایوسی کا سامنا ہوتا تھا۔‏ مثال کے طور پر ایک بار بنی‌اسرائیل موسیٰ سے جھگڑنے لگنے کہ اُنہیں پانی چاہئے۔‏ موسیٰ اِن لوگوں پر اِتنا غصہ ہوئے کہ وہ یہوواہ خدا کی بڑائی کرنا بھول گئے۔‏ اِس لئے یہوواہ خدا نے موسیٰ سے کہا کہ وہ اُنہیں اُس ملک میں نہیں جانے دے گا جس کا اُس نے بنی‌اسرائیل سے وعدہ کِیا تھا۔‏ (‏گن ۲۰:‏۲-‏۱۲‏)‏ موسیٰ اور ہارون کئی سالوں سے بنی‌اسرائیل کی شکایتیں سنتے آ رہے تھے اور اُنہوں نے اُف تک نہیں کی تھی۔‏ لیکن اب ایک غلطی کی وجہ سے موسیٰ کو اُس ملک میں جانے کی اجازت نہیں ملی جس میں جانے کی اُنہیں مُدتوں سے آرزو تھی۔‏ اِس صورت میں موسیٰ کا ردِعمل کیا تھا؟‏ ظاہری بات ہے کہ وہ بہت مایوس تھے لیکن اُنہوں نے یہوواہ خدا کا فیصلہ قبول کر لیا کیونکہ وہ فروتن تھے۔‏ وہ جانتے تھے کہ یہوواہ خدا کی ”‏سب راہیں انصاف کی ہیں۔‏“‏ (‏است ۳:‏۲۵-‏۲۷؛‏ ۳۲:‏۴‏)‏ آج بھی موسیٰ ایک ایسے شخص کے طور پر جانے جاتے ہیں جس پر یہوواہ خدا کے کرم کی نظر تھی۔‏‏—‏خروج ۳۳:‏۱۲،‏ ۱۳ کو پڑھیں۔‏

فروتنی اور فرمانبرداری میں تعلق

۱۵.‏ قورح نے جو کچھ کِیا،‏ اِس سے ہم کیا سیکھتے ہیں؟‏

۱۵ ہمیں صرف اُسی صورت میں یہوواہ خدا کی خوشنودی حاصل ہو سکتی ہے اگر ہم اُن تمام ہدایتوں کو قبول کریں جو ہمیں دیانت‌دار اور عقل‌مند نوکر کی طرف سے ملتی ہیں۔‏ اِس کے علاوہ ہمیں اُن بھائیوں کا احترام کرنا چاہئے جنہیں یہوواہ خدا نے کلیسیا میں اختیار سونپا ہے۔‏ جب یہ بھائی کلیسیا کے کسی معاملے کے سلسلے میں تبدیلی لاتے ہیں یا کوئی فیصلہ کرتے ہیں تو آپ کا ردِعمل کیسا ہوتا ہے؟‏ یاد کریں کہ قورح اور اُن کے ساتھیوں کو خود پر بڑا مان تھا۔‏ وہ مغرور تھے اور اِس لئے یہوواہ خدا نے اُن سے دوستی توڑ دی۔‏ قورح کا خیال تھا کہ ”‏موسیٰ تو بڈھے ہیں اور جو دل میں آئے،‏ وہی فیصلہ کرتے ہیں۔‏“‏ قورح یہ بھول گئے کہ دراصل یہوواہ خدا بنی‌اسرائیل کی رہنمائی کر رہا تھا۔‏ اِس وجہ سے وہ اُس شخص کے وفادار نہیں رہے جسے یہوواہ خدا نے بنی‌اسرائیل کی رہنمائی کرنے کے لئے مقرر کِیا تھا۔‏ قورح کو یہوواہ خدا پر بھروسا کرنا چاہئے تھا اور معاملے کو اُس پر چھوڑ دینا چاہئے تھا۔‏ اِس صورت میں یہوواہ خدا یا تو اُنہیں معاملے کو سمجھنے کی توفیق دیتا یا پھر اگر واقعی کوئی مسئلہ تھا تو اُسے سلجھا دیتا۔‏ لیکن قورح نے بغاوت کی۔‏ یہی وجہ ہے کہ ہم قورح کو ایک ایسے شخص کے طور پر یاد نہیں کرتے جس نے کئی سال تک یہوواہ خدا کی خدمت کی بلکہ ایک ایسے شخص کے طور پر یاد کرتے ہیں جس نے غرور میں آکر یہوواہ خدا کی نافرمانی کی۔‏

۱۶.‏ ہم موسیٰ سے کیا سیکھتے ہیں؟‏

۱۶ قورح کے ساتھ جو کچھ ہوا،‏ اِس میں کلیسیا کے بزرگوں اور بہن‌بھائیوں کے لئے ایک آگاہی ہے۔‏ اگر ہم فروتن ہیں تو ہم معاملے کو یہوواہ خدا پر چھوڑ دیں گے اور اُن بھائیوں کا کہنا مانیں گے جن کو یہوواہ خدا نے کلیسیا میں اختیار سونپا ہے۔‏ کیا ہم موسیٰ کی طرح حلیم اور فروتن ہیں؟‏ کیا ہم یہ تسلیم کرتے ہیں کہ یہوواہ خدا ہی نے کلیسیا کے بزرگوں کو اختیار دیا ہے؟‏ کیا ہم اِن بزرگوں کی ہدایتوں پر عمل کرتے ہیں؟‏ کیا ہم اُس وقت بھی اُن کے فرمانبردار رہتے ہیں جب ہمیں مایوسی کا سامنا ہوتا ہے؟‏ اگر ایسا ہے تو ہمیں یہوواہ خدا کی خوشنودی حاصل ہوگی۔‏ خدااُن لوگوں کی بڑی قدر کرتا ہے جو فروتن ہیں اور اُس کے فرمانبردار رہتے ہیں۔‏

یہوواہ خدا اپنوں کو پہچانتا ہے

۱۷،‏ ۱۸.‏ ہمیں کیا کرنا چاہئے تاکہ ہمیں آئندہ بھی یہوواہ خدا کی خوشنودی حاصل ہو؟‏

۱۷ جب ہم ایسے لوگوں کی مثال پر غور کرتے ہیں جن کو یہوواہ خدا اپنا دوست سمجھتا تھا اور جن سے وہ محبت کرتا تھا تو ہمیں بڑا فائدہ ہوتا ہے۔‏ ابرہام اور موسیٰ بھی ہماری طرح غلطیاں کرتے تھے اور اُن کو بھی مشکلات کا سامنا ہوتا تھا۔‏ لیکن یہوواہ خدا نے اُن سے دوستی کی اور اُن کو اپنوں میں شمار کِیا۔‏ اِس کے برعکس ذرا یاد کریں کہ قورح کے ساتھ کیا ہوا۔‏ اُن کا دل خدا سے پھر گیا اور اِس لئے خدا نے اُن سے دوستی توڑ دی۔‏ اگر ہم محتاط نہیں رہیں گے تو ہمارے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہو سکتا ہے۔‏ لہٰذا ہمیں خود سے پوچھنا چاہئے کہ ”‏مَیں ابرہام،‏ موسیٰ اور قورح سے کیا سیکھ سکتا ہوں؟‏“‏ ”‏یہوواہ خدا میرے متعلق کیسا خیال کرتا ہے؟‏“‏

۱۸ یہ جان کر ہمیں بڑی تسلی ملتی ہے کہ جو لوگ یہوواہ خدا کے وفادار ہیں،‏ اُن کو وہ اپنا سمجھتا ہے۔‏ لہٰذا آئیں،‏ آگے بھی فروتنی سے کام لیں اور اپنے ایمان کو مضبوط کرتے رہیں۔‏ یوں ہمارا شفیق خدا ہم سے اَور بھی زیادہ پیار کرے گا۔‏ یہ کتنا بڑا اعزاز ہے کہ یہوواہ خدا ہمیں اپنوں میں شمار کرتا ہے۔‏ جن لوگوں کو یہوواہ خدا کی خوشنودی حاصل ہے،‏ اُن کی زندگی ابھی بھی خوشگوار ہے اور اُنہیں آئندہ بھی بہت سی برکتیں ملیں گی۔‏—‏زبور ۳۷:‏۱۸‏۔‏

کیا آپ کو یاد ہے؟‏

‏• اِس کا کیا مطلب ہے کہ یہوواہ خدا اپنوں کو پہچانتا ہے؟‏

‏• آپ ابرہام کی مثال پر کیسے عمل کر سکتے ہیں؟‏

‏• ہم قورح اور موسیٰ سے کیا کچھ سیکھ سکتے ہیں؟‏

‏[‏مطالعے کے سوالات]‏

‏[‏صفحہ ۲۹ پر تصویر]‏

کیا ابرہام کی طرح ہمیں بھی پکا یقین ہے کہ یہوواہ خدا اپنے وعدوں کو پورا کرے گا؟‏

‏[‏صفحہ ۳۱ پر تصویر]‏

قورح نے غرور میں آکر موسیٰ کے خلاف بغاوت کی۔‏

‏[‏صفحہ ۳۲ پر تصویر]‏

کیا یہوواہ خدا آپ کو ایک فروتن اور فرمانبردار شخص خیال کرتا ہے؟‏