مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

ابرہام نبی—‏دلیری کی مثال

ابرہام نبی—‏دلیری کی مثال

ابرہام نبی—‏دلیری کی مثال

ابرہام نبی اپنے خاندان اور نوکرچاکروں کو غور سے دیکھ رہے تھے۔‏ وہ سب ملک کنعان کے لئے روانہ ہو رہے تھے۔‏ (‏پیدایش ۱۲:‏۱-‏۵‏)‏ شاید ابرہام نے سوچا ہو کہ ”‏اِن سب لوگوں کی روزی روٹی پوری کرنا میرے کندھوں پر ہے۔‏ مَیں پردیس میں اِن کی ضروریات کیسے پوری کروں گا؟‏ اُور میں تو مَیں آسانی سے اُن کی ضروریات پوری کر سکتا تھا،‏ وہاں بڑی‌بڑی چراگاہیں تھیں،‏ مٹی زرخیز تھی اور پانی کی کمی نہیں تھی۔‏ اگر مَیں بیمار ہو جاؤں یا مر جاؤں تو اِن سب کا کیا ہوگا؟‏“‏ اگر اُن کے ذہن میں ایسے سوال آئے بھی تھے تو وہ پیچھے نہیں ہٹے۔‏ اُنہوں نے ٹھان لیا تھا کہ چاہے کچھ بھی ہو،‏ وہ خدا کے حکم پر عمل کریں گے۔‏ اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ایک دلیر شخص تھے۔‏

دلیری سے کیا مراد ہے؟‏ ایک دلیر شخص ہمت سے کام لیتا ہے،‏ وہ جُرأت‌مند اور اپنے ارادے کا پکا ہوتا ہے۔‏ دلیر ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ ایک شخص کبھی خوفزدہ نہیں ہوتا۔‏ لیکن ایک ایسا شخص جو خدا سے دلیری پاتا ہے،‏ وہ خوف کے باوجود اپنے ارادوں پر عمل کرتا ہے۔‏

ابرہام نبی نے دلیری کیسے ظاہر کی؟‏ ابرہام نبی کو یہ پرواہ نہیں تھی کہ لوگ کیا سوچیں گے۔‏ اُنہوں نے ایسے لوگوں کے درمیان پرورش پائی جو بہت سے دیوتاؤں اور بُتوں کی پرستش کرتے تھے۔‏ لیکن اُنہوں نے بڑی جُرأت‌مندی سے اُن لوگوں سے بالکل فرق راہ کا انتخاب کِیا۔‏ ابرہام نبی نے یہوواہ خدا کی عبادت کرنے کا فیصلہ کِیا جو ’‏آسمان اور زمین کا مالک‘‏ ہے۔‏ اُنہوں نے اِس خوف کو خود پر حاوی نہیں ہونے دیا کہ لوگ کیا کہیں گے۔‏—‏پیدایش ۱۴:‏۲۱،‏ ۲۲‏۔‏

ابرہام نبی کے نزدیک یہوواہ خدا کی عبادت مال‌ودولت سے زیادہ اہم تھی۔‏ اُن کو پورا یقین تھا کہ یہوواہ خدا اُن کی ضروریات پوری کرے گا اِس لئے اُنہوں نے اُور کی آرام‌دہ زندگی چھوڑ کر بیابان کا سفر کِیا۔‏ شاید بعد میں اُنہیں کبھی‌کبھی وہ آسائشیں یاد آتی ہوں جو اُنہیں اُور میں حاصل تھیں۔‏ لیکن اُن کو پورا بھروسا تھا کہ خدا اُن کی اور اُن کے خاندان کی دیکھ‌بھال کرے گا۔‏ وہ یہوواہ خدا کو اپنی زندگی میں سب سے اہم سمجھتے تھے اِس لئے اُنہوں نے دلیری سے اُس کے حکموں پر عمل کِیا۔‏

ہم ابرہام نبی کی مثال سے کیا سیکھتے ہیں؟‏ ہمیں ابرہام نبی کی طرح دلیری پیدا کرنی چاہئے تاکہ ہم اُس صورت میں بھی یہوواہ خدا کے حکموں پر عمل کر سکیں جب ہمارے آس‌پاس کے لوگ ایسا نہیں کرتے۔‏ مثال کے طور پر خدا کے کلام میں بتایا گیا ہے کہ جب ایک شخص پاک صحیفوں کی تعلیم پر عمل کرنے کی ٹھان لیتا ہے تو شاید اُس کے دوست یا رشتہ‌دار اُس کی مخالفت کرنے لگیں۔‏ (‏یوحنا ۱۵:‏۲۰‏)‏ لیکن اگر ہم اُن باتوں پر پکا ایمان رکھتے ہیں جو ہم نے خدا کے بارے میں سیکھی ہیں تو ہم ”‏نرم‌مزاجی اور احترام کے ساتھ“‏ اپنے عقائد کا دفاع کریں گے۔‏—‏۱-‏پطرس ۳:‏۱۵‏۔‏

ہم اِس بات پر اعتماد رکھ سکتے ہیں کہ خدا اپنے بندوں کی ضروریات پوری کرتا ہے۔‏ اِس اعتماد کی بِنا پر ہمارے اندر دلیری پیدا ہوگی تاکہ ہم بھرپور طریقے سے خدا کی خدمت کریں اور اپنی ضروریات پوری کرنے کی فکر میں نہ رہیں۔‏ (‏متی ۶:‏۳۳‏)‏ اِس سلسلے میں ایک شادی‌شُدہ جوڑے کی مثال پر غور کریں۔‏

حالانکہ ڈگ اور بکی کے دو چھوٹے بیٹے ہیں پھر بھی اُنہوں نے ایک ایسے ملک میں منتقل ہونے کا فیصلہ کِیا جہاں خدا کے کلام کی خوشخبری سنانے کے لئے زیادہ لوگوں کی ضرورت تھی۔‏ اُنہوں نے اُس ملک کے بارے میں کچھ معلومات اِکٹھی کیں اور خدا سے دُعا کی۔‏ پھر اُنہوں نے اپنے فیصلے پر عمل کِیا۔‏ ڈگ کہتے ہیں:‏ ”‏بچوں کو لے کر دوسرے ملک میں منتقل ہونا کوئی آسان فیصلہ نہیں تھا۔‏ اِس کے لئے بڑی ہمت کی ضرورت تھی۔‏ ہم یہ نہیں جانتے تھے کہ وہاں جا کر ہماری زندگی کیسی ہوگی۔‏ لیکن جب ہم نے وہاں منتقل ہونے کا سوچا ہی تھا تو ہم نے ابرہام اور سارہ کی مثال پر غور کِیا تھا۔‏ اُنہوں نے یہوواہ خدا پر بھروسا کِیا اور خدا نے ہمیشہ اُن کی مدد کی۔‏ اِس سے ہمیں بڑا حوصلہ ملا۔‏“‏

ڈگ اور بکی کو اپنے اِس فیصلے پر کوئی پچھتاوا نہیں ہے۔‏ ڈگ کہتے ہیں:‏ ”‏ہمیں بہت سی خوشیاں ملی ہیں۔‏ ہم سادگی سے زندگی گزار رہے ہیں اِس لئے ہمارے پاس ایک دوسرے کے لئے زیادہ وقت ہے۔‏ ہم ایک دوسرے سے گپ‌شپ لگاتے ہیں،‏ بچوں کے ساتھ کھیلتے ہیں اور مل کر لوگوں کو خدا کا پیغام دیتے ہیں۔‏ یہ ایسی خوشیاں ہیں جنہیں لفظوں میں بیان کرنا مشکل ہے۔‏“‏

سچ ہے کہ ہر ایک کے لئے اپنی زندگی میں اِتنی بڑی تبدیلی کرنا ممکن نہیں ہے۔‏ لیکن ہم سب ابرہام نبی کی طرح خدا کی خدمت کو اپنی زندگی میں سب سے زیادہ اہمیت دے سکتے ہیں اور اُن کی طرح ہم اِس بات پر بھروسا بھی رکھ سکتے ہیں کہ یہوواہ خدا ہماری مدد کرے گا۔‏ یوں ’‏ہم دلیری کے ساتھ کہہ سکیں گے کہ یہوواہ میرا مددگار ہے۔‏ مَیں خوف نہ کروں گا۔‏‘‏—‏عبرانیوں ۱۳:‏۵،‏ ۶‏۔‏

‏[‏صفحہ ۸ پر بکس/‏تصویریں]‏

سارہ—‏ایک مثالی عورت

سارہ کے شوہر ایمان کی عمدہ مثال تھے۔‏ لیکن سارہ خود بھی ایک مثالی عورت تھیں۔‏ خدا کے کلام میں تین مرتبہ اُن کا ذکر ایک ایسی عورت کے طور پر کِیا گیا ہے جس کی مثال پر مسیحی عورتوں کو عمل کرنا چاہئے۔‏ (‏یسعیاہ ۵۱:‏۱،‏ ۲؛‏ عبرانیوں ۱۱:‏۱۱؛‏ ۱-‏پطرس ۳:‏۳-‏۶‏)‏ جو کچھ ہم پاک صحیفوں میں سارہ کے بارے میں پڑھتے ہیں،‏ اِس سے پتہ چلتا ہے کہ وہ بہت سی عمدہ خوبیوں کی مالک تھیں۔‏

مثال کے طور پر غور کریں کہ جب خدا نے ابرہام کو شہر اُور چھوڑنے کا حکم دیا تو سارہ کا ردِعمل کیا تھا۔‏ شاید سارہ نے سوچا ہو کہ ”‏ہمیں اُور کیوں چھوڑنا ہے؟‏ ہم کہاں جائیں گے؟‏ ہماری ضروریات کیسے پوری ہوں گی؟‏“‏ شاید وہ اپنے دوستوں اور رشتہ‌داروں کو چھوڑنے کی وجہ سے دُکھی ہوں کیونکہ وہ یہ نہیں جانتی تھیں کہ وہ اُنہیں دوبارہ مل پائیں گی یا نہیں۔‏ اِن سب باتوں کے باوجود وہ اُور چھوڑ کر جانے کے لئے تیار تھیں۔‏ اُنہیں بھروسا تھا کہ یہوواہ خدا اُنہیں بہت سی برکتوں سے نوازے گا۔‏—‏اعمال ۷:‏۲،‏ ۳‏۔‏

سارہ ایک اچھی بیوی بھی تھیں۔‏ وہ اپنے شوہر کا بڑا احترام کرتی تھیں۔‏ اُنہوں نے ابرہام کے فیصلوں پر کبھی اعتراض نہیں کِیا بلکہ ہمیشہ اُن کی حمایت کی۔‏ اِس طرح سارہ نے خود کو ایسی خوبیوں سے آراستہ کِیا جو خدا کی نظر میں بیش‌قیمت تھیں۔‏—‏۱-‏پطرس ۳:‏۱-‏۶‏۔‏

آج‌کل بیویوں کو سارہ جیسی خوبیاں پیدا کرنے سے بڑے فائدے ہوتے ہیں۔‏ ایک عورت جس کی شادی کو ۳۰ سال ہو گئے ہیں،‏ کہتی ہے:‏ ”‏سارہ کی مثال سے مَیں نے سیکھا ہے کہ مَیں اپنے شوہر کے سامنے کُھل کر اپنی رائے کا اِظہار کر سکتی ہوں۔‏ لیکن مَیں یہ بھی جانتی ہوں کہ فیصلہ کرنے کی ذمہ‌داری میرے شوہر کی ہے۔‏ اِس لئے جب وہ کوئی فیصلہ کرتے ہیں تو مَیں اِس کی حمایت کرتی ہوں اور اِسے کامیاب بنانے کی کوشش کرتی ہوں۔‏“‏

ہم سارہ کی مثال سے ایک اَور اہم سبق بھی سیکھتے ہیں۔‏ حالانکہ وہ بہت خوبصورت تھیں پھر بھی اُنہوں نے کبھی اپنے حسن پر ناز نہیں کِیا۔‏ (‏پیدایش ۱۲:‏۱۰-‏۱۳‏)‏ اِس کی بجائے وہ ہمیشہ اپنے شوہر کی تابع رہیں اور ہر دُکھ‌سُکھ میں اُن کا ساتھ دیا۔‏ بِلاشُبہ ابرہام اور سارہ دونوں بہت سی خوبیوں کے مالک تھے۔‏ وہ مغرور نہیں تھے،‏ وہ ایک دوسرے سے بہت پیار کرتے تھے اور وہ ایک دوسرے کے وفادار تھے۔‏