مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

‏”‏یہوواہ خدا!‏ مجھے پھر سے اپنا بنا لے“‏

‏”‏یہوواہ خدا!‏ مجھے پھر سے اپنا بنا لے“‏

خدا کے نزدیک جائیں

‏”‏یہوواہ خدا!‏ مجھے پھر سے اپنا بنا لے“‏

کیا آپ نے خدا کی خدمت کرنا چھوڑ دی ہے؟‏ کیا آپ دوبارہ سے اُس کی خدمت کرنا چاہتے ہیں؟‏ لیکن کیا آپ یہ سوچ کر ہچکچا رہے ہیں کہ ”‏شاید یہوواہ خدا مجھے دوبارہ قبول نہ کرے“‏؟‏ اگر ایسا ہے تو اِس مضمون کو ضرور پڑھیں۔‏ یہ آپ ہی کے لئے لکھا گیا ہے۔‏

ایک خاتون نے یہوواہ خدا کی خدمت کرنا چھوڑ دی تھی اور ایسے کام کرنے لگی تھی جو خدا کو پسند نہیں تھے۔‏ پھر اُسے اپنی غلطی کا احساس ہوا اور اُس نے دُعا کی کہ ”‏اَے یہوواہ خدا!‏ مَیں نے تیرا دل دُکھایا ہے۔‏ مجھے معاف کر دے اور پھر سے اپنا بنا لے۔‏“‏ شاید آپ کے ذہن میں یہ سوال آئیں کہ ”‏کیا خدا اُن لوگوں کو بھول جاتا ہے جنہوں نے اُس کی خدمت کرنا چھوڑ دی ہے؟‏ کیا وہ چاہتا ہے کہ یہ لوگ اُس کے پاس واپس لوٹ آئیں؟‏“‏ اِن سوالوں کے جواب بہت تسلی‌بخش ہیں۔‏ اِس سلسلے میں آئیں،‏ یرمیاہ نبی کے بیان پر غور کریں۔‏‏—‏یرمیاہ ۳۱:‏۱۸-‏۲۰ کو پڑھیں۔‏

آئیں،‏ دیکھتے ہیں کہ یرمیاہ کے اِس بیان کا پس‌منظر کیا تھا۔‏ سن ۷۴۰ قبل‌ازمسیح میں اسوری فوج نے اسرائیلیوں کے دس قبیلوں پر چڑھائی کی اور اُن کو اسیر کر لیا۔‏ * یہ واقعہ یرمیاہ کے زمانے سے تقریبا۹۰ً سال پہلے پیش آیا۔‏ لیکن یہوواہ خدا نے اسرائیلیوں پر یہ مصیبت کیوں آنے دی؟‏ دراصل اسرائیلی سنگین گُناہوں میں پڑ گئے تھے۔‏ خدا نے باربار اپنے نبیوں کے ذریعے اسرائیلیوں کو گُناہوں سے باز آنے کے لئے کہا لیکن اُنہوں نے خدا کی ایک نہ سنی۔‏ اِس لئے خدا نے اُن کو سزا دی۔‏ (‏۲-‏سلاطین ۱۷:‏۵-‏۱۸‏)‏ یوں اسرائیلی خدا کی قربت سے محروم ہو گئے اور اُن کو ایک غیرملک میں طرح‌طرح کی مصیبتیں جھیلنی پڑیں۔‏ کیا اِس کا اُن پر کچھ اثر ہوا؟‏ کیا یہوواہ خدا اُن کو بھول گیا تھا؟‏ یا پھر کیا وہ چاہتا تھا کہ اسرائیلی دوبارہ سے اُس کی قربت میں آ جائیں؟‏

‏”‏مَیں نے توبہ کی“‏

اسیر ہونے کے بعد اسرائیلیوں کو اپنی غلطی کا احساس ہوا۔‏ یہوواہ خدا نے دیکھا کہ وہ دل سے تائب ہیں۔‏ غور کریں کہ یرمیاہ ۳۱:‏۱۸،‏ ۱۹ میں یہوواہ خدا نے اسرائیلیوں کے احساسات کے بارے میں کیا کہا۔‏ اِن آیتوں میں خدا نے اسرائیلیوں کو افرائیم کہہ کر مخاطب کِیا ہے۔‏

یہوواہ خدا نے کہا:‏ ‏’‏مَیں نے افرائیم کو اپنے آپ پر ماتم کرتے سنا۔‏‘‏ ‏(‏آیت ۱۸‏)‏ اسرائیلی اپنے انجام پر رو رہے تھے اور یہوواہ خدا نے اُن کا رونا سنا۔‏ ایک عالم کے مطابق،‏ جب لوگ اصطلاح اپنے آپ پر ماتم کرنا سنتے تھے تو اُن کے ذہن میں ایک ایسا شخص آتا تھا جو کانپ رہا ہو یا آگے پیچھے ہل رہا ہو۔‏ اور واقعی اسرائیلی ایک ایسے بیٹے کی طرح تھے جو ندامت سے اپنا سر ہلا رہا تھا کیونکہ وہ گُناہ کرکے اپنے اُوپر مصیبت لے آیا تھا اور وہ یاد کر رہا تھا کہ گُناہ کرنے سے پہلے اُس کی زندگی کتنی اچھی تھی۔‏ (‏لوقا ۱۵:‏۱۱-‏۱۷‏)‏ اسرائیلیوں نے کیا کہا؟‏

اسرائیلیوں نے یہوواہ خدا سے کہا:‏ ‏”‏تُو نے مجھے تنبیہ کی اور مَیں نے اُس بچھڑے کی مانند جو سدھایا نہیں گیا تنبیہ پائی۔‏“‏ ‏(‏آیت ۱۸‏)‏ اسرائیلیوں نے تسلیم کِیا کہ وہ واقعی سزا کے لائق تھے۔‏ اُنہوں نے اپنے بارے میں کہا کہ وہ ایک ایسے بچھڑے کی طرح تھے جو ہل میں جُتنے سے انکار کر رہا تھا۔‏ ایک عالم نے اِس سلسلے میں کہا کہ شاید اسرائیلی یہ کہنا چاہ رہے تھے کہ اگر بچھڑا ہل میں جُتنے کو تیار ہو جاتا تو اُس کو لاٹھی بھی نہ پڑتی۔‏

پھر اسرائیلیوں نے کہا:‏ ‏”‏تُو مجھے پھیر تو مَیں پھروں گا کیونکہ تُو ہی [‏یہوواہ]‏ میرا خدا ہے۔‏“‏ ‏(‏آیت ۱۸‏)‏ اسرائیلیوں نے اپنی غلطی سے سبق سیکھ لیا تھا۔‏ اِس لئے وہ خدا کو پکار رہے تھے۔‏ وہ سیدھی راہ سے بھٹک گئے تھے اور اب وہ یہوواہ خدا سے مِنت کر رہے تھے کہ ”‏ہمیں دوبارہ سے اپنی قربت میں آنے دے۔‏“‏ پاک کلام کے ایک اَور ترجمے کے مطابق وہ خدا سے کہہ رہے تھے کہ ”‏تُو ہی ہمارا خدا ہے،‏ ہمیں پھر سے اپنا بنا لے۔‏“‏—‏کونٹیمپرری انگلش ورشن۔‏

اسرائیلیوں نے یہ بھی کہا کہ ‏”‏مَیں نے توبہ کی .‏ .‏ .‏ مَیں شرمندہ بلکہ پریشان خاطر ہوا۔‏“‏ ‏(‏آیت ۱۹‏)‏ اُن کو اِس بات پر بہت افسوس تھا کہ اُنہوں نے سنگین گُناہ کئے تھے۔‏ اُنہوں نے اپنے گُناہوں کو تسلیم کِیا۔‏ اُن کی شرمندگی اور افسردگی کی یہ حالت تھی کہ جیسے وہ خود کو پیٹ رہے ہوں۔‏—‏لوقا ۱۵:‏۱۸،‏ ۱۹،‏ ۲۱‏۔‏

اسرائیلی دل سے تائب تھے۔‏ اُن کے دل دُکھ سے بھرے ہوئے تھے۔‏ اُنہوں نے خدا کے سامنے اپنے گُناہوں کا اقرار کِیا اور بُری راہ سے توبہ کی۔‏ کیا خدا نے اُن کو معاف کر دیا اور پھر سے اپنا بنا لیا؟‏

‏”‏مَیں یقیناً اُس پر رحمت کروں گا“‏

یہوواہ خدا اسرائیلیوں سے بہت محبت کرتا تھا۔‏ اُس نے کہا:‏ ”‏مَیں اؔسرائیل کا باپ ہوں اور اؔفرائیم میرا پہلوٹھا ہے۔‏“‏ (‏یرمیاہ ۳۱:‏۹‏)‏ کیا ایک شفیق باپ اُس بیٹے کو نہیں اپنائے گا جو دل سے اپنی غلطی پر تائب ہو؟‏ غور کریں کہ یہوواہ خدا نے اسرائیلیوں کے لئے اپنے احساسات کا اِظہار کیسے کِیا۔‏

اُس نے کہا:‏ ‏”‏کیا اؔفرائیم میرا پیارا بیٹا ہے؟‏ کیا وہ پسندیدہ فرزند ہے؟‏ کیونکہ جب جب مَیں اُس کے خلاف کچھ کہتا ہوں تو اُسے جی‌جان سے یاد کرتا ہوں۔‏“‏ ‏(‏آیت ۲۰‏)‏ اِس سے پتہ چلتا ہے کہ یہوواہ خدا کو اسرائیلیوں سے کس قدر محبت تھی۔‏ وہ ایک باپ کی طرح تھا اور اسرائیلی اُس کے بیٹے کی طرح تھے۔‏ جس طرح ایک شفیق باپ اپنے بیٹے کو بُری راہ سے روکتا ہے اُسی طرح یہوواہ خدا نے باربار اپنے لوگوں کے خلاف کچھ کہا یعنی اُن کو گُناہوں سے باز آنے کو کہا۔‏ لیکن جب اسرائیلیوں نے خدا کی بات پر کان نہیں لگایا تو اُس نے اُنہیں اسیر ہونے دیا۔‏ خدا نے اسرائیلیوں کو سزا تو دی لیکن اُس نے اُن کو اپنے دل سے نہیں نکالا۔‏ بھلا ایک شفیق باپ اپنے بچوں کو کیسے بُھلا سکتا ہے؟‏ جب یہوواہ خدا نے دیکھا کہ اسرائیلی سچے دل سے تائب ہیں تو اُس کو کیسا لگا؟‏

اُس نے کہا:‏ ‏”‏میرا دل اُس کے لئے بےتاب ہے۔‏ مَیں یقیناً اُس پر رحمت کروں گا۔‏“‏ ‏(‏آیت ۲۰‏)‏ یہوواہ خدا چاہتا تھا کہ اسرائیلی اُس کی طرف لوٹ آئیں۔‏ جب اُنہوں نے سچے دل سے توبہ کی تو یہوواہ خدا اُن کے لئے بےتاب ہو گیا۔‏ یہوواہ خدا اُس باپ کی طرح تھا جس کا ذکر یسوع مسیح نے تائب بیٹے کی تمثیل میں کِیا تھا۔‏ اُس باپ کو اپنے بیٹے پر ”‏ترس آیا“‏ اور اُس نے بیٹے کے لوٹنے پر خوشی منائی۔‏ یہوواہ خدا نے بھی ایسا ہی محسوس کِیا۔‏—‏لوقا ۱۵:‏۲۰‏۔‏

‏”‏اَے یہوواہ خدا!‏ مجھے پھر سے اپنا بنا لے“‏

یرمیاہ ۳۱:‏۱۸-‏۲۰ میں درج بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہوواہ خدا بڑا شفیق اور رحم‌دل ہے۔‏ وہ اُن لوگوں کو کبھی نہیں بھولتا جو ایک زمانے میں اُس کی خدمت کرتے تھے۔‏ جب ایسے لوگ پھر سے اُس کی قربت میں آنا چاہتے ہیں تو یہوواہ خدا اُنہیں ”‏معاف کرنے کو تیار ہے۔‏“‏ (‏زبور ۸۶:‏۵‏)‏ وہ کبھی اُن لوگوں سے مُنہ نہیں موڑتا جو سچے دل سے تائب ہوتے ہیں۔‏ (‏زبور ۵۱:‏۱۷‏)‏ جب ایسے لوگ اُس کی طرف لوٹ آتے ہیں تو اُسے بڑی خوشی ہوتی ہے۔‏—‏لوقا ۱۵:‏۲۲-‏۲۴‏۔‏

جس خاتون کا ذکر مضمون کے شروع میں ہوا تھا،‏ اُس نے یہوواہ خدا کی طرف لوٹنے کے لئے پہلا قدم اُٹھایا اور یہوواہ کے گواہوں کے اجلاس پر گئی۔‏ شروع میں اُس کو اپنی منفی سوچ پر قابو پانا پڑا۔‏ وہ کہتی ہے:‏ ”‏مجھے لگتا تھا جیسے مَیں خدا کی خدمت کرنے کے لائق نہیں رہی۔‏“‏ لیکن کلیسیا کے بزرگوں نے اُس کا حوصلہ بڑھایا اور اُس کی مدد کی۔‏ یوں اُس کا ایمان دوبارہ سے مضبوط ہو گیا۔‏ یہ خاتون بہت ہی شکرگزار ہے۔‏ وہ کہتی ہے کہ ”‏مَیں بہت خوش ہوں کہ یہوواہ خدا نے مجھے پھر سے اپنا بنا لیا ہے۔‏“‏

اگر آپ بھی دوبارہ سے یہوواہ خدا کی خدمت کرنا چاہتے ہیں تو یہوواہ کے گواہوں کے اجلاس پر جائیں۔‏ وہاں آپ کی مدد کی جائے گی۔‏ یاد رکھیں کہ یہوواہ خدا اُن لوگوں کے ساتھ شفقت اور رحم سے پیش آتا ہے جو سچے دل سے پکارتے ہیں کہ ”‏اَے یہوواہ خدا!‏ مجھے پھر سے اپنا بنا لے۔‏“‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 5 اِس حملے سے کچھ صدیاں پہلے یعنی ۹۹۷ قبل‌ازمسیح میں بنی‌اسرائیل دو سلطنتوں میں بٹ گئے تھے۔‏ جو سلطنت جنوب میں واقع تھی،‏ وہ دو قبیلوں پر مشتمل تھی اور یہوداہ کی سلطنت کہلاتی تھی۔‏اور جو سلطنت شمال میں واقع تھی،‏ وہ دس قبیلوں پر مشتمل تھی اور اسرائیل کی سلطنت یا افرائیم کہلاتی تھی کیونکہ افرائیم اِس کا سب سے نمایاں قبیلہ تھا۔‏