مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

دغابازی—‏آخری زمانے کے نشان کا ایک پہلو

دغابازی—‏آخری زمانے کے نشان کا ایک پہلو

دغابازی—‏آخری زمانے کے نشان کا ایک پہلو

‏”‏مَیں نے وفاداری کی راہ اختیار کی ہے۔‏“‏—‏زبور ۱۱۹:‏۳۰‏۔‏

اِن سوالوں کے جواب تلاش کریں:‏

ہم دلیلہ،‏ ابی‌سلوم اور یہوداہ اسکریوتی سے کیا سبق سیکھتے ہیں؟‏

ہم یونتن اور پطرس رسول کی مثال پر کیسے عمل کر سکتے ہیں؟‏

ہم کیا کر سکتے ہیں تاکہ ہم ہمیشہ اپنے جیون‌ساتھی اور یہوواہ خدا کے وفادار رہیں؟‏

۱-‏۳.‏ ‏(‏الف)‏ آخری زمانے کے نشان کا ایک پہلو کیا ہے؟‏ (‏ب)‏ دغابازی میں کیا شامل ہے؟‏ (‏ج)‏ ہم کن تین سوالوں پر غور کریں گے؟‏

دلیلہ،‏ ابی‌سلوم اور یہوداہ اسکریوتی میں کون‌سی بات ایک جیسی تھی؟‏ یہ تینوں دغاباز تھے۔‏ دلیلہ نے قاضی سمسون سے دغا کِیا جو اُن سے بہت محبت کرتے تھے۔‏ ابی‌سلوم نے اپنے باپ داؤد کو دغا دیا اور یہوداہ اسکریوتی نے اپنے اُستاد یسوع مسیح کو دغا دیا۔‏ اِن تینوں کی دغابازی کی وجہ سے دوسروں کو بڑی مصیبت اُٹھانی پڑی۔‏ لیکن ہمیں اِن تینوں کی مثال پر کیوں غور کرنا چاہئے؟‏

۲ ایک مصنفہ کے مطابق دغابازی اُن بُرائیوں میں سے ایک ہے جو آج‌کل بہت عام ہیں۔‏ یہ کوئی حیرانی کی بات نہیں۔‏ پولس رسول نے کہا کہ ’‏اخیر زمانے‘‏ میں لوگ ”‏دغاباز“‏ ہوں گے۔‏ (‏۲-‏تیم ۳:‏۱،‏ ۴‏)‏ دغابازی میں کسی کو مکاری یا غداری سے دُشمن کے حوالے کرنا شامل ہو سکتا ہے۔‏ جب یسوع مسیح نے ”‏دُنیا کے آخر ہونے کا نشان“‏ دیا تو اُنہوں نے بھی کہا کہ لوگ ”‏ایک دوسرے کو پکڑوائیں گے۔‏“‏ (‏متی ۲۴:‏۳،‏ ۱۰‏)‏ دغابازی میں کسی سے بےوفائی کرنا بھی شامل ہے۔‏ آج‌کل بہت سے ناولوں اور فلموں کے ہیرو اور ہیروئن بےوفائی کرتے ہیں۔‏ اِن میں بےوفائی کو بڑے پُرکشش انداز میں پیش کِیا جاتا ہے۔‏ لیکن سچ یہ ہے کہ بےوفائی اور دغابازی بڑے نقصان اور تکلیف کا باعث بنتی ہیں۔‏ اِس دُنیا میں دغابازی بہت عام ہو گئی ہے۔‏ یہ اِس بات کا نشان ہے کہ ہم آخری زمانے میں رہ رہے ہیں۔‏

۳ ہم دلیلہ،‏ ابی‌سلوم اور یہوداہ اسکریوتی کی بُری مثال سے کیا سبق سیکھتے ہیں؟‏ بائبل میں وفاداری کی کون‌سی مثالیں دی گئی ہیں؟‏ ہمیں خاص طور پر کن کے وفادار رہنا چاہئے؟‏ آئیں،‏ اِن سوالوں پر غور کریں۔‏

بےوفائی اور دغابازی کی مثالیں

۴‏.‏ ‏(‏الف)‏ دلیلہ نے سمسون کو پکڑوانے کے لئے کیا کِیا؟‏ (‏ب)‏ دلیلہ کی حرکت شرمناک کیوں تھی؟‏

۴ آئیں،‏ سب سے پہلے ہم مکار عورت دلیلہ کی مثال پر غور کریں۔‏ قاضی سمسون کو دلیلہ سے محبت ہو گئی تھی۔‏ سمسون،‏ فلستیوں سے لڑنا چاہتے تھے جو خدا کے لوگوں پر ظلم کرتے تھے۔‏ لگتا ہے کہ فلستیوں کے پانچ سرداروں کو اِس بات کی بھنک پڑ گئی تھی کہ دلیلہ،‏ سمسون سے سچی محبت نہیں کرتیں۔‏ اُنہوں نے دلیلہ سے کہا کہ ”‏اگر تُم سمسون کی طاقت کا راز معلوم کرکے ہمیں بتاؤ گی تو ہم تمہیں بہت بڑی رقم دیں گے۔‏“‏ پیسوں کی لالچی اِس عورت نے اُن سرداروں کی پیشکش کو قبول کر لیا۔‏ وہ سمسون کو پھسلا کر اُن کی طاقت کا راز معلوم کرنے کی کوشش کرنے لگیں لیکن وہ تین بار ناکام ہوئیں۔‏ اِس کے باوجود ”‏وہ اُسے روز اپنی باتوں سے تنگ اور مجبور کرنے لگی۔‏“‏ یہاں تک کہ سمسون کا ”‏دَم ناک میں آ گیا۔‏“‏ اِس لئے سمسون نے دلیلہ کو بتا دیا کہ ”‏میرے سر پر اُسترہ نہیں پھرا ہے۔‏ .‏ .‏ .‏ سو اگر میرا سر مونڈا جائے تو میرا زور مجھ سے جاتا رہے گا۔‏“‏ * سمسون کی طاقت کا راز دلیلہ پر کُھل چُکا تھا۔‏ لہٰذا جب وہ دلیلہ کی گود میں سر رکھے سو رہے تھے تو دلیلہ نے سمسون کے بال کٹوا دئے اور اُنہیں دُشمنوں کے حوالے کر دیا تاکہ وہ سمسون کے ساتھ جو چاہیں کریں۔‏ (‏قضا ۱۶:‏۴،‏ ۵،‏ ۱۵-‏۲۱‏)‏ دلیلہ کی یہ حرکت کتنی شرمناک تھی!‏ اُنہوں نے پیسوں کے لالچ میں آکر اُس شخص سے بےوفائی کی جو اُن پر جان چھڑکتا تھا۔‏

۵‏.‏ ‏(‏الف)‏ ابی‌سلوم نے داؤد کو دغا کیسے دیا؟‏ (‏ب)‏ داؤد نے اخیتفل کی غداری کے بارے میں کیسا محسوس کِیا؟‏

۵ اگلی مثال غدار ابی‌سلوم کی ہے۔‏ اختیار حاصل کرنے کی ہوس میں ابی‌سلوم نے اپنے باپ داؤد کا تختہ اُلٹنے کی ٹھان لی۔‏ اپنے مقصد کو پانے کے لئے وہ لوگوں سے جھوٹے وعدے کرتے اور ہمدردی کا ڈھونگ رچاتے۔‏ وہ لوگوں کو گلے لگانے اور اُنہیں چومنے سے یہ تاثر دیتے کہ اُنہیں اُن کی بڑی فکر ہے۔‏ یوں اُنہوں نے ”‏اِسرائیل کے لوگوں کے دل موہ لئے۔‏“‏ (‏۲-‏سمو ۱۵:‏۲-‏۶‏)‏ اُنہوں نے داؤد کے نہایت وفادار ساتھی اخیتفل کو بھی بغاوت کرنے پر راضی کر لیا۔‏ (‏۲-‏سمو ۱۵:‏۳۱‏)‏ داؤد نے زبور ۳ اور ۵۵ میں بتایا کہ اُنہیں ابی‌سلوم اور اخیتفل کی دغابازی سے کتنا دُکھ ہوا تھا۔‏ (‏زبور ۳:‏۱-‏۸؛‏ زبور ۵۵:‏۱۲-‏۱۴ کو پڑھیں۔‏)‏ ابی‌سلوم نے یہوواہ خدا کے مقررہ بادشاہ کے خلاف سازش کرکے یہ ظاہر کِیا کہ اُن کی نظر میں یہوواہ خدا کے اختیار کی کوئی قدر نہیں ہے۔‏ (‏۱-‏توا ۲۸:‏۵‏)‏ آخرکار ابی‌سلوم کی بغاوت ناکام ہو گئی اور داؤد،‏ یہوواہ خدا کے مقررہ بادشاہ کے طور پر حکمرانی کرتے رہے۔‏

۶‏.‏ ‏(‏الف)‏ یہوداہ اسکریوتی نے یسوع مسیح کو پکڑوانے کے لئے کیا کِیا؟‏ (‏ب)‏ بعض ملکوں میں نام یہوداہ کیسے شخص کے لئے استعمال کِیا جاتا ہے؟‏

۶ اب ذرا یہوداہ اسکریوتی کی مثال پر غور کریں۔‏ اُنہوں نے اپنے اُستاد یسوع مسیح کے ساتھ غداری کی۔‏ جب یسوع مسیح اپنے ۱۲ رسولوں کے ساتھ آخری عیدِفسح منا رہے تھے تو اُنہوں نے بتایا:‏ ”‏مَیں تُم سے سچ کہتا ہوں کہ تُم میں سے ایک مجھے پکڑوائے گا۔‏“‏ (‏متی ۲۶:‏۲۱‏)‏ اُسی رات گتسمنی کے باغ میں یسوع مسیح نے پطرس،‏ یعقوب اور یوحنا سے کہا:‏ ”‏دیکھو میرا پکڑوانے والا نزدیک آ پہنچا ہے۔‏“‏ یسوع مسیح ابھی یہ کہہ ہی رہے تھے کہ یہوداہ اسکریوتی ایک بڑے ہجوم کے ساتھ آئے اور ”‏فوراً .‏ .‏ .‏ یسوؔع کے پاس آ کر کہا اَے ربّی سلام!‏ اور اُس کے بوسے لئے۔‏“‏ (‏متی ۲۶:‏۴۶-‏۵۰؛‏ لو ۲۲:‏۴۷،‏ ۵۲‏)‏ یہوداہ نے ”‏بےقصور کو قتل کے لئے پکڑوایا۔‏“‏ یہوداہ نے کتنے پیسوں کے لئے اپنے اُستاد سے غداری کی؟‏ صرف ۳۰ روپوں [‏یعنی چاندی کے سکوں]‏ کے لئے۔‏(‏متی ۲۷:‏۳-‏۵‏)‏ تب سے یہوداہ غداری کی ایک مثال بن کر رہ گئے ہیں۔‏ بعض ملکوں میں تو نام یہوداہ اُس شخص کے لئے استعمال کِیا جاتا ہے جو غداری کرتا ہے،‏ خاص طور پر وہ جو دوستی کی آڑ میں ایسا کرے۔‏

۷‏.‏ ‏(‏الف)‏ ہم ابی‌سلوم اور یہوداہ اسکریوتی کی مثال سے کیا سبق سیکھتے ہیں؟‏ (‏ب)‏ ہم دلیلہ کی مثال سے کیا سیکھتے ہیں؟‏

۷ ہم نے دلیلہ،‏ ابی‌سلوم اور یہوداہ اسکریوتی کی مثال سے کیا سبق سیکھا ہے؟‏ ابی‌سلوم اور یہوداہ اسکریوتی نے یہوواہ خدا کے ممسوح سے غداری کی تھی۔‏ اِس لئے اُن کا انجام بہت شرمناک ہوا۔‏ (‏۲-‏سمو ۱۸:‏۹،‏ ۱۴-‏۱۷؛‏ اعما ۱:‏۱۸-‏۲۰‏)‏ دلیلہ کو بھی ہمیشہ بےوفائی اور جھوٹی محبت کی مثال کے طور پر یاد کِیا جاتا ہے۔‏ (‏زبور ۱۱۹:‏۱۵۸‏)‏ لہٰذا یہ بہت اہم ہے کہ ہم اختیار کی ہوس اور پیسوں کے لالچ سے دُور بھاگیں۔‏ اِن کی وجہ سے ہم یہوواہ خدا کی خوشنودی سے محروم ہو سکتے ہیں۔‏ واقعی اِن تینوں مثالوں پر غور کرنے سے ہمیں یہ ترغیب ملتی ہے کہ ہم کسی بھی صورت میں کسی سے بےوفائی یا دغابازی نہ کریں۔‏

وفاداری کی مثالیں

۸،‏ ۹.‏ ‏(‏الف)‏ یونتن نے داؤد کے وفادار رہنے کا عہد کیوں کر لیا تھا؟‏ (‏ب)‏ ہم یونتن کی مثال پر کیسے عمل کر سکتے ہیں؟‏

۸ بائبل میں بہت سے وفادار لوگوں کا بھی ذکر کِیا گیا ہے۔‏ آئیں،‏ اِن میں سے دو کی مثال پر غور کریں اور دیکھیں کہ ہم اِن سے کیا سیکھتے ہیں۔‏ پہلے ہم یونتن کی مثال پر غور کرتے ہیں جنہوں نے یہ ثابت کِیا کہ وہ داؤد کے وفادار تھے۔‏ یونتن،‏ بادشاہ ساؤل کے بڑے بیٹے تھے اور ساؤل کے بعد اسرائیل کے تخت کے وارث تھے۔‏ لیکن یہوواہ خدا نے فیصلہ کر لیا تھا کہ ساؤل کے بعد داؤد،‏ اسرائیل کے بادشاہ ہوں گے۔‏ یونتن نے خدا کے فیصلے کا احترام کِیا اور داؤد سے حسد نہیں کِیا۔‏ ”‏یونتنؔ کا دل داؔؤد کے دل سے .‏ .‏ .‏ مل گیا“‏ تھا اور اُنہوں نے داؤد کے وفادار رہنے کا عہد کر لیا تھا۔‏ اُنہوں نے اپنی پوشاک،‏ تلوار،‏ کمان اور کمربند تک داؤد کو دے دیا اور یوں اُنہیں عزت بخشی۔‏ (‏۱-‏سمو ۱۸:‏۱-‏۴‏)‏ یونتن نے داؤد کا”‏ہاتھ مضبوط“‏ کرنے کے لئے وہ سب کچھ کِیا جو وہ کر سکتے تھے۔‏ یہاں تک کہ اُنہوں نے داؤد کو اپنے باپ سے بچانے کے لئے اپنی جان بھی خطرے میں ڈال دی۔‏ یونتن نے داؤد سے کہا:‏ ”‏تُو اؔسرائیل کا بادشاہ ہوگا اور مَیں تجھ سے دوسرے درجے پر ہوں گا۔‏“‏ (‏۱-‏سمو ۲۰:‏۳۰-‏۳۴؛‏ ۲۳:‏۱۶،‏ ۱۷‏)‏ یقیناً داؤد نے یونتن کی وفاداری کی بہت قدر کی۔‏یہاں تک کہ یونتن کی موت کے بعد اُنہوں نے ایک نہایت درد بھری نظم لکھی جس میں اُنہوں نے اپنے شدید غم کا اِظہار کِیا۔‏—‏۲-‏سمو ۱:‏۱۷،‏ ۲۶‏۔‏

۹ یونتن کو معلوم تھا کہ اُنہیں اپنے باپ کی بجائے یہوواہ خدا کا وفادار رہنا چاہئے اور اُس کا حکم ماننا چاہئے۔‏ اُنہوں نے اِس لئے داؤد کی پوری حمایت کی کیونکہ وہ یہوواہ خدا کے ممسوح تھے۔‏ اِس مثال سے ہم یہ سیکھتے ہیں کہ اگر کلیسیا میں ہمارے پاس کوئی خاص ذمہ‌داری نہ بھی ہو تو بھی ہمیں اُن بھائیوں کی پوری حمایت کرنی چاہئے جنہیں ہماری نگہبانی کرنے کے لئے مقرر کِیا گیا ہے۔‏—‏۱-‏تھس ۵:‏۱۲،‏ ۱۳؛‏ عبر ۱۳:‏۱۷،‏ ۲۴‏۔‏

۱۰،‏ ۱۱.‏ ‏(‏الف)‏ پطرس رسول،‏ یسوع مسیح کے وفادار کیوں رہے؟‏ (‏ب)‏ اگر ہمیں ”‏دیانت‌دار اور عقل‌مند داروغہ“‏ کی کوئی بات سمجھ نہیں آتی تو ہم پطرس رسول کی مثال پر کیسے عمل کر سکتے ہیں؟‏

۱۰ آئیں،‏ اب پطرس رسول کی عمدہ مثال پر غور کریں۔‏اُنہوں نے یہ عزم کر رکھا تھا کہ وہ ہمیشہ یسوع مسیح کے وفادار رہیں گے۔‏ ایک مرتبہ یسوع مسیح نے کہا کہ جو کوئی اُن کا گوشت کھائے گا اور اُن کا خون پیئے گا،‏ وہ ہمیشہ کی زندگی پائے گا۔‏ ایسی علامتی زبان استعمال کرنے سے یسوع مسیح نے اِس بات پر زور دیا کہ جو قربانی وہ دیں گے،‏ اُس پر ایمان لانا بہت ضروری ہے۔‏ لیکن اُن کے بہت سے شاگردوں کو یسوع مسیح کی یہ بات ناگوار معلوم ہوئی اور وہ اُن کا ساتھ چھوڑ کر چلے گئے۔‏ (‏یوح ۶:‏۵۳-‏۶۰،‏ ۶۶‏)‏ اِس پر یسوع مسیح نے ۱۲ رسولوں سے پوچھا:‏ ”‏کیا تُم بھی چلا جانا چاہتے ہو؟‏“‏ پطرس رسول نے جواب دیا:‏ ”‏اَے خداوند!‏ ہم کس کے پاس جائیں؟‏ ہمیشہ کی زندگی کی باتیں تو تیرے ہی پاس ہیں۔‏ اور ہم ایمان لائے اور جان گئے ہیں کہ خدا کا قدوس تُو ہی ہے۔‏“‏ (‏یوح ۶:‏۶۷-‏۶۹‏)‏ کیا اِس کا مطلب یہ ہے کہ پطرس رسول کو وہ ساری باتیں سمجھ میں آ گئی تھیں جو یسوع مسیح نے اِس موقع پر کہی تھیں؟‏ غالباً نہیں۔‏ پھر بھی پطرس رسول نے یہ فیصلہ کِیا کہ وہ خدا کے بیٹے کے وفادار رہیں گے۔‏

۱۱ پطرس رسول نے یہ نہیں سوچا کہ یسوع مسیح کی بات غلط ہے اور جب یسوع مسیح کو اپنی غلطی کا احساس ہوگا تو وہ اپنے الفاظ واپس لے لیں گے۔‏ اُنہوں نے بڑی عاجزی سے یسوع مسیح سے کہا کہ ”‏ہمیشہ کی زندگی کی باتیں تو تیرے ہی پاس ہیں۔‏“‏ آج بھی کبھی‌کبھار ”‏دیانت‌دار اور عقل‌مند داروغہ“‏ کی کتابوں یا رسالوں میں کچھ ایسی باتیں لکھی ہوتی ہیں جو ہمیں سمجھ نہیں آتیں یا جن سے ہم متفق نہیں ہوتے۔‏ ایسی صورت میں ہم کیسا ردِعمل دِکھاتے ہیں؟‏ ہمیں یہ توقع نہیں کرنی چاہئے کہ کچھ وقت کے بعد عقل‌مند داروغہ اِن باتوں کی ایسی وضاحت پیش کرے گا جو ہماری سوچ کے مطابق ہوگی۔‏ اِس کی بجائے ہمیں عقل‌مند داروغہ کی طرف سے پیش کی گئی وضاحت کو سمجھنے کی پوری کوشش کرنی چاہئے۔‏‏—‏لوقا ۱۲:‏۴۲ کو پڑھیں۔‏

اپنے جیون‌ساتھی کے وفادار رہیں

۱۲،‏ ۱۳.‏ ‏(‏الف)‏ ایک شخص اپنے جیون‌ساتھی سے بےوفائی کرنے کے خطرے میں کیوں پڑ سکتا ہے؟‏ (‏ب)‏ ہمیں اپنی عمر کو اپنے جیون‌ساتھی سے بےوفائی کرنے کا بہانہ کیوں نہیں بنانا چاہئے؟‏

۱۲ کسی سے بےوفائی کرنا یا دغابازی کرنا شرمناک بات ہے۔‏ اِس کی وجہ سے ہمارے خاندان اور کلیسیا کا امن اور اتحاد خطرے میں پڑ سکتا ہے۔‏ اِس بات کو ذہن میں رکھتے ہوئے آئیں،‏ دیکھیں کہ ہم اپنے جیون‌ساتھی اور یہوواہ خدا کے وفادار کیسے رہ سکتے ہیں۔‏

۱۳ بےوفائی کی سب سے نقصان‌دہ قسم زناکاری ہے۔‏ زناکار شخص اپنے جیون‌ساتھی کے ساتھ کئے گئے عہد کو توڑ کر کسی اَور کو چاہتا ہے۔‏ اُس کا جیون‌ساتھی تنہا ہو جاتا ہے اور اُس کی زندگی درہم‌برہم ہو جاتی ہے۔‏ ایسے میاں‌بیوی جو کبھی ایک دوسرے سے محبت کرتے تھے،‏ آخر اُن کے رشتے میں دراڑ کیوں پڑ جاتی ہے؟‏ اکثر اِس بربادی کا آغاز تب ہوتا ہے جب شوہر اور بیوی میں دُوریاں پیدا ہو جاتی ہیں۔‏ ایک پروفیسر اِس سلسلے میں کہتی ہیں کہ جو لوگ اپنے ازدواجی بندھن کو مضبوط بنانے کی کوشش کرنا چھوڑ دیتے ہیں،‏ وہ اپنے جیون‌ساتھی سے بےوفائی کرنے کے خطرے میں پڑ سکتے ہیں۔‏ یہ ایسے میاں‌بیوی کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے جن کی شادی کو کافی عرصہ ہو چُکا ہے۔‏ مثال کے طور پر ۵۰ سال کے ایک آدمی نے ۲۵ سال کے بعد اپنی بیوی کو طلاق دے دی کیونکہ وہ کسی دوسری عورت کے چکر میں پڑ گیا تھا۔‏ بعض شاید یہ سوچیں کہ اُدھیڑ عمر میں تو لوگ اکثر ایسا کر بیٹھتے ہیں۔‏ لیکن ہمیں اپنی عمر کو اپنے جیون‌ساتھی سے بےوفائی کرنے کا بہانہ نہیں بنانا چاہئے۔‏ بےوفائی تو بےوفائی ہی ہے،‏ چاہے وہ کسی بھی عمر میں کی جائے۔‏

۱۴.‏ ‏(‏الف)‏ یہوواہ خدا اُن لوگوں کو کیسا خیال کرتا ہے جو اپنے جیون‌ساتھی سے بےوفائی کرتے ہیں؟‏(‏ب)‏ یسوع مسیح نے یہ کیسے واضح کِیا کہ اپنے جیون‌ساتھی سے بےوفائی کرنا ایک سنگین بات ہے؟‏

۱۴ پاک کلام میں صرف ایک وجہ بتائی گئی ہے جس کی بِنا پر شوہر یا بیوی طلاق دے سکتے ہیں۔‏ لیکن یہوواہ خدا ایسے لوگوں کو کیسا خیال کرتا ہے جو کسی اَور وجہ سے اپنے جیون‌ساتھی کو چھوڑتے ہیں؟‏ خدا کے کلام میں لکھا ہے کہ وہ ”‏طلاق سے بیزار“‏ ہے۔‏ اُس نے اُن لوگوں کو ملامت کی جنہوں نے اپنے جیون‌ساتھی سے بےوفائی کی اور اُس پر ظلم کِیا۔‏ ‏(‏ملاکی ۲:‏۱۳-‏۱۶ کو پڑھیں۔‏)‏ اپنے باپ کی طرح یسوع مسیح نے بھی واضح کِیا کہ اپنے جیون‌ساتھی سے بےوفائی کرنا یا اُسے چھوڑ دینا بہت سنگین بات ہے۔‏‏—‏متی ۱۹:‏۳-‏۶،‏ ۹ کو پڑھیں۔‏

۱۵.‏ شوہر اور بیوی کیا کر سکتے ہیں تاکہ وہ ایک دوسرے سے بےوفائی کرنے کے خطرے میں نہ پڑیں؟‏

۱۵ شوہر اور بیوی کیا کر سکتے ہیں تاکہ وہ ایک دوسرے سے بےوفائی کرنے کے خطرے میں نہ پڑیں؟‏ خدا کے کلام میں لکھا ہے:‏ ”‏اپنی جوانی کی بیوی [‏یا شوہر]‏ کے ساتھ شاد رہ۔‏“‏ یہوواہ خدا چاہتا ہے کہ شوہر اور بیوی اپنی ”‏زندگی کے سب دن“‏ ایک دوسرے سے محبت کریں۔‏ (‏امثا ۵:‏۱۸؛‏ واعظ ۹:‏۹‏)‏ وقت گزرنے کے ساتھ‌ساتھ شوہر اور بیوی کو اپنے ازدواجی بندھن کو مضبوط بنانے کی کوشش جاری رکھنی چاہئے۔‏ اُنہیں جسمانی اور جذباتی طور پر ایک دوسرے سے دُور نہیں ہونا چاہئے۔‏ اِس کا مطلب ہے کہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ مہربانی سے پیش آئیں،‏ ایک دوسرے کی ضروریات کا خیال رکھیں اور ایک دوسرے کے ساتھ وقت گزاریں۔‏ اُنہیں اپنے ازدواجی بندھن کو قائم رکھنے اور یہوواہ خدا کی قربت میں رہنے کے لئے سخت کوشش کرنی چاہئے۔‏ اِس کے لئے ضروری ہے کہ شوہر اور بیوی مل کر بائبل کا مطالعہ کریں،‏ مل کر مُنادی کا کام کریں اور مل کر دُعا کریں۔‏

یہوواہ خدا کے وفادار رہیں

۱۶،‏ ۱۷.‏ ‏(‏الف)‏ کس صورت میں یہوواہ خدا کے لئے ہماری وفاداری کا اِمتحان ہوتا ہے؟‏ (‏ب)‏ جب ہم خدا کے حکم پر عمل کرتے ہوئے اپنے خارج‌شُدہ رشتہ‌دار سے کنارہ کرتے ہیں تو کیا فائدہ ہوتا ہے؟‏

۱۶ کلیسیا کے بعض رُکن ایسے ہیں جنہوں نے ماضی میں کوئی سنگین گُناہ کِیا اور ’‏اُنہیں سخت ملامت کی گئی تاکہ اُن کا ایمان درست ہو جائے۔‏‘‏ (‏طط ۱:‏۱۳‏)‏ کچھ رُکن تو اِس حد تک بگڑ گئے تھے کہ بزرگوں کو اُنہیں کلیسیا سے خارج کرنا پڑا۔‏ لیکن جو اصلاح کو ”‏سہتے سہتے پُختہ“‏ ہو گئے،‏ وہ پھر سے یہوواہ خدا کی قربت میں آ گئے اور اُنہیں دوبارہ سے کلیسیا میں شامل کر لیا گیا۔‏ (‏عبر ۱۲:‏۱۱‏)‏ جب ہمارے کسی رشتہ‌دار یا دوست کو کلیسیا سے خارج کِیا جاتا ہے تو ہمارا ردِعمل کیسا ہوتا ہے؟‏ اِس صورت میں ہماری وفاداری کا اِمتحان ہوتا ہے۔‏ ہمیں یہ ثابت کرنا ہوتا ہے کہ ہم یہوواہ خدا کے وفادار ہیں۔‏ اُس کا حکم ہے کہ ہم کسی بھی ایسے شخص سے تعلق نہ رکھیں جسے کلیسیا سے خارج کر دیا گیا ہے۔‏ اور وہ غور سے دیکھتا ہے کہ آیا ہم اُس کا حکم مانیں گے یا نہیں۔‏‏—‏۱-‏کرنتھیوں ۵:‏۱۱-‏۱۳ کو پڑھیں۔‏

۱۷ جب ہم خدا کے حکم پر عمل کرتے ہوئے خارج‌شُدہ شخص سے کنارہ کرتے ہیں تو اِس سے بڑا فائدہ ہوتا ہے۔‏ اِس سلسلے میں ایک جوان آدمی کی مثال پر غور کریں جسے کلیسیا سے خارج ہوئے دس سال سے زیادہ عرصہ ہو گیا تھا۔‏ اِس عرصے کے دوران اُس کے ماں‌باپ اور چار بھائیوں نے اُس کے ساتھ بالکل ’‏صحبت نہ رکھی۔‏‘‏ بعض اوقات وہ اپنے گھر والوں کے ساتھ وقت گزارنے کی کوشش کرتا مگر اُس کے سب گھر والوں نے عزم کر رکھا تھا کہ وہ اُس کے ساتھ کسی قسم کا رابطہ نہیں رکھیں گے۔‏ جب اُسے دوبارہ کلیسیا میں شامل کر لیا گیا تو اُس نے کہا کہ ”‏میرا اپنے گھر والوں سے ملنے کو بہت جی چاہتا تھا۔‏ خاص طور پر جب مَیں رات کو اکیلا ہوتا تھا تو مجھے اُن کی یاد بہت ستاتی تھی۔‏“‏ لیکن اُس نے تسلیم کِیا کہ ”‏اگر میرے گھر والے میرے ساتھ ذرا سا بھی میل‌جول رکھتے تو میرے لئے یہ کافی ہوتا۔‏ مگر اُنہوں نے ایسا نہیں کِیا۔‏“‏ اُسے اپنے گھر والوں سے ملنے کی بڑی تڑپ تھی۔‏ یہ ایک وجہ تھی جس کی بِنا پر اُس نے دوبارہ یہوواہ خدا کے نزدیک آنے کا فیصلہ کِیا۔‏ اگر آپ کا کوئی دوست یا رشتہ‌دار کلیسیا سے خارج ہو جائے اور آپ کو اُس سے میل‌جول نہ رکھنے کے سلسلے میں خدا کا حکم ماننا مشکل لگے تو اِس مثال کو یاد رکھیں۔‏

۱۸.‏ وفاداری کی مثالوں اور بےوفائی کی مثالوں پر غور کرنے کے بعد آپ نے کیا کرنے کا عزم کِیا ہے؟‏

۱۸ ہم ایک ایسی دُنیا میں رہتے ہیں جس میں بہت سے لوگ دغاباز اور بےوفا ہیں۔‏ لیکن کلیسیا میں ہمارے بہن‌بھائی وفاداری کی زندہ مثالیں ہیں۔‏ اُن کی زندگی اِس بات کا مُنہ بولتا ثبوت ہے کہ اُنہوں نے ”‏وفاداری کی راہ اختیار کی ہے۔‏“‏ (‏زبور ۱۱۹:‏۳۰‏)‏ آئیں،‏ یہ عزم کریں کہ ہم ہمیشہ یہوواہ خدا اور ایک دوسرے کے وفادار رہیں گے۔‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 4 سمسون کی طاقت اُن کے بالوں میں نہیں تھی۔‏ وہ دراصل یہوواہ خدا کے نذیر تھے یعنی خدا نے اُنہیں اپنی خاص خدمت کے لئے چنا تھا۔‏ اِسی وجہ سے خدا نے اُنہیں طاقت دی تھی۔‏ اُن کے بال صرف اُن کے نذیر ہونے کی علامت تھے۔‏

‏[‏مطالعے کے سوالات]‏

‏[‏صفحہ ۱۹ پر تصویر]‏

حالانکہ بہت سے شاگرد یسوع مسیح کو چھوڑ کر چلے گئے تھے پھر بھی پطرس رسول،‏ یسوع مسیح کے وفادار رہے۔‏