مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

خدا کے وعدوں سے فائدہ حاصل کریں

خدا کے وعدوں سے فائدہ حاصل کریں

خدا کے وعدوں سے فائدہ حاصل کریں

‏”‏جب خدا نے اؔبرہام سے وعدہ کرتے وقت قسم کھانے کے واسطے کسی کو اپنے سے بڑا نہ پایا تو اپنی ہی قسم [‏کھائی]‏۔‏“‏—‏عبر ۶:‏۱۳‏۔‏

اِن سوالوں کے جواب تلاش کریں:‏

ہم اِس بات پر بھروسا کیوں رکھ سکتے ہیں کہ زمین کے لئے خدا کا مقصد پورا ہوگا؟‏

آدم اور حوا کی بغاوت کے بعد خدا نے کیا وعدہ کِیا؟‏

ہمیں اُس قسم سے کیا فائدہ ہوتا ہے جو خدا نے ابرہام سے کھائی تھی؟‏

۱.‏ یہوواہ خدا کے وعدوں اور گنہگار انسان کے وعدوں میں کیا فرق ہے؟‏

یہوواہ ’‏سچائی کا خدا‘‏ ہے۔‏ (‏زبور ۳۱:‏۵‏)‏ گنہگار انسان تو کبھی‌کبھار جھوٹ بولتے ہیں لیکن ”‏خدا کا جھوٹ بولنا ممکن نہیں۔‏“‏ (‏عبر ۶:‏۱۸؛‏ گنتی ۲۳:‏۱۹ کو پڑھیں۔‏)‏ وہ انسانوں کے لئے جو بھی کرنے کا وعدہ کرتا ہے،‏ وہ اِسے پورا بھی کرتا ہے۔‏ مثال کے طور پر خدا نے کائنات کو چھ دن میں بنایا۔‏ اُس نے ہر دن کے شروع میں بتایا کہ وہ اُس دن کیا بنائے گا۔‏ اور بالکل ”‏ایسا ہی ہوا۔‏“‏ چھٹے دن کے آخر میں ”‏خدا نے سب پر جو اُس نے بنایا تھا نظر کی اور دیکھا کہ بہت اچھا ہے۔‏“‏—‏پید ۱:‏۶،‏ ۷،‏ ۳۰،‏ ۳۱‏۔‏

۲.‏ خدا کے آرام کا دن کیا ہے؟‏ اور خدا نے اُس دن کو مُقدس کیوں ٹھہرایا؟‏

۲ اپنی ساری تخلیق پر نظر کرنے کے بعد خدا نے بتایا کہ وہ ساتویں دن کے دوران آرام کرے گا اور زمین پر مزید کوئی چیز خلق نہیں کرے گا۔‏ (‏پید ۲:‏۲‏)‏ ساتواں دن ۲۴ گھنٹے کا دن نہیں بلکہ ایک لمبا عرصہ ہے۔‏ آرام کا یہ دن ابھی بھی جاری ہے۔‏ (‏عبر ۴:‏۹،‏ ۱۰‏)‏ بائبل میں یہ تو نہیں بتایا گیا کہ یہ دن کب شروع ہوا لیکن ہم اِتنا ضرور جانتے ہیں کہ یہ دن حوا کی تخلیق کے بعد شروع ہوا تھا۔‏ اور اب اِس واقعے کو تقریباً ۶۰۰۰ سال ہو گئے ہیں۔‏ بہت جلد مسیح کی ہزارسالہ حکمرانی شروع ہونے والی ہے۔‏ اِس عرصے کے دوران خدا زمین کو فردوس بنائے گا اور گُناہ سے پاک انسان ہمیشہ تک اِس میں آباد رہیں گے۔‏ (‏پید ۱:‏۲۷،‏ ۲۸؛‏ مکا ۲۰:‏۶‏)‏ کیا آپ یہ یقین رکھ سکتے ہیں کہ مستقبل میں واقعی ایسا ہوگا؟‏ جی،‏ کیونکہ ”‏خدا نے ساتویں دن کو برکت دی اور اُسے مُقدس ٹھہرایا۔‏“‏ یوں اُس نے اِس بات کی ضمانت دی کہ چاہے کچھ بھی ہو جائے،‏ ساتویں دن کے آخر تک زمین کے لئے اُس کا مقصد پورا ہوگا۔‏—‏پید ۲:‏۳‏۔‏

۳.‏ ‏(‏الف)‏ خدا کے آرام کا دن شروع ہونے کے بعد کیا مسئلہ کھڑا ہوا؟‏ (‏ب)‏ یہوواہ خدا نے کیسے ظاہر کِیا کہ بغاوت کو ختم کِیا جائے گا؟‏

۳ ابھی خدا کے آرام کا دن شروع ہی ہوا تھا کہ شیطان نے خدا کے خلاف بغاوت کر دی۔‏ شیطان دراصل ایک فرشتہ تھا جو یہ چاہتا تھا کہ خدا کی بجائے اُس کی عبادت کی جائے۔‏ سب سے پہلا جھوٹ اُسی نے بولا اور یوں اُس نے حوا کو خدا کی نافرمانی کرنے پر اُکسایا۔‏ (‏۱-‏تیم ۲:‏۱۴‏)‏ حوا نے اپنے شوہر کو بھی اِس بغاوت میں شامل کر لیا۔‏ (‏پید ۳:‏۱-‏۶‏)‏ شیطان خدا پر یہ الزام لگا رہا تھا کہ وہ جھوٹا ہے۔‏ پھر بھی خدا نے یہ ضرورت محسوس نہیں کی کہ وہ قسم کھا کر اِس بات کی تصدیق کرے کہ اُس کے وعدے ضرور پورے ہوں گے۔‏ اِس کی بجائے اُس نے صرف یہ پیشین‌گوئی کی کہ بغاوت کو کیسے ختم کِیا جائے گا۔‏ اُس نے کہا:‏ ”‏مَیں تیرے [‏یعنی شیطان]‏ اور عورت کے درمیان اور تیری نسل اور عورت کی نسل کے درمیان عداوت ڈالوں گا۔‏ وہ [‏یعنی ”‏نسل“‏]‏ تیرے سر کو کچلے گا اور تُو اُس کی ایڑی پر کاٹے گا۔‏“‏ وقت کے ساتھ‌ساتھ واضح ہو گیا کہ اِس پیشین‌گوئی کا مطلب کیا ہے۔‏—‏پید ۳:‏۱۵؛‏ مکا ۱۲:‏۹‏۔‏

قسم کھانے کا مقصد

۴،‏ ۵.‏ ابرہام نے کبھی‌کبھار اپنی بات کی تصدیق کرنے کے لئے کیا کِیا؟‏

۴ ہو سکتا ہے کہ آدم اور حوا لفظ قسم سے واقف ہی نہیں تھے کیونکہ اُس وقت تک کسی کو اپنی بات کی سچائی ثابت کرنے کے لئے قسم کھانے کی ضرورت نہیں پڑی تھی۔‏ بےعیب انسان جو خدا سے محبت کرتے ہیں اور اُس کی مثال پر عمل کرتے ہیں،‏ وہ ہمیشہ سچ بولتے ہیں اور ایک دوسرے پر بھروسا کرتے ہیں۔‏ لیکن جب آدم اور حوا نے گُناہ کِیا تو صورتحال بدل گئی۔‏ جیسے جیسے انسانوں میں جھوٹ اور فریب عام ہو گیا،‏ وہ اہم معاملات کے سلسلے میں قسم اُٹھا کر یہ تصدیق کرنے لگے کہ اُن کی بات سچ ہے۔‏

۵ ابرہام نے بھی کم سے کم تین مختلف موقعوں پر قسم کھائی۔‏ (‏پید ۲۱:‏۲۲-‏۲۴؛‏ ۲۴:‏۲-‏۴،‏ ۹‏)‏ مثال کے طور پر ایک موقعے پر وہ عیلام کے بادشاہ اور اُس کی حمایت کرنے والے بادشاہوں کو شکست دے کر لوٹے۔‏ سالم اور سدوم کے بادشاہ ابرہام سے ملنے کے لئے آئے۔‏ سالم کے بادشاہ ملکِ‌صدق ’‏خداتعالےٰ کے کاہن‘‏ بھی تھے۔‏ اِس حیثیت سے اُنہوں نے ابرہام کو برکت دی اور خدا کی ستائش کی کہ اُس نے ابرہام کو فتح بخشی۔‏ (‏پید ۱۴:‏۱۷-‏۲۰‏)‏ سدوم کا بادشاہ ابرہام کو انعام دینا چاہتا تھا کیونکہ ابرہام نے اُس کے لوگوں کو بچایا تھا۔‏ اِس پر ابرہام نے کہا:‏ ”‏مَیں نے [‏یہوواہ]‏ خداتعالیٰ آسمان اور زمین کے مالک کی قسم کھائی ہے کہ مَیں نہ تو کوئی دھاگہ نہ جُوتی کا تسمہ نہ تیری اَور کوئی چیز لوں تاکہ تُو یہ نہ کہہ سکے کہ مَیں نے اؔبرام کو دولت‌مند بنا دیا۔‏“‏—‏پید ۱۴:‏۲۱-‏۲۳‏۔‏

ابرہام سے خدا کا وعدہ

۶.‏ ‏(‏الف)‏ ابرہام نے ہمارے لئے کیا مثال قائم کی؟‏ (‏ب)‏ ابرہام کی فرمانبرداری سے ہمیں کیا فائدہ ہوتا ہے؟‏

۶ یہوواہ خدا نے بھی کئی موقعوں پر قسم کھائی تاکہ گنہگار انسان اُس کے وعدوں پر اِعتبار کر سکیں۔‏ مثال کے طور پر اُس نے کہا:‏ ”‏مجھے اپنی حیات کی قسم .‏ .‏ .‏۔‏“‏ (‏حز ۱۷:‏۱۶‏)‏ بائبل میں ۴۰ سے زیادہ ایسے موقعوں کا ذکر ملتا ہے جن پر خدا نے قسم کھائی۔‏ سب سے جانی‌پہچانی مثال وہ قسمیں ہیں جو یہوواہ خدا نے ابرہام سے کھائی تھیں۔‏ اُس نے کئی سالوں کے دوران ابرہام کے ساتھ مختلف عہد باندھے۔‏ اِن تمام عہدوں پر غور کرنے سے ابرہام کو پتہ چلا کہ ”‏نسل“‏ یعنی مسیح اُن کے بیٹے اِضحاق کی اولاد سے پیدا ہوگا۔‏ (‏پید ۱۲:‏۱-‏۳،‏ ۷؛‏ ۱۳:‏۱۴-‏۱۷؛‏ ۱۵:‏۵،‏ ۱۸؛‏ ۲۱:‏۱۲‏)‏ پھر خدا نے ابرہام کا اِمتحان لیا۔‏ اُس نے ابرہام کو حکم دیا کہ ”‏اپنے بیٹے اِضحاق کو قربانی کے طور پر چڑھا۔‏“‏ ابرہام نے خدا کا حکم ماننے میں ذرا بھی دیر نہ کی۔‏ وہ اپنے بیٹے اِضحاق کی گردن پر چھری چلانے ہی والے تھے کہ خدا کے فرشتے نے اُنہیں روک دیا۔‏ پھر خدا نے کہا:‏ ”‏چونکہ تُو نے یہ کام کِیا کہ اپنے بیٹے کو بھی جو تیرا اِکلوتا ہے دریغ نہ رکھا اِس لئے مَیں نے بھی اپنی ذات کی قسم کھائی ہے کہ مَیں تجھے برکت پر برکت دوں گا اور تیری نسل کو بڑھاتے بڑھاتے آسمان کے تاروں اور سمندر کے کنارے کی ریت کی مانند کر دوں گا اور تیری اولاد اپنے دُشمنوں کے پھاٹک کی مالک ہوگی۔‏ اور تیری نسل کے وسیلہ سے زمین کی سب قومیں برکت پائیں گی کیونکہ تُو نے میری بات مانی۔‏“‏—‏پید ۲۲:‏۱-‏۳،‏ ۹-‏۱۲،‏ ۱۵-‏۱۸‏۔‏

۷،‏ ۸.‏ ‏(‏الف)‏ خدا نے ابرہام سے کیوں قسم کھائی تھی؟‏ (‏ب)‏ یسوع مسیح کی ’‏اَور بھی بھیڑوں‘‏ کو اِس قسم سے کیا فائدہ ہوتا ہے؟‏

۷ خدا نے ابرہام سے یہ قسم کیوں کھائی کہ اُس کے وعدے ضرور پورے ہوں گے؟‏ اُس نے ایسا اِس لئے کِیا تاکہ اُن لوگوں کو بھی خدا کے وعدوں پر پورا بھروسا ہو جائے جو مسیح کے ساتھ ”‏نسل“‏ میں شامل ہیں اور اُس کے ہم‌میراث ہیں۔‏ ‏(‏عبرانیوں ۶:‏۱۳-‏۱۸ کو پڑھیں؛‏ گل ۳:‏۲۹‏)‏ اِس سلسلے میں پولس رسول نے کہا کہ یہوواہ خدا ”‏قسم کو درمیان میں لایا تاکہ دو بےتبدیل چیزوں [‏یعنی اُس کے وعدے اور اُس کی قسم]‏ کے باعث جن کے بارے میں خدا کا جھوٹ بولنا ممکن نہیں ہماری پُختہ طور سے دل‌جمعی ہو جائے .‏ .‏ .‏ [‏تاکہ ہم]‏ اُس اُمید کو جو سامنے رکھی ہوئی ہے قبضہ میں لائیں۔‏“‏

۸ صرف ممسوح مسیحیوں کو ہی اُس وعدے سے فائدہ نہیں ہوتا جو خدا نے ابرہام سے کِیا تھا۔‏ یہوواہ خدا نے قسم کھائی تھی کہ ابرہام کی نسل کے وسیلے سے ”‏زمین کی سب قومیں برکت پائیں گی۔‏“‏ (‏پید ۲۲:‏۱۸‏)‏ برکت پانے والے لوگوں میں یسوع مسیح کی ”‏اَور بھی بھیڑیں“‏ شامل ہیں۔‏ (‏یوح ۱۰:‏۱۶‏)‏ وہ زمین پر فردوس میں ہمیشہ تک زندہ رہنے کی اُمید رکھتے ہیں۔‏ چاہے آپ آسمان پر جانے کی اُمید رکھتے ہوں یا زمین پر رہنے کی،‏ ہمیشہ خدا کے وفادار رہیں اور یوں اپنی اُمید کو ”‏قبضہ میں لائیں۔‏“‏‏—‏عبرانیوں ۶:‏۱۱،‏ ۱۲ کو پڑھیں۔‏

ابرہام کی اولاد سے خدا کے وعدے

۹.‏ جب بنی‌اسرائیل مصر میں غلام تھے تو خدا نے اُن سے کیا قسم کھائی؟‏

۹ کچھ صدیوں بعد یہوواہ خدا نے ایک بار پھر اُس وعدے کے بارے میں قسم کھائی جو اُس نے ابرہام سے کِیا تھا۔‏ اُس وقت ابرہام کی اولاد یعنی بنی‌اسرائیل،‏ مصر میں غلام تھے۔‏ خدا نے موسیٰ کو اُن کے پاس بھیجا۔‏ (‏خر ۶:‏۶-‏۸‏)‏ اِس موقعے کا حوالہ دیتے ہوئے خدا نے کہا:‏ ”‏جس دن مَیں نے اؔسرائیل کو برگزیدہ کِیا .‏ .‏ .‏ مَیں نے اُن سے قسم کھائی تاکہ اُن کو مُلکِ‌مصرؔ سے اُس مُلک میں لاؤں جو مَیں نے اُن کے لئے دیکھ کر ٹھہرایا تھا جس میں دودھ اور شہد بہتا ہے۔‏“‏—‏حز ۲۰:‏۵،‏ ۶‏۔‏

۱۰.‏ جب بنی‌اسرائیل مصر کی غلامی سے آزاد ہو گئے تو خدا نے اُن سے کون‌سا عہد باندھا؟‏

۱۰ جب بنی‌اسرائیل مصر کی غلامی سے آزاد ہو گئے تو خدا نے قسم کھا کر اُن سے ایک عہد باندھا۔‏ اُس نے کہا:‏ ”‏اگر تُم میری بات مانو اور میرے عہد پر چلو تو سب قوموں میں سے تُم ہی میری خاص ملکیت ٹھہرو گے کیونکہ ساری زمین میری ہے۔‏ اور تُم میرے لئے کاہنوں کی ایک مملکت اور ایک مُقدس قوم ہوگے۔‏“‏ (‏خر ۱۹:‏۵،‏ ۶‏)‏ بنی‌اسرائیل کے لئے یہ بڑے اعزاز کی بات تھی۔‏ اگر وہ خدا کے وفادار رہتے تو خدا اُنہیں یہ موقع دیتا کہ وہ کاہنوں کی ایک مملکت بنیں اور اُن کے ذریعے باقی تمام انسانوں کو برکت ملے۔‏ اِس عہد کے سلسلے میں خدا نے بعد میں اُن سے کہا کہ ”‏مَیں نے .‏ .‏ .‏ قسم کھا کر تجھ سے عہد باندھا۔‏“‏—‏حز ۱۶:‏۸‏۔‏

۱۱.‏ جب یہوواہ خدا نے بنی‌اسرائیل کو اُس کی خاص قوم بننے کا موقع دیا تو اُنہوں نے کیسا ردِعمل دِکھایا؟‏

۱۱ یہوواہ خدا نے بنی‌اسرائیل سے یہ قسم نہیں لی کہ وہ اُس کے وفادار رہیں گے۔‏ اور اُس نے اُنہیں مجبور بھی نہیں کِیا کہ وہ اُس کے ساتھ عہد باندھیں۔‏ بنی‌اسرائیل نے اپنی خوشی سے کہا کہ ”‏جو کچھ [‏یہوواہ]‏ نے فرمایا ہے وہ سب ہم کریں گے۔‏“‏ (‏خر ۱۹:‏۸‏)‏ اِس کے تین دن بعد خدا نے بتایا کہ وہ اپنی برگزیدہ قوم سے کیا توقع کرتا ہے۔‏ اُس نے بنی‌اسرائیل کو دس حکم دئے۔‏ پھر موسیٰ نے اُنہیں دوسرے حکموں کے بارے میں بتایا جو خروج ۲۰:‏۲۲ سے خروج ۲۳:‏۳۳ میں درج ہیں۔‏ اِس پر بنی‌اسرائیل کا کیا ردِعمل تھا؟‏ ”‏سب لوگوں نے ہم‌آواز ہو کر جواب دیا کہ جتنی باتیں [‏یہوواہ]‏ نے فرمائی ہیں ہم اُن سب کو مانیں گے۔‏“‏ (‏خر ۲۴:‏۳‏)‏ اِس کے بعد موسیٰ نے اُن سب حکموں کو ”‏عہدنامہ“‏ میں لکھ لیا اور اِسے ساری قوم کو پڑھ کر سنایا۔‏ اِس پر لوگوں نے تیسری بار وعدہ کِیا کہ ”‏جو کچھ [‏یہوواہ]‏ نے فرمایا ہے اُس سب کو ہم کریں گے اور تابع رہیں گے۔‏“‏—‏خر ۲۴:‏۴،‏ ۷،‏ ۸‏۔‏

۱۲.‏ عہد باندھنے کے بعد یہوواہ خدا نے کیا کِیا اور بنی‌اسرائیل نے کیا کِیا؟‏

۱۲ یہوواہ خدا نے اُس عہد کو پورا کرنے کے لئے فوراً قدم اُٹھائے۔‏ اُس نے عبادت کے لئے خیمۂ‌اجتماع بنوایا اور اُس نے کاہنوں کا اِنتظام کِیا جن کی مدد سے گنہگار انسان اُس کی قربت حاصل کر سکتے تھے۔‏ لیکن بنی‌اسرائیل نے جلد ہی اُس عہد کو توڑ دیا اور ”‏اؔسرائیل کے قدوس کو ناراض کِیا۔‏“‏ (‏زبور ۷۸:‏۴۱‏)‏ مثال کے طور پر جب موسیٰ خدا سے مزید ہدایات حاصل کرنے کے لئے دیر تک کوہِ‌سینا پر رہے تو بنی‌اسرائیل کا ایمان کمزور پڑ گیا کیونکہ اُن کا خیال تھا کہ موسیٰ نے اُنہیں چھوڑ دیا ہے۔‏ اُنہوں نے سونے کا بچھڑا بنایا اور آپس میں کہنے لگے کہ ”‏اَے اؔسرائیل یہی تیرا وہ دیوتا ہے جو تجھ کو مُلکِ‌مصرؔ سے نکال کر لایا۔‏“‏ (‏خر ۳۲:‏۱،‏ ۴‏)‏ پھر اُنہوں نے ایک جشن منایا جسے اُنہوں نے ”‏[‏یہوواہ]‏ کے لئے عید“‏ کا نام دیا۔‏ اُنہوں نے سونے کے بچھڑے کو سجدہ کِیا اور اُس کے سامنے قربانیاں چڑھائیں۔‏ یہ دیکھ کر یہوواہ خدا نے موسیٰ سے کہا:‏ ”‏وہ اُس راہ سے جس کا مَیں نے اُن کو حکم دیا تھا بہت جلد پھر گئے ہیں۔‏“‏ (‏خر ۳۲:‏۵،‏ ۶،‏ ۸‏)‏ افسوس کی بات ہے کہ خدا سے وعدے کرنا اور اِنہیں توڑنا بنی‌اسرائیل کی عادت بن گئی۔‏—‏گن ۳۰:‏۲‏۔‏

مسیح کے متعلق دو قسمیں

۱۳.‏ ‏(‏الف)‏ خدا نے داؤد بادشاہ سے کیا قسم کھائی؟‏ (‏ب)‏ اِس قسم کا مسیح سے کیا تعلق ہے؟‏

۱۳ داؤد بادشاہ کے دَورِحکومت میں یہوواہ خدا نے دو اَور قسمیں کھائیں جن سے اُس کے وفادار بندوں کو بہت فائدہ ہوگا۔‏ پہلی یہ کہ داؤد کا تخت ہمیشہ تک قائم رہے گا اور ”‏نسل“‏ یعنی مسیح اُن کے تخت کا وارث ہو گا۔‏ (‏زبور ۸۹:‏۳۵،‏ ۳۶؛‏ ۱۳۲:‏۱۱،‏ ۱۲‏)‏ اِسی لئے مسیح کو ”‏ابنِ‌داؔؤد“‏ کہا گیا۔‏ (‏متی ۱:‏۱؛‏ ۲۱:‏۹‏)‏ داؤد نے بڑی عاجزی سے اُس آنے والے کو ”‏خداوند“‏ (‏یعنی مالک)‏ کہا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ مسیح کا مرتبہ اُن سے کہیں بڑا ہوگا۔‏—‏متی ۲۲:‏۴۲-‏۴۴‏۔‏

۱۴.‏ ‏(‏الف)‏ یہوواہ خدا نے مسیح کے متعلق کیا قسم کھائی؟‏ (‏ب)‏ اِس قسم سے ہمیں کیا فائدہ ہوتا ہے؟‏

۱۴ دوسری قسم کا تعلق بھی مسیح سے ہے۔‏ یہوواہ خدا نے داؤد کے ذریعے یہ بتایا کہ مسیح،‏ بادشاہ ہونے کے ساتھ‌ساتھ کاہن بھی ہوگا۔‏ اسرائیل میں بادشاہ اور کاہن کا عہدہ الگ الگ ہوتا تھا۔‏ کاہن،‏ لاوی کے قبیلے سے آتے تھے اور بادشاہ،‏ یہوداہ کے قبیلے سے۔‏ لیکن داؤد نے مسیح کے سلسلے میں پیشین‌گوئی کی:‏ ”‏یہوؔواہ نے میرے خداوند سے کہا تُو میرے دہنے ہاتھ بیٹھ جب تک کہ مَیں تیرے دشمنوں کو تیرے پاؤں کی چوکی نہ کر دوں۔‏ [‏یہوواہ]‏ نے قسم کھائی ہے اور پھرے گا نہیں کہ تُو ملکِ‌صدؔق کے طور پر ابد تک کاہن ہے۔‏“‏ (‏زبور ۱۱۰:‏۱،‏ ۴‏)‏ اِس پیشین‌گوئی کے عین مطابق یسوع مسیح اب آسمان سے حکمرانی کر رہے ہیں۔‏ اِس کے ساتھ‌ساتھ وہ سردارکاہن کے طور پر ایسے لوگوں کی مدد کرتے ہیں جو اپنے گُناہوں سے توبہ کرتے ہیں تاکہ وہ یہوواہ خدا کی خوشنودی حاصل کر سکیں۔‏‏—‏عبرانیوں ۷:‏۲۱،‏ ۲۵،‏ ۲۶ کو پڑھیں۔‏

خدا کا اسرائیل

۱۵،‏ ۱۶.‏ ‏(‏الف)‏ بائبل میں کون‌سے دو اسرائیل کا ذکر کِیا گیا ہے؟‏ اور آج اِن میں سے کس کو خدا کی خوشنودی حاصل ہے؟‏ (‏ب)‏ یسوع مسیح نے اپنے پیروکاروں کو قسم کھانے کے بارے میں کون‌سا حکم دیا؟‏

۱۵ بنی‌اسرائیل نے یسوع مسیح کو رد کر دیا جس کی وجہ سے وہ خدا کی خوشنودی سے محروم ہو گئے اور ”‏کاہنوں کی ایک مملکت“‏ بننے کا موقع کھو بیٹھے۔‏ یسوع مسیح نے یہودی رہنماؤں سے کہا:‏ ”‏خدا کی بادشاہی تُم سے لے لی جائے گی اور اُس قوم کو جو اُس کے پھل لائے دے دی جائے گی۔‏“‏ (‏متی ۲۱:‏۴۳‏)‏ یہ نئی قوم ۳۳ عیسوی میں عیدِپنتِکُست کے موقعے پر وجود میں آئی۔‏ اُس وقت یسوع مسیح کے ۱۲۰ شاگرد یروشلیم میں جمع تھے اور اُن پر روحُ‌القدس نازل ہوئی۔‏ یسوع مسیح کے شاگرد ’‏خدا کا اسرائیل‘‏ بنے۔‏ اور جلد ہی دوسری قوموں سے ہزاروں لوگ اِس نئی قوم میں شامل ہو گئے۔‏—‏گل ۶:‏۱۶‏۔‏

۱۶ بنی‌اسرائیل کے برعکس ’‏خدا کا اسرائیل‘‏ اُس کا وفادار رہا ہے اور یوں اچھے پھل لایا ہے۔‏ اِس قوم کو دئے گئے حکموں میں قسم کھانے کے بارے میں بھی ایک حکم شامل ہے۔‏ جب یسوع مسیح زمین پر تھے تو بہت سے لوگ جھوٹی قسمیں کھاتے تھے یا ہر چھوٹی‌چھوٹی بات پر قسم کھاتے تھے۔‏ (‏متی ۲۳:‏۱۶-‏۲۲‏)‏ لیکن یسوع مسیح نے اپنے پیروکاروں کو حکم دیا:‏ ”‏[‏تُم]‏ بالکل قسم نہ کھانا۔‏ .‏ .‏ .‏ بلکہ تمہارا کلام ہاں ہاں یا نہیں نہیں ہو کیونکہ جو اِس سے زیادہ ہے وہ بدی سے ہے۔‏“‏—‏متی ۵:‏۳۴،‏ ۳۷‏۔‏

۱۷.‏ اگلے مضمون میں ہم کن سوالوں پر غور کریں گے؟‏

۱۷ کیا یسوع مسیح یہ کہنا چاہتے تھے کہ قسم کھانا ہر صورت میں غلط ہے؟‏ اِس حکم کا کیا مطلب ہے کہ ’‏تمہارا کلام ہاں،‏ ہاں ہو‘‏؟‏ اگلے مضمون میں ہم اِن سوالوں پر غور کریں گے۔‏ خدا کے کلام پر غور کرنے سے ہمارا یہ عزم مضبوط ہوگا کہ ہم ہمیشہ خدا کے وفادار رہیں گے۔‏ پھر ہمیں وہ ساری برکتیں ملیں گی جن کا خدا نے قسم کھا کر وعدہ کِیا ہے۔‏

‏[‏مطالعے کے سوالات]‏

‏[‏صفحہ ۲۵ پر تصویر]‏

ابرہام جلد ہی خدا کے وعدوں کو پورا ہوتے ہوئے دیکھیں گے۔‏

‏[‏صفحہ ۲۷ پر عبارت]‏

یہوواہ خدا کے وعدے ہمیشہ پورے ہوتے ہیں۔‏