مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

ہماری ہاں ہمیشہ ہاں ہی رہے

ہماری ہاں ہمیشہ ہاں ہی رہے

ہماری ہاں ہمیشہ ہاں ہی رہے

‏”‏تمہارا کلام ہاں ہاں یا نہیں نہیں ہو۔‏“‏—‏متی ۵:‏۳۷‏۔‏

اِن سوالوں کے جواب تلاش کریں:‏

یسوع مسیح نے قسم کھانے کے متعلق کیا کہا؟‏

یسوع مسیح نے اپنے تمام وعدوں کو پورا کرنے کے سلسلے میں کون‌سی اچھی مثال قائم کی؟‏

کن معاملات میں یہ اہم ہے کہ ہماری ہاں،‏ ہاں ہی رہے؟‏

۱.‏ یسوع مسیح نے قسم کھانے کے متعلق کیا کہا اور کیوں؟‏

عام طور پر سچے مسیحیوں کو قسم کھانے کی ضرورت نہیں پڑتی۔‏ وہ یسوع مسیح کے اِس حکم پر عمل کرتے ہیں کہ ’‏تمہارا کلام ہاں،‏ ہاں ہو۔‏‘‏ اِس کا مطلب ہے کہ ہمیں اپنی بات کا پکا ہونا چاہئے۔‏ یہ حکم دینے سے پہلے یسوع مسیح نے کہا تھا:‏ ”‏[‏تُم]‏ بالکل قسم نہ کھانا۔‏“‏ اُنہوں نے یہ اِس لئے کہا کیونکہ بہت سے لوگوں کو بات بات پر قسم کھانے کی عادت ہے حالانکہ وہ اپنے وعدے کو پورا کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے۔‏ جب کوئی شخص ہاں یا نہیں کہنے کے علاوہ قسم بھی کھاتا ہے تو وہ ظاہر کرتا ہے کہ عموماً وہ اپنی بات کا پکا نہیں ہے اور دراصل ”‏بدی“‏ کی گرفت میں ہے۔‏‏—‏متی ۵:‏۳۳-‏۳۷ کو پڑھیں۔‏

۲.‏ قسم کھانا ہمیشہ غلط کیوں نہیں ہے؟‏

۲ کیا یسوع مسیح یہ کہنا چاہتے تھے کہ قسم کھانا ہر صورت میں غلط ہے؟‏ جی‌نہیں۔‏ پچھلے مضمون میں ہم نے سیکھا ہے کہ یہوواہ خدا اور اُس کے وفادار بندے ابرہام نے اہم موقعوں پر قسمیں کھائی تھیں۔‏ اِس کے علاوہ شریعت میں بھی بنی‌اسرائیل کو یہ حکم دیا گیا تھا کہ وہ کچھ معاملات کو حل کرنے کے لئے قسم اُٹھائیں۔‏ (‏خر ۲۲:‏۱۰،‏ ۱۱؛‏ گن ۵:‏۲۱،‏ ۲۲‏)‏ لہٰذا مسیحیوں کو بھی شاید عدالت میں گواہی دینے کے لئے قسم اُٹھانی پڑے۔‏ یا پھر شاید کبھی‌کبھار ایسی صورتحال پیدا ہو جس میں کسی مسیحی کو قسم کھا کر اپنے ارادوں کی تصدیق کرنی پڑے یا پھر قسم اُٹھانے سے ایک مسئلہ حل کرنا پڑے۔‏ ایک دفعہ سردارکاہن نے یسوع مسیح کو قسم دِلائی۔‏ لیکن یسوع مسیح نے کوئی اعتراض نہیں کِیا بلکہ جو سچ تھا،‏ عدالت کو بتا دیا۔‏ (‏متی ۲۶:‏۶۳،‏ ۶۴‏)‏ حالانکہ یسوع مسیح کو قسم کھانے کی ضرورت نہیں تھی پھر بھی اُنہوں نے اپنی بات کی صداقت پر زور دینے کے لئے کئی موقعوں پر کہا کہ ”‏مَیں تُم سے سچ کہتا ہوں۔‏“‏ (‏یوح ۱:‏۵۱؛‏ ۱۳:‏۱۶،‏ ۲۰،‏ ۲۱،‏ ۳۸‏)‏ آئیں،‏ ہم یسوع مسیح،‏ پولس رسول اور خدا کے دیگر بندوں کی مثالوں پر غور کریں جن کی ہاں کا مطلب ہمیشہ ہاں تھا۔‏

یسوع مسیح کی بہترین مثال

۳.‏ یسوع مسیح نے خدا سے کیا وعدہ کِیا؟‏ اور اِس پر یہوواہ خدا کا کیا ردِعمل تھا؟‏

۳ ‏”‏دیکھ!‏ مَیں آیا ہوں .‏ .‏ .‏ تاکہ اَے خدا!‏ تیری مرضی پوری کروں۔‏“‏ ‏(‏عبر ۱۰:‏۷‏)‏ یہ الفاظ کہہ کر یسوع مسیح نے وعدہ کِیا کہ وہ اُن تمام پیشین‌گوئیوں کو پورا کریں گے جو ”‏نسل“‏ کے بارے میں کی گئی تھیں۔‏ اِن میں یہ پیشین‌گوئی بھی شامل تھی کہ شیطان نسل کی ”‏ایڑی پر کاٹے گا۔‏“‏ (‏پید ۳:‏۱۵‏)‏ آج تک کسی انسان نے اِتنی بھاری ذمہ‌داری قبول نہیں کی۔‏ یہوواہ خدا نے یسوع مسیح سے یہ قسم نہیں لی کہ وہ اپنا وعدہ پورا کریں۔‏ اُسے اپنے بیٹے پر پورا بھروسا تھا اور اُس نے اِس کا اِظہار بھی کِیا۔‏—‏لو ۳:‏۲۱،‏ ۲۲‏۔‏

۴.‏ یسوع مسیح کس حد تک اپنی بات کے پکے تھے؟‏

۴ یسوع مسیح کی ہاں ہمیشہ ہاں رہی۔‏ اُن کا دھیان اُس کام پر رہا جو خدا نے اُنہیں سونپا تھا۔‏ وہ ہر موقعے پر بادشاہت کی خوشخبری سناتے تھے اور اُن لوگوں کو شاگرد بناتے تھے جنہیں خدا نے کھینچ لیا تھا۔‏ (‏یوح ۶:‏۴۴‏)‏ یسوع مسیح کس حد تک اپنی بات کے پکے تھے؟‏ بائبل میں بتایا گیا ہے:‏ ”‏خدا کے جتنے بھی وعدے ہیں اُن سب کی ”‏ہاں“‏ مسیح ہے۔‏“‏ (‏۲-‏کر ۱:‏۲۰‏،‏ نیو اُردو بائبل ورشن)‏ واقعی،‏ یسوع مسیح نے اپنے تمام وعدوں کو پورا کرنے کے سلسلے میں بہترین مثال قائم کی۔‏ آئیں،‏ اب ایک ایسے شخص کی مثال پر غور کریں جس نے یسوع مسیح کے نقشِ‌قدم پر چلنے کی پوری کوشش کی۔‏

پولس رسول اپنی بات کے پکے تھے

۵.‏ پولس رسول نے ہمارے لئے کون‌سی مثال قائم کی؟‏

۵ ‏”‏اَے خداوند مَیں کیا کروں؟‏“‏ ‏(‏اعما ۲۲:‏۱۰‏)‏ یہ الفاظ ساؤل یعنی پولس نے اُس وقت کہے جب یسوع مسیح اُن پر ظاہر ہوئے تھے۔‏ جب یسوع مسیح نے اُنہیں کہا کہ مسیحیوں کو ستانا بند کر دیں تو ساؤل نے عاجزی سے اپنی بُری روِش سے توبہ کر لی اور بپتسمہ لے لیا۔‏ اور جب یسوع مسیح نے اُنہیں غیرقوموں میں گواہی دینے کی ذمہ‌داری سونپی تو اُنہوں نے اِسے قبول کر لیا۔‏ اِس کے بعد بھی پولس رسول،‏ یسوع مسیح کو ”‏خداوند“‏ کہتے رہے اور پوری عمر اُن کے حکموں پر عمل کرتے رہے۔‏ (‏اعما ۲۲:‏۶-‏۱۶؛‏ ۲-‏کر ۴:‏۵؛‏ ۲-‏تیم ۴:‏۸‏)‏ پولس رسول اُن لوگوں جیسے نہیں تھے جن کے بارے میں یسوع مسیح نے کہا تھا:‏ ”‏جب تُم میرے کہنے پر عمل نہیں کرتے تو کیوں مجھے خداوند خداوند کہتے ہو؟‏“‏ (‏لو ۶:‏۴۶‏)‏ جو لوگ یسوع مسیح کو اپنا خداوند قبول کرتے ہیں،‏ یسوع مسیح اُن سے توقع کرتے ہیں کہ وہ پولس رسول کی طرح ہمیشہ اپنی بات پر قائم رہیں۔‏

۶،‏ ۷.‏ ‏(‏الف)‏ پولس رسول نے کُرنتھس جانے کا ارادہ کیوں ملتوی کر دیا؟‏ (‏ب)‏ اُن پر یہ الزام کیوں نہیں لگایا جا سکتا تھا کہ وہ اپنی بات کے پکے نہیں ہیں؟‏ (‏ج)‏ ہمیں اُن بھائیوں سے کیسے پیش آنا چاہئے جو کلیسیا کی پیشوائی کر رہے ہیں؟‏

۶ پولس رسول نے بڑے جوش سے ایشیائےکوچک اور یورپ کے بہت سے علاقوں میں بادشاہت کی خوشخبری سنائی۔‏ اُنہوں نے جگہ‌جگہ نئی کلیسیائیں قائم کیں اور کلیسیاؤں کا دورہ کرنے میں سینکڑوں میل کا سفر کِیا۔‏ بعض اوقات اُنہوں نے قسم کھا کر اُن باتوں کی تصدیق کی جو اُنہوں نے لکھی تھیں۔‏ (‏گل ۱:‏۲۰‏)‏ ایک مرتبہ کُرنتھس کی کلیسیا کے کئی رُکنوں نے اُن پر الزام لگایا کہ وہ اپنی بات کے پکے نہیں ہیں۔‏ اِس پر اُنہوں نے جواب میں لکھا:‏ ”‏جس طرح خدا قول کا سچا ہے اُسی طرح ہمارا قول اگر ”‏ہاں“‏ میں ہے تو ”‏ہاں“‏ ہی رہتا ہے،‏ ”‏نہیں“‏ میں نہیں بدلتا۔‏“‏ (‏۲-‏کر ۱:‏۱۸‏،‏ نیو اُردو بائبل ورشن)‏ پولس رسول نے یہ بات اُس وقت لکھی جب وہ شہر افسس سے روانہ ہو چکے تھے اور مکدنیہ سے گزرتے ہوئے کُرنتھس جا رہے تھے۔‏ اصل میں اُن کا ارادہ یہ تھا کہ وہ مکدنیہ جانے سے پہلے کُرنتھس کی کلیسیا سے ملیں گے۔‏ (‏۲-‏کر ۱:‏۱۵،‏ ۱۶‏)‏ لیکن پولس رسول کو اپنا ارادہ بدلنا پڑا۔‏ آج‌کل بھی سفری نگہبانوں کو کبھی‌کبھار کلیسیاؤں کا دورہ کرنے کے شیڈول میں تبدیلی کرنی پڑتی ہے۔‏ لیکن وہ اپنی ذاتی ترجیحات کی بِنا پر نہیں بلکہ کسی اہم وجہ سے ہی ایسی تبدیلیاں کرتے ہیں۔‏ یہ بات پولس رسول کے بارے میں بھی سچ تھی۔‏ اُنہوں نے کُرنتھس کی کلیسیا کی بھلائی کے لئے وہاں جانے کا ارادہ ملتوی کِیا۔‏

۷ جب پولس رسول افسس میں تھے تو اُنہیں خبر ملی کہ کُرنتھس کی کلیسیا میں جھگڑے ہو رہے ہیں اور بعض افراد حرام‌کاری کر رہے ہیں۔‏ (‏۱-‏کر ۱:‏۱۱؛‏ ۵:‏۱‏)‏ اِس صورتحال سے نپٹنے کے لئے اُنہوں نے کرنتھیوں کے نام اپنا پہلا خط لکھا جس میں اُنہوں نے سختی سے اُن کو نصیحت کی۔‏ اِس کے بعد پولس رسول نے فیصلہ کِیا کہ وہ افسس سے سیدھا کُرنتھس جانے کی بجائے کلیسیا کو کچھ وقت دیں تاکہ وہ اُن کی نصیحت پر عمل کر سکے۔‏ پولس رسول چاہتے تھے کہ جب وہ آخرکار وہاں جائیں تو کلیسیا کو اُن کے آنے سے اَور زیادہ حوصلہ‌افزائی ملے۔‏ اپنے دوسرے خط میں اُنہوں نے اِس بات کی تصدیق کی کہ اُنہوں نے اِسی وجہ سے اپنا ارادہ ملتوی کِیا تھا۔‏ اُنہوں نے لکھا:‏ ”‏خدا گواہ ہے کہ مَیں کُرنتھسؔ میں تمہارے پاس اِس لیے نہیں آیا کہ تُم میری ڈانٹ‌ڈپٹ سے بچے رہو۔‏“‏ (‏۲-‏کر ۱:‏۲۳‏،‏ نیو اُردو بائبل ورشن)‏ ہمیں کبھی اُن لوگوں کی طرح نہیں بننا چاہئے جنہوں نے پولس رسول پر تنقید کی تھی۔‏ اِس کی بجائے آئیں،‏ ہم اُن بھائیوں کی عزت کریں جو کلیسیا کی پیشوائی کر رہے ہیں۔‏ ہمیں پولس رسول کی مثال پر عمل کرنا چاہئے جیسے اُنہوں نے مسیح کی مثال پر عمل کِیا تھا۔‏—‏۱-‏کر ۱۱:‏۱؛‏ عبر ۱۳:‏۷‏۔‏

دوسری عمدہ مثالیں

۸.‏ ربقہ نے ہمارے لئے کیسی مثال قائم کی؟‏

۸ ‏”‏[‏مَیں]‏ جاؤں گی۔‏“‏ ‏(‏پید ۲۴:‏۵۸‏)‏ یہ الفاظ ربقہ نے اُس وقت کہے جب اُن کی ماں اور بھائی نے اُن سے پوچھا کہ ”‏کیا تُم ابرہام کے بیٹے اِضحاق کی بیوی بننے کے لئے جاؤ گی؟‏“‏ وہ اُسی دن اپنا گھر بار چھوڑ کر ایک اجنبی کے ساتھ ۸۰۰ کلومیٹر (‏۵۰۰ میل)‏ کے سفر پر روانہ ہو گئیں۔‏ (‏پید ۲۴:‏۵۰-‏۵۸‏)‏ ربقہ کی ہاں،‏ ہاں ہی رہی۔‏ وہ ایک بہت اچھی بیوی ثابت ہوئیں اور ہمیشہ خدا کی وفادار رہیں۔‏ اُنہوں نے اپنی باقی زندگی ملک کنعان میں پردیسی کے طور پر خیموں میں رہ کر گزاری۔‏ یہوواہ خدا نے اُنہیں وفاداری کا صلہ یہ دیا کہ یسوع مسیح اُن کی نسل سے آئے۔‏—‏عبر ۱۱:‏۹،‏ ۱۳‏۔‏

۹.‏ روت اپنی بات پر کیسے قائم رہیں؟‏

۹ ‏”‏نہیں بلکہ ہم تیرے ساتھ لوٹ کر تیرے لوگوں میں جائیں گی۔‏“‏ ‏(‏روت ۱:‏۱۰‏)‏ یہ بات ملک موآب کی رہنے والی روت اور عرفہ نے اپنی بیوہ ساس نعومی سے کہی۔‏ نعومی،‏ موآب سے بیت‌لحم واپس جا رہی تھیں۔‏ آخرکار نعومی کے اصرار پر عرفہ اپنے وطن واپس لوٹ گئیں۔‏ لیکن روت کی نہیں،‏ نہیں رہی۔‏ ‏(‏روت ۱:‏۱۶،‏ ۱۷ کو پڑھیں۔‏)‏ اُنہوں نے نعومی کے ساتھ رہنے کے لئے اپنے خاندان اور موآب کے جھوٹے مذہب کو ہمیشہ کے لئے چھوڑ دیا۔‏ وہ اپنی ساری زندگی یہوواہ خدا کی عبادت کرتی رہیں۔‏ اِس کے لئے اُن کو بڑا انعام ملا۔‏ روت اُن پانچ عورتوں میں شامل ہیں جن کا ذکر متی نے یسوع مسیح کے نسب‌نامے میں کِیا۔‏—‏متی ۱:‏۱،‏ ۳،‏ ۵،‏ ۶،‏ ۱۶‏۔‏

۱۰.‏ یسعیاہ نبی کس لحاظ سے ہمارے لئے ایک اچھی مثال ہیں؟‏

۱۰ ‏”‏مَیں حاضر ہوں مجھے بھیج۔‏“‏ ‏(‏یسع ۶:‏۸‏)‏ یہ بات کہنے سے پہلے یسعیاہ نبی نے رویا میں یہوواہ خدا کو تخت پر بیٹھے دیکھا۔‏ وہ ابھی اِس شاندار منظر کو دیکھ ہی رہے تھے کہ اُنہوں نے یہوواہ خدا کو یہ کہتے سنا:‏ ”‏مَیں کس کو بھیجوں اور ہماری طرف سے کون جائے گا؟‏“‏ یہوواہ خدا دراصل یہ پوچھ رہا تھا کہ ”‏کون میری نافرمان قوم کے پاس میرا پیغام لے کر جائے گا؟‏“‏ یسعیاہ نے یہ ذمہ‌داری قبول کی۔‏ اُن کی ہاں کا مطلب ہاں ہی رہا۔‏ وہ ۴۶ سال سے زیادہ عرصے تک خدا کے نبی رہے۔‏ اِس دوران وہ بنی‌اسرائیل کو یہ پیغام دیتے رہے کہ خدا اُن کی نافرمانی کی وجہ سے اُنہیں سزا دے گا لیکن بعد میں سچی عبادت پھر سے قائم ہوگی۔‏

۱۱.‏ ‏(‏الف)‏ اپنی بات پر قائم رہنا اِتنا اہم کیوں ہے؟‏ (‏ب)‏ کچھ ایسے لوگوں کی مثالیں دیں جن کی ہاں کا مطلب ہاں نہیں تھا۔‏

۱۱ یہوواہ خدا نے اِن مثالوں کو اپنے کلام میں کیوں شامل کِیا؟‏ اور یہ اِتنی سنجیدہ بات کیوں ہے کہ ہماری ہاں ہمیشہ ہاں رہے؟‏ بائبل میں بتایا گیا ہے کہ جو لوگ ”‏عہدشکن“‏ ہیں یعنی جان‌بُوجھ کر اپنا وعدہ توڑ دیتے ہیں،‏ وہ ”‏موت کی سزا کے لائق ہیں۔‏“‏ (‏روم ۱:‏۳۱،‏ ۳۲‏)‏ بائبل میں کچھ ایسے لوگوں کی مثالیں بھی درج ہیں جن کی ہاں کا مطلب ہاں نہیں تھا،‏ مثلاً مصر کا فرعون،‏ یہوداہ کا بادشاہ صدقیاہ،‏ حننیاہ اور سفیرہ۔‏ اُن کا بُرا انجام ہمارے لئے ایک سبق ہے۔‏—‏خر ۹:‏۲۷،‏ ۲۸،‏ ۳۴،‏ ۳۵؛‏ حز ۱۷:‏۱۳-‏۱۵،‏ ۱۹،‏ ۲۰؛‏ اعما ۵:‏۱-‏۱۰‏۔‏

۱۲.‏ ہمیں کیا کرنا چاہئے تاکہ ہمارے لئے اپنی بات پر قائم رہنا زیادہ آسان ہو؟‏

۱۲ اِس ”‏اخیر زمانہ“‏ میں ہم ایسے لوگوں کے بیچ رہتے ہیں جو ”‏دغاباز“‏ ہیں اور جو ’‏دین‌داری کی وضع تو رکھتے ہیں مگر اُس کے اثر کو قبول نہیں کرتے۔‏‘‏ (‏۲-‏تیم ۳:‏۱-‏۵‏)‏ جہاں تک ممکن ہو،‏ ہمیں ایسے لوگوں کی صحبت سے بچنا چاہئے۔‏ اِس کی بجائے ہمیں باقاعدگی سے اُن لوگوں کے ساتھ جمع ہونا چاہئے جو اپنی بات پر قائم رہنے کی پوری کوشش کرتے ہیں۔‏—‏عبر ۱۰:‏۲۴،‏ ۲۵‏۔‏

سب سے اہم وعدہ

۱۳.‏ یسوع مسیح کے شاگردوں کے لئے سب سے اہم وعدہ کون‌سا ہے؟‏

۱۳ ہمارا سب سے اہم وعدہ وہ ہے جو ہم نے اپنی زندگی خدا کے لئے وقف کرتے وقت کِیا تھا۔‏ جو لوگ اپنی خودی کا انکار کرکے یسوع مسیح کے شاگرد بننا چاہتے ہیں،‏ اُنہیں تین بار اپنے وعدے کی تصدیق کرنے کا موقع ملتا ہے۔‏ (‏متی ۱۶:‏۲۴‏)‏ جب ایک شخص غیربپتسمہ‌یافتہ مبشر بننا چاہتا ہے تو دو بزرگ اُس سے ملتے ہیں اور پوچھتے ہیں:‏ ”‏کیا آپ واقعی یہوواہ کے گواہ بننا چاہتے ہیں؟‏“‏ بعد میں جب یہ شخص بپتسمہ لینے کی خواہش کا اِظہار کرتا ہے تو بزرگ دوبارہ اُس سے ملتے ہیں اور پوچھتے ہیں:‏ ”‏کیا آپ نے دُعا میں اپنی زندگی یہوواہ خدا کے لئے وقف کر لی ہے؟‏“‏ اور بپتسمے کے دن اُس شخص سے یہ سوال کِیا جاتا ہے:‏ ”‏کیا آپ نے یسوع مسیح کی قربانی کی بِنا پر اپنے گُناہوں سے توبہ کر لی ہے اور خود کو یہوواہ خدا کی مرضی پر چلنے کے لئے وقف کر دیا ہے؟‏“‏ یہ شخص دوسروں کے سامنے ہاں کہہ کر تصدیق کرتا ہے کہ اُس نے ہمیشہ تک یہوواہ خدا کی خدمت کرنے کا وعدہ کِیا ہے۔‏

۱۴.‏ ہمیں وقتاًفوقتاً خود سے کون‌سے سوال پوچھنے چاہئیں؟‏

۱۴ چاہے آپ نے حال ہی میں بپتسمہ لیا ہے یا پھر کئی سالوں سے خدا کی خدمت کر رہے ہیں،‏ آپ کو وقتاًفوقتاً خود سے یہ پوچھنا چاہئے:‏ ”‏کیا مَیں یسوع مسیح کی طرح اِس وعدے پر قائم رہتا ہوں کہ میری پوری زندگی یہوواہ خدا کے لئے وقف ہے؟‏ کیا مَیں یسوع مسیح کے حکم کے مطابق مُنادی کرنے اور شاگرد بنانے کے کام کو اپنی زندگی میں سب سے زیادہ اہمیت دیتا ہوں؟‏“‏‏—‏۲-‏کرنتھیوں ۱۳:‏۵ کو پڑھیں۔‏

۱۵.‏ کن معاملات میں یہ اہم ہے کہ ہماری ہاں،‏ ہاں ہی رہے؟‏

۱۵ جو وعدہ ہم نے خدا سے کِیا ہے،‏ اُسے نبھانے میں یہ بھی شامل ہے کہ ہم دوسرے اہم معاملات میں بھی اپنی بات پر قائم رہیں۔‏ مثال کے طور پر اگر آپ شادی‌شُدہ ہیں تو شادی کے عہدوپیمان کو پورا کرتے رہیں اور اپنے جیون‌ساتھی سے پیارومحبت سے پیش آئیں۔‏ اگر آپ نے کوئی کاروباری معاہدہ کِیا ہے یا پھر خدا کی تنظیم میں کسی کام کے لئے درخواست ڈالی ہے تو اپنی بات پر قائم رہیں اور اپنے وعدے کو نبھائیں۔‏ کیا آپ نے کسی کے گھر کھانے پر جانے کی دعوت قبول کی ہے؟‏ اگر بعد میں کوئی اَور آپ کو کھانے پر بلاتا ہے اور اُس کی دعوت آپ کو زیادہ اچھی لگتی ہے تو پہلی دعوت کو نہ ٹھکرائیں۔‏ مُنادی کے کام میں اگر آپ نے دلچسپی رکھنے والے کسی شخص سے دوبارہ ملنے کا وعدہ کِیا ہے تو اُس کے پاس واپس ضرور جائیں۔‏ پھر یہوواہ خدا آپ کی کوششوں میں برکت ڈالے گا۔‏‏—‏لوقا ۱۶:‏۱۰ کو پڑھیں۔‏

سردارکاہن اور بادشاہ کے طور پر یسوع مسیح کا اہم کردار

۱۶.‏ اگر ہم نے اپنا کوئی وعدہ توڑ دیا ہے تو ہمیں کیا کرنا چاہئے؟‏

۱۶ بائبل میں لکھا ہے کہ ”‏ہم سب کے سب اکثر خطا کرتے ہیں،‏“‏ خاص طور پر زبان کے استعمال میں۔‏ (‏یعقو ۳:‏۲‏)‏ اگر ہمیں یہ احساس ہو جاتا ہے کہ ہم نے اپنا کوئی وعدہ توڑ دیا ہے تو ہمیں کیا کرنا چاہئے؟‏ اسرائیل کی شریعت میں یہ بندوبست شامل تھا کہ اگر کوئی شخص ایک بات ”‏بغیر سوچے کہہ دے“‏ تو وہ معافی حاصل کر سکتا تھا۔‏ (‏احبا ۵:‏۴-‏۷،‏ ۱۱‏)‏ آج‌کل بھی اگر کسی مسیحی سے ایسی خطا ہو جائے تو وہ بھی معافی حاصل کر سکتا ہے۔‏ اگر ہم یہوواہ خدا کے حضور اپنی غلطی کا اعتراف کرتے ہیں تو وہ ہمیں معاف کر دیتا ہے۔‏ یسوع مسیح سردارکاہن کی حیثیت سے ہماری مدد کرتے ہیں تاکہ ہمیں دوبارہ سے خدا کی خوشنودی حاصل ہو سکے۔‏ (‏۱-‏یوح ۲:‏۱،‏ ۲‏)‏ خدا کی قربت میں رہنے کے لئے یہ ضروری ہے کہ ہم اپنے کاموں سے ظاہر کریں کہ ہم نے دل سے توبہ کر لی ہے۔‏ مثال کے طور پر ہمیں وعدے توڑنے کی عادت نہیں بنانی چاہئے اور اگر ہماری کسی بات کی وجہ سے کوئی مسئلہ کھڑا ہو گیا ہے تو ہمیں اِسے حل کرنے کی پوری کوشش کرنی چاہئے۔‏ (‏امثا ۶:‏۲،‏ ۳‏)‏ لہٰذا یہ بہتر ہوگا کہ ہم وعدہ کرنے سے پہلے اچھی طرح سوچیں کہ ہم اِسے پورا کر پائیں گے یا نہیں۔‏‏—‏واعظ ۵:‏۲ کو پڑھیں۔‏

۱۷،‏ ۱۸.‏ جن لوگوں کی ہاں ہمیشہ ہاں ہی رہتی ہے،‏ اُن کا مستقبل کیسا ہوگا؟‏

۱۷ خدا کے اُن تمام بندوں کا مستقبل بہت روشن ہوگا جن کی ہاں ہمیشہ ہاں ہی رہتی ہے۔‏ ایک لاکھ ۴۴ ہزار ممسوح مسیحیوں کو آسمان میں غیرفانی زندگی ملے گی۔‏ وہ یسوع مسیح کے ساتھ ”‏ہزار برس تک بادشاہی کریں گے۔‏“‏ (‏مکا ۲۰:‏۶‏)‏ خدا کے دوسرے بندے زمین پر فردوس میں رہیں گے اور مسیح کی حکمرانی کے دوران ہر طرح کے نقص اور عیب سے پاک ہو جائیں گے۔‏—‏مکا ۲۱:‏۳-‏۵‏۔‏

۱۸ یسوع مسیح کی ہزار سالہ حکمرانی کے آخر پر سب انسانوں کا اِمتحان ہوگا۔‏ اِس کے بعد زمین پر صرف ایسے ہی لوگ رہیں گے جو اپنی بات کے پکے ہوں گے۔‏ (‏مکا ۲۰:‏۷-‏۱۰‏)‏ تب ہر ہاں کا مطلب ہاں اور نہیں کا مطلب نہیں ہوگا۔‏ سب لوگ ہر لحاظ سے اپنے آسمانی باپ یہوواہ کی مثال پر عمل کریں گے جو ’‏سچائی کا خدا ہے۔‏‘‏—‏زبور ۳۱:‏۵‏۔‏

‏[‏مطالعے کے سوالات]‏

‏[‏صفحہ ۲۹ پر تصویریں]‏

بپتسمے سے لے کر موت تک یسوع مسیح نے اُن تمام وعدوں کو پورا کِیا جو اُنہوں نے اپنے باپ سے کئے تھے۔‏

‏[‏صفحہ ۳۱ پر تصویر]‏

کیا آپ اپنا سب سے اہم وعدہ نبھا رہے ہیں؟‏