مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

‏”‏مجھے سکھا کہ تیری مرضی پر چلوں“‏

‏”‏مجھے سکھا کہ تیری مرضی پر چلوں“‏

‏”‏مجھے سکھا کہ تیری مرضی پر چلوں“‏

‏”‏مجھے سکھا کہ تیری مرضی پر چلوں اِس لئے کہ تُو میرا خدا ہے۔‏“‏—‏زبور ۱۴۳:‏۱۰‏۔‏

اِن سوالوں کے جواب تلاش کریں:‏

داؤد کی زندگی کے کن واقعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ہمیشہ یہوواہ خدا کی مرضی کو دھیان میں رکھتے تھے؟‏

داؤد،‏ یہوواہ خدا کی مرضی کے مطابق فیصلے کرنے کے قابل کیسے ہوئے؟‏

ہم کیا کر سکتے ہیں تاکہ ہم خدا کی قربت میں رہیں؟‏

۱،‏ ۲.‏ ‏(‏الف)‏ کوئی اہم فیصلہ کرنے سے پہلے صورتحال کو یہوواہ خدا کی نظر سے دیکھنا کیوں فائدہ‌مند ہے؟‏ (‏ب)‏ ہمیں داؤد بادشاہ کی مثال پر کیوں غور کرنا چاہئے؟‏

فرض کریں کہ آپ ایک پہاڑی راستے پر چل رہے ہیں۔‏ ایک جگہ پہنچ کر آپ رُک جاتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ یہ راستہ دو پگ‌ڈنڈیوں میں تقسیم ہو گیا ہے۔‏ آپ کس طرف جائیں گے،‏ دائیں یا بائیں؟‏ آپ ایک اُونچی پہاڑی پر چڑھ کر دیکھتے ہیں کہ کون‌سا راستہ کس طرف جا رہا ہے اور پھر آپ صحیح راستہ چن لیتے ہیں۔‏ اِسی طرح جب ہمیں زندگی میں کسی موڑ پر کوئی اہم فیصلہ کرنا ہو تو ہمیں صورتحال کو اپنے خالق کی نظر سے دیکھنا چاہئے کیونکہ اُس کی سوچ ہماری سوچ سے کہیں زیادہ بلند ہے۔‏ یوں ہم اُس ”‏راہ“‏ پر چلیں گے جو یہوواہ خدا کو پسند ہے۔‏—‏یسع ۳۰:‏۲۱‏۔‏

۲ اِس سلسلے میں بادشاہ داؤد نے ایک اچھی مثال قائم کی۔‏ وہ عموماً کوئی فیصلہ کرنے سے پہلے یہوواہ خدا کی مرضی کو دھیان میں رکھتے تھے۔‏ آئیں،‏ اُن کی زندگی کے کچھ واقعات پر غور کریں۔‏ ہم اُن کی مثال سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں کیونکہ وہ ایک ایسے انسان تھے جس کا دل ’‏یہوواہ اپنے خدا کے ساتھ کامل تھا۔‏‘‏—‏۱-‏سلا ۱۱:‏۴‏۔‏

داؤد کی نظر میں خدا کے نام کی اہمیت

۳،‏ ۴.‏ ‏(‏الف)‏ داؤد فلستی پہلوان جولیت سے لڑنے کے لئے کیوں تیار ہو گئے تھے؟‏ (‏ب)‏ داؤد کی نظر میں خدا کا نام کس قدر اہم تھا؟‏

۳ ذرا وہ موقع یاد کریں جب داؤد نے فلستیوں کے پہلوان جولیت کا مقابلہ کِیا تھا۔‏ داؤد ساڑھے نو فٹ اُونچے اور ہتھیاروں سے لیس پہلوان سے لڑنے کے لئے کیوں تیار ہو گئے؟‏ (‏۱-‏سمو ۱۷:‏۴‏)‏ کیا اِس کی وجہ یہ تھی کہ داؤد بہت دلیر تھے یا وہ خدا پر مضبوط ایمان رکھتے تھے؟‏ دراصل جولیت کو مار گِرانے کے لئے دلیری اور مضبوط ایمان دونوں کی ضرورت تھی۔‏ لیکن داؤد خاص طور پر یہوواہ خدا اور اُس کے عظیم نام کے لئے بڑی غیرت رکھتے تھے۔‏ اِس لئے وہ ایک لمبےتڑنگے پہلوان سے ٹکر لینے سے بھی نہ گھبرائے۔‏ داؤد نے بڑے طیش میں آکر کہا:‏ ”‏یہ نامختون فلستی ہوتا کون ہے کہ وہ زندہ خدا کی فوجوں کی فضیحت کرے؟‏“‏—‏۱-‏سمو ۱۷:‏۲۶‏۔‏

۴ جولیت کے سامنے آکر نوجوان داؤد نے کہا:‏ ”‏تُو تلوار بھالا اور برچھی لئے ہوئے میرے پاس آتا ہے پر مَیں ربُ‌الافواج [‏یہوواہ]‏ کے نام سے جو اؔسرائیل کے لشکروں کا خدا ہے جس کی تُو نے فضیحت کی ہے تیرے پاس آتا ہوں۔‏“‏ (‏۱-‏سمو ۱۷:‏۴۵‏)‏ داؤد کو یہ بھروسا تھا کہ اِس پہلوان کا مقابلہ کرنے میں یہوواہ خدا اُن کی مدد کرے گا۔‏ اُنہوں نے ایک ہی پتھر سے فلستیوں کے پہلوان کا کام تمام کر دیا۔‏ نہ صرف اِس موقعے پر بلکہ اپنی ساری زندگی وہ یہوواہ خدا پر بھروسا کرتے رہے اور اُس کے مُقدس نام کا احترام کرتے رہے۔‏ اُنہوں نے بنی‌اسرائیل کی بھی حوصلہ‌افزائی کی کہ وہ ’‏یہوواہ کے پاک نام پر فخر کریں۔‏‘‏‏—‏۱-‏تواریخ ۱۶:‏۸-‏۱۰ کو پڑھیں۔‏

۵.‏ جیسی صورتحال کا سامنا داؤد کو ہوا،‏ آج‌کل آپ کو ویسی صورتحال کا سامنا کیسے ہو سکتا ہے؟‏

۵ کیا آپ اِس بات پر فخر کرتے ہیں کہ یہوواہ آپ کا خدا ہے؟‏ (‏یرم ۹:‏۲۴‏)‏ جب آپ کے ساتھ کام کرنے والے،‏ آپ کے ہم‌جماعت یا آپ کے پڑوسی یا رشتہ‌دار یہوواہ خدا کی توہین کرتے ہیں اور اُس کے گواہوں کا مذاق اُڑاتے ہیں تو آپ کا ردِعمل کیا ہوتا ہے؟‏ کیا آپ یہوواہ خدا کے نام کی بڑائی کے لئے آواز اُٹھاتے ہیں اور یہ یقین رکھتے ہیں کہ وہ دوسروں کو جواب دینے میں آپ کی مدد کرے گا؟‏ یہ سچ ہے کہ ”‏چپ رہنے کا ایک وقت ہے“‏ لیکن ہمیں یہوواہ کے گواہ اور یسوع مسیح کے شاگرد کہلانے سے شرم محسوس نہیں کرنی چاہئے۔‏ (‏واعظ ۳:‏۱،‏ ۷؛‏ مر ۸:‏۳۸‏)‏ جو لوگ یہوواہ خدا اور اُس کے پیغام کی قدر نہیں کرتے،‏ ہمیں اُن کے ساتھ بڑی سمجھ‌داری اور نرمی سے بات کرنی چاہئے۔‏ لیکن ہمیں اُن اسرائیلیوں کی طرح نہیں بننا چاہئے جو جولیت کی دھمکیوں سے ”‏ہراسان ہوئے اور نہایت ڈر گئے۔‏“‏ (‏۱-‏سمو ۱۷:‏۱۱‏)‏ اِس کی بجائے ہمیں یہوواہ خدا کے نام کی بڑائی کے لئے فوراً آواز اُٹھانی چاہئے۔‏ ہماری دلی خواہش ہے کہ لوگ یہ جانیں کہ یہوواہ خدا کی ذات اور صفات کیا ہیں۔‏ اِس لئے بائبل کے ذریعے ہم یہ جاننے میں لوگوں کی مدد کرتے ہیں کہ خدا کی قربت حاصل کرنا کتنا ضروری ہے۔‏—‏یعقو ۴:‏۸‏۔‏

۶.‏ داؤد نے کس مقصد کے تحت جولیت کا مقابلہ کِیا؟‏ اور ہماری نظر میں سب سے اہم بات کیا ہونی چاہئے؟‏

۶ داؤد اور جولیت کے واقعے سے ہم ایک اَور اہم بات بھی سیکھتے ہیں۔‏ جب داؤد اسرائیلی لشکر کے پاس آئے تو اُنہوں نے فوجیوں سے پوچھا:‏ ”‏جو شخص اِس فلستی کو مار کر یہ ننگ اؔسرائیل سے دُور کرے اُس سے کیا سلوک کِیا جائے گا؟‏“‏ فوجیوں نے داؤد کو بتایا:‏ ”‏جو کوئی [‏جولیت]‏ کو مار ڈالے اُسے بادشاہ بڑی دولت سے نہال کرے گا اور اپنی بیٹی اُسے بیاہ دے گا۔‏“‏ (‏۱-‏سمو ۱۷:‏۲۵-‏۲۷‏)‏ لیکن داؤد کو کسی انعام کا لالچ نہیں تھا۔‏ اُن کی نظر میں اِس انعام سے زیادہ اہم بات یہ تھی کہ سچے خدا کی بڑائی ہو۔‏ ‏(‏۱-‏سموئیل ۱۷:‏۴۶،‏ ۴۷ کو پڑھیں۔‏)‏ کیا ہم بھی ایسا ہی سوچتے ہیں؟‏ یا کیا ہم اپنے لئے دولت کے ڈھیر لگانا چاہتے ہیں اور دُنیا میں نام کمانا چاہتے ہیں؟‏ بِلاشُبہ ہم داؤد کی مثال پر عمل کرنا چاہیں گے۔‏ اُنہوں نے کہا:‏ ”‏میرے ساتھ [‏یہوواہ]‏ کی بڑائی کرو۔‏ ہم مل کر اُس کے نام کی تمجید کریں۔‏“‏ (‏زبور ۳۴:‏۳‏)‏ لہٰذا ہمیں ہمیشہ یہوواہ خدا پر بھروسا کرنا چاہئے اور اپنا نام چمکانے کی بجائے اُس کے نام کو پاک ٹھہرانے کی کوشش کرنی چاہئے۔‏—‏متی ۶:‏۹‏۔‏

۷.‏ ہم اپنے ایمان کو مضبوط کرنے کے لئے کیا کر سکتے ہیں تاکہ ہم اُس وقت بھی مُنادی کا کام کرتے رہیں جب لوگ ہمارا پیغام نہیں سنتے؟‏

۷ جولیت کا مقابلہ کرنے سے داؤد نے ظاہر کِیا کہ وہ یہوواہ خدا پر مضبوط ایمان رکھتے ہیں۔‏ لیکن اُن کا ایمان مضبوط کیسے ہوا؟‏ وہ ایک چرواہے تھے اور وہ اپنے روزمرہ کاموں میں خدا پر بھروسا کرتے تھے۔‏ اِسی وجہ سے خدا پر اُن کا ایمان بہت مضبوط ہو گیا۔‏ (‏۱-‏سمو ۱۷:‏۳۴-‏۳۷‏)‏ ہمیں بھی مضبوط ایمان کی ضرورت ہے تاکہ ہم مُنادی کا کام جاری رکھ سکیں،‏ خاص طور پر اُس وقت جب لوگ ہمارا پیغام نہیں سنتے۔‏ اپنے ایمان کو مضبوط کرنے کے لئے ہمیں بھی اپنی روزمرہ زندگی میں خدا پر بھروسا رکھنا چاہئے۔‏ مثال کے طور پر بس یا ٹرین میں سفر کے دوران ہم دوسروں کے ساتھ یہوواہ خدا اور اُس کے مقصد کے بارے میں بات کر سکتے ہیں۔‏ اِس کے علاوہ جب ہم گھرگھر بادشاہت کی خوشخبری سناتے ہیں تو ہمیں گلی میں آنے جانے والے لوگوں کو بھی پیغام سنانا چاہئے۔‏—‏اعما ۲۰:‏۲۰،‏ ۲۱‏۔‏

داؤد نے خدا کی مرضی کو دھیان میں رکھا

۸،‏ ۹.‏ جب ساؤل،‏ داؤد کی جان کے پیچھے پڑے ہوئے تھے تو داؤد نے کیسے ظاہر کِیا کہ وہ خدا کی مرضی کے مطابق چلنا چاہتے ہیں؟‏

۸ آئیں،‏ ایک اَور مثال پر غور کریں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ داؤد کو یہوواہ خدا پر پورا بھروسا تھا۔‏ اُنہوں نے اسرائیل کے پہلے بادشاہ ساؤل کا احترام کِیا کیونکہ وہ خدا کے ممسوح تھے۔‏ ساؤل،‏ داؤد سے حسد کرتے تھے۔‏ اُنہوں نے تین بار داؤد کو اپنے نیزے سے چھید ڈالنے کی کوشش کی۔‏ مگر داؤد ہر بار بچ نکلے۔‏ داؤد نے ساؤل سے بدلہ لینے کی کوشش نہ کی بلکہ وہ اپنی جان بچانے کے لئے بھاگ گئے۔‏ (‏۱-‏سمو ۱۸:‏۷-‏۱۱؛‏ ۱۹:‏۱۰‏)‏ ساؤل نے سارے اسرائیل سے ۳۰۰۰ مردوں کو چنا اور اُنہیں لے کر بیابان میں داؤد کی تلاش میں نکل پڑے۔‏ (‏۱-‏سمو ۲۴:‏۲‏)‏ داؤد کو ڈھونڈتے ڈھونڈتے ساؤل اتفاق سے اُسی غار میں چلے گئے جہاں داؤد اور اُن کے آدمی چھپے ہوئے تھے۔‏ داؤد اِس موقعے سے فائدہ اُٹھا کر اپنے جانی دُشمن کو ہلاک کر سکتے تھے۔‏ وہ جانتے تھے کہ خدا چاہتا ہے کہ ساؤل کے بعد وہی اسرائیل کے بادشاہ بنیں۔‏ (‏۱-‏سمو ۱۶:‏۱،‏ ۱۳‏)‏ اگر داؤد اپنے آدمیوں کے کہنے میں آ جاتے تو ساؤل بادشاہ مارے جاتے۔‏ لیکن داؤد نے کہا:‏ ”‏[‏یہوواہ]‏ نہ کرے کہ مَیں اپنے مالک سے جو [‏یہوواہ]‏ کا ممسوح ہے۔‏ ایسا کام کروں۔‏“‏ ‏(‏۱-‏سموئیل ۲۴:‏۴-‏۷ کو پڑھیں۔‏)‏ یہوواہ خدا نے ابھی تک ساؤل کو اُن کے عہدے سے ہٹایا نہیں تھا۔‏ اِس لئے داؤد بھی یہ نہیں چاہتے تھے کہ وہ ساؤل سے اُن کا تخت چھین لیں۔‏ لہٰذا وہ چپکے سے ساؤل کے چوغے کا دامن کاٹ کر لے گئے۔‏ یوں داؤد نے ظاہر کِیا کہ وہ ساؤل کی جان نہیں لینا چاہتے۔‏—‏۱-‏سمو ۲۴:‏۱۱‏۔‏

۹ ایک اَور موقعے پر بھی داؤد نے یہوواہ خدا کے ممسوح بادشاہ ساؤل کے لئے احترام ظاہر کِیا۔‏ یہ وہ موقع تھا جب داؤد نے ساؤل کو آخری بار دیکھا تھا۔‏ داؤد اور اُن کے ایک سپاہی ابیشے اُس جگہ پہنچے جہاں ساؤل بادشاہ نے ڈیرا ڈالا ہوا تھا۔‏ اُنہوں نے دیکھا کہ ساؤل بادشاہ سو رہے ہیں۔‏ ابیشے نے داؤد سے کہا کہ ”‏خدا نے آپ کے دُشمن کو آپ کے حوالے کر دیا ہے۔‏ اگر آپ اجازت دیں تو مَیں ساؤل کو ابھی نیزے کے ایک وار سے چھید ڈالوں۔‏“‏ لیکن داؤد نے اِس کی اجازت نہ دی۔‏ (‏۱-‏سمو ۲۶:‏۸-‏۱۱‏)‏ اُنہوں نے اِس معاملے میں خدا کی مرضی کو دھیان میں رکھا۔‏ ابیشے کے اصرار کے باوجود وہ اپنے اِس عزم پر قائم رہے کہ وہ یہوواہ خدا کے ممسوح کو کوئی نقصان نہیں پہنچائیں گے۔‏

۱۰.‏ ہمیں کس صورتحال کا سامنا ہو سکتا ہے؟‏ اور ہم خدا کی مرضی پر چلنے کے قابل کیسے ہو سکتے ہیں؟‏

۱۰ ہو سکتا ہے کہ ہمیں بھی لوگ کوئی ایسا کام کرنے پر اُکسائیں جو خدا کی مرضی کے مطابق نہ ہو۔‏ ابیشے کی طرح شاید کچھ لوگ کسی معاملے کے بارے میں فوراً کوئی فیصلہ کرنے کے لئے ہم پر دباؤ ڈالیں۔‏ ایسی صورت میں شاید ہمیں یہ سوچنے کا موقع بھی نہ ملے کہ اِس سلسلے میں خدا کی مرضی کیا ہے۔‏ اگر ہم لوگوں کے دباؤ میں آنے سے بچنا چاہتے ہیں تو ہمیں یہ معلوم ہونا چاہئے کہ اِس معاملے کے بارے میں خدا کا نظریہ کیا ہے۔‏ اور پھر ہمیں اُس کی مرضی کے مطابق چلنے کا عزم کرنا چاہئے۔‏

۱۱.‏ خدا کی مرضی پر چلنے کے سلسلے میں آپ نے داؤد کی مثال سے کیا سیکھا ہے؟‏

۱۱ داؤد نے دُعا میں یہوواہ خدا سے کہا:‏ ”‏مجھے سکھا کہ تیری مرضی پر چلوں۔‏“‏ ‏(‏زبور ۱۴۳:‏۵،‏ ۸،‏ ۱۰ کو پڑھیں۔‏)‏ وہ اپنی عقل پر بھروسا کرنے یا کسی اَور کے دباؤ میں آکر کوئی فیصلہ کرنے کی بجائے یہوواہ خدا سے تعلیم پانے کے مشتاق تھے۔‏ وہ ’‏یہوواہ کے سب کاموں پر غور کرتے تھے اور اُس کی دستکاری پر دھیان کرتے تھے۔‏‘‏ کسی معاملے کے متعلق خدا کی مرضی جاننے کے لئے ہم بھی پاک کلام کا مطالعہ کر سکتے ہیں۔‏ اور اِس بات پر غور کر سکتے ہیں کہ ماضی میں خدا مختلف صورتوں میں لوگوں کے ساتھ کیسے پیش آیا تھا۔‏

داؤد نے شریعت کے اصولوں کی پابندی کی

۱۲،‏ ۱۳.‏ داؤد نے وہ پانی زمین پر کیوں اُنڈیل دیا جو اُن کے تین آدمی بیت‌لحم سے لائے تھے؟‏

۱۲ ہم داؤد کی مثال سے ایک اَور اہم بات سیکھتے ہیں۔‏ وہ اُن اصولوں کو اچھی طرح سمجھتے تھے جو شریعت کی بنیاد تھے اور اُن کے مطابق زندگی گزارنا چاہتے تھے۔‏ اِس سلسلے میں اُس واقعے پر غور کریں جب داؤد کو سخت پیاس لگی تھی اور اُنہوں نے کہا:‏ ’‏اَے کاش کوئی بیت‌لحم کے کوئیں کا پانی مجھے پینے کو دیتا!‏‘‏ اُس وقت شہر بیت‌لحم پر فلستیوں کا قبضہ تھا۔‏ لیکن داؤد کے تین آدمی اپنی جان خطرے میں ڈال کر وہاں سے پانی لائے۔‏ مگر داؤد نے وہ پانی نہ پیا بلکہ اُسے یہوواہ خدا کے حضور اُنڈیل دیا۔‏ اِس کی کیا وجہ تھی؟‏ داؤد نے کہا:‏ ”‏خدا نہ کرے کہ مَیں ایسا کروں۔‏ کیا مَیں اِن لوگوں کا خون پیوں جو اپنی جانوں پر کھیلے ہیں؟‏ کیونکہ وہ جان‌بازی کرکے اُس کو لائے ہیں۔‏“‏—‏۱-‏توا ۱۱:‏۱۵-‏۱۹‏۔‏

۱۳ داؤد شریعت کے اِس حکم سے واقف تھے کہ خون کو کھانا نہیں چاہئے بلکہ اِسے خدا کے حضور اُنڈیل دینا چاہئے۔‏ وہ اِس حکم کا مقصد بھی سمجھتے تھے۔‏ وہ جانتے تھے کہ ”‏جسم کی جان خون میں ہے۔‏“‏ لیکن شاید آپ سوچیں کہ داؤد کو پانی دیا گیا تھا،‏ خون نہیں۔‏ تو پھر اُنہوں نے اِسے پینے سے انکار کیوں کِیا؟‏ دراصل داؤد اُس اصول کو سمجھتے تھے جس کی بِنا پر خون کھانے سے منع کِیا گیا تھا۔‏ داؤد کی نظر میں یہ پانی اُن تین آدمیوں کے خون کے برابر تھا کیونکہ وہ اپنی جان پر کھیل کر یہ پانی لائے تھے۔‏ اِس لئے داؤد نے اِسے پینے سے انکار کر دیا اور اِسے زمین پر بہا دیا۔‏—‏احبا ۱۷:‏۱۱؛‏ است ۱۲:‏۲۳،‏ ۲۴‏۔‏

۱۴.‏ داؤد،‏ یہوواہ خدا کی مرضی کے مطابق فیصلے کرنے کے قابل کیسے ہوئے؟‏

۱۴ داؤد کی نظر میں خدا کی شریعت پر چلنا بہت اہم تھا۔‏ اُنہوں نے کہا:‏ ”‏اَے میرے خدا!‏ میری خوشی تیری مرضی پوری کرنے میں ہے بلکہ تیری شریعت میرے دل میں ہے۔‏“‏ (‏زبور ۴۰:‏۸‏)‏ وہ خدا کی شریعت کا مطالعہ کرتے تھے اور اِس پر سوچ‌بچار کرتے تھے۔‏ اُنہیں یقین تھا کہ خدا کی شریعت پر عمل کرنے سے اُنہیں بہت فائدہ ہوگا۔‏ وہ نہ صرف شریعت کے حکموں کی پابندی کرتے تھے بلکہ اُن اصولوں کو بھی اچھی طرح سمجھتے جن پر یہ حکم مبنی تھے۔‏ جب ہم بائبل کو پڑھتے ہیں تو ہمیں اِس پر سوچ‌بچار کرنا چاہئے۔‏ اِس طرح پاک کلام کے اصول ہمارے دل پر نقش ہو جائیں گے اور ہم ایسے فیصلے کرنے کے قابل ہوں گے جن سے یہوواہ خدا خوش ہوگا۔‏

۱۵.‏ سلیمان کس لحاظ سے خدا کی شریعت کا احترام کرنے میں ناکام ہو گئے؟‏

۱۵ یہوواہ خدا نے داؤد کے بیٹے سلیمان کو بڑی برکتیں دی تھیں۔‏ لیکن ایک ایسا وقت آیا جب سلیمان خدا کے وفادار نہ رہے۔‏ یہوواہ خدا نے شریعت میں یہ حکم دیا تھا کہ اسرائیل کا بادشاہ ”‏بہت سی بیویاں .‏ .‏ .‏ نہ رکھے۔‏“‏ مگر سلیمان نے خدا کے اِس حکم کی پابندی نہ کی۔‏ (‏است ۱۷:‏۱۷‏)‏ اُنہوں نے غیرقوموں میں سے بہت سی عورتیں بیاہ لیں۔‏ بائبل میں بتایا گیا ہے کہ ”‏جب سلیماؔن بڈھا ہو گیا تو اُس کی بیویوں نے اُس کے دل کو غیرمعبودوں کی طرف مائل کر لیا۔‏“‏ اُنہوں نے خدا کی شریعت توڑنے کا چاہے کوئی بھی بہانا بنایا ہو،‏ حقیقت تو یہ ہے کہ ”‏سلیماؔن نے [‏یہوواہ]‏ کے آگے بدی کی اور اُس نے [‏یہوواہ]‏ کی پوری پیروی نہ کی جیسی اُس کے باپ داؔؤد نے کی تھی۔‏“‏ (‏۱-‏سلا ۱۱:‏۱-‏۶‏)‏ لہٰذا یہ بہت اہم ہے کہ ہم خدا کے کلام میں درج حکموں اور اصولوں کے مطابق چلیں۔‏ مثال کے طور پر جب ہم شادی کرنے کے بارے میں سوچ رہے ہوں تو اُس وقت بھی پاک کلام کے اصولوں پر عمل کرنا بہت ضروری ہے۔‏

۱۶.‏ ‏”‏صرف خداوند میں“‏ شادی کرنے کا حکم جس اصول پر مبنی ہے،‏ اُسے سمجھنا مسیحیوں کے لئے کیوں ضروری ہے؟‏

۱۶ اگر کوئی مخالف‌جنس جو یہوواہ کا گواہ نہیں ہے،‏ ہم میں دلچسپی ظاہر کرتا ہے اور ہمیں اپنے ساتھ کھانا کھانے یا پھر گھومنے پھرنے کی پیشکش کرتا ہے تو ہم کیسا ردِعمل دِکھاتے ہیں؟‏ کیا ہم داؤد کی طرح اِس معاملے کو یہوواہ خدا کی نظر سے دیکھتے ہیں یا کیا ہم سلیمان کی طرح خدا کے حکم کو نظرانداز کر دیتے ہیں؟‏ خدا نے سچے مسیحیوں کو یہ حکم دیا ہے کہ وہ ”‏صرف خداوند میں“‏ شادی کریں۔‏ (‏۱-‏کر ۷:‏۳۹‏)‏ لہٰذا اگر کوئی مسیحی شادی کرنا چاہتا ہے تو اُسے صرف اپنے ہم‌ایمان سے شادی کرنی چاہئے۔‏ اگر ہم اُس اصول کو سمجھتے ہیں جس پر یہ حکم مبنی ہے تو پھر ہم نہ تو اُس شخص سے شادی کریں گے جو ہمارا ہم‌ایمان نہیں ہے اور نہ ہی اُس کی پیشکش کو قبول کریں گے۔‏

۱۷.‏ ہم فحش مواد پڑھنے یا دیکھنے کے پھندے سے کیسے بچ سکتے ہیں؟‏

۱۷ اگر ہم داؤد کی طرح ہر معاملے کو یہوواہ خدا کی نظر سے دیکھتے ہیں تو ہم گندی تصویریں دیکھنے کی خواہش کا مقابلہ کر سکیں گے۔‏ اِن آیتوں کو پڑھیں،‏ اِن میں دئے گئے اصول پر غور کریں اور یہ سمجھنے کی کوشش کریں کہ فحش مواد کو پڑھنے یا دیکھنے کے سلسلے میں یہوواہ خدا کا نظریہ کیا ہے۔‏ ‏(‏زبور ۱۱۹:‏۳۷؛‏ متی ۵:‏۲۸،‏ ۲۹؛‏ کلسیوں ۳:‏۵ کو پڑھیں۔‏)‏ یہوواہ خدا کے بلند معیاروں کو دھیان میں رکھنے سے ہم فحش مواد پڑھنے یا دیکھنے کے پھندے سے بچ جائیں گے۔‏

ہر معاملے کو یہوواہ خدا کی نظر سے دیکھیں

۱۸،‏ ۱۹.‏ ‏(‏الف)‏ خطاکار ہونے کہ باوجود داؤد خدا کی قربت میں رہنے کے قابل کیسے ہوئے؟‏ (‏ب)‏ آپ کا عزم کیا ہے؟‏

۱۸ داؤد نے بہت سے معاملوں میں اچھی مثال قائم کی لیکن اُن سے کچھ سنگین گُناہ بھی ہوئے۔‏ (‏۲-‏سمو ۱۱:‏۲-‏۴،‏ ۱۴،‏ ۱۵،‏ ۲۲-‏۲۷؛‏ ۱-‏توا ۲۱:‏۱،‏ ۷‏)‏ مگر جب اُن سے کوئی گُناہ ہوا تو وہ نہایت پشیمان ہوئے اور توبہ بھی کی۔‏ وہ خدا کے حضور ”‏خلوص‌دل اور راستی سے“‏ چلتے رہے۔‏ (‏۱-‏سلا ۹:‏۴‏)‏ ہم ایسا کیوں کہہ سکتے ہیں؟‏ کیونکہ داؤد ہر معاملے کو یہوواہ خدا کی نظر سے دیکھنے اور اُس کی مرضی کے مطابق چلنے کی کوشش کرتے تھے۔‏

۱۹ خطاکار انسان ہونے کے باوجود ہم یہوواہ خدا کی قربت میں رہ سکتے ہیں۔‏ اِس کے لئے ضروری ہے کہ ہم باقاعدگی سے خدا کے کلام کا مطالعہ کریں،‏ اِس میں پائے جانے والے اصولوں پر غور کریں اور پھر فوراً اُن پر عمل کریں۔‏ ایسا کرنے سے ہم یہ ظاہر کریں گے کہ ہم بھی داؤد جیسی خواہش رکھتے ہیں جنہوں نے یہوواہ خدا سے التجا کی:‏ ”‏مجھے سکھا کہ تیری مرضی پر چلوں۔‏“‏

‏[‏مطالعے کے سوالات]‏

‏[‏صفحہ ۱۱ پر تصویر]‏

جب داؤد کو بادشاہ ساؤل کی جان لینے کا موقع ملا تو اُنہوں نے ایسا کیوں نہیں کِیا تھا؟‏

‏[‏صفحہ ۱۲ پر تصویر]‏

داؤد نے وہ پانی پینے سے انکار کیوں کِیا جو اُن کے آدمی لائے تھے؟‏ اور ہم اِس سے کیا سیکھتے ہیں؟‏