مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

کیا آپ اپنی میراث کی قدر کرتے ہیں؟‏

کیا آپ اپنی میراث کی قدر کرتے ہیں؟‏

‏”‏خدا نے .‏ .‏ .‏ غیرقوموں پر .‏ .‏ .‏ توجہ کی تاکہ اُن میں سے اپنے نام کی ایک اُمت بنا لے۔‏“‏ —‏اعما ۱۵:‏۱۴‏۔‏

۱،‏ ۲.‏ ‏(‏الف)‏ ’‏داؤد کے خیمے‘‏ سے کیا مراد ہے؟‏ اور اِسے کس طرح دوبارہ کھڑا کِیا گیا؟‏ (‏ب)‏ آج‌کل کون خدا کے بندوں کے طور پر خدمت کر رہے ہیں؟‏

سن ۴۹ء میں یروشلیم میں رسولوں اور بزرگوں کی جماعت ایک بہت ہی اہم مسئلے پر بات کرنے کے لئے جمع ہوئی۔‏ اِس موقع پر شاگرد یعقوب نے کہا:‏ ”‏شمعوؔن [‏پطرس]‏ نے بیان کِیا ہے کہ خدا نے پہلےپہل غیرقوموں پر کس طرح توجہ کی تاکہ اُن میں سے اپنے نام کی ایک اُمت بنا لے۔‏ اور نبیوں کی باتیں بھی اِس کے مطابق ہیں۔‏ چُنانچہ لکھا ہے کہ اِن باتوں کے بعد مَیں پھر آکر داؔؤد کے گِرے ہوئے خیمہ کو اُٹھاؤں گا اور اُس کے پھٹے ٹوٹے کی مرمت کرکے اُسے کھڑا کروں گا۔‏ تاکہ باقی آدمی یعنی سب قومیں جو میرے نام کی کہلاتی ہیں [‏یہوواہ]‏ کو تلاش کریں۔‏ یہ وہی [‏یہوواہ]‏ فرماتا ہے جو دُنیا کے شروع سے اِن باتوں کی خبر دیتا آیا ہے۔‏“‏—‏اعما ۱۵:‏۱۳-‏۱۸‏۔‏

۲ ‏’‏داؤد کے خیمے‘‏ سے مراد وہ بادشاہ ہیں جو داؤد کی نسل سے آئے تھے۔‏ ’‏داؤد کا خیمہ‘‏ اُس وقت گِرا جب یہوداہ کے آخری بادشاہ صدقیاہ سے سلطنت چھین لی گئی۔‏ (‏عامو ۹:‏۱۱‏)‏ لیکن عاموس نبی نے پیشین‌گوئی کی تھی کہ اِس خیمے یا مسکن کو دوبارہ کھڑا کِیا جائے گا۔‏ اِس کا مطلب ہے کہ داؤد کی نسل سے ایک شخص کو بادشاہ بنایا جائے گا۔‏ یہ شخص یسوع مسیح ہیں۔‏ (‏حز ۲۱:‏۲۷؛‏ اعما ۲:‏۲۹-‏۳۶‏)‏ سن ۴۹ء میں منعقد ہونے والے اجلاس پر یعقوب نے واضح کِیا کہ عاموس کی پیشین‌گوئی کے مطابق ہی یہودیوں اور غیریہودیوں میں سے ایسے لوگوں کو جمع کِیا جا رہا ہے جو مسیح کے ساتھ بادشاہی کریں گے۔‏ آج‌کل بھی زمین پر کچھ ممسوح مسیحی موجود ہیں۔‏ یسوع مسیح کی لاکھوں ”‏اَور بھی بھیڑیں“‏ یعنی زمین پر ہمیشہ کی زندگی پانے کی اُمید رکھنے والے لوگ پاک کلام کی سچائیوں کو پھیلانے میں ممسوح مسیحیوں کا ساتھ دے رہی ہیں۔‏—‏یوح ۱۰:‏۱۶‏۔‏

خدا کے بندے جھوٹی تعلیمات کے گھیرے میں

۳،‏ ۴.‏ خدا کے بندے بابل کی جھوٹی تعلیمات سے پاک کیسے رہے؟‏

۳ جب بابل کی فوج یہودیوں کو غلام بنا کر لے گئی تو یہ اِس بات کا ثبوت تھا کہ ’‏داؤد کا خیمہ‘‏ گِر پڑا ہے۔‏ خدا کے بندے بابل کے شہر میں ۶۰۷-‏۵۳۷ قبل‌ازمسیح تک قید رہے۔‏ یہ شہر جھوٹی تعلیمات کا گڑھ تھا۔‏ ایسے ماحول میں یہودی ۷۰ سال تک جھوٹی تعلیمات کے اثر سے پاک کیسے رہے؟‏ جیسے ہمیں یہوواہ خدا کی طرف سے ایک میراث ملی ہے ویسے ہی یہودیوں کو بھی ملی تھی۔‏ اور جیسے ہم اپنی میراث کی بدولت شیطان کی دُنیا میں جھوٹی تعلیم سے پاک رہتے ہیں ویسے ہی یہودی اپنی میراث کی بدولت بابل کی جھوٹی تعلیم سے پاک رہے۔‏—‏۱-‏یوح ۵:‏۱۹‏۔‏

۴ خدا کا کلام ہماری میراث کا قیمتی حصہ ہے۔‏ جو یہودی بابل میں قید تھے،‏ اُن کے پاس تمام پاک صحیفے موجود نہیں تھے۔‏ لیکن وہ موسیٰ کی شریعت سے واقف تھے جس میں دس حکم شامل تھے۔‏ اُنہیں ’‏صیون کے گیت‘‏ اور بہت سی مثلیں بھی یاد تھیں۔‏ اِس کے علاوہ وہ ماضی میں رہنے والے وفادار بندوں کے کارناموں سے بھی واقف تھے۔‏ وہ صیون کو یاد کر کر کے روتے تھے اور اپنے خدا یہوواہ کو بھولے نہیں تھے۔‏ ‏(‏زبور ۱۳۷:‏۱-‏۶ کو پڑھیں۔‏)‏ اِسی وجہ سے وہ بابل کی جھوٹی تعلیم اور رسموں سے آلودہ نہیں ہوئے تھے۔‏

تثلیث—‏ہزاروں سال پُرانا عقیدہ

۵.‏ ہم کیوں کہہ سکتے ہیں کہ بابل اور مصر کے لوگ تثلیث پر ایمان رکھتے تھے؟‏

۵ بابل کے لوگ دیوی اور دیوتاؤں کی تثلیث کو مانتے تھے۔‏ مثال کے طور پر لوگ سِن (‏چاند دیوتا)‏،‏ شامش (‏سورج دیوتا)‏ اور عشتار (‏جنگ اور افزائشِ‌نسل کی دیوی)‏ کی تثلیث کو مانتے تھے۔‏ قدیم زمانے میں مصری بھی تثلیث پر ایمان رکھتے تھے۔‏ اُن کا خیال تھا کہ اکثر ایک دیوتا ایک دیوی سے شادی کرتا ہے جو ایک بیٹے کو جنم دیتی ہے اور یوں ایک تثلیث بنتی ہے۔‏ اِس سلسلے میں ایک انسائیکلوپیڈیا بتاتا ہے کہ اِس طرح کی تثلیث میں بعض اوقات دیوی کو سب سے اہم مقام حاصل ہوتا تھا۔‏ مصری لوگ بہت سی تثلیثوں کو مانتے تھے جن میں سے ایک دیوتا اوسیرس،‏ دیوی آئسس اور اُن کے بیٹے ہورس کی تثلیث ہے۔‏

۶.‏ تثلیث کا عقیدہ کیا ہے؟‏ اور ہم اِس عقیدے کو کیوں نہیں مانتے؟‏

۶ بہت سے لوگ جو مسیحی ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں،‏ وہ بھی تثلیث کو مانتے ہیں۔‏ چرچ کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ خدا تین ہستیوں پر مشتمل ہے یعنی باپ،‏ بیٹا اور روحُ‌القدس۔‏ لیکن اِس عقیدے کی وجہ سے لوگ خدا کو کائنات کا واحد اور قادرِمطلق حکمران نہیں سمجھتے۔‏ اُن کے خیال میں وہ تثلیث کا محض ایک اقنوم یعنی جُز ہے۔‏ لیکن یہوواہ کے بندے اِس جھوٹی تعلیم سے آلودہ نہیں ہوئے کیونکہ ہم اِس الہامی بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ ”‏[‏یہوواہ]‏ ہمارا خدا ایک ہی [‏یہوواہ]‏ ہے۔‏“‏ (‏است ۶:‏۴‏)‏ یسوع مسیح نے خود اِس بات کا حوالہ دیا تھا۔‏ ایک سچا مسیحی بھلا یسوع مسیح کی بات سے اختلاف کیسے کر سکتا ہے؟‏—‏مر ۱۲:‏۲۹‏۔‏

۷.‏ جو شخص تثلیث پر ایمان رکھتا ہے،‏ وہ بپتسمہ پانے کے لائق کیوں نہیں؟‏

۷ تثلیث کا عقیدہ یسوع مسیح کے اُس حکم سے بھی ٹکراتا ہے جو اُنہوں نے اپنے پیروکاروں کو دیا تھا۔‏ اُنہوں نے کہا تھا:‏ ”‏سب قوموں کو شاگرد بناؤ اور اُن کو باپ اور بیٹے اور روحُ‌القدس کے نام سے بپتسمہ دو۔‏“‏ (‏متی ۲۸:‏۱۹‏)‏ اگر ایک شخص یسوع مسیح کا شاگرد اور یہوواہ کا گواہ بننے کے لئے بپتسمہ لینا چاہتا ہے تو ضروری ہے کہ وہ باپ یعنی یہوواہ خدا کو کائنات کا حکمران تسلیم کرے۔‏ اُس کے لئے یہ ایمان رکھنا بھی ضروری ہے کہ یسوع مسیح،‏ خدا کا بیٹا ہے جس نے ہمارے لئے اپنی جان قربان کی۔‏ اور روحُ‌القدس خدا کی طاقت ہے نہ کہ تثلیث کا ایک اقنوم۔‏ جو شخص تثلیث کو مانتا ہے،‏ وہ خدا کی ذات کو نہیں سمجھتا۔‏ اِس لئے وہ خود کو یہوواہ خدا کے لئے وقف نہیں کرتا۔‏ لہٰذا وہ بپتسمہ نہیں لے سکتا۔‏ ہمیں خوشی ہے کہ ہم اپنی میراث کی بدولت ایسے جھوٹے اور خدا کی توہین کرنے والے عقیدے سے پاک ہیں۔‏

شیاطین سے تعلق رکھنے والے کاموں کی جڑ

۸.‏ بابل کے لوگ دیوتاؤں اور شیاطین کے متعلق کیا نظریہ رکھتے تھے؟‏

۸ بابل کے لوگ نہ صرف دیوتاؤں بلکہ شیاطین یا بدروحوں کو بھی مانتے تھے۔‏ اِس سلسلے میں ایک انسائیکلوپیڈیا بیان کرتا ہے:‏ ”‏بابلی لوگ سمجھتے تھے کہ شیاطین اُنہیں جسمانی یا دماغی بیماریوں میں مبتلا کرنے کی طاقت رکھتے ہیں۔‏ بہت سی مذہبی رسمیں شیاطین کے اثر سے بچنے کے لئے ادا کی جاتی تھیں۔‏ اِس کے علاوہ لوگ دیوتاؤں سے دُعائیں مانگتے تھے تاکہ وہ شیاطین سے اُن کی حفاظت کریں۔‏“‏

۹.‏ ‏(‏الف)‏ بہت سے یہودیوں نے جھوٹی تعلیمات کیسے اپنا لیں؟‏ (‏ب)‏ ہم شیاطین کے پھندے میں پھنسنے سے کیسے محفوظ رہے ہیں؟‏

۹ بابل کی غلامی کے دوران بہت سے یہودیوں نے کئی جھوٹے عقیدے سیکھ لئے تھے۔‏ بعد میں جب یونانی تعلیمات عام ہوئیں تو بہت سے یہودی اِن تعلیمات کو ماننے لگے۔‏ بعض یہودیوں نے یہ نظریہ اپنا لیا کہ شیاطین اچھے بھی ہوتے ہیں اور بُرے بھی۔‏ اِس کی وجہ سے وہ شیاطین سے رابطہ رکھنے اور اُن کے اثر میں آنے کے خطرے میں پڑ گئے۔‏ خدا کی طرف سے ملنے والی میراث کی بدولت ہم شیاطین کے پھندے میں پھنسنے سے بچتے ہیں۔‏ ہم جانتے ہیں کہ خدا کو شیاطین سے تعلق رکھنے والے کاموں سے نفرت تھی جو بابل میں کئے جاتے تھے۔‏ (‏یسع ۴۷:‏۱،‏ ۱۲-‏۱۵‏)‏ ہم خدا کے حکم کے مطابق ایسی تمام تعلیمات اور رسموں کو رد کرتے ہیں جن کا تعلق شیاطین سے ہے۔‏‏—‏استثنا ۱۸:‏۱۰-‏۱۲؛‏ مکاشفہ ۲۱:‏۸ کو پڑھیں۔‏

۱۰.‏ بڑا شہر بابل کس طرح کی تعلیمات اور کاموں سے بھرا ہے؟‏

۱۰ قدیم شہر بابل کے لوگوں کی طرح آج‌کل ’‏بڑے شہر بابل‘‏ یعنی جھوٹے مذاہب کو ماننے والے لوگ بھی ایسے کام کرتے ہیں جن کا تعلق شیاطین سے ہے۔‏ (‏مکا ۱۸:‏۲۱-‏۲۴‏)‏ بائبل کے الفاظ کی تشریح کرنے والی ایک لغت اِس سلسلے میں بیان کرتی ہے:‏ ”‏بڑا شہر بابل کسی ایک سلطنت یا تہذیب کی طرف اشارہ نہیں کرتا۔‏ اِس کی پہچان جھوٹی تعلیمات ہیں اور یہ ایک نہیں بلکہ بہت سے مذاہب کی علامت ہے۔‏“‏ بڑا شہر بابل ہر طرح کی جادوگری،‏ بُت‌پرستی اور دیگر گھنونے کاموں سے بھرا ہے۔‏ اِس لئے یہ بہت ہی جلد گِرنے والا ہے۔‏‏—‏مکاشفہ ۱۸:‏۱-‏۵ کو پڑھیں۔‏

۱۱.‏ ہماری کتابوں اور رسالوں میں ہمیں جادوگری اور مُردوں سے رابطہ رکھنے کے سلسلے میں کیسے خبردار کِیا گیا ہے؟‏

۱۱ یہوواہ خدا نے حکم دیا تھا کہ ’‏تُم جادومنتر نہ کرنا۔‏‘‏ (‏احبا ۱۹:‏۲۶‏)‏ اُنیسویں صدی میں بہت سے لوگ جادوٹونے میں دلچسپی لیتے تھے۔‏ اِس لئے مئی ۱۸۸۵ء میں زائنز واچ‌ٹاور میں کچھ مضامین شائع کئے گئے جن میں شیاطین سے تعلق رکھنے والے کاموں سے خبردار کِیا گیا تھا۔‏ اِن میں بتایا گیا کہ ”‏یہ تعلیم کوئی نئی نہیں کہ مُردوں کا ایک الگ جہان ہے۔‏ دراصل یہ پُرانے زمانے کے مذاہب کی بنیادی تعلیم تھی جو دیگر بہت سے جھوٹے عقیدوں کی جڑ ہے۔‏“‏ اِس رسالے میں یہ بھی بتایا گیا کہ شیاطین مرے ہوئے لوگوں کا روپ دھار لیتے ہیں اور یہ تاثر دیتے ہیں کہ وہ زندہ لوگوں سے رابطہ رکھنا چاہتے ہیں۔‏ یوں شیاطین نے بہت سے لوگوں کو اپنی مٹھی میں کر رکھا ہے۔‏ سن ۱۸۹۷ء میں ایک کتاب شائع ہوئی جس میں جادوگری اور مُردوں سے رابطہ رکھنے کے سلسلے میں خبردار کِیا گیا تھا۔‏ آج‌کل بھی ہماری کتابوں اور رسالوں میں اِس موضوع پر اکثر ہدایات دی جاتی ہیں۔‏

کیا روحوں کو دوزخ میں تڑپایا جاتا ہے؟‏

۱۲.‏ خدا کے الہام سے بادشاہ سلیمان نے مُردوں کی حالت کے بارے میں کیا بتایا؟‏

۱۲ وہ تمام لوگ ”‏جو حق سے واقف ہیں“‏،‏ وہ اِس سوال کا جواب جانتے ہیں۔‏ (‏۲-‏یوح ۱،‏ ۲‏)‏ بےشک ہم سلیمان بادشاہ کی اِس بات سے متفق ہیں:‏ ”‏زندہ کتا مُردہ شیر سے بہتر ہے۔‏ کیونکہ زندہ جانتے ہیں کہ وہ مریں گے پر مُردے کچھ بھی نہیں جانتے .‏ .‏ .‏ جو کام تیرا ہاتھ کرنے کو پائے اُسے مقدور بھر کر کیونکہ پاتال [‏یعنی قبر]‏ میں جہاں تُو جاتا ہے نہ کام ہے نہ منصوبہ۔‏ نہ علم نہ حکمت۔‏“‏—‏واعظ ۹:‏۴،‏ ۵،‏ ۱۰‏۔‏

۱۳.‏ یہودیوں پر یونانی مذہب اور ثقافت کا کیا اثر ہوا؟‏

۱۳ یہودی یہ جانتے تھے کہ انسان مرنے کے بعد کسی اَور جہان میں زندہ نہیں رہتا۔‏ پھر ایک وقت آیا کہ یہوداہ کا علاقہ یونان کے قبضے میں آ گیا۔‏ جب سکندرِاعظم کی سلطنت چار حصوں میں تقسیم ہوئی تو سوریہ اور یہوداہ ایک حاکم کے قبضے میں آ گئے۔‏ اُس نے اِن دونوں علاقوں کو یونانی مذہب اور ثقافت کے ذریعے متحد کرنے کی کوشش کی۔‏ اِس کے نتیجے میں یہودیوں نے بعض جھوٹے عقیدے اپنا لئے،‏ جیسے کہ روح کبھی نہیں مرتی اور روحوں کو کسی اَور جہان میں تڑپایا جاتا ہے۔‏ روحوں کو عذاب میں رکھنے کا عقیدہ یونانیوں سے شروع نہیں ہوا تھا۔‏ کتاب بابل اور اسور کا مذہب ‏(‏انگریزی میں دستیاب)‏ کے مطابق بابل کے لوگ پہلے ہی سے ”‏یہ مانتے تھے کہ زمین کی گہرائیوں میں ایک ایسی خوفناک جگہ ہے جہاں روحوں کو عذاب پہنچایا جاتا ہے۔‏ .‏ .‏ .‏ اِس جگہ کی نگرانی دہشت‌ناک اور طاقت‌ور دیوتا اور شیاطین کرتے ہیں۔‏“‏ اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بابل کے لوگ یہ مانتے تھے کہ روح غیرفانی ہے۔‏

۱۴.‏ اِس بات کا کیا ثبوت ہے کہ ایوب اور ابرہام جانتے تھے کہ مُردے کس حالت میں ہیں اور خدا اُنہیں زندہ کرے گا؟‏

۱۴ خدا کے بندے ایوب کے پاس اگرچہ پاک صحیفے نہیں تھے پھر بھی وہ جانتے تھے کہ انسان مرنے کے بعد کسی اَور جہان میں زندہ نہیں رہتا۔‏ اُن کا ایمان تھا کہ یہوواہ محبت کرنے والا خدا ہے اور وہ مُردوں کو زندہ کرنے کی شدید خواہش رکھتا ہے۔‏ اُنہوں نے خدا سے کہا:‏ ”‏اگر انسان مر جائے تو کیا وہ پھر سے جی سکے گا؟‏ .‏ .‏ .‏ تُو آواز دے گا اور مَیں تجھے جواب دوں گا؛‏ تُو اپنے ہاتھوں سے بنائی ہوئی مخلوق کی طرف متوجہ ہوگا۔‏“‏ (‏ایو ۱۴:‏۱۳-‏۱۵‏،‏ نیو اُردو بائبل ورشن‏)‏ ابرہام بھی یہ ایمان رکھتے تھے کہ خدا مُردوں کو زندہ کرے گا۔‏ ‏(‏عبرانیوں ۱۱:‏۱۷-‏۱۹ کو پڑھیں۔‏)‏ لیکن اگر انسان مرتا ہی نہیں تو بھلا اُسے زندہ کیسے کِیا جا سکتا ہے۔‏ لہٰذا واضح بات ہے کہ ایوب اور ابرہام یہ نہیں مانتے تھے کہ انسان میں غیرفانی روح ہوتی ہے۔‏ بِلاشُبہ روحُ‌القدس نے ایوب اور ابرہام کی یہ سمجھنے میں مدد کی تھی کہ مرنے پر انسان کے ساتھ کیا واقع ہوتا ہے۔‏ روحُ‌القدس کی مدد سے ہی اُنہوں نے اِس بات پر مضبوط ایمان رکھا کہ خدا مُردوں کو زندہ کرے گا۔‏ ایسی سچائیاں ہماری میراث کا حصہ ہیں۔‏

مسیح کے فدیے کی بدولت نجات

۱۵،‏ ۱۶.‏ خدا نے ہمیں گُناہ اور موت سے چھڑانے کے لئے کیا بندوبست کِیا ہے؟‏

۱۵ یہوواہ خدا نے ہمیں بتایا ہے کہ اُس نے ہمیں آدم سے ملنے والے گُناہ اور موت سے چھڑانے کا کیا بندوبست کِیا ہے۔‏ (‏روم ۵:‏۱۲‏)‏ اِس کے لئے ہم اُس کے شکرگزار ہیں۔‏ ہم جانتے ہیں کہ یسوع مسیح ’‏اِس لئے نہیں آئے کہ خدمت لیں بلکہ اِس لئے کہ خدمت کریں اور اپنی جان بہتیروں کے بدلے فدیے میں دیں۔‏‘‏ (‏مر ۱۰:‏۴۵‏)‏ یہ بڑی خوشی کی بات ہے کہ ہم گُناہ اور موت سے نجات پانے کے بندوبست کے بارے میں جانتے ہیں۔‏—‏روم ۳:‏۲۲-‏۲۴‏۔‏

۱۶ پہلی صدی میں یہودیوں اور غیریہودیوں کے لئے یہ ضروری تھا کہ وہ اپنے گُناہوں سے معافی حاصل کرنے کے لئے توبہ کریں اور یسوع مسیح کی قربانی پر ایمان لائیں۔‏ یہی شرط آج ہم پر بھی لاگو ہوتی ہے۔‏ (‏یوح ۳:‏۱۶،‏ ۳۶‏)‏ اگر کوئی شخص تثلیث اور غیرفانی روح جیسے جھوٹے عقیدوں کو ترک نہیں کرتا تو وہ یسوع مسیح کے فدیے سے فائدہ حاصل نہیں کر سکتا۔‏ لیکن ہم اِس سے فائدہ حاصل کر سکتے ہیں۔‏ ہم جانتے ہیں کہ یسوع مسیح،‏ خدا کے برابر نہیں بلکہ اُس کا بیٹا ہے جس کے ’‏خون کے وسیلے سے ہم مخلصی یعنی قصوروں کی معافی حاصل‘‏ کرتے ہیں۔‏—‏افس ۱:‏۷‏۔‏

اب اور ہمیشہ تک خدا کی خدمت کرتے رہیں

۱۷،‏ ۱۸.‏ ہم اپنی تنظیم کی تاریخ کے بارے میں معلومات کہاں سے حاصل کر سکتے ہیں؟‏ اور اِس کے بارے میں سیکھنے سے ہمیں کیا فائدہ ہوگا؟‏

۱۷ ہماری میراث میں اَور بھی بہت سی تعلیمات اور برکات شامل ہیں۔‏ اِس کے علاوہ ہم نے یہوواہ خدا کی طاقت سے بہت سے کام کئے ہیں جو ہماری میراث کا حصہ ہیں۔‏ مثال کے طور پر کافی عرصے سے ہمارے رسالوں میں ہمارے بہن‌بھائیوں کی زندگی کے بارے میں مضامین شائع ہو رہے ہیں۔‏ اِن مضامین سے پتہ چلتا ہے کہ پوری دُنیا میں خدا کے بندوں نے اُس کی مرضی بجا لانے کے لئے کیاکیا کام کئے ہیں۔‏ اِس سلسلے میں اَور بھی بہت سی معلومات ہماری کتابوں میں ملتی ہیں،‏ جیسے کہ کتاب جیہوواز وِٹنسز—‏پروکلیمرز آف گاڈز کنگڈم اور ایئربُک میں (‏انگریزی میں دستیاب)‏۔‏ اِس کے علاوہ ہم ویڈیو فیتھ اِن ایکشن کا پہلا اور دوسرا حصہ دیکھنے سے بھی اپنی تنظیم کی تاریخ کے بارے میں بہت کچھ جان سکتے ہیں۔‏

۱۸ جس طرح بنی‌اسرائیل کے لئے اِس بات پر غور کرنا فائدہ‌مند تھا کہ یہوواہ خدا نے اُنہیں مصر سے کیسے آزاد کرایا تھا اُسی طرح یہوواہ کی تنظیم کی تاریخ پر غور کرنا ہمارے لئے فائدہ‌مند ہے۔‏ (‏خر ۱۲:‏۲۶،‏ ۲۷‏)‏ موسیٰ نبی نے اپنی زندگی میں خدا کے حیرت‌انگیز کاموں کو اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔‏ اُنہوں نے بنی‌اسرائیل کو نصیحت کرتے ہوئے کہا:‏ ”‏قدیم ایّام کو یاد کرو۔‏ نسل‌درنسل کے برسوں پر غور کرو۔‏ اپنے باپ سے پوچھو۔‏ وہ تُم کو بتائے گا۔‏ بزرگوں سے سوال کرو۔‏ وہ تُم سے بیان کریں گے۔‏“‏ (‏است ۳۲:‏۷‏)‏ ’‏ہم خدا کے لوگوں اور اُس کی چراگاہ کی بھیڑوں‘‏ کے طور پر خوشی سے اُس کی ستائش کرتے ہیں اور اُس کے شاندار کاموں کا چرچا کرتے ہیں۔‏ (‏زبور ۷۹:‏۱۳‏)‏ اِس کے علاوہ جب ہم اپنی تنظیم کی تاریخ کا جائزہ لیتے ہیں اور اِس سے سیکھتے ہیں تو ہم یہوواہ خدا کی خدمت جاری رکھنے کے قابل ہوتے ہیں۔‏

۱۹.‏ چونکہ ہم خدا کے نور میں چلتے ہیں اِس لئے ہمارا عزم کیا ہونا چاہئے؟‏

۱۹ ہمیں خوشی ہے کہ ہم تاریکی میں نہیں بلکہ خدا کے نور میں چلتے ہیں۔‏ (‏امثا ۴:‏۱۸،‏ ۱۹‏)‏ اِس لئے آئیں،‏ ہم لگن سے خدا کے کلام کا مطالعہ کریں اور اِس میں درج سچائیوں کو دوسروں تک پہنچانے میں پورے دل سے حصہ لیں۔‏ یوں ہم زبورنویس جیسا عزم ظاہر کریں گے جنہوں نے خدا سے کہا تھا:‏ ”‏مَیں [‏یہوواہ]‏ خدا کی قدرت کے کاموں کا اظہار کروں گا۔‏ مَیں صرف تیری ہی صداقت کا ذکر کروں گا۔‏ اَے خدا!‏ تُو مجھے بچپن سے سکھاتا آیا ہے اور مَیں اب تک تیرے عجائب کا بیان کرتا رہا ہوں۔‏ اَے خدا!‏ جب مَیں بڈھا اور سرسفید ہو جاؤں تو مجھے ترک نہ کرنا جب تک کہ مَیں تیری قدرت آیندہ پُشت پر اور تیرا زور ہر آنے والے پر ظاہر نہ کر دوں۔‏“‏—‏زبور ۷۱:‏۱۶-‏۱۸‏۔‏

۲۰.‏ خدا کے وفادار رہنے سے ہم کیا ظاہر کرتے ہیں؟‏ اور آپ کا عزم کیا ہے؟‏

۲۰ ہم جانتے ہیں کہ یہوواہ خدا کے وفادار رہنے سے ہم اُس کی حکمرانی کی حمایت کرتے ہیں۔‏ ہم دوسروں کو بھی یہ بتاتے ہیں کہ وہ اِس کائنات کا حکمران ہے اور صرف وہی عبادت کا حقدار ہے۔‏ (‏مکا ۴:‏۱۱‏)‏ اُس کی پاک روح کی مدد سے ہم حلیم لوگوں کو خوشخبری سناتے ہیں،‏ شکستہ‌دلوں کو تسلی دیتے ہیں اور غمگینوں کو دلاسا دیتے ہیں۔‏ (‏یسع ۶۱:‏۱،‏ ۲‏)‏ شیطان ہمیں اپنے قبضے میں رکھنے کی بےحد کوشش کر رہا ہے لیکن وہ کامیاب نہیں ہوگا۔‏ ہم اپنی میراث کی دل‌وجان سے قدر کرتے ہیں۔‏ اِس لئے ہمارا عزم ہے کہ ہم کبھی بھی اپنے خدا سے بےوفائی نہیں کریں گے اور اب اور ہمیشہ تک یہوواہ خدا کی تمجید کرتے رہیں گے۔‏‏—‏زبور ۲۶:‏۱۱؛‏ ۸۶:‏۱۲ کو پڑھیں۔‏