مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

خدا کے ”‏پہاڑوں کی وادی“‏ میں رہیں

خدا کے ”‏پہاڑوں کی وادی“‏ میں رہیں

‏”‏تب [‏یہوواہ]‏ .‏ .‏ .‏ قوموں سے لڑے گا جیسے جنگ کے دن لڑا کرتا ہے۔‏“‏—‏زک ۱۴:‏۳‏۔‏

۱،‏ ۲.‏ ‏(‏الف)‏ جلد ہی کون‌سی جنگ ہونے والی ہے؟‏ (‏ب)‏ اِس جنگ میں خدا کے بندوں کو کیا نہیں کرنا پڑے گا؟‏

یہ ۳۰ اکتوبر ۱۹۳۸ء کی بات ہے۔‏ امریکہ کے لاکھوں لوگ اپنےاپنے ریڈیو پر ایک مشہور پروگرام سن رہے تھے جس میں مختلف ڈرامے پیش کئے جاتے تھے۔‏ اُس شام ایک سائنسی ناول پر مبنی ڈرامہ پیش کِیا جا رہا تھا۔‏ اِس ڈرامے میں کچھ اداکار خبریں پڑھنے والوں کا کردار ادا کر رہے تھے۔‏ اُنہوں نے اعلان کِیا کہ سیارہ مریخ سے ایک بہت بڑی فوج نے زمین پر حملہ کر دیا ہے اور بڑی تباہی مچا دی ہے۔‏ اگرچہ یہ بتا دیا گیا تھا کہ یہ صرف ایک ڈرامہ ہے پھر بھی بہت سے لوگوں نے سوچا کہ سچ‌مچ حملہ ہو گیا ہے۔‏ بعض لوگ تو اِتنا ڈر گئے کہ اُنہوں نے بچنے کے لئے کچھ احتیاطی تدابیر بھی کیں۔‏

۲ جلد ہی ایک حقیقی جنگ ہونے والی ہے۔‏ لیکن بہت سے لوگ اِس سے بچنے کے لئے کوئی قدم نہیں اُٹھا رہے۔‏ اِس جنگ کا ذکر کسی فرضی داستان میں نہیں بلکہ خدا کے کلام میں کِیا گیا ہے۔‏ اِس کا نام ہرمجدون ہے اور خدا یہ جنگ اِس بدکار دُنیا کے خلاف لڑے گا۔‏ (‏مکا ۱۶:‏۱۴-‏۱۶‏)‏ اِس جنگ میں خدا کے بندوں کو لڑنا نہیں پڑے گا۔‏ اِس کی بجائے خدا اپنی طاقت کو استعمال کرے گا اور ہمیں نہایت شاندار طریقے سے بچائے گا۔‏

۳.‏ ہم کس پیشین‌گوئی کا جائزہ لیں گے؟‏ اور یہ ہمارے لئے کیا اہمیت رکھتی ہے؟‏

۳ زکریاہ ۱۴ باب میں ایک پیشین‌گوئی درج ہے جس کا ہرمجِدّون کی جنگ سے گہرا تعلق ہے۔‏ اگرچہ یہ پیشین‌گوئی تقریباً ۲۵۰۰ سال پہلے لکھی گئی تھی پھر بھی یہ ہمارے لئے بڑی اہمیت رکھتی ہے۔‏ (‏روم ۱۵:‏۴‏)‏ اِس پیشین‌گوئی کا تعلق اُن واقعات سے ہے جو ۱۹۱۴ء میں یسوع مسیح کے بادشاہ بننے کے بعد خدا کے بندوں پر گزرے۔‏ اِس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ مستقبل میں کون‌سے واقعات ہونے والے ہیں۔‏ اِس میں ”‏ایک بڑی وادی“‏ اور ”‏آبِ‌حیات“‏ ذکر کِیا گیا ہے۔‏ (‏زک ۱۴:‏۴،‏ ۸‏)‏ اِس مضمون میں ہم سیکھیں گے کہ وادی سے کیا مراد ہے اور یہوواہ خدا کے بندے اِس میں پناہ کیسے حاصل کر سکتے ہیں۔‏ ہم یہ بھی سیکھیں گے کہ آبِ‌حیات سے کیا مراد ہے اور ہم اِس سے فائدہ کیسے حاصل کر سکتے ہیں۔‏ جب ہم آبِ‌حیات کے فائدوں کو سمجھ جائیں گے تو ہمارے اندر اِسے پینے کی شدید خواہش پیدا ہوگی۔‏ لہٰذا آئیں،‏ اِس پیشین‌گوئی کا جائزہ لیں۔‏—‏۲-‏پطر ۱:‏۱۹،‏ ۲۰‏۔‏

‏’‏یہوواہ کے دن‘‏ کا آغاز

۴.‏ ‏(‏الف)‏ ’‏یہوواہ کا دن‘‏ کب شروع ہوا تھا؟‏ (‏ب)‏ سن ۱۹۱۴ء سے بہت عرصہ پہلے ہی یہوواہ خدا کے بندوں نے کیا اعلان کرنا شروع کر دیا تھا؟‏ اور اِس پر دُنیا کے رہنماؤں نے کیسا ردِعمل ظاہر کِیا؟‏

۴ زکریاہ ۱۴ باب کے شروع میں ’‏یہوواہ کے دن‘‏ کا ذکر آتا ہے۔‏ ‏(‏زکریاہ ۱۴:‏۱،‏ ۲ کو پڑھیں۔‏)‏ یہ دن کیا ہے؟‏ یہ ’‏خداوند کا دن‘‏ ہے جو ۱۹۱۴ء میں شروع ہوا تھا۔‏ اُس وقت یسوع مسیح کو آسمان پر بادشاہ بنایا گیا تھا۔‏ (‏مکا ۱:‏۱۰؛‏ ۱۱:‏۱۵‏)‏ سن ۱۹۱۴ء سے بہت عرصہ پہلے ہی یہوواہ خدا کے بندوں نے یہ اعلان کرنا شروع کر دیا تھا کہ ”‏غیرقوموں کی میعاد“‏ اِس سال میں ختم ہوگی۔‏ اور مصیبتوں کے ایک ایسے دَور کی اِبتدا ہوگی جو انسانی تاریخ میں پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آیا۔‏ (‏لو ۲۱:‏۲۴‏)‏ کیا قوموں نے خدا کے بندوں کی بات پر دھیان دیا؟‏ جی‌نہیں۔‏ سیاسی اور مذہبی رہنماؤں نے ممسوح مسیحیوں کا مذاق اُڑایا اور اُنہیں اذیت کا نشانہ بنایا۔‏ ایسا کرنے سے دُنیا کے رہنماؤں نے دراصل قادرِمطلق خدا کی توہین کی کیونکہ ممسوح مسیحی ”‏آسمانی یرؔوشلیم“‏ یعنی خدا کی بادشاہت کے نمائندے ہیں۔‏—‏عبر ۱۲:‏۲۲،‏ ۲۸‏۔‏

۵،‏ ۶.‏ ‏(‏الف)‏ زکریاہ کی پیشین‌گوئی کے مطابق قوموں نے ”‏شہر“‏ اور اِس کے شہریوں کے ساتھ کیا کِیا؟‏ (‏ب)‏ وہ ”‏باقی لوگ“‏ کون تھے جن کا پیشین‌گوئی میں ذکر کِیا گیا ہے؟‏

۵ زکریاہ نبی نے پیشین‌گوئی کی کہ قومیں خدا کے لوگوں کے ساتھ کیا کریں گی۔‏ اُنہوں نے کہا:‏ ”‏شہر [‏یروشلیم]‏ لے لیا جائے گا“‏ یعنی اُس پر قبضہ کر لیا جائے گا۔‏ ”‏شہر“‏ سے مراد خدا کی بادشاہت ہے۔‏ اور زمین پر موجود ممسوح مسیحی اِس شہر کے نمائندے ہیں کیونکہ وہ اِس کے شہری ہیں۔‏ (‏فل ۳:‏۲۰‏)‏ پہلی عالمی جنگ کے دوران بعض بھائی جو خدا کی تنظیم میں اہم ذمہ‌داریاں رکھتے تھے،‏ اُنہیں گرفتار کر لیا گیا اور امریکہ کے شہر اٹلانٹا کی جیل میں قید کر دیا گیا۔‏ ممسوح مسیحیوں کے دُشمنوں نے اُن پر بڑے ظلم ڈھائے۔‏ ہمارے رسالوں اور کتابوں پر اور مُنادی کا کام کرنے پر پابندی لگا دی گئی۔‏ یہ بالکل ایسا ہی تھا جیسے دُشمنوں نے شہر کے ’‏گھروں کو لُوٹ لیا‘‏ ہو۔‏

۶ اگرچہ دُشمنوں نے خدا کے بندوں پر جھوٹے الزام لگائے اور اُنہیں ستایا پھر بھی وہ اُن کا نام‌ونشان مٹانے میں کامیاب نہ ہوئے۔‏ کئی ممسوح مسیحی خدا کے وفادار رہے۔‏ زکریاہ کی پیشین‌گوئی کے مطابق یہ وہ ”‏باقی لوگ“‏ تھے جو ’‏شہر ہی میں رہے۔‏‘‏

۷.‏ ممسوح مسیحیوں نے ہمارے لئے کون‌سی مثال قائم کی ہے؟‏

۷ کیا زکریاہ نبی کی پیشین‌گوئی کی تکمیل پہلی عالمی جنگ کے بعد بھی جاری رہی؟‏ جی‌ہاں۔‏ قوموں نے ممسوح مسیحیوں اور زمین پر ہمیشہ کی زندگی کی اُمید رکھنے والے اُن کے ساتھیوں کو ستانا جاری رکھا۔‏ (‏مکا ۱۲:‏۱۷‏)‏ مثال کے طور پر دوسری عالمی جنگ کے دوران ہمارے بہن‌بھائیوں کو سخت اذیت پہنچائی گئی۔‏ اُس وقت ممسوح مسیحیوں نے خدا کے لئے وفاداری کی ایک بہترین مثال قائم کی۔‏ اُن کی مثال پر غور کرنے سے ہمیں حوصلہ ملتا ہے کہ ہم بھی ہر طرح کی مشکل میں یہوواہ خدا کے وفادار رہیں۔‏ جب ہمارے رشتہ‌دار،‏ ہمارے ساتھ کام کرنے والے یا پھر ہمارے ساتھ سکول میں پڑھنے والے ہمارا مذاق اُڑاتے ہیں تو ہم تب بھی اپنے ایمان پر قائم رہیں گے۔‏ (‏۱-‏پطر ۱:‏۶،‏ ۷‏)‏ چاہے ہم دُنیا کے کسی بھی کونے میں ہوں،‏ ہمارا عزم ہے کہ ہم ”‏ایک روح میں قائم“‏ رہیں گے اور ”‏مخالفوں سے دہشت نہیں“‏ کھائیں گے۔‏ (‏فل ۱:‏۲۷،‏ ۲۸‏)‏ لیکن سوال یہ ہے کہ ہم ایسی دُنیا میں تحفظ کہاں حاصل کر سکتے ہیں جو ہماری دُشمن ہے؟‏—‏یوح ۱۵:‏۱۷-‏۱۹‏۔‏

یہوواہ خدا ”‏بڑی وادی“‏ وجود میں لاتا ہے

۸.‏ ‏(‏الف)‏ بعض اوقات بائبل میں لفظ پہاڑ کن معنوں میں استعمال کِیا گیا ہے؟‏ (‏ب)‏ ”‏کوہِ‌زؔیتون“‏ سے کیا مراد ہے؟‏

۸ ہم دیکھ چکے ہیں کہ زکریاہ نبی کی پیشین‌گوئی میں ”‏شہر“‏ سے مراد آسمانی یروشلیم یعنی خدا کی بادشاہت ہے۔‏ اِس میں ”‏کوہِ‌زؔیتون“‏ کا بھی ذکر کِیا گیا ہے جو ”‏یرؔوشلیم کے مشرق میں واقع ہے۔‏“‏ ”‏کوہِ‌زؔیتون“‏ کس کی طرف اشارہ کرتا ہے؟‏ یہ کن معنوں میں ”‏بیچ سے پھٹ“‏ کر دو پہاڑ بن جاتا ہے؟‏ اور یہوواہ خدا اِن پہاڑوں کو ’‏میرے پہاڑ‘‏ کیوں کہتا ہے؟‏ ‏(‏زکریاہ ۱۴:‏۳-‏۵ کو پڑھیں۔‏)‏ بعض اوقات بائبل میں لفظ پہاڑ کو حکومتوں کی طرف اشارہ کرنے کے لئے استعمال کِیا گیا ہے۔‏ اِس کے علاوہ بائبل میں خدا کے پہاڑ کو اکثر برکت اور تحفظ سے منسلک کِیا گیا ہے۔‏ (‏زبور ۷۲:‏۳؛‏ یسع ۲۵:‏۶،‏ ۷‏)‏ لہٰذا زیتون کا پہاڑ جس پر خدا کھڑا ہے،‏ اُس کی عالمگیر حکمرانی کی علامت ہے۔‏

۹.‏ ‏”‏کوہِ‌زؔیتون“‏ کے دو ٹکڑے ہونے کا کیا مطلب ہے؟‏

۹ کوہِ‌زیتون کے دو ٹکڑے ہونے کا کیا مطلب ہے؟‏ اِس کا مطلب ہے کہ یہوواہ خدا اپنی عالمگیر حکمرانی میں سے ایک اَور حکومت قائم کرتا ہے جس کا بادشاہ یسوع مسیح ہے۔‏ یہ حکومت یہوواہ خدا کی حکمرانی کے تحت کام کرتی ہے۔‏ اِسی لئے یہوواہ خدا نے اُن دونوں پہاڑوں کو ’‏میرے پہاڑ‘‏ کہا تھا جو کوہِ‌زیتون کے پھٹنے سے بنتے ہیں۔‏ (‏زک ۱۴:‏۴‏)‏ اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ خدا کی عالمگیر حکمرانی کا پہاڑ اور مسیح کی حکومت کا پہاڑ دونوں یہوواہ کے ہیں۔‏

۱۰.‏ دونوں پہاڑوں کے بیچ میں ”‏بڑی وادی“‏ کس کی طرف اشارہ کرتی ہے؟‏

۱۰ جب کوہِ‌زیتون پھٹ کر آدھا شمال اور آدھا جنوب کی طرف ہو جاتا ہے تو یہوواہ خدا کے پاؤں دونوں پہاڑوں کے اُوپر ہی رہتے ہیں۔‏ یہوواہ خدا کے پاؤں کے نیچے ”‏ایک بڑی وادی“‏ بن جاتی ہے۔‏ یہ وادی اُس تحفظ کی طرف اشارہ کرتی ہے جو ہمیں یہوواہ خدا کی عالمگیر حکمرانی اور اُس کے بیٹے کی حکومت کے تحت ملتا ہے۔‏ یہوواہ خدا اپنے سچے خادموں کا نام‌ونشان کبھی مٹنے نہیں دے گا۔‏ کوہِ‌زیتون کب دو ٹکڑے ہوا تھا؟‏ ایسا اُس وقت ہوا جب ۱۹۱۴ء میں غیرقوموں کی میعاد ختم ہوئی تھی اور یسوع مسیح نے حکمرانی کرنا شروع کی تھی۔‏ زکریاہ ۱۴:‏۵ میں لکھا ہے کہ ”‏تُم میرے پہاڑوں کی وادی سے ہو کر بھاگو گے۔‏“‏ لیکن عبرانی زبان میں یہ آیت یہ معنی پیش کرتی ہے کہ خدا کے بندے تحفظ حاصل کرنے کے لئے اُس کی وادی کی طرف بھاگیں گے۔‏ خدا کے بندوں نے اِس وادی کی طرف بھاگنا کب شروع کِیا تھا؟‏

خدا کے بندے ”‏بڑی وادی“‏ کی طرف بھاگتے ہیں

۱۱،‏ ۱۲.‏ ‏(‏الف)‏ خدا کے بندوں نے اُس وادی کی طرف کب بھاگنا شروع کِیا تھا جو خدا کے پہاڑوں کے بیچ میں واقع ہے؟‏ (‏ب)‏ اِس بات کا کیا ثبوت ہے کہ خدا اپنے ”‏زورآور ہاتھ اور بلند بازو سے“‏ اپنے بندوں کی حفاظت کر رہا ہے؟‏

۱۱ یسوع مسیح نے اپنے پیروکاروں کو آگاہ کِیا تھا:‏ ”‏میرے نام کی خاطر سب قومیں تُم سے عداوت رکھیں گی۔‏“‏ (‏متی ۲۴:‏۹‏)‏ جب سے آخری زمانہ شروع ہوا ہے تب سے خدا کے بندوں کے خلاف دُشمنی میں اضافہ ہو رہا ہے۔‏ پہلی عالمی جنگ میں اگرچہ ممسوح مسیحیوں کے دُشمنوں نے اُن پر بہت بڑا حملہ کِیا پھر بھی وہ اُن کو مٹانے میں کامیاب نہ ہوئے۔‏ سن ۱۹۱۹ء میں وفادار ممسوح مسیحی بڑے شہر بابل یعنی جھوٹے مذہب کے چنگل سے آزاد ہو گئے۔‏ (‏مکا ۱۱:‏۱۱،‏ ۱۲‏)‏ اِسی سال سے خدا کے بندوں نے تحفظ حاصل کرنے کے لئے خدا کے پہاڑوں کے بیچ واقع وادی کی طرف بھاگنا شروع کِیا۔‏

۱۲ سن ۱۹۱۹ء سے یہوواہ خدا اِس ”‏وادی“‏ میں اپنے تمام بندوں کی حفاظت کر رہا ہے۔‏ کئی سالوں سے بعض ملکوں میں یہوواہ کے گواہوں کی کتابوں اور رسالوں پر اور مُنادی کے کام پر پابندی لگائی گئی ہے۔‏ قومیں چاہے جتنا بھی زور لگا لیں،‏ وہ خدا کے خادموں کو مٹا نہیں سکتیں۔‏ یہوواہ خدا اپنے ”‏زورآور ہاتھ اور بلند بازو سے“‏ اپنے بندوں کی حفاظت کرے گا۔‏—‏است ۱۱:‏۲‏۔‏

۱۳.‏ ‏(‏الف)‏ ہم یہوواہ خدا کی وادی میں کیسے رہ سکتے ہیں؟‏ (‏ب)‏ یہوواہ خدا کی وادی میں رہنا پہلے سے کہیں زیادہ اہم کیوں ہے؟‏

۱۳ اگر ہم خدا کے وفادار رہیں گے تو وہ اور اُس کا بیٹا ہماری حفاظت ضرور کریں گے۔‏ کوئی بھی ہمیں خدا کے ہاتھ سے چھین نہیں سکے گا۔‏ (‏یوح ۱۰:‏۲۸،‏ ۲۹‏)‏ یہوواہ خدا ہر طرح سے ہماری مدد کرنے کو تیار ہے تاکہ ہم اُس کی عالمگیر حکمرانی کے تابع رہیں اور یسوع مسیح کی حکومت کی رعایا کے طور پر وفاداری سے زندگی گزارتے رہیں۔‏ بہت ہی جلد بڑی مصیبت شروع ہونے والی ہے۔‏ اُس وقت ہمیں یہوواہ خدا کے تحفظ کی پہلے سے کہیں زیادہ ضرورت ہوگی۔‏ اِس لئے یہ بہت اہم ہے کہ ہم اُس کی ”‏وادی“‏ میں رہیں۔‏

‏’‏جنگ کا دن‘‏ نزدیک ہے

۱۴،‏ ۱۵.‏ جس دن یہوواہ خدا اپنے دُشمنوں سے جنگ لڑے گا،‏ اُس دن اُن لوگوں کا کیا حال ہوگا جو ”‏بڑی وادی“‏ میں نہیں ہوں گے؟‏

۱۴ جوں‌جوں اِس دُنیا کا خاتمہ نزدیک آ رہا ہے،‏ شیطان،‏ خدا کے بندوں پر لگاتار حملے کر رہا ہے۔‏ لیکن بہت جلد یہوواہ خدا اپنے دُشمنوں سے لڑے گا۔‏ یہ اُس کی ’‏جنگ کا دن‘‏ ہوگا۔‏ وہ شیطان کو اپنے بندوں پر مزید حملے نہیں کرنے دے گا۔‏ اُس دن یہوواہ خدا ایسی جنگ لڑے گا جیسی اُس نے پہلے کبھی نہیں لڑی ہوگی۔‏—‏زک ۱۴:‏۳‏۔‏

۱۵ اُس دن اُن لوگوں کا کیا حال ہوگا جو خدا کی ”‏بڑی وادی“‏ میں نہیں ہوں گے؟‏ اُن پر ”‏روشنی“‏ نہیں چمکے گی یعنی اُنہیں خدا کی خوشنودی حاصل نہیں ہوگی۔‏ اُس دن یہوواہ خدا اپنے بندوں کے دُشمنوں پر وبا کی شکل میں عذاب لائے گا۔‏ یہ وبا اصلی ہوگی یا نہیں،‏ ہم نہیں جانتے۔‏ مگر اِس سے دُشمن نہ تو ہمیں ڈرانے دھمکانے کے لائق رہیں گے اور نہ ہی ہم پر حملہ کرنے کے لائق۔‏ ”‏اُن کی آنکھیں .‏ .‏ .‏ گل جائیں گی اور اُن کی زبان .‏ .‏ .‏ سڑ جائے گی۔‏“‏ اُن کے ”‏گھوڑوں خچروں اونٹوں گدھوں اور سب حیوانوں“‏ پر بھی ”‏عذاب نازل ہوگا۔‏“‏ یہ سب جانور فوجی ہتھیاروں کی علامت ہیں۔‏ ”‏عذاب نازل“‏ ہونے کی وجہ سے فوجی ہتھیار بےکار ہو جائیں گے۔‏ (‏زک ۱۴:‏۶،‏ ۷،‏ ۱۲،‏ ۱۵‏)‏ زمین کے تمام بادشاہ اور اُن کی فوجیں شیطان کا ساتھ دیں گی۔‏ (‏مکا ۱۹:‏۱۹-‏۲۱‏)‏ لیکن وہ دُنیا کے چاہے کسی بھی کونے میں ہوں،‏ یہوواہ خدا اُنہیں مٹی میں ملا دے گا۔‏ ”‏[‏یہوواہ]‏ کے مقتول اُس روز زمین کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک پڑے ہوں گے۔‏“‏—‏یرم ۲۵:‏۳۲،‏ ۳۳‏۔‏

۱۶.‏ ہمیں کن سوالوں پر غور کرنا چاہئے؟‏ اور بڑی مصیبت کے دوران ہمیں کیا کرنا ہوگا؟‏

۱۶ جنگ سے سبھی کو نقصان ہوتا ہے یہاں تک کہ جیتنے والوں کو بھی۔‏ خوراک کی کمی ہو جاتی ہے؛‏ لوگ بےگھر ہو جاتے ہیں؛‏ اُن کا گزربسر کرنا مشکل ہو جاتا ہے اور حکومت عوام پر طرح‌طرح کی پابندیاں لگاتی ہے۔‏ اگر ہمیں ایسی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے تو ہم کیسا ردِعمل ظاہر کریں گے؟‏ کیا ہم پریشانیوں کے دباؤ میں آکر خدا کی خدمت کرنا چھوڑ دیں گے؟‏ کیا ہم بےحوصلہ اور نااُمید ہو جائیں گے؟‏ جب بڑی مصیبت آئے گی تو اِس بات پر پورا ایمان رکھنا اَور بھی ضروری ہوگا کہ خدا ہمیں بچانے کی طاقت رکھتا ہے۔‏ یوں ہم اُس کی ”‏وادی“‏ یعنی اُس کے تحفظ میں رہیں گے۔‏‏—‏حبقوق ۳:‏۱۷،‏ ۱۸ کو پڑھیں۔‏

آبِ‌حیات بہے گا

۱۷،‏ ۱۸.‏ ‏(‏الف)‏ ”‏آبِ‌حیات“‏ سے کیا مراد ہے؟‏ (‏ب)‏ ”‏بحرِمشرق“‏ اور ”‏بحرِمغرب“‏ کس کی طرف اشارہ کرتے ہیں؟‏ (‏ج)‏ آپ کا عزم کیا ہے؟‏

۱۷ ہرمجِدّون کے بعد یسوع مسیح کی حکومت کے تحت ”‏آبِ‌حیات“‏ اَور بھی زوروں سے بہے گا۔‏ ”‏آبِ‌حیات“‏ اُن تمام اِنتظامات کی طرف اشارہ کرتا ہے جو خدا نے انسانوں کے لئے کئے ہیں تاکہ وہ ہمیشہ کی زندگی پا سکیں۔‏ ”‏بحرِمشرق“‏ سے مراد بحیرۂمُردار ہے اور یہ اُن لوگوں کی طرف اشارہ کرتا ہے جو قبروں میں سو رہے ہیں۔‏ ہرمجِدّون کی جنگ کے بعد یہ لوگ جی اُٹھیں گے۔‏ ”‏بحرِمغرب“‏ سے مراد بحیرۂروم ہے۔‏ بحیرۂروم میں بےشمار جاندار پائے جاتے ہیں۔‏ اِس لحاظ سے یہ اُس ”‏بڑی بِھیڑ“‏ کی طرف اشارہ کرتا ہے جو ہرمجِدّون کی جنگ سے بچ جائے گی۔‏ ‏(‏زکریاہ ۱۴:‏۸،‏ ۹ کو پڑھیں؛‏ مکا ۷:‏۹-‏۱۵‏)‏ لہٰذا ”‏بڑی بِھیڑ“‏ اور مُردوں میں سے زندہ ہونے والے لوگ ’‏آبِ‌حیات کے دریا‘‏ سے پانی پئیں گے۔‏ اِس پانی سے اُن کا وہ گُناہ دھل جائے گا جو اُنہوں نے آدم سے ورثے میں پایا تھا۔‏ یوں وہ ہمیشہ تک زندہ رہیں گے۔‏—‏مکا ۲۲:‏۱،‏ ۲‏۔‏

عزم کریں کہ آپ یہوواہ خدا کی ”‏وادی“‏ میں رہیں گے۔‏

۱۸ یہوواہ خدا کے سایے میں ہم اِس دُنیا کے خاتمے سے بچ جائیں گے اور نئی دُنیا میں داخل ہوں گے جس میں راست‌بازی بسی رہے گی۔‏ اگرچہ قومیں ہم سے دُشمنی رکھتی ہیں لیکن ہمارا عزم ہے کہ ہم ہمیشہ خدا کی بادشاہت کے وفادار رہیں گے اور خدا کی ”‏وادی“‏ میں تحفظ پائیں گے۔‏