مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

آپ‌بیتی

‏”‏مَیں سمجھ نہ سکا“‏

‏”‏مَیں سمجھ نہ سکا“‏

سن ۱۹۷۵ء میں جب مَیں دو سال کا تھا تو میری امی کو پہلی بار لگا کہ شاید مَیں سُن نہیں سکتا۔‏ ہوا یہ تھا کہ اُن کی سہیلی کے ہاتھ سے ایک بھاری چیز گِر گئی جس سے بہت شور ہوا۔‏ میری امی نے دیکھا کہ مَیں ذرا بھی نہ چونکا۔‏ تین سال کی عمر میں بھی مَیں بول نہیں سکتا تھا۔‏ اِس لئے امی مجھے ڈاکٹر کے پاس لے گئیں۔‏ ڈاکٹر نے اُنہیں یہ افسوس‌ناک خبر دی کہ مَیں کچھ بھی سُن نہیں سکتا۔‏

مَیں چھوٹا ہی تھا کہ میرے امی‌ابو کی طلاق ہو گئی۔‏ میرے دو بڑے بھائی اور ایک بڑی بہن ہے اور امی کو اکیلے ہی ہماری پرورش کرنی پڑی۔‏ اُس زمانے میں فرانس میں بہرے بچوں کو تعلیم دینے کا طریقہ آج سے بہت فرق تھا اور اکثر اِس کی وجہ سے بچوں کو بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔‏ لیکن دوسرے بہرے بچوں کی نسبت میری صورتحال ایک لحاظ سے بہتر تھی۔‏ آئیں،‏ مَیں آپ کو بتاتا ہوں کہ ایسا کیوں تھا۔‏

جب مَیں تقریباً پانچ سال کا تھا۔‏

ایک زمانہ تھا جب بہت سے اُستادوں کا خیال تھا کہ بہرے بچوں کو بولنا سیکھنا چاہئے اور اُنہیں یہ مہارت بھی حاصل کرنی چاہئے کہ وہ ہونٹوں کو دیکھ کر دوسروں کی بات سمجھ جائیں۔‏ یہاں تک کہ فرانس کے سکولوں میں اشاروں کی زبان استعمال کرنے پر پابندی تھی۔‏ بعض اوقات کلاس کے دوران کچھ بہرے بچوں کے ہاتھ باندھ دئے جاتے تھے تاکہ وہ اشارے نہ کر سکیں۔‏

جب مَیں چھوٹا تھا تو کچھ سالوں تک مَیں ہر ہفتے ایک ماہر کے پاس جاتا تھا جو مجھے بولنا سکھاتی تھی۔‏ وہ مجھے جبڑوں سے یا سر سے پکڑتی اور مجھے آوازیں نکالنے کو کہتی حالانکہ مجھے اپنی آواز سنائی نہیں دیتی تھی۔‏ مَیں دوسرے بچوں سے بات نہیں کر سکتا تھا۔‏ یہ میرے لئے بڑا کٹھن دَور تھا۔‏

جب مَیں چھ سال کا ہوا تو مجھے بہروں کے ایک بورڈنگ سکول میں بھیج دیا گیا۔‏ وہاں پر مَیں پہلی بار ایسے بچوں سے ملا جو میری طرح بہرے تھے۔‏ اِس سکول میں بھی اشاروں کی زبان استعمال کرنا منع تھا۔‏ اگر ہم کلاس میں اشارے کرتے تو ہمارے ہاتھوں پر ڈنڈے مارے جاتے یا ہمارے بال نوچے جاتے۔‏ لیکن ہم چھپ کر ایک دوسرے سے اشاروں کے ذریعے بات کرتے اور اِس کے لئے اپنے ہی اشارے بناتے۔‏ اب مَیں بہت خوش تھا کیونکہ مَیں دوسرے بچوں سے بات کر سکتا تھا۔‏ اُس سکول میں میرے چار سال بڑے اچھے گزرے۔‏

لیکن دس سال کی عمر میں مجھے پرائمری سکول میں ڈال دیا گیا جہاں صرف ایسے بچے تھے جو سُن سکتے تھے۔‏ مَیں ٹوٹ کر رہ گیا!‏ مجھے لگتا تھا کہ باقی سب بہرے بچے مر گئے ہیں۔‏ ڈاکٹر چاہتے تھے کہ مَیں بولنا سیکھوں۔‏ اِس لئے اُنہوں نے میرے گھر والوں کو اشاروں کی زبان سیکھنے سے منع کِیا تھا۔‏ اور مجھے دوسرے بہرے بچوں سے ملنے کی اجازت بھی نہیں تھی۔‏ مجھے یاد ہے کہ ایک بار مَیں ایک ڈاکٹر کے پاس گیا اور مَیں نے اُس کی میز پر اشاروں کی زبان کے بارے میں ایک کتاب دیکھی۔‏ مَیں نے اِس کی طرف اشارہ کرکے کہا:‏ ”‏مجھے یہ چاہئے!‏“‏ ڈاکٹر نے کتاب کو جلدی سے چھپا دیا۔‏ *

پاک کلام کی تعلیم حاصل کرنے کے لئے میرے پہلے قدم

امی نے میری اور میرے بہن‌بھائیوں کی پرورش پاک کلام کے اصولوں کے مطابق کی۔‏ وہ ہمیں یہوواہ کے گواہوں کے اجلاسوں پر لے کر جاتی تھیں۔‏ مجھے اجلاسوں پر زیادہ سمجھ نہیں آتی تھی۔‏ لیکن کلیسیا کے مختلف رُکن باری‌باری میرے ساتھ بیٹھتے اور لکھ کر مجھے بتاتے کہ پروگرام میں کیا بتایا جا رہا ہے۔‏ مَیں اُن کے پیار سے بہت متاثر تھا۔‏ گھر میں امی مجھے پاک کلام سے تعلیم دیتیں لیکن مَیں اُن کی باتوں کو پوری طرح سمجھ نہیں پاتا۔‏ مَیں دانی‌ایل نبی کی طرح محسوس کرتا تھا جنہوں نے خدا کا پیغام ملنے پر کہا:‏ ”‏مَیں نے سنا پر سمجھ نہ سکا۔‏“‏ (‏دانی‌ایل ۱۲:‏۸‏)‏ مَیں اپنے بارے میں کہہ سکتا ہوں کہ ”‏مَیں نے دیکھا پر سمجھ نہ سکا۔‏“‏

اِس کے باوجود مَیں آہستہ‌آہستہ پاک کلام کی کچھ تعلیمات کو سمجھنے لگا۔‏ جتنی باتیں مجھے سمجھ آ جاتیں،‏ مَیں اُن کی قدر کرتا اور اُن پر عمل کرنے کی کوشش کرتا۔‏ مَیں دوسروں کی مثال پر غور کرنے سے بھی بہت کچھ سیکھتا۔‏ مثال کے طور پر خدا کے کلام میں ہدایت دی گئی ہے کہ ہمیں صبر سے کام لینا چاہئے۔‏ (‏یعقوب ۵:‏۷،‏ ۸‏)‏ مجھے سمجھ نہیں آتا تھا کہ صبر کا کیا مطلب ہے۔‏ لیکن مَیں نے دیکھا کہ کلیسیا کے دوسرے رُکن اِس خوبی کو کس طرح ظاہر کرتے ہیں۔‏ یوں مَیں سمجھ پایا کہ صبر سے کام لینے کا کیا مطلب ہے۔‏ کلیسیا کے ساتھ ملنے جلنے سے مجھے واقعی بہت فائدہ ہوا۔‏

ایک اچھا دوست

یہ سٹیفن ہے جس نے مجھے پاک کلام کی تعلیم دی۔‏

مَیں نوجوان تھا جب مَیں نے ایک دن گلی میں کچھ بہرے نوجوانوں کو دیکھا جو اشاروں کی زبان میں ایک دوسرے سے بات کر رہے تھے۔‏ مَیں چھپ چھپ کر اُن سے ملنے لگا اور اُن سے فرانسیسی اشارتی زبان سیکھنے لگا۔‏ مَیں یہوواہ کے گواہوں کے اجلاسوں پر بھی جاتا رہا۔‏ وہاں پر سٹیفن نامی ایک نوجوان نے مجھ سے دوستی کی۔‏ اُس نے مجھ سے بات کرنے کے لئے بڑی کوشش کی اور مجھے اُس سے بہت لگاؤ ہو گیا۔‏ لیکن پھر سٹیفن کو قید کر دیا گیا کیونکہ اُس نے اپنے ایمان کی وجہ سے فوج میں بھرتی ہونے سے انکار کر دیا تھا۔‏ میرا دوست مجھ سے بچھڑ گیا اور مَیں مایوسی کے اندھیرے میں ڈوب گیا۔‏ یہاں تک کہ مَیں نے اجلاسوں پر جانا تقریباً چھوڑ ہی دیا۔‏

گیارہ مہینے بعد سٹیفن رِہا ہو گیا۔‏ جب ہم ملے تو مَیں ہکابکا رہ گیا کیونکہ وہ مجھ سے اشاروں کی زبان میں بات کر رہا تھا۔‏ یہ کیسے ہوا؟‏ اُس نے جیل میں فرانسیسی اشارتی زبان سیکھ لی تھی۔‏ جب مَیں نے اُس کے ہاتھوں کے اشارے اور چہرے کے تاثرات دیکھے تو مَیں بہت خوش ہوا۔‏ مَیں سوچنے لگا کہ اِس سے مجھے کتنا فائدہ ہوگا!‏

دل کو چُھو لینے والی باتیں

سٹیفن میرے ساتھ خدا کے کلام کا مطالعہ کرنے لگا۔‏ مَیں نے تو پاک کلام کی بہت سی تعلیمات پہلے سے سیکھی تھیں لیکن اب مَیں سمجھنے لگا کہ اُن کا آپس میں تعلق کیا ہے۔‏ بچپن میں مَیں یہوواہ کے گواہوں کی کتابوں اور رسالوں میں تصویروں کو بڑے غور سے دیکھتا اور اِس طرح پاک کلام میں درج واقعات میرے ذہن پر نقش ہوتے۔‏ مَیں ابرہام نبی،‏ اُن کی ”‏نسل“‏ اور ”‏بڑی بِھیڑ“‏ کے بارے میں جانتا تھا۔‏ لیکن مَیں اِن باتوں کو تب ہی پوری طرح سمجھ پایا جب سٹیفن نے اِن کو اشاروں کی زبان میں سمجھایا۔‏ (‏پیدایش ۲۲:‏۱۵-‏۱۸؛‏ مکاشفہ ۷:‏۹‏)‏ اِس سے ظاہر ہو گیا کہ اشاروں کی زبان میری اصلی زبان ہے،‏ وہ زبان جو میرے دل کو چُھوتی ہے۔‏

اب مَیں وہ ساری باتیں سمجھ سکتا تھا جو اجلاسوں پر بتائی جاتی تھیں۔‏ یوں اِن باتوں نے میرے دل پر گہرا اثر ڈالا۔‏ مَیں پاک کلام سے اَور بھی باتیں سیکھنا چاہتا تھا۔‏ سٹیفن کی مدد سے میرا علم بڑھ گیا۔‏ اِس کے نتیجے میں مَیں نے ۱۹۹۲ء میں اپنی زندگی یہوواہ خدا کے لئے وقف کر دی اور بپتسمہ لیا۔‏ حالانکہ مَیں اشاروں کی زبان کے ذریعے اپنی تنہا دُنیا سے نکل آیا تھا لیکن چونکہ مَیں بچپن میں دوسروں کے ساتھ بات نہیں کر سکتا تھا اِس لئے مَیں ابھی بھی بہت شرمیلا تھا۔‏

دوستوں کا سہارا

کچھ عرصے کے بعد مَیں ایک ایسی کلیسیا میں شامل ہوا جس کےکچھ رُکن اشارتی زبان استعمال کرتے ہیں۔‏ اِس سے مجھے بہت فائدہ ہوا اور میرا ایمان اَور بھی مضبوط ہو گیا۔‏ ابھی بھی دوسروں سے بات کرنا میرے لئے آسان نہیں تھا۔‏ لیکن میرے جو دوست بہرے نہیں تھے،‏ وہ اِس بات کا خیال رکھتے تھے کہ مَیں اُن کی ہر بات پوری طرح سمجھ جاؤں۔‏ خاص طور پر ژِل اور اُن کی بیوی ایلوڈی نے مجھ سے بات کرنے کے لئے بڑی محنت کی۔‏ وہ اکثر اجلاس کے بعد مجھے کھانے پر یا چائے پر بلاتے۔‏ اِس طرح ہماری بہت اچھی دوستی ہو گئی۔‏ ایسے لوگوں کے ساتھ ملنے جلنے سے مجھے واقعی بڑی خوشی ملی جو خدا کی راہ پر چلتے ہیں اور دوسروں سے محبت کرتے ہیں۔‏

یہ میری بیوی وانیسا ہے جو میری بہت مدد کرتی ہے۔‏

اِسی کلیسیا میں ایک لڑکی تھی جس کا نام وانیسا تھا۔‏ مَیں نے دیکھا کہ وہ دوسروں کا لحاظ رکھتی ہے اور سب کے ساتھ ایک جیسا سلوک کرتی ہے۔‏ وہ میرے بہرےپن کو رُکاوٹ نہیں بلکہ اشارتی زبان سیکھنے کا موقع خیال کرتی تھی۔‏ مجھے اُس سے پیار ہو گیا اور ہم نے ۲۰۰۵ء میں شادی کر لی۔‏ وانیسا میری بہت مدد کرتی ہے تاکہ مَیں اپنے شرمیلےپن پر قابو پا سکوں اور اپنے احساسات کا اِظہار کر سکوں۔‏ مَیں اُس کی بہت قدر کرتا ہوں کیونکہ اُس کی مدد سے مَیں اپنی ذمہ‌داریوں کو پورا کر پاتا ہوں۔‏

خدا کی طرف سے ایک بہت بڑا اعزاز

ہماری شادی کے کچھ مہینے بعد فرانس میں یہوواہ کے گواہوں کے برانچ کے دفتر نے مجھے ایک مہینے کے لئے بلایا تاکہ مجھے ترجمہ کرنے کے لئے تربیت دی جائے۔‏ پچھلے کچھ سالوں کے دوران اِس برانچ نے فرانسیسی اشارتی زبان میں کچھ ڈی‌وی‌ڈیز شائع کی تھیں جن کے ذریعے بہرے لوگ پاک کلام کی تعلیم حاصل کر سکتے ہیں۔‏ لیکن اب مزید ڈی‌وی‌ڈیز بنانے کے لئے کچھ اَور ترجمہ کرنے والوں کی ضرورت تھی۔‏

اِس تصویر میں مَیں فرانسیسی اشارتی زبان میں تقریر دے رہا ہوں۔‏

میرا اور وانیسا کا خیال تھا کہ اگر مَیں ترجمے کے کام میں مدد کروں گا تو یہ یہوواہ خدا کی طرف سے بہت بڑا اعزاز ہوگا۔‏ لیکن ہم کچھ پریشان بھی تھے۔‏ کلیسیا میں میری ذمہ‌داریاں کون نبھائے گا؟‏ ہم اپنے گھر کے ساتھ کیا کریں گے؟‏ کیا وانیسا کو برانچ کے نزدیک ملازمت ملے گی؟‏ لیکن یہوواہ خدا نے ہر مشکل کو حل کر دیا۔‏ اِس سے ہم نے دیکھا کہ خدا ہم سے اور دوسرے بہرے لوگوں سے کتنا پیار کرتا ہے۔‏

خدا کے بندوں کی محبت

برانچ کے دفتر میں کام کرنے سے مَیں نے دیکھا کہ بہرے لوگوں کو پاک کلام کی تعلیم دینے کے لئے کتنی محنت کی جاتی ہے۔‏ اور مجھے بہت خوشی ہوتی ہے کہ وہاں پر کام کرنے والے لوگ مجھ سے بات کرنے کے لئے کچھ اشارے سیکھتے ہیں۔‏ وہاں مجھے ایسا نہیں لگتا کہ میرا بہراپن دوسروں اور میرے درمیان ایک دیوار ہے۔‏ مَیں اُس خاص بھائی‌چارے کو محسوس کرتا ہوں جو یہوواہ خدا کے بندوں میں پایا جاتا ہے۔‏—‏زبور ۱۳۳:‏۱‏۔‏

اِس تصویر میں مَیں ترجمے کے شعبے میں کام کر رہا ہوں۔‏

مَیں یہوواہ خدا کا بےحد شکرگزار ہوں کہ مجھے جب بھی مدد کی ضرورت پڑی،‏ کلیسیا میں سے کسی نہ کسی نے میری مدد کی۔‏ مَیں اِس بات کی بھی قدر کرتا ہوں کہ مَیں ایک ایسے کام میں حصہ لے سکتا ہوں جس کے ذریعے بہرے لوگ ہمارے خالق کے بارے میں سیکھتے ہیں اور اُس کی قربت میں آ جاتے ہیں۔‏ مَیں اُس وقت کا بڑی بےصبری سے انتظار کر رہا ہوں جب سب لوگوں کے ”‏ہونٹ پاک“‏ ہو جائیں گے یعنی وہ خدا اور اُس کی مرضی کے بارے میں سچائی جان جائیں گے۔‏ تب تمام انسان متحد ہو کر ایک ہی زبان بولیں گے۔‏—‏صفنیاہ ۳:‏۹‏۔‏

^ پیراگراف 9 فرانس کی حکومت نے آخرکار ۱۹۹۱ء میں اِس بات کی اجازت دی کہ بہرے بچوں کو تعلیم دینے کے لئے اشاروں کی زبان استعمال کی جا سکتی ہے۔‏