مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

خدا کے عظیم نام کی عزت کریں

خدا کے عظیم نام کی عزت کریں

‏”‏مَیں ابد تک تیرے نام کی تمجید کروں گا۔‏“‏ —‏زبور ۸۶:‏۱۲‏۔‏

۱،‏ ۲.‏ خدا کے نام کے سلسلے میں چرچوں کے نظریے اور یہوواہ کے گواہوں کے نظریے میں کیا فرق ہے؟‏

آج‌کل چرچ خدا کا نام استعمال کرنے سے کتراتے ہیں۔‏ مثال کے طور پر بائبل کے انگریزی ترجمے ریوائزڈ سٹینڈرڈ ورشن کے تعارف میں بتایا گیا ہے:‏ ”‏چونکہ خدا ایک ہے اور اُس کے علاوہ کوئی اَور خدا نہیں اِس لئے .‏ .‏ .‏ مسیحیوں کے لئے خدا کو کسی خاص نام سے پکارنا مناسب نہیں۔‏“‏

۲ اِس کے برعکس یہوواہ کے گواہوں کی نظر میں خدا کے نام سے کہلانا اور اُس کے نام کی تمجید کرنا بڑے فخر کی بات ہے۔‏ ‏(‏زبور ۸۶:‏۱۲؛‏ یسعیاہ ۴۳:‏۱۰ کو پڑھیں۔‏)‏ ہمارے لئے یہ واقعی بہت بڑا اعزاز ہے کہ ہم خدا کے نام کا مطلب جانتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ اِسے پاک ٹھہرانا کیوں اہم ہے۔‏ (‏متی ۶:‏۹‏)‏ ہمیں اِس اعزاز کی دل سے قدر کرنی چاہئے۔‏ اِس سلسلے میں آئیں،‏ تین سوالوں پر غور کریں:‏ خدا کا نام جاننے میں کیا کچھ شامل ہے؟‏ یہوواہ خدا اپنے نام کے مطلب پر کیسے پورا اُترتا ہے؟‏ ہم خدا کے نام سے کیسے چل سکتے ہیں؟‏

خدا کا نام جاننے میں کیا شامل ہے؟‏

۳.‏ خدا کا نام جاننے میں کیا کچھ شامل ہے؟‏

۳ خدا کا نام جاننے کا مطلب صرف یہ نہیں کہ ہم لفظ یہوواہ سے واقف ہوں۔‏ دراصل خدا کا نام جاننے میں اُس کی ذات اور صفات کو سمجھنا شامل ہے۔‏ اِس کے علاوہ یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ اُس نے کیاکیا کام کئے ہیں جیسے کہ ماضی میں وہ اپنے بندوں سے کیسے پیش آیا۔‏ خدا نے اپنے بندوں کو اِن ساری باتوں کی سمجھ ایک دم عطا نہیں کی تھی۔‏ جوں‌جوں خدا اپنے مقصد کو پورا کرتا گیا،‏ اُس کے بندوں پر اُس کی ذات کے بہت سے پہلو بھی آشکارا ہوتے گئے۔‏ (‏امثا ۴:‏۱۸‏)‏ خدا نے پہلے انسان آدم اور حوا کو اپنے نام کے بارے میں بتایا تھا۔‏ اور حوا نے اپنے پہلے بیٹے قائن کی پیدائش کے موقعے پر کہا:‏ ”‏مجھے خداوند [‏”‏یہوواہ،‏“‏ نیو ورلڈ ٹرانسلیشن‏]‏ سے ایک مرد ملا۔‏“‏ (‏پید ۴:‏۱‏)‏ خدا کے وفادار بندے نوح،‏ ابرہام،‏ اِضحاق اور یعقوب بھی اُس کا نام جانتے تھے۔‏ جیسےجیسے خدا نے اُنہیں برکتیں دیں،‏ اُن کی حفاظت کی اور اُنہیں اپنے مقصد کے متعلق نئی معلومات دیں،‏ وہ خدا کی مختلف صفات کو سمجھتے گئے۔‏ بعد میں خدا نے موسیٰ نبی کو اپنے نام کے بارے میں ایک بہت اہم بات بتائی۔‏

موسیٰ نبی خدا کے نام کا مطلب جانتے تھے۔‏ اِس سے خدا پر اُن کا ایمان اَور مضبوط ہوا۔‏

۴.‏ ‏(‏الف)‏ موسیٰ نبی نے خدا سے اُس کا نام کیوں پوچھا؟‏ (‏ب)‏ موسیٰ نبی کو کس بات کی فکر تھی اور کیوں؟‏

۴ خروج ۳:‏۱۰-‏۱۵ کو پڑھیں۔‏ جب موسیٰ نبی ۸۰ سال کے تھے تو خدا نے اُنہیں ایک بھاری ذمہ‌داری سونپی۔‏ خدا نے اُنہیں حکم دیا:‏ ’‏تُو میری قوم بنی‌اسرائیل کو مصر سے نکال لا۔‏‘‏ اِس پر موسیٰ نبی نے خدا سے ایک اہم سوال پوچھا۔‏ اُنہوں نے خدا سے کہا:‏ ”‏اگر بنی‌اسرائیل مجھ سے تیرا نام پوچھیں تو مَیں اُنہیں کیا بتاؤں؟‏“‏ بنی‌اسرائیل تو طویل عرصے سے خدا کا نام جانتے تھے تو پھر موسیٰ نبی نے یہ سوال کیوں پوچھا؟‏ دراصل وہ یہوواہ خدا کی ذات اور صفات کے متعلق اَور زیادہ جاننا چاہتے تھے تاکہ وہ اسرائیلیوں کو اِس بات پر قائل کر سکیں کہ خدا واقعی اُن کو غلامی سے چھڑائے گا۔‏ موسیٰ نبی کو یہ فکر تھی کہ بنی‌اسرائیل کو قائل کرنا آسان نہیں ہوگا۔‏ اور اُن کی یہ فکر بالکل جائز بھی تھی کیونکہ بنی‌اسرائیل بڑی مُدت سے غلامی میں تھے۔‏ اب شاید وہ سوچنے لگے تھے کہ خدا اُنہیں غلامی سے چھڑانے کی طاقت رکھتا بھی ہے یا نہیں۔‏ بعض اسرائیلیوں کا ایمان اِتنا کمزور ہو گیا تھا کہ وہ مصر کے دیوتاؤں کی پوجا کرنے لگے تھے۔‏—‏حز ۲۰:‏۷،‏ ۸‏۔‏

۵.‏ یہوواہ خدا نے موسیٰ نبی کو اپنے نام کے بارے میں کون‌سی اہم بات بتائی؟‏

۵ یہوواہ خدا نے موسیٰ نبی کو کیا جواب دیا؟‏ خدا نے کہا:‏ ”‏تُو بنی‌اِسرائیل سے یوں کہنا کہ مَیں جو ہوں نے مجھے تمہارے پاس بھیجا ہے۔‏“‏ جس عبرانی اصطلاح کا ترجمہ میں جو ہوں کِیا گیا ہے،‏ اُس کے معنی ہیں کہ یہوواہ خدا اپنے ہر وعدے کو پورا کرتا ہے۔‏ خدا نے مزید کہا:‏ ”‏تُو بنی‌اِسرائیل سے یوں کہنا کہ [‏یہوواہ]‏ * تمہارے باپ‌دادا کے خدا .‏ .‏ .‏ نے مجھے تمہارے پاس بھیجا ہے۔‏“‏ خدا نے ظاہر کِیا کہ وہ اپنے ارادے یا مقصد کو پورا کرنے کے لئے جیسا چاہے ویسا کر سکتا ہے۔‏ خدا نے یہ بھی کہا:‏ ”‏ابد تک میرا یہی نام ہے اور سب نسلوں میں اِسی سے میرا ذکر ہوگا۔‏“‏ یوں اُس نے واضح کِیا کہ وہ ہمیشہ اپنی ہر بات کو پورا کرتا ہے۔‏ اِس بات سے یقیناً موسیٰ نبی کا ایمان بہت مضبوط ہوا ہوگا۔‏

یہوواہ خدا اپنے نام کے مطلب پر پورا اُترتا ہے

۶،‏ ۷.‏ یہوواہ خدا نے کیسے ثابت کِیا کہ وہ اپنے نام کے مطلب پر پورا اُترتا ہے؟‏

۶ خدا نے بنی‌اسرائیل کو غلامی سے چھڑا نے سے ظاہر کِیا کہ وہ ہمیشہ اپنے نام کے مطلب پر پورا اُترتا ہے۔‏ اُس نے مصریوں کو سزا دینے کے لئے اُن پر دس آفتیں نازل کیں۔‏ یوں اُس نے ثابت کِیا کہ مصریوں کے دیوتا جن میں فرعون بھی شامل تھے،‏ اُنہیں بچانے کی طاقت نہیں رکھتے۔‏ (‏خر ۱۲:‏۱۲‏)‏ یہوواہ خدا بحرِقلزم میں سے راستہ بنا کر بنی‌اسرائیل کو پار لے گیا۔‏ اور فرعون اور اُن کے لشکر کو سمندر میں غرق کر دیا۔‏ (‏زبور ۱۳۶:‏۱۳-‏۱۵‏)‏ یہوواہ خدا نے اپنے مقصد کو پورا کرنے کے لئے ایک بڑے اور ہولناک بیابان میں بنی‌اسرائیل کی دیکھ‌بھال کی۔‏ حالانکہ اسرائیلیوں کی تعداد ۲۰ سے ۳۰ لاکھ کے لگ‌بھگ تھی پھر بھی خدا نے اُنہیں خوراک اور پانی مہیا کِیا۔‏ چالیس سال کے دوران نہ تو اُن کے کپڑے پھٹے اور نہ ہی اُن کے جُوتے پُرانے ہوئے۔‏ (‏است ۱:‏۱۹؛‏ ۲۹:‏۵‏)‏ واقعی یہوواہ خدا نے ثابت کر دیا کہ وہ جیسا چاہتا ہے ویسا ہی کرتا ہے۔‏ کائنات کی کوئی بھی طاقت اُسے اپنا وعدہ پورا کرنے سے روک نہیں سکتی۔‏ اِس لئے بعد میں یہوواہ خدا نے یسعیاہ نبی سے کہا:‏ ”‏مَیں ہی یہوؔواہ ہوں اور میرے سوا کوئی بچانے والا نہیں۔‏“‏—‏یسع ۴۳:‏۱۱‏۔‏

۷ موسیٰ نبی کے بعد یشوع نے بنی‌اسرائیل کی رہنمائی کرنے کی ذمہ‌داری سنبھالی۔‏ اُنہوں نے مصر میں اور بیابان میں یہوواہ خدا کی طاقت اور حیرت‌انگیز کاموں کو دیکھا تھا۔‏ اِس لئے اپنی زندگی کے آخری دنوں میں وہ بنی‌اسرائیل سے پورے یقین کے ساتھ یہ کہہ سکتے تھے:‏ ”‏تُم خوب جانتے ہو کہ اُن سب اچھی باتوں میں سے جو [‏یہوواہ]‏ تمہارے خدا نے تمہارے حق میں کہیں ایک بات بھی نہ چُھوٹی۔‏ سب تمہارے حق میں پوری ہوئیں اور ایک بھی اُن میں سے رہ نہ گئی۔‏“‏ (‏یشو ۲۳:‏۱۴‏)‏ بےشک یہوواہ خدا نے جو بھی وعدہ کِیا،‏ اُسے نبھایا۔‏

۸.‏ یہوواہ خدا آج‌کل اپنے نام کے مطلب پر کیسے پورا اُتر رہا ہے؟‏

۸ آج‌کل بھی یہوواہ خدا اپنے وعدے پورے کر رہا ہے۔‏ اُس نے اپنے بیٹے کے ذریعے وعدہ کیا تھا کہ آخری زمانے میں ”‏بادشاہی کی .‏ .‏ .‏ خوشخبری کی مُنادی تمام دُنیا میں ہوگی۔‏“‏ (‏متی ۲۴:‏۱۴‏)‏ ایسی پیشین‌گوئی کرنا اور پھر اِسے عام آدمیوں کے ذریعے پورا کرنا صرف یہوواہ خدا کا ہی کمال ہے۔‏ (‏اعما ۴:‏۱۳‏)‏ جب ہم مُنادی کے کام میں حصہ لیتے ہیں تو دراصل ہم بائبل کی اِس پیشین‌گوئی کی تکمیل میں حصہ لیتے ہیں۔‏ ایسا کرنے سے ہم اپنے آسمانی باپ کی تعظیم کرتے ہیں اور اپنی اِس دلی تمنا کا اِظہار کرتے ہیں کہ ’‏اُس کا نام پاک مانا جائے۔‏ اُس کی بادشاہی آئے۔‏ اُس کی مرضی جیسی آسمان پر پوری ہوتی ہے زمین پر بھی ہو۔‏‘‏—‏متی ۶:‏۹،‏ ۱۰‏۔‏

خدا کے نام کی عزت کرنا بہت اہم ہے

فرعون نے یہوواہ کو خدا ماننے سے انکار کِیا۔‏

۹،‏ ۱۰.‏ یہوواہ خدا،‏ بنی‌اسرائیل کے ساتھ جس طرح پیش آیا،‏ اُس سے ہم اُس کے بارے میں کیا سیکھتے ہیں؟‏

۹ بنی‌اسرائیل کو مصر کی غلامی سے آزاد کرانے کے بعد یہوواہ خدا نے اُن کے فائدے کے لئے ایک اَور کردار اختیار کِیا۔‏ اُس نے اُن کے ساتھ عہد باندھا اور مجازی معنوں میں بنی‌اسرائیل کا ”‏خاوند“‏ بن گیا۔‏ اُس نے اُن کی دیکھ‌بھال کرنے کی ساری ذمہ‌داری قبول کی۔‏ (‏یرم ۳:‏۱۴‏،‏ کیتھولک ترجمہ‏)‏ بنی اسرائیل اُس کی بیوی یعنی اُس کے نام کی اُمت بن گئے۔‏ (‏یسع ۵۴:‏۵،‏ ۶‏)‏ خدا نے وعدہ کِیا کہ اگر وہ اُس کے حکموں کو مانیں گے تو وہ اُنہیں برکت دے گا،‏ اُن کی حفاظت کرے گا اور اُنہیں امن‌وسلامتی بخشے گا۔‏ (‏گن ۶:‏۲۲-‏۲۷‏)‏ یوں دوسری قوموں میں اُس کے نام کی تمجید ہوگی۔‏ ‏(‏استثنا ۴:‏۵-‏۸؛‏ زبور ۸۶:‏۷-‏۱۰ کو پڑھیں۔‏)‏ جب تک بنی‌اسرائیل خدا کی قوم رہے،‏ غیرقوموں میں سے بہت سے لوگ اُن میں شامل ہو کر یہوواہ خدا کی عبادت کرنے لگے۔‏ اُنہوں نے ملک موآب کی رہنے والی روت جیسا جذبہ ظاہر کِیا جنہوں نے اپنی ساس نعومی سے کہا تھا:‏ ”‏تیرے لوگ میرے لوگ اور تیرا خدا میرا خدا ہوگا۔‏“‏—‏روت ۱:‏۱۶‏۔‏

۱۰ تقریباً ۱۵۰۰ سال کے دوران یہوواہ خدا،‏ بنی‌اسرائیل کے ساتھ جس طرح پیش آیا،‏ اُس سے اُس کی ذات کے کئی نئے پہلو سامنے آئے۔‏ اگرچہ بنی‌اسرائیل نے باربار یہوواہ خدا کے حکم توڑے پھر بھی اُس نے بڑے صبر اور تحمل سے کام لیا۔‏ اور یوں اُس نے ثابت کِیا کہ وہ ”‏خدایِ‌رحیم اور .‏ .‏ .‏ قہر کرنے میں دھیما“‏ ہے۔‏ (‏خر ۳۴:‏۵-‏۷‏)‏ لیکن آخرکار اُس کے صبر کی انتہا ہو گئی۔‏ جب یہودیوں نے اُس کے بیٹے کو رد کِیا اور اُسے ہلاک کر دیا تو اُس نے بھی اُنہیں رد کر دیا۔‏ (‏متی ۲۳:‏۳۷،‏ ۳۸‏)‏ بنی‌اسرائیل خدا کے نام سے کہلانے کا اعزاز کھو بیٹھے۔‏ وہ یہوواہ خدا کی نظر میں ایک سوکھے ہوئے درخت کی مانند ہو گئے۔‏ (‏لو ۲۳:‏۳۱‏)‏ اِس کا خدا کے نام کو استعمال کرنے کے سلسلے میں یہودیوں کی سوچ پر کیا اثر پڑا؟‏

۱۱.‏ یہودیوں نے خدا کا نام لینا کیوں چھوڑ دیا تھا؟‏

۱۱ یہودیوں نے یہ غلط نظریہ اپنا لیا کہ انسانوں کو خدا کا نام اپنی زبان پر نہیں لانا چاہئے۔‏ (‏خر ۲۰:‏۷‏)‏ یوں آہستہ‌آہستہ اُنہوں نے خدا کا نام استعمال کرنا ہی چھوڑ دیا۔‏ بِلاشُبہ خدا کو یہ دیکھ کر بہت دُکھ ہوا ہوگا کہ لوگ اُس کے نام کی کس قدر توہین کر رہے ہیں۔‏ (‏زبور ۷۸:‏۴۰،‏ ۴۱‏)‏ یہوواہ ’‏غیور خدا‘‏ ہے۔‏ اِس لئے وہ اپنا نام کسی ایسی اُمت کے ساتھ ہمیشہ منسلک نہیں رکھ سکتا جس نے اُس کا نام لینا چھوڑ دیا ہو اور جس اُمت کو اُس نے خود رد کر دیا ہو۔‏ (‏خر ۳۴:‏۱۴‏)‏ اِس سے ہم یہ سیکھتے ہیں کہ اپنے خالق کے نام کی عزت اور بڑائی کرنا بہت اہم بات ہے۔‏

خدا کے نام کی ایک نئی اُمت

۱۲.‏ یہوواہ خدا نے اپنے نام کی اُمت کیسے بنائی؟‏

۱۲ یرمیاہ نبی کے ذریعے یہوواہ خدا نے وعدہ کِیا کہ وہ ایک نئی قوم کے ساتھ ”‏نیا عہد“‏ باندھے گا۔‏ یرمیاہ نبی کی پیشین‌گوئی کے مطابق اِس قوم کے تمام لوگ ’‏چھوٹے سے بڑے تک یہوواہ کو جانیں گے۔‏‘‏ (‏یرم ۳۱:‏۳۱،‏ ۳۳،‏ ۳۴‏)‏ خدا نے یہ ”‏نیا عہد“‏ کب اور کس قوم کے ساتھ باندھا؟‏ یہ عہد ۳۳ء میں پنتِکُست کے موقعے پر ”‏خدا کے اؔسرائیل“‏ کے ساتھ باندھا گیا۔‏ ”‏خدا کے اؔسرائیل“‏ میں یہودی اور غیریہودی لوگ شامل تھے۔‏ یہ لوگ خدا کے ”‏نام کی .‏ .‏ .‏ اُمت“‏ بن گئے۔‏—‏گل ۶:‏۱۶؛‏ اعمال ۱۵:‏۱۴-‏۱۷ کو پڑھیں؛‏ متی ۲۱:‏۴۳‏۔‏

۱۳.‏ ‏(‏الف)‏ کیا پہلی صدی کے مسیحی،‏ خدا کا نام استعمال کرتے تھے؟‏ وضاحت کریں۔‏ (‏ب)‏ مُنادی کے کام میں خدا کا نام استعمال کرنا آپ کی نظر میں کیا اہمیت رکھتا ہے؟‏

۱۳ خدا کے ’‏نام کی اُمت‘‏ کے لوگ یقیناً خدا کا نام استعمال کرتے تھے۔‏ بِلاشُبہ جب وہ عبرانی صحیفوں سے حوالہ دیتے تھے تو وہ خدا کا نام استعمال کرتے تھے۔‏ مثال کے طور پر ۳۳ء میں عیدِپنتِکُست پر جب پطرس رسول نے مختلف علاقوں سے آنے والے یہودیوں اور یہودی مذہب اپنانے والوں سے خطاب کِیا تو اُنہوں نے کئی عبرانی صحیفوں کا حوالہ دیا۔‏ اِن صحیفوں میں خدا کا نام یہوواہ استعمال کِیا گیا تھا۔‏ (‏اعما ۲:‏۱۴،‏ ۲۰،‏ ۲۱،‏ ۲۵،‏ ۳۴‏)‏ * پہلی صدی کے مسیحی،‏ خدا کے نام کی بڑی عزت کرتے تھے۔‏ اِس لئے خدا نے اُن کے مُنادی کے کام میں بڑی برکت ڈالی۔‏ آج‌کل یہوواہ خدا ہمارے کام میں بھی برکت ڈالتا ہے جب ہم لوگوں کو اُس کے نام کے بارے میں بتاتے ہیں اور اگر ممکن ہو تو اُن کی اپنی بائبل میں سے اُنہیں خدا کا نام دِکھاتے ہیں۔‏ ہمارے لئے یہ بڑے شرف کی بات ہے کہ ہم خدا کو جاننے میں لوگوں کی مدد کرتے ہیں۔‏ بعض لوگ جب خدا کے بارے میں علم حاصل کر لیتے ہیں تو خدا کے ساتھ اُن کی ایسی دوستی ہو جاتی ہے جو ہمیشہ قائم رہتی ہے۔‏

۱۴،‏ ۱۵.‏ جھوٹی تعلیمات پھیلنے کے باوجود یہوواہ خدا نے اپنے نام کو کیسے محفوظ رکھا ہے؟‏

۱۴ پھر ایک ایسا وقت آیا جب پہلی صدی کی کلیسیاؤں میں جھوٹی تعلیمات پھیلنے لگیں۔‏ خاص طور پر رسولوں کی موت کے بعد ایسی تعلیمات اَور بھی زور پکڑ گئیں۔‏ (‏۲-‏تھس ۲:‏۳-‏۷‏)‏ یہاں تک کہ جھوٹے اُستادوں نے خدا کا نام استعمال نہ کرنے کے سلسلے میں یہودی روایت اپنا لی۔‏ لیکن یہوواہ خدا نے اپنا نام مٹنے نہیں دیا۔‏ اگرچہ خدا کے نام کا صحیح تلفظ تو معلوم نہیں لیکن یہ نام آج بھی زندہ ہے۔‏ صدیوں سے خدا کا نام بائبل کے مختلف ترجموں میں استعمال ہوتا رہا ہے۔‏ اِس کے علاوہ بائبل کے کئی عالموں کی کتابوں میں بھی یہ نام نظر آتا ہے۔‏ مثال کے طور پر ۱۷۵۷ء میں چارلس پیٹرز نے لکھا کہ اگرچہ خدا کو بہت سے لقب دئے گئے ہیں پھر بھی نام ”‏یہوواہ اُس کی ذات اور صفات کی زیادہ عکاسی کرتا ہے۔‏“‏ سن ۱۷۹۷ء میں بائبل کے عالم ہوپٹن ہانز نے خدا کی عبادت کے موضوع پر ایک کتاب لکھی۔‏ اِس کتاب کے ساتویں باب کے شروع میں اُنہوں نے لکھا:‏ ”‏یہوواہ دراصل یہودیوں کے خدا کا نام تھا۔‏ یہودی صرف اُسی کی عبادت کرتے تھے۔‏ مسیح اور اُس کے رسول بھی اِسی خدا کو مانتے تھے۔‏“‏ ہنری گِرو (‏۱۷۸۱ء-‏۱۸۶۲ء)‏ نے نہ صرف خدا کا نام استعمال کِیا بلکہ وہ یہ بھی سمجھتے تھے کہ خدا کے نام کی بہت توہین کی گئی ہے اِس لئے اِسے پاک ٹھہرانا لازمی ہے۔‏ جارج سٹورز (‏۱۷۹۶ء-‏۱۸۷۹ء)‏ جو چارلس ٹیز رسل کے اچھے دوست تھے،‏ اُنہوں نے بھی خدا کا نام استعمال کِیا۔‏

۱۵ خدا کے بندوں کے لئے ۱۹۳۱ء کا سال بہت ہی اہم تھا۔‏ اِس سے پہلے وہ انٹرنیشنل بائبل سٹوڈنٹس کے نام سے جانے جاتے تھے۔‏ لیکن ۱۹۳۱ء میں اُنہوں نے نام یہوواہ کے گواہ اپنایا۔‏ (‏یسع ۴۳:‏۱۰-‏۱۲‏)‏ یوں اُنہوں نے دُنیا کو بتا دیا کہ وہ خدا کے ”‏نام کی .‏ .‏ .‏ اُمت“‏ کہلانے اور اُس کے نام کی تمجید کرنے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔‏ (‏اعما ۱۵:‏۱۴‏)‏ خدا نے جس طرح اپنے نام کو محفوظ رکھا ہے،‏ اُس سے ہمیں وہ بات یاد آتی ہے جو یہوواہ خدا نے ملاکی نبی کے ذریعے فرمائی تھی۔‏ اُس نے کہا:‏ ”‏آفتاب کے طلوع سے غروب تک قوموں میں میرے نام کی تمجید ہوگی۔‏“‏—‏ملا ۱:‏۱۱‏۔‏

خدا کے نام سے چلیں

۱۶.‏ خدا کے نام سے چلنا ہمارے لئے فخر کی بات کیوں ہونی چاہئے؟‏

۱۶ میکاہ نبی نے لکھا:‏ ”‏سب اُمتیں اپنےاپنے معبود کے نام سے چلیں گی پر ہم ابداُلآباد تک خداوند [‏”‏یہوواہ،‏“‏ نیو ورلڈ ٹرانسلیشن‏]‏ اپنے خدا کے نام سے چلیں گے۔‏“‏ (‏میک ۴:‏۵‏)‏ خدا کے نام سے کہلانا بائبل سٹوڈنٹس کے لئے ایک بڑا اعزاز تھا۔‏ اِس سے اُن کا یہ اعتماد اَور بھی مضبوط ہو گیا کہ اُنہیں خدا کی خوشنودی حاصل ہے۔‏ ‏(‏ملاکی ۳:‏۱۶-‏۱۸ کو پڑھیں۔‏)‏ کیا آپ بھی ایسا ہی محسوس کرتے ہیں؟‏ کیا آپ خدا کے ’‏نام سے چلنے‘‏ کی پوری کوشش کر رہے ہیں؟‏ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ خدا کے نام سے چلنے میں کیا کچھ شامل ہے؟‏

۱۷.‏ خدا کے نام سے چلنے میں کیا کچھ شامل ہے؟‏

۱۷ خدا کے نام سے چلنے میں کم‌ازکم تین باتیں شامل ہیں۔‏ پہلی بات یہ ہے کہ ہم دوسروں کو اُس کے نام کے بارے میں بتائیں کیونکہ ”‏جو کوئی خداوند [‏”‏یہوواہ،‏“‏ نیو ورلڈ ٹرانسلیشن‏]‏ کا نام لے گا نجات پائے گا۔‏“‏ (‏روم ۱۰:‏۱۳‏)‏ دوسری بات یہ ہے کہ ہم اُس کی صفات ظاہر کریں،‏ خاص طور پر خدا جیسی محبت ظاہر کرنے کی کوشش کریں۔‏ (‏۱-‏یوح ۴:‏۸‏)‏ تیسری بات یہ کہ ہم خوشی سے خدا کی فرمانبرداری کریں اور یوں اُس کے نام کی بڑائی کریں۔‏ (‏۱-‏یوح ۵:‏۳‏)‏ کیا آپ نے ’‏ابداُلآباد تک یہوواہ اپنے خدا کے نام سے چلنے‘‏ کا عزم کِیا ہے؟‏

۱۸.‏ خدا کے نام کی بڑائی کرنے والے ایک روشن مستقبل کی اُمید کیوں رکھ سکتے ہیں؟‏

۱۸ جو لوگ یہوواہ کو ماننے سے انکار کرتے ہیں،‏ جلد ہی اُنہیں یہ اقرار کرنا پڑے گا کہ وہی سچا خدا ہے۔‏ (‏حز ۳۸:‏۲۳‏)‏ ایسے لوگ فرعون کی طرح ہیں۔‏ فرعون نے بڑے غرور سے کہا تھا کہ ’‏یہوواہ کون ہے کہ مَیں اُس کی بات مانو۔‏‘‏ لیکن جلد ہی اُنہیں ماننا پڑا کہ یہوواہ کتنا عظیم خدا ہے۔‏ (‏خر ۵:‏۱،‏ ۲؛‏ ۹:‏۱۶؛‏ ۱۲:‏۲۹‏)‏ ہم نے اپنی خوشی سے یہوواہ خدا کو جاننے اور اُس کے دوست بننے کا فیصلہ کِیا ہے۔‏ ہمیں فخر ہے کہ ہم اُس کے نام سے کہلاتے ہیں اور اُس اُمت میں شامل ہیں جو اُس کے حکموں پر چلتی ہے۔‏ ہم ایک روشن مستقبل کے منتظر ہیں کیونکہ زبور ۹:‏۱۰ میں وعدہ کِیا گیا ہے:‏ ’‏وہ جو تیرا نام جانتے ہیں تجھ پر توکل کریں گے کیونکہ اَے یہوواہ!‏ تُو اپنے طالبوں کو ترک نہیں کرے گا۔‏‘‏

^ پیراگراف 5 عبرانی زبان میں نام یہوواہ کا مطلب ہے،‏ وہ جیسا چاہتا ہے ویسا کرتا ہے۔‏

^ پیراگراف 13 اُردو بائبل میں اِن آیتوں میں خدا کا نام یہوواہ استعمال نہیں ہوا۔‏ لیکن پہلی صدی کے مسیحی جو عبرانی متن استعمال کرتے تھے،‏ اُس میں خدا کا نام عبرانی کے چار حروف کی صورت میں درج تھا۔‏ جب پطرس رسول نے اعمال ۲:‏۲۰،‏ ۲۱،‏ ۲۵ اور۳۴ میں درج الفاظ کہے تو وہ دراصل یوایل ۲:‏۳۱،‏ ۳۲؛‏ زبور ۱۶:‏۸؛‏ ۱۱۰:‏۱ سے حوالہ دے رہے تھے۔‏