مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

بائبل کو اپنے اور دوسروں کے فائدے کے لئے استعمال کریں

بائبل کو اپنے اور دوسروں کے فائدے کے لئے استعمال کریں

‏”‏مَیں تیرے سب قوانین کو برحق جانتا ہوں۔‏“‏ —‏زبور ۱۱۹:‏۱۲۸‏۔‏

۱.‏ ہمیں خدا کے کلام پر مضبوط ایمان کیوں رکھنا چاہئے؟‏

جب کوئی شخص کچھ عرصے تک ہمارے ساتھ بائبل کا مطالعہ کرتا ہے اور پھر مُنادی کے کام میں حصہ لینے کی خواہش ظاہر کرتا ہے تو بزرگ اُس سے بات‌چیت کرتے ہیں۔‏ بزرگ یہ دیکھتے ہیں کہ آیا وہ شخص واقعی بائبل کو خدا کا کلام مانتا ہے یا نہیں۔‏ جو لوگ مبشر بننا چاہتے ہیں،‏ صرف اُنہی کو نہیں بلکہ ہم سب کو یہ ایمان رکھنا چاہئے کہ بائبل خدا کا کلام ہے۔‏ اگر ہم بائبل پر ایمان رکھتے ہیں اور مُنادی کے کام میں اِسے اچھی طرح استعمال کرتے ہیں تو ہم خدا کو جاننے اور ہمیشہ کی زندگی پانے میں دوسروں کی مدد کر سکیں گے۔‏

۲.‏ جو باتیں ہم نے سیکھی ہیں،‏ ہمیں اُن پر قائم کیوں رہنا چاہئے؟‏

۲ پولس رسول نے خدا کے کلام کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے تیمتھیس کو ہدایت کی:‏ ”‏اُن باتوں پر جو تُو نے سیکھی تھیں اور جن کا یقین تجھے دِلایا گیا تھا .‏ .‏ .‏ قائم رہ۔‏“‏ پولس رسول نے جن ”‏باتوں“‏ کا ذکر کِیا،‏ وہ بائبل کی تعلیمات ہیں۔‏ اِن تعلیمات کا یقین کرنے سے تیمتھیس کو ترغیب ملی کہ وہ ’‏یسوع مسیح پر ایمان لائیں۔‏‘‏ اِنہی تعلیمات کی وجہ سے ہم بھی یسوع مسیح کے پیروکار بنے اور یہ آج بھی ہمیں ”‏نجات حاصل کرنے کے لئے دانائی“‏ بخشتی ہیں۔‏ (‏۲-‏تیم ۳:‏۱۴،‏ ۱۵‏)‏ آئیں،‏ پولس رسول کی اگلی بات پر غور کریں جو ۲-‏تیمتھیس ۳:‏۱۶ میں درج ہے۔‏ ‏(‏اِس آیت کو پڑھیں۔‏)‏ اِس آیت کو ہم اکثر یہ ثابت کرنے کے لئے استعمال کرتے ہیں کہ بائبل خدا کے الہام سے لکھی گئی ہے۔‏ لیکن اِس سے ہم ذاتی طور پر بھی بہت فائدہ حاصل کر سکتے ہیں۔‏ اِس آیت کا تفصیل سے جائزہ لینے سے ہمارا ایمان اَور پکا ہوگا کہ یہوواہ خدا کی تمام باتیں ”‏برحق“‏ ہیں۔‏—‏زبور ۱۱۹:‏۱۲۸‏۔‏

‏’‏تعلیم دینے کے لئے فائدہ‌مند‘‏

۳-‏۵.‏ ‏(‏الف)‏ عیدِپنتِکُست کے موقعے پر پطرس رسول نے جو تقریر کی،‏ اُسے سُن کر لوگوں نے کیسا ردِعمل ظاہر کِیا؟‏ اور کیوں؟‏ (‏ب)‏ شہر تھسلنیکے میں بہت سے لوگ بادشاہت کے پیغام پر کیوں ایمان لے آئے؟‏ (‏ج)‏ آج‌کل بہت سے لوگ ہمارے مُنادی کے کام سے کیوں متاثر ہوتے ہیں؟‏

۳ یسوع مسیح نے اپنے پیروکاروں کو سکھایا کہ وہ مُنادی کے کام میں پاک صحیفوں کو استعمال کریں۔‏ کیا اُنہوں نے یسوع مسیح کی بات پر عمل کِیا؟‏ اِس سلسلے میں پطرس رسول کی مثال پر غور کریں۔‏ سن ۳۳ء میں عیدِپنتِکُست کے موقعے پر اُنہوں نے بہت بڑے ہجوم کے سامنے ایک تقریر پیش کی۔‏ اِس تقریر میں اُنہوں نے عبرانی صحیفوں سے بہت سی آیتیں استعمال کیں اور اِن کی وضاحت کی۔‏ پطرس رسول کی باتیں سُن کر لوگوں کے ”‏دلوں پر چوٹ لگی۔‏“‏ اُنہوں نے توبہ کی اور اُن میں سے تقریباً ۳۰۰۰ نے ”‏اپنے گُناہوں کی معافی کے لئے یسوؔع مسیح کے نام پر بپتسمہ“‏ لیا۔‏—‏اعما ۲:‏۳۷-‏۴۱‏۔‏

۴ پولس رسول نے بھی مُنادی کے کام میں پاک صحیفوں کو استعمال کِیا۔‏ اُنہوں نے بادشاہت کا پیغام دُوردراز علاقوں تک پہنچایا۔‏ مثال کے طور پر اُنہوں نے شہر تھسلنیکے میں یہودیوں کے عبادت‌خانے میں جا کر خوش‌خبری سنائی۔‏ پولس رسول نے تین سبتوں تک ”‏کتابِ‌مُقدس سے اُن کے ساتھ بحث کی۔‏“‏ وہ ”‏[‏کتابِ‌مُقدس]‏ کے معنی کھول کھول کر دلیلیں پیش کرتا تھا کہ مسیح کو دُکھ اُٹھانا اور مُردوں میں سے جی اُٹھنا ضرور تھا۔‏“‏ اِس کا نتیجہ کیا نکلا؟‏ بعض یہودی اور ”‏یونانیوں کی ایک بڑی جماعت“‏ ایمان لے آئی۔‏—‏اعما ۱۷:‏۱-‏۴‏۔‏

۵ آج بھی خدا کے بندے مُنادی کے کام میں پاک کلام کو استعمال کرتے ہیں۔‏ اور یہ دیکھ کر بہت سے لوگ متاثر ہوتے ہیں۔‏ مثال کے طور پر ملک سوئٹزرلینڈ میں ہماری دو بہنیں مُنادی کے کام کے دوران ایک شخص سے ملیں۔‏ جب ایک بہن نے اُس شخص کو بائبل سے ایک آیت پڑھ کر سنائی تو اُس نے پوچھا:‏ ”‏آپ کس چرچ سے ہیں؟‏“‏ اُس بہن نے کہا:‏ ”‏ہم دونوں یہوواہ کی گواہ ہیں۔‏“‏ اِس پر اُس آدمی نے کہا:‏ ”‏مجھے تو پہلے ہی سمجھ جانا چاہئے تھا۔‏ بھلا یہوواہ کے گواہوں کے علاوہ اَور کون میرے گھر آکر مجھے بائبل سے کوئی آیت پڑھ کر سنائے گا۔‏“‏

۶،‏ ۷.‏ ‏(‏الف)‏ جو بھائی اجلاسوں میں حصے پیش کرتے ہیں،‏ وہ بائبل کو اچھی طرح کیسے استعمال کر سکتے ہیں؟‏ (‏ب)‏ جب ہم کسی کے ساتھ بائبل کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہم بائبل کو مؤثر طریقے سے کیسے استعمال کر سکتے ہیں؟‏

۶ دوسروں کو تعلیم دیتے وقت ہم بائبل کو اچھی طرح کیسے استعمال کر سکتے ہیں؟‏ اگر آپ اجلاسوں میں حصے پیش کرتے ہیں تو بائبل سے حوالے دیں۔‏ جن آیتوں کا تعلق آپ کی تقریر کے اہم نکات سے ہے،‏ اُن کا محض زبانی خلاصہ بتانے،‏ اِنہیں کمپیوٹر سے چھاپے ہوئے پرچے یا موبائل فون وغیرہ سے پڑھنے کی بجائے بائبل سے پڑھیں۔‏ سامعین کی بھی حوصلہ‌افزائی کریں کہ وہ اِن آیتوں کو اپنی بائبل سے پڑھیں۔‏ آیتوں کی وضاحت اِس طرح سے کریں کہ سامعین کو یہوواہ خدا کے اَور قریب جانے میں مدد ملے۔‏ مشکل تمثیلیں یا سامعین کو ہنسانے والے تجربے بتانے کی بجائے اپنا وقت آیتوں کے ”‏معنی کھول کھول“‏ کر بتانے کے لئے استعمال کریں۔‏

۷ جب ہم کسی کے ساتھ بائبل کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں کون‌سی بات ذہن میں رکھنی چاہئے؟‏ ہمیں اُس شخص کی حوصلہ‌افزائی کرنی چاہئے کہ وہ جس سبق کی تیاری کر رہا ہے،‏ اُس میں دی گئی تمام آیتوں کو پڑھے۔‏ جب ہم اُس کے ساتھ مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں اُن آیتوں کو پڑھنا چاہئے جو سبق کے اہم نکات سے تعلق رکھتی ہیں۔‏ ہمیں اُس شخص کو اُن آیتوں کے معنی سمجھانے چاہئیں۔‏ ہم یہ کیسے کر سکتے ہیں؟‏ ہمیں لمبی‌لمبی وضاحتیں پیش نہیں کرنی چاہئیں بلکہ اُس کی حوصلہ‌افزائی کرنی چاہئے کہ وہ بائبل میں جو کچھ پڑھتا ہے،‏ اُس کے متعلق اپنے خیالات کا اِظہار کرے۔‏ اُسے یہ بتانے کی بجائے کہ اُسے کیا کرنا چاہئے،‏ ہم اُس سے ایسے سوال پوچھ سکتے ہیں جن پر غور کرنے سے وہ خود یہ فیصلہ کر سکے کہ اُسے کیا ماننا چاہئے یا کیا کرنا چاہئے۔‏ *

‏’‏الزام لگانے کے لئے فائدہ‌مند‘‏

۸.‏ پولس رسول کو کیا جدوجہد کرنی پڑی؟‏

۸ دوسرا تیمتھیس ۳:‏۱۶ میں جس یونانی لفظ کا ترجمہ ’‏الزام لگانا‘‏ کِیا گیا ہے،‏ وہ درستی کرنے کے معنی رکھتا ہے۔‏ بائبل میں بتایا گیا ہے کہ کلیسیا میں کسی کی درستی کرنے کی ذمہ‌داری بزرگوں کی ہے۔‏ (‏۱-‏تیم ۵:‏۲۰؛‏ طط ۱:‏۱۳‏)‏ لیکن ہمیں خود بھی اپنی درستی کرنی چاہئے۔‏ اِس سلسلے میں پولس رسول کی مثال پر غور کریں۔‏ اُن کا ضمیر صاف تھا۔‏ (‏۲-‏تیم ۱:‏۳‏)‏ پھر بھی اُنہوں نے لکھا:‏ ”‏مجھے اپنے اعضا میں ایک اَور طرح کی شریعت نظر آتی ہے جو میری عقل کی شریعت سے لڑ کر مجھے .‏ .‏ .‏ گُناہ کی شریعت کی قید میں لے آتی ہے۔‏“‏ اِس آیت کے سیاق‌وسباق پر غور کرنے سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ پولس رسول اپنی کمزوریوں پر قابو پانے کے لئے کیا کرتے تھے۔‏‏—‏رومیوں ۷:‏۲۱-‏۲۵ کو پڑھیں۔‏

۹،‏ ۱۰.‏ ‏(‏الف)‏ پولس رسول میں غالباً کون‌سی کمزوری تھی؟‏ (‏ب)‏ پولس رسول اپنی کمزوریوں پر قابو پانے کے لئے کیا کرتے تھے؟‏

۹ پولس رسول اپنی کون‌سی کمزوریوں پر قابو پانے کی کوشش کر رہے تھے؟‏ اُنہوں نے اِس سلسلے میں واضح طور پر تو کچھ نہیں بتایا لیکن اُنہوں نے تیمتھیس کے نام خط میں اپنے بارے میں لکھا کہ ”‏مَیں .‏ .‏ .‏ بےعزت کرنے والا تھا۔‏“‏ (‏۱-‏تیم ۱:‏۱۳‏)‏ لگتا ہے کہ مسیحی بننے سے پہلے پولس رسول بہت غصے والے انسان تھے۔‏ اُنہیں مسیحیوں سے سخت نفرت تھی اِس لئے وہ اُنہیں دیکھتے ہی غصے میں آ جاتے تھے۔‏ اُنہوں نے بتایا کہ وہ مسیحیوں کی ’‏مخالفت کرنے میں دیوانے‘‏ بنے ہوئے تھے۔‏ (‏اعما ۲۶:‏۱۱‏)‏ مگر مسیحی بننے کے بعد اُنہوں نے کسی حد تک اپنے غصے کو قابو میں رکھنا سیکھ لیا تھا۔‏ پھر بھی بعض اوقات اپنے غصے اور زبان کو قابو میں رکھنے کے لئے اُنہیں سخت کوشش کرنی پڑتی تھی۔‏ (‏اعما ۱۵:‏۳۶-‏۳۹‏)‏ وہ اِس کوشش میں کیسے کامیاب ہوئے؟‏

۱۰ جب پولس رسول نے کرنتھیوں کے نام خط لکھا تو اُنہوں نے بتایا کہ وہ اپنی درستی کرنے کے لئے کیا کرتے تھے۔‏ ‏(‏۱-‏کرنتھیوں ۹:‏۲۶،‏ ۲۷ کو پڑھیں۔‏)‏ وہ خود کو روحانی لحاظ سے مارتے اور کوٹتے تھے۔‏ وہ غالباً پاک صحیفوں سے ایسی باتیں تلاش کرتے تھے جن کا تعلق اُن کی صورتحال سے ہو۔‏ پھر وہ خدا سے مدد مانگتے تھے تاکہ وہ اِن باتوں پر عمل کر سکیں۔‏ وہ اپنی زندگی میں تبدیلیاں کرنے کی کوشش کرتے تھے۔‏ * ہم اُن کی مثال سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں کیونکہ ہمیں بھی اُن کی طرح اپنی کمزوریوں پر قابو پانے کے لئے جدوجہد کرنی پڑتی ہے۔‏

۱۱.‏ ہم خود کو کیسے پرکھ سکتے ہیں؟‏

۱۱ ہمیں اِس غلط‌فہمی میں نہیں پڑنا چاہئے کہ ہمیں اپنی درستی کرنے کی ضرورت نہیں۔‏ اِس کی بجائے ہمیں خود کو ’‏آزماتے‘‏ رہنا چاہئے یعنی خود کو پرکھنا چاہئے کہ آیا ہم واقعی خدا کی راہ پر چل رہے ہیں یا نہیں۔‏ (‏۲-‏کر ۱۳:‏۵‏)‏ جب ہم بائبل سے کلسیوں ۳:‏۵-‏۱۰ یا ایسی ہی دوسری آیتیں پڑھتے ہیں تو ہم خود سے پوچھ سکتے ہیں:‏ ”‏کیا مَیں اپنی کمزوریوں پر قابو پانے کی پوری کوشش کر رہا ہوں؟‏ یا کیا مَیں ایسے کاموں کو پسند کرنے لگا ہوں جو یہوواہ خدا کو ناپسند ہیں؟‏ جب میرے کمپیوٹر پر اچانک کوئی گندی ویب‌سائٹ کُھل جاتی ہے تو کیا مَیں فوراً اِسے بند کر دیتا ہوں؟‏ یا کیا مَیں خود ایسی ویب‌سائٹس ڈھونڈتا ہوں؟‏“‏ ایسی صورتوں میں اگر ہم خدا کے کلام کی رہنمائی میں چلتے ہیں تو ہم ”‏جاگتے اور ہوشیار“‏ رہیں گے۔‏—‏۱-‏تھس ۵:‏۶-‏۸‏۔‏

‏’‏اصلاح کرنے کے لئے فائدہ‌مند‘‏

۱۲،‏ ۱۳.‏ ‏(‏الف)‏ پولس رسول کے اِن الفاظ کا کیا مطلب ہے کہ ’‏ہر ایک صحیفہ اصلاح کرنے کے لئے فائدہ‌مند ہے‘‏؟‏ (‏ب)‏ ہم معاملات کو سدھارنے کے سلسلے میں یسوع مسیح کی مثال پر کیسے عمل کر سکتے ہیں؟‏ (‏ج)‏ اگر کسی نے ہمیں ٹھیس پہنچائی ہے تو ہمیں اِس معاملے کو سدھارنے کے لئے کس طرح کی باتوں سے گریز کرنا چاہئے؟‏

۱۲ دوسرا تیمتھیس ۳:‏۱۶ میں جس یونانی لفظ کا ترجمہ ’‏اصلاح کرنا‘‏ کِیا گیا ہے،‏ اُس کا مطلب ہے،‏ ٹھیک بنانا،‏ صحیح حالت میں لانا،‏ کسی معاملے کو سدھارنا۔‏ جب لوگ ہماری کسی بات کا غلط مطلب لیتے ہیں یا ہمارے کسی کام کی وجہ سے غلط‌فہمی کا شکار ہو جاتے ہیں تو ہمیں اِس معاملے کو سدھارنا چاہئے۔‏ ایک مرتبہ یہودی عالموں نے یسوع مسیح کے شاگردوں سے کہا کہ ’‏تمہارا اُستاد محصول لینے والوں اور گنہگاروں کے ساتھ کھاتاپیتا ہے۔‏‘‏ یسوع مسیح نے اُنہیں جواب دیا:‏ ”‏تندرستوں کو طبیب درکار نہیں بلکہ بیماروں کو۔‏ مگر تُم جا کر اِس کے معنی دریافت کرو کہ مَیں قربانی نہیں بلکہ رحم پسند کرتا ہوں۔‏“‏ (‏متی ۹:‏۱۱-‏۱۳‏)‏ یسوع مسیح نے بڑے تحمل اور نرمی سے لوگوں کو خدا کے کلام کی باتیں سمجھائیں۔‏ یوں خاکسار لوگ سمجھ گئے کہ یہوواہ ”‏خدایِ‌رحیم اور مہربان قہر کرنے میں دھیما اور شفقت اور وفا میں غنی“‏ ہے۔‏ (‏خر ۳۴:‏۶‏)‏ چونکہ یسوع مسیح نے غلط‌فہمیوں کو دُور کرنے کی کوشش کی اِس لئے بہت سے لوگ اُن کے پیغام پر ایمان لائے۔‏

۱۳ اگر کسی نے ہمیں ٹھیس پہنچائی ہے تو ہمیں اِس معاملے کو سدھارنے کے لئے یسوع مسیح کی مثال پر عمل کرنا چاہئے۔‏ دوسرا تیمتھیس ۳:‏۱۶ میں جب ”‏اصلاح“‏ کرنے کی بات کی گئی تو اِس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم اُس شخص کے ساتھ اُکھڑے ہوئے انداز میں یا سختی سے بات کریں۔‏ پاک کلام میں یہ کہیں نہیں کہا گیا کہ ہمیں دوسروں کو کھری‌کھری سنانی چاہئیں۔‏ ہماری کڑوی باتیں کسی کو ’‏تلوار کی طرح چھید‘‏ سکتی ہیں۔‏ ایسی باتوں سے کچھ فائدہ نہیں ہوتا۔‏—‏امثا ۱۲:‏۱۸‏۔‏

۱۴-‏۱۶.‏ ‏(‏الف)‏ بزرگ مسائل کو سلجھانے میں دوسروں کی مدد کیسے کر سکتے ہیں؟‏ (‏ب)‏ یہ کیوں اہم ہے کہ والدین اپنے بچوں کی ”‏اصلاح“‏ پاک کلام کے مطابق کریں؟‏

۱۴ ‏’‏اصلاح کرنے‘‏ کے سلسلے میں ہم نرمی اور تحمل سے کام کیسے لے سکتے ہیں؟‏ فرض کریں کہ ایک شوہر اور بیوی کلیسیا کے ایک بزرگ کے پاس جاتے ہیں اور اُسے بتاتے ہیں کہ وہ بات‌بات پر جھگڑتے رہتے ہیں۔‏ وہ بزرگ سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ اِس مسئلے کو سدھارنے میں اُن کی مدد کرے۔‏ ایسی صورت میں وہ بزرگ کیا کرے گا؟‏ وہ ایک کو صحیح اور دوسرے کو غلط نہیں کہے گا بلکہ وہ اُن کے ساتھ بائبل کے اصولوں پر بات کرے گا۔‏ شاید وہ کتاب خاندانی خوشی کا راز کے تیسرے باب میں درج باتیں اُن کی توجہ میں لائے۔‏ ایسی باتوں پر غور کرنے سے شاید شوہر اور بیوی یہ سمجھ جائیں کہ اُنہیں اپنی زندگی میں بائبل کے کن اصولوں پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔‏ کچھ عرصے بعد بزرگ شاید اُن سے پوچھ سکتا ہے کہ اب صورتحال کیسی ہے؟‏ اور اگر ضروری ہو تو وہ اُن کی مزید مدد کر سکتا ہے۔‏

۱۵ والدین کو اپنے بچوں کی اصلاح کیسے کرنی چاہئے؟‏ فرض کریں کہ آپ کی ایک نوجوان بیٹی ہے اور آپ اُس کی ایک سہیلی کے بارے میں پریشان ہیں۔‏ آپ کو لگتا ہے کہ اُس کی دوستی آپ کی بیٹی کے لئے اچھی نہیں۔‏ ایسی صورت میں آپ کیا کریں گے؟‏ سب سے پہلے یہ جاننے کی کوشش کریں کہ وہ لڑکی حقیقت میں کیسی ہے۔‏ اِس کے بعد اگر آپ کو لگتا ہے کہ آپ کا خیال واقعی صحیح ہے تو اپنی بیٹی سے بات کریں۔‏ آپ جاگو!‏ رسالے میں مضامین کے سلسلے ”‏نوجوانوں کا سوال“‏ سے کچھ نکات استعمال کر سکتے ہیں۔‏ اگلے دنوں کے دوران جب آپ اُس کے ساتھ وقت گزارتے ہیں،‏ اُس کے ساتھ مل کر مُنادی کا کام کرتے ہیں یا تفریح کرتے ہیں تو دیکھیں کہ اُس کا مزاج کیسا ہے۔‏ اگر آپ اُس کے ساتھ نرمی اور تحمل سے پیش آئیں گے تو وہ سمجھ جائے گی کہ آپ اُس کی بھلائی چاہتے ہیں اور اُس سے محبت کرتے ہیں۔‏ یوں اِس بات کا زیادہ امکان ہوگا کہ وہ اصلاح قبول کر لے اور ایسا قدم اُٹھانے سے بچ جائے جس پر اُسے بعد میں پچھتانا پڑے۔‏

جب والدین بائبل کے اصولوں کے مطابق نرمی سے اپنے بچوں کی ”‏اصلاح“‏ کرتے ہیں تو بچے غلط قدم اُٹھانے سے بچ جاتے ہیں۔‏ (‏پیراگراف ۱۵ کو دیکھیں)‏

۱۶ ایسی ہی نرمی اور تحمل سے ہم اُن لوگوں کی مدد بھی کر سکتے ہیں جو اپنی گِرتی ہوئی صحت کی وجہ سے فکرمند ہیں،‏ نوکری چلے جانے سے پریشان ہیں یا پھر بائبل کی کسی تعلیم کو سمجھ نہیں پاتے۔‏ ایسے معاملات کو جب ہم پاک کلام کے ذریعے سدھارتے ہیں تو ہم سب کو فائدہ ہوتا ہے۔‏

‏’‏راست‌بازی میں تربیت کرنے کے لئے فائدہ‌مند‘‏

۱۷.‏ ہمیں جو بھی تربیت ملتی ہے،‏ ہمیں اُس کے لئے کیوں شکرگزار ہونا چاہئے؟‏

۱۷ بائبل میں لکھا ہے:‏ ”‏ہر قسم کی تنبیہ خوشی کا نہیں بلکہ غم کا باعث معلوم ہوتی ہے مگر جو اُس کو سہتے سہتے پُختہ ہو گئے ہیں اُن کو بعد میں چین کے ساتھ راست‌بازی کا پھل بخشتی ہے۔‏“‏ (‏عبر ۱۲:‏۱۱‏)‏ بہت سے مسیحی جن کے والدین نے بائبل کے مطابق اُن کی تربیت کی تھی،‏ وہ یہ مانتے ہیں کہ اُنہیں اِس تربیت سے بہت فائدہ ہوا ہے۔‏ اور جب ہم کلیسیا کے بزرگوں کی طرف سے ملنے والی تربیت کو قبول کرتے ہیں تو ہم زندگی کی راہ پر بڑھتے رہنے کے قابل ہوتے ہیں۔‏—‏امثا ۴:‏۱۳‏۔‏

۱۸،‏ ۱۹.‏ ‏(‏الف)‏ ”‏راست‌بازی میں تربیت“‏ کرنے کے سلسلے میں امثال ۱۸:‏۱۳ میں درج بات کیوں اہم ہے؟‏ (‏ب)‏ جب بزرگ سنگین گُناہ کرنے والے کسی شخص سے حلیمی اور محبت سے پیش آتے ہیں تو اِس کا اکثر کیا نتیجہ نکلتا ہے؟‏

۱۸ ہم دوسروں کی تربیت مؤثر طریقے سے کیسے کر سکتے ہیں؟‏ پاک کلام کے مطابق ہمیں دوسروں کی ”‏راست‌بازی میں تربیت“‏ کرنی چاہئے۔‏ (‏۲-‏تیم ۳:‏۱۶‏)‏ اِس کا مطلب ہے کہ جب ہم دوسروں کی تربیت کرتے ہیں تو ہمیں بائبل میں درج اصولوں کو کام میں لانا چاہئے۔‏ اِن میں سے ایک اہم اصول امثال ۱۸:‏۱۳ میں پایا جاتا ہے۔‏ اِس میں لکھا ہے:‏ ”‏جو بات سننے سے پہلے اُس کا جواب دے یہ اُس کی حماقت اور خجالت ہے۔‏“‏ جب بزرگوں کو بتایا جاتا ہے کہ کسی بھائی یا بہن نے کوئی سنگین گُناہ کِیا ہے تو اُنہیں پہلے اِس معاملے کے بارے میں تمام حقائق اِکٹھے کرنے چاہئیں۔‏ (‏است ۱۳:‏۱۴‏)‏ اِس کے بعد وہ اُس بھائی یا بہن کی ”‏راست‌بازی میں تربیت“‏ کرنے کے قابل ہوں گے۔‏

۱۹ خدا کے کلام میں بزرگوں کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ دوسروں کو ”‏حلیمی سے تادیب“‏ کریں۔‏ ‏(‏۲-‏تیمتھیس ۲:‏۲۴-‏۲۶ کو پڑھیں۔‏)‏ جس شخص نے سنگین گُناہ کِیا ہے،‏ شاید وہ یہوواہ خدا کی بدنامی کا باعث بنا ہے اور اِس سے دوسرے بہن‌بھائیوں کو بھی ٹھیس پہنچی ہے۔‏ پھر بھی ایک بزرگ کو اِس بھائی یا بہن کے ساتھ غصے سے بات نہیں کرنی چاہئے کیونکہ اگر وہ ایسا کرے گا تو وہ اِس بھائی یا بہن کی مدد نہیں کر پائے گا۔‏ جب بزرگ،‏ یہوواہ خدا کی مثال پر عمل کرتے ہوئے ”‏مہربانی“‏ سے پیش آتا ہے تو شاید وہ گنہگار کو توبہ کرنے کی طرف مائل کر لے۔‏—‏روم ۲:‏۴‏۔‏

۲۰.‏ بچوں کی پرورش اور تربیت کے سلسلے میں والدین کو کن اصولوں پر عمل کرنا چاہئے؟‏

۲۰ ‏”‏[‏یہوواہ]‏ کی طرف سے تربیت اور نصیحت“‏ دینے کے لئے والدین کو اپنے بچوں کی پرورش پاک کلام کے اصولوں کے مطابق کرنی چاہئے۔‏ (‏افس ۶:‏۴‏)‏ مثال کے طور پر اگر ایک والد کو بتایا جاتا ہے کہ اُس کے بیٹے نے کوئی غلطی کی ہے تو اُسے سنی‌سنائی بات پر اپنے بیٹے کو سزا نہیں دینی چاہئے بلکہ پہلے اُسے معلوم کرنا چاہئے کہ سچ کیا ہے۔‏ اور اگر بچوں سے کوئی غلطی ہوتی ہے تو مسیحی والدین کو اُن پر تشدد نہیں کرنا چاہئے۔‏ یہوواہ ”‏بہت ترس اور رحم ظاہر“‏ کرنے والا خدا ہے۔‏ اور والدین کو اپنے بچوں کی تربیت اور پرورش کے سلسلے میں اُس کی مثال پر عمل کرنا چاہئے۔‏—‏یعقو ۵:‏۱۱‏۔‏

خدا کا انمول تحفہ

۲۱،‏ ۲۲.‏ زبور ۱۱۹:‏۹۷-‏۱۰۴ میں درج کون‌سی بات پاک کلام کے متعلق آپ کے احساسات کو ظاہر کرتی ہے؟‏

۲۱ خدا کے ایک وفادار بندے نے بتایا کہ وہ خدا کی شریعت سے محبت کیوں کرتا ہے۔‏ ‏(‏زبور ۱۱۹:‏۹۷-‏۱۰۴ کو پڑھیں۔‏)‏ خدا کا کلام پڑھنے سے اُسے عقل اور دانش حاصل ہوئی۔‏ پاک کلام کے اصولوں پر عمل کرنے سے وہ ایسی غلطیاں کرنے سے بچا جو دوسرے لوگوں نے کیں اور نقصان اُٹھایا۔‏ خدا کے کلام کو پڑھنے سے اُسے خوشی اور اطمینان ملتا تھا۔‏ چونکہ اُسے خدا کے حکموں پر عمل کرنے سے بےشمار برکتیں ملیں اِس لئے اُس نے یہ عزم کر رکھا تھا کہ وہ ہمیشہ خدا کا فرمانبردار رہے گا۔‏

۲۲ کیا آپ خدا کے کلام کی دل سے قدر کرتے ہیں؟‏ پاک کلام کی بدولت اِس بات پر ہمارا ایمان مضبوط ہوتا ہے کہ زمین کے لئے خدا کا مقصد ضرور پورا ہوگا۔‏ اِس میں درج ہدایات پر عمل کرنے سے ہم ایسے کام کرنے سے بچتے ہیں جو خدا کو پسند نہیں۔‏ جب ہم اِسے دوسروں کو تعلیم دینے کے لئے اچھی طرح استعمال کرتے ہیں تو دراصل ہم اُنہیں زندگی کی راہ پر ڈالتے ہیں اور اِس راہ پر چلتے رہنے میں اُن کی مدد کرتے ہیں۔‏ آئیں،‏ ہم پاک کلام کا بھرپور استعمال کریں جو خدا کی طرف سے ایک انمول تحفہ ہے۔‏

^ پیراگراف 7 لوگوں کو تعلیم دیتے وقت یسوع مسیح اکثر یہ سوال پوچھتے تھے:‏ ”‏تُم کیا سمجھتے ہو؟‏“‏ پھر وہ لوگوں کو اپنی رائے پیش کرنے کا موقع دیتے تھے۔‏—‏متی ۱۸:‏۱۲؛‏ ۲۱:‏۲۸؛‏ ۲۲:‏۴۲‏۔‏

^ پیراگراف 10 پولس رسول نے اپنے خطوں میں کئی بار نصیحت کی کہ مسیحیوں کو اپنی کمزوریوں پر قابو پانے کی کوشش کرتے رہنا چاہئے۔‏ (‏روم ۶:‏۱۲؛‏ گل ۵:‏۱۶-‏۱۸‏)‏ بِلاشُبہ اُنہوں نے جو نصیحت دوسروں کو دی،‏ وہ خود بھی اُس پر عمل کرتے تھے۔‏—‏روم ۲:‏۲۱‏۔‏