مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

بشارت دینے کا کام بخوبی انجام دیں

بشارت دینے کا کام بخوبی انجام دیں

‏”‏بشارت کا کام انجام دے۔‏ اپنی خدمت کو پورا کر۔‏“‏ —‏۲-‏تیم ۴:‏۵‏۔‏

۱.‏ ہم کیوں کہہ سکتے ہیں کہ سب سے پہلا خوش‌خبری دینے والا یہوواہ خدا تھا؟‏

بشارت کا مطلب ہے،‏ خوش‌خبری۔‏ سب سے پہلی بشارت یہوواہ خدا نے دی۔‏ جب آدم اور حوا نے سانپ یعنی شیطان کے کہنے میں آکر بغاوت کی تو اِس کے فوراً بعد یہوواہ خدا نے یہ بشارت دی کہ وہ شیطان کو ختم کر دے گا۔‏ (‏پید ۳:‏۱۵‏)‏ وقت گزرنے کے ساتھ‌ساتھ اُس نے اپنے وفادار بندوں کے ذریعے لکھوایا کہ اُس پر لگائے گئے سب الزام کیسے جھوٹے ثابت کئے جائیں گے،‏ اُن سارے مسئلوں کو کیسے حل کِیا جائے گا جو شیطان کی وجہ سے پیدا ہوئے ہیں اور انسان وہ برکتیں کیسے حاصل کر پائیں گے جو آدم اور حوا نے گنوا دی تھیں۔‏ یہ واقعی بہت بڑی خوش‌خبری ہے۔‏

۲.‏ ‏(‏الف)‏ فرشتے بشارت دینے کے کام میں کیا کردار ادا کرتے ہیں؟‏ (‏ب)‏ یسوع مسیح نے بشارت دینے والوں کے لئے کون‌سی مثال قائم کی؟‏

۲ فرشتے بھی بشارت دینے کے کام میں شریک ہیں۔‏ وہ خود بھی خوش‌خبری سناتے ہیں اور اِسے پھیلانے میں دوسروں کی مدد بھی کرتے ہیں۔‏ (‏لو ۱:‏۱۹؛‏ ۲:‏۱۰؛‏ اعما ۸:‏۲۶،‏ ۲۷،‏ ۳۵؛‏ مکا ۱۴:‏۶‏)‏ اِس سلسلے میں مقرب فرشتے میکائیل یعنی یسوع مسیح کی مثال پر غور کریں۔‏ جب وہ انسان کے روپ میں زمین پر آئے تو اُنہوں نے بشارت دینے کے کام کو اپنی زندگی میں بہت اہمیت دی۔‏ یوں اُنہوں نے بشارت دینے والوں کے لئے ایک عمدہ مثال قائم کی۔‏—‏لو ۴:‏۱۶-‏۲۱‏۔‏

۳.‏ ‏(‏الف)‏ ہم لوگوں کو کون‌سی خوش‌خبری دیتے ہیں؟‏ (‏ب)‏ بشارت دینے کے کام کے سلسلے میں ہم کن دو سوالوں پر غور کریں گے؟‏

۳ یسوع مسیح نے اپنے شاگردوں کو حکم دیا تھا کہ وہ خوش‌خبری سنائیں۔‏ (‏متی ۲۸:‏۱۹،‏ ۲۰؛‏ اعما ۱:‏۸‏)‏ پولس رسول نے اپنے ہم‌خدمت تیمتھیس کو ہدایت کی:‏ ”‏بشارت کا کام انجام دے۔‏ اپنی خدمت کو پورا کر۔‏“‏ (‏۲-‏تیم ۴:‏۵‏)‏ ہم لوگوں کو کون‌سی خوش‌خبری دیتے ہیں؟‏ ہم لوگوں کو یہ بتاتے ہیں کہ ہمارا آسمانی باپ ہم سے محبت کرتا ہے۔‏ (‏یوح ۳:‏۱۶؛‏ ۱-‏پطر ۵:‏۷‏)‏ اُس نے اپنی بادشاہت قائم کی ہے جس کے ذریعے وہ ہم پر اپنی محبت ظاہر کرتا ہے۔‏ اِس لئے ہم لوگوں کو یہ خوش‌خبری بھی دیتے ہیں کہ اگر وہ خدا کی بادشاہت کو قبول کرتے ہیں،‏ اُس کے حکموں کو مانتے ہیں اور راستی سے چلتے ہیں تو وہ خدا کے دوست بن سکتے ہیں۔‏ (‏زبور ۱۵:‏۱،‏ ۲‏)‏ اِس کے علاوہ یہوواہ خدا نے وعدہ کِیا ہے کہ وہ اپنی بادشاہت کے ذریعے اِس زمین سے ہر طرح کے دُکھ‌تکلیف کو دُور کر دے گا،‏ یہاں تک کہ وہ اُن مصیبتوں کی تلخ یادوں کو بھی ہمارے ذہن سے مٹا دے گا جو ہم سہہ رہے ہیں۔‏ یہ کتنی بڑی خوش‌خبری ہے!‏ (‏یسع ۶۵:‏۱۷‏)‏ چونکہ ہم سب بشارت دیتے ہیں اِس لئے آئیں،‏ دو اہم سوالوں پر غور کریں:‏ آج‌کل لوگوں کو خوش‌خبری کی ضرورت کیوں ہے؟‏ ہم بشارت دینے کا کام بخوبی کیسے انجام دے سکتے ہیں؟‏

لوگوں کو خوش‌خبری کی ضرورت کیوں ہے؟‏

مؤثر سوالوں کے ذریعے ہم .‏ .‏ .‏ لوگوں کو یہ سوچنے کی ترغیب دے سکتے ہیں کہ وہ فلاں بات پر کیوں ایمان رکھتے ہیں۔‏

۴.‏ لوگوں کو خدا کے بارے میں کون‌سی جھوٹی باتیں سکھائی جاتی ہیں؟‏

۴ فرض کریں کہ کوئی آپ کو بتاتا ہے کہ آپ کا ابو آپ کو اور آپ کے گھر والوں کو چھوڑ کر چلا گیا ہے۔‏ جو لوگ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ آپ کے ابو کو جانتے ہیں،‏ آپ کو بتاتے ہیں کہ اُسے کسی کی پرواہ نہیں ہے،‏ وہ گھر والوں سے بہت سی باتیں چھپاتا ہے اور بڑا ظالم ہے۔‏ کچھ لوگ شاید یہ کہیں کہ اب اُسے ڈھونڈنے کی ضرورت نہیں کیونکہ وہ مر چُکا ہے۔‏ خدا کے بارے میں بھی ایسی ہی باتیں پھیلائی گئی ہیں۔‏ بہت سے لوگوں کو یہ سکھایا گیا ہے کہ خدا کی ذات کو سمجھنا ممکن نہیں۔‏ دوسرے لوگ یہ کہتے ہیں کہ خدا بڑا ظالم ہے۔‏ مثال کے طور پر کچھ مذہبی رہنما یہ تعلیم دیتے ہیں کہ خدا بُرے لوگوں کو دوزخ میں ہمیشہ کے لئے تڑپاتا ہے۔‏ بعض لوگ یہ مانتے ہیں کہ قدرتی آفتیں خدا کی طرف سے آتی ہیں۔‏ حالانکہ اِن میں اچھے اور بُرے دونوں طرح کے لوگ مرتے ہیں پھر بھی یہ لوگ کہتے ہیں کہ قدرتی آفتیں خدا کے غضب کی نشانی ہیں۔‏

لوگوں کے دل تک پہنچ سکتے ہیں اور اُنہیں خوش‌خبری سننے کی طرف مائل کر سکتے ہیں۔‏

۵،‏ ۶.‏ ارتقا کے نظریے اور خدا کے بارے میں جھوٹی تعلیمات کا لوگوں پر کیا اثر پڑا ہے؟‏

۵ کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ خدا کا کوئی وجود نہیں ہے۔‏ مثال کے طور پر ارتقا کے نظریے کو ماننے والے کہتے ہیں کہ زندگی کی اِبتدا کسی خالق کے بغیر ہوئی ہے۔‏ اِس نظریے کے حامی کہتے ہیں کہ انسان بھی ایک جانور ہے۔‏ اِس لئے اگر کوئی انسان درندگی پر اُتر آئے تو اِس میں حیرانی کی کوئی بات نہیں۔‏ اُن کا خیال ہے کہ اگر بعض لوگ اپنے سے کمزور لوگوں پر اختیار جتاتے ہیں تو یہ اُن کا حق۔‏ اِسی وجہ سے بہت سے لوگ مانتے ہیں کہ ناانصافی ہمارا پیچھا کبھی نہیں چھوڑے گی۔‏ لہٰذا ارتقا کا نظریہ لوگوں کو اچھے مستقبل کی اُمید سے محروم کر دیتا ہے۔‏

۶ بِلاشُبہ ارتقا کے نظریے اور خدا کے بارے میں جھوٹی تعلیمات کی وجہ سے اِس آخری زمانے میں انسانوں کی مشکلیں اَور بھی بڑھ گئی ہیں۔‏ (‏روم ۱:‏۲۸-‏۳۱؛‏ ۲-‏تیم ۳:‏۱-‏۵‏)‏ اِن تعلیمات کا کوئی اچھا اثر نہیں ہوا۔‏ پولس رسول نے بتایا کہ اِن کی وجہ سے لوگوں کی ”‏عقل تاریک ہو گئی ہے اور وہ .‏ .‏ .‏ خدا کی زندگی سے خارج ہیں۔‏“‏ (‏افس ۴:‏۱۷-‏۱۹‏)‏ اِس کے علاوہ اِن تعلیمات اور ارتقا کے نظریے کی وجہ سے لوگ خدا کی خوش‌خبری کو قبول کرنا مشکل پاتے ہیں۔‏‏—‏افسیوں ۲:‏۱۱-‏۱۳ کو پڑھیں۔‏

لوگوں کی مدد کر سکتے ہیں تاکہ وہ خود صحیح نتیجے پر پہنچیں۔‏

۷،‏ ۸.‏ لوگ صرف کس صورت میں خوش‌خبری سے واقف ہو سکتے ہیں؟‏

۷ لوگوں کو خدا کے نزدیک لانے کے لئے ضروری ہے کہ ہم پہلے اُنہیں یقین دِلائیں کہ خدا موجود ہے اور اُس کے دوست بننے کے بہت سے فائدے ہیں۔‏ خدا کے وجود کا ثبوت دینے کے لئے ہم اُن کی توجہ خدا کی بنائی ہوئی چیزوں پر دِلا سکتے ہیں۔‏ قدرت کے کرشموں میں وہ خدا کی حکمت اور طاقت کی جھلک دیکھ سکیں گے۔‏ (‏روم ۱:‏۱۹،‏ ۲۰‏)‏ ہم اُنہیں کچھ ایسی مثالیں دے سکتے ہیں جن سے وہ یہ اندازہ لگا سکیں کہ خدا کی تخلیق کتنی شاندار ہے۔‏ ایسی مثالیں جاگو!‏ میں شائع ہونے والے مضامین کے سلسلے ”‏کیا یہ خالق کی کاریگری ہے؟‏“‏ میں ملتی ہیں۔‏ لیکن کچھ ایسے سوال ہیں جن کے جواب ہمیں صرف تخلیق کا جائزہ لینے سے نہیں ملتے،‏ مثلاً خدا ہمیں دُکھ‌تکلیف کیوں سہنے دیتا ہے؟‏ خدا نے زمین کو کس مقصد کے لئے بنایا؟‏ مستقبل میں زمین کا کیا ہوگا؟‏ کیا خدا کو میری فکر ہے؟‏

۸ لوگوں کو ایسے سوالوں کے جواب صرف بائبل کا مطالعہ کرنے سے ہی ملتے ہیں۔‏ اور صرف بائبل کے ذریعے ہی وہ خوش‌خبری سے واقف ہو سکتے ہیں۔‏ ہمارے لئے یہ بڑے اعزاز کی بات ہے کہ ہم لوگوں کو خالق کے نزدیک لانے میں ایک چھوٹا سا کردار ادا کر رہے ہیں۔‏ لوگوں کے دل تک پہنچنے کے لئے اُنہیں صرف معلومات دینا کافی نہیں ہے۔‏ اِس کی بجائے ہمیں اُنہیں اِس طرح سے تعلیم دینی چاہئے کہ وہ سیکھی ہوئی باتوں پر یقین کریں اور اِن کو قبول کریں۔‏ (‏۲-‏تیم ۳:‏۱۴‏)‏ اِس سلسلے میں ہم یسوع مسیح کی مثال سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔‏ اُنہوں نے بشارت کا کام بخوبی انجام دیا۔‏ وہ اِس کام میں اِتنے کامیاب کیوں تھے؟‏ اِس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ وہ سوالوں کو بڑی مہارت سے استعمال کرتے تھے۔‏ ہم اُن کی مثال پر عمل کیسے کر سکتے ہیں؟‏

سوالوں کو مہارت سے استعمال کریں

۹.‏ اگر ہم چاہتے ہیں کہ لوگ بادشاہت کی خوش‌خبری قبول کریں تو ہمیں کیا کرنا چاہئے؟‏

۹ ہمیں یسوع مسیح کی طرح بشارت دینے کے کام میں سوال کیوں استعمال کرنے چاہئیں؟‏ اِس بات کو سمجھنے کے لئے ایک مثال پر غور کریں۔‏ فرض کریں کہ آپ کا ڈاکٹر آپ سے کہتا ہے کہ اُس کے پاس آپ کے لئے ایک خوش‌خبری ہے۔‏ وہ آپریشن کے ذریعے آپ کا علاج کر سکتا ہے۔‏ لیکن اگر وہ آپ کی بیماری کے بارے میں کوئی سوال پوچھے بغیر ہی آپ کو ٹھیک کرنے کا وعدہ کرتا ہے تو آپ کو کیسا لگے گا؟‏ آپ اُس کی بات پر یقین نہیں کریں گے۔‏ چاہے وہ ڈاکٹر کتنا ہی تجربہ‌کار کیوں نہ ہو،‏ اُسے پہلے آپ سے سوال پوچھنے چاہئیں اور آپ کی بات کو دھیان سے سننا چاہئے۔‏ تبھی وہ آپ کا اچھی طرح علاج کر سکے گا۔‏ اِسی طرح اگر ہم چاہتے ہیں کہ لوگ بادشاہت کی خوش‌خبری قبول کریں تو ہمیں سوالوں کو مہارت سے استعمال کرنا چاہئے۔‏ ہم تبھی لوگوں کی اچھی طرح مدد کر سکیں گے اگر ہم جان لیں کہ وہ کیا مانتے ہیں اور کن باتوں کے بارے میں فکرمند ہیں۔‏

لوگوں کے دل تک پہنچنے کے لئے اُنہیں صرف معلومات دینا کافی نہیں۔‏ ہمیں اُنہیں ایسے تعلیم دینی چاہئے کہ وہ سیکھی ہوئی باتوں پر یقین کریں۔‏

۱۰،‏ ۱۱.‏ یسوع مسیح کی طرح تعلیم دینے سے ہم کیا کچھ انجام دے سکتے ہیں؟‏

۱۰ یسوع مسیح جانتے تھے کہ جب ایک اُستاد سوالوں کو مہارت سے استعمال کرتا ہے تو وہ نہ صرف اپنے طالبعلم کے دل کی بات جان سکتا ہے بلکہ اُسے اپنی رائے بتانے کا موقع بھی دیتا ہے۔‏ مثال کے طور پر جب یسوع مسیح اپنے شاگردوں کو سکھانا چاہتے تھے کہ اُنہیں عاجزی سے کام لینا چاہئے تو اُنہوں نے ایک ایسا سوال پوچھا جس نے شاگردوں کو سوچنے پر مجبور کر دیا۔‏ (‏مر ۹:‏۳۳‏)‏ ایک مرتبہ یسوع مسیح،‏ پطرس رسول کی مدد کرنا چاہتے تھے کہ وہ خود صحیح نتیجے پر پہنچیں۔‏ اُنہوں نے ایک سوال کے دو جواب بتائے اور پطرس کو صحیح جواب چننے کے لئے کہا۔‏ (‏متی ۱۷:‏۲۴-‏۲۶‏)‏ ایک دفعہ یسوع مسیح جاننا چاہتے تھے کہ اُن کے شاگردوں کے دل میں کیا ہے تو اُنہوں نے ایسا سوال پوچھا جس سے شاگردوں کو اپنے خیالات کا اِظہار کرنے کا موقع ملا۔‏ ‏(‏متی ۱۶:‏۱۳-‏۱۷ کو پڑھیں۔‏)‏ تعلیم دیتے وقت یسوع مسیح نے صرف معلومات فراہم نہیں کیں بلکہ سوالوں کو مہارت سے استعمال کرنے سے وہ لوگوں کے دل تک پہنچے۔‏ اِس طرح اُنہوں نے لوگوں کو ترغیب دی کہ وہ خوش‌خبری کو قبول کریں اور خدا کی مرضی کے مطابق چلیں۔‏

۱۱ یسوع مسیح کی طرح سوالوں کو مہارت سے استعمال کرنے کے بڑے فائدے ہیں۔‏ مثال کے طور پر ہم لوگوں کی رائے دریافت کر سکتے ہیں اور پھر اِس کے مطابق اُن کو دلیلیں پیش کر سکتے ہیں۔‏ ہم ایسے لوگوں کے ساتھ بات‌چیت جاری رکھ سکتے ہیں جو کسی قسم کا اعتراض اُٹھاتے ہیں۔‏ اِس کے علاوہ ہم لوگوں کو سوچنے پر مجبور کر سکتے ہیں تاکہ بائبل کی تعلیم اُن کے دل تک پہنچے۔‏ آئیں،‏ تین صورتوں پر غور کریں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ سوالوں کو مؤثر طریقے سے استعمال کرنا کتنا فائدہ‌مند ہے۔‏

۱۲-‏۱۴.‏ آپ اپنے بچے کی مدد کیسے کر سکتے ہیں تاکہ وہ اعتماد کے ساتھ دوسروں کو خوش‌خبری سنا سکے؟‏ مثال دیں۔‏

۱۲ پہلی صورت:‏ فرض کریں کہ آپ کا بچہ آپ کو بتاتا ہے کہ سکول میں اُس کے کسی ہم‌جماعت نے اُس سے پوچھا ہے کہ وہ ارتقا کے نظریے کو کیوں نہیں مانتا؟‏ وہ آپ کو بتاتا ہے کہ وہ اِس سوال کا جواب نہیں دے پایا۔‏ اِس صورت میں آ پ کیا کریں گے؟‏ یقیناً آ پ اپنے بچے کی مدد کرنا چاہیں گے تاکہ وہ پورے اعتماد سے دوسروں کو خوش‌خبری سنائے۔‏ اُسے ڈانٹنے یا فوراً ہی مشورہ دینے کی بجائے یسوع مسیح کی مثال پر عمل کریں اور اُس سے ایسے سوال پوچھیں جن سے آپ اُس کی رائے دریافت کر سکیں۔‏ آپ ایسا کیسے کر سکتے ہیں؟‏

۱۳ اپنے بچے سے کہیں کہ وہ بروشر The Origin of Life—Five Questions Worth Asking سے کچھ حصوں کو پڑھے جس میں زندگی کی اِبتدا کے بارے میں کچھ دلچسپ معلومات دی گئی ہیں۔‏ پھر اُس سے پوچھیں کہ اُسے اِن میں کون‌سی دلیل اچھی لگی ہے۔‏ اُسے یہ سوچنے کی ترغیب دیں کہ وہ خالق پر کیوں ایمان رکھتا ہے اور اُس کی مرضی پر کیوں چلنا چاہتا ہے۔‏ (‏روم ۱۲:‏۲‏)‏ اُسے یہ احساس دِلائیں کہ وہ کُھل کر اپنی رائے کا اِظہار کر سکتا ہے۔‏

۱۴ اپنے بچے کو بتائیں کہ وہ اپنے ہم‌جماعت کو جواب دینے کے لئے وہی طریقہ استعمال کر سکتا ہے جو آپ نے اُسے کرکے دِکھایا ہے۔‏ آپ کا بچہ پہلے اپنے ہم‌جماعت کو کچھ معلومات دے سکتا ہے۔‏ پھر وہ اُس سے کچھ سوال پوچھ سکتا ہے جن سے اُس کے ہم‌جماعت کو اپنی رائے بتانے کا موقع ملے اور وہ خود صحیح نتیجے پر پہنچ سکے۔‏ مثال کے طور پر وہ اپنے ہم‌جماعت کے ساتھ اُوپر بتائے گئے بروشر کے صفحہ ۲۱ کے بکس کو پڑھ سکتا ہے۔‏ وہ اُس سے پوچھ سکتا ہے:‏ ”‏کیا تمہیں پتہ ہے کہ معلومات کو ذخیرہ کرنے کی جتنی گنجائش ڈی‌این‌اَے میں ہے اُتنی کسی جدید کمپیوٹر میں بھی نہیں؟‏“‏ اپنے ہم‌جماعت کا جواب جاننے کے بعد وہ اُس سے پوچھ سکتا ہے:‏ ”‏اگر ذہین انسان ایسا کمپیوٹر نہیں بنا سکتے تو پھر ڈی‌این‌اَے میں اپنے آپ اِتنی صلاحیت کیسے آ سکتی ہے؟‏“‏ کیوں نہ کبھی‌کبھار اپنے بچے کے ساتھ مشق کریں کہ وہ اُن سوالوں کے جواب کیسے دے سکتا ہے جو لوگ ہم سے اکثر پوچھتے ہیں۔‏ یوں اُس میں دوسروں کو اپنے ایمان کے بارے میں بتانے کا اعتماد پیدا ہوگا۔‏ اگر آپ اپنے بچے کو مہارت سے سوالوں کو استعمال کرنا سکھائیں گے تو وہ بشارت دینے کا کام بخوبی انجام دے سکے گا۔‏

۱۵.‏ جو لوگ خدا کو نہیں مانتے،‏ ہم اُنہیں سوالوں کے ذریعے خوش‌خبری کی طرف کیسے مائل کر سکتے ہیں؟‏

۱۵ دوسری صورت:‏ بعض اوقات مُنادی کے کام میں ہمیں ایسے لوگ ملتے ہیں جو خدا کے وجود پر یقین نہیں رکھتے۔‏ جب کوئی کہتا ہے کہ وہ خدا کو نہیں مانتا تو اُس کے ساتھ فوراً بات ختم کرنے کی بجائے ہم اُس سے پوچھ سکتے ہیں:‏ ”‏آپ کیوں خدا پر ایمان نہیں رکھتے؟‏ اور آپ نے کتنے عرصے سے خدا کو ماننا چھوڑ دیا ہے؟‏“‏ پھر اُس کی بات دھیان سے سنیں اور کچھ ایسا کہیں:‏ ”‏لگتا ہے کہ آپ نے اِس معاملے پر واقعی خوب سوچ‌بچار کی ہے۔‏“‏ اِس کے بعد ہم اُس سے پوچھ سکتے ہیں کہ ”‏اگر مَیں آپ کو کچھ ایسی معلومات پڑھنے کے لئے دوں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ خدا واقعی موجود ہے تو کیا آپ اِنہیں پڑھیں گے؟‏“‏ اگر وہ پڑھنے کے لئے تیار ہے تو اُسے جاگو!‏ رسالہ دیں اور اُسے بتائیں کہ وہ مضامین کے سلسلے ”‏کیا یہ خالق کی کاریگری ہے؟‏“‏ میں کچھ ثبوتوں پر غور کر سکتا ہے۔‏ نرم لہجے میں مناسب سوال پوچھنے سے ہم لوگوں کے دل کی زمین کو نرم کر سکتے ہیں اور اِس میں خوش‌خبری کا بیج بو سکتے ہیں۔‏

۱۶.‏ جس شخص کے ساتھ ہم بائبل کا مطالعہ کر رہے ہیں اگر وہ صرف کتاب سے پڑھ کر جواب دیتا ہے تو اِس کا کیا نتیجہ نکل سکتا ہے؟‏

۱۶ تیسری صورت:‏ فرض کریں کہ آپ کسی شخص کے ساتھ بائبل کا مطالعہ کر رہے ہیں۔‏ اور وہ شخص ہمیشہ اُس کتاب سے پڑھ کر جواب دیتا ہے جو آپ اُسے مطالعہ کرانے کے لئے استعمال کر رہے ہیں۔‏ اگر ہم اِس صورتحال کو ٹھیک کرنے کے لئے کچھ نہیں کرتے تو کیا ہوگا؟‏ وہ شخص روحانی طور پر نہیں بڑھے گا۔‏ اِس کی کیا وجہ ہے؟‏ وجہ یہ ہے کہ اگر وہ شخص کتاب سے پڑھ کر جواب دیتا ہے اور اِس پر سوچ‌بچار نہیں کرتا تو بائبل کی تعلیم اُس کے دل تک نہیں پہنچے گی۔‏ وہ ایک ایسے پودے کی طرح ہوگا جس کی جڑیں گہری نہیں ہوتیں اور جو جلد سُوکھ جاتا ہے۔‏ وہ مخالفت اور اذیت جھیل نہیں سکے گا۔‏ (‏متی ۱۳:‏۲۰،‏ ۲۱‏)‏ اُس شخص کو ایسے افسوس‌ناک انجام سے بچانے کے لئے ہمیں اُس سے پوچھنا چاہئے کہ وہ بائبل سے جو باتیں سیکھ رہا ہے،‏ اُن کے متعلق کیسا محسوس کرتا ہے۔‏ کیا وہ اِن باتوں سے متفق ہے؟‏ اِس سے بھی اہم یہ ہے کہ ہم اُس سے پوچھیں کہ وہ کسی بات سے کیوں متفق ہے یا کیوں متفق نہیں ہے۔‏ پھر اِس بات سے متعلق اُسے کچھ آیتیں دِکھائیں اور سوال پوچھیں تاکہ وہ خود صحیح نتیجے پر پہنچے۔‏ (‏عبر ۵:‏۱۴‏)‏ اگر ہم دوسروں کو تعلیم دیتے وقت سوالوں کو مہارت سے استعمال کریں گے تو اُن کا ایمان مضبوط ہوگا؛‏ وہ مخالفوں کا مقابلہ کر سکیں گے اور گمراہ کرنے والوں کی باتوں میں نہیں آئیں گے۔‏ (‏کل ۲:‏۶-‏۸‏)‏ ہمیں اَور کیا کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ہم بشارت دینے کا کام بخوبی انجام دے سکیں؟‏

بشارت دینے میں ایک دوسرے کی مدد کریں

۱۷،‏ ۱۸.‏ مُنادی کے کام میں آپ اور آپ کا ساتھی ایک دوسرے کی مدد کیسے کر سکتے ہیں؟‏

۱۷ یسوع مسیح نے اپنے شاگردوں کو دودو کرکے مُنادی کا کام کرنے کے لئے بھیجا۔‏ (‏مر ۶:‏۷؛‏ لو ۱۰:‏۱‏)‏ پولس رسول نے بھی اپنے ”‏ہم‌خدمتوں“‏ کا ذکر کِیا جنہوں نے اُن کے ساتھ ”‏خوشخبری پھیلانے میں .‏ .‏ .‏ جان‌فشانی کی۔‏“‏ (‏فل ۴:‏۳‏)‏ اِن مثالوں پر عمل کرتے ہوئے ۱۹۵۳ء میں یہوواہ خدا کی تنظیم نے یہ اِنتظام کِیا کہ تجربہ‌کار مبشر نئے مبشروں کو مُنادی کا کام کرنے کی تربیت دیں۔‏

۱۸ مُنادی کے کام میں آپ اور آپ کا ساتھی ایک دوسرے کی مدد کیسے کر سکتے ہیں؟‏ ‏(‏۱-‏کرنتھیوں ۳:‏۶-‏۹ کو پڑھیں۔‏)‏ جب آپ کا ساتھی بائبل سے کوئی آیت پڑھتا ہے تو آپ بھی اُس آیت کو اپنی بائبل میں دیکھیں۔‏ جب آپ کا ساتھی یا صاحبِ‌خانہ بات کر رہا ہو تو اُس کی بات دھیان سے سنیں۔‏ یوں ضرورت پڑنے پر آپ کسی سوال کا جواب دینے میں اپنے ساتھی کی مدد کر سکیں گے۔‏ (‏واعظ ۴:‏۱۲‏)‏ لیکن خیال رکھیں کہ اگر آپ کا ساتھی کوئی دلیل پیش کر رہا ہے تو اُس کی بات بیچ میں نہ کاٹیں۔‏ اِس سے صاحبِ‌خانہ کا دھیان بات سے ہٹ جائے گا۔‏ اور شاید آپ کے ساتھی کو لگے کہ اُس کی دلیل مؤثر نہیں ہے۔‏ یوں وہ بےحوصلہ ہو جائے گا۔‏ بعض اوقات بات‌چیت میں حصہ لینا مناسب ہوتا ہے۔‏ لیکن اچھا ہوگا کہ آپ اپنی بات مختصر رکھیں اور اپنے ساتھی کو ہی بات آگے بڑھانے دیں۔‏

۱۹.‏ ہمیں کیا بات یاد رکھنی چاہئے؟‏ اور کیوں؟‏

۱۹ مُنادی کے کام میں جب ہم ایک گھر سے دوسرے گھر جاتے ہیں تو اِس دوران ہم کیسے ایک دوسرے کی مدد کر سکتے ہیں؟‏ ہم آپس میں بات کر سکتے ہیں کہ ہم اپنے پیغام کو اَور مؤثر طریقے سے کیسے پیش کر سکتے ہیں۔‏ جس علاقے میں ہم کام کر رہے ہیں،‏ ہمیں وہاں کے لوگوں کے بارے میں ایسی باتیں نہیں کرنی چاہئیں جن سے ہمارے ساتھی کو تاثر ملے کہ یہاں کام کرنا فضول ہے۔‏ اپنے ہم‌ایمانوں پر بھی نکتہ‌چینی نہ کریں جو ہمارے ساتھ بشارت دینے کا کام کرتے ہیں۔‏ (‏امثا ۱۸:‏۲۴‏)‏ ہم سب گنہگار ہیں پھر بھی یہوواہ خدا نے ہمیں خوش‌خبری سنانے کی ذمہ‌داری سونپی ہے۔‏ ایک طرح سے اُس نے بہت بڑا خزانہ مٹی کے برتنوں میں رکھ دیا ہے۔‏ ‏(‏۲-‏کرنتھیوں ۴:‏۱،‏ ۷ کو پڑھیں۔‏)‏ آئیں،‏ ہم اِس خزانے کی دل سے قدر کریں اور بشارت دینے کا کام بخوبی انجام دیں۔‏