مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

کیا آپ ”‏نیک کاموں میں سرگرم“‏ ہیں؟‏

کیا آپ ”‏نیک کاموں میں سرگرم“‏ ہیں؟‏

‏’‏یسوع مسیح نے اپنے آپ کو ہمارے واسطے دے دیا تاکہ ہمیں پاک کرکے اپنی خاص ملکیت کے لئے ایک ایسی اُمت بنائے جو نیک کاموں میں سرگرم ہو۔‏‘‏ —‏طط ۲:‏۱۳،‏ ۱۴‏۔‏

۱،‏ ۲.‏ ‏(‏الف)‏ یہوواہ کے گواہوں کو کون‌سا اعزاز دیا گیا ہے؟‏ (‏ب)‏ آپ اِس اعزاز کے لئے قدر کیسے ظاہر کرتے ہیں؟‏

جب ایک شخص کو کوئی اچھا کام کرنے پر ایوارڈ ملتا ہے تو وہ بہت فخر محسوس کرتا ہے۔‏ مثال کے طور پر بعض لوگوں کو امن کا نوبل انعام ملا ہے کیونکہ اُنہوں نے دُشمن ملکوں میں صلح اور دوستی قائم کرنے میں اہم کردار ادا کِیا۔‏ ایسا شاندار انعام ملنا واقعی بڑے اعزاز کی بات ہے۔‏ لیکن اِس سے بھی کہیں زیادہ فخر اور اعزاز کی بات ہے کہ ہم خدا کے ترجمان کی حیثیت سے کام کریں اور اُس کے دوست بننے میں لوگوں کی مدد کریں۔‏

۲ یہ اعزاز صرف یہوواہ کے گواہوں کو دیا گیا ہے۔‏ ہم خدا اور مسیح کی طرف سے لوگوں کے پاس جاتے ہیں اور اُن سے ”‏مِنت کرتے ہیں کہ [‏وہ]‏ خدا سے میل‌ملاپ“‏ یعنی صلح کریں۔‏ (‏۲-‏کر ۵:‏۲۰‏)‏ یہوواہ خدا ہمارے ذریعے لوگوں کو اپنی طرف کھینچ رہا ہے۔‏ اِس طرح ۲۳۵ سے زیادہ ملکوں میں لاکھوں لوگ خدا کے دوست بن گئے ہیں۔‏ خدا کی قربت میں آنے کی وجہ سے اُنہیں ہمیشہ کی زندگی کی اُمید ملی ہے۔‏ (‏طط ۲:‏۱۱‏)‏ ہم پورے جوش اور جذبے کے ساتھ یہ دعوت دے رہے ہیں کہ ”‏جو پیاسا ہو وہ آئے اور جو کوئی چاہے آبِ‌حیات مُفت لے۔‏“‏ (‏مکا ۲۲:‏۱۷‏)‏ ہم اِس کام کو بہت اہم سمجھتے ہیں اور بڑی لگن سے کرتے ہیں۔‏ اِس لئے ہمیں ”‏ایک ایسی اُمت“‏ کہا جا سکتا ہے جو ”‏نیک کاموں میں سرگرم“‏ ہے۔‏ (‏طط ۲:‏۱۴‏)‏ اِس مضمون میں ہم سیکھیں گے کہ ہم ”‏نیک کاموں میں سرگرم“‏ رہنے سے لوگوں کو خدا کی طرف کیسے کھینچ سکتے ہیں۔‏ آئیں،‏ دیکھیں کہ جوش کے ساتھ مُنادی کا کام کرنے سے ہم ایسا کیسے کر سکتے ہیں۔‏

یہوواہ خدا اور مسیح جیسا جوش ظاہر کریں

۳.‏ یسعیاہ ۹:‏۷ سے یہوواہ خدا کے بارے میں کیا ظاہر ہوتا ہے؟‏ اور اِس سے ہمیں کیا ترغیب ملتی ہے؟‏

۳ یسعیاہ ۹:‏۷ میں بتایا گیا ہے کہ یسوع مسیح اپنی حکمرانی میں انسانوں کو نجات دینے کے لئے بہت کچھ کریں گے۔‏ اُن کا ہر کام ”‏[‏یہوواہ]‏ کی غیوری“‏ کی بدولت ہوگا۔‏ اِس آیت میں جس عبرانی لفظ کا ترجمہ ”‏غیوری“‏ کِیا گیا ہے،‏ وہ جوش اور شدید خواہش کے معنی بھی رکھتا ہے۔‏ اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ خدا،‏ انسانوں کو نجات دینے کی شدید خواہش رکھتا ہے۔‏ وہ ابھی سے بڑے جوش کے ساتھ اپنا مقصد پورا کر رہا ہے۔‏ اِس سے ہمیں ترغیب ملتی ہے کہ ہم بادشاہت کی مُنادی کا کام پوری لگن اور جوش سے کریں۔‏ ”‏خدا کے ساتھ کام کرنے“‏ والوں کے طور پر کیا ہم نے یہ عزم کِیا ہے کہ ہم مُنادی کے کام میں حصہ لینے کی بھرپور کوشش کریں گے؟‏—‏۱-‏کر ۳:‏۹‏۔‏

۴.‏ یسوع مسیح نے جوش کے ساتھ مُنادی کا کام کرنے کے سلسلے میں ایک عمدہ مثال کیسے قائم کی؟‏

۴ یسوع مسیح نے جوش کے ساتھ مُنادی کا کام کرنے کے سلسلے میں ایک عمدہ مثال قائم کی۔‏ حالانکہ لوگوں نے اُن کی سخت مخالفت کی پھر بھی زندگی کے آخری لمحوں تک مُنادی کے کام کے لئے اُن کا جوش برقرار رہا۔‏ (‏یوح ۱۸:‏۳۶،‏ ۳۷‏)‏ جیسےجیسے اُن کی موت کا وقت قریب آتا گیا،‏ اُن کا یہ عزم مضبوط ہوتا گیا کہ وہ خدا کو جاننے میں لوگوں کی مدد کرتے رہیں گے۔‏

۵.‏ یسوع مسیح کس لحاظ سے اُس باغبان کی طرح تھے جس کا اُنہوں نے انجیر کے درخت کی تمثیل میں ذکر کِیا؟‏

۵ یسوع مسیح نے ۳۲ء میں تمثیل دی کہ ایک آدمی نے ”‏اپنے تاکستان میں ایک انجیر کا درخت لگایا۔‏“‏ اِس درخت میں تین سال تک پھل نہ لگا۔‏ اُس آدمی نے باغبان سے کہا کہ وہ اِس درخت کو کاٹ دے۔‏ مگر باغبان نے کہا کہ اِسے کچھ وقت کے لئے رہنے دیا جائے تاکہ وہ اِس کے گِرد کھاد ڈالے۔‏ شاید اِس میں پھل لگ جائے۔‏ ‏(‏لوقا ۱۳:‏۶-‏۹ کو پڑھیں۔‏)‏ جب یسوع مسیح نے یہ تمثیل پیش کی تو اُس وقت تک تھوڑے سے لوگ ہی اُن کے شاگرد بنے تھے۔‏ لیکن اِس تمثیل سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ زمین پر اپنے باقی وقت کے دوران مُنادی کا کام اَور بھی تیز کرنا چاہتے تھے۔‏ اُنہوں نے اپنی زندگی کے آخری چھ مہینوں میں یہودیہ اور پیریہ کے علاقوں میں زورشور سے مُنادی کا کام کِیا۔‏ اپنی موت سے تھوڑا پہلے یسوع مسیح نے اُن یہودیوں پر بڑے دُکھ کا اِظہار کِیا جنہوں نے اُن کے پیغام کو رد کر دیا تھا۔‏—‏متی ۱۳:‏۱۵؛‏ لو ۱۹:‏۴۱‏۔‏

۶.‏ ہمیں مُنادی کا کام پہلے سے بھی زیادہ جوش کے ساتھ کیوں کرنا چاہئے؟‏

۶ اِس دُنیا کا خاتمہ نزدیک آ گیا ہے۔‏ اِس لئے یہ اشد ضروری ہے کہ ہم بھی مُنادی کا کام پہلے سے تیز کر دیں۔‏ ‏(‏دانی‌ایل ۲:‏۴۱-‏۴۵ کو پڑھیں۔‏)‏ یہوواہ کے گواہ ہونا واقعی بڑے اعزاز کی بات ہے۔‏ پوری دُنیا میں صرف ہم ہی لوگوں کو بتا سکتے ہیں کہ اِس دُنیا کے مسائل کیسے حل ہوں گے۔‏ حال ہی میں ایک اخبار میں ایک مصنف نے کہا کہ ہم اکثر یہ سوچتے ہیں کہ ”‏نیک لوگوں پر مصیبتیں کیوں آتی ہیں؟‏ لیکن اِس سوال کا جواب کسی کے پاس نہیں۔‏“‏ لوگوں کو ایسے سوالوں کے جواب بائبل سے دینا ہمارا فرض بھی ہے اور شرف بھی۔‏ ایسا کرتے وقت ہمیں ”‏روحانی جوش میں بھرے“‏ ہونا چاہئے۔‏ (‏روم ۱۲:‏۱۱‏)‏ اگر ہم جوش کے ساتھ مُنادی کا کام کریں گے تو خدا ہمیں برکت دے گا اور اُس کے دوست بننے میں ہم لوگوں کی مدد کر سکیں گے۔‏

قربانی کا جذبہ خدا کی بڑائی کا باعث بنتا ہے

۷،‏ ۸.‏ جب ہم مُنادی کے کام کی خاطر قربانیاں دینے کے لئے تیار رہتے ہیں تو یہوواہ خدا کی بڑائی کیسے ہوتی ہے؟‏

۷ پولس رسول کو مُنادی کے کام کی خاطر کبھی‌کبھار بھوکے رہنا پڑا اور جاگ کر راتیں کاٹنی پڑیں۔‏ آج‌کل بھی بعض بہن‌بھائیوں کو اِس کام کی خاطر قربانیاں دینی پڑتی ہیں۔‏ (‏۲-‏کر ۶:‏۵‏)‏ ہمارے بہت سے پہل‌کاروں کو اپنی ضروریات پوری کرنے کے لئے سخت محنت کرنی پڑتی ہے۔‏ پھر بھی مُنادی کا کام اُن کی زندگی میں سب سے اہم ہے۔‏ بعض بہن‌بھائی دوسرے ملکوں میں جا کر خدمت کرتے ہیں اور لوگوں کو خدا کے قریب لانے کے لئے بہت محنت کرتے ہیں۔‏ (‏فل ۲:‏۱۷‏)‏ کلیسیا کے بزرگ خدا کے گلّے کی نگہبانی کرنے کے لئے دن‌رات ایک کر دیتے ہیں۔‏ کبھی‌کبھار اُنہیں کھانا تک کھانے کا وقت نہیں ملتا اور بعض اوقات وہ رات گئے تک کام کرتے رہتے ہیں۔‏ ایسے بہن‌بھائی بھی ہیں جو خراب صحت یا بڑھاپے کے باوجود اجلاسوں میں جانے اور مُنادی کے کام میں حصہ لینے کے لئے سخت کوشش کرتے ہیں۔‏ اِن تمام بہن‌بھائیوں کی کوششوں اور قربانیوں کو دیکھ کر نہ صرف ہمیں حوصلہ ملتا ہے بلکہ دوسروں پر بھی گہرا اثر ہوتا ہے۔‏

۸ برطانیہ میں ایک شخص نے ایک اخبار کو خط لکھا جس میں اُس نے کہا:‏ ”‏لوگوں کا مذہب پر سے اعتماد اُٹھتا جا رہا ہے۔‏ .‏ .‏ .‏ چرچ کے رہنما ساراسارا دن کیا کرتے رہتے ہیں؟‏ یقیناً وہ لوگوں کے گھر جا کر اُنہیں تعلیم نہیں دیتے جیسے مسیح کرتا تھا۔‏ .‏ .‏ .‏ صرف یہوواہ کے گواہ لوگوں سے محبت کرتے ہیں۔‏ وہی گھرگھر جاتے ہیں اور لوگوں کو سچی تعلیم دیتے ہیں۔‏“‏ اِس خودغرض دُنیا میں ہم دوسروں کی مدد کرنے کی خاطر قربانیاں دینے کے لئے تیار رہتے ہیں۔‏ ہمارا یہ جذبہ یہوواہ خدا کی بڑائی کا باعث بنتا ہے۔‏—‏روم ۱۲:‏۱‏۔‏

جب لوگ ہمیں مُنادی کا کام کرتے ہوئے دیکھتے ہیں تو وہ ہمارے کام کے متعلق سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔‏

۹.‏ ہم مُنادی کے کام کے لئے اپنا جوش کیسے قائم رکھ سکتے ہیں؟‏

۹ اگر ہمیں لگتا ہے کہ مُنادی کے کام کے لئے ہمارا جوش ٹھنڈا پڑ رہا ہے تو ہم کیا کر سکتے ہیں؟‏ ہم اِس بات پر غور کر سکتے ہیں کہ آخر یہوواہ خدا یہ کام کیوں کروا رہا ہے۔‏ ‏(‏رومیوں ۱۰:‏۱۳-‏۱۵ کو پڑھیں۔‏)‏ نجات صرف اُنہی لوگوں کو ملے گی جو یہوواہ خدا پر ایمان لائیں گے اور اُس کا نام لیں گے۔‏ لیکن اگر ہم مُنادی کا کام ہی نہیں کریں گے تو لوگ خدا کو کیسے جانیں گے؟‏ اِس بات کے پیشِ‌نظر ہماری یہ دلی خواہش ہونی چاہئے کہ ہم ”‏نیک کاموں میں سرگرم“‏ رہیں اور بادشاہت کی خوش‌خبری سنانے میں بڑھ‌چڑھ کر حصہ لیں۔‏

ہمارا نیک چال‌چلن دیکھ کر لوگ سچائی قبول کرتے ہیں

ہماری محنت اور دیانت‌داری دوسروں سے چھپتی نہیں۔‏

۱۰.‏ ہمارا نیک چال‌چلن لوگوں کو خدا کے قریب لانے کے سلسلے میں کیا اہمیت رکھتا ہے؟‏

۱۰ جوش سے مُنادی کا کام کرنے کے ساتھ‌ساتھ ہم اپنا چال‌چلن نیک رکھنے سے بھی لوگوں کو یہوواہ خدا کی طرف کھینچ سکتے ہیں۔‏ پولس رسول نے اچھے چال‌چلن کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا:‏ ”‏ہم کسی بات میں ٹھوکر کھانے کا کوئی موقع نہیں دیتے تاکہ ہماری خدمت پر حرف نہ آئے۔‏“‏ (‏۲-‏کر ۶:‏۳‏)‏ ہماری اچھی بات‌چیت اور ہمارے اچھے کاموں سے ہماری تعلیم اَور بھی پُرکشش ہو جاتی ہے جس کی وجہ سے لوگ یہوواہ خدا کی طرف کھنچے چلے آتے ہیں۔‏ (‏طط ۲:‏۱۰‏)‏ اکثر ہم ایسے لوگوں کے بارے میں سنتے ہیں جنہوں نے ہمارا نیک چال‌چلن دیکھ کر سچائی کو قبول کِیا۔‏

۱۱.‏ ہمیں اِس بات پر کیوں غور کرنا چاہئے کہ ہمارے چال‌چلن کا دوسروں پر کیا اثر پڑتا ہے؟‏

۱۱ جس طرح ہمارا اچھا چال‌چلن لوگوں کو خدا کے قریب لا سکتا ہے اُسی طرح ہمارا بُرا چال‌چلن لوگوں کو خدا سے دُور کر سکتا ہے۔‏ لہٰذا چاہے ہم گھر پر ہوں،‏ سکول میں ہوں یا ملازمت کی جگہ پر ہوں،‏ ہمیں کسی کو بھی اپنی خدمت اور چال‌چلن پر اُنگلی اُٹھانے کا موقع نہیں دینا چاہئے۔‏ اگر ہم جان‌بُوجھ کر گُناہ کرتے ہیں تو ہم خدا کی قربت سے محروم ہو جائیں گے۔‏ (‏عبر ۱۰:‏۲۶،‏ ۲۷‏)‏ لہٰذا اپنے چال‌چلن پر سنجیدگی سے غور کریں اور یہ دیکھیں کہ اِس کا دوسروں پر کیا اثر پڑ رہا ہے۔‏ جیسےجیسے اِس دُنیا میں بدکاری بڑھ رہی ہے،‏ لوگوں کے لئے ”‏خدا کی عبادت کرنے والے اور نہ کرنے والے میں امتیاز“‏ کرنا آسان ہوتا جا رہا ہے۔‏ (‏ملا ۳:‏۱۸‏)‏ واقعی لوگوں کو خدا کے قریب لانے کے لئے ضروری ہے کہ ہمارا اپنا چال‌چلن نیک ہو۔‏

۱۲-‏۱۴.‏ جب ہم مخالفت کے باوجود اپنے ایمان پر قائم رہتے ہیں تو دوسروں کو کیا کرنے کی ترغیب ملتی ہے؟‏ مثال دیں۔‏

۱۲ پولس رسول نے کرنتھیوں کے نام خط میں بتایا کہ اُنہوں نے مصیبتیں اُٹھائیں،‏ تنگی میں وقت گزارا،‏ کوڑے کھائے اور اُنہیں قید میں بھی ڈالا گیا۔‏ ‏(‏۲-‏کرنتھیوں ۶:‏۴،‏ ۵ کو پڑھیں۔‏)‏ جب ہم مشکل وقت میں اپنے ایمان پر قائم رہتے ہیں تو لوگ اِس سے متاثر ہوتے ہیں اور اُنہیں سچائی کو قبول کرنے کی ترغیب ملتی ہے۔‏ اِس سلسلے میں ملک انگولا سے ایک مثال پر غور کریں۔‏ کچھ سال پہلے انگولا کے ایک علاقے میں یہوواہ کے گواہوں کا نام‌ونشان مٹانے کی کوشش کی گئی۔‏ مخالفین نے دو یہوواہ کے گواہوں اور اجلاسوں میں آنے والے ۳۰ اَور لوگوں کو زبردستی ایک جگہ پر جمع کِیا۔‏ پھر اُنہوں نے علاقے کے دوسرے لوگوں کو بھی اِکٹھا کِیا اور اُن کے سامنے اِن ۳۲ معصوم لوگوں کو مارمار کر لہولہان کر دیا۔‏ اِن ظالموں کو عورتوں اور بچوں پر بھی رحم نہ آیا۔‏ وہ دراصل اِس علاقے میں دہشت پھیلانا چاہتے تھے تاکہ کوئی بھی یہوواہ کے گواہوں کا پیغام نہ سنے۔‏ لیکن اِس واقعے کے بعد بہت سے لوگوں نے یہوواہ کے گواہوں سے درخواست کی کہ وہ اُنہیں بائبل سے تعلیم دیں۔‏ اُس وقت سے اِس علاقے میں مُنادی کے کام کو فروغ ملا ہے اور بہت سے لوگوں نے سچائی قبول کی ہے۔‏

۱۳ اِس واقعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ جب ہم پاک کلام کے اصولوں پر ڈٹے رہتے ہیں تو دوسروں پر اِس کا اچھا اثر ہوتا ہے۔‏ پہلی صدی میں پطرس اور دیگر رسولوں کی دلیری کی وجہ سے بِلاشُبہ بہت سے لوگوں کو خدا کے دوست بننے کی ترغیب ملی۔‏ (‏اعما ۵:‏۱۷-‏۲۹‏)‏ جب ہم بھی مخالفت کے باوجود اپنے ایمان پر قائم رہتے ہیں تو شاید ہمارے گھر والوں،‏ ہمارے ساتھ کام کرنے والوں یا ہمارے ساتھ سکول میں پڑھنے والوں کو سچائی قبول کرنے کی ترغیب ملے۔‏

۱۴ آج دُنیا کے کچھ ملکوں میں یہوواہ کے گواہ اذیت اُٹھا رہے ہیں۔‏ مثال کے طور پر آرمینیا میں اِس وقت تقریباً ۴۰ بھائی قید میں ہیں کیونکہ اُنہوں نے فوج میں بھرتی ہونے سے انکار کِیا تھا۔‏ اور لگتا ہے کہ آئندہ مہینوں میں وہاں ہمارے کئی اَور بھائیوں کو قید کِیا جائے گا۔‏ ایریٹریا میں ۵۵ یہوواہ کے گواہ قید ہیں جن میں سے بعض کی عمر ۶۰ سال سے زیادہ ہے۔‏ جنوبی کوریا میں تقریباً ۷۰۰ گواہ اپنے ایمان کی وجہ سے جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہیں۔‏ وہاں پچھلے ۶۰ سال سے ایسا ہو رہا ہے۔‏ ہماری دُعا ہونی چاہئے کہ ہمارے جو بہن‌بھائی ”‏انسان کا غضب“‏ سہہ رہے ہیں،‏ اُن کی وفاداری خدا کی بڑائی کا باعث بنے اور لوگوں کو اُس کی خدمت کرنے کی ترغیب ملے۔‏—‏زبور ۷۶:‏۸-‏۱۰‏۔‏

۱۵.‏ مثال سے واضح کریں کہ ہماری دیانت‌داری کا لوگوں پر کیا اثر پڑتا ہے۔‏

۱۵ لوگ ہماری دیانت‌داری سے متاثر ہو کر بھی سچائی قبول کرنے کی طرف مائل ہو جاتے ہیں۔‏ ‏(‏عبرانیوں ۱۳:‏۱۸ کو پڑھیں۔‏)‏ اِس سلسلے میں ایک واقعے پر غور کریں۔‏ ہماری ایک بہن ایک بس پر چڑھی جس میں ٹکٹ مشین لگی ہوئی تھی۔‏ جب وہ ٹکٹ لینے کے لئے اُس مشین میں پیسے ڈالنے لگی تو اُس کی سہیلی نے کہا کہ ”‏تمہیں ٹکٹ لینے کی ضرورت نہیں،‏ تُم نے تو ایک سٹاپ ہی آگے جانا ہے۔‏“‏ اُس بہن نے کہا:‏ ”‏ایک سٹاپ کے لئے بھی ٹکٹ لینی چاہئے۔‏“‏ جب اُس بہن کی سہیلی بس سے اُتر گئی تو بس ڈرائیور نے بہن سے پوچھا:‏ ”‏کیا آپ یہوواہ کی گواہ ہیں؟‏“‏ بہن نے کہا ”‏جی‌ہاں۔‏“‏ پھر بہن نے ڈرائیور سے پوچھا کہ ”‏آپ مجھ سے یہ کیوں پوچھ رہے ہیں؟‏“‏ اُس نے کہا ”‏مَیں ٹکٹ لینے کے بارے میں آپ کی اور آپ کی سہیلی کی باتیں سُن رہا تھا۔‏ مجھے معلوم ہے کہ یہوواہ کے گواہ بڑے دیانت‌دار لوگ ہیں اور ہمیشہ ٹکٹ لے کر سفر کرتے ہیں۔‏“‏ اِس کے کچھ مہینے بعد ایک اجلاس پر ایک آدمی نے اُس بہن کے پاس آکر کہا:‏ ”‏کیا آپ نے مجھے پہچانا؟‏ مَیں وہی بس ڈرائیور ہوں جس نے ٹکٹ لینے کے سلسلے میں آپ کی تعریف کی تھی۔‏ آپ کی دیانت‌داری سے متاثر ہو کر مَیں نے یہوواہ کے گواہوں کے ساتھ بائبل کا مطالعہ کرنا شروع کر دیا۔‏“‏ واقعی ہماری دیانت‌داری دیکھ کر لوگ ہمارے پیغام پر بھی بھروسا کرتے ہیں۔‏

ہماری خوبیاں خدا کی بڑائی کا باعث بنتی ہیں

۱۶.‏ ‏(‏الف)‏ ہمیں محبت،‏ مہربانی اور تحمل سے کام کیوں لینا چاہئے؟‏ (‏ب)‏ بعض مذہبی رہنما کیا کرتے ہیں؟‏

۱۶ ہم محبت،‏ مہربانی اور تحمل جیسی خوبیاں ظاہر کرنے سے بھی لوگوں کو خدا کی طرف کھینچ سکتے ہیں۔‏ بعض لوگ ہماری اِن خوبیوں سے متاثر ہو کر یہوواہ خدا،‏ اُس کے مقصد اور اُس کے بندوں کے متعلق جاننا چاہتے ہیں۔‏ لیکن بہت سے مذہبی رہنما ایسی خوبیاں ظاہر نہیں کرتے۔‏ وہ نیک ہونے کا محض ڈھونگ کرتے ہیں۔‏ اصل میں وہ لوگوں کو دھوکا دے کر اُن سے پیسے ہتھیانا چاہتے ہیں۔‏ بعض رہنما اِس پیسے سے عالیشان گھر اور گاڑیاں خریدتے ہیں۔‏ ایک مذہبی رہنما نے تو اپنے کتّے کے لئے ایک گھر بنوایا جس میں ائیرکنڈیشن لگا ہوا تھا۔‏ ایسے لوگ،‏ مسیح کے پیروکار ہونے کا دعویٰ تو کرتے ہیں مگر وہ اُن کے اِس حکم پر عمل نہیں کرتے کہ ”‏تُم نے مُفت پایا مُفت دینا۔‏“‏ (‏متی ۱۰:‏۸‏)‏ اِس کی بجائے وہ بنی‌اسرائیل کے خودغرض کاہنوں کی طرح ”‏اُجرت لے کر تعلیم دیتے ہیں۔‏“‏ اور جو تعلیم وہ دیتے ہیں،‏ وہ پاک کلام کے مطابق بھی نہیں ہوتی۔‏ (‏میک ۳:‏۱۱‏)‏ ایسے بُرے چال‌چلن کو دیکھ کر بھلا کون خدا کے قریب آنا چاہے گا۔‏

۱۷،‏ ۱۸.‏ ‏(‏الف)‏ جب ہم یہوواہ خدا جیسی خوبیاں ظاہر کرتے ہیں تو اِس کا کیا نتیجہ نکل سکتا ہے؟‏ (‏ب)‏ آپ ”‏نیک کاموں میں سرگرم“‏ کیوں رہنا چاہتے ہیں؟‏

۱۷ جب ہم لوگوں کو سچی تعلیم دیتے ہیں اور اُن کے کام آتے ہیں تو یہ بات اُن کے دل کو چُھو لیتی ہے۔‏ اِس سلسلے میں ایک واقعے پر غور کریں۔‏ ایک پہل‌کار نے مُنادی کے کام کے دوران ایک دروازے کی گھنٹی بجائی۔‏ اندر سے ایک بوڑھی عورت نکلی اور کہنے لگی کہ میرے پاس بات کرنے کا وقت نہیں ہے۔‏ اُس نے بتایا کہ ”‏جب تُم نے گھنٹی بجائی تو مَیں اپنے باورچی‌خانے میں سیڑھی پر چڑھ کر بلب بدلنے کی کوشش کر رہی تھی۔‏“‏ اُس پہل‌کار نے کہا:‏ ”‏آپ کو اکیلے ایسا کام نہیں کرنا چاہئے۔‏ یہ آپ کے لئے خطرناک ہو سکتا ہے۔‏“‏ پھر اُس پہل‌کار نے بلب بدلا اور چلا گیا۔‏ جب اِس عورت کے بیٹے کو اِس کے بارے میں پتہ چلا تو وہ بہت متاثر ہوا۔‏ اُس نے پہل‌کار کو ڈھونڈنے کی کوشش کی تاکہ وہ اُس پہل‌کار کا شکریہ ادا کرے۔‏ آخرکار اُس عورت کا بیٹا،‏ یہوواہ کے گواہوں کے ساتھ بائبل کا مطالعہ کرنے لگا۔‏

۱۸ آپ کیوں ”‏نیک کاموں میں سرگرم“‏ رہنا چاہتے ہیں؟‏ اِس لئے کہ جو ش کے ساتھ مُنادی کا کام کرنے اور اپنا چال‌چلن نیک رکھنے سے آپ یہوواہ خدا کی بڑائی کا باعث بن سکتے ہیں اور دوسروں کو اُس کے قریب لا سکتے ہیں۔‏ ‏(‏۱-‏کرنتھیوں ۱۰:‏۳۱-‏۳۳ کو پڑھیں۔‏)‏ اِس کے علاوہ آپ یہ بھی ظاہر کرتے ہیں کہ آپ کو خدا اور پڑوسی سے محبت ہے۔‏ (‏متی ۲۲:‏۳۷-‏۳۹‏)‏ واقعی ”‏نیک کاموں میں سرگرم“‏ رہنے سے ہمیں خوشی اور اطمینان ملتا ہے۔‏ اور مستقبل میں ہمیں وہ وقت دیکھنے کا موقع بھی ملے گا جب تمام انسان اپنے خالق یہوواہ خدا کی عبادت پورے جوش‌وخروش سے کریں گے۔‏