مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

ماں‌باپ اور بچے آپس میں پیار سے بات کریں

ماں‌باپ اور بچے آپس میں پیار سے بات کریں

‏”‏ہر آدمی سننے میں تیز اور بولنے میں دھیرا اور قہر میں دھیما ہو۔‏“‏ —‏یعقو ۱:‏۱۹‏۔‏

۱،‏ ۲.‏ ‏(‏الف)‏ ماں‌باپ اور بچے اکثر ایک دوسرے کے لئے کیسا محسوس کرتے ہیں؟‏ (‏ب)‏ بعض اوقات والدین اور بچوں کو کس مشکل کا سامنا ہوتا ہے؟‏

‏”‏اگر آپ کو کسی طرح یہ پتہ چل جائے کہ کل آپ کے امی‌ابو مر جائیں گے تو آپ آج اُن سے کیا کہنا چاہیں گے؟‏“‏ یہ سوال ریاستہائےمتحدہ میں سینکڑوں بچوں سے پوچھا گیا۔‏ تقریباً ۹۵ فیصد بچوں نے کہا کہ ”‏ہم اپنے ماں‌باپ سے اپنی غلطیوں کی معافی مانگنا چاہیں گے اور اُنہیں یہ بتانا چاہیں گے کہ ہم اُن سے بہت پیار کرتے ہیں۔‏“‏ اِس سروے کے دوران زیادہ‌تر بچوں نے یہ نہیں کہا کہ وہ اپنے ماں‌باپ کے ساتھ کسی ناراضگی یا اختلاف کے بارے میں بات کرنا چاہیں گے۔‏—‏شونتی فیلڈھن اور لیسا رائس کی کتاب صرف والدین کے لئے۔‏

۲ ویسے تو ہر ماں‌باپ اپنے بچوں سے اور بچے اپنے ماں‌باپ سے پیار کرتے ہیں۔‏ خاص طور پر مسیحی گھرانوں میں رشتوں کی زنجیر محبت سے بندھی ہوتی ہے۔‏ اِس کے باوجود بعض اوقات والدین اور بچے ایک دوسرے کو اپنے احساسات اور خیالات کے متعلق بتانا مشکل پاتے ہیں۔‏ کچھ گھرانوں میں اگرچہ ماں‌باپ اور بچوں میں دوستانہ تعلقات ہوتے ہیں پھر بھی وہ بعض موضوعات پر بات کرنے سے جھجکتے ہیں۔‏ ایسا کیوں ہوتا ہے؟‏ والدین اور بچوں کے درمیان بات‌چیت میں کون‌سی رکاوٹیں حائل ہو سکتی ہیں؟‏ اِن رُکاوٹوں کو دُور کیسے کِیا جا سکتا ہے؟‏

والدین اور بچے کسی بھی وجہ سے آپس میں بات‌چیت کا سلسلہ رُکنے نہ دیں۔‏

بات‌چیت کرنے کے لئے وقت نکالیں

۳.‏ ‏(‏الف)‏ بہت سے گھرانوں میں مل بیٹھ کر بات‌چیت کرنا ایک مسئلہ کیوں ہے؟‏ (‏ب)‏ بنی‌اسرائیل کے زمانے میں والدین اور بچوں کے لئے اِکٹھے وقت گزارنا مشکل کیوں نہیں تھا؟‏

۳ بہت سے گھرانوں میں والدین اور بچوں کو مل بیٹھ کر بات‌چیت کرنے کے لئے وقت نکالنا مشکل لگتا ہے۔‏ مگر ہمیشہ سے ایسا نہیں تھا۔‏ موسیٰ نبی نے اسرائیلی والدوں کو ہدایت کی:‏ ”‏تُو [‏خدا کی باتوں]‏ کو اپنی اولاد کے ذہن‌نشین کرنا اور گھر بیٹھے اور راہ چلتے اور لیٹتے اور اُٹھتے وقت اِن کا ذکر کِیا کرنا۔‏“‏ (‏است ۶:‏۶،‏ ۷‏)‏ بچے یا تو اپنی ماں کے ساتھ گھر پر رہتے تھے یا پھر اپنے باپ کے ساتھ اُس کے کام کی جگہ پر ہوتے تھے۔‏ ماں‌باپ اور بچوں کے پاس ایک دوسرے کے ساتھ بات‌چیت کرنے کے لئے بہت وقت ہوتا تھا۔‏ یوں والدین کو اپنے بچوں کی سوچ،‏ ضروریات اور شخصیت کو اچھی طرح سمجھنے کا موقع ملتا تھا اور بچے بھی اپنے ماں‌باپ کو قریب سے جان سکتے تھے۔‏

۴.‏ آج‌کل بہت سے ماں‌باپ اور بچے مل بیٹھ کر بات‌چیت کیوں نہیں کر پاتے؟‏

۴ آج‌کل زمانہ بہت بدل گیا ہے۔‏ بعض ملکوں میں تو بچے دو ڈھائی سال کی عمر میں ہی سکول جانے لگتے ہیں۔‏ بہت سے ماں‌باپ ملازمت کی خاطر ساراسارا دن گھر سے باہر رہتے ہیں۔‏ بچوں اور والدین کو جو تھوڑا بہت وقت ملتا ہے،‏ وہ آپس میں بات‌چیت کرنے کی بجائے اکثر موبائل،‏ کمپیوٹر یا ٹیلی‌ویژن کی نذر ہو جاتا ہے۔‏ زیادہ‌تر والدین اور بچے اپنی‌اپنی زندگی میں مگن رہتے ہیں۔‏ یوں وہ ایک گھر میں رہتے ہوئے بھی ایک دوسرے سے اجنبی ہوتے ہیں۔‏ ایسی صورت میں اُن کے درمیان مؤثر بات‌چیت کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔‏

۵،‏ ۶.‏ بعض والدین نے اپنے بچوں کے ساتھ پہلے سے زیادہ وقت گزارنے کے لئے کیا کِیا ہے؟‏

۵ آپ اپنے گھر والوں کے ساتھ پہلے سے زیادہ وقت گزارنے کے لئے کیا کر سکتے ہیں؟‏ شاید آپ اپنے دوسرے کاموں سے وقت بچا سکتے ہیں۔‏ ‏(‏افسیوں ۵:‏۱۵،‏ ۱۶ کو پڑھیں۔‏)‏ بعض مسیحی گھرانوں نے یہ فیصلہ کِیا ہے کہ وہ ٹی‌وی دیکھنے اور کمپیوٹر استعمال کرنے میں پہلے سے کم وقت صرف کریں گے۔‏ کچھ گھرانے کوشش کرتے ہیں کہ وہ دن میں کم‌ازکم ایک بار اِکٹھے کھانا کھائیں۔‏ خاندانی عبادت ایک اچھا موقع ہے جب ایک مسیحی گھرانہ ہر ہفتے اِکٹھے وقت گزار سکتا ہے اور آپس میں مؤثر بات‌چیت کر سکتا ہے۔‏ لیکن اپنے رشتے کو مضبوط بنانے کے لئے ضروری ہے کہ والدین اور بچے ہفتے میں ایک بار نہیں بلکہ ہر روز کچھ وقت ساتھ گزاریں اور آپس میں بات‌چیت کریں۔‏ بچوں کے سکول جانے سے پہلے اُن سے کوئی ایسی بات کہیں جس سے اُن کی حوصلہ‌افزائی ہو،‏ اُن کے ساتھ روزانہ کی آیت پر بات‌چیت کریں،‏ یا پھر اُن کے ساتھ دُعا کریں۔‏ یوں بچے دن کے دوران آنے والی مختلف صورتحال سے نپٹنے کے لئے تیار ہوں گے۔‏

۶ بعض والدین نے اپنے طرزِزندگی کو بدلا ہے تاکہ وہ اپنے بچوں کے ساتھ زیادہ وقت گزار سکیں۔‏ مثال کے طور پر دو بچوں کی ماں لورا * نے اپنی ملازمت چھوڑ دی۔‏ وہ کہتی ہیں:‏ ”‏صبح‌صبح ہمارے گھر میں بھاگم‌دوڑ مچی ہوتی تھی۔‏ بچوں کو سکول جانے کی جلدی ہوتی تھی اور ہمیں اپنے کام پر جانے کی۔‏ جب مَیں شام کو گھر آتی تو بچوں کی آیا اُنہیں سلا چکی ہوتی تھی۔‏ نوکری چھوڑنے کی وجہ سے ہمیں گھر کے خرچے پورے کرنے میں دقت تو ہوتی ہے مگر اب مَیں اپنے بچوں کے ساتھ زیادہ وقت گزار سکتی ہوں۔‏ مَیں اُن کی سوچ اور مسئلوں سے اچھی طرح واقف ہو گئی ہوں۔‏ اب میرے پاس اِتنا وقت ہے کہ مَیں اُن کے سونے سے پہلے اُن کے ساتھ بیٹھتی ہوں اور جب وہ دُعا کرتے ہیں تو مَیں سنتی ہوں۔‏ اِس طرح مَیں اُنہیں اچھے مشورے دے پاتی ہوں اور اچھی طرح اُن کی تعلیم‌وتربیت کر سکتی ہوں۔‏“‏

‏’‏سننے میں تیز بنیں‘‏

۷.‏ والدین اور بچوں کو اکثر ایک دوسرے سے کیا شکایت رہتی ہے؟‏

۷ جس کتاب کا پہلے پیراگراف میں حوالہ دیا گیا ہے،‏ اُس کو لکھنے والی دو عورتوں نے بہت سے نوجوانوں کا انٹرویو لیا۔‏ اُن کے سامنے ایک اَور مسئلہ آیا جو والدین اور بچوں کے درمیان بات‌چیت میں رُکاوٹ بنتا ہے۔‏ اُنہوں نے لکھا:‏ ”‏بچوں کو اپنے والدین سے اکثر یہ شکایت ہوتی ہے کہ والدین اُن کی بات نہیں سنتے۔‏“‏ دوسری طرف والدین کو بھی یہی شکایت رہتی ہے۔‏ بات‌چیت کا سلسلہ جاری رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ ماں‌باپ اور بچے ایک دوسرے کی بات سنیں اور اُس پر دھیان دیں۔‏‏—‏یعقوب ۱:‏۱۹ کو پڑھیں۔‏

۸.‏ بچوں کی بات سننے میں کیا کچھ شامل ہے؟‏

۸ اگر آپ کے بچے ہیں تو ذرا سوچیں کہ کیا آپ اُن کی بات دھیان سے سنتے ہیں؟‏ ایسا کرنا آپ کے لئے مشکل ہو سکتا ہے،‏ خاص طور پر اُس وقت جب آپ تھکے ہوئے ہیں یا پھر آپ کی نظر میں بچے کی بات اہم نہیں ہے۔‏ لیکن جو بات آپ کو معمولی لگتی ہے،‏ شاید آپ کے بچے کے لئے بہت اہم ہے۔‏ ”‏سننے میں تیز“‏ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ آپ نہ صرف بچے کی بات سنیں بلکہ اُس کے بات کرنے کے انداز پر بھی غور کریں۔‏ بچے کے لہجے اور چہرے کے تاثرات سے آپ کسی معاملے کے بارے میں اُس کی سوچ اور احساسات کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔‏ آپ اُس کے دل کی بات جاننے کے لئے کچھ سوال بھی پوچھ سکتے ہیں۔‏ بائبل میں لکھا ہے:‏ ”‏آدمی کے دل کی بات گہرے پانی کی مانند ہے لیکن صاحبِ‌فہم آدمی اُسے کھینچ نکالے گا۔‏“‏ (‏امثا ۲۰:‏۵‏)‏ لہٰذا والدین کو حکمت اور فہم سے کام لینا چاہئے،‏ خاص طور پر اُس وقت جب وہ کسی ایسے موضوع پر بات کرتے ہیں جس کے متعلق بات کرنے میں بچے شرم محسوس کرتے ہیں۔‏

۹.‏ بچوں کو اپنے امی‌ابو کی بات کیوں ماننی چاہئے؟‏

۹ عزیز بچو!‏ کیا آپ اپنے امی‌ابو کا کہنا مانتے ہیں؟‏ خدا اپنے کلام میں نصیحت کرتا ہے:‏ ”‏اَے میرے بیٹے!‏ اپنے باپ کی تربیت پر کان لگا اور اپنی ماں کی تعلیم کو ترک نہ کر۔‏“‏ (‏امثا ۱:‏۸‏)‏ چونکہ آپ کے ماں‌باپ آپ کی بھلائی چاہتے ہیں اور دل سے آپ کو پیار کرتے ہیں اِس لئے آپ کو اُن کی بات ماننی چاہئے۔‏ (‏افس ۶:‏۱‏)‏ آپ کو اُن کا حکم ماننا مشکل نہیں لگے گا اگر آپ کو یقین ہے کہ آپ کے امی‌ابو آپ سے پیار کرتے ہیں اور آپ کے درمیان بات‌چیت میں کوئی رُکاوٹ نہیں ہے۔‏ لہٰذا اُن کو بِلاجھجک اپنے دل کی بات بتائیں۔‏ یوں وہ آپ کو اچھی طرح سمجھ پائیں گے۔‏ اور یقیناً آپ کو بھی اُنہیں اچھی طرح سمجھنے کی کوشش کرنی چاہئے۔‏

۱۰.‏ ہم رحبعام کی مثال سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟‏

۱۰ جب آپ کے دوست آپ کو کوئی مشورہ دیتے ہیں تو اُس پر آنکھیں بند کرکے عمل نہ کریں۔‏ شاید وہ آپ کو آپ کی پسند کا مشورہ دیں۔‏ لیکن ہو سکتا ہے کہ آپ کو اِس سے کوئی فائدہ نہ ہو۔‏ جتنی سمجھ‌بوجھ اور تجربہ بڑوں کے پاس ہوتا ہے اُتنا نوجوانوں کے پاس نہیں ہوتا۔‏ اِس لئے وہ اندازہ نہیں لگا سکتے کہ فلاں کام کا انجام کیا ہوگا۔‏ اِس سلسلے میں سلیمان بادشاہ کے بیٹے رحبعام کی مثال پر غور کریں۔‏ جب وہ اسرائیل کے بادشاہ بنے تو ایک معاملے کے بارے میں اُنہوں نے عمررسیدہ لوگوں سے اور اپنے ہم‌عمر ساتھیوں سے مشورہ لیا۔‏ رحبعام نے عمررسیدہ لوگوں کے مشورے کو چھوڑ کر اپنے ساتھیوں کے مشورے پر عمل کِیا۔‏ اور یوں اپنی رعایا کی حمایت کھو بیٹھے۔‏ (‏۱-‏سلا ۱۲:‏۱-‏۱۷‏)‏ آپ رحبعام جیسے نہ بنیں۔‏ آپ اپنے امی‌ابو کی بات سنیں اور اُن کے ساتھ بات‌چیت کا سلسلہ کُھلا رکھیں۔‏ اُنہیں اپنے دل کی بات بتائیں،‏ اُن کی صلاح پر عمل کریں اور فائدہ حاصل کریں۔‏—‏امثا ۱۳:‏۲۰‏۔‏

۱۱.‏ اگر بچے یہ سمجھتے ہیں کہ وہ اپنے ماں‌باپ سے کُھل کر بات نہیں کر سکتے تو اِس کا کیا نتیجہ نکلے گا؟‏

۱۱ والدین کو کیا کرنا چاہئے تاکہ بچے صلاح مشورے کے لئے اپنے دوستوں کی بجائے اُن کے پاس آئیں؟‏ اپنے بچوں کو احساس دِلائیں کہ وہ کسی بھی وقت اور کسی بھی موضوع پر آپ کے ساتھ بات کر سکتے ہیں۔‏ ایک نوجوان بہن نے لکھا:‏ ”‏بس،‏ کسی لڑکے کا نام لینے کی دیر ہوتی تھی کہ میرے امی‌ابو ٹینشن میں آ جاتے تھے۔‏ اِس سے مَیں بھی ٹینشن میں آ جاتی تھی اور آگے کوئی بات ہی نہیں کر پاتی تھی۔‏“‏ ایک اَور نوجوان بہن نے کہا:‏ ”‏بہت سے نوجوان اپنے امی‌ابو سے مشورے لینا چاہتے ہیں۔‏ لیکن اگر ماں‌باپ اُن کی بات میں دلچسپی نہیں لیتے تو پھر وہ بےچارے کیا کریں؟‏ ظاہر ہے کہ پھر وہ کسی ایسے شخص کے پاس ہی جائیں گے نا جو اُن کی بات میں دلچسپی لے گا۔‏ چاہے اُس میں زیادہ سمجھ‌بوجھ ہو یا نہ ہو۔‏“‏ اگر آپ ہر موضوع پر اپنے بچوں کی بات سننے کے لئے تیار رہتے ہیں اور اُن کے احساسات کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں تو بہت ممکن ہے کہ وہ آپ سے کُھل کر بات کریں گے اور آپ کے مشوروں کو قبول کریں گے۔‏

‏’‏بولنے میں دھیرا بنیں‘‏

۱۲.‏ والدین اور بچوں کے درمیان بات‌چیت میں ایک اَور رُکاوٹ کون‌سی ہے؟‏

۱۲ والدین اور بچوں کے درمیان بات‌چیت میں ایک رُکاوٹ اَور بھی ہے۔‏ اکثر ماں‌باپ اپنے بچوں کی کوئی بات سنتے ہی جذباتی ہو جاتے ہیں اور اُن پر نکتہ‌چینی کرنے لگتے ہیں۔‏ ہم ’‏اخیر زمانے‘‏ میں رہ رہے ہیں اور اِس دُنیا میں قدم‌قدم پر خطرہ ہے۔‏ اِس لئے والدین اپنے بچوں کو ہر طرح کے خطرے سے بچانا چاہتے ہیں۔‏ (‏۲-‏تیم ۳:‏۱-‏۵‏)‏ جب والدین اپنے بچوں پر کچھ پابندیاں لگاتے ہیں تو وہ سمجھتے ہیں کہ اِس میں بچوں کی بھلائی ہے۔‏ لیکن بچوں کو شاید لگتا ہے کہ ماں‌باپ اُن کی آزادی چھین رہے ہیں۔‏

۱۳.‏ ماں‌باپ کو بچوں کی پوری بات سنے بغیر اپنی رائے کیوں نہیں دینی چاہئے؟‏

۱۳ جب بچے آپ سے کسی معاملے کے متعلق بات کر رہے ہوں تو آپ کو اُن کی پوری بات سنے بغیر اپنی رائے نہیں دینی چاہئے۔‏ یہ سچ ہے کہ جب بچے جذبات میں آکر آپ سے کوئی ایسی بات کہتے ہیں جس سے آپ کو دُکھ پہنچتا ہے تو آپ کے لئے چپ رہنا آسان نہیں ہوتا۔‏ لیکن اہم بات یہ ہے کہ آپ کوئی بھی ردِعمل ظاہر کرنے سے پہلے اُن کی پوری بات دھیان سے سنیں۔‏ اِس سلسلے میں بادشاہ سلیمان نے لکھا:‏ ”‏جو بات سننے سے پہلے اُس کا جواب دے یہ اُس کی حماقت اور خجالت ہے۔‏“‏ (‏امثا ۱۸:‏۱۳‏)‏ اگر آپ تحمل سے کام لیں گے اور بچوں کو بیچ میں نہیں ٹوکیں گے تو بچے کُھل کر بات کریں گے اور آپ جان سکیں گے کہ اُنہوں نے جذباتی ہو کر آپ سے ایسی بات کیوں کہی۔‏ (‏ایو ۶:‏۱-‏۳‏)‏ لہٰذا بچوں کی بات دھیان سے سنیں اور مسئلے کی جڑ تک پہنچیں۔‏ یوں آپ اُنہیں صحیح مشورہ دے سکیں گے۔‏

۱۴.‏ بچوں کو ”‏بولنے میں دھیرا“‏ کیوں ہونا چاہئے؟‏

۱۴ بچوں کو بھی ”‏بولنے میں دھیرا“‏ ہونا چاہئے۔‏ جب ماں‌باپ اُن سے کچھ کہتے ہیں تو اُنہیں فوراً سے بحث شروع نہیں کر دینی چاہئے۔‏ آخر بچوں کی تربیت کرنے کی ذمہ‌داری خدا نے والدین کو سونپی ہے۔‏ (‏امثا ۲۲:‏۶‏)‏ آپ کے والدین شاید اُن حالات کا سامنا کر چکے ہیں جن سے آپ اب گزر رہے ہیں۔‏ جب وہ جوان تھے تو اُن سے بھی غلطیاں ہوئی تھیں جن پر اُنہیں بعد میں پچھتانا پڑا۔‏ وہ چاہتے ہیں کہ آپ ایسی غلطیاں نہ دہرائیں۔‏ لہٰذا اپنے ماں‌باپ کو اپنے دوست سمجھیں،‏ دُشمن نہیں۔‏ وہ آپ کا بھلا ہی چاہتے ہیں،‏ بُرا نہیں۔‏ ‏(‏امثال ۱:‏۵ کو پڑھیں۔‏)‏ ‏”‏اپنے باپ کی اور ماں کی عزت“‏ کریں اور یہ ظاہر کریں کہ آپ بھی اُن سے اُتنا ہی پیار کرتے ہیں جتنا کہ وہ آپ سے کرتے ہیں۔‏ اِس طرح وہ پوری خوشی سے ”‏[‏یہوواہ]‏ کی طرف سے تربیت اور نصیحت دےدے کر [‏آپ]‏ کی پرورش“‏ کریں گے۔‏—‏افس ۶:‏۲،‏ ۴‏۔‏

‏’‏قہر میں دھیما بنیں‘‏

۱۵.‏ اپنے گھر والوں سے بات‌چیت کے دوران ہم اپنے جذبات کو کیسے قابو میں رکھ سکتے ہیں؟‏

۱۵ بعض اوقات ہم اپنے گھر والوں کے ساتھ تحمل سے پیش نہیں آتے۔‏ اِسی لئے پولس رسول نے کُلسّے کے نام خط میں یہ نصیحت کی:‏ ”‏اَے شوہرو!‏ اپنی بیویوں سے محبت رکھو اور اُن سے تلخ‌مزاجی نہ کرو۔‏ اَے اولاد والو!‏ اپنے فرزندوں کو دِق نہ کرو تاکہ وہ بےدل نہ ہو جائیں۔‏“‏ (‏کل ۱:‏۱،‏ ۲؛‏ ۳:‏۱۹،‏ ۲۱‏)‏ اُنہوں نے افسس میں رہنے والے مسیحیوں کو بھی ہدایت کی:‏ ”‏ہر طرح کی تلخ‌مزاجی اور قہر اور غصہ اور شوروغل اور بدگوئی ہر قسم کی بدخواہی سمیت تُم سے دُور کی جائیں۔‏“‏ (‏افس ۴:‏۳۱‏)‏ اگر ہم روح کے پھل کے مختلف پہلوؤں جیسے کہ تحمل،‏ مہربانی اور پرہیزگاری یعنی ضبطِ‌نفس کو عمل میں لائیں گے تو ہم پریشانی اور دباؤ میں بھی اپنے جذبات پر قابو رکھ سکیں گے۔‏—‏گل ۵:‏۲۲،‏ ۲۳‏۔‏

۱۶.‏ یسوع مسیح نے اپنے رسولوں کی اصلاح کیسے کی؟‏ اور یہ حیرانی کی بات کیوں ہے؟‏

۱۶ والدین کو یسوع مسیح کی مثال پر عمل کرنا چاہئے۔‏ یسوع مسیح نے نہایت پریشانی اور دباؤ کے وقت میں بھی تحمل سے کام لیا۔‏ اپنی موت سے پہلے کی رات جب وہ اپنے رسولوں کے ساتھ کھانا کھا رہے تھے تو وہ بہت زیادہ ذہنی دباؤ میں تھے۔‏ وہ جانتے تھے کہ تھوڑی ہی دیر بعد اُنہیں اذیت‌ناک موت دی جائے گی۔‏ اُنہیں معلوم تھا کہ اگر وہ وفادار نہیں رہیں گے تو خدا کی بدنامی ہوگی اور انسانوں کو نجات نہیں ملے گی۔‏ لیکن اِس موقعے پر اُن کے شاگرد اِس تکرار میں اُلجھے ہوئے تھے کہ ”‏ہم میں سے کون بڑا سمجھا جاتا ہے؟‏“‏ یسوع مسیح نے جذباتی ہو کر اُن کو جھڑکنے کی بجائے اُنہیں پیار سے سمجھایا۔‏ اُنہوں نے کہا کہ ”‏تُم وہ ہو جو میری آزمایشوں میں برابر میرے ساتھ رہے“‏ ہو۔‏ یسوع مسیح کو معلوم تھا کہ اُن کے رسولوں پر شیطان کی طرف سے کڑی آزمائشیں آنے والی ہیں۔‏ پھر بھی اُنہوں نے ظاہر کِیا کہ اُنہیں اپنے رسولوں پر اعتماد ہے کہ وہ وفادار رہیں گے۔‏ یسوع مسیح نے تو اپنے رسولوں سے وعدہ کِیا کہ ’‏مَیں تمہارے لئے ایک بادشاہی مقرر کرتا ہوں۔‏‘‏—‏لو ۲۲:‏۲۴-‏۳۲‏۔‏

کیا آپ اپنے بچوں کی بات پوری توجہ سے سنتے ہیں؟‏

۱۷.‏ کس حقیقت کو تسلیم کرنے سے بچوں کو تحمل سے کام لینے کی ترغیب ملے گی؟‏

۱۷ بچوں کو بھی یسوع مسیح کی مثال پر عمل کرتے ہوئے تحمل سے کام لینا چاہئے۔‏ جب بچے خاص طور پر نوجوانی میں قدم رکھتے ہیں تو اُنہیں یہ اچھا نہیں لگتا کہ اُن کے ماں‌باپ اُنہیں ہدایات دیں۔‏ وہ شاید یہ سمجھتے ہیں کہ ماں‌باپ کو اُن پر اعتماد نہیں ہے۔‏ لیکن بچوں کے لئے یہ سمجھنا اچھا ہوگا کہ اُن کے ماں‌باپ اُن کے لئے جو کچھ بھی کرتے ہیں،‏ اُس کے پیچھے اُن کی محبت چھپی ہوتی ہے۔‏ اِس لئے اگر آپ آرام سے اپنے امی‌ابو کی بات سنیں گے اور اُن کا کہنا مانیں گے تو آپ اُن کا اعتماد جیت لیں گے اور شاید وہ آپ کو بعض کام کرنے کی آزادی دیں گے۔‏ پاک کلام میں بتایا گیا ہے کہ ”‏احمق اپنا قہر اُگل دیتا ہے لیکن دانا اُس کو روکتا اور پی جاتا ہے۔‏“‏—‏امثا ۲۹:‏۱۱‏۔‏

۱۸.‏ جو والدین اور بچے آپس میں محبت کرتے ہیں،‏ وہ کُھل کر بات‌چیت کرنے میں جھجک محسوس کیوں نہیں کرتے؟‏

۱۸ اگر آپ کے گھرانے میں آپس میں کُھل کر بات کرنا ایک مسئلہ ہے تو ہمت نہ ہاریں۔‏ پاک کلام کے اصولوں پر عمل کرتے ہوئے اِس مسئلے کو حل کرنے کی مسلسل کوشش کریں۔‏ (‏۳-‏یوح ۴‏)‏ نئی دُنیا میں سب انسان بےعیب ہوں گے اور اُس وقت ایک دوسرے کو اپنے خیالات اور جذبات بتانے میں کسی کو کوئی دقت محسوس نہیں ہوگی۔‏ فی‌الحال ہم سب سے غلطیاں ہوتی ہیں جن پر ہمیں بعد میں پچھتانا پڑتا ہے۔‏ اِس لئے ایک دوسرے سے معافی مانگنے اور ایک دوسرے کو معاف کرنے کے لئے تیار رہیں۔‏ ”‏محبت سے آپس میں گٹھے رہیں۔‏“‏ (‏کل ۲:‏۲‏)‏ محبت میں بڑی طاقت ہے۔‏ ”‏محبت صابر ہے اور مہربان۔‏ .‏ .‏ .‏ جھنجھلاتی نہیں۔‏ بدگمانی نہیں کرتی۔‏ .‏ .‏ .‏ سب کچھ سہہ لیتی ہے۔‏ سب کچھ یقین کرتی ہے سب باتوں کی اُمید رکھتی ہے۔‏ سب باتوں کی برداشت کرتی ہے۔‏“‏ (‏۱-‏کر ۱۳:‏۴-‏۷‏)‏ لہٰذا اپنے گھر والوں کے لئے اپنے دل میں محبت کو بڑھائیں۔‏ یوں آپ کو اُن کے ساتھ بات‌چیت کرنے میں اور اُنہیں اپنے احساسات بتانے میں رُکاوٹ محسوس نہیں ہوگی۔‏ اِس سے آپ کو بےانتہا خوشی ملے گی اور یہوواہ خدا کی بڑائی ہوگی۔‏

^ پیراگراف 6 فرضی نام استعمال کِیا گیا ہے۔‏