خدا کی اصلاح کو مانیں اور اُس کے معیاروں کے مطابق ڈھلیں
”تُو اپنی مصلحت [یعنی نیک صلاح] سے میری رہنمائی کرے گا اور آخرکار مجھے جلال میں قبول فرمائے گا۔“—زبور ۷۳:۲۴۔
۱، ۲. (الف) خدا کی قربت میں رہنے کے لئے کیا کرنا ضروری ہے؟ (ب) ماضی میں یہوواہ خدا نے جن لوگوں اور قوموں کی اصلاح کی، اُن کے ردِعمل کا جائزہ لینے سے ہمیں کیا فائدہ ہوتا ہے؟
”میرے لئے یہی بھلا ہے کہ خدا کی نزدیکی حاصل کروں۔ مَیں نے [یہوواہ] خدا کو اپنی پناہگاہ بنا لیا ہے۔“ (زبور ۷۳:۲۸) اِس بات سے ظاہر ہوتا ہے کہ زبورنویس، یہوواہ خدا پر بہت زیادہ اعتماد کرتا تھا۔ کن حالات سے گزر کر زبورنویس میں ایسا اعتماد پیدا ہوا؟ شریر لوگوں کی خوشحالی کو دیکھ کر زبورنویس دل ہی دل میں کڑھتا تھا۔ اُس نے بڑے افسوس سے کہا: ”مَیں نے عبث اپنے دل کو صاف اور اپنے ہاتھوں کو پاک کِیا۔“ (زبور ۷۳:۲، ۳، ۱۳، ۲۱) لیکن جب وہ ”خدا کے مقدِس“ میں گیا اور خدا کے بندوں کی صحبت میں رہا تو اُسے اپنی سوچ میں تبدیلی لانے میں مدد ملی اور وہ خدا کی خوشنودی کھونے سے بچ گیا۔ (زبور ۷۳:۱۶-۱۸) زبورنویس نے کونسی اہم بات سیکھی؟ اُس نے سیکھا کہ خدا کے ساتھ دوستی قائم رکھنے کے لئے اُس کے بندوں کی صحبت میں رہنا، اُس کی طرف سے اصلاح کو قبول کرنا اور اپنے اندر تبدیلی لانا ضروری ہے۔—زبور ۷۳:۲۴۔
۲ ہم بھی اپنے زندہ اور سچے خدا یہوواہ کی قربت میں رہنا چاہتے ہیں۔ یہ اعزاز پانے کے لئے ضروری ہے کہ ہم خدا کی طرف سے اصلاح کو قبول کریں۔ ایسا کرنے سے ہم اُس کے منظورِنظر بن سکیں گے۔ ماضی میں یہوواہ خدا نے بعض لوگوں اور قوموں کو موقع دیا کہ وہ اُس کی اصلاح کو قبول کریں۔ اُن کے ردِعمل کے متعلق بائبل میں جو کچھ بھی لکھا ہے، وہ ”ہم آخری زمانہ والوں کی نصیحت کے واسطے“ لکھا گیا ہے۔ (روم ۱۵:۴؛ ۱-کر ۱۰:۱۱) اِن لوگوں اور قوموں کی مثال پر غور کرنے سے ہم یہوواہ خدا کی ذات کے مختلف پہلوؤں کو سمجھنے کے قابل ہوں گے۔ اِس کے علاوہ ہم یہ بھی سیکھیں گے کہ اگر ہم خدا کے معیاروں کے مطابق ڈھلنے کے لئے تیار ہوتے ہیں تو ہمیں کیا فائدہ ہوتا ہے۔
ہمارا کمہار ہمیں کیسے ڈھالتا ہے؟
۳. یسعیاہ ۶۴:۸ اور یرمیاہ ۱۸:۱-۶ میں انسانوں پر یہوواہ خدا کے اختیار کو کیسے ظاہر کِیا گیا ہے؟ (اِس مضمون کی پہلی تصویر کو دیکھیں۔)
۳ انسانوں اور قوموں پر یہوواہ خدا کے اختیار کو ظاہر کرنے کے لئے اُسے یسعیاہ ۶۴:۸ میں لکھا ہے: ”اَے [یہوواہ]! تُو ہمارا باپ ہے۔ ہم مٹی ہیں اور تُو ہمارا کمہار ہے اور ہم سب کے سب تیری دستکاری ہیں۔“ کمہار مٹی کو جیسی چاہے شکل دے سکتا ہے۔ مٹی کمہار کو یہ بتانے کا حق نہیں رکھتی کہ اُسے فلاں شکل میں ڈھالا جائے۔ اِسی طرح انسان بھی اپنے کمہار یعنی یہوواہ خدا کو یہ بتانے کا حق نہیں رکھتے کہ وہ اُنہیں کس طرح ڈھالے۔—یرمیاہ ۱۸:۱-۶ کو پڑھیں۔
بائبل میں ایک کمہار سے تشبیہ دی گئی ہے۔۴. کیا خدا انسانوں کو اپنے معیاروں کے مطابق ڈھلنے پر مجبور کرتا ہے؟
۴ جس طرح ایک کمہار مٹی کو ڈھالتا ہے اُسی طرح یہوواہ خدا نے بنیاسرائیل کو اپنے معیاروں کے مطابق ڈھالا۔ لیکن یہوواہ خدا میں اور ایک عام کمہار میں بڑا فرق ہے۔ ایک کمہار اپنی مرضی کے مطابق مٹی سے کچھ بھی بنا سکتا ہے۔ لیکن یہوواہ خدا انسانوں کو زبردستی اپنے معیاروں کے مطابق نہیں ڈھالتا۔ وہ کسی کو اچھا اور کسی کو بُرا نہیں بناتا۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ اُس نے انسانوں کو اپنی مرضی سے فیصلے کرنے کی آزادی دی ہے۔ اِس لئے وہ اُن پر اپنی مرضی یا اختیار نہیں ٹھونستا۔ یہ انسانوں کا اپنا فیصلہ ہے کہ وہ خدا کے معیاروں کے مطابق ڈھلنا چاہتے ہیں یا نہیں۔—یرمیاہ ۱۸:۷-۱۰ کو پڑھیں۔
۵. جب انسان یہوواہ خدا کے معیاروں کے مطابق ڈھلنا نہیں چاہتے تو یہوواہ کیا کرتا ہے؟
۵ اگر انسان اپنے کمہار یہوواہ خدا کے معیاروں کے مطابق ڈھلنا نہ چاہیں تو خدا اپنے اختیار کو کیسے کام میں لاتا ہے؟ جب کمہار مٹی سے وہ برتن نہیں بنا پاتا جو وہ اصل میں بنانا چاہتا تھا تو وہ یا تو مٹی کو پھینک دیتا ہے یا پھر اُس سے کوئی اَور برتن بنا لیتا ہے۔ اِس میں کمہار کی اپنی غلطی ہوتی ہے۔ شاید وہ مٹی کو صحیح شکل نہیں دے پاتا۔ لیکن یہوواہ خدا ایسا کمہار نہیں ہے۔ (است ۳۲:۴) جب کوئی شخص خدا کے معیاروں کے مطابق ڈھلنا نہیں چاہتا تو اِس میں اُس کی اپنی غلطی ہوتی ہے۔ ایسی صورت میں یہوواہ خدا اپنے اختیار کو کام میں لاتے ہوئے فیصلہ کرتا ہے کہ اب وہ اُس کے ساتھ کیسے پیش آئے گا۔ جو لوگ خدا کے معیاروں کے مطابق ڈھلنے کے لئے آمادہ ہو جاتے ہیں، اُنہیں بہت فائدہ ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر ممسوح مسیحی ’رحم کے برتن‘ ہیں جنہیں ’عزت کے لئے بنایا‘ گیا ہے۔ مگر جو لوگ ڈھلنے کو تیار نہیں ہوتے، وہ ’غضب کے برتن‘ ثابت ہوتے ہیں جنہیں ”ہلاکت کے لئے تیار“ کِیا جاتا ہے۔—روم ۹:۱۹-۲۳۔
۶، ۷. داؤد بادشاہ نے یہوواہ خدا کی اصلاح کے لئے کیسا ردِعمل ظاہر کِیا؟ اور ساؤل بادشاہ نے کیسا ردِعمل دِکھایا؟
۶ یہوواہ خدا لوگوں کو مختلف طریقوں سے اپنے معیاروں کے مطابق ڈھالتا ہے۔ ایک طریقہ یہ ہے کہ وہ ضرورت پڑنے پر اُن کی اصلاح کرتا ہے۔ اِس سلسلے میں آئیں، ساؤل بادشاہ اور داؤد بادشاہ کی مثال پر غور کریں۔ ہم دیکھیں گے کہ اِن دونوں کے معاملے میں یہوواہ خدا نے ایک کمہار کی طرح اپنے اختیار کو کیسے استعمال کِیا۔ جب داؤد بادشاہ نے بتسبع کے ساتھ زنا کِیا تو اُنہیں اور دوسرے لوگوں کو اِس کے بہت ہی سنگین نتائج بھگتنے پڑے۔ اگرچہ داؤد، بنیاسرائیل کے بادشاہ تھے پھر بھی خدا نے اُن کی اصلاح کی۔ اُس نے ناتن نبی کے ہاتھ داؤد کے لئے بہت ہی سنجیدہ پیغام بھجوایا۔ (۲-سمو ۱۲:۱-۱۲) داؤد نے کیسا ردِعمل ظاہر کِیا؟ وہ بہت پشیمان ہوئے اور اُنہوں نے اپنے گُناہ سے توبہ کی۔ اِس لئے خدا نے بھی اُن پر رحم کِیا اور اُنہیں معاف کر دیا۔—۲-سموئیل ۱۲:۱۳ کو پڑھیں۔
۷ اِس کے برعکس اسرائیل کے پہلے بادشاہ ساؤل نے خدا کی طرف سے اصلاح کو قبول نہ کِیا۔ یہوواہ خدا نے سموئیل نبی کے ذریعے ساؤل کو حکم دیا تھا کہ ”عماؔلیق کو مار اور جو کچھ اُن کا ہے سب کو بالکل نابود کر دے۔“ مگر ساؤل نے یہ حکم نہ مانا۔ اُنہوں نے عمالیقیوں کے بادشاہ اجاج کو اور اچھےاچھے مویشیوں کو زندہ رکھا۔ اُنہوں نے ایسا کیوں کِیا؟ ایک وجہ تو یہ تھی کہ ساؤل اپنی واہواہ کرانا چاہتے تھے۔ (۱-سمو ۱۵:۱-۳، ۷-۹، ۱۲) جب سموئیل نے ساؤل کی اصلاح کی تو اُنہیں اِس پر کان لگانا چاہئے تھا اور اپنے آپ کو عظیم کمہار یہوواہ خدا کے ہاتھوں میں دے دینا چاہئے تھا۔ لیکن وہ دراصل یہوواہ خدا کے معیاروں کے مطابق ڈھلنا نہیں چاہتے تھے۔ وہ اپنی صفائیاں پیش کرنے لگے۔ اُنہوں نے یہ عُذر پیش کِیا کہ اچھےاچھے مویشیوں کو یہوواہ خدا کے حضور قربان کِیا جا سکتا ہے۔ یوں اُنہوں نے سموئیل نبی کی باتوں کو ناچیز جانا۔ اِس کا نتیجہ یہ نکلا کہ یہوواہ خدا نے ساؤل کو رد کر دیا۔ اِس کے بعد سے ساؤل، خدا کے ساتھ اپنی دوستی کو کبھی بھی بحال نہ کر سکے۔—۱-سموئیل ۱۵:۱۳-۱۵، ۲۰-۲۳ کو پڑھیں۔
ساؤل نے یہوواہ خدا کی اصلاح کو معمولی سمجھا۔ وہ اُس کے معیاروں کے مطابق ڈھلنا نہیں چاہتے تھے۔ (پیراگراف نمبر ۷ کو دیکھیں۔)
داؤد اپنی غلطی پر پشیمان ہوئے اور اصلاح قبول کی۔ وہ خدا کے معیاروں کے مطابق ڈھلنا چاہتے تھے۔ کیا آپ بھی ایسا چاہتے ہیں؟ (پیراگراف نمبر ۶ کو دیکھیں۔)
خدا کسی کا طرفدار نہیں
۸. یہوواہ خدا کی اصلاح پر بنیاسرائیل کے ردِعمل سے ہم کیا سیکھتے ہیں؟
۸ یہوواہ خدا نے چند ایک لوگوں کو ہی نہیں بلکہ پوریپوری قوموں کو بھی موقع دیا کہ وہ اُس کی اصلاح قبول کریں اور اپنے بُرے کاموں سے باز آئیں۔ مثال کے طور پر ۱۵۱۳ قبلازمسیح میں اسرائیلی قوم مصر کی غلامی سے آزاد ہو گئی اور خدا کی خاص قوم بن گئی۔ بنیاسرائیل کے لئے بڑے اعزاز کی بات تھی کہ خدا اُنہیں اپنے معیاروں کے مطابق ڈھالے۔ لیکن یہ قوم ایسے کام کرتی رہی جن سے یہوواہ خدا کو نفرت تھی۔ اِس قوم نے تو یہوواہ خدا کو چھوڑ کر دوسرے دیوتاؤں کی عبادت کرنی شروع کر دی۔ یہوواہ خدا نے بنیاسرائیل کی اصلاح کرنے کے لئے باربار اپنے نبی بھیجے۔ مگر اِس قوم نے اُن کی ایک نہ سنی۔ (یرم ۳۵:۱۲-۱۵) بنیاسرائیل کی ہٹدھرمی کی وجہ سے یہوواہ خدا نے اُنہیں سزا دی۔ یہ قوم ’غضب کے برتن‘ ثابت ہوئی جو ”ہلاکت کے لئے تیار“ کئے جاتے ہیں۔ اِس لئے پہلے اسوری فوج نے دس قبیلوں پر مشتمل اسرائیل کی سلطنت کو خاک میں ملا دیا اور بعد میں بابل کی فوج نے دو قبیلوں پر مشتمل یہوداہ کی سلطنت کو بُری طرح شکست دی۔ اِس سے ہم سیکھتے ہیں کہ یہوواہ خدا کی اصلاح سے ہمیں تبھی فائدہ ہوتا ہے جب ہم اِسے قبول کرتے ہیں اور خود میں تبدیلی لاتے ہیں۔
۹، ۱۰. نینوہ کے لوگوں نے یہوواہ خدا کے پیغام کے لئے کیسا ردِعمل ظاہر کِیا؟
۹ یہوواہ خدا نے ملک اسور کے دارالحکومت نینوہ کے لوگوں کو بھی موقع دیا کہ وہ اُس کی اصلاح قبول کریں اور اپنے بُرے کام چھوڑ دیں۔ یہوواہ خدا نے یوناہ نبی سے کہا: ”اُٹھ اُس بڑے شہر نینوؔہ یوناہ ۱:۱، ۲؛ ۳:۱-۴۔
کو جا اور اُس کے خلاف مُنادی کر کیونکہ اُن کی شرارت میرے حضور پہنچی ہے۔“ یہوواہ خدا نے نینوہ کے لوگوں کو ہلاک کرنے کا اِرادہ کر لیا تھا۔—۱۰ لیکن جب یوناہ نے نینوہ کے لوگوں کو بتایا کہ اُن پر تباہی آنے والی ہے تو اُنہوں نے ”خدا پر ایمان لا کر روزہ کی مُنادی کی اور ادنیٰواعلیٰ سب نے ٹاٹ اوڑھا۔“ نینوہ کا بادشاہ بھی ”اپنے تخت پر سے اُٹھا اور بادشاہی لباس کو اُتار ڈالا اور ٹاٹ اوڑھ کر راکھ پر بیٹھ گیا۔“ نینوہ کے لوگوں نے توبہ کی اور یہوواہ خدا کے معیاروں کے مطابق ڈھلنے کو آمادہ ہو گئے۔ اِس لئے خدا نے بھی اُنہیں ہلاک کرنے کا اِرادہ ترک کر دیا۔—یوناہ ۳:۵-۱۰۔
۱۱. بنیاسرائیل اور نینوہ کے لوگوں کی مثال سے یہوواہ خدا کی کونسی خوبی ظاہر ہوتی ہے؟
۱۱ خدا کی خاص قوم ہونے کا مطلب یہ نہیں تھا کہ بنیاسرائیل سزا سے بَری تھے۔ خدا نے نینوہ کے لوگوں کی اصلاح کرنا بھی ضروری سمجھا حالانکہ وہ اُس کی خاص قوم نہیں تھے۔ اور جب اُنہوں نے ظاہر کِیا کہ وہ ایک ایسی نرم مٹی کی طرح ہیں جسے کسی بھی شکل میں آسانی سے ڈھالا جا سکتا ہے تو خدا نے اُن پر رحم کِیا۔ اِن دونوں قوموں کی مثال سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہمارا خدا یہوواہ ”کسی کی طرفداری نہیں کرتا۔“—است ۱۰:۱۷، نیو اُردو بائبل ورشن۔
یہوواہ خدا اپنے فیصلے بدلنے کو تیار رہتا ہے
۱۲، ۱۳. (الف) یہوواہ خدا لوگوں کے بارے میں کبھیکبھار اپنے فیصلے کیوں بدل دیتا ہے؟ (ب) جب یہوواہ خدا نے ساؤل کے سلسلے میں افسوس محسوس کِیا تو اِس کا کیا مطلب تھا؟ (ج) یہوواہ خدا نے نینوہ کے لوگوں کے سلسلے میں کیا کِیا؟
۱۲ یہوواہ خدا لوگوں کے رویے اور ردِعمل کو دیکھتے ہوئے اپنے فیصلوں کو بدلنے کے لئے تیار رہتا ہے۔ اُس نے بادشاہ ساؤل کے متعلق کہا کہ ”مجھے افسوس ہے کہ مَیں نے ساؔؤل کو بادشاہ ہونے کے لئے مقرر کِیا۔“ (۱-سمو ۱۵:۱۱) پاک کلام میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ جب نینوہ کے لوگوں نے دل سے توبہ کی اور اپنے بُرے کاموں کو ترک کِیا تو ”خدا . . . اُس عذاب سے جو اُس نے اُن پر نازل کرنے کو کہا تھا باز آیا اور اُسے نازل نہ کیا۔“—یوناہ ۳:۱۰۔
۱۳ پہلا سموئیل ۱۵:۱۱ میں جس عبرانی اصطلاح کا ترجمہ ”مجھے افسوس ہے“ کِیا گیا ہے، وہ دراصل اپنی سوچ یا ارادے کو بدلنے کے معنی رکھتی ہے۔ یہوواہ خدا نے پہلے ساؤل کو بادشاہ بنایا اور پھر کچھ عرصے کے بعد اُنہیں رد کر دیا۔ اِس عرصے کے دوران ساؤل کے بارے میں یہوواہ خدا کی سوچ میں بہت تبدیلی آئی۔ اِس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ ساؤل کو بادشاہ بنا کر یہوواہ خدا نے کوئی غلطی کی تھی بلکہ ساؤل نے خدا کی نافرمانی کی تھی اور اُس کی اصلاح کو رد کِیا تھا۔ یہوواہ خدا نے نینوہ کے لوگوں کے بارے میں بھی اپنی سوچ کو بدلا۔ اُس نے اُن کی پشیمانی اور توبہ کو دیکھ کر اُنہیں سزا دینے کا ارادہ بدل دیا۔ اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہمارا کمہار یہوواہ خدا بڑا رحیم ہے۔ جب وہ گُناہگاروں کو اپنی روِش بدلتے ہوئے دیکھتا ہے تو وہ اُنہیں معاف کرنے کے لئے تیار ہو جاتا ہے۔
یہوواہ خدا کی تربیت کو رد نہ کریں
۱۴. (الف) یہوواہ خدا آجکل ہمیں کیسے ڈھالتا ہے؟ (ب) ہمیں خدا کی تعلیم اور تربیت کے لئے کیسا ردِعمل ظاہر کرنا چاہئے؟
۱۴ یہوواہ خدا ہمیں اپنے معیاروں کے مطابق ڈھالنے کے لئے اپنے کلام اور اپنی تنظیم کو استعمال کرتا ہے۔ (۲-تیم ۳:۱۶، ۱۷) اِس لئے یہ بہت ضروری ہے کہ خدا کے کلام اور اُس کی تنظیم کے ذریعے ہمیں جو بھی ہدایت اور اصلاح ملتی ہے، ہم اُسے قبول کریں۔ چاہے ہم جتنے بھی سالوں سے یہوواہ کے گواہ ہیں یا ہمارے پاس کلیسیا میں جتنی بھی ذمہداریاں ہیں، ہمیں ہمیشہ خدا کی تعلیم اور تربیت کو قبول کرنا چاہئے۔ اِس طرح ہم ’عزت کے برتن‘ بن جائیں گے۔
۱۵، ۱۶. (الف) جب کلیسیا میں کسی کو ذمہداری سے ہٹایا جاتا ہے تو اُسے اکثر کیسا محسوس ہوتا ہے؟ مثال دیں۔ (ب) اگر ہماری کسی سنگین غلطی کی وجہ سے ہمیں سزا ملتی ہے تو ہم شرمندگی کے احساس پر کیسے غالب آ سکتے ہیں؟
۱۵ یہوواہ خدا ہماری تربیت کس طرح کرتا ہے؟ وہ ہمیں ہدایات اور تعلیم دیتا ہے۔ لیکن جب ہم سے کوئی سنگین غلطی ہوتی ہے تو وہ ہمیں سزا دینے سے صحیح راہ پر لاتا ہے۔ شاید ہمیں کسی * کی مثال پر غور کریں۔ وہ کلیسیا میں بزرگ کے طور پر خدمت کر رہے تھے۔ لیکن اُنہوں نے کاروبار کے سلسلے میں کچھ ایسے قدم اُٹھائے جو خدا کے معیاروں کے مطابق نہیں تھے۔ اِس کی وجہ سے اُنہیں بزرگ کی ذمہداری سے ہٹا دیا گیا۔ جب کلیسیا کے سامنے یہ اعلان کِیا گیا کہ ڈینس اب بزرگ نہیں ہیں تو اُنہیں کیسا محسوس ہوا؟ ڈینس کہتے ہیں: ”مَیں بےحد مایوس ہو گیا۔ مجھے پچھلے ۳۰ سال میں بہت سے اعزاز ملے تھے۔ مَیں پہلکار بنا تھا، مَیں نے بیتایل میں خدمت کی تھی، مَیں خادم بنا اور پھر بزرگ بنا۔ کچھ ہی عرصہ پہلے مَیں نے صوبائی اجتماع پر پہلی بار تقریر بھی پیش کی۔ لیکن پلک جھپکتے ہی سب کچھ ختم ہو گیا۔ مجھے بہت شرمندگی محسوس ہو رہی تھی۔ مجھے لگ رہا تھا کہ اب مَیں کلیسیا میں کسی کام کا نہیں رہا۔“
ذمہداری سے ہٹا دیا جائے۔ اِس سلسلے میں ڈینس۱۶ ایسی صورت میں ڈینس کو کیا کرنے کی ضرورت تھی؟ ظاہری بات ہے کہ اُنہیں اپنے غلط کام کو ترک کرنے کی ضرورت تھی۔ لیکن وہ شرمندگی کے احساس پر کیسے غالب آئے؟ اُنہوں نے بتایا کہ ”مَیں نے یہ ارادہ کر لیا کہ مَیں باقاعدگی سے بائبل کو پڑھوں گا۔ اجلاسوں میں جانا اور مُنادی کے کام میں حصہ لینا کبھی نہیں چھوڑوں گا۔ اِس کے علاوہ بہنبھائیوں نے میرا بہت حوصلہ بڑھایا اور ہماری کتابوں اور رسالوں کو پڑھنے سے مجھے بڑی تسلی ملی۔ پھر واچٹاور۱۵ اگست ۲۰۰۹ء میں ایک مضمون آیا جس میں اِس سوال پر بات کی گئی تھی کہ اگر آپ کو کلیسیا میں کسی ذمہداری سے ہٹایا گیا ہے تو کیا آپ اِسے دوبارہ حاصل کرنا چاہتے ہیں؟ اِس مضمون کو پڑھ کر مجھے ایسے لگا جیسے خدا نے میری دُعا سُن لی ہے۔ اِس میں جو بات مجھے سب سے اچھی لگی، وہ یہ تھی کہ جب تک کلیسیا میں آپ کے پاس زیادہ ذمہداریاں نہیں تو کیوں نہ آپ اپنا وقت ایسے کاموں میں لگائیں جن سے آپ یہوواہ خدا کے اَور قریب آ جائیں۔“ اِس واقعے کو کچھ سال گزر گئے ہیں۔ ڈینس کو اِس تربیت سے کیا فائدہ ہوا ہے؟ اُنہوں نے بتایا: ”یہوواہ خدا کی مہربانی سے اب مَیں کلیسیا میں خادم مقرر ہو گیا ہوں۔“
۱۷. جب کسی کو کلیسیا سے خارج کِیا جاتا ہے تو اِس میں اُس شخص کی بھلائی کیوں ہوتی ہے؟ مثال دیں۔
۱۷ یہوواہ خدا اَور کس طریقے سے ہماری تربیت کرتا ہے؟ اِس میں کسی خطاکار کو کلیسیا سے خارج کرنا شامل ہو سکتا ہے۔ اِس کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ کلیسیا بُرے اثرات سے پاک رہتی ہے۔ اِس کے علاوہ خطاکار شخص کو بھی شاید احساس ہو کہ اُس نے بہت بڑی غلطی کی ہے اور شاید وہ صحیح راہ کی طرف لوٹ آئے۔ (۱-کر ۵:۶، ۷، ۱۱) اِس سلسلے میں رابرٹ کی مثال پر غور کریں۔ وہ تقریباً ۱۶ سال تک کلیسیا سے خارج رہے۔ اِس عرصے کے دوران اُن کے ماںباپ اور چار بھائیوں نے بائبل کے اصولوں پر عمل کرتے ہوئے اُن کے ساتھ بالکل میلجول نہ رکھا۔ یہاں تک کہ وہ اُن کے ساتھ سلام دُعا بھی نہیں لیتے تھے۔ رابرٹ ابھی کلیسیا کی طرف لوٹ آئے ہیں اور روحانی طور پر بڑھ رہے ہیں۔ اُنہیں کلیسیا میں آنے کی ترغیب کیسے ملی؟ اُنہوں نے بتایا کہ اُن کے گھر والوں نے عزم کر رکھا تھا کہ وہ اُن کے ساتھ کسی قسم کا رابطہ نہیں رکھیں گے۔ رابرٹ اپنے گھر والوں کے اِس عزم سے بہت متاثر ہوئے۔ اُنہوں نے کہا: ”اگر میرے گھر والے میرے ساتھ ذرا سا بھی میلجول رکھتے، صرف میرا حالچال ہی پوچھ لیا کرتے تو میرے لئے یہی کافی ہوتا۔ مگر اُنہوں نے ایسا نہ کِیا۔ یہ ایک وجہ تھی جس کی بِنا پر مَیں نے کلیسیا میں واپس آنے کا فیصلہ کِیا۔“
۱۸. جب یہوواہ خدا ہمیں اپنے معیاروں کے مطابق ڈھالتا ہے تو ہمارا ردِعمل کیسا ہونا چاہئے؟
۱۸ شاید ہمیں اِس طرح کی تربیت کی ضرورت نہ پڑے۔ مگر ہمیں خود سے پوچھنا چاہئے: ”کیا مَیں یہ چاہتا ہوں کہ عظیم کمہار یہوواہ خدا مجھے اپنے معیاروں کے مطابق ڈھالے؟ اگر میری اصلاح کی جاتی ہے تو مَیں کیسا ردِعمل ظاہر کرتا ہوں، داؤد جیسا یا پھر ساؤل جیسا؟“ یہوواہ خدا ہمارا باپ ہے اور وہ ”جس سے محبت رکھتا ہے اُسے ملامت بھی کرتا ہے، جیسے باپ اُس بیٹے کی ملامت کرتا ہے جسے وہ عزیز رکھتا ہے۔“ لہٰذا ’یہوواہ کی تربیت کو حقیر نہ جانیں اور اُس کی تنبیہ کا بُرا نہ مانیں۔‘—امثا ۳:۱۱، ۱۲، نیو اُردو بائبل ورشن۔
^ پیراگراف 15 فرضی نام استعمال کئے گئے ہیں۔