مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

آپ پاک ہو گئے ہیں

آپ پاک ہو گئے ہیں

‏”‏تُم .‏ .‏ .‏ دُھل گئے اور پاک ہوئے۔‏“‏—‏۱-‏کر ۶:‏۱۱‏۔‏

۱.‏ جب نحمیاہ یروشلیم لوٹے تو وہاں کی صورتحال کیا تھی؟‏ (‏اِس مضمون کی پہلی تصویر کو دیکھیں۔‏)‏

یروشلیم میں بہت سی بُری باتیں ہو رہی تھیں۔‏ ایک بدمعاش پردیسی ہیکل کی ایک کوٹھری میں رہ رہا تھا۔‏ لاویوں نے ہیکل میں کام کرنا چھوڑ دیا تھا۔‏ یہوداہ کے اُمرا بھی خدا کی عبادت کے سلسلے میں کوئی اچھی مثال قائم نہیں کر رہے تھے۔‏ وہ سبت کے دن پر کاروبار کر رہے تھے۔‏ بہت سے یہودی مرد،‏ غیریہودی عورتوں سے شادی کر رہے تھے۔‏ یہ یروشلیم کا حال تھا جب نحمیاہ ۴۴۳ قبل‌ازمسیح کے لگ‌بھگ وہاں لوٹے۔‏—‏نحم ۱۳:‏۶‏۔‏

۲.‏ بنی‌اِسرائیل ایک مُقدس قوم کیسے بنے؟‏

۲ بنی‌اِسرائیل ایک قوم کے طور پر یہوواہ خدا کے لئے وقف تھے۔‏ سن ۱۵۱۳ قبل‌ازمسیح میں اُنہوں نے اپنی مرضی سے عہد کِیا کہ وہ خدا کے حکموں پر چلیں گے۔‏ اُنہوں نے یہ قسم کھائی کہ ”‏جتنی باتیں [‏یہوواہ]‏ نے فرمائی ہیں ہم اُن سب کو مانیں گے۔‏“‏ (‏خر ۲۴:‏۳‏)‏ لہٰذا خدا نے اُن کو مُقدس کِیا یعنی اُنہیں دوسری قوموں سے الگ کِیا۔‏ یہ بنی‌اِسرائیل کے لئے بڑے اعزاز کی بات تھی۔‏ اِس کے ۴۰ سال بعد موسیٰ نبی نے اُن سے کہا:‏ ”‏تُو [‏یہوواہ]‏ اپنے خدا کے لئے ایک مُقدس قوم ہے۔‏ [‏یہوواہ]‏ تیرے خدا نے تجھ کو رُویِ‌زمین کی اَور سب قوموں میں سے چن لیا ہے تاکہ اُس کی خاص اُمت ٹھہرے۔‏“‏—‏است ۷:‏۶‏۔‏

۳.‏ جب نحمیاہ دوسری بار یروشلیم آئے تو یہوواہ خدا کی عبادت کے سلسلے میں یہودیوں کا رویہ کیا تھا؟‏

۳ شروع میں تو بنی‌اِسرائیل بہت خوش تھے کہ وہ خدا کی خاص قوم ہیں لیکن جلد ہی وہ اپنے وعدے سے پھر گئے۔‏ اگرچہ بنی‌اِسرائیل میں سے کچھ افراد تو خدا کی عبادت کرتے رہے مگر مجموعی طور پر یہ قوم پاک ہونے کا محض دِکھاوا کرتی رہی اور خدا کی مرضی پر نہیں چل رہی تھی۔‏ جب نحمیاہ دوسری بار یروشلیم آئے تو یہودیوں کو بابل سے واپس آئے ہوئے سو سال گزر چکے تھے۔‏ حالانکہ وہ خدا کی عبادت کرنے کے لئے لوٹے تھے مگر ایک بار پھر اُس کی عبادت کے لئے اُن کا جوش ٹھنڈا پڑ چُکا تھا۔‏

۴.‏ یہوواہ خدا کے نزدیک پاک رہنے کے لئے ہمیں کیا کرنا چاہئے؟‏

۴ بنی‌اِسرائیل کی طرح خدا نے آج یہوواہ کے گواہوں کو بھی مُقدس کِیا ہے۔‏ ممسوح مسیحی اور ”‏بڑی بِھیڑ“‏ دونوں خدا کی عبادت کے لئے وقف ہیں۔‏ (‏مکا ۷:‏۹،‏ ۱۴،‏ ۱۵؛‏ ۱-‏کر ۶:‏۱۱‏)‏ ہم میں سے کوئی یہ نہیں چاہتا کہ وہ بنی‌اِسرائیل کی طرح خدا کی نظر میں ناپاک ٹھہرے۔‏ لہٰذا ہم کیا کر سکتے ہیں تاکہ ہم ہمیشہ یہوواہ خدا کے نزدیک پاک رہیں اور صاف دل سے اُس کی عبادت کرتے رہیں؟‏ اِس مضمون میں ہم چار باتوں پر غور کریں گے جن کا ذکر نحمیاہ ۱۳ باب میں کِیا گیا ہے:‏ (‏۱)‏ بُری صحبتوں سے کنارہ کریں۔‏ (‏۲)‏ خدا کی عبادت کو فروغ دیں۔‏ (‏۳)‏ خدا کی خدمت کو سب سے اہم مقام دیں۔‏ (‏۴)‏ مسیحیوں کے طور پر اپنی شناخت قائم رکھیں۔‏ آئیں،‏ باری‌باری اِن باتوں پر غور کریں۔‏

بُری صحبتوں سے کنارہ کریں

نحمیاہ نے کیسے ظاہر کِیا کہ وہ یہوواہ خدا کے وفادار تھے؟‏ (‏پیراگراف ۵ اور ۶ کو دیکھیں۔‏)‏

۵،‏ ۶.‏ الیاسب اور طوبیاہ کون تھے؟‏ اور وہ دونوں اِتنے پکے دوست کیسے بن گئے ہوں گے؟‏

۵ نحمیاہ ۱۳:‏۴-‏۹ کو پڑھیں۔‏ اِس دُنیا میں ہم ناپاک لوگوں سے گِھرے ہوئے ہیں اِس لئے پاک رہنا ہمارے لئے آسان نہیں۔‏ اِس سلسلے میں ذرا الیاسب اور طوبیاہ پر غور کریں۔‏ الیاسب سردارکاہن تھے۔‏ طوبیاہ،‏ بنی‌عمون سے تعلق رکھتے تھے اور شاید وہ یہودیہ میں فارسی حکومت کے اہلکار تھے۔‏ جب نحمیاہ،‏ یروشلیم کی دیواروں کو دوبارہ تعمیر کر رہے تھے تو طوبیاہ اور اُن کے ساتھیوں نے اُن کی بڑی مخالفت کی تھی۔‏ (‏نحم ۲:‏۱۰‏)‏ اور اصل میں عمونیوں کو ہیکل میں آنا منع تھا۔‏ (‏است ۲۳:‏۳‏)‏ تو پھر سردارکاہن الیاسب نے طوبیاہ جیسے آدمی کو ہیکل کی کوٹھری میں رہنے کی اِجازت کیسے دے دی؟‏

۶ طوبیاہ اور الیاسب بڑے پکے دوست بن گئے تھے۔‏ طوبیاہ اور اُن کے بیٹے یہوحانان دونوں نے یہودی عورتوں سے شادی کی تھی اور بہت سے یہودی،‏ طوبیاہ کی بڑی تعریفیں کرتے تھے۔‏ (‏نحم ۶:‏۱۷-‏۱۹‏)‏ الیاسب کے ایک پوتے نے سنبلط کی بیٹی سے شادی کی تھی۔‏ سنبلط،‏ سامریہ کے حاکم تھے اور طوبیاہ کے جگری دوست تھے۔‏ (‏نحم ۱۳:‏۲۸‏)‏ یہ ساری کڑیاں ملانے سے ہم سمجھ سکتے ہیں کہ سردارکاہن الیاسب ایک غیریہودی اور خدا کے مخالف کے بہکاوے میں کیسے آ گئے۔‏ لیکن نحمیاہ نے طوبیاہ کے سامان کو ہیکل کی کوٹھری سے باہر پھینک کر یہ ظاہر کِیا کہ وہ یہوواہ خدا کے وفادار ہیں۔‏

۷.‏ کلیسیا کے بزرگ اور دوسرے بہن‌بھائی کیا کر سکتے ہیں تاکہ وہ خدا کی نظر میں ناپاک نہ ہوں؟‏

۷ ہم نے اپنی زندگی یہوواہ خدا کے لئے وقف کی ہے اِس لئے اُس کے وفادار رہنا ہمارے لئے سب سے اہم ہونا چاہئے۔‏ اگر ہم اُس کے حکموں کو نہیں مانیں گے تو ہم اُس کی نظر میں ناپاک ہو جائیں گے۔‏ ہمیں رشتےداروں کی وجہ سے بائبل کے اصولوں کو نظرانداز نہیں کرنا چاہئے۔‏ کلیسیا کے بزرگ اپنی سوچ کے مطابق نہیں بلکہ یہوواہ خدا کی سوچ کے مطابق چلتے ہیں۔‏ (‏۱-‏تیم ۵:‏۲۱‏)‏ وہ ہر ایسے کام سے دُور رہتے ہیں جس کی وجہ سے وہ خدا کی خوشنودی سے محروم ہو سکتے ہیں۔‏—‏۱-‏تیم ۲:‏۸‏۔‏

۸.‏ یہوواہ خدا کے تمام خادموں کو صحبتوں کے سلسلے میں کیا یاد رکھنا چاہئے؟‏

۸ ہمیں اِس بات کو یاد رکھنا چاہئے کہ ”‏بُری صحبتیں اچھی عادتوں کو بگاڑ دیتی ہیں۔‏“‏ (‏۱-‏کر ۱۵:‏۳۳‏)‏ کبھی‌کبھار ہمارے بعض رشتےدار بھی ہم پر بُرا اثر ڈال سکتے ہیں۔‏ الیاسب کے ساتھ بھی ایسا ہوا۔‏ جب یروشلیم کی دیواریں دوبارہ تعمیر ہو رہی تھیں تو اُنہوں نے اِس کام میں نحمیاہ کا ساتھ دے کر بڑی اچھی مثال قائم کی تھی۔‏ (‏نحم ۳:‏۱‏)‏ لیکن بعد میں اُنہوں نے طوبیاہ اور دوسرے لوگوں کے اثر میں آ کر ایسے کام کئے جن کی وجہ سے وہ خدا کی نظر میں ناپاک ہو گئے۔‏ یاد رکھیں کہ ایسے لوگوں کی صحبت آپ کے لئے اچھی ہوگی جو آپ کو اچھے کام کرنے کی ترغیب دیتے ہیں،‏ مثلاً بائبل کو پڑھنے،‏ اِجلاسوں میں جانے اور مُنادی کے کام میں حصہ لینے کی۔‏ ہم اپنے اُن رشتےداروں کی بڑی قدر کرتے ہیں جو ہمیں نیک کام کرنے کی ترغیب دیتے ہیں۔‏

خدا کی عبادت کو فروغ دیں

۹.‏ ‏(‏الف)‏ ہیکل میں یہوواہ خدا کی عبادت کا اِنتظام درہم‌برہم کیوں ہو گیا تھا؟‏ (‏ب)‏ نحمیاہ نے اِس صورتحال کے لئے کس کو ذمےدار ٹھہرایا؟‏

۹ نحمیاہ ۱۳:‏۱۰-‏۱۳ کو پڑھیں۔‏ جب نحمیاہ،‏ یروشلیم آئے تو اُنہوں نے دیکھا کہ لوگوں نے ہیکل کے لئے ہدیے دینا تقریباً بند کر دئے ہیں۔‏ چونکہ اب لاویوں کی ضرورتیں پوری نہیں ہو رہی تھیں اِس لئے وہ ہیکل کو چھوڑ کر اپنےاپنے کھیت میں کام کرنے چلے گئے تھے۔‏ نحمیاہ نے یہودیہ کے حاکموں کو اِس صورتحال کا قصوروار ٹھہرایا۔‏ لگتا ہے کہ وہ اپنے فرائض صحیح طرح سے انجام نہیں دے رہے تھے۔‏ یا تو وہ دہ‌یکی جمع نہیں کر رہے تھے یا پھر اِسے ہیکل میں نہیں دے رہے تھے حالانکہ یہ اُن کی ذمےداری تھی۔‏ (‏نحم ۱۲:‏۴۴‏)‏ لہٰذا نحمیاہ نے دہ‌یکی جمع کرنے کا اِنتظام کِیا اور قابلِ‌بھروسا آدمیوں کو مقرر کِیا تاکہ وہ ہیکل کے خزانوں کی نگرانی کریں اور دہ‌یکی لاویوں میں تقسیم کریں۔‏

۱۰،‏ ۱۱.‏ خدا کی عبادت کو فروغ دینے کے سلسلے میں ہمیں کیا اعزاز حاصل ہے؟‏

۱۰ ہم اِس سے کیا سیکھتے ہیں؟‏ یہوواہ خدا نے ہمیں یہ اعزاز بخشا ہے کہ ہم اپنے مال سے اُس کی تعظیم کریں۔‏ (‏امثا ۳:‏۹‏)‏ جب ہم اُس کی عبادت کو فروغ دینے کے لئے عطیات دیتے ہیں تو ہم یہوواہ خدا کو وہی لوٹاتے ہیں جو اصل میں اُسی نے ہمیں دیا ہے۔‏ (‏۱-‏توا ۲۹:‏۱۴-‏۱۶‏)‏ شاید ہم سوچیں کہ ہمارے عطیات بہت کم ہیں اِس لئے اِن سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔‏ لیکن اگر ہم نیک نیت سے عطیات دیتے ہیں تو یہوواہ خدا اِنہیں خوشی سے قبول کرتا ہے۔‏—‏۲-‏کر ۸:‏۱۲‏۔‏

۱۱ ایک میاں‌بیوی کی مثال پر غور کریں۔‏ وہ کئی سال تک خصوصی پہل‌کاروں کے ایک شادی‌شُدہ جوڑے کو ہفتے میں ایک بار کھانے پر بلاتے تھے۔‏ اُس میاں‌بیوی کے آٹھ بچے تھے۔‏ لیکن ماں کہتی تھی کہ ”‏جہاں میز پر دس پلیٹیں لگتی ہیں وہاں اگر دو اَور لگ جائیں گی تو کوئی فرق نہیں پڑتا۔‏“‏ ہفتے میں ایک بار کھانا کھلانا شاید اِتنی بڑی بات نہ لگے۔‏ لیکن وہ پہل‌کار اِس میاں‌بیوی کے بڑے شکرگزار تھے۔‏ اِن پہل‌کاروں کی صحبت سے اُس گھر کو بہت فائدہ ہوا۔‏ اُن کی حوصلہ‌افزا باتوں سے بچوں میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ وہ خدا کی خدمت میں آگے بڑھیں۔‏ بعد میں وہ سب کُل‌وقتی خدمت کرنے لگے۔‏

۱۲.‏ کلیسیا کے بزرگ اور خادم کس سلسلے میں اچھی مثال قائم کرتے ہیں؟‏

۱۲ ہم نحمیاہ سے ایک اَور سبق سیکھ سکتے ہیں۔‏ کلیسیا کے بزرگوں اور خادموں کو خدا کی عبادت کو فروغ دینے کے سلسلے میں ایک اچھی مثال قائم کرنی چاہئے۔‏ اِس سے کلیسیا کے دوسرے رُکنوں کو بہت فائدہ ہوتا ہے۔‏ کلیسیا کے بزرگ پولس رسول کی مثال سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔‏ پولس رسول نے خدا کی عبادت کو فروغ دیا اور ایسا کرنے کے لئے دوسروں کی بھی حوصلہ‌افزائی کی۔‏ مثال کے طور پر اُنہوں نے بہن‌بھائیوں کو یہ مشورہ دیا کہ وہ عطیات دینے کے لئے پہلے سے منصوبہ بنائیں۔‏—‏۱-‏کر ۱۶:‏۱-‏۳؛‏ ۲-‏کر ۹:‏۵-‏۷‏۔‏

خدا کی خدمت کو سب سے اہم مقام دیں

۱۳.‏ بعض یہودی سبت ماننے کے حکم کی خلاف‌ورزی کیسے کرتے تھے؟‏

۱۳ نحمیاہ ۱۳:‏۱۵-‏۲۱ کو پڑھیں۔‏ اگر ہمارا دھیان طرح‌طرح کی چیزیں حاصل کرنے پر رہتا ہے تو ہم آہستہ‌آہستہ یہوواہ خدا سے دُور ہو سکتے ہیں۔‏ خروج ۳۱:‏۱۳ کے مطابق یہوواہ خدا نے سبت کا دن اِس لئے مقرر کِیا تاکہ بنی‌اِسرائیل کو یاد رہے کہ وہ ایک پاک قوم ہیں۔‏ سبت کے دن پر اُنہیں خاندانی عبادت کرنی تھی،‏ دُعا کرنی تھی اور شریعت پر سوچ‌بچار کرنی تھی۔‏ لیکن نحمیاہ کے زمانے میں کئی لوگ سبت کے دن پر بھی معمول کے مطابق کام کرتے تھے۔‏ وہ خدا کی عبادت کو زیادہ اہمیت نہیں دیتے تھے۔‏ جب نحمیاہ نے دیکھا کہ سبت کے دن کاروبار ہوتا ہے تو اُنہوں نے سبت شروع ہونے سے پہلے شہر کے پھاٹک بند کروا دئے اور پردیسی تاجروں کو بھگا دیا۔‏

۱۴،‏ ۱۵.‏ ‏(‏الف)‏ اگر ہم پیسے کمانے میں حد سے زیادہ وقت لگاتے ہیں تو کیا ہو سکتا ہے؟‏ (‏ب)‏ ہم خدا کے آرام میں کیسے داخل ہو سکتے ہیں؟‏

۱۴ ہم نحمیاہ کی مثال سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟‏ ایک بات یہ ہے کہ ہمیں پیسے کمانے میں حد سے زیادہ وقت نہیں لگانا چاہئے ورنہ ہماری توجہ خدا کی خدمت سے ہٹ جائے گی۔‏ خاص طور پر اگر ہمارا کام ہمیں بہت اچھا لگتا ہے تو ہو سکتا ہے کہ ہم خدا کی نسبت اپنے کام کو زیادہ اہمیت دینے لگیں۔‏ یاد رکھیں کہ یسوع مسیح نے کہا تھا کہ ہم دو مالکوں کی خدمت نہیں کر سکتے۔‏ ‏(‏متی ۶:‏۲۴ کو پڑھیں۔‏)‏ نحمیاہ اگر چاہتے تو بہت پیسہ کما سکتے تھے۔‏ لیکن اُنہوں نے یروشلیم میں اپنا وقت کن کاموں میں لگایا؟‏ (‏نحم ۵:‏۱۴-‏۱۸‏)‏ اُنہوں نے صور کے لوگوں اور دوسرے تاجروں کے ساتھ کاروباری تعلقات نہیں بڑھائے بلکہ اپنی قوم کی مدد کی اور ایسے کام کئے جن سے یہوواہ خدا کے نام کی بڑائی ہوئی۔‏ اِسی طرح آج‌کل کلیسیا کے بزرگ اور خادم بھی کلیسیا کی بھلائی کے لئے کام کرتے ہیں۔‏ اور بہن‌بھائی اُن کے اِس جذبے کی دل سے قدر کرتے ہیں۔‏ اِس طرح کلیسیا میں محبت،‏ صلح اور سلامتی کو فروغ ملتا ہے۔‏—‏حز ۳۴:‏۲۵،‏ ۲۸‏۔‏

۱۵ آج‌کل مسیحیوں کو سبت منانا نہیں پڑتا۔‏ لیکن پولس رسول نے بتایا کہ ”‏خدا کی اُمت کے لئے سبت کا آرام باقی ہے۔‏“‏ پھر اُنہوں نے کہا کہ ”‏جو [‏خدا]‏ کے آرام میں داخل ہوا اُس نے بھی خدا کی طرح اپنے کاموں کو پورا کرکے آرام کِیا۔‏“‏ (‏عبر ۴:‏۹،‏ ۱۰‏)‏ ہم ایسے کام کرنے سے خدا کے آرام میں داخل ہو سکتے ہیں جن سے اُس کے مقصد کی حمایت ہو۔‏ کیا آپ خاندانی عبادت،‏ اِجلاسوں اور مُنادی کے کام کو اپنی زندگی میں سب سے زیادہ اہمیت دیتے ہیں؟‏ ہو سکتا ہے کہ ہمارا مالک یا ہمارے ساتھ کاروبار کرنے والے لوگ یہ کہیں کہ اِن کاموں میں سے کچھ کو قربان کرنے میں کوئی حرج نہیں۔‏ ایسی صورت میں ہمیں اُنہیں واضح الفاظ میں بتانا چاہئے کہ خدا کی خدمت ہماری زندگی میں سب سے اہم ہے۔‏ ہمیں مجازی معنوں میں شہر کے پھاٹکوں کو بند کرنا اور صور کے لوگوں کو بھگا دینا چاہئے تاکہ ہمارا دھیان خدا کی عبادت پر رہے۔‏ چونکہ خدا نے ہمیں مُقدس کِیا ہے اِس لئے ہمیں خود سے پوچھنا چاہئے کہ ”‏کیا میرے طرزِزندگی سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ مَیں یہوواہ خدا کی خدمت کے لئے وقف ہوں؟‏“‏—‏متی ۶:‏۳۳‏۔‏

مسیحیوں کے طور پر اپنی شناخت قائم رکھیں

۱۶.‏ نحمیاہ کے زمانے میں بنی‌اِسرائیل خدا کی پاک قوم کے طور پر اپنی شناخت کھونے کے خطرے میں کیوں تھے؟‏

۱۶ نحمیاہ ۱۳:‏۲۳-‏۲۷ کو پڑھیں۔‏ نحمیاہ کے زمانے میں کچھ اِسرائیلی مردوں نے غیریہودی عورتوں سے شادی کر لی تھی۔‏ نحمیاہ جب پہلی بار یروشلیم آئے تو اُنہوں نے بنی‌اِسرائیل کے اُمرا سے عہد کروایا تھا کہ وہ غیریہودیوں سے شادی نہیں کریں گے۔‏ (‏نحم ۹:‏۳۸؛‏ ۱۰:‏۳۰‏)‏ لیکن چند سال بعد واپس آ کر نحمیاہ نے دیکھا کہ اِنہی اُمرا میں سے کچھ نے غیریہودی عورتوں سے شادی کر لی تھی۔‏ یہاں تک کہ وہ خدا کی قوم کے طور پر اپنی شناخت کھونے والے تھے۔‏ اُن غیریہودی عورتوں کے بچے عبرانی زبان نہ تو بول سکتے تھے اور نہ ہی پڑھ سکتے تھے۔‏ سوال یہ تھا کہ جب وہ بڑے ہوں گے تو کیا وہ خود کو اِسرائیلی سمجھیں گے یا پھر اشدودی،‏ عمونی اور موآبی؟‏ عبرانی زبان سے واقف ہوئے بغیر وہ خدا کی شریعت کو بھلا کیسے سمجھ سکتے تھے؟‏ وہ یہوواہ خدا کی خوبیوں سے کیسے واقف ہو سکتے تھے؟‏ اگر اُن کی مائیں اپنے دیوتاؤں کی عبادت کرتی تھیں تو اِس بات کا کتنا اِمکان تھا کہ بچے بڑے ہو کر یہوواہ خدا کی عبادت کریں گے؟‏ یہ بہت ضروری تھا کہ اِس مسئلے کو جڑ سے اُکھاڑا جائے۔‏ اور نحمیاہ نے فوراً ایسا ہی کِیا۔‏—‏نحم ۱۳:‏۲۸‏۔‏

اپنے بچوں کی مدد کریں تاکہ وہ خدا کے ساتھ گہری دوستی قائم کر سکیں۔‏ (‏پیراگراف ۱۷ اور ۱۸ کو دیکھیں۔‏)‏

۱۷.‏ والدین یہوواہ خدا کے ساتھ گہری دوستی قائم کرنے میں اپنے بچوں کی مدد کیسے کر سکتے ہیں؟‏

۱۷ آج‌کل ہمیں بھی اپنے بچوں کی رہنمائی کرنی چاہئے تاکہ وہ مسیحیوں کے طور پر اپنی شناخت قائم کریں۔‏ والدین کو خود سے پوچھنا چاہئے:‏ کیا میرے بچوں کے ”‏ہونٹ پاک“‏ ہیں؟‏ کیا وہ پاک کلام کی سچائیوں کو سمجھتے ہیں اور اُن کے بارے میں بات کرتے ہیں؟‏ (‏صفن ۳:‏۹‏)‏ کیا اُن کی باتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ اُن پر خدا کی روح کا اثر ہے یا پھر دُنیا کی روح کا؟‏ اگر آپ کو اِس سلسلے میں بہتری کی گنجائش نظر آتی ہے تو مایوس نہ ہوں۔‏ مسیحیوں کے طور پر اپنی شناخت قائم کرنے میں وقت لگتا ہے۔‏ یہ نہ بھولیں کہ آپ کے بچے طرح‌طرح کے دباؤ کا سامنا کر رہے ہیں اور دُنیا اُن کو خدا کی راہ سے ہٹانے کی کوشش کر رہی ہے۔‏ اِس لئے صبر سے کام لیں اور خاندانی عبادت کے دوران اور دوسرے موقعوں پر اپنے بچوں کی مدد کریں تاکہ وہ خدا کے ساتھ گہری دوستی قائم کر سکیں۔‏ (‏است ۶:‏۶-‏۹‏)‏ شیطان کی دُنیا سے الگ رہنے کے فائدوں پر زور دیں۔‏ (‏یوح ۱۷:‏۱۵-‏۱۷‏)‏ کوشش کریں کہ آپ کی تعلیم اُن کے دل پر نقش ہو جائے۔‏

۱۸.‏ ہم کیوں کہہ سکتے ہیں کہ جتنی اچھی طرح والدین اپنے بچوں کی مدد کر سکتے ہیں،‏ کوئی اَور نہیں کر سکتا؟‏

۱۸ آخرکار ہر بچے کو خود یہ فیصلہ کرنا چاہئے کہ وہ خدا کی خدمت کرے گا یا نہیں۔‏ پھر بھی والدین بہت کچھ کر سکتے ہیں۔‏ آپ اپنے بچوں کے لئے ایک اچھی مثال قائم کر سکتے ہیں۔‏ آپ اُن کو واضح طور پر بتا سکتے ہیں کہ صحیح اور غلط کیا ہے۔‏ اور آپ اُن کو سمجھا سکتے ہیں کہ اُن کے فیصلوں کے کیا نتیجے نکل سکتے ہیں۔‏ جتنی اچھی طرح آپ اپنے بچوں کی مدد کر سکتے ہیں،‏ کوئی اَور نہیں کر سکتا۔‏ اُن کو آپ کی مدد کی ضرورت ہے تاکہ وہ اپنی زندگی یہوواہ خدا کے لئے وقف کرنے کا فیصلہ کریں اور اپنی مسیحی شناخت قائم رکھیں۔‏ ظاہر ہے کہ ہم سب کو خبردار رہنا چاہئے کہ ہم ”‏اپنی پوشاک“‏ کھو نہ بیٹھیں یعنی اُن خوبیوں اور معیاروں سے محروم نہ ہو جائیں جن سے مسیح کے پیروکاروں کے طور پر ہماری شناخت ہوتی ہے۔‏—‏مکا ۳:‏۴،‏ ۵؛‏ ۱۶:‏۱۵‏۔‏

‏”‏بھلائی کے لئے مجھے یاد کر“‏

۱۹،‏ ۲۰.‏ ہم کیا کر سکتے ہیں تاکہ یہوواہ خدا ہمیں بھلائی کے لئے یاد رکھے؟‏

۱۹ نحمیاہ کے زمانے میں ملاکی نبی نے لکھا کہ اُن لوگوں کے لئے ”‏جو [‏یہوواہ]‏ سے ڈرتے اور اُس کے نام کو یاد کرتے تھے اُس کے حضور یادگار کا دفتر لکھا گیا۔‏“‏ (‏ملا ۳:‏۱۶،‏ ۱۷‏)‏ اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہوواہ خدا اُن لوگوں کو کبھی نہیں بھولتا جو اُس کی فرمانبرداری کرتے ہیں اور اُس کے نام سے محبت کرتے ہیں۔‏—‏عبر ۶:‏۱۰‏۔‏

۲۰ نحمیاہ نے دُعا کی کہ ”‏اَے میرے خدا بھلائی کے لئے مجھے یاد کر۔‏“‏ (‏نحم ۱۳:‏۳۱‏)‏ اگر ہم چاہتے ہیں کہ یہوواہ خدا نحمیاہ کی طرح ہمیں بھی یاد رکھے تو ہمیں بُری صحبتوں سے کنارہ کرنا چاہئے،‏ خدا کی عبادت کو فروغ دیتے رہنا چاہئے،‏ یہوواہ خدا کی خدمت کو سب سے اہم مقام دینا چاہئے اور مسیحیوں کے طور پر اپنی شناخت قائم رکھنی چاہئے۔‏ آئیں،‏ ہم ’‏اپنے آپ کو آزمائیں کہ ہم ایمان پر ہیں یا نہیں۔‏‘‏ (‏۲-‏کر ۱۳:‏۵‏)‏ اگر ہم خدا کی نظر میں پاک رہیں گے تو وہ ہمیں بھلائی کے لئے یاد رکھے گا۔‏