یادوں کے ذخیرے سے
ایک بادشاہ کو ہمارا پیغام بہت پسند آیا
یہ اگست ۱۹۳۶ء کی بات ہے۔ رابرٹ نسبت اور جارج نسبت، سوازیلینڈ کے گاؤں لبامبا میں تھے جہاں اُس ملک کے بادشاہ کا گھر تھا۔ اِن دونوں بھائیوں کے پاس ایک گاڑی تھی جس میں لاؤڈ سپیکر اور ریکارڈنگز بجانے والی مشین لگی ہوئی تھی۔ وہ اِس گاؤں کے لوگوں کو گیتوں کی دُھنیں اور بھائی رتھرفورڈ کی تقریریں سنا رہے تھے۔ سوازیلینڈ کے بادشاہ سابوزا دوم اِنہیں سُن کر بہت خوش ہوئے۔ وہ لاؤڈ سپیکر اور اُس مشین کو خریدنا چاہتے تھے جس کے ذریعے موسیقی اور تقریریں سنائی جا رہی تھیں۔
رابرٹ نے بادشاہ سے معذرت کی اور اُنہیں بتایا کہ یہ چیزیں بیچنے کے لئے نہیں ہیں کیونکہ یہ کسی اَور کی امانت ہیں۔ بادشاہ نے پوچھا: ”یہ چیزیں کس کی ہیں؟“
رابرٹ نے جواب دیا: ”یہ چیزیں کسی اَور بادشاہ کی ہیں۔“ پھر سابوزا نے پوچھا: ”وہ کونسا بادشاہ ہے؟“ رابرٹ نے کہا: ”وہ خدا کی بادشاہت کا بادشاہ یسوع مسیح ہے۔“
سابوزا نے بڑے ادب سے کہا: ”وہ تو بہت عظیم بادشاہ ہے۔ مَیں بھلا اُس کی چیزیں لینے کی جُرأت کیسے کر سکتا ہوں۔“
رابرٹ نے بتایا: ”مَیں بادشاہ سابوزا کے مزاج سے بہت متاثر ہوا۔ اُنہیں انگریزی زبان پر عبور حاصل تھا مگر اُن میں شیخی اور غرور ذرا بھی نہیں تھا۔ وہ نہایت ہنسمکھ اِنسان تھے اور اُن سے ملنا اور بات کرنا بہت آسان تھا۔ مَیں اُن کے دفتر میں تقریباً ۴۵ منٹ تک اُن سے باتچیت کرتا رہا اور اِس وقت کے دوران جارج گاڑی سے لاؤڈ سپیکر کے ذریعے گیتوں کی دُھنیں سناتا رہا۔“
رابرٹ نے بتایا: ”اُسی دن ہم وہاں کے ایک سکول میں بھی گئے جس کا نام دی سوازی نیشنل سکول تھا۔ وہاں سب سے زیادہ دلچسپ بات واقع ہوئی۔ سکول کے پرنسپل نے بڑی خوشی سے ہمارا پیغام سنا۔ جب ہم نے اُسے بتایا کہ ہمارے پاس ریکارڈ کی ہوئی تقریریں ہیں جو ہم سارے سکول کو سنانا چاہتے ہیں تو اُس نے تقریباً ۱۰۰ طالبِعلموں کو بلایا اور اور اُنہیں گھاس پر بیٹھا دیا تاکہ وہ تقریریں سنیں۔ اُس نے ہمیں بتایا کہ اِس سکول میں لڑکوں کو کھیتیباڑی، باغبانی، عمارتسازی اور بڑھئی کا کام سکھایا جاتا ہے۔ اِس کے علاوہ اُنہیں انگریزی اور ریاضی پڑھائی جاتی ہے۔ اور لڑکیوں کو نرسنگ، خانہداری اور دوسرے شعبوں کی تعلیم دی جاتی ہے۔ اِس سکول کو بادشاہ سابوزا کی دادی نے بنوایا تھا۔“
(اُوپر) سکول کے طالبعلم جنہوں نے ۱۹۳۶ء میں تقریر سنی۔
سن ۱۹۳۳ء سے پہلکار گاؤں لبامبا میں جاتے تھے اور بادشاہ سابوزا بڑے شوق سے اُن کا پیغام سنتے تھے۔ ایک مرتبہ بادشاہ نے ۱۰۰ فوجیوں پر مشتمل اُس دستے کو ریکارڈ کی ہوئی تقریریں سننے
کے لئے بلایا جو اُن کی حفاظت پر مامور تھا۔ بادشاہ باقاعدگی سے ہماری کتابیں اور رسالے لیتے تھے۔ جلد ہی اُن کے پاس ہماری کتابوں اور رسالوں کی لائبریری بن گئی۔ اُس وقت سوازیلینڈ پر برطانیہ کی حکومت تھی۔ اور دوسری عالمی جنگ کے دوران برطانیہ نے ہماری کتابوں اور رسالوں پر پابندی لگا دی۔ پھر بھی بادشاہ سابوزا نے اِس لائبریری کو سنبھال کر رکھا۔بادشاہ سابوزا دوم ہمیشہ یہوواہ کے گواہوں کا پیغام سننے کے لئے تیار رہتے تھے۔ بعض اوقات وہ پادریوں کو بھی بلاتے تھے تاکہ وہ گواہوں کی تقریروں کو سنیں۔ ایک مرتبہ ایک بھائی جن کا نام ہلوی مشازی تھا، متی ۲۳ باب پر تقریر پیش کر رہے تھے۔ اُن کی باتیں سُن کر کچھ پادری غصے میں آ گئے اور اُنہیں چپ کرانے کی کوشش کرنے لگے۔ لیکن بادشاہ نے پادریوں کو روکا اور بھائی مشازی سے کہا کہ وہ اپنی تقریر جاری رکھیں۔ اِس کے علاوہ بادشاہ نے تمام حاضرین سے کہا کہ وہ اُن تمام حوالوں کو لکھیں جو تقریر کے دوران بتائے جا رہے ہیں۔
ایک اَور موقعے پر ایک پہلکار بھائی کی تقریر سُن کر چار پادریوں نے یہ اِعلان کِیا: ”اب سے ہم پادری نہیں بلکہ یہوواہ کے گواہ ہیں۔“ پھر اُنہوں نے اُس پہلکار بھائی سے کہا: ”ہمیں بھی وہ کتابیں دو جو بادشاہ کے پاس ہیں۔“
بادشاہ سابوزا جب تک زندہ رہے، وہ یہوواہ کے گواہوں کے ساتھ بڑی عزت سے پیش آئے۔ یہوواہ کے گواہ سوازیلینڈ کے بعض رسمورواج نہیں مانتے تھے۔ پھر بھی بادشاہ نے اُن پر کوئی اذیت نہ آنے دی۔ اِس وجہ سے گواہ بادشاہ کے بڑے شکرگزار تھے۔ جب وہ ۱۹۸۲ء میں فوت ہوئے تو سوازیلینڈ کے گواہوں کو بڑا دُکھ ہوا۔
سن ۲۰۱۳ء کے شروع تک سوازیلینڈ میں ۳۰۰۰ سے زیادہ مبشر تھے۔ اِس ملک کی آبادی ۱۰ لاکھ ہے۔ اِس کا مطلب ہے کہ اِس ملک میں ہر ۳۸۴ لوگوں میں سے ایک شخص یہوواہ کا گواہ ہے۔ پہلکاروں کی تعداد ۲۶۰ سے زیادہ ہے اور ۹۰ کلیسیائیں ہیں۔ سن ۲۰۱۲ء میں یادگاری تقریب پر ۷۴۹۶ لوگ حاضر ہوئے۔ واقعی اِس ملک میں یہوواہ کے گواہوں کی تعداد میں بہت اِضافہ ہونے کا اِمکان ہے۔ اِس میں کوئی شک نہیں کہ سوازیلینڈ میں ہمارے کام کی مضبوط بنیاد تب پڑی جب پہلکار، بادشاہ سابوزا سے ملے تھے۔—جنوبی افریقہ کے برانچ کے دفتر سے۔