مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

کیا آپ کو یہوواہ کی یاددہانیوں سے شادمانی ہوتی ہے؟‏

کیا آپ کو یہوواہ کی یاددہانیوں سے شادمانی ہوتی ہے؟‏

‏”‏مَیں نے تیری شہادتوں [‏یعنی یاددہانیوں]‏ کو اپنی ابدی میراث بنایا ہے۔‏“‏—‏زبور ۱۱۹:‏۱۱۱‏۔‏

۱.‏ ‏(‏الف)‏ لوگ یاددہانیوں کے لئے عموماً کس طرح کا ردِعمل ظاہر کرتے ہیں اور کیوں؟‏ (‏ب)‏ ایک مغرور شخص ہدایات کے لئے کیسا ردِعمل دِکھاتا ہے؟‏

لوگ یاددہانیوں یا ہدایات کے لئے فرق فرق ردِعمل ظاہر کرتے ہیں۔‏ مثال کے طور پر جب کسی شخص کا مالک اُسے کوئی یاددہانی کراتا ہے تو وہ اُس پر فوراً دھیان دیتا ہے۔‏ لیکن جب اُسی شخص کا دوست یا ملازم اُسے کوئی مشورہ دیتا ہے تو شاید وہ اِسے نظرانداز کر دیتا ہے۔‏ کچھ لوگ باربار نصیحت یا اِصلاح ملنے پر مایوس ہو جاتے ہیں یا پھر شرمندگی محسوس کرتے ہیں جبکہ بعض لوگوں میں اپنے اندر بہتری لانے کی خواہش پیدا ہوتی ہے۔‏ لوگوں کا ردِعمل اِس قدر فرق کیوں ہوتا ہے؟‏ اِس کی ایک وجہ غرور ہے۔‏ غرور اِنسان کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو ماند کر دیتا ہے۔‏ ایک مغرور شخص ہدایت اور مشورے کو رد کر دیتا ہے اور نقصان اُٹھاتا ہے۔‏—‏امثا ۱۶:‏۱۸‏۔‏

۲.‏ یہوواہ خدا کے بندے اُس کی ہدایات کی قدر کیوں کرتے ہیں؟‏

۲ یہوواہ خدا کے بندے ہدایات کی بڑی قدر کرتے ہیں،‏ خاص طور پر جب یہ پاک کلام پر مبنی ہوں۔‏ خدا کی یاددہانیاں ہمیں دانش بخشتی ہیں اور اِن پر غور کرنے سے ہم مال‌ودولت کے فریب میں آنے سے اور بدکاری اور نشہ‌بازی کی دَلدل میں پھنسنے سے بچتے ہیں۔‏ (‏امثا ۲۰:‏۱؛‏ ۲-‏کر ۷:‏۱؛‏ ۱-‏تھس ۴:‏۳-‏۵؛‏ ۱-‏تیم ۶:‏۶-‏۱۱‏)‏ اِس کے علاوہ خدا کی یاددہانیوں پر عمل کرنے سے ہمیں خوشی اور اِطمینان حاصل ہوتا ہے۔‏—‏یسع ۶۵:‏۱۴‏۔‏

۳.‏ ہمیں زبورنویس کی طرح کون‌سی سوچ اپنانی چاہئے؟‏

۳ یہوواہ خدا کی قربت میں رہنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم اُس کی ہدایت کے مطابق زندگی گزاریں۔‏ خدا کی یاددہانیوں کے لئے ہمیں بھی زبورنویس جیسی سوچ اپنانی چاہئے جس نے لکھا:‏ ”‏مَیں نے تیری شہادتوں [‏یعنی یاددہانیوں]‏ کو اپنی ابدی میراث بنایا ہے کیونکہ اُن سے میرے دل کو شادمانی ہوتی ہے۔‏“‏ (‏زبور ۱۱۹:‏۱۱۱‏)‏ زبورنویس کی طرح کیا ہم بھی خدا کے حکم خوشی سے مانتے ہیں یا پھر اِنہیں بوجھ سمجھتے ہیں؟‏ اگر ہمیں کبھی‌کبھار خدا کے قوانین کو ماننا مشکل لگتا ہے تو ہمیں مایوس نہیں ہونا چاہئے۔‏ ہم خدا کی بےمثال حکمت پر مبنی قوانین پر اپنا بھروسا مضبوط کر سکتے ہیں۔‏ آئیں،‏ اِس سلسلے میں تین طریقوں پر غور کریں۔‏

دُعا کرنے سے ہمارا بھروسا بڑھتا ہے

۴.‏ بادشاہ داؤد نے اچھے بُرے وقت میں کون‌سی مثال قائم کی؟‏

۴ بادشاہ داؤد کی زندگی میں بہت سے اُتار چڑھاؤ آئے۔‏ لیکن یہوواہ خدا پر اُن کا بھروسا کبھی کم نہ ہوا۔‏ اُنہوں نے کہا:‏ ”‏اَے [‏یہوواہ]‏!‏ مَیں اپنی جان تیری طرف اُٹھاتا ہوں۔‏ اَے میرے خدا!‏ مَیں نے تجھ پر توکل کِیا ہے۔‏“‏ (‏زبور ۲۵:‏۱،‏ ۲‏)‏ داؤد کا اپنے خالق پر بھروسا کیوں قائم رہا؟‏

۵،‏ ۶.‏ داؤد کی دُعاؤں سے ہم یہوواہ خدا کے ساتھ اُن کی دوستی کے بارے میں کیا سیکھتے ہیں؟‏

۵ بہت سے لوگ صرف اُسی وقت خدا سے دُعا کرتے ہیں جب اُن پر کوئی مشکل آتی ہے۔‏ ذرا سوچیں کہ اگر آپ کا کوئی دوست یا رشتےدار صرف تبھی آپ سے بات کرے جب اُسے آپ سے کوئی کام ہو یا اُسے پیسوں کی ضرورت ہو تو آپ کو کیسا لگے گا؟‏ شاید آپ سوچیں کہ وہ ایک مطلبی اِنسان ہے۔‏ بادشاہ داؤد ایسے نہیں تھے۔‏ وہ اچھے اور بُرے،‏ ہر طرح کے وقت میں خدا سے دُعا کرتے تھے۔‏ اُن کی دُعاؤں سے ظاہر ہوتا ہے کہ اُنہوں نے ساری زندگی خدا سے محبت کی اور اُس پر پورا بھروسا رکھا۔‏—‏زبور ۴۰:‏۸‏۔‏

۶ وہ یہوواہ خدا کا شکر بجا لاتے اور اُس کی حمد کرتے تھے۔‏ اُنہوں نے لکھا:‏ ”‏اَے [‏یہوواہ]‏ ہمارے رب!‏ تیرا نام تمام زمین پر کیسا بزرگ ہے!‏ تُو نے اپنا جلال آسمان پر قائم کِیا ہے۔‏“‏ (‏زبور ۸:‏۱‏)‏ اُن کی اِس بات سے ظاہر ہوتا ہے کہ خدا کے ساتھ اُن کی دوستی نہایت گہری تھی۔‏ وہ اپنے آسمانی باپ کی عظمت اور شان سے اِس قدر متاثر تھے کہ وہ ’‏دن‌بھر اُس کی تعریف‘‏ کرتے تھے۔‏—‏زبور ۳۵:‏۲۸‏۔‏

۷.‏ دُعا کے ذریعے خدا کے قریب جانے سے ہمیں کیا فائدہ ہوتا ہے؟‏

۷ داؤد کی طرح ہمیں بھی باقاعدگی سے خدا سے بات کرنی چاہئے تاکہ اُس پر ہمارا بھروسا اَور مضبوط ہو جائے۔‏ بائبل میں لکھا ہے:‏ ”‏خدا کے نزدیک جاؤ تو وہ تمہارے نزدیک آئے گا۔‏“‏ (‏یعقو ۴:‏۸‏)‏ دُعا کرنے سے نہ صرف ہم خدا کے قریب جاتے ہیں بلکہ دُعا خدا سے روحُ‌القدس حاصل کرنے کا ایک اہم ذریعہ بھی ہے۔‏‏—‏۱-‏یوحنا ۳:‏۲۲ کو پڑھیں۔‏

۸.‏ ہمیں دُعا میں رٹےرٹائے جملے کیوں اِستعمال نہیں کرنے چاہئیں؟‏

۸ جب آپ دُعا کرتے ہیں تو کیا آپ رٹےرٹائے جملے اِستعمال کرتے ہیں؟‏ اگر ایسا ہے تو دُعا کرنے سے پہلے تھوڑی دیر کے لئے غور کریں کہ آپ دُعا میں خدا سے کیا کہنا چاہتے ہیں۔‏ ذرا سوچیں کہ اگر آپ اپنے کسی دوست یا رشتےدار سے باربار ایک ہی بات کہیں تو کیا اُسے اچھا لگے گا؟‏ ہو سکتا ہے کہ وہ تنگ آ جائے اور آپ کی بات سننا نہ چاہے۔‏ بِلاشُبہ یہوواہ خدا اپنے وفادار بندوں کی دُعاؤں کو نظرانداز نہیں کرتا۔‏ پھر بھی ہماری کوشش ہونی چاہئے کہ ہم دُعا میں رٹےرٹائے جملے اِستعمال نہ کریں۔‏

۹،‏ ۱۰.‏ ‏(‏الف)‏ ہم کن‌کن چیزوں کے بارے میں دُعا کر سکتے ہیں؟‏ (‏ب)‏ ہم اپنی دُعاؤں میں بہتری کیسے لا سکتے ہیں؟‏

۹ اگر ہم خدا کے قریب جانا چاہتے ہیں تو یقیناً ہم دل کی گہرائیوں سے دُعا کریں گے۔‏ جتنا زیادہ ہم خدا کے سامنے اپنا دل کھول کر رکھیں گے اُتنا ہی ہمیں اُس کی قربت محسوس ہوگی اور اُس پر ہمارا بھروسا بڑھے گا۔‏ لیکن سوال یہ ہے کہ ہم کن‌کن چیزوں کے بارے میں دُعا کر سکتے ہیں؟‏ خدا کے کلام میں لکھا ہے:‏ ”‏ہر ایک بات میں تمہاری درخواستیں دُعا اور مِنت کے وسیلہ سے شکرگذاری کے ساتھ خدا کے سامنے پیش کی جائیں۔‏“‏ (‏فل ۴:‏۶‏)‏ اِس کا مطلب ہے کہ ہم ہر اُس بات کے بارے میں دُعا کر سکتے ہیں جس کا تعلق خدا کے ساتھ ہماری دوستی سے ہے۔‏

۱۰ خدا کے کلام میں ایسی دُعائیں درج ہیں جن پر غور کرنے سے ہم بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔‏ (‏۱-‏سمو ۱:‏۱۰،‏ ۱۱؛‏ اعما ۴:‏۲۴-‏۳۱‏)‏ مثال کے طور پر زبور کی کتاب میں بہت سی دُعائیں اور گیت درج ہیں۔‏ اِن میں خوشی اور غمی کے علاوہ اَور کئی احساسات کا اِظہار کِیا گیا ہے۔‏ ایسی دُعاؤں اور گیتوں کا جائزہ لینے سے ہم اپنی دُعاؤں میں بہتری لا سکتے ہیں۔‏

خدا کے وعدوں پر غور کرنے سے ہمارا بھروسا بڑھتا ہے

۱۱.‏ ہمیں خدا کی یاددہانیوں پر سوچ‌بچار کیوں کرنی چاہئے؟‏

۱۱ بادشاہ داؤد نے لکھا کہ یہوواہ خدا کی ”‏شہادت [‏یعنی یاددہانی]‏ برحق ہے۔‏ نادان کو دانش بخشتی ہے۔‏“‏ (‏زبور ۱۹:‏۷‏)‏ اِس آیت میں جس عبرانی لفظ کا ترجمہ ”‏نادان“‏ کِیا گیا ہے،‏ وہ ایک ناتجربہ‌کار شخص کی طرف بھی اِشارہ کرتا ہے۔‏ ایسا شخص خدا کے حکموں پر چلنے سے دانش‌مند بن سکتا ہے۔‏ لیکن پاک کلام میں بعض ایسے اصول اور قوانین درج ہیں جن پر ہمیں سوچ‌بچار کرنی چاہئے تاکہ ہم اِن سے بھرپور فائدہ حاصل کر سکیں۔‏ مثلاً پاک کلام میں کچھ اصول ایسے ہیں جو خون لگوانے،‏ سیاست اور جنگ میں حصہ لینے پر لاگو ہوتے ہیں۔‏ کچھ کا تعلق لباس اور بناؤسنگھار سے ہے۔‏ اور کچھ سکول میں یا ملازمت کی جگہ پر کھڑی ہونے والی صورتوں پر لاگو ہوتے ہیں۔‏ جب ہم اِن معاملوں میں خدا کی یاددہانیوں پر پہلے سے سوچ‌بچار کرتے ہیں تو ہم کسی بھی طرح کی صورتحال کا سامنا کرنے کے لئے تیار ہو سکتے ہیں۔‏ یوں خدا کے وفادار رہنے کے لئے ہمارا عزم مضبوط ہوتا ہے اور ہم بہت سی تکلیفوں سے بچنے کے قابل ہوتے ہیں۔‏—‏امثا ۱۵:‏۲۸‏۔‏

۱۲.‏ کن سوالوں پر غور کرنے سے ہم خدا کی یاددہانیوں کو اپنی ابدی میراث بنا سکتے ہیں؟‏

۱۲ اِس آخری زمانے میں کیا ہمارے طرزِزندگی سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ہم خدا کے وعدوں پر پورا ایمان رکھتے ہیں اور اُس کی خدمت کو سب سے زیادہ اہمیت دیتے ہیں؟‏ مثال کے طور پر خود سے پوچھیں:‏ ”‏کیا ہم مانتے ہیں کہ بڑا شہر بابل جلد تباہ ہونے والا ہے؟‏ کیا آج بھی ہم اِس بات پر پکا ایمان رکھتے ہیں کہ خدا اِس زمین کو فردوس بنائے گا اور ہمیں ہمیشہ کی زندگی عطا کرے گا؟‏ کیا ہم مُردوں کے جی اُٹھنے پر مضبوط ایمان رکھتے ہیں؟‏ کیا آج بھی ہم پورے جوش کے ساتھ مُنادی کا کام کر رہے ہیں یا پھر ہم ذاتی خواہشیں اور ضرورتیں پوری کرنے کے چکر میں پڑ گئے ہیں؟‏ کیا ہماری نظر میں ابھی بھی یہ بات اہم ہے کہ خدا کے نام کی بڑائی ہو اور یہ ثابت ہو کہ اُس کی حکمرانی ہی سب سے اچھی ہے؟‏“‏ ایسے سوالوں پر غور کرنے سے ہم زبورنویس کی بات کے مطابق خدا کی یاددہانیوں کو ”‏اپنی ابدی میراث“‏ بناتے ہیں۔‏—‏زبور ۱۱۹:‏۱۱۱‏۔‏

۱۳.‏ یسوع مسیح کے شاگرد اُن کی بعض باتوں کو کیوں نہ سمجھ پائے؟‏

۱۳ بائبل میں بعض ایسی باتیں درج ہیں جنہیں ہم ابھی پوری طرح نہیں سمجھتے کیونکہ یہوواہ خدا نے ابھی تک اُن پر روشنی نہیں ڈالی۔‏ یسوع مسیح نے کئی بار بتایا تھا کہ وہ دُکھ اُٹھائیں گے اور اُنہیں موت کے گھاٹ اُتارا جائے گا۔‏ لیکن اُن کے شاگرد اُن کی یہ باتیں سمجھ نہ پائے۔‏ ‏(‏متی ۱۲:‏۴۰؛‏ ۱۶:‏۲۱ کو پڑھیں۔‏)‏ شاگردوں کو یہ ساری باتیں تب سمجھ میں آئیں جب یسوع مسیح مُردوں میں سے جی اُٹھنے کے بعد اُنہیں دِکھائی دئے اور ”‏اُن کا ذہن کھولا تاکہ [‏وہ]‏ کتابِ‌مُقدس کو سمجھیں۔‏“‏ (‏لو ۲۴:‏۴۴-‏۴۶؛‏ اعما ۱:‏۳‏)‏ اِسی طرح ۳۳ء میں عیدِپنتِکُست پر جب رسولوں پر روحُ‌القدس نازل ہوئی تو تب اُنہیں یہ بات سمجھ میں آئی کہ خدا کی بادشاہت زمین پر نہیں بلکہ آسمان پر قائم ہوگی۔‏—‏اعما ۱:‏۶-‏۸‏۔‏

۱۴.‏ بیسویں صدی کے شروع میں سچے مسیحیوں نے کون‌سی اچھی مثال قائم کی؟‏

۱۴ بیسویں صدی کے شروع میں سچے مسیحیوں کو بھی ’‏آخری زمانے‘‏ کے بارے میں کچھ غلط‌فہمیاں تھیں۔‏ (‏۲-‏تیم ۳:‏۱‏)‏ مثال کے طور پر ۱۹۱۴ء میں بعض مسیحی یہ سوچتے تھے کہ وہ جلد ہی آسمان پر چلے جائیں گے۔‏ لیکن جب اُن کی اُمیدیں پوری نہ ہوئیں تو اُنہوں نے پاک صحیفوں پر مزید تحقیق کی اور اُنہیں پتہ چلا کہ ابھی تو پوری دُنیا میں بادشاہت کی مُنادی کرنا باقی ہے۔‏ (‏مر ۱۳:‏۱۰‏)‏ اِس لئے ۱۹۲۲ء میں ریاستہائےمتحدہ میں سیڈر پوائنٹ،‏ اوہائیو کے مقام پر بھائی رتھرفورڈ نے ایک بین‌الاقوامی اِجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا:‏ ”‏یسوع مسیح بادشاہ کے طور پر حکمرانی کر رہے ہیں۔‏ آپ سب اُن کے نمائندے ہیں۔‏ اِس لئے بادشاہ اور اُس کی بادشاہت کا اِشتہار دیں۔‏“‏ اُس وقت سے ”‏بادشاہی کی خوش‌خبری کی مُنادی“‏ یہوواہ کے گواہوں کی پہچان بن گئی ہے۔‏—‏متی ۴:‏۲۳؛‏ ۲۴:‏۱۴‏۔‏

۱۵.‏ اِس بات پر غور کرنے سے ہمیں کیا فائدہ ہوتا ہے کہ خدا نے آج تک اپنے ہر وعدے کو پورا کِیا ہے؟‏

۱۵ جب ہم اِس بات پر غور کرتے ہیں کہ یہوواہ خدا نے آج تک اپنے ہر وعدے کو پورا کِیا ہے تو ہمارا بھروسا بڑھتا ہے کہ وہ آئندہ بھی ایسا ہی کرے گا۔‏ مستقبل کے بارے میں اُس کے وعدوں پر غور کرنے سے یہ ہمارے ذہن میں تازہ رہتے ہیں اور ہمارا یقین مضبوط ہوتا ہے کہ یہ ضرور پورے ہوں گے۔‏

خدا کے حکموں پر عمل کرنے سے ہمارا بھروسا بڑھتا ہے

۱۶.‏ جب ہم پوری لگن سے خدا کی خدمت کرتے ہیں تو ہمیں کیا فائدہ ہوتا ہے؟‏

۱۶ یہوواہ خدا بےانتہا طاقت کا مالک ہے اور وہ بڑی محنت سے کام کرتا ہے۔‏ زبورنویس نے کہا:‏ ”‏اَے یاؔہ!‏ تجھ سا زبردست کون ہے؟‏ .‏ .‏ .‏ تیرا ہاتھ قوی اور تیرا دہنا ہاتھ بلند ہے۔‏“‏ (‏زبور ۸۹:‏۸،‏ ۱۳‏)‏ چونکہ یہوواہ خدا خود محنتی ہے اِس لئے جب ہم بادشاہت کے کام کو فروغ دینے کے لئے محنت کرتے ہیں تو وہ خوش ہوتا ہے۔‏ اُس کے بندے ”‏کاہلی کی روٹی نہیں“‏ کھاتے،‏ چاہے وہ بوڑھے ہوں یا جوان،‏ عورتیں ہوں یا مرد۔‏ (‏امثا ۳۱:‏۲۷‏)‏ جب ہم پوری لگن سے خدا کی خدمت کرتے ہیں تو اِس سے ہمیں بہت اِطمینان حاصل ہوتا ہے اور یہوواہ خدا بھی خوشی سے ہمارے مُنادی کے کام میں برکت ڈالتا ہے۔‏‏—‏زبور ۶۲:‏۱۲ کو پڑھیں۔‏

۱۷،‏ ۱۸.‏ خدا کے حکموں پر عمل کرنے سے اُس پر ہمارا بھروسا کیوں بڑھتا ہے؟‏ مثال دیں۔‏

۱۷ خدا کے حکموں پر عمل کرنے سے ہمارا بھروسا کیوں بڑھتا ہے؟‏ آئیں،‏ اِس سلسلے میں بنی‌اِسرائیل کی مثال پر غور کریں۔‏ ملک کنعان میں داخل ہونے کے لئے اُنہیں دریائےیردن کو پار کرنا تھا۔‏ یہوواہ خدا کی ہدایت کے مطابق کاہنوں کو عہد کا صندوق اُٹھا کر دریائےیردن میں کھڑے رہنا تھا۔‏ جب بنی‌اِسرائیل دریا کے کنارے پہنچے تو اُنہوں نے دیکھا کہ پانی بڑے زور شور سے بہہ رہا ہے۔‏ کیا اُنہوں نے دریا کے کنارے ڈیرے ڈال لئے اور پانی کے کم ہونے کا اِنتظار کرنے لگے؟‏ جی‌نہیں۔‏ اُنہوں نے یہوواہ خدا پر بھروسا کِیا اور اُس کی بات پر عمل کِیا۔‏ نتیجہ کیا نکلا؟‏ بائبل میں بتایا گیا ہے کہ جیسے ہی ’‏عہد کا صندوق اُٹھانے والے کاہنوں کے پاؤں پانی میں ڈوب گئے تو پانی رُک گیا۔‏ کاہن یردن کے بیچ سُوکھی زمین پر کھڑے رہے اور سب اِسرائیلی خشک زمین پر سے ہو کر گزرے۔‏‘‏ (‏یشو ۳:‏۱۲-‏۱۷‏)‏ ذرا سوچیں کہ ٹھاٹھیں مارتے ہوئے پانی کو ایک دم رُکتے ہوئے دیکھ کر بنی‌اِسرائیل کا حوصلہ کتنا بڑھا ہوگا!‏ واقعی خدا کا حکم ماننے سے اُن کا بھروسا مضبوط ہوا۔‏

کیا آپ بھی یہوواہ خدا پر ویسا ہی اِعتماد رکھتے ہیں جیسا یشوع کے زمانے میں خدا کے بندے رکھتے تھے؟‏ (‏پیراگراف ۱۷ اور ۱۸ کو دیکھیں۔‏)‏

۱۸ یہ سچ ہے کہ آج‌کل یہوواہ خدا ایسے معجزے نہیں کرتا۔‏ لیکن جب اُس کے بندے اُس کے حکموں پر عمل کرتے ہیں تو وہ اُنہیں برکتیں ضرور بخشتا ہے۔‏ وہ اُنہیں اپنی پاک روح کے ذریعے ہمت اور طاقت دیتا ہے تاکہ وہ پوری دُنیا میں بادشاہت کی خوش‌خبری سنا سکیں۔‏ یہوواہ خدا کے سب سے بڑے گواہ یسوع مسیح نے وعدہ کِیا تھا کہ وہ اِس کام میں اپنے شاگردوں کی مدد کریں گے۔‏ اُنہوں نے کہا تھا:‏ ”‏تُم جا کر سب قوموں کو شاگرد بناؤ .‏ .‏ .‏ اور دیکھو مَیں دُنیا کے آخر تک ہمیشہ تمہارے ساتھ ہوں۔‏“‏ (‏متی ۲۸:‏۱۹،‏ ۲۰‏)‏ بہت سے یہوواہ کے گواہ جو پہلے شرمیلے تھے اور لوگوں کے ساتھ بات کرنے سے گھبراتے تھے،‏ اب وہ پاک روح کی مدد سے بڑی دلیری سے مُنادی کا کام کر رہے ہیں۔‏‏—‏زبور ۱۱۹:‏۴۶؛‏ ۲-‏کرنتھیوں ۴:‏۷ کو پڑھیں۔‏

۱۹.‏ اگر ہم بڑھاپے یا اپنی کسی بیماری کی وجہ سے مُنادی کے کام میں زیادہ حصہ نہیں لے پاتے تو ہمیں کیا یقین رکھنا چاہئے؟‏

۱۹ ہمارے بعض بہن‌بھائی بڑھاپے یا بیماری کی وجہ سے مُنادی کے کام میں زیادہ حصہ نہیں لے پاتے۔‏ پھر بھی وہ یقین رکھ سکتے ہیں کہ ”‏رحمتوں کا باپ اور ہر طرح کی تسلی کا خدا“‏ اُن کے حالات کو سمجھتا ہے۔‏ (‏۲-‏کر ۱:‏۳‏)‏ مُنادی کے کام کو فروغ دینے کے لئے ہم جو کچھ بھی کرتے ہیں،‏ وہ اُس کی بڑی قدر کرتا ہے۔‏ یہ سچ ہے کہ اپنے حالات کے مطابق ہم مُنادی کے کام میں جتنا وقت لگا سکتے ہیں اُتنا ہمیں لگانا چاہئے۔‏ لیکن ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ ہماری نجات کا دارومدار اِس بات پر ہے کہ ہم یسوع مسیح کی قربانی پر مضبوط ایمان رکھیں۔‏—‏عبر ۱۰:‏۳۹‏۔‏

۲۰،‏ ۲۱.‏ ہم کیسے ظاہر کر سکتے ہیں کہ ہم خدا پر پورا بھروسا رکھتے ہیں؟‏

۲۰ جتنا ہمارے لئے ممکن ہو،‏ ہمیں اپنے وقت،‏ طاقت اور وسائل کو خدا کی خدمت کرنے کے لئے اِستعمال کرنا چاہئے۔‏ ہم پورے دل‌وجان سے ”‏بشارت کا کام انجام“‏ دینا چاہتے ہیں کیونکہ اِس کی بدولت بہت سے لوگ ’‏سچائی کی پہچان تک پہنچتے‘‏ ہیں۔‏ (‏۲-‏تیم ۴:‏۵؛‏ ۱-‏تیم ۲:‏۴‏)‏ یہوواہ خدا کی بڑائی اور تعظیم کرنے سے ہمیں بےشمار برکتیں ملتی ہیں۔‏ (‏امثا ۱۰:‏۲۲‏)‏ دل‌وجان سے خدا کی خدمت کرنے سے اُس پر ہمارا بھروسا اِتنا مضبوط ہو جائے گا کہ توڑے سے بھی نہیں ٹوٹے گا۔‏—‏روم ۸:‏۳۵-‏۳۹‏۔‏

۲۱ ہم دیکھ چکے ہیں کہ یہوواہ خدا کی حکمت اور ہدایات پر اپنے اِعتماد کو مضبوط کرنے کے لئے ہمیں کوشش کرنی پڑتی ہے۔‏ لہٰذا باقاعدگی سے دُعا کریں۔‏ اِس بات پر غور کریں کہ خدا نے ماضی میں بڑے شان‌دار طریقے سے اپنے وعدے پورے کئے اور وہ آئندہ بھی ایسا ہی کرے گا۔‏ اِس کے علاوہ اُس کے حکموں کے مطابق زندگی گزاریں۔‏ یہوواہ خدا کے قانون اور حکم ہمیشہ قائم رہیں گے اور اگر آپ اِن پر بھروسا کریں گے تو آپ بھی ہمیشہ قائم اور آباد رہیں گے۔‏