مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

کیا آپ نے خود کو پوری طرح بدل لیا ہے؟‏

کیا آپ نے خود کو پوری طرح بدل لیا ہے؟‏

‏”‏عقل نئی ہو جانے سے اپنی صورت بدلتے جاؤ۔‏“‏ —‏روم ۱۲:‏۲‏۔‏

۱،‏ ۲.‏ ہم جس ماحول میں پرورش پاتے ہیں،‏ اُس کا ہم پر کیا اثر ہوتا ہے؟‏

ہم جس ماحول میں پرورش پاتے ہیں،‏ اُس کا ہم پر گہرا اثر ہوتا ہے۔‏ ہمارے لباس،‏ ہماری خوراک یہاں تک کہ ہمارے طورطریقوں کا تعلق بڑی حد تک ہمارے معاشرے اور ہماری ثقافت سے ہوتا ہے۔‏

۲ لیکن کچھ باتیں لباس اور خوراک کے اِنتخاب سے زیادہ اہم ہوتی ہیں۔‏ مثال کے طور پر جس معاشرے میں ہم پرورش پاتے ہیں،‏ اُس میں ہمیں سکھایا جاتا ہے کہ کیا صحیح ہے اور کیا غلط ہے۔‏ مگر بعض معاملوں میں ہم صحیح اور غلط کا فیصلہ خود کرتے ہیں۔‏ ہمارے فیصلوں میں ہمارے ضمیر کا بھی عمل‌دخل ہوتا ہے۔‏ بائبل میں بتایا گیا ہے کہ ”‏وہ قومیں جو شریعت نہیں رکھتیں اپنی طبیعت [‏یعنی ضمیر]‏ سے شریعت کے کام کرتی ہیں۔‏“‏ (‏روم ۲:‏۱۴‏)‏ لہٰذا کیا اِس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کسی معاملے میں خدا نے کوئی واضح حکم نہیں دیا تو ہم اپنی ثقافت اور معاشرے کے اصولوں کے مطابق فیصلہ کر سکتے ہیں؟‏

۳‏.‏ کن دو وجوہات کی بِنا پر سچے مسیحی اپنے معاشرے کے اصولوں کے مطابق فیصلہ نہیں کرتے؟‏

۳ سچے مسیحی کم‌ازکم دو وجوہات کی بِنا پر اپنی ثقافت اور معاشرے کے اصولوں کے مطابق فیصلہ نہیں کرتے۔‏ پہلی وجہ یہ ہے کہ ہم سب خطاکار ہیں اِس لئے ہم ”‏اپنی روِش میں اپنے قدموں کی راہنمائی نہیں“‏ کر سکتے۔‏ (‏امثا ۲۸:‏۲۶؛‏ یرم ۱۰:‏۲۳‏)‏ بائبل میں بتایا گیا ہے کہ ”‏ایسی راہ بھی ہے جو اِنسان کو سیدھی معلوم ہوتی ہے پر اُس کی اِنتہا میں موت کی راہیں ہیں۔‏“‏ (‏امثا ۱۶:‏۲۵‏)‏ دوسری وجہ یہ ہے کہ شیطان اِس ’‏جہان کا خدا‘‏ ہے۔‏ اِس دُنیا کی سوچ پر اُس کا قبضہ ہے اور وہی اِس دُنیا کے معیار طے کرتا ہے۔‏ (‏۲-‏کر ۴:‏۴؛‏ ۱-‏یوح ۵:‏۱۹‏)‏ اِس لئے اگر ہم خدا کی خوشنودی حاصل کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں رومیوں ۱۲:‏۲ میں درج نصیحت پر عمل کرنا چاہئے۔‏ ‏(‏اِس آیت کو پڑھیں۔‏)‏

۴.‏ اِس مضمون میں ہم کن سوالوں پر غور کریں گے؟‏

۴ آئیں،‏ رومیوں ۱۲:‏۲ میں سے کچھ اہم باتوں پر غور کریں۔‏ (‏۱)‏ ہمیں ”‏اپنی صورت بدلتے“‏ رہنے کی ضرورت کیوں ہے؟‏ (‏۲)‏ ’‏اپنی صورت بدلنے‘‏ میں کیا کچھ شامل ہے؟‏ (‏۳)‏ اور ہم یہ کیسے کر سکتے ہیں؟‏

ہمیں ”‏اپنی صورت بدلتے“‏ رہنے کی ضرورت کیوں ہے؟‏

۵.‏ رومیوں ۱۲:‏۲ میں درج نصیحت خاص طور پر کن کے لئے تھی؟‏

۵ پولسُ رسول نے ۵۶ء میں رومیوں کے نام جو خط لکھا،‏ وہ شہر روم میں رہنے والے تمام لوگوں کے لئے نہیں تھا۔‏ پولسُ رسول اپنے ممسوح بہن‌بھائیوں سے مخاطب تھے۔‏ (‏روم ۱:‏۷‏)‏ اُنہوں نے نصیحت کی کہ ”‏اِس جہان کے ہم‌شکل نہ بنو۔‏“‏ جب اُنہوں نے اِصطلاح ”‏اِس جہان“‏ اِستعمال کی تو وہ دراصل رومی لوگوں کے معیاروں،‏ رسموں اور طورطریقوں کی طرف اِشارہ کر رہے تھے۔‏ غور کریں کہ اُنہوں نے مسیحیوں کو ’‏اِس جہان کے ہم‌شکل بننے‘‏ سے منع کِیا۔‏ اِس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ بعض مسیحی رومی معاشرے سے متاثر ہو رہے تھے۔‏ وہ مسیحی کس طرح کے ماحول میں رہ رہے تھے؟‏

۶،‏ ۷.‏ رومی معاشرے میں رہنے والے مسیحیوں کو کس مشکل صورتحال کا سامنا تھا؟‏

۶ روم میں آج بھی ہزاروں سال پُرانے مندروں،‏ مقبروں،‏ مجسّموں اور تھیئٹروں کے آثار موجود ہیں۔‏ اِن پُرانی عمارتوں اور مجسّموں کو دیکھ کر ہمیں رومی لوگوں کے رہن‌سہن اور مذہبی رسم‌ورواج کا اندازہ ہوتا ہے۔‏ تاریخ کی کتابوں سے پتہ چلتا ہے کہ وہاں رتھوں کی خطرناک دوڑیں ہوتی تھیں،‏ ہزاروں تماشائیوں کے سامنے سورما اپنی آخری سانس تک لڑتے تھے۔‏ اِس کے علاوہ وہاں بہت سے ڈرامے بھی ہوتے تھے جن میں بےہودہ منظر دِکھائے جاتے تھے۔‏ روم ایک تجارتی شہر تھا اِس لئے وہاں دولت کمانے کے بھی بڑے موقعے تھے۔‏—‏روم ۶:‏۲۱؛‏ ۱-‏پطر ۴:‏۳،‏ ۴‏۔‏

۷ اگرچہ رومی لوگ بہت سے دیوتاؤں کی پوجا کرتے تھے اور اُن کے لئے عالیشان مندر بناتے تھے پھر بھی اُن کی عبادت محض رسمی تھی۔‏ بچوں کی پیدائش،‏ شادی‌بیاہ یا پھر جنازوں جیسے موقعوں پر مذہبی رسومات میں شریک ہونے کو ہی وہ اپنی عبادت سمجھتے تھے۔‏ روم میں رہنے والے بہت سے مسیحی ایسے ہی ماحول سے نکل کر آئے تھے۔‏ اِس لئے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اُن کے لئے خدا سے گہری دوستی پیدا کرنا اِتنا آسان نہیں تھا۔‏ اُنہیں اپنے آپ کو پوری طرح بدلنے کی ضرورت تھی۔‏ بپتسمہ لینے کے بعد بھی اُنہیں اپنے اندر تبدیلیاں لانے کا عمل جاری رکھنا تھا۔‏

۸‏.‏ آج‌کل مسیحیوں کے لئے کون‌سا خطرہ موجود ہے؟‏

۸ آج‌کل بھی اِس دُنیا میں بہت سے ایسے پھندے ہیں جن میں مسیحی پھنس سکتے ہیں۔‏ اِس کی وجہ یہ ہے کہ دُنیا کی روح ہوا کی طرح ہر طرف پھیلی ہوئی ہے۔‏ ‏(‏افسیوں ۲:‏۲،‏ ۳؛‏ ۱-‏یوحنا ۲:‏۱۶ کو پڑھیں۔‏)‏ ہم ایسے لوگوں کے بیچ رہتے ہیں جو دُنیا کی سوچ اور معیاروں کے مطابق چلتے ہیں۔‏ اِس لئے اِس دُنیا کے رنگ میں رنگنے کا خطرہ ہر طرف موجود ہے۔‏ لہٰذا یہ بہت اہم ہے کہ ہم پولسُ رسول کی نصیحت کے مطابق ’‏اِس جہان کے ہم‌شکل نہ بنیں اور اپنی صورت بدلتے جائیں۔‏‘‏ آئیں،‏ دیکھیں کہ ’‏اپنی صورت بدلنے‘‏ میں کیا کچھ شامل ہے۔‏

‏’‏اپنی صورت بدلنے‘‏ میں کیا کچھ شامل ہے؟‏

۹‏.‏ بپتسمہ لینے سے پہلے ایک شخص اپنی زندگی میں کون‌سی تبدیلیاں کرتا ہے؟‏

۹ جب ایک شخص بائبل سے تعلیم پاتا ہے اور اِس کے مطابق زندگی گزارتا ہے تو وہ خدا کے نزدیک آ جاتا ہے۔‏ وہ جھوٹی مذہبی رسموں اور اپنی بُری عادتوں کو ترک کر دیتا ہے اور ’‏نئی اِنسانیت کو پہن‘‏ لیتا ہے۔‏ (‏افس ۴:‏۲۲-‏۲۴‏)‏ خوشی کی بات ہے کہ ہر سال لاکھوں لوگ یہ قدم اُٹھاتے ہیں اور اپنی زندگی خدا کے لئے وقف کرکے بپتسمہ لیتے ہیں۔‏ اِس سے یقیناً یہوواہ خدا کو بہت خوشی ہوتی ہے۔‏ (‏امثا ۲۷:‏۱۱‏)‏ لیکن ’‏اپنی صورت بدلنے‘‏ میں کچھ اَور بھی شامل ہے۔‏

شیطان کی دُنیا سے نکلنے کے لئے لوگوں کو اپنی زندگی پوری طرح بدلنے کی ضرورت ہے۔‏ (‏پیراگراف ۹ کو دیکھیں۔‏)‏

۱۰.‏ خود کو بدلنے اور اپنے اندر بہتری لانے میں کیا فرق ہے؟‏

۱۰ اپنے اندر بہتری لانے اور اپنے آپ کو بالکل بدل دینے میں بڑا فرق ہے۔‏ یہ سچ ہے کہ ہم اپنی بُری عادتوں،‏ گندی زبان اور بُرے کاموں کو ترک کرنے سے اپنی شخصیت میں بہتری لاتے ہیں۔‏ لیکن ایسا تو وہ لوگ بھی کرتے ہیں جو بائبل کی تعلیمات سے واقف نہیں۔‏ بائبل کی ایک لغت کے مطابق رومیوں ۱۲:‏۲ میں درج اِصطلاح ”‏اپنی صورت بدلتے جاؤ“‏ روحُ‌القدس کے ذریعے اپنی سوچ کو بالکل بدل دینے کی طرف بھی اِشارہ کرتی ہے۔‏ لہٰذا مسیحیوں کے طور پر ہم کیا کر سکتے ہیں تاکہ ہماری سوچ بالکل نئی ہو جائے؟‏

۱۱.‏ ایک شخص کو ’‏اپنی صورت بدلنے‘‏ کے لئے پولسُ رسول کی کس نصیحت پر عمل کرنے کی ضرورت ہے؟‏

۱۱ پولسُ رسول نے لکھا:‏ ”‏عقل نئی ہو جانے سے اپنی صورت بدلتے جاؤ۔‏“‏ ویسے تو لفظ عقل ہماری سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے تعلق رکھتا ہے۔‏ لیکن جب بائبل میں یہ لفظ اِستعمال ہوتا ہے تو یہ ہمارے رویے اور رُجحان کی طرف بھی اِشارہ کرتا ہے۔‏ رومیوں کے نام خط کے شروع میں پولسُ رسول نے ایسے لوگوں کا ذکر کِیا جو ”‏ناپسندیدہ عقل“‏ ظاہر کر رہے تھے۔‏ ایسے لوگ ”‏ناراستی بدی لالچ اور بدخواہی سے بھر گئے اور حسد خون‌ریزی جھگڑے مکاری اور بغض سے معمور“‏ تھے۔‏ (‏روم ۱:‏۲۸-‏۳۱‏)‏ جو لوگ روم میں مسیحی بنے تھے،‏ اُنہوں نے ایسے ہی ماحول میں پرورش پائی تھی۔‏ اِسی لئے پولسُ رسول نے اُنہیں اپنی عقل یعنی اپنے رویے اور رُجحان کو بدلنے کی نصیحت کی۔‏

‏’‏ہر طرح کا قہر اور غصہ اور شوروغل اور بدگوئی تُم سے دُور کی جائیں۔‏‘‏—‏افس ۴:‏۳۱‏۔‏

۱۲.‏ آج‌کل کون‌سے نظریے عام ہیں؟‏ اور یہ ہم پر کیا اثر ڈال سکتے ہیں؟‏

۱۲ آج بھی بہت سے لوگوں کی سوچ ویسی ہی ہے جیسی قدیم شہر روم میں رہنے والے لوگوں کی تھی۔‏ کئی لوگوں کا خیال ہے کہ اب زمانہ بدل چُکا ہے اور اِس نئے زمانے میں اصولوں اور معیاروں کے مطابق چلنا یا دوسروں کو اِن کی پابندی کرنے پر مجبور کرنا بڑی دقیانوسی بات ہے۔‏ بہت سے والدین اور ٹیچر بچوں کو اپنی مرضی سے زندگی گزارنے کی کُھلی چُھوٹ دیتے ہیں۔‏ وہ مانتے ہیں کہ ہر شخص جیسا چاہے ویسا کرنے کا حق رکھتا ہے۔‏ خدا پر ایمان رکھنے کا دعویٰ کرنے والے بعض لوگ بھی اُس کے حکموں پر عمل کرنا ضروری نہیں سمجھتے۔‏ (‏زبور ۱۴:‏۱‏)‏ ہم ایسے لوگوں کی سوچ سے متاثر ہو سکتے ہیں کیونکہ ہم اِن کے بیچ رہتے ہیں۔‏ مثال کے طور پر ہم اُن ہدایات کو نظرانداز کرنے کے خطرے میں پڑ سکتے ہیں جو ہمیں کلیسیا کی طرف سے ملتی ہیں۔‏ شاید ہم اِن ہدایات پر تنقید کرنے لگیں۔‏ اور جب ہمیں اِنٹرنیٹ کے اِستعمال،‏ تفریح اور اعلیٰ تعلیم کے سلسلے میں نصیحت کی جاتی ہے تو شاید ہم اُس سے بھی متفق نہ ہوں۔‏

۱۳.‏ ہمیں اپنا جائزہ کیوں لینا چاہئے؟‏

۱۳ اگر ہم اِس ”‏جہان کے ہم‌شکل“‏ بننے سے بچنا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنی سوچ،‏ احساسات اور اِرادوں کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔‏ دوسرے لوگ شاید ہمیں داد دیں کہ ہم بڑی اچھی طرح خدا کی خدمت کر رہے ہیں۔‏ لیکن وہ ہمارے اندر جھانک کر نہیں دیکھ سکتے۔‏ یہ صرف ہم ہی جانتے ہیں کہ ہم اپنی سوچ اور اِرادوں کو بائبل کے اصولوں کے مطابق بدل رہے ہیں یا نہیں۔‏‏—‏یعقوب ۱:‏۲۳-‏۲۵ کو پڑھیں۔‏

ہم خود کو کیسے بدل سکتے ہیں؟‏

۱۴.‏ ہم یہ کیسے معلوم کر سکتے ہیں کہ ہمیں خود میں تبدیلیاں کرنے کی ضرورت ہے؟‏

۱۴ ہم دیکھ چکے ہیں کہ ’‏اپنی صورت بدلنے‘‏ کا مطلب اپنی سوچ،‏ رویے اور رحجان کو بدلنا ہے۔‏ اور اِس کے لئے ہمیں اپنے دل کو جانچنے کی ضرورت ہے۔‏ مگر ہم اپنے دل کو کیسے جانچ سکتے ہیں؟‏ بائبل کا مطالعہ کرنے سے۔‏ بائبل میں درج ہدایات کے لئے ہمارے ردِعمل سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہمارے دل میں کیا ہے۔‏ یوں ہم یہ سمجھ پائیں گے کہ ہمیں اپنے اندر کون‌سی تبدیلیاں کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ہم خدا کی ”‏کامل مرضی“‏ پر چل سکیں۔‏—‏روم ۱۲:‏۲؛‏ عبر ۴:‏۱۲‏۔‏

۱۵.‏ جب یہوواہ خدا ہمیں ڈھالتا ہے تو ہم میں کس لحاظ سے تبدیلی آتی ہے؟‏

۱۵ یسعیاہ ۶۴:‏۸ کو پڑھیں۔‏ اِس آیت میں یسعیاہ نبی نے جو تمثیل دی،‏ اُس سے ہم بہت اہم بات سیکھتے ہیں۔‏ یہوواہ خدا ایک کمہار کی طرح ہمیں ڈھالتا ہے۔‏ لیکن وہ ہماری ظاہری شکل‌وصورت کو نہیں بلکہ ہماری سوچ اور اِرادوں کو ڈھالتا ہے۔‏ اگر ہم یہوواہ خدا کے معیاروں کے مطابق ڈھلنے کے لئے تیار رہتے ہیں تو ہم اِس دُنیا کے اثر کا مقابلہ کرنے کے قابل ہوتے ہیں۔‏ یہوواہ خدا ہمیں اپنے معیاروں کے مطابق کیسے ڈھالتا ہے؟‏

۱۶،‏ ۱۷.‏ ‏(‏الف)‏ کمہار ایک اچھا برتن بنانے کے لئے مٹی کے ساتھ کیا کرتا ہے؟‏ (‏ب)‏ پاک کلام کو پڑھنے اور اِس سوچ‌بچار کرنے سے ہم ایک ایسا برتن کیسے بن سکتے ہیں جسے خدا قیمتی خیال کرتا ہے؟‏

۱۶ ایک اچھا برتن بنانے کے لئے کمہار بہت اچھی مٹی اِستعمال کرتا ہے۔‏ لیکن برتن بنانے سے پہلے وہ دو اہم کام کرتا ہے۔‏ سب سے پہلے وہ مٹی میں پانی ملا کر اُسے چھانتا ہے تاکہ مٹی صاف ہو جائے۔‏ پھر وہ مٹی میں مناسب مقدار میں پانی ملا کر اِسے گُوندھتا ہے تاکہ جب اُسے ڈھالا جائے تو وہ خراب نہ ہو۔‏

۱۷ غور کریں کہ کمہار نہ صرف مٹی کو صاف کرنے کے لئے بلکہ اِسے نرم کرنے کے لئے بھی پانی اِستعمال کرتا ہے۔‏ یوں وہ اِس مٹی سے ہر طرح کے برتن بناتا ہے،‏ یہاں تک کے بہت قیمتی برتن بھی۔‏ جس طرح ایک کمہار مٹی کو صاف کرنے اور ڈھالنے کے لئے پانی اِستعمال کرتا ہے اُسی طرح خدا ہمیں ڈھالنے کے لئے اپنے کلام کو اِستعمال کرتا ہے۔‏ بائبل کا مطالعہ کرنے سے ہمیں اپنی پُرانی سوچ رد کرنے اور خدا کی سوچ اپنانے میں مدد ملتی ہے۔‏ یوں ہم ایک ایسے برتن بن جاتے ہیں جسے خدا قیمتی خیال کرتا ہے۔‏ (‏افس ۵:‏۲۶‏)‏ ہمیں باربار یہ نصیحت کی جاتی ہے کہ ہم ہر روز بائبل کو پڑھیں اور باقاعدگی سے اِجلاسوں میں جائیں۔‏ ہمیں یہ نصیحت کیوں کی جاتی ہے؟‏ کیونکہ اِس پر عمل کرنے سے ہم خدا کی معیاروں کے مطابق ڈھلتے ہیں۔‏—‏زبور ۱:‏۲؛‏ اعما ۱۷:‏۱۱؛‏ عبر ۱۰:‏۲۴،‏ ۲۵‏۔‏

خدا کے کلام کے مطابق ڈھلنے سے ہم اپنے مسائل کو پہلے کی نسبت زیادہ اچھی طرح حل کر سکتے ہیں۔‏ (‏پیراگراف ۱۸ کو دیکھیں۔‏)‏

۱۸.‏ ‏(‏الف)‏ اگر ہم چاہتے ہیں کہ خدا کا کلام ہم پر اثر کرے تو کیا کرنا لازمی ہے؟‏ (‏ب)‏ ہمیں کن سوالوں پر غور کرنا چاہئے؟‏

۱۸ اگر ہم چاہتے ہیں کہ خدا کا کلام ہم پر اثر کرے تو ہمیں اِسے باقاعدگی سے پڑھنے کے علاوہ بھی کچھ کرنا چاہئے۔‏ بہت سے لوگ بائبل کو پڑھتے ہیں اور اِس میں لکھی ہوئی باتوں سے واقف بھی ہوتے ہیں۔‏ شاید آپ مُنادی کے دوران ایسے لوگوں سے ملے ہوں۔‏ کچھ لوگوں نے تو بائبل کی آیتیں زبانی یاد کی ہوتی ہیں۔‏ لیکن اِس سے اُن کی سوچ اور طورطریقوں میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آتی۔‏ اِس کی وجہ کیا ہے؟‏ خدا کا کلام اُنہی لوگوں کی زندگی پر اثر کرتا ہے جو اِسے اپنے دل میں نقش کرتے ہیں۔‏ لہٰذا جب ہم اِسے پڑھتے ہیں تو ہمیں اِس پر سوچ‌بچار کرنا چاہئے۔‏ ہمیں خود سے پوچھنا چاہئے:‏ ”‏کیا مَیں یہ مانتا ہوں کہ بائبل میں جو کچھ لکھا ہے،‏ وہ سب سچ ہے؟‏ کیا مَیں پاک کلام کی تعلیمات پر خود بھی عمل کرتا ہوں یا اِنہیں بس دوسروں کو ہی سکھاتا ہوں؟‏ کیا مَیں یہ محسوس کرتا ہوں کہ خدا بائبل کے ذریعے مجھ سے بات کرتا ہے؟‏“‏ ایسے سوالوں پر غور کرنے سے خدا سے ہماری محبت اور قربت بڑھتی ہے۔‏ جب خدا کے کلام میں درج باتیں ہمارے دل کو چُھوتی ہیں تو ہمیں اپنے اندر تبدیلیاں لانے کی ترغیب ملتی ہے۔‏—‏امثا ۴:‏۲۳؛‏ لو ۶:‏۴۵‏۔‏

۱۹،‏ ۲۰.‏ بائبل کی کس نصیحت پر عمل کرنے سے ہمیں فائدہ ہوگا؟‏

۱۹ جب ہم باقاعدگی سے بائبل کو پڑھتے ہیں اور اِس پر سوچ‌بچار کرتے ہیں تو ہمیں پولسُ رسول کی اِس نصیحت پر عمل کرنے کی ترغیب ملتی ہے:‏ ”‏تُم اپنے اگلے چال‌چلن کی اُس پُرانی اِنسانیت کو اُتار ڈالو جو فریب کی شہوتوں کے سبب سے خراب ہوتی جاتی ہے۔‏ اور اپنی عقل کی روحانی حالت میں نئے بنتے جاؤ۔‏“‏ (‏افس ۴:‏۲۲،‏ ۲۳‏)‏ نئی اِنسانیت کو پہننے سے ہمیں شیطان کے حملوں کا مقابلہ کرنے میں مدد ملتی ہے۔‏

۲۰ پطرس رسول نے نصیحت کی کہ ”‏فرمانبردار فرزند ہو کر اپنی جہالت کے زمانہ کی پُرانی خواہشوں کے تابع نہ بنو بلکہ .‏ .‏ .‏ اپنے سارے چال‌چلن میں پاک بنو۔‏“‏ (‏۱-‏پطر ۱:‏۱۴،‏ ۱۵‏)‏ واقعی جب ہم اپنی پُرانی سوچ اور پُرانے طورطریقوں کو ترک کرکے خدا کے معیاروں کے مطابق ڈھلنے کے لئے آمادہ ہوتے ہیں تو ہمیں بہت سی برکتیں ملتی ہیں۔‏ آئیں،‏ اگلے مضمون میں اِس بات پر غور کریں۔‏