مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

یہوواہ کی سوچ اور معیاروں کے مطابق فیصلے کریں

یہوواہ کی سوچ اور معیاروں کے مطابق فیصلے کریں

‏”‏سارے دل سے [‏یہوواہ]‏ پر توکل کر اور اپنے فہم پر تکیہ نہ کر۔‏“‏ —‏امثا ۳:‏۵‏۔‏

۱،‏ ۲.‏ ‏(‏الف)‏ آپ کو فیصلے لینا کیسا لگتا ہے؟‏ (‏ب)‏ اپنے بعض فیصلوں کے بارے میں آپ کیا تسلیم کریں گے؟‏

فیصلے ہماری زندگی کا اہم حصہ ہیں۔‏ ایسا کوئی دن نہیں گزرتا جب ہمیں فیصلے نہ لینے پڑیں۔‏ بعض لوگ اپنی زندگی کا ہر فیصلہ خود کرتے ہیں اور اِس میں وہ کسی کی دخل‌اندازی پسند نہیں کرتے۔‏ لیکن کچھ لوگ اہم فیصلے کرنے سے گھبراتے ہیں۔‏ اِس لئے وہ کتابوں یا عالموں سے رہنمائی لیتے ہیں اور اِس چکر میں بہت سا پیسہ اُجاڑ بیٹھتے ہیں۔‏ آپ کو فیصلے لینا کیسا لگتا ہے؟‏

۲ بےشک آپ مانتے ہیں کہ کچھ فیصلے کرنا آپ کے اِختیار میں نہیں جبکہ بہت سے فیصلے آپ اپنی مرضی سے کر سکتے ہیں۔‏ (‏گل ۶:‏۵‏)‏ لیکن ہم اِس حقیقت سے اِنکار نہیں کر سکتے کہ کبھی‌کبھار ہم ایسے فیصلے کرتے ہیں جو ہمارے لئے فائدہ‌مند ثابت نہیں ہوتے۔‏

۳.‏ ‏(‏الف)‏ بعض فیصلے کرنے کے سلسلے میں یہوواہ خدا نے ہمیں کون‌سی مدد فراہم کی ہے؟‏ (‏ب)‏ کچھ معاملات میں فیصلے کرنا ہمارے لئے مشکل کیوں ہوتا ہے؟‏

۳ ہمیں خوشی ہے کہ یہوواہ خدا نے بہت سے اہم معاملات کے بارے میں واضح حکم دئے ہیں۔‏ اِن حکموں پر عمل کرنے سے ہم ایسے فیصلے کرنے کے قابل ہوتے ہیں جن سے نہ صرف ہمیں فائدہ ہوتا ہے بلکہ یہوواہ خدا کو بھی خوشی ملتی ہے۔‏ لیکن بعض اوقات ہمیں ایسی صورتحال کا سامنا ہوتا ہے جس کے متعلق خدا کے کلام میں کوئی واضح حکم نہیں دیا گیا۔‏ ایسی صورتحال میں ہمیں کیا کرنا چاہئے؟‏ مثال کے طور پر بائبل میں چوری کرنے سے منع کِیا گیا ہے۔‏ (‏افس ۴:‏۲۸‏)‏ لیکن بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اگر ایک چیز بہت معمولی ہے یا اُس چیز کی ہمیں اشد ضرورت ہے تو اُسے پوچھے بغیر لینے میں کوئی حرج نہیں۔‏ ایسی صورتحال میں لوگ اکثر اپنی مرضی سے فیصلہ کرنے پر زور دیتے ہیں۔‏ لیکن ہم ایسی صورت میں اچھے فیصلے تک کیسے پہنچ سکتے ہیں؟‏

سمجھ‌داری سے فیصلے کرنے میں کیا شامل ہے؟‏

۴.‏ جب ہمیں کوئی اہم فیصلہ کرنا ہوتا ہے تو دوسرے اکثر ہمیں کیا مشورہ دیتے ہیں؟‏

۴ جب ہم کسی بھائی یا بہن کو بتاتے ہیں کہ ہم کوئی اہم فیصلہ کرنے والے ہیں تو شاید وہ ہم سے کہے کہ ”‏ذرا سوچ‌سمجھ کر فیصلہ کرنا۔‏“‏ بےشک یہ ایک اچھا مشورہ ہے۔‏ بائبل میں بھی بتایا گیا ہے کہ ”‏ہر ایک جلدباز کا انجام محتاجی ہے۔‏“‏ (‏امثا ۲۱:‏۵‏)‏ لیکن سمجھ‌داری سے فیصلہ کرنے میں کیا کچھ شامل ہے؟‏ کیا اِس کا مطلب صرف یہ ہے کہ ہم فیصلہ لینے سے پہلے تمام حقائق پر غور کریں اور جلدبازی سے کام نہ لیں؟‏ یہ دونوں باتیں ضروری تو ہیں مگر ’‏ہوشیاری‘‏ اور سمجھ‌داری سے فیصلہ کرنے میں اَور بھی بہت کچھ شامل ہے۔‏—‏۱-‏پطر ۴:‏۷‏۔‏

۵.‏ ہم اپنی سمجھ‌بوجھ پر مکمل طور پر بھروسا کیوں نہیں کر سکتے؟‏

۵ ہم اپنی سمجھ‌بوجھ پر مکمل طور پر بھروسا نہیں کر سکتے۔‏ اِس کی وجہ یہ ہے کہ ہم سب نے گُناہ کو ورثے میں پایا ہے۔‏ (‏زبور ۵۱:‏۵؛‏ روم ۳:‏۲۳‏)‏ اِس کے علاوہ ہم میں سے بہت سے ایسے ہیں ”‏جن کی عقلوں کو اِس جہان کے خدا“‏ یعنی شیطان نے پہلے اندھا کر رکھا تھا اور وہ یہوواہ خدا اور اُس کے اصولوں سے ناواقف تھے۔‏ (‏۲-‏کر ۴:‏۴؛‏ طط ۳:‏۳‏)‏ لہٰذا اگر ہم صرف اپنی عقل پر بھروسا کرتے ہیں تو ہم غلط فیصلہ کرنے کے خطرے میں پڑ سکتے ہیں،‏ چاہے ہم کتنا ہی سوچ‌سمجھ کر فیصلہ کیوں نہ کریں۔‏—‏امثا ۱۴:‏۱۲‏۔‏

۶.‏ ہم اپنی سوچ کو نیا کیسے بنا سکتے ہیں؟‏

۶ اگرچہ ہم عیب‌دار ہیں لیکن ہمارا آسمانی باپ یہوواہ ہر لحاظ سے بےعیب ہے۔‏ (‏است ۳۲:‏۴‏)‏ وہ ہماری مدد کرتا ہے تاکہ ہم اپنی سوچ کو نیا بنا سکیں۔‏ ‏(‏افسیوں ۴:‏۲۳ کو پڑھیں۔‏)‏ مسیحیوں کے طور پر ہم اچھے فیصلے کرنا چاہتے ہیں۔‏ اِس لئے ہمیں اپنی سوچ کو یہوواہ خدا کی سوچ کے مطابق ڈھالنا چاہئے۔‏ یوں وہ ہمارے ہر کام سے خوش ہوگا۔‏

۷،‏ ۸.‏ مثال دے کر بتائیں کہ دباؤ کی صورت میں بھی اچھے فیصلے کیسے کئے جا سکتے ہیں۔‏

۷ ذرا ایک مثال پر غور کریں۔‏ بعض لوگ پیسہ کمانے کی خاطر اپنا وطن چھوڑ کر کسی دوسرے ملک میں آباد ہو جاتے ہیں۔‏ اِن میں سے کچھ لوگوں کا دستور ہے کہ جب اُن کے ہاں بچہ پیدا ہوتا ہے تو وہ اُسے اپنے ملک میں اپنے رشتےداروں کے پاس بھیج دیتے ہیں۔‏ وہ ایسا اِس لئے کرتے ہیں تاکہ اُنہیں بچے کی دیکھ‌بھال نہ کرنی پڑے اور وہ اپنا وقت پیسہ کمانے میں لگا سکیں۔‏ *ایسی ہی ایک عورت کے ہاں بیٹا پیدا ہوا۔‏ بیٹے کی پیدائش کے تھوڑے عرصے بعد اِس عورت نے یہوواہ کے گواہوں سے بائبل کی تعلیم حاصل کرنا شروع کی۔‏ اُس عورت اور اُس کے شوہر کے رشتےدار اور دوست اُن پر دباؤ ڈالنے لگے کہ وہ اپنے بچے کو اُس کے دادا دادی کے پاس بھیج دیں۔‏ لیکن اُس عورت نے بائبل سے یہ سیکھا تھا کہ بچوں کی پرورش کرنا والدین کی ذمےداری ہے۔‏ (‏زبور ۱۲۷:‏۳؛‏ افس ۶:‏۴‏)‏ اُسے فیصلہ کرنا تھا کہ کیا وہ بھی اُس دستور کے مطابق چلے گی جو دوسروں کی نظر میں صحیح ہے؟‏ یا کیا وہ بائبل کی تعلیم پر عمل کرے گی اور لوگوں کے طعنوں اور مالی مشکلوں کا سامنا کرے گی؟‏ اگر آپ اُس کی جگہ ہوتے تو آپ کیا کرتے؟‏

۸ پریشانی اور دباؤ کے عالم میں اُس نے یہوواہ خدا سے مدد اور رہنمائی مانگی۔‏ پھر اُس نے اُس بہن سے بات کی جو اُسے بائبل سے تعلیم دے رہی تھی۔‏ اِس کے علاوہ اُس نے کلیسیا کے کچھ دوسرے بہن‌بھائیوں سے بھی اِس مسئلے پر بات کی۔‏ یوں وہ سمجھ گئی کہ یہوواہ خدا اِس معاملے کے بارے میں کیا نظریہ رکھتا ہے۔‏ وہ یہ بھی جان گئی کہ اگر وہ اپنے بچے کو خود سے دُور کرے گی تو اِس کا بچے پر بہت بُرا اثر پڑے گا۔‏ بائبل کی روشنی میں اِن تمام معاملات پر سوچ‌بچار کرنے کے بعد اُس نے فیصلہ کِیا کہ وہ اپنے بچے کو خود سے دُور نہیں بھیجے گی۔‏ جب اُس کے شوہر نے دیکھا کہ کلیسیا کے بہن‌بھائی اُن کی کتنی مدد کر رہے ہیں اور بچہ بھی صحت‌مند ہے تو اُس نے بھی بائبل سے تعلیم حاصل کرنا اور اِجلاسوں میں جانا شروع کر دیا۔‏

۹،‏ ۱۰.‏ اچھے فیصلوں تک پہنچنے کے لئے ہم کیا کر سکتے ہیں؟‏

۹ ہم نے دیکھا کہ ہم صرف اپنی سمجھ پر بھروسا کرنے سے یا کسی مقبول نظریے کی پیروی کرنے سے اچھے فیصلے تک نہیں پہنچ سکتے۔‏ چونکہ ہم گنہگار ہیں اِس لئے ہمارا دل اور دماغ ایک ایسی گھڑی کی طرح ہو سکتا ہے جو یا تو بہت تیز چلتی ہے یا پھر بہت آہستہ۔‏ ایسے دل‌ودماغ کی بات ماننا خطرے سے خالی نہیں۔‏ (‏یرم ۱۷:‏۹‏)‏ ہمیں اِنہیں خدا کے لاتبدیل معیاروں کے مطابق سیٹ کرنے کی ضرورت ہے۔‏‏—‏یسعیاہ ۵۵:‏۸،‏ ۹ کو پڑھیں۔‏

۱۰ لہٰذا بائبل میں ہمیں یہ نصیحت کی گئی ہے:‏ ”‏سارے دل سے [‏یہوواہ]‏ پر توکل کر اور اپنے فہم پر تکیہ نہ کر۔‏ اپنی سب راہوں میں اُس کو پہچان اور وہ تیری راہنمائی کرے گا۔‏“‏ (‏امثا ۳:‏۵،‏ ۶‏)‏ غور کریں کہ ہمیں ”‏اپنے فہم پر تکیہ“‏ کرنے کی بجائے یہوواہ خدا کو پہچاننے کا مشورہ دیا گیا ہے کیونکہ اُس کی حکمت میں کوئی عیب نہیں۔‏ لہٰذا جب بھی ہمیں کسی معاملے کے بارے میں کوئی فیصلہ کرنا ہو تو ہمیں بائبل میں دیکھنا چاہئے کہ اِس کے متعلق یہوواہ خدا کا نظریہ کیا ہے۔‏ پھر ہمیں یہوواہ خدا کی سوچ اور معیاروں کے مطابق فیصلہ کرنا چاہئے۔‏ یہ ہوگی اصل سمجھ‌داری!‏

اپنے حواس کو تیز کریں

۱۱.‏ ہم اچھے فیصلے کرنے کی صلاحیت کیسے پیدا کر سکتے ہیں؟‏

۱۱ اچھے فیصلے کرنے کی صلاحیت پیدا کرنے کے لئے کوشش درکار ہے۔‏ یہ صلاحیت پیدا کرنا خاص طور پر اُن لوگوں کے لئے مشکل ہو سکتا ہے جنہوں نے حال ہی میں بپتسمہ لیا ہے۔‏ مگر ایسے لوگ روحانی طور پر آگے بڑھ سکتے ہیں۔‏ بائبل میں کہا گیا ہے کہ ایسے لوگ ’‏بچوں‘‏ کی طرح ہیں۔‏ ذرا غور کریں کہ ایک بچہ چلنا کیسے سیکھتا ہے۔‏ پہلے وہ چھوٹےچھوٹے قدم اُٹھاتا ہے اور پھر باربار کوشش کرنے سے اُس میں گِرے بغیر چلنے کی صلاحیت پیدا ہو جاتی ہے۔‏ یہی بات اُن لوگوں پر بھی لاگو ہوتی ہے جو روحانی لحاظ سے بچے ہیں۔‏ جب وہ مختلف معاملوں میں اچھے فیصلے کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو وقت کے ساتھ‌ساتھ اُن کی یہ صلاحیت نکھرتی جاتی ہے۔‏ پولسُ رسول نے پُختہ مسیحیوں کے بارے میں کہا تھا کہ اُن کے ”‏حواس کام کرتےکرتے نیک‌وبد میں اِمتیاز کرنے کے لئے تیز ہو گئے ہیں۔‏“‏ اِصطلاح ”‏کام کرتےکرتے“‏ مسلسل کوشش کی طرف اِشارہ کرتی ہے اور اِس نصیحت پر عمل کرنا خاص طور پر اُن لوگوں کے لئے ضروری ہے جنہوں نے حال ہی میں بپتسمہ لیا ہے۔‏‏—‏عبرانیوں ۵:‏۱۳،‏ ۱۴ کو پڑھیں۔‏

جب ہم روزمرہ کے معاملات میں اچھے فیصلے کرتے ہیں تو ہمارے حواس صحیح اور غلط میں تمیز کرنے کے لئے تیز ہو جاتے ہیں۔‏ (‏پیراگراف ۱۱ کو دیکھیں۔‏)‏

۱۲.‏ مثال دے کر واضح کریں کہ ہم اچھے فیصلے کرنے کے سلسلے میں اپنے حواس کو تیز کیسے کر سکتے ہیں۔‏

۱۲ جیسا کہ ہم نے مضمون کے شروع میں دیکھا،‏ ہمیں ہر روز چھوٹے بڑے کئی طرح کے فیصلے کرنے پڑتے ہیں۔‏ ایک تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ ہم جو بھی فیصلے کرتے ہیں،‏ اُن میں سے ۴۰ فیصد ہم سوچ‌سمجھ کر نہیں کرتے بلکہ وہ ہماری عادتوں پر مبنی ہوتے ہیں۔‏ مثال کے طور پر ہر صبح آپ فیصلہ کرتے ہیں کہ آپ کون‌سے کپڑے پہنیں گے۔‏ آپ کی نظر میں شاید یہ ایک معمولی فیصلہ ہے اِس لئے آپ زیادہ سوچ‌بچار نہیں کرتے۔‏ لیکن یہوواہ خدا کے بندے کے طور پر آپ اِس بات کا خیال ضرور رکھیں گے کہ آپ کا لباس مہذب ہو۔‏ (‏۲-‏کر ۶:‏۳،‏ ۴‏)‏ جب آپ کپڑے خریدتے ہیں تو آپ شاید فیشن کا لحاظ تو رکھتے ہیں مگر کیا آپ اُس کی قیمت کا بھی خیال رکھتے ہیں اور یہ بھی دیکھتے ہیں کہ اُسے پہننا آپ کو زیب دے گا یا نہیں؟‏ ایسے معاملوں میں صحیح فیصلے کرنے سے ہمارے ”‏حواس .‏ .‏ .‏ نیک‌وبد میں اِمتیاز کرنے کے لئے تیز“‏ ہو جاتے ہیں۔‏ اور اِس طرح ہم زیادہ اہم معاملوں میں بھی اچھے فیصلے کرنے کے قابل ہو جاتے ہیں۔‏—‏لو ۱۶:‏۱۰؛‏ ۱-‏کر ۱۰:‏۳۱‏۔‏

اپنے فیصلوں پر عمل کرنے کا پکا اِرادہ کریں

۱۳.‏ ہم اپنے فیصلوں پر عمل کرنے کے قابل کیسے ہو سکتے ہیں؟‏

۱۳ بعض اوقات ہم صحیح فیصلہ تو کر لیتے ہیں لیکن اُس پر عمل کرنا مشکل پاتے ہیں۔‏ مثال کے طور پر شاید کوئی شخص یہ فیصلہ کرتا ہے کہ وہ سگریٹ پینا چھوڑ دے گا۔‏ لیکن وہ اپنے اِس فیصلے پر عمل نہیں کر پاتا کیونکہ اُس کا عزم مضبوط نہیں ہوتا۔‏ اُسے چاہئے کہ وہ سگریٹ چھوڑنے کا پکا اِرادہ کرے۔‏ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اِنسان کی قوتِ‌اِرادی جسم کے پٹھوں کی طرح ہوتی ہے۔‏ جتنا زیادہ ہم پٹھوں کو اِستعمال کرتے ہیں اُتنے ہی وہ مضبوط ہوتے ہیں۔‏ اِسی طرح ہم جتنا زیادہ اپنی قوتِ‌اِرادی کو اِستعمال کرتے ہیں اُتنا ہی یہ مضبوط ہوتی ہے۔‏ اور اگر ہم اِسے کم اِستعمال کرتے ہیں تو یہ کمزور ہو جاتی ہے۔‏ تو پھر ہم اپنے فیصلوں پر عمل کرنے کے اِرادے کو مضبوط کیسے بنا سکتے ہیں؟‏ اِس سلسلے میں ہمیں یہوواہ خدا سے مدد مانگنی چاہئے۔‏‏—‏فلپیوں ۲:‏۱۳ کو پڑھیں۔‏

۱۴.‏ جب پولسُ رسول اپنے اِرادے کے مطابق عمل نہیں کر پاتے تھے تو وہ کہاں سے مدد حاصل کرتے تھے؟‏

۱۴ پولسُ رسول کو بھی اپنے کچھ فیصلوں پر عمل کرنا مشکل لگا تھا۔‏ ایک بار اُنہوں نے کہا:‏ ”‏اِرادہ تو مجھ میں موجود ہے مگر نیک کام مجھ سے بن نہیں پڑتے۔‏“‏ پولسُ رسول جانتے تھے کہ اُنہیں کیا کرنا چاہئے مگر بعض اوقات وہ جیسا چاہتے تھے ویسا کر نہیں پاتے تھے۔‏ اِس لئے اُنہوں نے کہا:‏ ”‏باطنی اِنسانیت کی رُو سے تو مَیں خدا کی شریعت کو بہت پسند کرتا ہوں۔‏ مگر مجھے اپنے اعضا میں ایک اَور طرح کی شریعت نظر آتی ہے جو میری عقل کی شریعت سے لڑ کر مجھے اُس گُناہ کی شریعت کی قید میں لے آتی ہے جو میرے اعضا میں موجود ہے۔‏“‏ کیا پولسُ رسول کی مدد کرنے والا کوئی نہیں تھا؟‏ ایسی بات نہیں۔‏ اُنہوں نے بتایا:‏ ”‏مَیں .‏ .‏ .‏ اپنے خداوند یسوؔع مسیح کے وسیلہ سے خدا کا شکر کرتا ہوں۔‏“‏ (‏روم ۷:‏۱۸،‏ ۲۲-‏۲۵‏)‏ اِس کے علاوہ اُنہوں نے یہ بھی کہا:‏ ”‏جو مجھے طاقت بخشتا ہے اُس میں مَیں سب کچھ کر سکتا ہوں۔‏“‏—‏فل ۴:‏۱۳‏۔‏

۱۵.‏ یہ کیوں ضروری ہے کہ ہم صحیح کام کرنے کا فیصلہ کریں اور پھر اُس پر قائم رہیں؟‏

۱۵ خدا کو خوش کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم وہ کام کرنے کا فیصلہ کریں جو اُس کی نظر میں صحیح ہیں اور پھر ہم اپنے فیصلے پر عمل بھی کریں۔‏ ذرا ایلیاہ نبی کی اُس بات کو یاد کریں جو اُنہوں نے یہوواہ خدا سے برگشتہ ہو جانے والے اِسرائیلیوں سے کہی تھی۔‏ اُنہوں نے کہا تھا:‏ ”‏تُم کب تک دو خیالوں میں ڈانواں‌ڈول رہو گے؟‏ اگر [‏یہوواہ]‏ ہی خدا ہے تو اُس کے پیرو ہو جاؤ اور اگر بعلؔ ہے تو اُس کی پیروی کرو۔‏“‏ (‏۱-‏سلا ۱۸:‏۲۱‏)‏ بنی‌اِسرائیل کو معلوم تھا کہ اُنہیں کیا کرنا چاہئے مگر پھر بھی وہ ”‏ڈانواں‌ڈول“‏ تھے یعنی کوئی فیصلہ نہیں کر پا رہے تھے۔‏ اِس کے برعکس یشوع کی مثال پر غور کریں جنہوں نے اِس واقعے سے کئی سال پہلے یہوواہ خدا کی عبادت کے سلسلے میں ایک ٹھوس قدم اُٹھایا۔‏ اُنہوں نے بنی‌اِسرائیل سے کہا:‏ ”‏اگر [‏یہوواہ]‏ کی پرستش تُم کو بُری معلوم ہوتی ہو تو آج ہی تُم اُسے جس کی پرستش کرو گے چن لو۔‏ .‏ .‏ .‏ اب رہی میری اور میرے گھرانے کی بات سو ہم تو [‏یہوواہ]‏ کی پرستش کریں گے۔‏“‏ (‏یشو ۲۴:‏۱۵‏)‏ یشوع کے اِس فیصلے کا کیا نتیجہ نکلا؟‏ یشوع اور اِس فیصلے میں اُن کا ساتھ دینے والے لوگ اُس ملک میں آباد ہوئے ”‏جہاں دودھ اور شہد بہتا“‏ تھا۔‏—‏یشو ۵:‏۶‏۔‏

اچھے فیصلے کریں اور برکت پائیں

۱۶،‏ ۱۷.‏ مثال دے کر بتائیں کہ خدا کی مرضی کے مطابق فیصلے کرنے سے کیا فائدہ ہوتا ہے۔‏

۱۶ آئیں،‏ ایک بھائی کی مثال پر غور کریں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اچھے فیصلے کرنا اور اِن پر قائم رہنا بہت فائدہ‌مند ہوتا ہے۔‏ اُس بھائی کو بپتسمہ لئے ابھی کچھ ہی عرصہ ہوا تھا۔‏ اُس کے تین چھوٹے بچے تھے۔‏ ایک دن اُس بھائی کے ساتھ کام کرنے والے ایک شخص نے اُس سے کہا کہ ”‏کیوں نہ ہم دوسری کمپنی میں ملازمت کرلیں جو زیادہ تنخواہ اور سہولیات دے رہی ہے۔‏“‏ بھائی نے اِس معاملے کے بارے میں دُعا کی اور خوب سوچ‌بچار بھی کی۔‏ یہ بھائی فی‌الحال جو نوکری کر رہا تھا،‏ وہ اُس نے اِسی لئے کی تھی کیونکہ اُسے ہفتے اور اِتوار کو چھٹی ملتی تھی اور وہ اپنے گھر والوں کے ساتھ اِجلاسوں میں جاتا تھا اور مُنادی کے کام میں حصہ لیتا تھا۔‏ حالانکہ اِس ملازمت سے اُسے اِتنی زیادہ تنخواہ نہیں ملتی تھی۔‏ وہ جانتا تھا کہ اگر وہ نئی نوکری کرے گا تو اُسے ہفتے اور اِتوار کو چھٹی ملنا مشکل ہوگا۔‏ اگر آپ اُس بھائی کی جگہ ہوتے تو آپ کیا کرتے؟‏

۱۷ اِس بھائی نے نئی نوکری کی پیشکش کو ٹھکرا دیا کیونکہ وہ زیادہ پیسوں کی خاطر خدا کی برکتوں سے محروم نہیں ہونا چاہتا تھا۔‏ کیا اِس بھائی کو اپنے فیصلے پر کوئی پچھتاوا ہوا؟‏ جی‌نہیں۔‏ اُس کی نظر میں پیسے کمانے سے زیادہ اہم بات یہ تھی کہ وہ اور اُس کے گھر والے یہوواہ خدا کی قربت میں رہیں۔‏ اُس بھائی اور اُس کی بیوی کو اُس وقت بہت خوشی ہوئی جب اُن کی ۱۰ سالہ بیٹی نے کہا کہ وہ اپنے ماں‌باپ سے،‏ کلیسیا کے بہن‌بھائیوں سے اور یہوواہ خدا سے بہت محبت کرتی ہے۔‏ وہ بچی اپنے باپ کی مثال سے اِس قدر متاثر ہوئی کہ اُس نے بھی یہوواہ خدا کی خدمت کو اپنی زندگی میں سب سے اہم مقام دینے کا فیصلہ کِیا۔‏ اُس نے اپنے ماں‌باپ کو بتایا کہ وہ خود کو یہوواہ خدا کے لئے وقف کرنا چاہتی ہے اور بپتسمہ لینا چاہتی ہے۔‏

خدا کی سوچ اور معیاروں کے مطابق فیصلے کرنے سے ہمیں خوشی ملے گی۔‏ (‏پیراگراف ۱۸ کو دیکھیں۔‏)‏

۱۸.‏ یہ کیوں ضروری ہے کہ ہم ہمیشہ وہی فیصلے کریں جن سے خدا خوش ہوتا ہے؟‏

۱۸ جس طرح موسیٰ نبی نے بیابان میں خدا کی قوم بنی‌اِسرائیل کی رہنمائی کی اُسی طرح یسوع مسیح کئی سال سے شیطان کی اِس دُنیا میں خدا کے بندوں کی رہنمائی کر رہے ہیں۔‏ اور جیسے یشوع،‏ کنعانی لوگوں کو تباہ کرکے بنی‌اِسرائیل کو ملک کنعان میں لے گئے ویسے ہی یسوع مسیح،‏ شیطان کی دُنیا کو تباہ کرکے اپنے پیروکاروں کو نئی دُنیا میں لے جائیں گے۔‏ (‏۲-‏پطر ۳:‏۱۳‏)‏ لہٰذا یہ پُرانی سوچ اور پُرانے طورطریقوں کی طرف لوٹ جانے کا وقت نہیں۔‏ اِس کی بجائے یہ اِس بات کو سمجھنے کا وقت ہے کہ ہم خدا کی مرضی کے مطابق زندگی کیسے گزار سکتے ہیں۔‏ (‏روم ۱۲:‏۲؛‏ ۲-‏کر ۱۳:‏۵‏)‏ تو پھر آئیں،‏ یہ عزم کریں کہ ہم ہمیشہ خدا کی سوچ اور معیاروں کے مطابق فیصلے کریں گے اور یوں اُس سے برکتیں پائیں گے۔‏‏—‏عبرانیوں ۱۰:‏۳۸،‏ ۳۹ کو پڑھیں۔‏

^ پیراگراف 7 اِس دستور کے پیچھے ایک اَور وجہ یہ بھی ہے کہ دادا دادی یا نانا نانی بچے کو اپنے رشتےداروں کو دِکھا سکیں۔‏