مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

بزرگ عظیم چرواہوں کی مثال پر عمل کریں

بزرگ عظیم چرواہوں کی مثال پر عمل کریں

‏”‏مسیح بھی تمہارے واسطے دُکھ اُٹھا کر تمہیں ایک نمونہ دے گیا ہے تاکہ اُس کے نقشِ‌قدم پر چلو۔‏“‏—‏۱-‏پطر ۲:‏۲۱‏۔‏

۱،‏ ۲.‏ ‏(‏الف)‏ بھیڑوں کی اچھی طرح دیکھ‌بھال کرنے سے کیا فائدہ ہوتا ہے؟‏ (‏ب)‏ یسوع مسیح کے زمانے میں بہت سے لوگ اُن بھیڑوں کی طرح کیسے تھے جن کا چرواہا نہ ہو؟‏

جب ایک چرواہا اپنی بھیڑوں کو پوری توجہ دیتا ہے تو وہ صحت‌مند رہتی ہیں۔‏ بھیڑیں پالنے کے بارے میں ایک کتاب میں بتایا گیا ہے:‏ ”‏اگر ایک چرواہا اپنی بھیڑوں کو صرف چراگاہ میں چھوڑ دیتا ہے اور اُن پر کوئی توجہ نہیں دیتا تو چند ہی سالوں میں اُس کی بہت سی بھیڑیں بیمار اور کمزور ہو جائیں گی اور اُن کی قیمت گِر جائے گی۔‏“‏ لیکن جب ایک چرواہا اپنی ہر بھیڑ کی اچھی طرح دیکھ‌بھال کرتا ہے تو اُس کا پورا ریوڑ تندرست رہتا ہے۔‏

۲ اِسی طرح جب بزرگ کلیسیا کے رُکنوں کی اچھی طرح دیکھ‌بھال کرتے ہیں اور ہر ایک کو توجہ دیتے ہیں تو پوری کلیسیا کو فائدہ ہوتا ہے۔‏ آپ کو یاد ہوگا کہ یسوع مسیح کو لوگوں پر ترس آتا تھا کیونکہ وہ ”‏اُن بھیڑوں کی مانند جن کا چرواہا نہ ہو خستہ‌حال اور پراگندہ تھے۔‏“‏ (‏متی ۹:‏۳۶‏)‏ اُن کی اِتنی بُری حالت کیوں ہو گئی تھی؟‏ کیونکہ اُن کو تعلیم دینے والے اُن کے ساتھ سختی سے پیش آتے تھے اور خود اُن باتوں پر عمل نہیں کرتے تھے جو وہ دوسروں کو سکھاتے تھے۔‏ وہ لوگوں کی مدد اور دیکھ‌بھال کرنے کی بجائے اُن پر ”‏بھاری بوجھ“‏ ڈالتے تھے۔‏—‏متی ۲۳:‏۴‏۔‏

۳.‏ بزرگوں کو کون‌سی بات یاد رکھنی چاہئے؟‏

۳ پہلی صدی کی طرح آج بھی خدا کی بھیڑوں کی دیکھ‌بھال کرنا ایک اہم ذمےداری ہے۔‏ بزرگوں کو یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ وہ جن بھیڑوں کی دیکھ‌بھال کرتے ہیں،‏ دراصل وہ یہوواہ خدا اور یسوع مسیح کی امانت ہیں۔‏ پاک کلام میں یسوع مسیح کو ”‏اچھا چرواہا“‏ کہا گیا ہے۔‏ (‏یوح ۱۰:‏۱۱‏)‏ اُنہوں نے اپنی بھیڑوں کو اپنا ”‏بیش‌قیمت خون“‏ دے کر خریدا ہے۔‏ (‏۱-‏کر ۶:‏۲۰؛‏ ۱-‏پطر ۱:‏۱۸،‏ ۱۹‏)‏ اُنہیں اپنی بھیڑوں سے اِس قدر محبت ہے کہ اُنہوں نے اُن کے لئے اپنی جان قربان کر دی۔‏ بزرگوں کو یہ کبھی نہیں بھولنا چاہئے کہ وہ ”‏بھیڑوں کے بڑے چرواہے“‏ یعنی یسوع مسیح کی نگرانی میں کام کرتے ہیں۔‏—‏عبر ۱۳:‏۲۰‏۔‏

۴.‏ اِس مضمون میں ہم کس بات پر غور کریں گے؟‏

۴ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بزرگوں کو خدا کی بھیڑوں کے ساتھ کیسے پیش آنا چاہئے؟‏ کلیسیا کے رُکنوں کو نصیحت کی گئی ہے کہ وہ ”‏اپنے پیشواؤں کے فرمانبردار“‏ رہیں۔‏ لیکن اِس کے ساتھ ہی ساتھ بزرگوں کو یہ ہدایت کی گئی ہے کہ ”‏جو لوگ تمہارے سپرد ہیں اُن پر حکومت نہ جتاؤ۔‏“‏ (‏عبر ۱۳:‏۱۷؛‏ ۱-‏پطرس ۵:‏۲،‏ ۳ کو پڑھیں۔‏‏)‏ لہٰذا بزرگ اپنی بھیڑوں پر حکومت جتائے بغیر یعنی اپنے اِختیار کے دائرے میں رہ کر اُن کی نگہبانی کیسے کر سکتے ہیں؟‏

‏’‏وہ برّوں کو اپنے بازوؤں میں لے کر چلتا ہے‘‏

۵.‏ یسعیاہ۴۰:‏۱۱سے ہم یہوواہ خدا کے بارے میں کیا سیکھتے ہیں؟‏

۵ یسعیاہ نبی نے یہوواہ خدا کے بارے میں کہا:‏ ”‏وہ چوپان کی مانند اپنا گلّہ چرائے گا۔‏ وہ برّوں کو اپنے بازوؤں میں جمع کرے گا اور اپنی بغل میں لے کر چلے گا اور اُن کو جو دودھ پلاتی ہیں آہستہ آہستہ لے جائے گا۔‏“‏ (‏یسع ۴۰:‏۱۱‏)‏ اِس آیت سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہوواہ خدا کلیسیا کے اُن افراد کی خاص طور پر دیکھ‌بھال کرتا ہے جو کمزور ہیں یا کسی قسم کے خطرے میں ہیں۔‏ جس طرح ایک چرواہا اپنی ہر بھیڑ کی ضرورت سے واقف ہوتا ہے اور اِسے پورا کرنے کے لئے تیار رہتا ہے اُسی طرح یہوواہ خدا کلیسیا کے ہر رُکن کی ضرورتوں سے واقف ہے اور اِنہیں خوشی سے پورا کرتا ہے۔‏ ایک چرواہا ضرورت پڑنے پر برّوں کو اپنی گود میں اُٹھا لیتا ہے۔‏ یہوواہ خدا بھی کٹھن حالات میں ہمیں سنبھالتا ہے اور ہمیں تسلی دیتا ہے۔‏ واقعی وہ ”‏رحمتوں کا باپ ہے۔‏“‏—‏۲-‏کر ۱:‏۳،‏ ۴‏۔‏

۶.‏ بزرگ،‏ یہوواہ خدا کی مثال سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟‏

۶ بزرگ اپنے آسمانی باپ یہوواہ خدا کی مثال سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔‏ یہوواہ خدا کی طرح اُنہیں بھی کلیسیا کے ہر رُکن کی ضرورتوں سے واقف ہونا چاہئے۔‏ اگر بزرگ جانتے ہیں کہ بہن‌بھائی کن مشکلوں سے گزر رہے ہیں تو وہ اُنہیں ضروری مشورے اور حوصلہ‌افزائی دے سکیں گے۔‏ (‏امثا ۲۷:‏۲۳‏)‏ اِس لئے یہ بہت اہم ہے کہ بزرگ بہن‌بھائیوں کے ساتھ بات‌چیت کرنے کے لئے وقت نکالیں۔‏ یہ سچ ہے کہ اُنہیں دوسروں کے ذاتی معاملوں میں دخل نہیں دینا چاہئے۔‏ لیکن جب وہ یہ دیکھتے یا سنتے ہیں کہ کلیسیا میں کسی کو مدد کی ضرورت ہے تو وہ اُس کی مدد کو پہنچتے ہیں۔‏ وہ ’‏کمزوروں کو سنبھالنے‘‏ کے لئے ہر لمحہ تیار رہتے ہیں۔‏—‏اعما ۲۰:‏۳۵‏۔‏

۷.‏ ‏(‏الف)‏ حزقی‌ایل اور یرمیاہ نبی کے زمانے میں خدا کی بھیڑوں کے ساتھ کیسا سلوک ہو رہا تھا؟‏ (‏ب)‏ یہوواہ خدا نے اُن چرواہوں کو کیسا خیال کِیا جو اپنی بھیڑوں کی اچھی طرح دیکھ‌بھال نہیں کر رہے تھے؟‏ اور اِس سے ہم کیا سیکھتے ہیں؟‏

۷ ذرا اُن چرواہوں کے رویے پر غور کریں جو حزقی‌ایل اور یرمیاہ نبی کے زمانے میں تھے۔‏ اُنہیں یہوواہ خدا کی بھیڑوں کی حفاظت اور دیکھ‌بھال کرنی چاہئے تھی مگر اُنہوں نے ایسا نہیں کِیا۔‏ وہ بھیڑوں کو چرانے کی بجائے ’‏اپنا پیٹ بھر‘‏ رہے تھے۔‏ اِس لئے ”‏بھیڑیں شکار ہو گئیں“‏ اور ”‏پراگندہ“‏ ہو گئیں۔‏‘‏ چرواہوں کی خودغرضی اور لالچ کی وجہ سے لوگوں کو نقصان اُٹھانا پڑا۔‏ لہٰذا یہوواہ خدا نے اُن چرواہوں کو سزا کے لائق ٹھہرایا۔‏ (‏حز ۳۴:‏۷-‏۱۰؛‏ یرم ۲۳:‏۱‏)‏ حزقی‌ایل اور یرمیاہ نبی کے زمانے کے چرواہوں اور آج‌کل کے مسیحی فرقوں کے رہنماؤں میں بہت سی باتیں ملتی‌جلتی ہیں۔‏ اِس لئے یہ رہنما بھی سزا کے لائق ہیں۔‏ اِس بات سے بزرگ کیا سیکھتے ہیں؟‏ اُنہیں خدا کی بھیڑوں کو مناسب توجہ دینی چاہئے اور اُن سے پیار کرنا چاہئے تاکہ وہ خدا کے نزدیک سزا کے لائق نہ ٹھہریں۔‏

‏”‏مَیں نے تُم کو ایک نمونہ دِکھایا ہے“‏

۸.‏ بزرگ کلیسیا کے رُکنوں کی اِصلاح کرتے وقت یسوع مسیح کی مثال پر کیسے عمل کر سکتے ہیں؟‏

۸ ہم سب عیب‌دار ہیں۔‏ اِس لئے ہم میں سے کچھ مسیحی،‏ یہوواہ خدا کے بعض اصولوں کو پوری طرح نہیں سمجھتے۔‏ وہ شاید ایسے فیصلے کرتے ہیں جو خدا کے معیاروں کے مطابق نہیں یا پھر ایسے کام کرتے ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ پُختہ مسیحی نہیں۔‏ ایسی صورت میں بزرگ کیا کر سکتے ہیں؟‏ اُنہیں یسوع مسیح کی طرح تحمل سے کام لینا چاہئے۔‏ یسوع مسیح کے شاگرد اکثر آپس میں اِس بات پر بحث کرتے تھے کہ خدا کی بادشاہت میں اُن میں سے کس کو سب سے بڑا عہدہ ملے گا۔‏ یسوع مسیح غصے میں آ کر اپنے شاگردوں کو ڈانٹنے کی بجائے صبر اور پیار سے اُن کی تربیت کرتے تھے اور اُنہیں خاکساری سے کام لینے کی نصیحت کرتے تھے۔‏ (‏لو ۹:‏۴۶-‏۴۸؛‏ ۲۲:‏۲۴-‏۲۷‏)‏ یسوع مسیح نے اُن کے پاؤں دھو کر اُنہیں خاکساری کا سبق سکھایا۔‏ آج‌کل کلیسیا کے بزرگوں کو بھی خاکساری کو عمل میں لانا چاہئے۔‏‏—‏یوحنا ۱۳:‏۱۲-‏۱۵ کو پڑھیں؛‏ ۱-‏پطر ۲:‏۲۱‏۔‏

۹.‏ یسوع مسیح نے اپنے رسولوں کو کون‌سی نصیحت کی؟‏

۹ یسوع مسیح نے واضح کِیا کہ بزرگوں کو ویسا رویہ ظاہر نہیں کرنا چاہئے جو ایک بار یعقوب اور یوحنا نے ظاہر کِیا تھا۔‏ یہ دونوں رسول بادشاہت میں بڑا مرتبہ حاصل کرنا چاہتے تھے۔‏ لیکن یسوع مسیح نے اُن کی اِصلاح کرتے ہوئے کہا:‏ ”‏تُم جانتے ہو کہ غیرقوموں کے سردار اُن پر حکم چلاتے اور امیر اُن پر اِختیار جتاتے ہیں۔‏ تُم میں ایسا نہ ہوگا بلکہ جو تُم میں بڑا ہونا چاہے وہ تمہارا خادم بنے۔‏“‏ (‏متی ۲۰:‏۲۵،‏ ۲۶‏)‏ رسولوں کو دوسروں پر ’‏حکم چلانے‘‏ یا ’‏اِختیار جتانے‘‏ کے رُجحان پر قابو پانے کی ضرورت تھی۔‏

۱۰.‏ ‏(‏الف)‏ یسوع مسیح بزرگوں سے کیا توقع کرتے ہیں؟‏ (‏ب)‏ پولسُ رسول نے کون‌سی مثال قائم کی؟‏

۱۰ یسوع مسیح چاہتے ہیں کہ بزرگ بھیڑوں کے ساتھ ویسے ہی پیش آئیں جیسے وہ خود آتے ہیں۔‏ بزرگوں کو اپنے بہن‌بھائیوں کی خدمت کرنی چاہئے نہ کہ اُن پر حکم چلانا چاہئے۔‏ پولسُ رسول بھی خاکساری سے دوسرے مسیحیوں کی خدمت کرتے تھے۔‏ اُنہوں نے اِفسس کی کلیسیا کے بزرگوں کو لکھا:‏ ”‏تُم خود جانتے ہو کہ پہلے ہی دن سے کہ مَیں نے آسیہؔ میں قدم رکھا ہر وقت تمہارے ساتھ کس طرح رہا۔‏ یعنی کمال فروتنی سے .‏ .‏ .‏ خداوند کی خدمت کرتا رہا۔‏“‏ پولسُ رسول چاہتے تھے کہ وہ بزرگ خاکساری سے کلیسیا کے رُکنوں کی خدمت کریں۔‏ اُنہوں کہا:‏ ”‏مَیں نے تُم کو سب باتیں کرکے دِکھا دیں کہ اِس طرح محنت کرکے کمزوروں کو سنبھالنا۔‏“‏ (‏اعما ۲۰:‏۱۸،‏ ۱۹،‏ ۳۵‏)‏ اُنہوں نے کرنتھیوں کی کلیسیا کو بھی بتایا کہ وہ ’‏ایمان کے بارے میں اُن پر حکومت نہیں جتاتے‘‏ بلکہ وہ ’‏اُن کے مددگار ہیں۔‏‘‏ (‏۲-‏کر ۱:‏۲۴‏)‏ یوں پولسُ رسول نے محنت اور خاکساری سے خدمت کرنے کی ایک عمدہ مثال قائم کی۔‏

‏’‏ایمان کے کلام کو تھامے رہیں‘‏

۱۱،‏ ۱۲.‏ بزرگ اچھے فیصلے کرنے میں کسی بھائی یا بہن کی مدد کیسے کر سکتے ہیں؟‏

۱۱ بزرگوں کو ’‏ایمان کے کلام کو تھامے رہنا چاہئے تاکہ وہ صحیح تعلیم سے نصیحت‘‏ کر سکیں۔‏ (‏طط ۱:‏۹‏،‏ کیتھولک ترجمہ‏)‏ لیکن اُنہیں ”‏حلم‌مزاجی سے“‏ ایسا کرنا چاہئے۔‏ (‏گل ۶:‏۱‏)‏ بزرگ کلیسیا کے رُکنوں کو کسی مشورے پر عمل کرنے کے لئے مجبور نہیں کرتے۔‏ اِس کی بجائے بزرگ ایسے فیصلے کرنے میں اپنے بہن‌بھائیوں کی مدد کرتے ہیں جن سے ظاہر ہو کہ وہ یہوواہ خدا سے محبت کرتے ہیں۔‏ مثال کے طور پر اگر کسی بھائی یا بہن کو کوئی فیصلہ کرنا ہے تو ایک بزرگ اُس کی توجہ پاک کلام کے اصولوں پر یا پھر ہماری کتابوں یا رسالوں میں سے کسی مضمون پر دِلا سکتا ہے۔‏ وہ اُس بھائی یا بہن کو مشورہ دے سکتا ہے کہ وہ کوئی بھی فیصلہ کرنے سے پہلے سوچے کہ اِس کا خدا کے ساتھ اُس کی دوستی پر کیا اثر ہوگا۔‏ بزرگ اِس بات پر زور دے سکتا ہے کہ اُسے فیصلہ کرنے سے پہلے خدا سے رہنمائی مانگنی چاہئے۔‏ (‏امثا ۳:‏۵،‏ ۶‏)‏ جب وہ اُس بھائی یا بہن کے ساتھ اِن ساری باتوں پر غور کر لیتا ہے تو پھر فیصلہ اُس بھائی یا بہن کو خود کرنا ہوگا۔‏—‏روم ۱۴:‏۱-‏۴‏۔‏

۱۲ بزرگوں کو یہ اِختیار نہیں دیا گیا کہ وہ بہن‌بھائیوں کو اپنے خیالات کے مطابق نصیحت کریں۔‏ اُن کی ذمےداری ہے کہ وہ ہمیشہ بائبل پر مبنی مشورے دیں اور اِسے مہارت سے اِستعمال کریں۔‏ یوں وہ اپنے اِختیار کی حد کو پار نہیں کریں گے۔‏ اُنہیں یاد رکھنا چاہئے کہ بھیڑیں اُن کی نہیں بلکہ خدا کی ہیں۔‏ کلیسیا کا ہر رُکن اپنے فیصلوں اور کاموں کے لئے یہوواہ خدا اور یسوع مسیح کو خود جواب دے گا۔‏—‏گل ۶:‏۵،‏ ۷،‏ ۸‏۔‏

‏”‏گلّہ کے لئے نمونہ بنو“‏

بزرگ اپنے گھر والوں کے ساتھ مل کر اِس بات پر غور کرتے ہیں کہ وہ بادشاہت کا پیغام کس طرح پیش کریں گے۔‏ (‏پیراگراف ۱۳ کو دیکھیں۔‏)‏

۱۳،‏ ۱۴.‏ بزرگ کن باتوں میں گلے کے لئے ایک اچھی مثال قائم کر سکتے ہیں؟‏

۱۳ ہم دیکھ چکے ہیں کہ پطرس رسول نے بزرگوں کو نصیحت کی کہ وہ کلیسیا کے رُکنوں پر حکومت نہ جتائیں۔‏ اِس کے بعد اُنہوں نے بزرگوں کو تاکید کی کہ وہ ’‏گلّہ کے لئے نمونہ بنیں۔‏‘‏ (‏۱-‏پطر ۵:‏۳‏)‏ ایک بزرگ کلیسیا کے رُکنوں کے لئے اچھی مثال کیسے قائم کر سکتا ہے؟‏ اِس سلسلے میں دو شرائط پر غور کریں جن پر اُن بھائیوں کو پورا اُترنا چاہئے جو ’‏نگہبان کا عہدہ چاہتے ہیں۔‏‘‏ پہلی شرط یہ ہے کہ اُنہیں ”‏اپنے گھر کا بخوبی بندوبست“‏ کرنے والا ہونا چاہئے۔‏ اگر کسی بزرگ کے بیوی‌بچے ہیں تو اُسے اُن کی اچھی طرح دیکھ‌بھال کرنی چاہئے کیونکہ اگر ”‏کوئی اپنے گھر ہی کا بندوبست کرنا نہیں جانتا تو خدا کی کلیسیا کی خبرگیری کیوں‌کر کرے گا؟‏“‏ دوسری شرط یہ ہے کہ اُنہیں ”‏مُتقی“‏ ہونا چاہئے۔‏ جس یونانی لفظ کا ترجمہ ”‏مُتقی“‏ کِیا گیا ہے،‏ وہ سمجھ‌دار ہونے کا مطلب بھی رکھتا ہے۔‏ لہٰذا جو بھائی بزرگ بننا چاہتا ہے،‏ وہ نہ صرف پاک کلام کے اصولوں کو اچھی طرح سمجھتا ہے بلکہ یہ بھی جانتا ہے کہ اِنہیں اِستعمال میں کیسے لانا چاہئے۔‏ وہ مشکل صورتحال میں بھی اپنے جذبات پر قابو رکھتا ہے اور سوچ‌سمجھ کر فیصلہ کرتا ہے۔‏ (‏۱-‏تیم ۳:‏۱،‏ ۲،‏ ۴،‏ ۵‏)‏ جب کلیسیا کے رُکن بزرگوں میں ایسی اچھی باتیں دیکھتے ہیں تو اُن کا بزرگوں پر اِعتماد بڑھتا ہے۔‏

۱۴ بزرگوں کو مُنادی کے کام کے سلسلے میں بھی ایک اچھی مثال قائم کرنی چاہئے۔‏ اِس حوالے سے اُنہیں یسوع مسیح کے نقشِ‌قدم پر چلنا چاہئے۔‏ یسوع مسیح کی زندگی میں سب سے اہم کام یہ تھا کہ وہ خدا کی بادشاہت کی خوش‌خبری سنائیں۔‏ اُنہوں نے اپنے شاگردوں کو یہ کام کرنا سکھایا۔‏ (‏مر ۱:‏۳۸؛‏ لو ۸:‏۱‏)‏ جب مبشر،‏ بزرگوں کے ساتھ مُنادی کے کام میں حصہ لیتے ہیں تو اُن کی بہت حوصلہ‌افزائی ہوتی ہے۔‏ وہ اِس کام کے لئے بزرگوں کے جوش کو دیکھ کر متاثر ہوتے ہیں اور اُن سے تعلیم دینے کے مختلف طریقے سیکھتے ہیں۔‏ جب بزرگ اپنی تمام مصروفیات کے باوجود باقاعدگی سے بادشاہت کی خوش‌خبری سنانے کے لئے وقت نکالتے ہیں تو بہن‌بھائیوں میں بھی اِس کام میں حصہ لینے کا شوق بڑھتا ہے۔‏ جب بزرگ اِجلاسوں کے لئے تیاری کرکے آتے ہیں،‏ اِجلاسوں میں حصہ لیتے ہیں اور اپنی عبادت‌گاہ کی صفائی‌ستھرائی جیسے دیگر کاموں میں شامل ہوتے ہیں تو بہن‌بھائی اُن کی اچھی مثال سے بہت کچھ سیکھتے ہیں۔‏—‏افس ۵:‏۱۵،‏ ۱۶؛‏ عبرانیوں ۱۳:‏۷ کو پڑھیں۔‏

بزرگ مُنادی کے کام کے سلسلے میں ایک اچھی مثال قائم کرتے ہیں۔‏ (‏پیراگراف ۱۴ کو دیکھیں۔‏)‏

‏”‏کمزوروں کو سنبھالو“‏

۱۵.‏ جب بزرگ اپنے بہن‌بھائیوں سے ملنے جاتے ہیں تو اُن کا مقصد کیا ہوتا ہے؟‏

۱۵ جب کوئی بھیڑ زخمی ہو جائے یا بیمار ہو جائے تو چرواہا اُس کے علاج میں ذرا بھی دیر نہیں کرتا۔‏ اِسی طرح اگر کلیسیا میں کسی رُکن کو اِصلاح کی ضرورت ہے یا پھر وہ کسی مشکل سے دوچار ہے تو بزرگ بھی اُس کی مدد کرنے میں دیر نہیں کرتے۔‏ جو بہن‌بھائی بوڑھے یا بیمار ہیں،‏ اُنہیں شاید روزمرہ کے کاموں میں مدد کی ضرورت ہو سکتی ہے۔‏ لیکن خاص طور پر اُنہیں پاک کلام سے تسلی اور حوصلہ‌افزائی کی ضرورت ہوتی ہے۔‏ (‏۱-‏تھس ۵:‏۱۴‏)‏ ہو سکتا ہے کہ کلیسیا کے نوجوان کسی مسئلے کا سامنا کر رہے ہوں جیسے کہ ”‏جوانی کی خواہشوں“‏ پر قابو رکھنے کا مسئلہ۔‏ (‏۲-‏تیم ۲:‏۲۲‏)‏ لہٰذا بزرگ باقاعدگی سے بہن‌بھائیوں سے ملنے جاتے ہیں۔‏ وہ یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ بہن‌بھائی کن مسائل سے گزر رہے ہیں۔‏ پھر وہ اُن کی صورتحال کے مطابق اُنہیں پاک کلام سے مشورے دیتے ہیں۔‏ جب بزرگ اپنے بہن‌بھائیوں کے مسئلوں پر فوراً توجہ دیتے ہیں تو مسئلوں کو سنگین حد تک بڑھنے سے پہلے ہی حل کر لیا جاتا ہے۔‏

۱۶.‏ جب کسی بھائی یا بہن کی خدا کے ساتھ دوستی خطرے میں پڑ جاتی ہے تو بزرگ اُس کی مدد کیسے کرتے ہیں؟‏

۱۶ اگر کوئی مسئلہ اِتنا بڑھ جائے کہ کسی بھائی یا بہن کی خدا کے ساتھ دوستی خطرے میں پڑ جائے تو کیا کِیا جانا چاہئے؟‏ شاگرد یعقوب نے کہا:‏ ”‏اگر تُم میں کوئی بیمار ہو تو کلیسیا کے بزرگوں کو بلائے اور وہ [‏یہوواہ]‏ کے نام سے اُس کو تیل مل کر اُس کے لئے دُعا کریں۔‏ جو دُعا ایمان کے ساتھ ہوگی اُس کے باعث بیمار بچ جائے گا اور [‏یہوواہ]‏ اُسے اُٹھا کھڑا کرے گا اور اگر اُس نے گُناہ کئے ہوں تو اُن کی بھی معافی ہو جائے گی۔‏“‏ (‏یعقو ۵:‏۱۴،‏ ۱۵‏)‏ اگر وہ بہن یا بھائی ”‏کلیسیا کے بزرگوں“‏ کو نہیں بلاتا تو جونہی بزرگوں کو اُس کی صورتحال کا پتہ چلتا ہے،‏ اُنہیں فوراً اُس کی مدد کو پہنچنا چاہئے۔‏ جب بزرگ اُس بھائی یا بہن کے ساتھ دُعا کرتے ہیں اور اُسے ضروری مشورے دیتے ہیں تو وہ اُس کے لئے تازگی اور حوصلہ‌افزائی کا ذریعہ ثابت ہوتے ہیں۔‏‏—‏یسعیاہ ۳۲:‏۱،‏ ۲ کو پڑھیں۔‏

۱۷.‏ جب بزرگ ”‏بڑے چرواہے“‏ کی مثال پر عمل کرتے ہیں تو کیا فائدہ ہوتا ہے؟‏

۱۷ کلیسیا کے بزرگ ”‏بڑے چرواہے“‏ یعنی یسوع مسیح کی مثال پر ہر لحاظ سے عمل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔‏ بزرگوں کی رہنمائی اور مدد سے گلہ تندرست رہتا ہے اور بڑھتا ہے۔‏ ہم بزرگوں کی محنت کی دل سے قدر کرتے ہیں اور اِس اِنتظام کے لئے اپنے عظیم چرواہے یہوواہ خدا کی بڑائی کرتے ہیں۔‏