سرِورق کا موضوع: کیا موت سے آزادی ممکن ہے؟
موت پر غالب آنے کی جستجو
شہنشاہ چن شی ہوانگ
کھوجی پونسے دے لیون
موت ایک خوفناک دُشمن کی طرح ہے۔ ہم اِس دُشمن سے لڑنے کی پوری کوشش کرتے ہیں۔ جب موت ہمارے کسی عزیز کو نگل لیتی ہے تو شاید ہم اِس حقیقت سے مُنہ پھیرنے کوشش کریں کہ ہمارا عزیز ہم سے بچھڑ گیا ہے۔ یا شاید جوانی کے جوش میں ہم یہ سوچیں کہ یہ دُشمن ہم پر غالب نہیں آئے گا۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھساتھ ہماری یہ غلطفہمی دُور ہو جاتی ہے۔
دُنیا میں شاید ہی کسی اَور نے غیرفانی زندگی حاصل کرنے کی اِتنی کوشش کی ہو جتنی فرعونوں نے کی۔ اُنہوں نے اپنی اور اپنے ہزاروں مزدوروں کی زندگی موت پر فتح حاصل کرنے میں لگا دی۔ اُنہوں نے بڑےبڑے اہرام بنوائے جہاں اُن کی اور اُن کے گھر والوں کی لاشیں مصالحے لگا کر محفوظ رکھی جاتی تھیں۔ اِن اہرام کا مقصد یہ تھا کہ اِن لوگوں کی روحیں جب چاہیں اُسی جسم میں واپس لوٹ سکیں۔ لیکن اِن اہرام میں لاشیں محفوظ نہیں رہ سکیں اور یوں یہ موت پر فتح پانے میں فرعونوں کی ناکامی کا مُنہ بولتا ثبوت بن کر رہ گئے۔
چین کے شہنشاہوں نے بھی غیرفانی زندگی حاصل کرنے کا خواب دیکھا لیکن اُنہوں نے اِس خواب کو پورا کرنے کے لیے ایک فرق راستہ چنا۔ چینی شہنشاہ چن شی ہوانگ نے اپنے کیمیاگروں کو ایک ایسی دوا بنانے کا حکم دیا جسے پینے کے بعد اِنسان کبھی نہ مرے۔ لیکن اِن کیمیاگروں نے جو دوائیں بنائیں، اُن میں سے زیادہتر میں پارہ شامل تھا جو بہت زہریلا ہوتا ہے۔ خیال کِیا جاتا ہے کہ ایسی ہی کسی دوا کو پینے سے اِس شہنشاہ کی موت ہوئی تھی۔
کہا جاتا ہے کہ سولہویں صدی میں ہسپانوی کھوجی خوان پونسے دے لیون نے چشمہِحیات کی تلاش کرنے کے لیے ہی پورٹو ریکو سے اپنا سفر شروع کِیا۔ اِسی سفر کے دوران اُنہوں نے امریکی ریاست فلوریڈا کو دریافت کِیا۔ مگر اِس کے کچھ سال بعد وہ امریکہ کے اصلی باشندوں کے ہاتھوں ایک لڑائی میں مارے گئے۔ چشمہِحیات نہ تو اُس وقت کوئی تلاش کر سکا اور نہ ہی یہ آج تک کسی کو ملا ہے۔
فرعونوں، شہنشاؤں اور کھوجیوں نے موت پر غالب آنے کی پوری کوشش کی۔ ایسا کرنے کے لیے اُنہوں نے جو طریقے اپنائے، بھلے ہی وہ ہمیں ٹھیک نہ لگیں لیکن ہم سمجھ سکتے ہیں کہ اُنہوں نے کس مقصد سے ایسا کِیا۔ ہم سب کی دلی خواہش ہے کہ ہم کبھی نہ مریں۔
کیا موت پر فتح پانا ممکن ہے؟
یہ جانتے ہوئے بھی کہ موت ایک اٹل حقیقت ہے، ہم کیوں اِس پر غالب آنا چاہتے ہیں؟ پاک کلام میں اِس کی وجہ بتائی گئی ہے۔ اِس میں ہمارے خالق یہوواہ * کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ ”اُس نے ابدیت کو بھی [اِنسانوں] کے دل میں جاگزین کِیا ہے۔“ (واعظ 3:11) ہم صرف 70 یا 80 سال تک نہیں بلکہ ہمیشہ تک زندگی سے لطف اُٹھانا چاہتے ہیں۔ (زبور 90:10) یہ ہماری دلی خواہش ہے۔
خداخدا نے ہمارے دل میں ”ابدیت“ کی خواہش کیوں ڈالی ہے؟ کیا محض ہمیں ترسانے کے لیے؟ بالکل نہیں۔ خدا نے وعدہ کِیا ہے کہ ایک دن موت پر غلبہ پا لیا جائے گا۔ پاک کلام میں باربار بتایا گیا ہے کہ خدا موت کو ختم کر دے گا اور اِنسانوں کو ہمیشہ کی زندگی دے گا۔—بکس ”موت پر فتح“ کو دیکھیں۔
یسوع مسیح نے واضح طور پر کہا تھا کہ ”ہمیشہ کی زندگی یہ ہے کہ وہ تجھ خدایِواحد اور برحق کو اور یسوؔع مسیح کو جسے تُو نے بھیجا ہے جانیں۔“ (یوحنا 17:3) لہٰذا موت کے خلاف جنگ میں فتح محض ایک خواب نہیں ہے۔ یسوع مسیح کے الفاظ سے ظاہر ہوتا ہے کہ صرف خدا ہی ہمارے اِس خوفناک دُشمن کو ہرا سکتا ہے۔
^ پیراگراف 9 یہوواہ پاک کلام کے مطابق خدا کا ذاتی نام ہے۔