مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

قارئین کے سوال

قارئین کے سوال

پہلی صدی کے یہودی کن ثبوتوں کی بِنا پر مسیح کے ”‏منتظر“‏ تھے؟‏

یوحنا بپتسمہ دینے والے کے زمانے میں ”‏لوگ منتظر تھے اور سب اپنےاپنے دل میں یوؔحنا کی بابت سوچتے تھے کہ آیا وہ مسیح ہے یا نہیں۔‏“‏ (‏لو ۳:‏۱۵‏)‏ اُس وقت کے یہودیوں کو یہ توقع کیوں تھی کہ مسیح اُنہی کے زمانے میں آئے گا؟‏ اِس کی مختلف وجوہات ہیں۔‏ آئیں،‏ اِن پر غور کریں۔‏

یسوع کی پیدائش کے بعد یہوواہ خدا کا فرشتہ کچھ چرواہوں کو دِکھائی دیا جو بیت‌لحم کے قریب میدان میں اپنی بھیڑوں کی رکھوالی کر رہے تھے۔‏ ‏(‏۱)‏ فرشتے نے اُن سے کہا:‏ ”‏آج داؔؤد کے شہر میں تمہارے لئے ایک مُنجی پیدا ہوا ہے یعنی مسیح خداوند۔‏“‏ (‏لو ۲:‏۸-‏۱۱‏)‏ اِس کے بعد ”‏آسمانی لشکر کی ایک گروہ“‏ اِس فرشتے کے ساتھ آ ملی اور ”‏خدا کی حمد کرتی اور یہ کہتی ظاہر ہوئی کہ عالمِ‌بالا پر خدا کی تمجید ہو اور زمین پر اُن آدمیوں میں جن سے وہ راضی ہے صلح۔‏“‏ *‏—‏لو ۲:‏۱۳،‏ ۱۴‏۔‏

اِس اِعلان کا چرواہوں پر بہت گہرا اثر ہوا۔‏ وہ فوراً بیت‌لحم کو روانہ ہو گئے۔‏ جب اُنہوں نے یوسف،‏ مریم اور ننھے یسوع کو دیکھا تو اُنہوں نے ”‏وہ بات جو اُس لڑکے کے حق میں اُن سے کہی گئی تھی مشہور کی اور سب سننے والوں نے اِن باتوں پر جو چرواہوں نے اُن سے کہیں تعجب کِیا۔‏“‏ (‏لو ۲:‏۱۷،‏ ۱۸‏)‏ اِصطلاح ”‏سب سننے والوں“‏ سے ظاہر ہوتا ہے کہ چرواہوں نے یوسف اور مریم کے علاوہ دوسرے لوگوں کو بھی ساری باتیں بتائی تھیں۔‏ پھر چرواہے ”‏جیسا اُن سے کہا گیا تھا ویسا ہی سب کچھ سُن کر اور دیکھ کر خدا کی تمجید اور حمد کرتے ہوئے“‏ اپنے گھروں کو لوٹ گئے۔‏ (‏لو ۲:‏۲۰‏)‏ اِن چرواہوں کو مسیح کے بارے میں جو خوش‌خبری ملی تھی،‏ اُنہوں نے اِسے دوسروں میں پھیلا دیا۔‏

جب مریم شریعت کے مطابق اپنے پہلوٹھے بیٹے کو یہوواہ خدا کے حضور پیش کرنے کے لیے یروشلیم لے کر آئیں تو حناہ نامی ایک نبِیّہ ”‏خدا کا شکر کرنے لگی اور اُن سب سے جو یرؔوشلیم کے چھٹکارے کے منتظر تھے [‏یسوع]‏ کی بابت باتیں کرنے لگی۔‏“‏ ‏(‏۲)‏ ‏(‏لو ۲:‏۳۶-‏۳۸؛‏ خر ۱۳:‏۱۲‏)‏ یوں مسیح کے ظاہر ہونے کی خبر مسلسل پھیلتی رہی۔‏

پھر کچھ ”‏مجوسی پورب سے یرؔوشلیم میں یہ کہتے ہوئے آئے کہ یہودیوں کا بادشاہ جو پیدا ہوا ہے وہ کہاں ہے؟‏ کیونکہ پورب میں اُس کا ستارہ دیکھ کر ہم اُسے سجدہ کرنے آئے ہیں۔‏“‏ (‏متی ۲:‏۱،‏ ۲‏)‏ یہ بات سُن کر ”‏ہیرؔودیس بادشاہ اور اُس کے ساتھ یرؔوشلیم کے سب لوگ گھبرا گئے۔‏ اور اُس نے قوم کے سب سردارکاہنوں اور فقیہوں کو جمع کرکے اُن سے پوچھا کہ مسیح کی پیدایش کہاں  ہونی چاہئے؟‏“‏ ‏(‏۳)‏ ‏(‏متی ۲:‏۳،‏ ۴‏)‏ لہٰذا بہت سارے لوگوں کو مسیح کی آمد کی اِطلاع مل گئی تھی۔‏ *

شروع میں ہم نے دیکھا کہ یہودی لوگ یوحنا بپتسمہ دینے والے کو مسیح سمجھ رہے تھے۔‏ (‏لو ۳:‏۱۵‏)‏ لیکن یوحنا نے اِس خیال کو رد کِیا۔‏ اُنہوں نے کہا:‏ ”‏جو میرے بعد آتا ہے وہ مجھ سے زورآور ہے۔‏ مَیں اُس کی جُوتیاں اُٹھانے کے لائق نہیں۔‏ وہ تُم کو روحُ‌القدس اور آگ سے بپتسمہ دے گا۔‏“‏ (‏متی ۳:‏۱۱‏)‏ یوحنا کی اِس بات سے مسیح کے آنے کے بارے میں لوگوں کی اُمیدیں بڑھ گئیں۔‏

کیا ایسا ممکن ہے کہ پہلی صدی کے یہودیوں نے دانی‌ایل ۹:‏۲۴-‏۲۷ میں درج ۷۰ ہفتوں کی پیش‌گوئی سے مسیح کے آنے کے وقت کا اندازہ لگا لیا تھا؟‏ ایسا ہو بھی سکتا ہے لیکن ہم اِس کے بارے میں وثوق سے کچھ نہیں کہہ سکتے۔‏ دراصل یسوع مسیح کے زمانے میں ۷۰ ہفتوں کی پیش‌گوئی کے متعلق مختلف وضاحتیں پائی جاتی تھیں۔‏ لیکن اِن میں سے کوئی بھی ہماری وضاحت سے میل نہیں کھاتی۔‏ *

مثال کے طور پر یہودیوں کے ایک فرقے،‏ اسینیوں کی تعلیم یہ تھی کہ جب ۴۹۰ سال ختم ہونے والے ہوں گے تو دو مسیح آئیں گے۔‏ لیکن ہم یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ اسینیوں کی یہ تعلیم دانی‌ایل کی پیش‌گوئی پر مبنی تھی۔‏ اگر ایسا تھا بھی تو یہ ماننا ذرا مشکل ہے کہ دوسرے یہودی ایک ایسے فرقے کی تعلیم سے متاثر ہوئے جو بیابان میں الگتھلگ رہتا تھا۔‏

دوسری صدی عیسوی میں کچھ یہودی یہ مانتے تھے کہ ۷۰ ہفتے ۶۰۷ قبل‌ازمسیح میں پہلی ہیکل کی تباہی سے لے کر ۷۰ء میں دوسری ہیکل کی تباہی تک کا عرصہ ہے۔‏ بعض کا خیال یہ تھا کہ دانی‌ایل کی پیش‌گوئی دوسری صدی قبل‌ازمسیح میں مکابیوں (‏یعنی یہودیوں کے ایک گروہ)‏ کے دَور میں پوری ہوئی۔‏ لہٰذا ۷۰ ہفتوں کی پیش‌گوئی کی تکمیل کے متعلق یہودی کوئی متفقہ رائے نہیں رکھتے تھے۔‏

اگر ہم یہ فرض کر لیں کہ یہودیوں نے ۷۰ ہفتوں کی پیش‌گوئی کا صحیح حساب لگا لیا تھا تو پھر شاید ہم یہ سوچیں کہ رسولوں اور پہلی صدی کے مسیحیوں نے اِس پیش‌گوئی کا جائزہ ضرور لیا ہوگا۔‏ اِس طرح وہ یہ دیکھ سکتے تھے کہ مسیح عین وقت پر آیا تھا اور وہ یسوع ہی تھا۔‏ لیکن بائبل میں اِس بات کا کوئی ثبوت نہیں ملتا کہ اِبتدائی مسیحیوں نے ایسا کِیا تھا۔‏

ایک اَور قابلِ‌غور بات یہ ہے کہ اِنجیلیں لکھنے والوں نے اکثر یہ بتایا کہ عبرانی صحیفوں کی کون‌سی پیش‌گوئیاں یسوع مسیح پر پوری ہوئیں۔‏ (‏متی ۱:‏۲۲،‏ ۲۳؛‏ ۲:‏۱۳-‏۱۵؛‏ ۴:‏۱۳-‏۱۶‏)‏ لیکن اُن میں سے کسی نے بھی ۷۰ ہفتوں کی پیش‌گوئی کا ذکر نہیں کِیا۔‏

لہٰذا ہم یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ یسوع مسیح کے زمانے میں لوگ ۷۰ ہفتوں کی پیش‌گوئی کو صحیح طرح سمجھ گئے تھے۔‏ لیکن اِنجیلوں میں اَور ایسے ٹھوس ثبوت دیے گئے ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ لوگ مسیح کے ”‏منتظر“‏ کیوں تھے۔‏

^ پیراگراف 4 بائبل میں یہ نہیں بتایا گیا کہ فرشتوں نے یسوع کی پیدائش پر کوئی گیت گایا تھا۔‏

^ پیراگراف 7 ہم شاید سوچیں کہ مجوسیوں نے پورب یعنی مشرق میں نظر آنے والے ’‏ستارے‘‏ کو ’‏یہودیوں کے بادشاہ‘‏ کی پیدائش کا نشان کیوں خیال کِیا؟‏ ہو سکتا ہے کہ اُنہوں نے ملک اِسرائیل سے گزرتے ہوئے یسوع کی پیدائش کے متعلق خبریں سنی ہوں۔‏

^ پیراگراف 9 ستر ہفتوں کی پیش‌گوئی کے بارے میں ہماری وضاحت کو جاننے کے لیے کتاب دانی‌ایل کی نبوّت پر دھیان دیں!‏ کے باب ۱۱ کو دیکھیں۔‏