مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

اُن رشتےداروں کے دل تک پہنچیں جو سچائی میں نہیں

اُن رشتےداروں کے دل تک پہنچیں جو سچائی میں نہیں

ایک بار یسوع مسیح گلیل کی جھیل کے قریب گِراسینیوں کے علاقے میں تھے۔‏ وہاں اُنہوں نے ایک شخص میں سے بدروحوں کو نکالا۔‏ اُس شخص نے یسوع مسیح سے کہا کہ وہ اُن کے ساتھ رہنا چاہتا ہے۔‏ مگر یسوع مسیح نے اُس سے کہا:‏ ”‏اپنے لوگوں کے پاس اپنے گھر جا اور اُن کو خبر دے کہ [‏یہوواہ]‏ نے تیرے لئے کیسے بڑے کام کئے اور تجھ پر رحم کِیا۔‏“‏ یسوع مسیح کی اِس بات سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ جانتے تھے کہ اِنسانوں کو اپنے رشتےداروں کے ساتھ اہم اور دلچسپ باتیں کرنا اچھا لگتا ہے۔‏—‏مر ۵:‏۱۹‏۔‏

یہ بات کچھ ثقافتوں سے تعلق رکھنے والے اِنسانوں میں زیادہ نظر آتی ہے جبکہ بعض میں کم۔‏ لہٰذا جب کوئی شخص سچے خدا یہوواہ کے بارے میں تعلیم حاصل کرتا ہے تو وہ عموماً اپنے رشتےداروں کو اِس کے بارے میں بتانا چاہتا ہے۔‏ لیکن ایسا کرتے وقت اُسے کس بات کا خیال رکھنا چاہیے؟‏ وہ اپنے اُن رشتےداروں کے دل تک کیسے پہنچ سکتا ہے جو اُس کے ہم‌ایمان نہیں ہیں؟‏ اِس سلسلے میں بائبل میں بڑی مؤثر ہدایات پائی جاتی ہیں۔‏

‏’‏ہمیں مسیح مل گیا‘‏

شاگرد اندریاس اُن لوگوں میں سے ایک تھے جنہوں نے سب سے پہلے یہ مانا تھا کہ یسوع ہی مسیح ہیں۔‏ اندریاس نے فوراً یہ بات کس کو بتائی تھی؟‏ ”‏اُس نے پہلے اپنے سگے بھائی شمعوؔن سے مل کر اُس سے کہا کہ ہم کو خرِستُسؔ یعنی مسیح مل گیا۔‏“‏ اندریاس اپنے بھائی شمعون یعنی پطرس کو یسوع مسیح کے پاس لے کر گئے۔‏ یوں پطرس کو یسوع مسیح کا شاگرد بننے کا موقع ملا۔‏—‏یوح ۱:‏۳۵-‏۴۲‏۔‏

اِس کے کوئی چھ سال بعد پطرس رسول یافا کے علاقے میں تھے۔‏ وہاں اُنہیں روحُ‌القدس کے ذریعے یہ ہدایت ملی کہ وہ جنوب میں واقع شہر قیصریہ کو جائیں۔‏ اُنہیں رومی فوج کے ایک افسر کے گھر جانے کو کہا گیا جس کا نام کُرنیلیس تھا۔‏ جب پطرس رسول،‏ کُرنیلیس کے گھر پہنچے تو وہ ”‏اپنے رشتہ‌داروں اور دلی دوستوں کو جمع کرکے [‏پطرس اور اُن کے ساتھیوں]‏ کی راہ دیکھ رہا تھا۔‏“‏ کُرنیلیس نے اپنے رشتےداروں کو موقع دیا کہ وہ پطرس کا پیغام سنیں اور خود فیصلہ کریں کہ وہ اِسے قبول کریں گے یا نہیں۔‏—‏اعما ۱۰:‏۲۲-‏۳۳‏۔‏

 ہم اندریاس اور کُرنیلیس کی مثال سے کیا سیکھتے ہیں؟‏

اُن دونوں نے یہ نہیں سوچا تھا کہ اُن کے رشتےداروں کو خوش‌خبری کا پیغام کسی اَور سے مل جائے گا۔‏ اندریاس خود اپنے بھائی پطرس کو یسوع مسیح کے پاس لے کر گئے اور کُرنیلیس نے خود اپنے رشتےداروں کو اپنے گھر بلایا تاکہ وہ پطرس کا پیغام سُن سکیں۔‏ لیکن اندریاس اور کُرنیلیس نے نہ تو اپنے رشتےداروں پر کسی قسم کا دباؤ ڈالا اور نہ ہی اُنہوں نے جان‌بُوجھ کر ایسے حالات پیدا کیے جن میں اُن کے رشتےدار مجبوراً مسیحی بن جاتے۔‏ ہم اُن کی مثال پر عمل کر سکتے ہیں۔‏ ہم اپنے رشتےداروں کے ساتھ بائبل کے بارے میں بات کر سکتے ہیں،‏ ہم کسی طریقے سے اُنہیں اپنے ہم‌ایمانوں سے متعارف کروا سکتے ہیں یا پھر ہم کوئی ایسا طریقہ نکال سکتے ہیں جس سے وہ بائبل کی تعلیم حاصل کرنے کی طرف مائل ہوں۔‏ مگر ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ اُنہیں یہ فیصلہ کرنے کا حق ہے کہ وہ سچائی قبول کریں گے یا نہیں۔‏ اِس لیے ہمیں اُن پر کسی قسم کا دباؤ نہیں ڈالنا چاہیے۔‏ اپنے رشتےداروں کو سچائی کی طرف مائل کرنے کے سلسلے میں آئیں،‏ بھائی یرگن اور اُن کی بیوی پیٹرا کی مثال پر غور کریں جن کا تعلق جرمنی سے ہے۔‏

پیٹرا نے یہوواہ کے گواہوں کے ساتھ بائبل کا مطالعہ کِیا اور پھر بپتسمہ لے لیا۔‏ اُس وقت اُن کا شوہر یرگن ایک فوجی افسر تھا۔‏ شروع شروع میں تو یرگن اِس بات سے بالکل خوش نہیں تھے کہ اُن کی بیوی یہوواہ کی گواہ بن گئی ہے۔‏ لیکن وقت کے ساتھ‌ساتھ وہ سمجھ گئے کہ یہوواہ کے گواہ سچی تعلیم دیتے ہیں۔‏ اُنہوں نے بھی بپتسمہ لے لیا اور اب وہ اپنی کلیسیا میں ایک بزرگ ہیں۔‏ یرگن کے مطابق ہم اپنے اُن رشتےداروں کے دل تک کیسے پہنچ سکتے ہیں جو یہوواہ کے گواہ نہیں ہیں؟‏

یرگن نے کہا:‏ ”‏ہمیں ہر وقت اپنے رشتےداروں کے ساتھ بائبل کے بارے میں بات نہیں کرنی چاہیے۔‏ اگر ہم ایسا کریں گے تو وہ ہم سے تنگ آ جائیں گے۔‏ لیکن اگر ہم کبھی‌کبھار بائبل سے کسی دلچسپ موضوع پر اُن سے مختصر سی بات کرتے ہیں تو اِس کے اچھے نتائج نکل سکتے ہیں۔‏ اپنے رشتےداروں کو کلیسیا کے ایسے بہن‌بھائیوں سے ملوانا بھی اچھا ہوگا جو اُن کے ہم‌عمر ہیں اور اُن جیسے شوق رکھتے ہیں۔‏ ایسے بہن‌بھائی شاید ہمارے رشتےداروں کے دل تک پہنچ جائیں۔‏“‏

‏”‏ہمیں ہر وقت اپنے رشتےداروں کے ساتھ بائبل کے بارے میں بات نہیں کرنی چاہیے۔‏ اگر ہم ایسا کریں گے تو وہ ہم سے تنگ آ جائیں گے۔‏“‏—‏یرگن

پطرس رسول اور کُرنیلیس کے رشتےداروں نے فوراً خوش‌خبری کو قبول کر لیا تھا۔‏ لیکن پہلی صدی میں کچھ لوگ ایسے بھی تھے جنہوں نے مسیحی بننے کا فیصلہ فوراً نہیں کِیا تھا۔‏

یسوع مسیح کے بھائی فوراً ایمان نہیں لائے تھے

یسوع مسیح کے کچھ رشتےدار اُن کی زندگی کے دوران ہی اُن پر ایمان لے آئے تھے۔‏ ایسا لگتا ہے کہ یعقوب اور یوحنا رسول کی ماں سَلومی،‏ یسوع مسیح کی خالہ تھیں۔‏ اِس رشتے سے یہ دونوں رسول یسوع مسیح کے خالہ‌زاد بھائی تھے۔‏ ہو سکتا ہے کہ سَلومی اُن عورتوں میں سے ایک تھیں ”‏جو اپنے مال سے [‏یسوع مسیح اور اُن کے رسولوں]‏ کی خدمت کرتی تھیں۔‏“‏—‏لو ۸:‏۱-‏۳‏۔‏

لیکن یسوع مسیح کے کچھ رشتےدار ایسے بھی تھے جو اُن پر فوراً ایمان نہیں لائے تھے۔‏ مثال کے طور پر یسوع مسیح کے بپتسمے کے ایک سال بعد ایک موقعے پر بہت سے لوگ اُن کی تعلیم سننے کے لیے ایک گھر میں جمع تھے۔‏ ”‏جب [‏یسوع مسیح]‏ کے عزیزوں نے یہ سنا تو اُسے پکڑنے کو نکلے کیونکہ کہتے تھے کہ وہ بےخود ہے۔‏“‏ اِس کے کچھ عرصے بعد جب یسوع مسیح کے سوتیلے بھائی اُن سے یہ جاننا چاہتے تھے کہ مُنادی کے کام کے لیے وہ کہاں‌کہاں جانے کا اِرادہ رکھتے ہیں تو یسوع مسیح نے اُنہیں کوئی واضح جواب نہیں دیا تھا۔‏ اِس کی کیا وجہ تھی؟‏ وجہ یہ تھی کہ ”‏اُس کے بھائی بھی اُس پر ایمان نہ لائے تھے۔‏“‏—‏مر ۳:‏۲۱؛‏ یوح ۷:‏۵‏۔‏

یسوع مسیح جس طرح اپنے اِن رشتےداروں کے ساتھ پیش آئے،‏ اُس سے ہم کیا سیکھتے ہیں؟‏ جب یسوع مسیح کے بعض رشتےداروں نے کہا کہ وہ بےخود ہیں یعنی اُن کا دماغ خراب ہو گیا ہے تو یسوع مسیح اُن سے ناراض نہیں ہوئے۔‏ یہاں تک کہ مُردوں میں سے جی اُٹھنے کے بعد وہ اپنے سوتیلے بھائی یعقوب کو دِکھائی دیے۔‏ لگتا ہے کہ اِس سے نہ صرف یعقوب بلکہ اُن کے دوسرے سوتیلے بھائی بھی قائل ہو گئے کہ  یسوع واقعی مسیح تھا۔‏ اِس لیے جب یروشلیم میں رسولوں اور دیگر شاگردوں پر پاک روح نازل ہوئی تو یسوع مسیح کے سوتیلے بھائی بھی اِس موقعے پر موجود تھے۔‏ وقت گزرنے کے ساتھ‌ساتھ یعقوب اور یسوع مسیح کے ایک اَور بھائی یہوداہ کو خدا کی خدمت میں شان‌دار اعزاز ملے۔‏—‏اعما ۱:‏۱۲-‏۱۴؛‏ ۲:‏۱-‏۴؛‏ ۱-‏کر ۱۵:‏۷‏۔‏

کچھ رشتےدار سچائی دیر سے قبول کرتے ہیں

‏”‏اپنے رشتےداروں کو سچائی کی طرف کھینچنے کے لیے صبر سے کام لینا نہایت ضروری ہے۔‏“‏—‏روزویٹا

پہلی صدی کی طرح آجکل بھی کچھ مسیحیوں کے رشتےدار فوراً سچائی کو قبول نہیں کرتے۔‏ اِس سلسلے میں روزویٹا کی مثال پر غور کریں جن کا تعلق کیتھولک چرچ سے تھا۔‏ سن ۱۹۷۸ء میں اُن کا شوہر یہوواہ کا گواہ بن گیا۔‏ چونکہ روزویٹا اپنے عقیدوں کی بڑی پکی تھیں اِس لیے شروع شروع میں اُنہوں نے اپنے شوہر کی مخالفت کی۔‏ لیکن وقت کے ساتھ‌ساتھ اُنہوں نے مخالفت کرنا کم کر دیا اور وہ سمجھنے لگیں کہ یہوواہ کے گواہوں کی تعلیم سچی ہے۔‏ اُنہوں نے ۲۰۰۳ء میں بپتسمہ لے لیا۔‏ روزویٹا میں یہ تبدیلی کیوں آئی؟‏ اُن کا شوہر اُن کی مخالفت کی وجہ سے ناراض نہیں ہوا تھا بلکہ وہ ایسے موقعے پیدا کرتا رہا جن سے سچائی میں روزویٹا کی دلچسپی بڑھتی گئی۔‏ روزویٹا ایسے بہن‌بھائیوں کو کیا مشورہ دیتی ہیں جن کے رشتےدار یہوواہ کے گواہ نہیں ہیں؟‏ وہ کہتی ہیں:‏ ”‏اپنے رشتےداروں کو سچائی کی طرف کھینچنے کے لیے صبر سے کام لینا نہایت ضروری ہے۔‏“‏

بہن مونیکا نے ۱۹۷۴ء میں بپتسمہ لیا اور اِس کے دس سال بعد اُن کے دو بیٹے بھی یہوواہ کے گواہ بن گئے۔‏ اُن کا شوہر جس کا نام ہانز ہے،‏ اُن کی مخالفت تو نہیں کرتا تھا پھر بھی اُسے یہوواہ کا گواہ بننے میں بہت وقت لگا۔‏ اُس نے ۲۰۰۶ء میں بپتسمہ لیا۔‏ مونیکا اور اُن کے گھر والے اُن بہن‌بھائیوں کو کیا مشورہ دیتے ہیں جن کے رشتےدار یہوواہ کے گواہ نہیں ہیں؟‏ اُن کا مشورہ یہ ہے:‏ ”‏یہوواہ خدا کے وفادار رہیں اور اپنے رشتےداروں کو خوش کرنے کے لیے بائبل کے اصولوں پر سمجھوتا نہ کریں۔‏“‏ بِلاشُبہ مونیکا اور اُن کے بچوں کے لیے یہ ضروری تھا کہ وہ ہانز کے لیے اپنی محبت ظاہر کرتے رہیں۔‏ اِس کے علاوہ اُنہوں نے یہ اُمید بھی نہ چھوڑی کہ ہانز آخرکار سچائی قبول کر لیں گے۔‏

سچائی کا پانی کس صورت میں تازگیبخش ہوتا ہے؟‏

ایک بار یسوع مسیح نے پاک کلام کی سچائیوں کو ایسے پانی سے تشبیہ دی جو ہمیشہ کی زندگی دے سکتا ہے۔‏ (‏یوح ۴:‏۱۳،‏ ۱۴‏)‏ ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے رشتےدار سچائی کے صاف‌شفاف پانی کو پی کر تازگی حاصل کریں۔‏ جس طرح بہت سارا پانی ایک دم کسی کے گلے میں اُنڈیلنے سے اُس کی سانس رُک سکتی ہے اُسی طرح اگر ہم اپنے رشتےداروں پر پاک کلام کی سچائیوں کی بھرمار کر دیتے ہیں تو وہ تنگ آ سکتے ہیں۔‏ ہمارے رشتےدار سچائی کے پانی سے تازگی حاصل کریں گے یا پھر اِس سے تنگ آئیں گے،‏ اِس کا اِنحصار اِس بات پر ہے کہ ہم اُنہیں اپنے ایمان کے بارے میں ایک وقت میں کتنا بتاتے ہیں۔‏ بائبل میں لکھا ہے کہ ”‏صادق کا دل سوچ کر جواب دیتا ہے“‏ اور ”‏دانا کا دل اُس کے مُنہ کی تربیت کرتا ہے اور اُس کے لبوں کو علم بخشتا ہے۔‏“‏ ہم اِن اصولوں پر عمل کیسے کر سکتے ہیں؟‏—‏امثا ۱۵:‏۲۸؛‏ ۱۶:‏۲۳‏۔‏

مثال کے طور پر ایک بہن جو یہوواہ کی گواہ ہے،‏ اپنے شوہر سے بائبل کی تعلیمات کے بارے میں بات کرنا چاہتی ہے۔‏ اگر وہ بات کرنے سے پہلے سوچ‌بچار کرتی ہے تو وہ مناسب الفاظ کا اِنتخاب کرے گی اور کوئی ایسی بات نہیں کرے گی جو اُس کے شوہر کو بُری لگے۔‏ وہ یہ تاثر ہرگز نہیں دے گی کہ وہ اپنے شوہر سے زیادہ نیک ہے۔‏ اگر وہ سوچ‌سمجھ کر بات کرے گی تو ہو سکتا ہے کہ شوہر پر اچھا اثر ہو اور اُن میں جھگڑا یا تلخی بھی نہ ہو۔‏ اُسے خود سے پوچھنا چاہیے کہ ”‏شوہر سے بات کرنا کس وقت مناسب ہوگا؟‏ وہ کن موضوعات کے بارے میں پڑھنا یا بات‌چیت کرنا پسند کرتا ہے؟‏ کیا وہ سائنس،‏ سیاست یا کھیل میں دلچسپی لیتا ہے؟‏ مَیں اُس کے احساسات اور نظریات کا لحاظ رکھتے ہوئے بائبل کی تعلیم میں اُس کی دلچسپی کیسے بڑھا سکتی ہوں؟‏“‏ ایسے سوالوں پر غور کرنے سے وہ دراصل دانائی کا ثبوت دے رہی ہوگی۔‏

ہمارے جو رشتےدار یہوواہ کے گواہ نہیں ہیں،‏ اُن کے دل تک پہنچنے کے لیے یہی کافی نہیں کہ ہم اُن کے ساتھ سمجھ‌داری سے بائبل کے بارے میں بات کریں بلکہ یہ بھی ضروری ہے کہ ہم اپنا چال‌چلن نیک رکھیں۔‏ یوں ہماری باتیں اُن پر زیادہ اثر کریں گی۔‏

نیک چال‌چلن کی اہمیت

یرگن جن کا پہلے ذکر کِیا گیا ہے،‏ وہ کہتے ہیں:‏ ”‏اپنی روزمرہ زندگی میں بائبل کے اصولوں پر عمل کریں۔‏ اگر آپ ایسا کرتے ہیں تو آپ کے رشتےدار آپ کے چال‌چلن سے ضرور متاثر ہوں گے مگر شاید زبان سے کچھ نہیں کہیں گے۔‏“‏ ہانز جنہوں نے اپنی بیوی کے بپتسمے کے تقریباً ۳۰ سال بعد بپتسمہ لیا،‏ وہ کہتے ہیں:‏ ”‏اپنا چال‌چلن نیک رکھنا بہت ضروری ہے۔‏ یوں آپ کے رشتےدار یہ دیکھ سکیں گے کہ بائبل کی تعلیم نے آپ کی زندگی پر کتنا اچھا اثر ڈالا ہے۔‏“‏ ہمارے رشتےداروں کو یہ نظر آنا چاہیے کہ ہم دوسروں سے فرق تو ہیں لیکن ہمارا چال‌چلن اُن سے اچھا ہے،‏ بُرا نہیں۔‏

‏”‏اپنا چال‌چلن نیک رکھنا بہت ضروری ہے۔‏ یوں آپ کے رشتےدار یہ دیکھ سکیں گے کہ بائبل کی تعلیم نے آپ کی زندگی پر کتنا اچھا اثر ڈالا ہے۔‏“‏—‏ہانز

پطرس رسول نے اُن بیویوں کو بڑی اچھی نصیحت کی جن کے شوہر اُن کے ہم‌ایمان نہیں ہیں۔‏ اُنہوں نے کہا:‏ ”‏اَے بیویو!‏ تُم بھی اپنےاپنے شوہر کے تابع رہو۔‏ اِس لئے کہ اگر بعض اُن میں سے کلام کو نہ مانتے ہوں تو بھی تمہارے پاکیزہ چال‌چلن اور خوف کو دیکھ کر بغیر کلام کے اپنی‌اپنی بیوی کے چال‌چلن سے خدا کی طرف کھنچ جائیں۔‏ اور تمہارا سنگار ظاہری نہ ہو یعنی سر گوندھنا اور سونے کے زیور اور طرح‌طرح کے کپڑے  پہننا۔‏ بلکہ تمہاری باطنی اور پوشیدہ انسانیت حلم اور مزاج کی غربت کی غیرفانی آرایش سے آراستہ رہے کیونکہ خدا کے نزدیک اِس کی بڑی قدر ہے۔‏“‏—‏۱-‏پطر ۳:‏۱-‏۴‏۔‏

پطرس رسول نے کہا کہ بیوی کے اچھے چال‌چلن کی وجہ سے شوہر سچائی کی طرف کھنچ سکتا ہے۔‏ اِس سلسلے میں بہن کرسٹا کی مثال پر غور کریں۔‏ اُنہوں نے ۱۹۷۲ء میں بپتسمہ لیا۔‏ تب سے وہ پطرس رسول کی نصیحت پر عمل کرتے ہوئے اپنے شوہر کے دل تک پہنچنے کی کوشش کر رہی ہیں۔‏ ایک وقت تھا جب اُن کا شوہر یہوواہ کے گواہوں کے ساتھ بائبل کا مطالعہ کِیا کرتا تھا مگر اُس نے ابھی تک خود کو یہوواہ کے لیے وقف نہیں کِیا۔‏ وہ کچھ اِجلاسوں پر بھی آیا تھا اور کلیسیا کے بہن‌بھائیوں کے ساتھ بھی اُس کی اچھی بنتی ہے۔‏ لیکن بہن‌بھائی اِس بات کو سمجھتے ہیں کہ سچائی میں آنا یا نہ آنا اُس کا اپنا فیصلہ ہے۔‏ کرسٹا اپنے شوہر کے دل تک پہنچنے کی کوشش کیسے کر رہی ہیں؟‏

کرسٹا کہتی ہیں:‏ ”‏مَیں نے یہوواہ خدا کے وفادار رہنے کا عزم کر رکھا ہے۔‏ اِس کے ساتھ‌ساتھ مَیں اپنے اچھے چال‌چلن کے ذریعے اپنے شوہر کو سچائی کی طرف کھینچنے کی کوشش کر رہی ہوں۔‏ مَیں اُن کی ہر وہ بات ماننے کی کوشش کرتی ہوں جو بائبل کے کسی اصول کے خلاف نہیں ہوتی۔‏ مَیں یہ بات بھی سمجھتی ہوں کہ سچائی کو قبول کرنا یا نہ کرنا اُن کا ذاتی فیصلہ ہے۔‏ اِس لیے مَیں نے یہ معاملہ یہوواہ خدا کے ہاتھ میں چھوڑ دیا ہے۔‏“‏

کرسٹا کی مثال سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہوواہ کے خادم بن جانے کے بعد ہمیں اپنے اُن گھر والوں کو نظرانداز نہیں کرنا چاہیے جو سچائی میں نہیں ہیں۔‏ کرسٹا باقاعدگی سے اِجلاسوں میں جاتی ہیں اور مُنادی کے کام میں حصہ لیتی ہیں۔‏ لیکن وہ یہ بات بھی سمجھتی ہیں کہ اُن کے شوہر کا یہ حق ہے کہ کرسٹا اُسے پوری توجہ اور وقت دے اور اُسے پیار کرے۔‏ ایسا کرنا اُن سب مسیحیوں کے لیے اچھا ہوگا جن کے گھر والے اُن کے ہم‌ایمان نہیں ہیں۔‏ بائبل میں بتایا گیا ہے:‏ ”‏ہر کام کا .‏ .‏ .‏ ایک وقت ہے۔‏“‏ اِس اصول کو مدِنظر رکھتے ہوئے ہمیں اپنے گھر کے اُن افراد کے لیے وقت نکالنا چاہیے جو یہوواہ کے گواہ نہیں ہیں خاص طور پر اپنے جیون‌ساتھی کے لیے۔‏ جب ہم اِن گھر والوں کے ساتھ وقت گزارتے ہیں تو ہمیں کُھل کر بات‌چیت کرنے کے زیادہ موقع ملتے ہیں۔‏ یوں اِس بات کا زیادہ اِمکان ہوگا کہ وہ تنہائی محسوس نہیں کریں گے،‏ خود کو غفلت کا شکار نہیں سمجھیں گے اور کلیسیا کے بہن‌بھائیوں سے حسد نہیں کریں گے۔‏—‏واعظ ۳:‏۱‏۔‏

اُمید کا دامن نہ چھوڑیں

بھائی ہولگر کے والد اپنے باقی گھر والوں کے بپتسمے کے ۲۰ سال بعد یہوواہ کے گواہ بنے۔‏ بھائی ہولگر کہتے ہیں:‏ ”‏گھر کا جو فرد سچائی میں نہیں ہے،‏ اُس کے لیے محبت ظاہر کرنا بہت ضروری ہے۔‏ اُسے یہ بتائیں کہ آپ اُسے اپنی دُعاؤں میں یاد رکھتے ہیں۔‏“‏ کرسٹا کہتی ہیں:‏ ”‏مَیں اِس اُمید کا دامن کبھی نہیں چھوڑوں گی کہ ایک نہ ایک دن میرا شوہر سچائی قبول کرے گا اور یہوواہ خدا کی عبادت کرے گا۔‏“‏ ہمارے جو رشتےدار یہوواہ کے گواہ نہیں ہیں،‏ ہمیں اُن کے بارے میں کبھی نااُمید نہیں ہونا چاہیے۔‏

ہماری کوشش ہے کہ رشتوں میں کسی قسم کی دراڑ پیدا نہ ہو،‏ ہم اپنے رشتےداروں کو سچائی کو پہچاننے کا موقع دیں اور بائبل کے پیغام کو اُن کے دل پر اثر کرنے دیں۔‏ اور یہ سب کام ہم ”‏نرم‌مزاجی اور احترام کے ساتھ“‏ کرنا چاہتے ہیں۔‏—‏۱-‏پطر ۳:‏۱۵‏،‏ نیو اُردو بائبل ورشن۔‏