مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

عمررسیدہ بہن‌بھائیوں کی قدر کریں

عمررسیدہ بہن‌بھائیوں کی قدر کریں

‏”‏تُو .‏ .‏ .‏ بڑے بوڑھے کا ادب کرنا۔‏“‏—‏احبا ۱۹:‏۳۲‏۔‏

۱.‏ اِنسان کیسی حالت میں مبتلا ہیں؟‏

یہوواہ خدا کا کبھی بھی یہ مقصد نہیں تھا کہ اِنسان بوڑھے ہوں اور اِس کی وجہ سے تکلیفوں اور مشکلوں کا سامنا کریں۔‏ اِس کی بجائے وہ چاہتا تھا کہ اِنسان ہمیشہ تک فردوس میں تندرست اور خوش‌باش رہیں۔‏ لیکن آجکل ”‏ساری مخلوقات مل کر .‏ .‏ .‏ کراہتی ہے اور دردِزہ میں پڑی تڑپتی ہے۔‏“‏ (‏روم ۸:‏۲۲‏)‏ آپ کے خیال میں جب خدا یہ دیکھتا ہے کہ اِنسان گُناہ کی وجہ سے تکلیفوں میں مبتلا ہیں تو اُسے کیسا محسوس ہوتا ہے؟‏ یہ بھی افسوس کی بات ہے کہ اکثر عمررسیدہ لوگوں سے غفلت برتی جاتی ہے حالانکہ زندگی کے اِس مرحلے میں اُنہیں دیکھ‌بھال اور توجہ کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔‏—‏زبور ۳۹:‏۵؛‏ ۲-‏تیم ۳:‏۳‏۔‏

۲.‏ ہم اپنے عمررسیدہ بہن‌بھائیوں کی قدر کیوں کرتے ہیں؟‏

۲ ہماری لیے یہ بڑی خوشی کی بات ہے کہ ہماری کلیسیاؤں میں عمررسیدہ لوگ موجود ہیں۔‏ ہمیں اُن کے تجربے اور دانش‌مندی سے بہت فائدہ ہوتا ہے اور اُن کی وفاداری اور ایمان کو دیکھ کر ہم پر گہرا اثر ہوتا ہے۔‏ ہم میں سے بہت سے ایسے ہیں جن کے کچھ رشتےدار بوڑھے ہو چکے ہیں۔‏ چاہے عمررسیدہ مسیحی بہن‌بھائی ہمارے رشتےدار ہوں یا نہ ہوں،‏ ہمیں اُن کی دیکھ‌بھال میں دلچسپی لینی چاہیے۔‏ (‏گل ۶:‏۱۰؛‏ ۱-‏پطر ۱:‏۲۲‏)‏ اِس مضمون میں ہم عمررسیدہ لوگوں کے بارے میں خدا کے نظریے پر غور کریں گے جس سے ہم سب کو فائدہ ہوگا۔‏ اِس کے علاوہ ہم دیکھیں گے کہ عمررسیدہ بہن‌بھائیوں کی دیکھ‌بھال کے سلسلے میں اُن کے گھر والوں کی اور کلیسیا کی ذمےداری کیا ہے۔‏

 ‏”‏مجھے ترک نہ کر“‏

۳،‏ ۴.‏ ‏(‏الف)‏ زبور ۷۱ لکھنے والے نے یہوواہ خدا سے کیا اِلتجا کی؟‏ (‏ب)‏عمررسیدہ بہن‌بھائی خدا سے کیا مانگ سکتے ہیں؟‏

۳ زبور ۷۱:‏۹ میں لکھا ہے کہ ”‏بڑھاپے کے وقت مجھے ترک نہ کر۔‏ میری ضعیفی میں مجھے چھوڑ نہ دے۔‏“‏ خدا سے یہ اِلتجا کس نے کی؟‏ دراصل زبور ۷۰ کو داؤد نے لکھا جو اُن کی ایک دُعا ہے۔‏ لگتا ہے کہ یہی دُعا زبور ۷۱ میں بھی جاری ہے۔‏ اِس سے تاثر ملتا ہے کہ زبور ۷۱:‏۹ میں درج اِلتجا بھی داؤد ہی کی ہے۔‏ اُنہوں نے نوجوانی سے بڑھاپے تک خدا کی خدمت کی اور یہوواہ نے اُن سے بڑے بڑے کام لئے۔‏ (‏۱-‏سمو ۱۷:‏۳۳-‏۳۷،‏ ۵۰؛‏ ۱-‏سلا ۲:‏۱-‏۳،‏ ۱۰‏)‏ پھر بھی اُنہوں نے یہ دُعا کرنے کی ضرورت محسوس کی کہ خدا اُن کے ساتھ رہے۔‏‏—‏زبور ۷۱:‏۱۷،‏ ۱۸ کو پڑھیں۔‏

۴ ہمارے بہت سے عمررسیدہ بہن‌بھائی داؤد کی مثال پر عمل کرتے ہیں۔‏ وہ ’‏بُرے دنوں‘‏ یعنی بڑھاپے کے باوجود دل‌وجان سے خدا کی بڑائی کر رہے ہیں۔‏ (‏واعظ ۱۲:‏۱-‏۷‏)‏ اِن میں سے کچھ ایسے ہیں جو زندگی کے مختلف پہلوؤں میں اب پہلے جتنا حصہ نہیں لے سکتے،‏ مثلاً اب وہ پہلے جتنی مُنادی نہیں کر سکتے۔‏ لیکن داؤد کی طرح وہ بھی یہ دُعا مانگ سکتے ہیں کہ یہوواہ خدا سدا اُن پر اپنا سایہ بنائے رکھے اور اُنہیں سنبھالے۔‏ وفاداری سے خدا کی خدمت کرنے والے عمررسیدہ بہن‌بھائیوں کی دُعاؤں میں اُن باتوں کی جھلک نظر آتی ہے جو داؤد نے خدا کے اِلہام سے کہی تھیں۔‏ اِس لیے ایسے بہن‌بھائی یقین رکھ سکتے ہیں کہ خدا اُن کی دُعائیں ضرور سنے گا۔‏

۵.‏ یہوواہ خدا اُن عمررسیدہ لوگوں کو کیسا خیال کرتا ہے جو اُس کے وفادار رہتے ہیں؟‏

۵ بائبل میں صاف طور پر بتایا گیا ہے کہ یہوواہ خدا اُن عمررسیدہ لوگوں کی بڑی قدر کرتا ہے جو اُس کے وفادار رہتے ہیں۔‏ اور وہ اپنے بندوں سے توقع کرتا ہے کہ وہ ایسے لوگوں کی عزت کریں۔‏ (‏زبور ۲۲:‏۲۴-‏۲۶؛‏ امثا ۱۶:‏۳۱؛‏ ۲۰:‏۲۹‏)‏ احبار ۱۹:‏۳۲ میں لکھا ہے:‏ ”‏جن کے سر کے بال سفید ہیں تُو اُن کے سامنے اُٹھ کھڑے ہونا اور بڑے بوڑھے کا ادب کرنا اور اپنے خدا سے ڈرنا۔‏ مَیں [‏یہوواہ]‏ ہوں۔‏“‏ عمررسیدہ اشخاص کی عزت کرنا نہ صرف بنی‌اِسرائیل کے زمانے میں ایک سنجیدہ معاملہ تھا بلکہ یہ آج بھی نہایت سنجیدہ معاملہ ہے۔‏ لیکن ایسے اشخاص کی دیکھ‌بھال کرنا کس کی ذمےداری ہے؟‏

گھر والوں کی ذمےداری

۶.‏ یسوع مسیح نے ماں‌باپ کی دیکھ‌بھال کرنے کے سلسلے میں کیسی مثال قائم کی؟‏

۶ بائبل میں لکھا ہے:‏ ”‏تُو اپنے باپ اور اپنی ماں کی عزت کرنا۔‏“‏ (‏خر ۲۰:‏۱۲؛‏ افس ۶:‏۲‏)‏ ایک بار یسوع مسیح نے فقیہوں اور فریسیوں کی اِس لیے مذمت کی کیونکہ وہ اپنے ماں‌باپ کا حق ادا نہیں کرتے تھے۔‏ (‏مر ۷:‏۵،‏ ۱۰-‏۱۳‏)‏ یسوع مسیح نے ماں‌باپ کی دیکھ‌بھال کرنے کے سلسلے میں ایک بڑی اچھی مثال قائم کی۔‏ مثال کے طور پر جب وہ سُولی پر آخری سانسیں لے رہے تھے تو اُنہوں نے اپنی ماں کی ذمےداری اپنے عزیز شاگرد یوحنا کو سونپی۔‏ لگتا ہے کہ اُس وقت اُن کی ماں بیوہ تھی۔‏—‏یوح ۱۹:‏۲۶،‏ ۲۷‏۔‏

۷.‏ ‏(‏الف)‏ پولُس رسول نے والدین کی دیکھ‌بھال کے سلسلے میں کیا نصیحت کی؟‏ (‏ب)‏جب اُنہوں نے یہ نصیحت کی تو وہ کس بات کی وضاحت کر رہے تھے؟‏

۷ پولُس رسول نے تیمُتھیُس کے نام خط میں مسیحیوں کو یہ نصیحت کی کہ وہ اپنے گھر والوں کی ضروریات کو پورا کریں۔‏ ‏(‏۱-‏تیمتھیس ۵:‏۴،‏ ۸،‏ ۱۶ کو پڑھیں۔‏)‏ جب اُنہوں نے یہ نصیحت کی تو وہ اِس بات کی وضاحت کر رہے تھے کہ کلیسیا کی طرف سے اِمداد کا حق‌دار کون ہے اور کون نہیں ہے۔‏ پولُس رسول نے بتایا کہ اگر کسی عمررسیدہ بیوہ کے بچے،‏ پوتےپوتیاں اور دیگر رشتےدار ہوں تو اُس بیوہ کی دیکھ‌بھال کی بنیادی ذمےداری اُنہی کی ہے۔‏ اِس صورت میں کلیسیا پر غیرضروری بوجھ نہیں پڑے گا۔‏ آجکل بھی ”‏دین‌داری“‏ یعنی خدا کے لیے اپنی محبت ظاہر کرنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ مسیحی اپنے ضرورت‌مند رشتےداروں کو سنبھالیں۔‏

۸.‏ بائبل میں مسیحیوں کو اپنے عمررسیدہ والدین کی دیکھ‌بھال کے سلسلے میں واضح ہدایات کیوں نہیں دی گئیں؟‏

۸‏-‏تیمتھیس کے نام پولُس رسول کے خط سے ظاہر ہوتا ہے کہ مسیحیوں کو یہ ذمےداری سونپی گئی ہے کہ وہ اپنے عمررسیدہ والدین کی دیکھ‌بھال کریں۔‏ پولُس رسول اُن رشتےداروں کی بات کر رہے تھے جو مسیحی تھے۔‏ لیکن اگر ایک مسیحی کے والدین یہوواہ کے  گواہ نہیں ہیں تو بھی اُسے اُن کی دیکھ‌بھال کے سلسلے میں غفلت نہیں برتنی چاہیے۔‏ ہر خاندان کے حالات فرق‌فرق ہوتے ہیں اِس لیے عمررسیدہ اشخاص کی دیکھ‌بھال کے سلسلے میں ہر ایک کو خود فیصلہ کرنا ہوتا ہے۔‏ ہر عمررسیدہ شخص کی صحت،‏ ضروریات اور مزاج فرق ہوتا ہے۔‏ ہر ایک کی ترجیحات الگ الگ ہوتی ہیں۔‏ بعض کے بچے زیادہ ہوتے ہیں جبکہ بعض کا شاید صرف ایک ہی ہو۔‏ کچھ عمررسیدہ لوگوں کو حکومت کی طرف سے اِمداد ملتی ہے جبکہ کچھ کو نہیں ملتی۔‏ لہٰذا جو بہن‌بھائی اپنے عمررسیدہ رشتےداروں کی دیکھ‌بھال کرنے کی پوری کوشش کر رہے ہیں،‏ ہمیں اُن کے فیصلوں پر تنقید نہیں کرنی چاہیے۔‏ ایسا کرنا عقل‌مندی اور محبت کا ثبوت نہیں ہوگا۔‏ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ جو فیصلہ پاک کلام کی روشنی میں کِیا جاتا ہے،‏ یہوواہ خدا اُس میں برکت ڈال سکتا ہے۔‏ یہ بات ماضی میں بھی سچ تھی اور آج بھی سچ ہے۔‏—‏گن ۱۱:‏۲۳‏۔‏

۹-‏۱۱.‏ ‏(‏الف)‏ بعض مسیحیوں کو کس مشکل صورتحال کا سامنا ہو سکتا ہے؟‏ (‏اِس مضمون کی پہلی تصویر کو دیکھیں۔‏)‏ (‏ب)‏کُلوقتی خدمت کرنے والوں کو اپنی خدمت چھوڑنے کے سلسلے میں جلدبازی کیوں نہیں کرنی چاہیے؟‏ وضاحت کریں۔‏

۹ جو مسیحی اپنے عمررسیدہ ماں‌باپ سے دُور رہتے ہیں،‏ اُن کے لیے اپنے والدین کی دیکھ‌بھال کرنا مشکل ہو سکتا ہے۔‏ شاید بوڑھے ماں‌باپ گِر جائیں،‏ اُن کی کوئی ہڈی ٹوٹ جائے یا کسی اَور وجہ سے اچانک اُن کی صحت بگڑ جائے۔‏ ایسی صورت میں یہ ضروری ہو سکتا ہے کہ بچے اپنے ماں‌باپ سے ملنے کے لیے آئیں۔‏ اِس کے بعد شاید ماں‌باپ کو عارضی یا مستقل طور پر مدد کی ضرورت ہو۔‏ *

۱۰ کچھ بہن‌بھائیوں کو کُلوقتی خدمت کی وجہ سے اپنے گھر والوں سے دُور جانا پڑتا ہے۔‏ اُنہیں ماں‌باپ کی دیکھ‌بھال کے حوالے سے کچھ مشکل فیصلے کرنے پڑ سکتے ہیں۔‏ یہ سچ ہے کہ بیت‌ایل میں کام کرنے والے،‏ مشنری اور سفری نگہبان اپنی خدمت کو بہت بیش‌قیمت خیال کرتے ہیں۔‏ وہ اِسے یہوواہ خدا کی طرف سے ایک نعمت سمجھتے ہیں۔‏ لیکن اگر اُن کے ماں‌باپ بیمار پڑ جائیں تو اُن کے ذہن میں پہلی بات شاید یہی آتی ہے کہ ”‏ہمیں اپنی خدمت چھوڑ کر ماں‌باپ کو سنبھالنے کے لیے واپس چلے جانا چاہیے۔‏“‏ ایسی صورت میں عقل‌مندی یہ ہوگی کہ ہم پہلے یہوواہ خدا سے دُعا کریں اور یہ سوچیں کہ کیا واقعی ایسا کرنا ضروری ہے اور کیا ہمارے ماں‌باپ بھی یہی چاہتے ہیں۔‏ ہمیں جلدبازی میں اپنی خدمت کو چھوڑنا نہیں چاہیے اور اکثر اِس کی ضرورت بھی نہیں ہوتی۔‏ ہو سکتا ہے کہ ماں‌باپ کی بیماری محض عارضی ہو اور اُن کی کلیسیا کے بعض بہن‌بھائی اُنہیں سنبھالنے کے لیے تیار ہوں۔‏—‏امثا ۲۱:‏۵‏۔‏

۱۱ اِس سلسلے میں دو سگے بھائیوں کی مثال پر غور کریں جو اپنے گھر سے دُور کُلوقتی خدمت کر رہے تھے۔‏ ایک بھائی جنوبی امریکہ میں مشنری تھا اور دوسرا نیویارک میں ہمارے مرکزی دفتر میں خدمت کر رہا تھا۔‏ جب اِن بھائیوں کے عمررسیدہ والدین کو دیکھ‌بھال کی ضرورت پڑی تو وہ اپنی بیویوں کے ساتھ اپنے ماں‌باپ سے ملنے جاپان گئے۔‏ وہاں اُنہوں نے یہ دیکھا کہ اُن کے ماں‌باپ کو کس طرح کی مدد کی ضرورت ہے اور وہ اُن کے لیے کیا کر سکتے ہیں۔‏ کچھ عرصے بعد جنوبی امریکہ میں خدمت کرنے والے بھائی اور اُس کی بیوی نے سوچا کہ وہ اپنی خدمت چھوڑ کر ماں‌باپ کے پاس چلے جائیں۔‏ لیکن پھر اُنہیں اُن کے ماں‌باپ کی کلیسیا کے بزرگوں کا فون آیا۔‏ بزرگوں نے اُن مشنریوں اور اُن کے والدین کی صورتحال پر غور کِیا تھا۔‏ بزرگ چاہتے تھے کہ جب تک ممکن ہے،‏ وہ مشنری اپنی خدمت جاری رکھیں۔‏ وہ اُس بھائی اور اُس کی بیوی کی خدمت کی بڑی قدر کرتے تھے اور اُن کے ماں‌باپ کی دیکھ‌بھال کے سلسلے میں مدد کرنے کو تیار تھے۔‏ یہ دونوں بھائی اور اُن کے والدین یقیناً بزرگوں کی مدد اور محبت کے لیے دل سے شکر گزار تھے۔‏

۱۲.‏ مسیحی خاندانوں کو عمررسیدہ ماں‌باپ کو سنبھالنے کے سلسلے میں فیصلہ کرتے وقت کس بات کا خیال رکھنا چاہیے؟‏

۱۲ مسیحی خاندان عمررسیدہ ماں‌باپ کی ضروریات پوری کرنے کے سلسلے میں فرق‌فرق فیصلے کر سکتے ہیں۔‏ لیکن اہم بات یہ ہے کہ وہ جو بھی فیصلہ کریں،‏ اُس سے خدا کے نام کی بڑائی ہو۔‏ ہم کبھی بھی یسوع مسیح کے زمانے کے مذہبی رہنماؤں کی طرح نہیں بننا چاہیں گے۔‏ (‏متی ۱۵:‏۳-‏۶‏)‏ ہماری خواہش ہے کہ ہمارے فیصلوں سے  یہوواہ کے نام کو جلال ملے اور کلیسیا پر کوئی حرف نہ آئے۔‏—‏۲-‏کر ۶:‏۳‏۔‏

کلیسیا کی ذمےداری

۱۳،‏ ۱۴.‏ بائبل سے یہ بات کیسے ظاہر ہوتی ہے کہ عمررسیدہ بہن‌بھائیوں کی مدد کرنا کلیسیا کی ذمےداری ہے؟‏

۱۳ یہ سچ ہے کہ ہر مسیحی اُس طریقے سے کُلوقتی خادموں کی مدد نہیں کر سکتا جیسا ہم نے پیچھے ایک مثال میں دیکھا ہے۔‏ لیکن پہلی صدی میں ایک ایسی صورتحال کھڑی ہوئی جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کلیسیاؤں کو وفادار عمررسیدہ بہن‌بھائیوں کی دیکھ‌بھال کرنے کی پوری کوشش کرنی چاہیے۔‏ بائبل میں بتایا گیا ہے کہ یروشلیم کی کلیسیا میں ”‏کوئی بھی محتاج نہ تھا۔‏“‏ لیکن اِس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ سب امیر تھے۔‏ ایسا لگتا ہے کہ بعض بہن‌بھائی غریب تھے۔‏ لیکن کلیسیا میں جو عطیات اِکٹھے ہوتے تھے،‏ وہ ”‏ہر ایک کو اُس کی ضرورت کے موافق“‏ بانٹ دیے جاتے تھے۔‏ (‏اعما ۴:‏۳۴،‏ ۳۵‏)‏ لیکن بعد میں ایک مسئلہ کھڑا ہو گیا۔‏ رسولوں کو بتایا گیا کہ بعض بیواؤں میں روزانہ کھانا تقسیم کرنے کے سلسلے میں غفلت برتی جاتی ہے۔‏ لہٰذا رسولوں نے کچھ لائق بھائیوں کو مقرر کِیا تاکہ اُن کی نگرانی میں تمام بیواؤں کی ضروریات پوری کی جائیں اور کسی کے ساتھ نااِنصافی نہ ہو۔‏ (‏اعما ۶:‏۱-‏۵‏)‏ یہ سچ ہے کہ روزانہ کھانا تقسیم کرنے کا بندوبست عارضی طور پر اُن لوگوں کے لیے کِیا گیا تھا جو ۳۳ء میں عیدِپنتِکُست پر مسیحی بنے تھے اور پھر رسولوں سے مزید تعلیم پانے کے لیے یروشلیم میں ہی ٹھہر گئے تھے۔‏ پھر بھی رسولوں نے اِس مسئلے کو جس طرح نپٹایا،‏ اُس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کلیسیائیں ضرورت‌مند بہن‌بھائیوں کی مدد کر سکتی ہیں۔‏

۱۴ ہم دیکھ چکے ہیں کہ پولُس رسول نے تیمُتھیُس کو بتایا کہ کون‌سی بیواؤں کو کلیسیا سے مالی اِمداد مل سکتی ہے۔‏ (‏۱-‏تیم ۵:‏۳-‏۱۶‏)‏ یعقوب نے بھی کہا کہ مسیحیوں کو یتیموں،‏ بیواؤں اور دیگر ضرورت‌مند بہن‌بھائیوں کی مدد کرنی چاہیے۔‏ (‏یعقو ۱:‏۲۷؛‏ ۲:‏۱۵-‏۱۷‏)‏ یوحنا رسول نے بھی کہا:‏ ”‏جس کسی کے پاس دُنیا کا مال ہو اور وہ اپنے بھائی کو محتاج دیکھ کر رحم کرنے میں دریغ کرے تو اُس میں خدا کی محبت کیوں کر قائم رہ سکتی ہے؟‏“‏ (‏۱-‏یوح ۳:‏۱۷‏)‏ ذرا سوچیں کہ اگر ضرورت‌مند بہن‌بھائیوں کی مدد کرنا اِنفرادی طور پر ہماری ذمےداری ہے تو پھر یہ کلیسیا کی ذمےداری بھی ہے۔‏

اگر کسی عمررسیدہ بہن یا بھائی کے ساتھ کوئی حادثہ پیش آ جائے تو کلیسیا اُن کا خیال رکھنے میں مدد کیسے کر سکتی ہے؟‏ (‏پیراگراف ۱۵ اور ۱۶ کو دیکھیں۔‏)‏

۱۵.‏ اِس بات کا تعیّن کیسے کِیا جا سکتا ہے کہ عمررسیدہ اشخاص کو کلیسیا کی طرف سے کس حد تک دیکھ‌بھال کی ضرورت ہے؟‏

۱۵ بعض ملکوں میں عمررسیدہ شہریوں کو حکومت کی طرف سے مالی اِمداد ملتی ہے جیسے کہ پنشن وغیرہ۔‏ کچھ حکومتیں ایسے شہریوں کی گھر پر دیکھ‌بھال کرنے کا اِنتظام کرتی ہیں۔‏ (‏روم ۱۳:‏۶‏)‏ لیکن بعض ملکوں میں ایسی کوئی سہولت نہیں ہوتی۔‏ لہٰذا کچھ صورتوں میں گھر والوں یا کلیسیاؤں کو عمررسیدہ اشخاص کی زیادہ دیکھ‌بھال کرنی پڑتی ہے اور بعض صورتوں میں کم۔‏ اگر گھر والے اپنے عمررسیدہ والدین سے دُور رہتے ہیں تو اِس کا اثر اِس بات پر ہوگا کہ وہ اپنے والدین کی  کس حد تک مدد کر سکتے ہیں۔‏ اِس صورت میں وہ اپنے والدین کی کلیسیا کے بزرگوں کے ساتھ کُھل کر بات کر سکتے ہیں تاکہ سب صورتحال سے اچھی طرح واقف ہو جائیں۔‏ بزرگ عمررسیدہ والدین کو بتا سکتے ہیں کہ اُن کے ملک میں حکومت کی طرف سے کون‌سی سہولتیں موجود ہیں اور وہ اُنہیں کیسے حاصل کر سکتے ہیں۔‏ بزرگ شاید یہ دیکھیں کہ عمررسیدہ اشخاص کے گھر میں کچھ بل پڑے ہیں جو ادا نہیں کیے گئے یا پھر یہ کہ وہ دوائی ٹھیک طرح سے نہیں کھا رہے۔‏ بزرگ گھر والوں کو ایسی باتوں سے آگاہ کر سکتے ہیں۔‏ جب کلیسیا کے بزرگ اور گھر والے آپس میں کُھل کر بات کرتے ہیں تو صورتحال زیادہ نہیں بگڑتی اور شاید اُس کا حل بھی نکل آتا ہے۔‏ جب بزرگ یا کوئی اَور یہوواہ کا گواہ گھر والوں کو اُن کے والدین کے بارے میں ایسی معلومات دیتا رہتا ہے تو اُن کی پریشانی بڑی حد تک کم ہو جاتی ہے۔‏

۱۶.‏ بعض بہن‌بھائی کلیسیا کے عمررسیدہ اشخاص کی دیکھ‌بھال کرنے میں کیا کردار ادا کرتے ہیں؟‏

۱۶ کلیسیا کے بہن‌بھائی عمررسیدہ اشخاص سے محبت کرتے ہیں اور اُن کی بڑی قدر کرتے ہیں۔‏ اِس لیے اُن میں سے بعض بہن‌بھائی اُن کی دیکھ‌بھال کرنے میں خوشی سے اپنا وقت صرف کرتے ہیں۔‏ وہ اُنہیں خاص توجہ دیتے ہیں۔‏ بعض بہن‌بھائی کلیسیا کے دوسرے رُکنوں کے ساتھ مل کر ایک شیڈول تیار کرتے ہیں اور پھر باری‌باری عمررسیدہ اشخاص کی دیکھ‌بھال کرتے ہیں۔‏ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ خود کُلوقتی خدمت نہیں کر سکتے۔‏ اِس لیے وہ کُلوقتی خدمت کرنے والے بہن‌بھائیوں کے والدین کو سنبھالنے میں مدد کرتے ہیں تاکہ وہ بہن‌بھائی اپنی خدمت جاری رکھ سکیں۔‏ کلیسیا کے عمررسیدہ اشخاص کی دیکھ‌بھال کرنے والے بہن‌بھائی واقعی تعریف کے لائق ہیں!‏ لیکن اِس کا مطلب یہ نہیں کہ بچے اپنے عمررسیدہ والدین کی ذمےداری سے بالکل آزاد ہو جائیں۔‏

عمررسیدہ بہن‌بھائیوں کی حوصلہ‌افزائی کریں

۱۷،‏ ۱۸.‏ بوڑھے بہن‌بھائی اور اُن کی دیکھ‌بھال کرنے والے صورتحال کو خوش‌گوار بنانے کے لیے کیا کر سکتے ہیں؟‏

۱۷ عمررسیدہ اشخاص اور اُن کی دیکھ‌بھال کرنے والے صورتحال کو خوش‌گوار بنانے کے لیے کیا سکتے ہیں؟‏ بعض اوقات بوڑھے لوگ مایوسی یا افسردگی کا شکار ہو جاتے ہیں۔‏ اِس لیے آپ اُن کے ساتھ ایسی باتیں کر سکتے ہیں جن سے اُن کا حوصلہ بڑھے۔‏ یوں آپ ظاہر کریں گے کہ آپ اُن کی عزت اور قدر کرتے ہیں۔‏ وہ بہن‌بھائی واقعی تعریف کے لائق ہیں جو کافی عرصے سے وفاداری سے یہوواہ کی خدمت کر رہے ہیں۔‏ یہوواہ خدا ایسے بہن‌بھائیوں کی خدمت کو کبھی نہیں بھولتا اور کلیسیا کے بہن‌بھائی بھی اُن کی خدمت کی بڑی قدر کرتے ہیں۔‏‏—‏ملاکی ۳:‏۱۶؛‏ عبرانیوں ۶:‏۱۰ کو پڑھیں۔‏

۱۸ عمررسیدہ اشخاص کی دیکھ‌بھال کے دوران آنے والی مشکلوں سے نپٹنا اِتنا آسان نہیں ہوتا۔‏ لیکن اگر عمررسیدہ اشخاص اور اُن کی دیکھ‌بھال کرنے والے آپس میں کبھی‌کبھار ہنسی مذاق کرتے ہیں تو ایسی مشکلات سے نپٹنا آسان ہو جاتا ہے۔‏ (‏واعظ ۳:‏۱،‏ ۴‏)‏ بہت سے بوڑھے بہن‌بھائی اپنی دیکھ‌بھال کرنے والوں سے حد سے زیادہ وقت اور توجہ کی مانگ نہیں کرتے۔‏ وہ سمجھتے ہیں کہ اگر اُن کا مزاج ٹھیک نہیں ہے تو شاید زیادہ بہن‌بھائی اُن سے ملنے نہ آئیں۔‏ بہت سے بہن‌بھائی بوڑھے اشخاص سے ملنے کے بعد اکثر یہ کہتے ہیں:‏ ”‏گیا تو مَیں تھا اُن کی حوصلہ‌افزائی کرنے مگر اُن سے مجھے بڑی حوصلہ‌افزائی ملی۔‏“‏—‏امثا ۱۵:‏۱۳؛‏ ۱۷:‏۲۲‏۔‏

۱۹.‏ ہم سب مستقبل کے بارے میں کیا اُمید رکھ سکتے ہیں؟‏

۱۹ ہم اُس دن کے منتظر ہیں جب دُکھ‌تکلیف نہ رہے گی اور گُناہ کے اثرات مٹ جائیں گے۔‏ تب تک ہمیں ”‏اَن‌دیکھی چیزوں“‏ کی اُمید رکھنی چاہیے کیونکہ وہ ابدی ہیں۔‏ ہم جانتے ہیں کہ خدا کے وعدوں پر ایمان مصیبتوں میں ایک لنگر کا کام دیتا ہے۔‏ اِسی ایمان کی بدولت ”‏ہم ہمت نہیں ہارتے۔‏ گو ہماری جسمانی قوت کم ہوتی جا رہی ہے لیکن روحانی قوت روزبروز بڑھتی جا رہی ہے۔‏“‏ (‏۲-‏کر ۴:‏۱۶‏،‏ نیو اُردو بائبل ورشن؛‏ ۲-‏کر ۴:‏۱۷،‏ ۱۸؛‏ عبر ۶:‏۱۸،‏ ۱۹‏)‏ خدا کے وعدوں پر ایمان رکھنے کے علاوہ اَور کون‌سی باتیں ہماری مدد کریں گی تاکہ ہم عمررسیدہ اشخاص کی دیکھ‌بھال کرنے کی ذمےداری پوری کر سکیں؟‏ اِس سلسلے میں ہم اگلے مضمون میں کچھ فائدہ‌مند تجاویز پر غور کریں گے۔‏

^ پیراگراف 9 اگلے مضمون میں ہم کچھ ایسی تجاویز پر غور کریں گے جن پر عمررسیدہ اشخاص اور اُن کے بچے عمل کر سکتے ہیں۔‏