مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

دلیر بنیں—‏یہوواہ آپ کا مددگار ہے

دلیر بنیں—‏یہوواہ آپ کا مددگار ہے

‏”‏ہم دلیری کے ساتھ کہتے ہیں کہ [‏یہوواہ]‏ میرا مددگار ہے۔‏“‏—‏عبر ۱۳:‏۶‏۔‏

۱،‏ ۲.‏ اپنے ملک سے باہر کام کرنے والے لوگ جب گھر لوٹتے ہیں تو اُنہیں کن مشکلات سے نپٹنا پڑتا ہے؟‏ (‏اِس مضمون کی پہلی تصویر کو دیکھیں۔‏)‏

‏”‏مَیں اپنے ملک سے باہر ایک بہت اچھی نوکری کر رہا تھا اور اچھے خاصے پیسے کما رہا تھا۔‏“‏ یہ بات ہمارے ایک بھائی نے کہی جس کا نام ایڈوارڈو ہے۔‏ * اُنہوں نے کہا:‏ ”‏لیکن جب مَیں یہوواہ کے گواہوں کے ساتھ بائبل کی تعلیم حاصل کرنے لگا تو مَیں نے یہ سیکھا کہ میرا فرض اپنے گھر والوں کی صرف جسمانی ضروریات پوری کرنا ہی نہیں ہے۔‏ اِس کے بجائے میری سب سے اہم ذمےداری یہ ہے کہ مَیں خدا کی مرضی پر چلنے میں اُن کی رہنمائی کروں۔‏ اِس لیے مَیں اپنے گھر لوٹ آیا۔‏“‏—‏افس ۶:‏۴‏۔‏

۲ ایڈوارڈو جانتے تھے کہ اپنے گھر لوٹنے کا جو فیصلہ اُنہوں نے کِیا ہے،‏ اُس سے یہوواہ خدا خوش ہوگا۔‏ لیکن اب اُنہیں اُس دراڑ کو بھرنا تھا جو اُن کے خاندانی رشتوں میں پڑ گئی تھی۔‏ ایک اَور مسئلہ یہ تھا کہ وہ اپنے ملک کے خراب معاشی حالات میں اپنے بیوی‌بچوں کا پیٹ کیسے پالیں گے۔‏ وہ کون‌سی ملازمت کریں گے؟‏ اُنہیں کلیسیا کے بہن‌بھائیوں سے کس طرح کی مدد مل سکتی ہے؟‏

رشتوں میں آنے والی دراڑ کو بھریں

۳.‏ جب ماں یا باپ اپنے بچوں سے دُور رہتا ہے تو بچوں پر اِس کا کیا اثر ہوتا ہے؟‏

۳ ایڈوارڈو نے کہا:‏ ”‏مَیں مانتا ہوں کہ جب میرے بچوں کو میری محبت اور رہنمائی کی ضرورت تھی  تو مَیں اُن کے ساتھ نہیں تھا۔‏ مَیں اُنہیں بائبل سے کہانیاں پڑھ کر نہیں سنا سکا،‏ اُن کے ساتھ دُعا نہیں کر سکا اور اُنہیں اپنی گود میں کھلا نہیں سکا۔‏“‏ (‏است ۶:‏۷‏)‏ اُن کی بڑی بیٹی اینا کہتی ہیں:‏ ”‏مجھے اپنی زندگی میں ابو کی بہت کمی محسوس ہوتی تھی۔‏ ہم صرف اُن کے چہرے اور آواز سے ہی واقف تھے۔‏ اِس لیے واپس آنے کے بعد جب بھی وہ مجھے گلے لگاتے تھے تو میرے اندر محبت کا احساس پیدا نہیں ہوتا تھا۔‏“‏

۴.‏ جب ایک باپ اپنے گھر والوں سے دُور چلا جاتا ہے تو وہ خاندان کے سربراہ کے طور پر اپنا کردار کیوں نہیں نبھا پاتا؟‏

۴ جب ایک باپ پیسہ کمانے کے لیے اپنے گھر والوں سے دُور چلا جاتا ہے تو وہ خاندان کے سربراہ کے طور پر اپنا کردار صحیح طرح نبھا نہیں پاتا۔‏ ایڈوارڈو کی بیوی روبی نے بتایا:‏ ”‏مجھے ماں اور باپ دونوں کا کردار ادا کرنا پڑتا تھا اور گھر کے زیادہ‌تر فیصلے مَیں ہی کرتی تھی۔‏ جب ایڈوارڈو واپس آئے تو مجھے اُن کے تابع رہنا ذرا مشکل لگا۔‏ ابھی بھی کبھی‌کبھار جب مَیں کسی معاملے کے متعلق فیصلہ کرنے لگتی ہوں تو مجھے یاد آتا ہے کہ یہ فیصلہ تو میرے شوہر کو کرنا چاہیے۔‏“‏ (‏افس ۵:‏۲۲،‏ ۲۳‏)‏ ایڈوارڈو کہتے ہیں:‏ ”‏ہماری بیٹیوں کو جب بھی کسی بات کی اِجازت چاہیے ہوتی تھی تو وہ اپنی ماں کے پاس جاتی تھیں۔‏ ہم دونوں میاںبیوی سمجھ گئے کہ ہمیں اب اپنی بیٹیوں کو یہ دِکھانا ہے کہ گھر کے فیصلے ہم دونوں مل کر کرتے ہیں اور مجھے پاک کلام کے اصولوں کے مطابق اپنے گھر والوں کی رہنمائی کرنی ہے۔‏“‏

۵.‏ ایک باپ نے اُس دراڑ کو بھرنے کی کوشش کیسے کی جو اُس کے خاندانی رشتوں میں پڑ گئی تھی؟‏ اور اِس کا نتیجہ کیا نکلا؟‏

۵ ایڈوارڈو نے ٹھان لی تھی کہ وہ اپنے گھر والوں کا پیار اور اِعتماد دوبارہ حاصل کرنے اور اُنہیں یہوواہ خدا کے قریب لانے کی ہر ممکن کوشش کریں گے۔‏ اُنہوں نے کہا:‏ ”‏مَیں اپنی باتوں اور مثال سے اپنے بچوں کو یہوواہ کے معیار سکھانا چاہتا تھا۔‏ مَیں یہوواہ خدا سے محبت کرنے کا محض دعویٰ ہی نہیں کرتا تھا بلکہ اپنے کاموں سے اِسے ظاہر بھی کرتا تھا۔‏“‏ (‏۱-‏یوح ۳:‏۱۸‏)‏ کیا یہوواہ خدا نے ایڈوارڈو کو اُن کے مقصد میں کامیابی بخشی؟‏ اُن کی بیٹی اینا نے بتایا:‏ ”‏اِس بات کا ہم پر بہت گہرا اثر ہوا کہ ہمارے ابو ہمارے قریب آنے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں۔‏ ہمیں یہ دیکھ کر بہت فخر محسوس ہوتا تھا کہ ہمارے ابو کلیسیا کے کام بھی بڑی محنت سے کرتے ہیں۔‏ دُنیا تو ہمیں یہوواہ سے دُور لے جانے کی کوشش کر رہی تھی۔‏ لیکن ہمارے ماںباپ اپنی زندگی میں خدا کی خدمت کو پہلا درجہ دے رہے تھے۔‏ اور اُنہیں دیکھ کر ہم بھی ایسا ہی کرنے کی کوشش کر رہی تھیں۔‏ ابو نے ہم سے وعدہ کِیا تھا کہ اب وہ ہم سے دُور نہیں جائیں گے۔‏ اُنہوں نے اپنا وعدہ پورا کِیا۔‏ اگر وہ ایسا نہ کرتے تو شاید آج مَیں یہوواہ کی تنظیم میں نہ ہوتی۔‏“‏

اپنا قصور مانیں

۶.‏ جب بوسنیا اور سربیا میں جنگ ہو رہی تھی تو وہاں کے کچھ یہوواہ کے گواہوں نے کیا سیکھا؟‏

۶ جب بوسنیا اور سربیا میں جنگ ہو رہی تھی تو وہاں رہنے والے یہوواہ کے گواہ اپنی ملازمت پر نہیں جا سکتے تھے۔‏ اِس وجہ سے وہ اپنا زیادہ‌تر وقت اپنے بچوں کے ساتھ بائبل کا مطالعہ کرنے،‏ اُن کے ساتھ کھیلنے اور بات‌چیت کرنے میں صرف کرتے تھے۔‏ اِس لیے اُن کے بچے مشکل حالات کے باوجود اکثر بہت خوش نظر آتے تھے۔‏ اِس سے ہم کیا سیکھتے ہیں؟‏ بچوں کو پیسوں اور تحفوں سے زیادہ اپنے ماںباپ کے سائے،‏ توجہ اور وقت کی ضرورت ہوتی ہے۔‏ بائبل بھی اِس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ اگر والدین بچوں کی تعلیم‌وتربیت کریں گے تو بچوں کو بہت فائدہ ہوگا۔‏—‏امثا ۲۲:‏۶‏۔‏

۷،‏ ۸.‏ ‏(‏الف)‏ جب بعض والدین دیکھتے ہیں کہ اُن کے بچے اُن سے دُور ہو گئے ہیں تو وہ کیسا غلط ردِعمل ظاہر کرتے ہیں؟‏ (‏ب)‏ والدین اپنے اور اپنے بچوں کے درمیان آنے والی دُوری کو کیسے مٹا سکتے ہیں؟‏

۷ جب بعض والدین اپنے گھر واپس لوٹتے ہیں تو یہ دیکھ کر اُنہیں بڑا دھچکا لگتا ہے کہ اُن کے بچے اُن سے دُور ہو گئے ہیں اور اُن سے ناراض ہیں۔‏ افسوس کی بات ہے کہ ایسی صورت میں کچھ والدین بچوں سے کہتے ہیں:‏ ”‏مَیں نے تمہاری خاطر اِتنی قربانیاں دی ہیں اور تُم میرے ساتھ ایسا سلوک کر رہے ہو۔‏“‏ اصل میں بچوں کے ایسے رویے کی بنیادی وجہ یہی ہوتی ہے کہ اُن کی ماں یا باپ ملازمت کی خاطر اُنہیں چھوڑ کر دوسرے ملک چلا گیا تھا۔‏ ماں یا باپ اِس دُوری کو ختم کرنے کے لیے کیا کر سکتے ہیں؟‏

۸ یہوواہ خدا سے مدد مانگیں تاکہ آپ اپنے گھر والوں کے احساسات کو سمجھ سکیں۔‏ پھر جب آپ اپنے گھر والوں سے بات کرتے ہیں تو اُنہیں یقین دِلائیں کہ آپ واقعی اُن کی فکر رکھتے ہیں۔‏ یہ تسلیم کریں کہ آپ کے اور آپ کے گھر والوں کے رشتے میں جو دراڑ آئی ہے،‏ بڑی حد تک اُس کے ذمےدار آپ ہیں۔‏ آپ اپنے گھر والوں کو بتا سکتے ہیں کہ آپ کو اِس  بات کا بہت افسوس ہے کہ آپ اُنہیں چھوڑ کر چلے گئے تھے۔‏ جب آپ کا جیون‌ساتھی اور بچے دیکھتے ہیں کہ آپ دُوریوں کو مٹانے کی کتنی کوشش کر رہے ہیں تو اُنہیں احساس ہو جائے گا کہ آپ اُنہیں واقعی بہت چاہتے ہیں۔‏ اگر آپ ہمت نہیں ہارتے تو وقت گزرنے کے ساتھ‌ساتھ آپ دوبارہ اپنے گھر والوں کا پیار اور اِعتماد حاصل کر لیں گے۔‏

‏’‏اپنوں کی خبرگیری‘‏ کرنے کا مطلب کیا ہے؟‏

۹.‏ ہم یہ کیوں کہہ سکتے ہیں کہ ’‏اپنوں کی خبرگیری‘‏ کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ ہم اپنے معیارِزندگی کو بہتر بنانے کی کوشش کریں؟‏

۹ پولُس رسول نے بہن‌بھائیوں کو ہدایت دی کہ جب عمررسیدہ مسیحی اپنے خرچے خود نہیں اُٹھا سکتے تو اُن کے بچے اور پوتےپوتیاں اُن کی ضروریات کا خیال رکھیں۔‏ پولُس رسول نے مسیحیوں کو یہ نصیحت بھی کی کہ اگر اُن کے پاس خوراک،‏ لباس اور رہائش کا بندوبست ہے تو اِسی پر قناعت کریں۔‏ ہمیں نہ تو اپنے معیارِزندگی کو بہتر سے بہتر بنانے کے چکر میں رہنا چاہیے اور نہ ہی دولت اِکٹھی کرنے کے لیے بھاگدوڑ کرنی چاہیے۔‏ ‏(‏۱-‏تیمتھیس ۵:‏۴،‏ ۸؛‏ ۶:‏۶-‏۱۰ کو پڑھیں۔‏)‏ ‏’‏اپنوں کی خبرگیری‘‏ کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ ہم اُن کے لیے دُنیا کی آسائشیں اِکٹھی کرتے رہیں۔‏ یہ دُنیا تو جلد ختم ہونے والی ہے۔‏ (‏۱-‏یوح ۲:‏۱۵-‏۱۷‏)‏ ہمیں ’‏دولت کے فریب‘‏ اور ”‏دُنیا کی فکر“‏ میں نہیں پھنسنا چاہیے۔‏ اگر ہم ایسا کریں گے تو شاید ہمارے گھر والے ”‏حقیقی زندگی پر قبضہ“‏ نہ کر پائیں۔‏—‏مر ۴:‏۱۹؛‏ لو ۲۱:‏۳۴-‏۳۶؛‏ ۱-‏تیم ۶:‏۱۹‏۔‏

۱۰.‏ قرض اُٹھانے کے سلسلے میں ہمیں کون‌سی بات یاد رکھنی چاہیے؟‏

۱۰ یہوواہ خدا جانتا ہے کہ ہمیں اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے پیسے کی ضرورت ہے۔‏ لیکن پیسے سے ہمیں ویسا تحفظ نہیں مل سکتا ہے جیسا تحفظ ہمیں اُس حکمت سے ملتا ہے جو خدا کی طرف سے آتی ہے۔‏ (‏واعظ ۷:‏۱۲؛‏ لو ۱۲:‏۱۵‏)‏ بہت سے لوگوں کو یہ اندازہ نہیں ہوتا کہ کسی انجان ملک جانا اور وہاں رہنا کتنا مہنگا ہو سکتا ہے۔‏ اِس کے علاوہ وہاں اچھی نوکر ملنے کی بھی کوئی ضمانت نہیں۔‏ دراصل باہر کے ملک جانا نقصان‌دہ ثابت ہو سکتا ہے۔‏ بہت سے لوگ جب لوٹتے ہیں تو اُن کے سر پر پہلے سے زیادہ قرض ہوتا ہے۔‏ اِس لیے وہ خدا کی خدمت میں زیادہ وقت صرف کرنے کی بجائے قرض اُتارنے میں لگے رہتے ہیں۔‏ یوں وہ ایک لحاظ سے ’‏قرض دینے والے کے نوکر‘‏ بن جاتے ہیں۔‏ ‏(‏امثال ۲۲:‏۷ کو پڑھیں۔‏)‏ لہٰذا عقل‌مندی کی بات یہ ہے کہ قرض اُٹھانے سے بچیں۔‏

۱۱.‏ بجٹ کی پابندی کرنے سے کیا فائدہ ہوتا ہے؟‏

۱۱ ایڈوارڈو جانتے تھے کہ اپنے ملک واپس لوٹنے کا فیصلہ تب ہی کامیاب ہوگا اگر وہ پیسوں کو سمجھ‌داری سے اِستعمال کریں گے۔‏ اِس لیے اُنہوں نے اپنی بیوی کے ساتھ مل کر اِس بات پر غور کِیا کہ اُنہیں کن‌کن چیزوں کی ضرورت ہے اور پھر اُنہوں نے بجٹ تیار کِیا۔‏ اِس کی وجہ سے اُن کے گھر والے اب پہلے کی طرح خرچے نہیں کر سکتے تھے۔‏ لیکن سب نے بجٹ کی پابندی کی۔‏ * ایڈوارڈو نے بتایا:‏ ”‏مثال کے طور پر مَیں نے اپنے بچوں کو پرائیوٹ سکول سے نکال کر اچھے گورنمنٹ سکول میں داخل کرا دیا۔‏“‏ سب گھر والوں نے دُعا کی کہ ایڈوارڈو کو ایسی نوکری ملے جو اِجلاسوں اور مُنادی کے کام میں رُکاوٹ نہ بنے۔‏ کیا یہوواہ خدا نے اُن کی دُعاؤں کو سنا؟‏

۱۲،‏ ۱۳.‏ ‏(‏الف)‏ ایک باپ نے اپنے گھرانے کی ضروریات پوری کرنے کے سلسلے میں کیا کِیا؟‏ (‏ب)‏ یہوواہ خدا نے اُنہیں کیسے برکت بخشی؟‏

۱۲ ایڈوارڈو نے کہا:‏ ”‏ہمارے پہلے دو سال تو بڑی مشکل سے گزرے۔‏ میری آمدنی اِتنی کم تھی کہ کبھی‌کبھار ہمارے اخراجات پورے نہیں ہوتے تھے۔‏ اِس لیے ہمیں وہ پیسے اِستعمال کرنے پڑتے تھے جو ہم نے بچائے ہوئے تھے۔‏ اور اب وہ بھی کم ہوتے جا رہے تھے۔‏ مَیں تھکاوٹ کا شکار بھی ہو رہا تھا۔‏ مگر ہم تمام اِجلاسوں میں جاتے تھے اور مل کر مُنادی کے کام میں حصہ لیتے تھے۔‏“‏ ایڈوارڈو نے فیصلہ کِیا کہ وہ ایسی نوکری نہیں کریں گے جس کی وجہ سے اُنہیں لمبے عرصے کے لیے اپنے گھر والوں سے دُور رہنا پڑے۔‏ اُنہوں نے کہا:‏ ”‏مَیں نے مختلف کام کرنے میں مہارت حاصل کی تاکہ جب ایک کام نہ ملے تو مَیں کوئی دوسرا کام کر سکوں۔‏“‏

کیا آپ مختلف کام سیکھ سکتے ہیں تاکہ آپ اپنے گھر والوں کی ضروریات پوری کر سکیں؟‏ (‏پیراگراف ۱۲ کو دیکھیں۔‏)‏

۱۳ ایڈوارڈو کو اپنا قرض چُکانے میں کافی وقت لگا جس کی وجہ سے اُنہیں سُود بھی زیادہ دینا پڑا۔‏ لیکن ایڈوارڈو کی نظر میں یہ چھوٹی سی قیمت تھی جو اُنہوں نے اپنے گھر والوں کے ساتھ رہنے اور اُن کے ساتھ مل کر خدا کی خدمت کرنے کے لیے ادا کی۔‏ ایڈوارڈو نے کہا:‏ ”‏مَیں باہر کے ملک میں جتنے پیسے کماتا تھا،‏ اب مَیں اُس کا دس فیصد بھی نہیں کماتا۔‏ لیکن پھر بھی ہم کبھی بھوکے پیٹ نہیں سوئے۔‏ یہوواہ خدا کا ہاتھ چھوٹا نہیں۔‏ ہم نے پہلکاروں کے طور پر خدمت کرنے کا فیصلہ کِیا۔‏ خوشی کی بات ہے  کہ اِس کے بعد ہمارے ملک کے معاشی حالات بہتر ہو گئے اور روزمرہ کی ضروریات کو پورا کرنا قدرے آسان ہو گیا۔‏“‏—‏یسع ۵۹:‏۱‏۔‏

رشتےداروں کے دباؤ میں نہ آئیں

۱۴،‏ ۱۵.‏ ‏(‏الف)‏ اگر ہمیں پیسہ کمانے کے سلسلے میں اپنے رشتےداروں کی طرف سے دباؤ کا سامنا ہو تو ہم کیا کر سکتے ہیں؟‏ (‏ب)‏ اگر ہم اپنے رشتےداروں کے دباؤ کے آگے نہیں جھکتے تو اِس سے کیا فائدہ ہو سکتا ہے؟‏

۱۴ بہت سے ملکوں میں لوگ اپنے رشتےداروں اور دوستوں کو پیسے اور تحفے دینا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔‏ ایڈوارڈو کہتے ہیں:‏ ”‏ہمارے ملک کا رواج ہے کہ ہم اپنے رشتےداروں کی مالی مدد کریں اور ہمیں اِس سے بڑی خوشی بھی ملتی ہے۔‏ لیکن مَیں نے بڑے پیار سے اپنے رشتےداروں کو سمجھا دیا ہے کہ مَیں اُن کی مدد کرنے کو تیار ہوں لیکن اگر مَیں اِس وجہ سے اپنے گھر والوں کے ساتھ مل کر خدا کی عبادت نہیں کر سکتا تو مَیں ایسا نہیں کر پاؤں گا۔‏“‏

۱۵ جو لوگ اپنے ملک واپس لوٹ آتے ہیں یا باہر کے ملک جانے کے موقعے سے فائدہ نہیں اُٹھاتے،‏ اکثر اُن کے رشتےدار اُن سے ناراض ہو جاتے ہیں یا اُن کے فیصلے پر مایوسی کا اِظہار کرتے ہیں کیونکہ اُن کو پیسے اور تحفے ملنے کی اُمید ہوتی ہے۔‏ کچھ رشتےدار شاید یہ کہیں کہ ”‏تُم ہم سے پیار نہیں کرتے۔‏“‏ (‏امثا ۱۹:‏۶،‏ ۷‏)‏ ایڈوارڈو کی بیٹی اینا کہتی ہیں:‏ ”‏جب ہم دولت اور آرام‌وآسائش کی نسبت خدا کی عبادت اور خدمت کو اپنی زندگی میں پہلا درجہ دیتے ہیں تو شاید ہمارے رشتےدار سمجھ جائیں کہ ہمارے نزدیک خدا کی مرضی پر چلنا کتنا اہم ہے۔‏ لیکن اگر ہم اُن کی باتوں میں آ جائیں گے تو وہ اِس بات کو کبھی سمجھ نہیں پائیں گے۔‏“‏—‏۱-‏پطرس ۳:‏۱،‏ ۲ پر غور کریں۔‏

یہوواہ خدا پر بھروسا رکھیں

۱۶.‏ ‏(‏الف)‏ ایک شخص ”‏اپنے آپ کو دھوکا“‏ کیسے دے سکتا ہے؟‏ (‏یعقو ۱:‏۲۲‏)‏ (‏ب)‏ یہوواہ خدا کس طرح کے فیصلوں میں برکت ڈالتا ہے؟‏

۱۶ ایک بہن اپنے شوہر اور بچوں کو چھوڑ کر پیسہ کمانے کے لیے کسی امیر ملک چلی گئی۔‏ وہاں اُس نے اپنی کلیسیا کے بزرگوں سے کہا:‏ ”‏یہاں آنے کے لیے ہم سب گھر والوں نے بہت قربانیاں دی ہیں۔‏ یہاں تک کہ میرے شوہر کو بزرگ کی ذمےداری چھوڑنی پڑی۔‏ اِس لیے مَیں اُمید کرتی ہوں کہ یہوواہ ہمارے اِس فیصلے کو برکت دے گا۔‏“‏ جب ہم یہوواہ پر ایمان رکھتے ہوئے کوئی فیصلہ کرتے ہیں تو وہ اُس میں برکت ضرور ڈالتا ہے۔‏ لیکن وہ بھلا ایسے فیصلوں کو کامیاب کیسے کر سکتا ہے جو اُس کی مرضی کے خلاف ہوں،‏ خاص طور پر ایسے فیصلے جن کی وجہ سے آپ کو غیرضروری طور پر کلیسیا کی ذمےداریوں کو چھوڑنا پڑے۔‏‏—‏عبرانیوں ۱۱:‏۶؛‏ ۱-‏یوحنا ۵:‏۱۳-‏۱۵ کو پڑھیں۔‏

۱۷.‏ ہمیں فیصلے کرنے سے پہلے یہوواہ خدا سے رہنمائی کیوں حاصل کرنی چاہیے؟‏ اور ہم ایسا کیسے کر سکتے ہیں؟‏

۱۷ فیصلہ کرنے سے پہلے یہوواہ سے رہنمائی مانگیں،‏ نہ کہ بعد میں۔‏  اُس سے دُعا کریں کہ وہ آپ کو پاک روح اور حکمت عطا کرے۔‏ (‏۲-‏تیم ۱:‏۷‏)‏ خود سے پوچھیں:‏ ”‏مَیں یہوواہ خدا کی خدمت کی خاطر کس حد تک قربانیاں دینے کو تیار ہوں؟‏ کیا مَیں یہوواہ خدا کی ہدایات پر عمل کرنے کو تیار ہوں،‏ چاہے اِس کے لیے مجھے اپنی زندگی کو سادہ ہی کیوں نہ بنانا پڑے؟‏“‏ (‏لو ۱۴:‏۳۳‏)‏ کلیسیا کے بزرگوں سے بھی مشورہ لیں اور اِس پر عمل کریں۔‏ یوں آپ اِس بات پر بھروسا ظاہر کریں گے کہ یہوواہ خدا آپ کو آپ کی فرمانبرداری کا اجر ضرور دے گا۔‏ یہ سچ ہے کہ بزرگ آپ کے لیے کوئی فیصلہ تو نہیں کر سکتے لیکن وہ ایسے فیصلے کرنے میں آپ کی مدد ضرور کر سکتے ہیں جن سے آگے چل کر آپ کو خوشی ملے گی۔‏—‏۲-‏کر ۱:‏۲۴‏۔‏

۱۸.‏ گھرانے کی ضروریات پوری کرنا کس کی ذمےداری ہے؟‏ اور اِس سلسلے میں کلیسیا کے بہن‌بھائی کیا مدد کر سکتے ہیں؟‏

۱۸ یہوواہ خدا نے گھرانے کی ضروریات پوری کرنے کی ذمےداری شوہروں کو دی ہے۔‏ بہت سے بھائی اپنے گھر والوں سے دُور جائے بغیر اِس ذمےداری کو نبھا رہے ہیں حالانکہ شاید اُنہیں پیسہ کمانے کے لیے کسی دوسرے علاقے میں جانے کے موقعے ملتے ہیں یا پھر اُن کے رشتےدار ایسا کرنے کے لیے اُن پر دباؤ ڈالتے ہیں۔‏ ہمیں ایسے بھائیوں کے لیے دُعا کرنی چاہیے اور اُنہیں داد دینی چاہیے۔‏ جب کوئی قدرتی آفت آتی ہے یا ہمارا کوئی بھائی یا بہن بیمار ہو جاتا ہے تو ہمیں محبت اور ہمدردی ظاہر کرنے کا موقع ملتا ہے۔‏ (‏گل ۶:‏۲،‏ ۵؛‏ ۱-‏پطر ۳:‏۸‏)‏ کیا آپ ایسی کسی صورتحال میں بہن‌بھائیوں کی مدد کر سکتے ہیں؟‏ یا پھر اگر کوئی بھائی یا بہن اپنے ہی علاقے میں نوکری ڈھونڈ رہا ہے تو کیا آپ اِس سلسلے میں اُس کی مدد کر سکتے ہیں؟‏ یوں شاید آپ اُس دباؤ کو کچھ کم کر سکیں جس کی وجہ سے وہ باہر جانے کا سوچ رہا ہے۔‏—‏امثا ۳:‏۲۷،‏ ۲۸؛‏ ۱-‏یوح ۳:‏۱۷‏۔‏

یہوواہ ہمارا مددگار ہے

۱۹،‏ ۲۰.‏ ہمیں یہ یقین کیوں ہے کہ یہوواہ ہماری مدد کرے گا؟‏

۱۹ پاک کلام میں لکھا ہے:‏ ”‏زر کی دوستی سے خالی رہو اور جو تمہارے پاس ہے اُسی پر قناعت کرو کیونکہ [‏خدا]‏ نے خود فرمایا ہے کہ مَیں تجھ سے ہرگز دست‌بردار نہ ہوں گا اور کبھی تجھے نہ چھوڑوں گا۔‏ اِس واسطے ہم دلیری کے ساتھ کہتے ہیں کہ [‏یہوواہ]‏ میرا مددگار ہے۔‏ مَیں خوف نہ کروں گا۔‏ اِنسان میرا کیا کرے گا؟‏“‏ (‏عبر ۱۳:‏۵،‏ ۶‏)‏ یہوواہ ہمارا مددگار کیسے بنتا ہے؟‏

۲۰ ہمارا ایک بھائی جو ایک غریب ملک میں رہتا ہے اور کافی عرصے سے بزرگ کے طور پر خدمت کر رہا ہے،‏ اُس نے بتایا:‏ ”‏لوگ اکثر یہ کہتے ہیں کہ یہوواہ کے گواہ ہمیشہ خوش نظر آتے ہیں۔‏ وہ اِس بات سے بھی بڑے متاثر ہوتے ہیں کہ غریب یہوواہ کے گواہ بھی ہمیشہ صاف‌ستھرے کپڑے پہنتے ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ جیسے اُنہیں کسی چیز کی کمی نہیں۔‏“‏ یہ بات یسوع مسیح کے اُس وعدے کے مطابق ہے جو اُنہوں نے اپنے پیروکاروں سے کِیا تھا۔‏ اُنہوں نے کہا کہ جو اپنی زندگی میں خدا کی بادشاہت کو پہلا درجہ دے گا،‏ یہوواہ اُس کی ضروریات کا خیال رکھے گا۔‏ (‏متی ۶:‏۲۸-‏۳۰،‏ ۳۳‏)‏ ہمارا آسمانی باپ یہوواہ ہم سے محبت کرتا ہے اور وہ ہماری اور ہمارے بچوں کی بھلائی چاہتا ہے۔‏ پاک کلام میں لکھا ہے:‏ ”‏[‏یہوواہ]‏ کی آنکھیں ساری زمین پر پھرتی ہیں تاکہ وہ اُن کی اِمداد میں جن کا دل اُس کی طرف کامل ہے اپنے تیئں قوی دِکھائے۔‏“‏ (‏۲-‏توا ۱۶:‏۹‏)‏ اُس نے ہماری بھلائی کے لیے ہمیں اصول اور ہدایات دی ہیں۔‏ اِن میں گھریلو زندگی کو خوش‌گوار بنانے اور روزمرہ کی ضروریات پوری کرنے کے بارے میں ہدایات بھی شامل ہیں۔‏ اِن ہدایات پر عمل کرنے سے ہم ظاہر کرتے ہیں کہ ہم اُس سے محبت کرتے ہیں اور اُس پر پورا بھروسا کرتے ہیں۔‏ یوحنا رسول نے لکھا:‏ ”‏خدا کی محبت یہ ہے کہ ہم اُس کے حکموں پر عمل کریں اور اُس کے حکم سخت نہیں۔‏“‏—‏۱-‏یوح ۵:‏۳‏۔‏

۲۱‏،‏ ۲۲.‏ آپ نے یہوواہ خدا پر بھروسا کرنے کا عزم کیوں کِیا ہے؟‏

۲۱ ایڈوارڈو نے کہا:‏ ”‏مَیں جانتا ہوں کہ جو وقت مَیں نے اپنی بیوی‌بچوں سے دُور گزارا ہے،‏ اب وہ کبھی واپس نہیں آئے گا۔‏ لیکن مَیں ساری عمر پچھتاوے میں نہیں گزارنا چاہتا۔‏ جن لوگوں کے ساتھ مَیں پہلے کام کرتا تھا،‏ اُن میں سے کئی امیر بن گئے ہیں مگر وہ خوش نہیں ہیں۔‏ اُن کے گھر والے طرح‌طرح کے مسئلوں میں اُلجھے ہوئے ہیں۔‏ لیکن ہمارا گھرانہ خوش ہے۔‏ مَیں اِس بات سے بھی بڑا متاثر ہوا ہوں کہ یہاں کے بہن‌بھائی غریب ہونے کے باوجود خدا کی خدمت کو پہلا درجہ دینے کی پوری کوشش کر رہے ہیں۔‏ ہم سب نے دیکھ لیا ہے کہ یسوع مسیح کا وعدہ بالکل سچا ہے۔‏“‏‏—‏متی ۶:‏۳۳ کو پڑھیں۔‏

۲۲ لہٰذا دلیر بنیں!‏ یہوواہ کے وفادار رہیں اور اُسی پر بھروسا رکھیں۔‏ اگر آپ یہوواہ خدا،‏ اپنے جیون‌ساتھی اور اپنے بچوں سے محبت کرتے ہیں تو آپ اپنے گھر والوں کو خدا کے قریب لانے کی ذمےداری کو نبھائیں گے۔‏ ایسا کرنے سے آپ دیکھیں گے کہ ’‏یہوواہ واقعی آپ کا مددگار‘‏ ثابت ہوگا۔‏

^ پیراگراف 1 فرضی نام اِستعمال کیے گئے ہیں۔‏