مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

ہم ”‏ہر شخص کو مناسب جواب“‏ کیسے دے سکتے ہیں؟‏

ہم ”‏ہر شخص کو مناسب جواب“‏ کیسے دے سکتے ہیں؟‏

‏”‏تمہارا کلام ہمیشہ ایسا پُرفضل .‏ .‏ .‏ ہو کہ تمہیں ہر شخص کو مناسب جواب دینا آ جائے۔‏“‏—‏کل ۴:‏۶‏۔‏

۱،‏ ۲.‏ ‏(‏الف)‏ ایک مثال دے کر بتائیں کہ سوچ‌سمجھ کر سوالوں کا اِستعمال کرنا کس قدر اہم ہے۔‏ (‏اِس مضمون کی پہلی تصویر کو دیکھیں۔‏)‏ (‏ب)‏ ہمیں کسی مشکل موضوع پر بات کرنے سے کیوں نہیں گھبرانا چاہیے؟‏

ایک بہن جس کا شوہر یہوواہ کا گواہ نہیں تھا،‏ اپنے شوہر سے بائبل کے بارے میں بات کر رہی تھی۔‏ ماضی میں اُس کا شوہر چرچ جایا کرتا تھا۔‏ اُن کی بات‌چیت کے دوران شوہر نے کہا کہ وہ تثلیث کے عقیدے کو مانتا ہے۔‏ بہن نے اندازہ لگایا کہ وہ شاید ٹھیک سے نہیں سمجھتا کہ اصل میں تثلیث کا عقیدہ کیا ہے۔‏ اِس لیے اُس نے پوچھا:‏ ”‏کیا آپ یہ مانتے ہیں کہ باپ خدا ہے،‏ یسوع مسیح خدا ہے اور روحُ‌القدس خدا ہے لیکن وہ تین خدا نہیں بلکہ ایک خدا ہیں؟‏“‏ شوہر نے فوراً کہا کہ ”‏مَیں تو یہ نہیں مانتا!‏“‏ اِس پر اُن دونوں میں اِس موضوع پر بات‌چیت شروع ہو گئی کہ اصل میں خدا کون ہے۔‏

۲ اِس مثال سے ظاہر ہوتا ہے کہ سوچ‌سمجھ کر سوالوں کا اِستعمال کرنا کس قدر اہم ہے۔‏ اِس سے ہم ایک اَور بات بھی سیکھتے ہیں:‏ ہمیں کسی مشکل موضوع پر بات کرنے سے نہیں گھبرانا چاہیے،‏ چاہے یہ خالق کے وجود کا موضوع ہو یا پھر تثلیث یا دوزخ کا عقیدہ وغیرہ۔‏ اگر ہم یہوواہ خدا اور اُس کی طرف سے ملنے والی تربیت پر بھروسا رکھتے ہیں تو ہم اپنے سننے والوں کو قائل کر سکتے ہیں  اور ہماری بات اُن کے دل تک پہنچ سکتی ہے۔‏ (‏کل ۴:‏۶‏)‏ آئیں،‏ دیکھیں کہ تجربہکار مبشر ایسے موضوعات پر کیسے بات کرتے ہیں۔‏ ہم دیکھیں گے کہ (‏۱)‏ ہم سوالوں کے ذریعے لوگوں کا نظریہ کیسے جان سکتے ہیں،‏ (‏۲)‏ ہم صحیفوں سے دلیلیں کیسے پیش کر سکتے ہیں اور (‏۳)‏ ہم مثالوں کے ذریعے اپنی بات کی وضاحت کیسے کر سکتے ہیں۔‏

لوگوں کا نظریہ جاننے کے لیے سوال پوچھیں

۳،‏ ۴.‏ یہ کیوں اہم ہے کہ ہم سوالوں کے ذریعے یہ معلوم کریں کہ ایک شخص کیا مانتا ہے؟‏ مثال دیں۔‏

۳ سوال پوچھنے سے ہم جان جاتے ہیں کہ ایک شخص کیا مانتا ہے۔‏ یہ جاننا کیوں اہم ہے؟‏ امثال ۱۸:‏۱۳ میں بتایا گیا ہے:‏ ”‏جو بات سننے سے پہلے اُس کا جواب دے یہ اُس کی حماقت اور خجالت ہے۔‏“‏ لہٰذا جب کسی موضوع پر بات‌چیت شروع ہوتی ہے تو فوراً ہی بائبل کا نظریہ نہ بتائیں بلکہ پہلے یہ جاننے کی کوشش کریں کہ وہ شخص اِس کے بارے میں کیا مانتا ہے۔‏ ورنہ ہم ایک ایسی بات کی تردید کرنے میں بہت سا وقت لگائیں گے جس پر وہ شخص ایمان ہی نہیں رکھتا۔‏—‏۱-‏کر ۹:‏۲۶‏۔‏

۴ فرض کریں کہ آپ کسی کے ساتھ دوزخ کے عقیدے پر بات کر رہے ہیں۔‏ سب لوگ یہ نہیں مانتے کہ دوزخ ایک حقیقی جگہ ہے جہاں لوگوں کو آگ میں تڑپایا جاتا ہے۔‏ بہت سے لوگ ایمان رکھتے ہیں کہ دوزخ اُن لوگوں کی حالت کی طرف اِشارہ کرتا ہے جنہوں نے خدا سے تعلق توڑ دیا ہے۔‏ اِس لیے ہم کچھ یوں کہہ سکتے ہیں:‏ ”‏لوگ دوزخ کے بارے میں فرق‌فرق نظریات رکھتے ہیں۔‏ آپ کے خیال میں دوزخ کیا ہے؟‏“‏ اُس شخص کا جواب سننے کے بعد آپ بہتر طور پر اُسے سمجھا سکیں گے کہ بائبل کی تعلیم کیا ہے۔‏

۵.‏ ہم سوالوں کے ذریعے یہ کیسے جان سکتے ہیں کہ ایک شخص نے فلاں نظریہ کیوں اپنایا ہے؟‏

۵ سوچ‌سمجھ کر سوالوں کا اِستعمال کرنے سے ہم یہ بھی جان جاتے ہیں کہ ایک شخص نے فلاں نظریہ کیوں اپنایا ہے۔‏ فرض کریں کہ آپ مُنادی کے کام میں ایک ایسے شخص سے ملتے ہیں جو خدا پر ایمان نہیں رکھتا۔‏ آپ فوراً شاید یہ سوچیں کہ یہ شخص اِرتقا کے نظریے سے متاثر ہے اور اِس لیے خدا کے وجود کو نہیں مانتا۔‏ (‏زبور ۱۰:‏۴‏)‏ لیکن دراصل کچھ لوگ اِس لیے خدا پر ایمان نہیں رکھتے کیونکہ وہ خود مصیبتوں سے گزرے ہیں یا اُنہوں نے دوسروں کو تکلیفیں سہتے دیکھا ہے۔‏ اُن کا خیال ہے کہ اگر کوئی شفیق خالق موجود ہوتا تو وہ اپنی مخلوق کو تکلیفیں سہنے نہ دیتا۔‏ اِس لیے اگر وہ شخص خدا کے وجود پر شک کا اِظہار کرتا ہے تو آپ اُس سے کہہ سکتے ہیں:‏ ”‏کیا آپ ہمیشہ سے ہی یہ مانتے ہیں؟‏“‏ اگر اُس کا جواب ”‏نہیں“‏ ہے تو آپ اُس سے پوچھ سکتے ہیں:‏ ”‏ایسا کیا ہوا تھا کہ آپ نے خدا پر ایمان رکھنا چھوڑ دیا؟‏“‏ اُس کے جواب سے ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ہم کیسے اُس کی مدد کر سکتے ہیں۔‏‏—‏امثال ۲۰:‏۵ کو پڑھیں۔‏

۶.‏ سوال پوچھنے کے بعد ہمیں کیا کرنا چاہیے؟‏

۶ سوال پوچھنے کے بعد ہمیں صاحبِ‌خانہ کے جواب کو دھیان سے سننا چاہیے اور اُسے یقین دِلانا چاہیے کہ ہم اُس کے احساسات کو سمجھتے ہیں۔‏ ہو سکتا ہے کہ وہ آپ کو بتائے کہ اُس کے ساتھ کوئی ہول‌ناک واقعہ ہوا تھا جس کی وجہ سے اب وہ خدا پر ایمان نہیں رکھتا۔‏ اِس سے پہلے کہ آپ اُسے خدا کے وجود کے بارے میں ثبوت دِکھائیں،‏ اُسے بتائیں کہ اُس کے المیے کے بارے میں جان کر آپ کو کتنا افسوس ہوا ہے۔‏ اُسے یہ بھی بتائیں کہ دُکھ اور تکلیف کی وجوہات کے بارے میں سوال اُٹھانا غلط نہیں ہے۔‏ (‏حبق ۱:‏۲،‏ ۳‏)‏ اگر ہم اُس کے ساتھ صبر اور محبت سے پیش آتے ہیں تو شاید وہ اَور بھی جاننا چاہے۔‏

صحیفوں سے دلیلیں پیش کریں

مؤثر تعلیم دینے کا طریقہ کیا ہے؟‏ (‏پیراگراف ۷ کو دیکھیں۔‏)‏

۷.‏ مؤثر تعلیم دینے کا طریقہ کیا ہے؟‏

۷ آئیں،‏ غور کریں کہ ہم صحیفوں سے دلیلیں کیسے پیش کر سکتے ہیں۔‏ ظاہر ہے کہ مُنادی کے کام میں ہمارا سب سے اہم آلہ بائبل ہے۔‏ اِس کی مدد سے ہم ”‏ہر ایک نیک کام کے لئے بالکل تیار“‏ ہو سکتے ہیں۔‏ (‏۲-‏تیم ۳:‏۱۶،‏ ۱۷‏)‏ لیکن مؤثر تعلیم دینے کا  طریقہ بائبل کی بہت ساری آیتیں پڑھنا نہیں ہے۔‏ ہماری تعلیم اُس وقت مؤثر ثابت ہوگی جب ہم آیتوں کی اچھی طرح وضاحت کریں گے اور اُن سے دلیلیں پیش کریں گے۔‏ ‏(‏اعمال ۱۷:‏۲،‏ ۳ کو پڑھیں۔‏)‏ اِس سلسلے میں تین صورتحال پر غور کریں۔‏

۸،‏ ۹.‏ ‏(‏الف)‏ اگر کوئی یہ مانتا ہے کہ یسوع مسیح،‏ خدا کے برابر ہیں تو ہم کون‌سی دلیلیں پیش کر سکتے ہیں؟‏ (‏ب)‏ آپ نے اِس موضوع پر اَور کن آیتوں کو اِستعمال کِیا ہے اور اِن سے کون‌سی دلیلیں پیش کی ہیں؟‏

۸ پہلی صورتحال:‏ ہم مُنادی کے کام میں کسی ایسے شخص سے ملتے ہیں جو مانتا ہے کہ یسوع مسیح،‏ خدا کے برابر ہیں۔‏ اِس موضوع پر بات کرنے کے لیے ہم کن آیتوں سے دلیلیں پیش کر سکتے ہیں؟‏ ہم شاید اُس کے ساتھ یوحنا ۶:‏۳۸ کو پڑھیں۔‏ اِس آیت میں یسوع مسیح نے کہا:‏ ”‏مَیں آسمان سے اِس لئے نہیں اُترا ہوں کہ اپنی مرضی کے موافق عمل کروں بلکہ اِس لئے کہ اپنے بھیجنے والے کی مرضی کے موافق عمل کروں۔‏“‏ اِس آیت کو پڑھنے کے بعد ہم اُس سے پوچھ سکتے ہیں:‏ ”‏اگر یسوع مسیح خدا ہیں تو پھر اُنہیں آسمان سے زمین پر کس نے بھیجا تھا؟‏ کیا یسوع مسیح کو بھیجنے والا اُن سے بڑا نہیں تھا؟‏ ظاہری بات ہے کہ بھیجنے والا اُس شخص سے بڑا ہوتا ہے جسے بھیجا جاتا ہے۔‏“‏

۹ یا شاید ہم اُس شخص کے ساتھ فلپیوں ۲:‏۹ کو پڑھیں۔‏ اِس آیت میں پولُس رسول نے بتایا کہ یسوع مسیح کی موت اور اُن کے جی اُٹھنے کے بعد خدا نے کیا کِیا۔‏ اِس میں لکھا ہے:‏ ”‏اِسی واسطے خدا نے بھی [‏یسوع کو]‏ بہت سربلند کِیا اور اُسے وہ نام بخشا جو سب ناموں سے اعلیٰ ہے۔‏“‏ اُس شخص کو یہ سمجھانے کے لیے کہ یہ آیت اِس موضوع پر کیا روشنی ڈالتی ہے،‏ ہم اُس سے پوچھ سکتے ہیں:‏ ”‏اگر یسوع مسیح اپنی موت سے پہلے خدا کے برابر تھے اور خدا نے اُنہیں بعد میں سربلند کِیا تو کیا وہ خدا سے بڑے نہیں بن گئے؟‏ لیکن کیا خدا سے بڑا کوئی ہو سکتا ہے؟‏“‏ اگر وہ شخص خدا کے کلام کا احترام کرتا ہے اور سچائی جاننے کی خواہش رکھتا ہے تو شاید وہ اِس موضوع پر مزید معلومات حاصل کرنا چاہے۔‏—‏اعما ۱۷:‏۱۱‏۔‏

۱۰.‏ ‏(‏الف)‏ ہم دوزخ کے عقیدے کو ماننے والوں کو کون‌سی دلیلیں پیش کر سکتے ہیں؟‏ (‏ب)‏ آپ نے دوزخ کے عقیدے کے سلسلے میں کون‌سی دلیلیں کامیابی سے اِستعمال کی ہیں؟‏

۱۰ دوسری صورتحال:‏ ایک مذہبی شخص کو یہ ماننا مشکل لگتا ہے کہ بُرے لوگوں کو ہمیشہ تک دوزخ کی آگ میں تڑپایا نہیں جائے گا۔‏ وہ شخص شاید اِس لیے دوزخ کے عقیدے پر ایمان رکھتا ہے کیونکہ وہ چاہتا ہے کہ بُرے لوگوں کو سزا ملے۔‏ ہم ایسے شخص کو کون‌سی دلیل پیش کر سکتے ہیں؟‏ سب سے پہلے تو ہم اُسے یہ یقین دِلا سکتے ہیں کہ بُرے لوگوں کو سزا ضرور ملے گی۔‏ (‏۲-‏تھس ۱:‏۹‏)‏ پھر ہم اُس کے ساتھ پیدایش ۲:‏۱۶،‏ ۱۷ کو پڑھ سکتے ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ گُناہ کی سزا موت ہے۔‏ ہم یہ وضاحت کر سکتے ہیں کہ آدم کے گُناہ کی وجہ  سے سب اِنسان پیدائشی طور پر گُناہگار ہیں۔‏ (‏روم ۵:‏۱۲‏)‏ لیکن ہم اُس کی توجہ اِس بات پر دِلا سکتے ہیں کہ خدا نے آدم اور حوا کو دوزخ میں سزا دینے کے حوالے سے کچھ نہیں کہا۔‏ پھر ہم اُس سے پوچھ سکتے ہیں:‏ ”‏اگر گُناہ کی سزا دوزخ ہوتی تو کیا یہ اِنصاف کی بات نہیں ہوتی کہ خدا آدم اور حوا کو پہلے سے اِس کے بارے میں بتائے؟‏“‏ اِس کے بعد ہم اُس کے ساتھ پیدایش ۳:‏۱۹ کو پڑھ سکتے ہیں۔‏ اِس آیت میں آدم کو یہ سزا سنائی گئی کہ وہ خاک میں لوٹ جائیں گے مگر اِس میں دوزخ کا کوئی ذکر نہیں کِیا گیا۔‏ ہم پوچھ سکتے ہیں:‏ ”‏کیا یہ اِنصاف کی بات ہوتی کہ خدا اُنہیں خاک میں لوٹنے کی سزا سنائے جبکہ دراصل وہ اُنہیں دوزخ میں ڈالنے والا تھا؟‏“‏ اگر یہ شخص واقعی سچائی جاننے کی خواہش رکھتا ہے تو اِس طرح کے سوالوں کے ذریعے ہم اُسے ترغیب دے سکتے ہیں کہ وہ اِس عقیدے کا غور سے جائزہ لے۔‏

۱۱.‏ ‏(‏الف)‏ اگر کوئی شخص یہ مانتا ہے کہ تمام نیک لوگ آسمان پر جائیں گے تو ہم اُسے کون‌سی دلیلیں پیش کر سکتے ہیں؟‏ (‏ب)‏ آسمان پر جانے کے موضوع پر آپ نے کون‌سی دلیلیں کامیابی سے اِستعمال کی ہیں؟‏

۱۱ تیسری صورتحال:‏ مُنادی کے کام میں ہم کسی ایسے شخص سے ملتے ہیں جو یہ ایمان رکھتا ہے کہ سب نیک لوگ آسمان پر جائیں گے۔‏ اِس عقیدے کی وجہ سے شاید وہ بائبل کی بعض آیتوں سے غلط تاثر لے۔‏ مثال کے طور پر فرض کریں کہ ہم اُس کے ساتھ مکاشفہ ۲۱:‏۴ پر بات کرتے ہیں۔‏ ‏(‏اِس آیت کو پڑھیں۔‏)‏ وہ شخص شاید یہ سمجھے کہ اِس آیت میں جن حالات کا ذکر ہوا ہے،‏ وہ آسمان پر ہوں گے۔‏ آپ اُسے کون‌سی دلیل پیش کر سکتے ہیں؟‏ دوسری آیتوں سے ثبوت پیش کرنے کی بجائے آپ اُس کی توجہ اِسی آیت کے ایک جملے پر دِلا سکتے ہیں۔‏ اِس میں لکھا ہے کہ ’‏موت نہ رہے گی۔‏‘‏ ہم اُس سے کہہ سکتے ہیں کہ ”‏اگر ایک چیز نہیں رہے گی تو اِس کا مطلب ہے کہ وہ پہلے سے موجود ہے اور پھر ختم ہو جائے گی۔‏“‏ پھر ہم اُس سے کہہ سکتے ہیں کہ ”‏کیا آسمان پر کبھی کوئی مرا ہے؟‏ موت تو صرف زمین پر ہی ہوتی ہے۔‏ لہٰذا مکاشفہ ۲۱:‏۴ میں جن حالات کا ذکر کِیا گیا ہے،‏ وہ مستقبل میں زمین پر ہوں گے۔‏“‏—‏زبور ۳۷:‏۲۹‏۔‏

مثالوں کے ذریعے اپنی بات کی وضاحت کریں

۱۲.‏ یسوع مسیح مثالیں کیوں اِستعمال کرتے تھے؟‏

۱۲ یسوع مسیح مُنادی کے کام کے دوران سوالوں کے علاوہ مثالوں کا بھی اِستعمال کرتے تھے۔‏ ‏(‏متی ۱۳:‏۳۴،‏ ۳۵ کو پڑھیں۔‏)‏ لوگ اُن کی مثالیں سُن کر جو ردِعمل دِکھاتے تھے،‏ اُس سے ظاہر ہوا کہ اُن کے دل میں کیا ہے۔‏ (‏متی ۱۳:‏۱۰-‏۱۵‏)‏ مثالوں کی وجہ سے یسوع مسیح کی تعلیم لوگوں کو اَور بھی دلچسپ لگتی تھی اور وہ اُن کی باتیں آسانی سے یاد رکھ سکتے تھے۔‏ ہم تعلیم دیتے وقت مثالیں کیسے اِستعمال کر سکتے ہیں؟‏

۱۳.‏ ہم کس مثال کے ذریعے یہ بات سمجھا سکتے ہیں کہ خدا،‏ یسوع مسیح سے بڑا ہے؟‏

۱۳ سادہ اور آسان مثالیں سب سے مؤثر ثابت ہوتی ہیں۔‏ مثال کے طور پر اگر ہم کسی شخص کو یہ بات سمجھانا چاہتے ہیں کہ خدا،‏ یسوع مسیح سے بڑا ہے تو ہم یہ دلیل پیش کر سکتے ہیں:‏ جب خدا اور یسوع مسیح نے اپنے آپس کے رشتے کا ذکر کِیا تو اُنہوں نے خاندانی رشتوں کی مثال اِستعمال کی۔‏ خدا نے یسوع مسیح کو اپنا بیٹا کہا اور یسوع مسیح نے خدا کو اپنا باپ کہا۔‏ (‏لو ۳:‏۲۱،‏ ۲۲؛‏ یوح ۱۴:‏۲۸‏)‏ پھر ہم صاحبِ‌خانہ سے پوچھ سکتے ہیں:‏ ”‏اگر آپ مجھے یہ سمجھانا چاہتے ہیں کہ دو لوگ برابر ہیں تو آپ کس خاندانی رشتے کی مثال دیں گے؟‏“‏ وہ شخص شاید کہے کہ ”‏جڑواں بھائیوں کی مثال۔‏“‏ اِس پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ ”‏یہ بہت اچھی مثال ہے۔‏ اگر ہمارے ذہن میں فوراً یہ مثال آتی ہے تو کیا یسوع مسیح کے ذہن میں یہ مثال نہیں آئی ہوگی؟‏ وہ تو عظیم اُستاد تھے۔‏ لیکن اُنہوں نے خدا کو اپنا بھائی نہیں بلکہ اپنا باپ کہا۔‏ یوں اُنہوں نے ظاہر کِیا کہ خدا اُن سے بڑا ہے اور اُن سے زیادہ اِختیار رکھتا ہے۔‏“‏

۱۴.‏ ہم کس مثال کے ذریعے لوگوں کو سمجھا سکتے ہیں کہ خدا بُرے لوگوں کو سزا دینے کے لیے شیطان کو اِستعمال نہیں کرتا؟‏

۱۴ بعض لوگ مانتے ہیں کہ خدا،‏ شیطان کو اِختیار دیتا ہے کہ  وہ لوگوں کو دوزخ میں سزا دے۔‏ اگر صاحبِ‌خانہ کے بچے ہیں تو ہم ایک مثال کے ذریعے اُسے سمجھا سکتے ہیں کہ ایسا نہیں ہو سکتا۔‏ ہم کچھ یوں کہہ سکتے ہیں:‏ ”‏اگر آپ کا بچہ غلط کاموں میں پڑ جائے تو آپ کیا کریں گے؟‏“‏ صاحبِ‌خانہ شاید یہ کہے کہ وہ اپنے بچے کو پیار سے سمجھائے گا اور اُس کو سدھارنے کی ہر ممکن کوشش کرے گا۔‏ (‏امثا ۲۲:‏۱۵‏)‏ اِس کے بعد ہم پوچھ سکتے ہیں:‏ ”‏اگر آپ کی ساری کوششوں کے باوجود بچہ سیدھی راہ پر واپس نہیں لوٹتا تو آپ کیا کریں گے؟‏“‏ زیادہ‌تر والدین کہیں گے کہ وہ اُسے کوئی نہ کوئی سزا دیں گے۔‏ پھر ہم کہہ سکتے ہیں:‏ ”‏لیکن اگر آپ کو پتہ چلے کہ کسی بُرے شخص نے آپ کے بچے کو بگاڑ دیا ہے تو آپ اُس شخص کے بارے میں کیسا محسوس کریں گے؟‏“‏ ظاہری بات ہے کہ والدین کو ایسے شخص پر بہت غصہ آئے گا۔‏ اِس مثال کے مقصد کو واضح کرنے کے لیے ہم پوچھ سکتے ہیں:‏ ”‏کیا آپ اُسی شخص کو اپنے بچے کو سزا دینے کے لیے کہیں گے جس نے اُسے بگاڑا ہے؟‏“‏ یقیناً صاحبِ‌خانہ کہے گا کہ ”‏کبھی نہیں۔‏“‏ اِسی طرح خدا بُرے لوگوں کو سزا دینے کے لیے شیطان کو اِستعمال نہیں کرتا جس نے اُن لوگوں کو بُری راہ پر ڈال دیا ہے۔‏

آپ تعلیم دینے کے لائق ہیں!‏

۱۵،‏ ۱۶.‏ ‏(‏الف)‏ ہمیں یہ توقع کیوں نہیں کرنی چاہیے کہ سب لوگ ہمارے پیغام کو قبول کریں گے؟‏ (‏ب)‏ ہمیں کیوں نہیں سوچنا چاہیے کہ ہم تعلیم دینے کے لائق نہیں ہیں؟‏ (‏بکس ”‏اِن مضامین سے تعلیم دینا سیکھیں“‏ کو بھی دیکھیں۔‏)‏

۱۵ ہم جانتے ہیں کہ ہر کوئی بادشاہت کے پیغام کو قبول نہیں کرے گا۔‏ (‏متی ۱۰:‏۱۱-‏۱۴‏)‏ چاہے ہم سب سے مؤثر سوال پوچھیں،‏ سب سے اچھی دلیلیں پیش کریں یا سب سے دلچسپ مثالیں اِستعمال کریں،‏ کچھ لوگ بائبل کی سچائیوں کو قبول نہیں کریں گے۔‏ یسوع مسیح تو سب سے بہترین اُستاد تھے لیکن کم ہی لوگوں نے اُن کی تعلیم پر کان لگایا۔‏—‏یوح ۶:‏۶۶؛‏ ۷:‏۴۵-‏۴۸‏۔‏

۱۶ شاید آپ کو دوسروں کو تعلیم دینا آسان نہ لگے لیکن یقین رکھیں کہ آپ مؤثر طریقے سے تعلیم دے سکتے ہیں۔‏ ‏(‏اعمال ۴‏:‏۱۳کو پڑھیں۔‏)‏ خدا کے کلام میں ہمیں یقین دِلایا گیا ہے کہ کئی لوگ خوش‌خبری کو ضرور قبول کریں گے۔‏ (‏مکا ۷:‏۹‏)‏ لہٰذا یہ نہ سوچیں کہ آپ تعلیم دینے کے لائق نہیں ہیں اور نہ ہی یہ سمجھیں کہ آپ کی محنت بےکار ہو جائے گی۔‏ جو تربیت یہوواہ خدا ہمیں دے رہا ہے،‏ اُس سے بھرپور فائدہ اُٹھائیں اور یہ بھروسا رکھیں کہ اِس سے نہ صرف آپ کو بلکہ آپ کے سننے والوں کو بھی فائدہ ہوگا۔‏ (‏۱-‏تیم ۴:‏۱۶‏)‏ یہوواہ خدا آپ کی مدد کرے گا کہ آپ ”‏ہر شخص کو مناسب جواب“‏ دے سکیں۔‏ اگلے مضمون میں ہم دیکھیں گے کہ مُنادی کے کام میں کامیاب ہونے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ ہم متی ۷:‏۱۲ میں پائے جانے والے اصول پر عمل کریں۔‏