مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

‏’‏یہوواہ اپنے خدا سے محبت رکھیں‘‏

‏’‏یہوواہ اپنے خدا سے محبت رکھیں‘‏

‏”‏[‏یہوواہ]‏ اپنے خدا سے اپنے سارے دل اور اپنی ساری جان اور اپنی ساری عقل سے محبت رکھ۔‏“‏—‏متی 22:‏37‏۔‏

1.‏ خدا اور اُس کے بیٹے کے درمیان محبت کیسے بڑھتی گئی؟‏

یہوواہ خدا کے بیٹے یسوع مسیح نے کہا:‏ ”‏مَیں باپ سے محبت رکھتا ہوں۔‏“‏ (‏یوح 14:‏31‏)‏ اُنہوں نے یہ بھی کہا:‏ ”‏باپ بیٹے کو عزیز رکھتا ہے۔‏“‏ (‏یوح 5:‏20‏)‏ یہ حیرانی کی بات نہیں کیونکہ زمین پر آنے سے پہلے یسوع مسیح نے لاکھوں سال اپنے باپ کے ساتھ گزارے اور اُس کے ”‏ماہر کاریگر“‏ کے طور پر کام کِیا۔‏ (‏امثا 8:‏30‏)‏ اِس عرصے کے دوران بیٹے نے باپ کی صفات کے بارے میں بہت کچھ سیکھا اور یوں اُسے باپ سے محبت کرنے کی بےشمار وجوہات ملیں۔‏ ایک دوسرے کی قربت میں رہنے سے اُن کی محبت بڑھتی گئی۔‏

2.‏ ‏(‏الف)‏ خدا ہم سے کس شرط پر محبت رکھتا ہے؟‏ (‏ب)‏ ہم کن سوالوں پر غور کریں گے؟‏

2 داؤد نے زبور میں لکھا:‏ ”‏اَے [‏یہوواہ]‏!‏ اَے میری قوت!‏ مَیں تجھ سے محبت رکھتا ہوں۔‏“‏ (‏زبور 18:‏1‏)‏ ہمیں بھی خدا کے لیے ایسے ہی احساسات رکھنے چاہئیں کیونکہ وہ ہم سے محبت رکھتا ہے۔‏ اگر ہم اُس کے حکموں پر عمل کرتے ہیں تو وہ ہمارے لیے محبت ظاہر کرے گا۔‏ ‏(‏استثنا 7:‏12،‏ 13 کو پڑھیں۔‏)‏ ہم خدا کو دیکھ نہیں سکتے۔‏ تو پھر ہم اُس سے محبت کیسے رکھ سکتے ہیں؟‏ یہوواہ خدا سے محبت رکھنے کا کیا مطلب ہے؟‏ ہمیں اُس سے محبت کیوں رکھنی چاہیے؟‏ اور ہم اُس کے لیے اپنی محبت کیسے ظاہر کر سکتے ہیں؟‏

 ہم خدا سے محبت کیوں رکھ سکتے ہیں؟‏

3،‏ 4.‏ ہم خدا سے محبت کیوں رکھ سکتے ہیں؟‏

3 چونکہ ”‏خدا روح ہے“‏ اِس لیے ہم اُسے دیکھ نہیں سکتے۔‏ (‏یوح 4:‏24‏)‏ پھر بھی ہم اُس سے محبت رکھ سکتے ہیں۔‏ دراصل پاک کلام میں ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ ہم خدا سے محبت رکھیں۔‏ مثال کے طور پر موسیٰ نبی نے بنی‌اِسرائیل سے کہا:‏ ”‏تُو اپنے سارے دل اور اپنی ساری جان اور اپنی ساری طاقت سے [‏یہوواہ]‏ اپنے خدا سے محبت رکھ۔‏“‏—‏است 6:‏5‏۔‏

4 ہم خدا سے گہری محبت کیوں رکھ سکتے ہیں؟‏ کیونکہ اُس نے ہمیں محبت ظاہر کرنے کی صلاحیت عطا کی ہے اور ہمیں عبادت کرنے کی خواہش کے ساتھ خلق کِیا ہے۔‏ جب ہم اِس خواہش کو صحیح طرح سے پورا کرتے ہیں تو یہوواہ خدا کے لیے ہماری محبت بڑھتی ہے اور ہم خوش رہتے ہیں۔‏ یسوع مسیح نے بھی کہا تھا:‏ ”‏وہ لوگ خوش رہتے ہیں جن کو احساس ہے کہ اُنہیں خدا کی رہنمائی کی ضرورت ہے کیونکہ آسمان کی بادشاہت اُن کی ہے۔‏“‏ (‏متی 5:‏3‏،‏ نیو ورلڈ ٹرانسلیشن‏)‏ عبادت کرنے کی اِنسانی خواہش کے بارے میں کہا گیا ہے:‏ ”‏یہ واقعی حیرت‌انگیز بات ہے کہ دُنیا کے ہر کونے میں اِنسان کسی عظیم ہستی کے وجود کو مانتا ہے اور اُس کی تلاش کرتا ہے۔‏“‏—‏ابراہام موریسن کی کتاب اِنسان خودمختار نہیں ہے،‏ ‏(‏انگریزی میں دستیاب)‏۔‏

5.‏ ہم کیسے جانتے ہیں کہ خدا کی تلاش کرنا اِنسان کی پہنچ سے باہر نہیں ہے؟‏

5 کیا خدا کی تلاش کرنا اِنسان کی پہنچ سے باہر ہے؟‏ نہیں۔‏ دراصل خدا چاہتا ہے کہ ہم اُسے ڈھونڈیں۔‏ یہ بات پولُس رسول نے صاف‌صاف بتائی۔‏ ایک مرتبہ اُنہوں نے اریوپگس پر کھڑے ہو کر ایک تقریر دی۔‏ اُس جگہ سے اتھینے کی دیوی کا مندر نظر آتا تھا جو شہر ایتھنز کی سب سے اہم دیوی تھی۔‏ ذرا تصور کریں کہ پولُس اِس پس‌منظر کے سامنے اُس خدا کے بارے میں بات کر رہے ہیں جس نے ”‏دُنیا اور اُس کی سب چیزوں کو پیدا کِیا۔‏“‏ پھر وہ بتاتے ہیں کہ وہ ”‏ہاتھ کے بنائے ہوئے مندروں میں نہیں رہتا۔‏“‏ پولُس رسول یہ بھی کہتے ہیں کہ خدا نے ”‏ایک ہی اصل سے آدمیوں کی ہر ایک قوم تمام رویِ‌زمین پر رہنے کے لئے پیدا کی اور اُن کی میعادیں اور سکونت کی حدیں مقرر کیں تاکہ خدا کو ڈھونڈیں۔‏ شاید کہ ٹٹول کر اُسے پائیں ہر چند وہ ہم میں سے کسی سے دُور نہیں۔‏“‏ (‏اعما 17:‏24-‏27‏)‏ لہٰذا خدا کی تلاش کرنا ممکن ہے۔‏ پچھتّر لاکھ سے زیادہ یہوواہ کے گواہوں نے خدا کو ڈھونڈ لیا ہے اور وہ اُس سے دل سے محبت رکھتے ہیں۔‏

خدا سے محبت رکھنے کا کیا مطلب ہے؟‏

6.‏ یسوع مسیح کے مطابق ”‏بڑا اور پہلا حکم“‏ کون‌سا ہے؟‏

6 یسوع مسیح نے اِس بات پر زور دیا کہ ہمیں دل کی گہرائیوں سے خدا سے محبت کرنی چاہیے۔‏ جب ایک فریسی نے اُن سے پوچھا:‏ ”‏اُستاد توریت میں کون‌سا حکم بڑا ہے؟‏“‏ تو اُنہوں نے جواب دیا:‏ ”‏[‏یہوواہ]‏ اپنے خدا سے اپنے سارے دل اور اپنی ساری جان اور اپنی ساری عقل سے محبت رکھ۔‏ بڑا اور پہلا حکم یہی ہے۔‏“‏—‏متی 22:‏34-‏38‏۔‏

7.‏ ‏(‏الف)‏ اپنے ”‏سارے دل“‏ سے،‏ (‏ب)‏ اپنی ”‏ساری جان“‏ سے اور (‏ج)‏ اپنی ”‏ساری عقل“‏ سے خدا سے محبت رکھنے کا کیا مطلب ہے؟‏

7 جب یسوع مسیح نے کہا کہ ہمیں ”‏اپنے سارے دل“‏ سے خدا سے محبت رکھنی چاہیے تو اُن کا کیا مطلب تھا؟‏ دراصل وہ ہماری خواہشات،‏ احساسات اور جذبات کی طرف اِشارہ کر رہے تھے۔‏ ”‏ساری جان“‏ سے مراد ہماری زندگی ہے اور ”‏ساری عقل“‏ ہماری سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کی طرف اِشارہ کرتی ہے۔‏ اِس سے ہم جان سکتے ہیں کہ ہماری زندگی اور شخصیت کے ہر پہلو سے ظاہر ہونا چاہیے کہ ہم یہوواہ خدا سے محبت رکھتے ہیں۔‏

8.‏ اگر ہم خدا سے پوری طرح سے محبت رکھتے ہیں تو ہم کیا کریں گے؟‏

8 اگر ہم سارے دل،‏ جان اور عقل سے یہوواہ خدا سے محبت رکھتے ہیں تو ہم بائبل کا گہرا مطالعہ کریں گے،‏ دل‌وجان سے اُس کی مرضی پر چلیں گے اور جوش‌وخروش سے بادشاہت کی خوش‌خبری سنائیں گے۔‏ (‏متی 24:‏14؛‏ روم 12:‏1،‏ 2‏)‏ خدا سے سچی محبت رکھنے کی وجہ سے ہم اُس سے قریب سے قریب بھی ہوتے جائیں گے۔‏ (‏یعقو 4:‏8‏)‏ ہم خدا سے محبت رکھنے کی تمام وجوہات کی فہرست تو نہیں بنا سکتے لیکن آئیں،‏ اِن میں سے چند ایک وجوہات پر غور کریں۔‏

 ہمیں خدا سے محبت کیوں رکھنی چاہیے؟‏

9.‏ آپ اپنے خالق اور پروردگار سے محبت کیوں رکھتے ہیں؟‏

9 یہوواہ خدا ہمارا خالق اور پروردگار ہے۔‏ پولُس رسول نے لکھا:‏ ”‏اُسی میں ہم جیتے اور چلتے پھرتے اور موجود ہیں۔‏“‏ (‏اعما 17:‏28‏)‏ یہوواہ خدا نے ہمیں زمین دی ہے جو کہ ہمارا گھر ہے۔‏ (‏زبور 115:‏16‏)‏ اُس نے ہمیں نہ صرف خوراک دی ہے بلکہ وہ ساری چیزیں بھی دی ہیں جن کی ہمیں زندہ رہنے کے لیے ضرورت ہے۔‏ اِسی وجہ سے پولُس رسول شہر لِسترہ میں رہنے والے بُت‌پرست لوگوں سے کہہ سکتے تھے:‏ ”‏زندہ خدا .‏ .‏ .‏ نے اپنے آپ کو بےگواہ نہ چھوڑا۔‏ چُنانچہ اُس نے مہربانیاں کیں اور آسمان سے تمہارے لئے پانی برسایا اور بڑی بڑی پیداوار کے موسم عطا کئے اور تمہارے دلوں کو خوراک اور خوشی سے بھر دیا۔‏“‏ (‏اعما 14:‏15-‏17‏)‏ واقعی یہ اپنے خالق اور پروردگار سے محبت رکھنے کی اہم وجہ ہے۔‏—‏واعظ 12:‏1‏۔‏

10.‏ ہمیں اُس بندوبست کے لیے کیا ردِعمل دِکھانا چاہیے جو خدا نے ہمیں گُناہ اور موت سے چھڑانے کے لیے کِیا ہے؟‏

10 خدا نے ہمیں آدم سے ملنے والے گُناہ اور موت سے چھڑانے کا بندوبست بنایا۔‏ ‏(‏روم 5:‏12‏)‏ پاک کلام میں بتایا گیا ہے کہ ”‏خدا اپنی محبت کی خوبی ہم پر یوں ظاہر کرتا ہے کہ جب ہم گنہگار ہی تھے تو مسیح ہماری خاطر مؤا۔‏“‏ (‏روم 5:‏8‏)‏ یہوواہ خدا نے یہ بندوبست بنایا ہے کہ اگر ہم توبہ کرتے ہیں اور یسوع مسیح کے فدیے پر ایمان لاتے ہیں تو ہمیں گُناہوں کی معافی مل سکتی ہے۔‏ (‏یوح 3:‏16‏)‏ بِلاشُبہ اِس بندوبست کے بارے میں جان کر ہمارا دل یہوواہ خدا کے لیے محبت سے بھر جاتا ہے۔‏

11،‏ 12.‏ یہوواہ خدا نے ہمیں کون کون‌سی اُمیدیں دی ہیں؟‏

11 خدا ہمیں ایسی اُمید دیتا ہے جو ہمارے لیے ”‏خوشی اور اِطمینان“‏ کا باعث بنتی ہے۔‏ ‏(‏روم 15:‏13‏)‏ اِس اُمید کی بدولت ہم آزمائشوں میں خدا کے وفادار رہنے کے قابل ہوتے ہیں۔‏ ممسوح مسیحی جو ’‏جان دینے تک وفادار رہتے ہیں،‏‘‏ اُنہیں آسمان پر ”‏زندگی کا تاج“‏ ملے گا۔‏ (‏مکا 2:‏10‏)‏ خدا کے وفادار بندے جو زمین پر رہنے کی اُمید رکھتے ہیں،‏ وہ ایک خوب‌صورت فردوس میں ہمیشہ کی زندگی کا لطف اُٹھائیں گے۔‏ (‏لو 23:‏43‏)‏ ایسی اُمید کے بارے میں جان کر آپ کیسا محسوس کرتے ہیں؟‏ کیا آپ خوشی اور اِطمینان محسوس نہیں کرتے؟‏ کیا آپ کا دل خدا کے لیے محبت سے بھر نہیں جاتا جو ”‏ہر اچھی بخشش اور ہر کامل اِنعام“‏ دیتا ہے؟‏—‏یعقو 1:‏17‏۔‏

12 خدا نے ہمیں یہ اُمید دی ہے کہ مُردے زندہ ہوں گے۔‏ ‏(‏یوح 5:‏28‏)‏ جب ہمارا کوئی عزیز فوت ہو جاتا ہے تو ظاہری بات ہے کہ ہمیں بہت دُکھ ہوتا ہے۔‏ مگر ہم جانتے ہیں کہ مُردے زندہ ہوں گے اِس لیے ہم ’‏اَوروں کی مانند جو نااُمید ہیں غم نہیں کرتے۔‏‘‏ (‏1-‏تھس 4:‏13‏)‏ محبت کی بِنا پر یہوواہ خدا مُردوں کو زندہ کرنے کی دلی خواہش رکھتا ہے،‏ خاص طور پر اپنے وفادار بندوں کو۔‏ (‏ایو 14:‏15‏)‏ ذرا سوچیں کہ وہ کتنی خوشی کا سماں ہوگا جب زمین پر مُردے زندہ ہوں گے اور ہم اُن سے ملیں گے۔‏ یقیناً اِس شان‌دار اُمید کی وجہ سے خدا کے لیے ہماری محبت اَور بھی گہری ہو جاتی ہے۔‏

13.‏ اِس بات کا کیا ثبوت ہے کہ خدا کو ہماری فکر ہے؟‏

13 یہوواہ خدا کو ہماری فکر ہے۔‏ (‏زبور 34:‏6،‏ 18،‏ 19؛‏ 1-‏پطرس 5:‏6،‏ 7 کو پڑھیں۔‏)‏ ہم جانتے ہیں کہ خدا اپنے وفادار بندوں کی مدد کرنے کو ہمیشہ تیار رہتا ہے۔‏ ہم اُس کی ”‏چراگاہ کی بھیڑیں ہیں“‏ اِس لیے ہم خود کو محفوظ محسوس کرتے ہیں۔‏ (‏زبور 79:‏13‏)‏ خدا،‏ مسیح کی بادشاہت کے ذریعے جو کچھ انجام دے گا،‏ اِس سے بھی اُس کی محبت کا ثبوت ملتا ہے۔‏ اُس کا مقررہ بادشاہ یسوع مسیح زمین پر سے ظلم،‏ تشدد اور بُرائی کو ختم کر دے گا۔‏ اِس کے بعد زمین پر امن ہوگا اور سب اِنسانوں کی ضرورتیں پوری ہوں گی۔‏ (‏زبور 72:‏7،‏ 12-‏14،‏ 16‏)‏ یہ جان کر کہ خدا ہمارے تمام مسائل کو ختم کرے گا،‏ کیا ہمیں اُس سے سارے دل،‏ جان،‏ طاقت اور عقل سے محبت کرنے کی ترغیب نہیں ملتی؟‏—‏لو 10:‏27‏۔‏

14.‏ خدا نے ہمیں کون‌سا اعزاز بخشا ہے؟‏

14 یہوواہ خدا نے ہمیں اُس کے گواہ ہونے کا اعزاز بخشا ہے۔‏ ‏(‏یسع 43:‏10-‏12‏)‏ ہم خدا سے اِس لیے بھی محبت رکھتے ہیں کیونکہ اُس نے ہمیں یہ موقع دیا ہے کہ ہم اُس کی حکمرانی کی حمایت کریں اور مشکلات سے دوچار لوگوں کو خوش‌خبری دیں۔‏ ہم اِعتماد کے ساتھ لوگوں کو خدا کے کلام کے وعدوں کے بارے میں بتا  سکتے ہیں کیونکہ خدا سچا ہے اور اپنے وعدے کبھی نہیں توڑتا۔‏ ‏(‏یشوع 21:‏45؛‏ 23:‏14 کو پڑھیں۔‏)‏ بِلاشُبہ ہمارے پاس خدا سے محبت کرنے کی اَور بھی بہت سی وجوہات ہیں۔‏ لیکن اب ہم دیکھیں گے کہ ہم اُس کے لیے محبت کیسے ظاہر کر سکتے ہیں۔‏

ہم خدا کے لیے محبت کیسے ظاہر کر سکتے ہیں؟‏

15.‏ پاک کلام کا مطالعہ کرنے اور اِس پر عمل کرنے سے ہمیں کونسے فائدے ہوتے ہیں؟‏

15 پاک کلام کا باقاعدگی سے مطالعہ کریں اور اِس پر عمل کریں۔‏ ایسا کرنے سے ہم ظاہر کریں گے کہ ہم خدا سے محبت رکھتے ہیں اور اُس کا کلام ’‏ہماری راہ کے لئے روشنی‘‏ ہے۔‏ (‏زبور 119:‏105‏)‏ جب ہم کسی مشکل سے گزرتے ہیں تو ہمیں پاک کلام کے ایسے وعدوں سے تسلی ملتی ہے:‏ ”‏اَے خدا تُو شکستہ اور خستہ دل کو حقیر نہ جانے گا۔‏“‏ ”‏اَے [‏یہوواہ]‏!‏ تیری شفقت نے مجھے سنبھال لیا۔‏ جب میرے دل میں فکروں کی کثرت ہوتی ہے تو تیری تسلی میری جان کو شاد کرتی ہے۔‏“‏ (‏زبور 51:‏17؛‏ 94:‏18،‏ 19‏)‏ جس طرح یسوع مسیح لوگوں کو تکلیف میں دیکھ کر اُن پر ترس کھاتے تھے اِسی طرح یہوواہ خدا بھی ایسے لوگوں پر رحم کرتا ہے۔‏ (‏یسع 49:‏13؛‏ متی 15:‏32‏)‏ بائبل کا مطالعہ کرنے سے ہم یہ بات اَور اچھی طرح سے سمجھ جاتے ہیں کہ یہوواہ خدا کو ہماری کتنی فکر ہے اور یوں ہمارے دل میں اُس کے لیے محبت بڑھ جاتی ہے۔‏

16.‏ باقاعدگی سے دُعا کرنے سے خدا کے لیے ہماری محبت کیوں بڑھتی ہے؟‏

16 باقاعدگی سے دُعا کریں۔‏ یہوواہ خدا ’‏دُعا کا سننے والا‘‏ ہے۔‏ (‏زبور 65:‏2‏)‏ دُعا کے ذریعے ہم اُس کے اَور قریب ہو جاتے ہیں۔‏ جب ہم دیکھتے ہیں کہ خدا ہماری دُعاؤں کا جواب دیتا ہے تو اُس کے لیے ہماری محبت اَور گہری ہو جاتی ہے۔‏ مثال کے طور پر ہم نے شاید یہ تجربہ کِیا ہو کہ جب ہمیں لگتا ہے کہ کوئی آزمائش ہماری برداشت سے باہر ہو رہی ہے تو خدا نکلنے کی راہ پیدا کرتا ہے۔‏ (‏1-‏کر 10:‏13‏)‏ اگر ہم کسی وجہ سے پریشان ہیں اور ہم دل کی گہرائیوں سے خدا سے دُعا کرتے ہیں تو یقیناً ہمیں ”‏خدا کا اِطمینان“‏ حاصل ہوتا ہے۔‏ (‏فل 4:‏6،‏ 7‏)‏ کبھی‌کبھار ہم نحمیاہ کی طرح دل ہی دل میں دُعا کرتے ہیں اور پھر دیکھتے ہیں کہ خدا ہماری ایسی دُعاؤں کو بھی سُن لیتا ہے۔‏ (‏نحم 2:‏1-‏6‏)‏ جب ہم ”‏دُعا کرنے میں مشغول“‏ رہتے ہیں اور ہمیں پتہ چلتا ہے کہ خدا ہماری دُعاؤں کو سُن رہا ہے تو اُس کے لیے ہماری محبت بڑھتی جاتی ہے۔‏ (‏روم 12:‏12‏)‏ اِس کے ساتھ‌ساتھ ہمارا یہ اِعتماد بھی مضبوط ہوتا ہے کہ خدا ہمیں آئندہ بھی آزمائشوں میں وفادار رہنے کی طاقت دے گا۔‏

17.‏ اگر ہم خدا سے محبت رکھتے ہیں تو ہم اِجلاسوں میں جانا کتنا اہم خیال کریں گے؟‏

 17 باقاعدگی سے اِجلاسوں اور اِجتماعوں میں جائیں۔‏ ‏(‏عبر 10:‏24،‏ 25‏)‏ بنی‌اِسرائیل خدا کے بارے میں سننے اور سیکھنے کے لیے جمع ہوتے تھے۔‏ اِس طرح اُن کا یہ عزم مضبوط ہوتا تھا کہ وہ خدا کا خوف مانیں اور اُس کی شریعت پر عمل کریں۔‏ (‏است 31:‏12‏)‏ اگر ہم خدا سے محبت رکھتے ہیں تو اُس کے حکم ماننا ہمیں بوجھ نہیں لگے گا۔‏ ‏(‏1-‏یوحنا 5:‏3 کو پڑھیں۔‏)‏ لہٰذا ہمیں اِس سوچ میں نہیں پڑنا چاہیے کہ کبھی کبھار اِجلاسوں میں نہ جانے میں کوئی حرج نہیں۔‏ بِلاشُبہ ہم نہیں چاہتے کہ خدا کے لیے ہماری ”‏پہلی سی محبت“‏ ٹھنڈی پڑ جائے۔‏—‏مکا 2:‏4‏۔‏

18.‏ خدا سے محبت رکھنے کی وجہ سے ہمیں اَور کِیا کرنے کی ترغیب ملتی ہے؟‏

18 پوری لگن سے دوسروں کو ”‏خوش‌خبری کی سچائی“‏ سنائیں۔‏ ‏(‏گل 2:‏5‏)‏ چونکہ ہم خدا سے محبت رکھتے ہیں اِس لیے ہم دوسروں کو بتانا چاہتے ہیں کہ اُس کے بیٹے کی بادشاہت کیا کچھ انجام دے گی۔‏ مثال کے طور پر یسوع مسیح ہرمجِدّون پر ’‏سچائی کی خاطر‘‏ لڑیں گے۔‏ (‏زبور 45:‏4؛‏ مکا 16:‏14،‏ 16‏)‏ شاگرد بنانے کے کام میں حصہ لینا واقعی خوشی کی بات ہے کیونکہ اِس کے ذریعے ہم لوگوں کو خدا کی محبت اور اُس کی آنے والی نئی دُنیا کے بارے میں بتا سکتے ہیں۔‏—‏متی 28:‏19،‏ 20‏۔‏

19.‏ ہمیں اُن آدمیوں کی قدر کیوں کرنی چاہیے جنہیں یہوواہ خدا نے ہماری پیشوائی کرنے کے لیے مقرر کِیا ہے؟‏

19 اُن کی قدر کریں جنہیں یہوواہ خدا نے ہماری پیشوائی کرنے کے لیے مقرر کِیا ہے۔‏ ‏(‏اعما 20:‏28‏)‏ یہوواہ خدا ہمیشہ ہماری بھلائی چاہتا ہے اِس لیے اُس نے کلیسیا کے بزرگوں کا بندوبست کِیا ہے۔‏ بزرگ ”‏آندھی سے پناہگاہ کی مانند .‏ .‏ .‏ اور طوفان سے چھپنے کی جگہ اور خشک زمین میں پانی کی ندیوں کی مانند اور ماندگی کی زمین میں بڑی چٹان کے سایہ کی مانند“‏ ہیں۔‏ (‏یسع 32:‏1،‏ 2‏)‏ آندھی یا طوفان میں ہم ایک پناہگاہ کی بڑی قدر کرتے ہیں۔‏ اور جب ہمیں تیز دھوپ میں ایک چٹان کا سایہ ملتا ہے تو ہم بہت شکرگزار ہوتے ہیں۔‏ اِسی طرح کلیسیا کے بزرگ ہماری مدد کرتے ہیں تاکہ ہم خدا کی خدمت جاری رکھ سکیں اور روحانی لحاظ سے تازہ‌دم رہیں۔‏ بزرگ ”‏آدمیوں کے روپ میں تحفے“‏ ہیں اور اُن کے فرمانبردار رہنے سے ہم ظاہر کرتے ہیں کہ ہم اُن کی کتنی قدر کرتے ہیں۔‏ یوں ہم یہوواہ خدا اور کلیسیا کے سردار یسوع مسیح کے لیے اپنی محبت کا بھی ثبوت دیتے ہیں۔‏—‏افس 4:‏8‏،‏ نیو ورلڈ ٹرانسلیشن؛‏ افس 5:‏23؛‏ عبر 13:‏17‏۔‏

یہوواہ خدا نے بزرگوں کو مقرر کِیا ہے جو گلّے کی فکر رکھتے ہیں۔‏ (‏پیراگراف 19 کو دیکھیں۔‏)‏

خدا کے لیے اپنی محبت بڑھاتے رہیں

20.‏ اگر آپ خدا سے محبت رکھتے ہیں تو آپ یعقوب 1:‏22-‏25 کے مطابق کیا کریں گے؟‏

20 اگر ہمارے دل میں یہوواہ خدا کے لیے محبت ہے تو ہم ’‏کلام کے محض سننے والے‘‏ نہیں بلکہ ’‏اُس پر عمل کرنے والے‘‏ بھی ہوں گے۔‏ ‏(‏یعقوب 1:‏22-‏25 کو پڑھیں۔‏)‏ ‏’‏کلام پر عمل کرنے والا‘‏ شخص اپنے کاموں سے ایمان ظاہر کرتا ہے۔‏ مثال کے طور پر وہ پوری لگن سے خوش‌خبری کی مُنادی کرتا ہے اور اِجلاسوں میں حصہ لیتا ہے۔‏ اگر آپ خدا سے محبت رکھتے ہیں تو آپ اُس کی ”‏کامل شریعت“‏ پر عمل کریں گے یعنی اُس کے ہر حکم کو مانیں گے۔‏—‏زبور 19:‏7-‏11‏۔‏

21.‏ ہماری دُعاؤں کو کس چیز سے تشبیہ دی جا سکتی ہے؟‏

21 اگر ہم خدا سے محبت رکھتے ہیں تو ہم باقاعدگی سے اور دل سے اُس سے دُعا کریں گے۔‏ شریعت کے مطابق اِسرائیل میں ہر روز بخور جلایا جاتا تھا۔‏ اِس رسم کی طرف اِشارہ کرتے ہوئے داؤد نے لکھا:‏ ”‏میری دُعا تیرے حضور بخور کی مانند ہو اور میرا ہاتھ اُٹھانا شام کی قربانی کی مانند۔‏“‏ (‏زبور 141:‏2؛‏ خر 30:‏7،‏ 8‏)‏ بخور (‏یا عُود)‏ خدا کے بندوں کی دُعاؤں کی طرف اِشارہ کرتا ہے۔‏ (‏مکا 5:‏8‏)‏ ہماری خواہش ہے کہ ہماری دُعائیں اور اِلتجائیں بھی خدا کے حضور خوشبودار بخور کی مانند ہوں۔‏

22.‏ اگلے مضمون میں ہم کس بات پر غور کریں گے؟‏

22 یسوع مسیح نے کہا تھا کہ خدا کے علاوہ ہمیں اپنے پڑوسی سے بھی محبت رکھنی چاہیے۔‏ (‏متی 22:‏37-‏39‏)‏ اگلے مضمون میں ہم دیکھیں گے کہ اگر ہم خدا اور اُس کے اصولوں سے محبت رکھتے ہیں تو ہم دوسرے اِنسانوں سے بھی محبت رکھیں گے۔‏