مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

‏’‏ایسی قوم جس کا خدا یہوواہ ہے‘‏

‏’‏ایسی قوم جس کا خدا یہوواہ ہے‘‏

‏”‏مبارک ہے وہ قوم جس کا خدا [‏یہوواہ]‏ ہے۔‏“‏—‏زبور 144:‏15‏۔‏

1.‏ خدا کی عبادت کرنے کے سلسلے میں کچھ لوگوں کا کیا خیال ہے؟‏

بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ دُنیا کے بڑے بڑے مذاہب اِنسانوں کو اِتنا فائدے نہیں پہنچا رہے۔‏ بعض کا کہنا ہے کہ چونکہ یہ مذاہب خدا کے بارے میں غلط تعلیمات دیتے ہیں اور اپنے کاموں سے اُس کی بدنامی کرتے ہیں اِس لیے اِنہیں خدا کی خوشنودی حاصل نہیں۔‏ البتہ یہ لوگ یہ ضرور مانتے ہیں کہ ہر مذہب میں کچھ اچھے لوگ بھی ہیں جنہیں خدا پسند کرتا ہے اور اُنہیں اپنے بندوں کے طور پر قبول کرتا ہے۔‏ اِن کا خیال ہے کہ اِن اچھے لوگوں کو اپنے مذہب سے الگ ہو کر خدا کی عبادت کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔‏ لیکن کیا خدا بھی ایسا ہی سوچتا ہے؟‏ یہ جاننے کے لیے آئیں،‏ بائبل میں درج خدا کے بندوں کی تاریخ پر غور کریں۔‏

خدا کا اپنے لوگوں سے عہد

2.‏ خدا نے کن کو اپنے لوگوں کے طور پر چنا؟‏ اور کس بات نے اُنہیں دوسرے لوگوں سے فرق کِیا؟‏ (‏اِس مضمون کی پہلی تصویر کو دیکھیں۔‏)‏

2 تقریباً 4000 سال پہلے یہوواہ خدا نے کچھ اِنسانوں کو اپنے بندوں کے طور پر  چنا۔‏ بائبل میں بتایا گیا ہے کہ ابرہام ’‏اُن سب کے باپ ٹھہرے جو ایمان لاتے ہیں۔‏‘‏ ابرہام اپنے  گھرانے  کے سردار تھے جس میں سینکڑوں نوکرچاکر بھی شامل تھے۔‏ (‏روم 4:‏11؛‏ پید 14:‏14‏)‏ ملک کنعان کے لوگ ابرہام کو  ”‏زبردست سردار“‏ خیال کرتے تھے اور اُن کی بڑی عزت کرتے تھے۔‏ (‏پید 21:‏22؛‏ 23:‏6‏)‏ یہوواہ خدا نے ابرہام اور اُن کی اولاد کے ساتھ ایک عہد باندھا۔‏ (‏پید 17:‏1،‏ 2،‏ 19‏)‏ خدا نے ابرہام سے کہا:‏ ”‏میرا عہد جو میرے اور تیرے درمیان اور تیرے بعد تیری نسل کے درمیان ہے اور جسے تُم مانو گے سو یہ ہے کہ تُم میں سے ہر ایک فرزندِنرینہ کا ختنہ کِیا جائے۔‏ .‏ .‏ .‏ اور یہ اُس عہد کا نشان ہوگا جو میرے اور تمہارے درمیان ہے۔‏“‏ (‏پید 17:‏10،‏ 11‏)‏ خدا کے کہنے کے مطابق ابرہام اور اُن کے گھرانے کے سب مردوں نے ختنہ کرایا۔‏ (‏پید 17:‏24-‏27‏)‏ ختنہ اِس بات کا نشان تھا کہ ابرہام کی اولاد ہی وہ لوگ ہیں جنہیں یہوواہ خدا نے اپنے لوگوں کے طور پر چنا ہے۔‏

3.‏ ابرہام کی اولاد کی تعداد بڑھنے سے کیا ہوا؟‏

3 ابرہام کے پوتے یعقوب یعنی اِسرائیل کے 12 بیٹے تھے۔‏ (‏پید 35:‏10،‏ 22-‏26‏)‏ بعد میں اِنہی 12 بیٹوں سے اِسرائیل کے 12 قبیلے نکلے۔‏ (‏اعما 7:‏8‏)‏ ملک کنعان میں قحط پڑنے کی وجہ سے یعقوب اور اُن کا گھرانہ مصر چلا گیا جہاں یعقوب کے بیٹے یوسف اناج کے نگران اور فرعون کے دہنے ہاتھ کے طور پر کام کر رہے تھے۔‏ (‏پید 41:‏39-‏41؛‏ 42:‏6‏)‏ یعقوب کی اولاد کی تعداد بہت بڑھ گئی اور اُن سے ”‏قوموں کا ایک زمُرہ“‏ یعنی جتھا بنا۔‏—‏پید 48:‏4؛‏ اعمال 7:‏17 کو پڑھیں۔‏

یہوواہ خدا نے اپنے لوگوں کو بچایا

4.‏ شروع شروع میں مصریوں اور اِسرائیلیوں کے تعلقات کیسے تھے؟‏

4 یعقوب کی اولاد تقریباً 200 سال تک مصر میں رہی۔‏ وہ دریائےنیل کے قریب جشن کے علاقے میں رہتے تھے۔‏ (‏پید 45:‏9،‏ 10‏)‏ ایسا لگتا ہے کہ شروع کے تقریباً 100 سال تک یعقوب کی اولاد اور مصری بڑے امن سے رہے۔‏ اِسرائیلی چھوٹے چھوٹے گاؤں میں رہتے تھے اور چوپایوں کو چراتے تھے۔‏ فرعون،‏ یوسف کی بہت قدر اور عزت کرتے تھے اِسی لیے اُنہوں نے خوشی سے یوسف کے گھر والوں کو مصر میں رہنے کی اِجازت دی تھی۔‏ (‏پید 47:‏1-‏6‏)‏ لیکن جہاں تک مصری عوام کی بات تھی،‏ وہ بھیڑ بکریاں چرانے والوں سے سخت نفرت کرتی تھی۔‏ (‏پید 46:‏31-‏34‏)‏ لیکن فرعون کے حکم کی وجہ سے مصریوں کو یعقوب کی اولاد کو برداشت کرنا پڑا۔‏

5،‏ 6.‏ ‏(‏الف)‏ مصر میں خدا کے لوگوں کی زندگی کیسے بدل گئی؟‏ (‏ب)‏ موسیٰ کی جان کیسے بچائی گئی اور یہوواہ خدا نے اپنے لوگوں کے لیے کیا کِیا؟‏

5 لیکن پھر خدا کے لوگوں کی زندگی بدل گئی۔‏ بائبل میں لکھا ہے کہ ”‏مصرؔ میں ایک نیا بادشاہ ہوا جو یوؔسف کو نہیں جانتا تھا۔‏ اور اُس نے اپنی قوم کے لوگوں سے کہا دیکھو اِسرائیلی ہم سے زیادہ اور قوی ہو گئے ہیں۔‏ اور مصریوں نے بنی‌اِسرائیل پر تشدد کر کرکے اُن سے کام کرایا۔‏ اور اُنہوں نے اُن سے سخت محنت سے گارا اور اِینٹ بنوا بنوا کر اور کھیت میں ہر قِسم کی خدمت لے لے کر اُن کی زندگی تلخ کی۔‏ اُن کی سب خدمتیں جو وہ اُن سے کراتے تھے تشدد کی تھیں۔‏“‏—‏خر 1:‏8،‏ 9،‏ 13،‏ 14‏۔‏

6 فرعون نے تو یہ حکم تک دیا کہ اگر کسی عبرانی عورت کے ہاں لڑکا پیدا ہو تو اُسے فوراً مار ڈالا جائے۔‏ (‏خر 1:‏15،‏ 16‏)‏ اِسی عرصے میں موسیٰ پیدا ہوئے۔‏ جب وہ تین مہینے کے تھے تو اُن کی ماں نے اُنہیں دریائےنیل میں جھاڑیوں میں چھپا دیا۔‏ وہاں فرعون کی بیٹی نے موسیٰ کو دیکھا اور اُنہیں گود لے لیا۔‏ شروع شروع میں موسیٰ کی ماں یوکبد نے اُن کی پرورش کی۔‏ بڑے ہو کر موسیٰ یہوواہ خدا کے وفادار بندے بنے۔‏ (‏خر 2:‏1-‏10؛‏ عبر 11:‏23-‏25‏)‏ یہوواہ خدا نے اپنے لوگوں کے ”‏حال کو معلوم کِیا۔‏“‏ اُس نے اپنے لوگوں کی مصیبتیں دیکھیں اور فیصلہ کِیا کہ وہ موسیٰ کے ذریعے اُنہیں مصریوں کے ظلم سے چھٹکارا دِلائے گا۔‏ (‏خر 2:‏24،‏ 25؛‏ 3:‏9،‏ 10‏)‏ اِس طرح اِسرائیلی  ایسے لوگ بن گئے جنہیں یہوواہ خدا نے ”‏چھڑایا۔‏“‏—‏خر 15:‏13؛‏ استثنا 15:‏15 کو پڑھیں۔‏

خدا نے اپنے لوگوں کی ایک قوم بنائی

7،‏ 8.‏ یہوواہ خدا کے لوگ ایک مُقدس قوم کیسے بنے؟‏

7 جب بنی‌اِسرائیل مصر میں تھے تو اُس وقت یہوواہ  خدا نے اُنہیں ایک قوم نہیں بنایا تھا لیکن اُس نے اُنہیں اپنے لوگوں کے طور پر چنا ہوا تھا۔‏ اِس لیے اُس نے موسیٰ اور ہارون کو ہدایت دی کہ وہ فرعون سے کہیں:‏ ”‏[‏یہوواہ]‏ اِؔسرائیل کا خدا یوں فرماتا ہے کہ میرے لوگوں کو جانے دے تاکہ وہ بیابان میں میرے لئے عید کریں۔‏“‏—‏خر 5:‏1‏۔‏

8 لیکن فرعون نے بنی‌اِسرائیل کو نہیں جانے دیا۔‏ اِس لیے یہوواہ خدا اپنے لوگوں کو چھڑانے کے لیے مصریوں پر دس آفتیں لایا اور فرعون اور اُس کی فوج کو بحرِقلزم میں غرق کر دیا۔‏ (‏خر 15:‏1-‏4‏)‏ اِس کے تقریباً تین مہینے بعد یہوواہ خدا نے اِسرائیلیوں کے ساتھ کوہِ‌سینا پر ایک عہد باندھا۔‏ اُس نے کہا:‏ ”‏اگر تُم میری بات مانو اور میرے عہد پر چلو تو سب قوموں میں سے تُم ہی میری خاص ملکیت ٹھہرو گے .‏ .‏ .‏ اور تُم میرے لئے .‏ .‏ .‏ ایک مُقدس قوم ہوگے۔‏“‏—‏خر 19:‏5،‏ 6‏۔‏

9،‏ 10.‏ ‏(‏الف)‏ استثنا 4:‏5-‏8 کے مطابق شریعت نے بنی‌اِسرائیل کو دوسری قوموں سے الگ کیسے کِیا؟‏ (‏ب)‏ بنی‌اِسرائیل ’‏یہوواہ خدا کی مُقدس قوم‘‏ کیسے ثابت ہو سکتے تھے؟‏

9 کئی صدیوں تک خدا کے بندوں میں یہ دستور تھا کہ گھر کا سربراہ اپنے گھرانے کا حاکم،‏ منصف اور کاہن ہوتا تھا۔‏ یعقوب کی اولاد بھی اُس وقت تک اِسی دستور پر چلتی رہی جب تک مصریوں نے اُنہیں اپنا غلام نہیں بنایا تھا۔‏ (‏پید 8:‏20؛‏ 18:‏19؛‏ ایو 1:‏4،‏ 5‏)‏ لیکن یہوواہ خدا نے موسیٰ کے ذریعے بنی‌اِسرائیل کو شریعت دی جس نے اُنہیں دوسری قوموں سے الگ کِیا۔‏ (‏استثنا 4:‏5-‏8 کو پڑھیں‏؛‏ زبور 147:‏19،‏ 20‏)‏ شریعت کے تحت صرف کچھ لوگوں کو کاہنوں کے طور پر  مقرر  کِیا گیا اور اِنصاف کرنے کے لیے ”‏بزرگوں“‏ کو مقرر کِیا گیا جو علم اور حکمت سے معمور تھے۔‏ (‏است 25:‏7،‏ 8‏)‏ شریعت میں اِسرائیلی قوم کو خدا کی عبادت اور روزمرہ زندگی کے متعلق ہدایات دی گئیں۔‏

10 جب بنی‌اِسرائیل ملک کنعان میں داخل ہونے والے تھے تو یہوواہ خدا نے موسیٰ کے ذریعے اپنی شریعت کو دُہرایا۔‏ موسیٰ نے بنی‌اِسرائیل سے کہا:‏ ”‏[‏یہوواہ]‏ نے .‏ .‏ .‏ آج کے دن تجھ کو جیسا اُس نے وعدہ کِیا تھا اپنی خاص قوم قرار دیا ہے تاکہ تُو اُس کے سب حکموں کو مانے۔‏ اور وہ سب قوموں میں سے جن کو اُس نے پیدا کِیا ہے تعریف اور نام اور عزت میں تجھ کو ممتاز کرے اور تُو .‏ .‏ .‏ [‏یہوواہ]‏ اپنے خدا کی مُقدس قوم بن جائے۔‏“‏—‏است 26:‏18،‏ 19‏۔‏

غیراِسرائیلی بھی یہوواہ خدا کی عبادت کر سکتے تھے

11-‏13.‏ ‏(‏الف)‏ کون لوگ یہوواہ خدا کی چنی ہوئی قوم کے ساتھ مل کر اُس کی عبادت کرنے لگے؟‏ (‏ب)‏ اگر کوئی غیراِسرائیلی یہوواہ خدا کی عبادت کرنا چاہتا تھا تو اُسے کیا کرنا تھا؟‏

11 اگرچہ یہوواہ خدا نے اپنے لیے ایک خاص قوم چن لی تھی لیکن اُس نے غیراِسرائیلیوں کو اپنے لوگوں کے ساتھ رہنے کی اِجازت دی۔‏ جب اُس نے اپنے لوگوں کو مصر سے آزاد کرایا تو اُس نے غیراِسرائیلیوں کی ایک ”‏ملی جلی گروہ“‏ کو جس میں مصری بھی شامل تھے،‏ اپنے لوگوں کے ساتھ آنے دیا۔‏ (‏خر 12:‏38‏)‏ جب موسیٰ نے ساتویں آفت کا اِعلان کِیا تو ”‏فرعون کے خادموں“‏ میں سے کچھ یہوواہ خدا کے کلام سے ڈرے۔‏ یہ لوگ بھی یقیناً اُس ملی جلی گروہ میں شامل تھے جو اِسرائیلیوں کے ساتھ مصر سے نکلی تھی۔‏—‏خر 9:‏20‏۔‏

12 جب بنی‌اِسرائیل ملک کنعان پر قبضہ کرنے کے لیے دریائےیردن پار کرنے والے تھے تو موسیٰ نے اُن سے کہا کہ وہ اپنے درمیان بسنے والے ”‏پردیسیوں سے محبت“‏ رکھیں۔‏  ‏(‏است 10:‏17-‏19‏)‏ خدا کے چنے ہوئے لوگوں کو اُن پردیسیوں کو قبول کرنا تھا جو شریعت کے بنیادی قوانین پر عمل کرنے کو تیار تھے۔‏ (‏احبا 24:‏22‏)‏ کچھ پردیسی تو یہوواہ خدا کی عبادت بھی کرنے لگے۔‏ اُن کے احساسات بھی ملک موآب کی رہنے والی روت جیسے تھے جنہوں نے اپنی اِسرائیلی ساس نعومی سے کہا:‏ ”‏تیرے لوگ میرے لوگ اور تیرا خدا میرا خدا ہوگا۔‏“‏ (‏روت 1:‏16‏)‏ اِن پردیسیوں نے اِسرائیلیوں کا مذہب اپنا لیا اور مردوں نے اپنا ختنہ کرا لیا۔‏ (‏خر 12:‏48،‏ 49‏)‏ یہوواہ خدا نے بھی خوشی سے اِن پردیسیوں کو اپنے لوگوں میں شامل کر لیا۔‏—‏گن 15:‏14،‏ 15‏۔‏

بنی‌اِسرائیل پردیسیوں کے ساتھ پیار محبت سے رہتے تھے۔‏ (‏پیراگراف 11-‏13 کو دیکھیں۔‏)‏

13 ہیکل کی مخصوصیت کے موقعے پر سلیمان نے جو دُعا کی،‏ اُس سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ غیر اِسرائیلی بھی یہوواہ خدا کی عبادت کر سکتے تھے۔‏ سلیمان نے کہا:‏ ”‏وہ پردیسی بھی جو تیری قوم اِؔسرائیل میں سے نہیں ہے جب وہ تیرے بزرگ نام اور قوی ہاتھ اور تیرے بلند بازو کے سبب سے دُور ملک سے آئے اور آ کر اِس گھر کی طرف رُخ کرکے دُعا کرے۔‏ تو تُو آسمان پر سے جو تیری سکونتگاہ ہے سُن لینا اور جس جس بات کے لئے وہ پردیسی تجھ سے فریاد کرے اُس کے مطابق کرنا تاکہ زمین کی سب قومیں تیرے نام کو پہچانیں اور تیری قوم اِؔسرائیل کی طرح تیرا خوف مانیں اور جان لیں کہ یہ گھر جسے مَیں نے بنایا ہے تیرے نام کا کہلاتا ہے۔‏“‏ (‏2-‏توا 6:‏32،‏ 33‏)‏ یسوع مسیح کے زمانے میں بھی ایسا ہی تھا۔‏ اگر کوئی غیراِسرائیلی یہوواہ خدا کی عبادت کرنا چاہتا تھا تو ضروری تھا کہ وہ خدا کی چنی ہوئی قوم کے ساتھ مل کر ایسا کرے۔‏—‏یوح 12:‏20؛‏ اعما 8:‏27‏۔‏

گواہوں کی ایک قوم

14-‏16.‏ ‏(‏الف)‏ بنی‌اِسرائیل کو کس طرح ایک ایسی قوم بننا تھا جو یہوواہ کی گواہ ہو؟‏ (‏ب)‏ آجکل یہوواہ کے لوگوں کا کیا فرض ہے؟‏

14 بنی‌اِسرائیل اپنے خدا یہوواہ کی عبادت کرتے تھے جبکہ دوسری قومیں اپنے دیوتاؤں کی عبادت کرتی تھیں۔‏ یسعیاہ نبی کے زمانے میں یہوواہ خدا نے اِس صورتحال کا موازنہ عدالت میں مُقدمے کی کارروائی سے کِیا۔‏ اُس نے دوسری قوموں کے دیوتاؤں کو چیلنج کِیا کہ وہ اپنے حق میں گواہ پیش کریں جو اُنہیں سچا خدا ثابت کریں۔‏ اُس نے اُن دیوتاؤں کے بارے میں کہا:‏ ”‏وہ اپنے گواہوں کو لائیں تاکہ وہ سچے ثابت ہوں اور لوگ سنیں اور کہیں کہ یہ سچ ہے۔‏“‏—‏یسع 43:‏9‏۔‏

 15 دوسری قوموں کے دیوتا خود کو سچا ثابت کرنے کے لیے کوئی ثبوت پیش نہ کر سکے۔‏ وہ محض بُت تھے جو بول نہیں سکتے تھے اور ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے کے لیے بھی اِنسانوں کے محتاج تھے۔‏ (‏یسع 46:‏5-‏7‏)‏ لیکن یہوواہ خدا نے اپنے لوگوں یعنی بنی‌اِسرائیل سے کہا:‏ ”‏تُم میرے گواہ ہو اور میرا خادم بھی جسے مَیں نے برگزیدہ کِیا تاکہ تُم جانو اور مجھ پر ایمان لاؤ اور سمجھو کہ مَیں وہی ہوں۔‏ مجھ سے پہلے کوئی خدا نہ ہوا اور میرے بعد بھی کوئی نہ ہوگا۔‏ مَیں ہی یہوؔواہ ہوں اور میرے سوا کوئی بچانے والا نہیں۔‏ .‏ .‏ .‏ سو تُم میرے گواہ ہو .‏ .‏ .‏ کہ مَیں ہی خدا ہوں۔‏“‏—‏یسع 43:‏10-‏12‏۔‏

16 جس طرح گواہ عدالت میں گواہی  دیتے  ہیں  اُسی طرح یہوواہ کے لوگوں کو یہ گواہی دینے کا اعزاز حاصل تھا کہ یہوواہ ہی سچا خدا ہے۔‏ یہوواہ خدا نے اپنے لوگوں کے بارے میں کہا کہ ”‏مَیں نے اِن لوگوں کو اپنے لئے بنایا تاکہ وہ میری حمد کریں۔‏“‏ (‏یسع 43:‏21‏)‏ یہ وہ لوگ تھے جو اُس کے نام سے کہلاتے تھے۔‏ چونکہ یہوواہ خدا نے اُنہیں مصر سے آزاد کرایا تھا اِس لیے اُن کا فرض تھا کہ وہ دوسری قوموں کے سامنے یہوواہ کی حکمرانی کی حمایت کریں۔‏ اُنہیں ویسا ہی رُجحان رکھنا چاہیے تھا جیسا آجکل یہوواہ کے لوگ میکاہ نبی کے بیان کے مطابق رکھتے ہیں:‏ ”‏سب اُمتیں اپنے اپنے معبود کے نام سے چلیں گی پر ہم ابداُلآباد تک [‏یہوواہ]‏ اپنے خدا کے نام سے چلیں گے۔‏“‏—‏میک 4:‏5‏۔‏

باغی قوم

17.‏ یہوواہ خدا کی نظر میں اِسرائیلی قوم ”‏بےحقیقت جنگلی انگور کا درخت“‏ کیسے ہو گئی؟‏

17 افسوس کی بات ہے کہ بنی‌اِسرائیل نے اپنے خدا  یہوواہ سے بےوفائی کی۔‏ اُنہوں نے دوسری قوموں کی طرح  لکڑی اور پتھر کے بُتوں کی پوجا کرنا شروع کر دی۔‏ آٹھویں صدی قبل‌ازمسیح میں ہوسیع نبی نے لکھا:‏ ”‏اِؔسرائیل لہلہاتی تاک ہے .‏ .‏ .‏ [‏اُس نے]‏ بہت سی قربانگاہیں تعمیر کیں .‏ .‏ .‏ اُن کا دل دغاباز ہے۔‏ اب وہ مُجرم ٹھہریں گے۔‏“‏ (‏ہوس 10:‏1،‏ 2‏)‏ اِس کے ڈیڑھ سو سال بعد یہوواہ خدا نے یرمیاہ نبی کے ذریعے بےوفا اِسرائیلی قوم سے کہا:‏ ”‏مَیں نے تو تجھے کامل تاک لگایا اور عمدہ بیج بویا تھا پھر تُو کیونکر میرے لئے بےحقیقت جنگلی انگور کا درخت  ہو گئی؟‏ .‏ .‏ .‏ تیرے بُت کہاں ہیں جن کو تُو نے اپنے لئے بنایا؟‏ اگر وہ تیری مصیبت کے وقت تجھے بچا سکتے ہیں تو اُٹھیں۔‏ .‏ .‏ .‏ میرے لوگ .‏ .‏ .‏ مجھ کو بھول گئے۔‏“‏—‏یرم  2:‏21،‏ 28،‏ 32۔‏

18،‏ 19.‏ ‏(‏الف)‏ یہوواہ خدا نے ایک نئی قوم کے حوالے سے کیا پیش‌گوئی کی تھی؟‏ (‏ب)‏ اگلے مضمون میں کن سوالوں پر بات کی جائے گی؟‏

18 اِس کی بجائے کہ بنی‌اِسرائیل یہوواہ خدا کی عبادت کرنے اور اُس کے گواہ رہنے سے اچھا پھل پیدا کرتے،‏ اُنہوں نے بُت‌پرستی کرکے بُرا پھل پیدا کِیا۔‏ اِس لیے یسوع مسیح نے اپنے زمانے کے ریاکار یہودی مذہبی رہنماؤں سے کہا:‏ ”‏خدا کی بادشاہی تُم سے لے لی جائے گی اور اُس قوم کو جو اُس کے پھل لائے دے دی جائے گی۔‏“‏ (‏متی 21:‏43‏)‏ یہوواہ خدا نے یرمیاہ نبی کے ذریعے پیش‌گوئی کی کہ صرف ’‏نئے عہد‘‏ میں شامل لوگ ہی نئی قوم یعنی روحانی اِسرائیل کا حصہ بن سکتے ہیں۔‏ روحانی اِسرائیل میں شامل لوگوں کے بارے میں یہوواہ خدا نے پیش‌گوئی کی:‏ ”‏مَیں اُن کا خدا ہوں گا اور وہ میرے لوگ ہوں گے۔‏“‏—‏یرم 31:‏31-‏33‏۔‏

19 جب بنی‌اِسرائیل یہوواہ خدا کے وفادار نہ رہے تو اُس نے پہلی صدی میں روحانی اِسرائیل کو یہ شرف دیا کہ وہ اُس کے لوگ ہوں۔‏ لیکن آج زمین پر اُس کے لوگ کون ہیں؟‏ جو لوگ سچے خدا کی عبادت کرنا چاہتے ہیں،‏ وہ اُس کے لوگوں کو کیسے پہچان سکتے ہیں؟‏ اِن سوالوں پر اگلے مضمون میں بات کی جائے گی۔‏