مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

‏’‎تُم اب خدا کی اُمت ہو‎‘‏

‏’‎تُم اب خدا کی اُمت ہو‎‘‏

‏”‏پہلے تُم کوئی اُمت نہ تھے مگر اب خدا کی اُمت ہو۔‏“‏—‏1-‏پطر 2:‏10‏۔‏

1،‏ 2.‏ ‏(‏الف)‏ سن 33ء میں عیدِپنتِکُست کے دن کیا تبدیلی ہوئی؟‏ (‏ب)‏ کون لوگ خدا کی نئی قوم کے فرد بنے؟‏ (‏اِس مضمون کی پہلی تصویر کو دیکھیں۔‏)‏

سن 33ء کی عیدِپنتِکُست کا دن یہوواہ خدا کے لوگوں کی تاریخ کا ایک نہایت اہم دن تھا۔‏ اِس دن ایک بہت بڑی تبدیلی ہوئی۔‏ یہوواہ خدا اپنی پاک روح کے ذریعے ایک نئی قوم یعنی روحانی اِسرائیل کو وجود میں لایا۔‏ بائبل میں اِس قوم کو ’‏خدا کا اِسرائیل‘‏ کہا گیا ہے۔‏ (‏گل 6:‏16‏)‏ ابرہام کے زمانے سے خدا کی قوم کی پہچان یہ رہی تھی کہ اِس میں مردوں کا ختنہ کِیا جاتا تھا۔‏ لیکن روحانی اِسرائیل کے بارے میں پولُس رسول نے لکھا:‏ ”‏ختنہ وہی ہے جو دل کا اور روحانی ہے۔‏“‏—‏روم 2:‏29‏۔‏

2 خدا کی نئی قوم میں سب سے پہلے تو رسول اور وہ 100 سے زیادہ شاگرد شامل تھے جو یروشلیم کے بالاخانہ میں جمع تھے۔‏ (‏اعما 1:‏12-‏15‏)‏ اِن لوگوں پر پاک روح نازل ہوئی جس سے وہ خدا کے مسح‌شُدہ بیٹے بن گئے۔‏ (‏روم 8:‏15،‏ 16؛‏ 2-‏کر 1:‏21‏)‏ یہ اِس بات کا ثبوت تھا کہ نیا عہد جس کے درمیانی یسوع مسیح ہیں اور جو اُن کے خون کی بِنا پر باندھا گیا ہے،‏ نافذ ہو گیا ہے۔‏ (‏لو 22:‏20؛‏ عبرانیوں 9:‏15 کو پڑھیں۔‏‏)‏ اِس طرح یہ شاگرد یہوواہ خدا کی نئی قوم کے فرد بنے۔‏ یہ اشخاص پاک روح کی مدد سے اُن یہودیوں اور یہودی مذہب اپنانے والے لوگوں کو  اُن کی زبانوں میں گواہی دینے لگے جو رومی سلطنت کے کونے کونے سے عیدِپنتِکُست منانے کے لیے یروشلیم آئے تھے۔‏ اِن لوگوں نے روح سے مسح‌شُدہ مسیحیوں سے اپنی اپنی زبان میں ”‏خدا کے بڑے بڑے کاموں کا بیان“‏ سنا۔‏—‏اعما 2:‏1-‏11‏۔‏

خدا کی نئی قوم

3-‏5.‏ ‏(‏الف)‏ عیدِپنتِکُست پر پطرس نے یہودیوں کو کیا بتایا؟‏ (‏ب)‏ خدا کی نئی قوم کیسے بڑھنے لگی؟‏

3 یہوواہ خدا نے پطرس رسول کے ذریعے یہودیوں اور یہودی مذہب اپنانے والوں کے لیے نئی قوم میں شامل ہونے کی راہ کھولی۔‏ عیدِپنتِکُست کے موقعے پر پطرس نے دلیری سے یہودیوں کو بتایا کہ اُنہیں یسوع مسیح پر ایمان لانا ہوگا جنہیں اُنہوں نے ”‏مار ڈالا“‏ کیونکہ ’‏خدا نے یسوع کو خداوند بھی کِیا ہے اور مسیح بھی۔‏‘‏ جب لوگوں نے پوچھا کہ اُن کو کیا کرنا چاہیے تو پطرس نے اُن سے کہا:‏ ”‏توبہ کرو اور تُم میں سے ہر ایک اپنے گُناہوں کی معافی کے لئے یسوؔع مسیح کے نام پر بپتسمہ لے تو تُم روحُ‌القدس اِنعام میں پاؤ گے۔‏“‏ (‏اعما 2:‏22،‏ 23،‏ 36-‏38‏)‏ اُسی دن تقریباً 3000 لوگ نئی قوم یعنی روحانی اِسرائیل میں شامل ہو گئے۔‏ (‏اعما 2:‏41‏)‏ اِس کے بعد بھی رسول جوش سے مُنادی کرتے رہے جس کے بہت اچھے نتیجے نکلے۔‏ (‏اعما 6:‏7‏)‏ نئی قوم بڑھتی گئی۔‏

4 بعد میں یسوع مسیح کے شاگردوں نے سامریوں کو بھی گواہی دی اور بہت سے سامری یسوع مسیح پر ایمان لے آئے۔‏ اِن میں سے کئی نے مبشر فِلپّس سے بپتسمہ لیا لیکن اُنہیں فوراً پاک روح نہیں ملی۔‏ اِس لیے یروشلیم میں گورننگ باڈی نے پطرس رسول اور یوحنا رسول کو اِن سامریوں کے پاس بھیجا۔‏ اِن رسولوں نے ”‏اُن پر ہاتھ رکھے اور اُنہوں نے روحُ‌القدس پایا۔‏“‏ (‏اعما 8:‏5،‏ 6،‏ 14-‏17‏)‏ یوں یہ سامری بھی روح سے مسح ہو کر روحانی اِسرائیل کا حصہ بن گئے۔‏

پطرس نے کُرنیلیُس اور اُن کے رشتےداروں اور دوستوں کو گواہی دی۔‏ (‏پیراگراف 5 کو دیکھیں۔‏)‏

5 سن 36ء میں یہوواہ خدا نے پطرس رسول کے  ذریعے ایک اَور گروہ کو بھی روحانی اِسرائیل کا حصہ بننے کا موقع دیا۔‏ یہ اُس وقت ہوا جب پطرس نے رومی صوبےدار کُرنیلیُس اور اُن کے رشتےداروں اور دوستوں کو گواہی دی۔‏ (‏اعما 10:‏22،‏ 24،‏ 34،‏ 35‏)‏ بائبل میں بتایا گیا ہے کہ ”‏پطرؔس یہ باتیں کہہ ہی رہا تھا کہ روحُ‌القدس اُن سب پر [‏یعنی غیریہودیوں پر]‏ نازل ہوا جو کلام سُن رہے تھے۔‏ اور پطرؔس کے ساتھ جتنے مختون ایمان‌دار آئے تھے وہ سب حیران ہوئے کہ غیرقوموں پر بھی روحُ‌القدس کی بخشش جاری ہوئی۔‏“‏ (‏اعما 10:‏44،‏ 45‏)‏ اُس وقت سے روحانی اِسرائیل میں ایسے لوگ بھی شامل ہونے لگے جن کا ختنہ نہیں ہوا تھا۔‏

خدا کے نام کی ایک اُمت

6،‏ 7.‏ ‏(‏الف)‏ نئی قوم کے افراد کو ’‏یہوواہ کے نام کی اُمت‘‏ ہونے کے ناتے کیا کرنا تھا؟‏ (‏ب)‏ اُنہوں نے کس حد تک ایسا کِیا؟‏

6 سن 49ء میں گورننگ باڈی کے ایک اِجلاس میں شاگرد یعقوب نے کہا:‏ ”‏شمعوؔن [‏پطرس]‏ نے بیان کِیا ہے کہ خدا نے پہلے پہل غیرقوموں پر کس طرح توجہ کی تاکہ اُن میں سے اپنے نام کی ایک اُمت بنا لے۔‏“‏ (‏اعما 15:‏14‏)‏ اِس نئی اُمت میں شامل یہودی اور غیریہودی دونوں یہوواہ کے نام سے کہلائے۔‏  ‏(‏روم 11:‏25،‏ 26‏)‏ بعد میں پطرس نے ایک خط میں لکھا:‏ ”‏پہلے تُم کوئی اُمت نہ تھے مگر اب خدا کی اُمت ہو۔‏“‏ پطرس نے بتایا کہ اِس قوم کا مقصد کیا ہے۔‏ اُنہوں نے اِس قوم کے لوگوں سے کہا:‏ ”‏تُم ایک برگزیدہ نسل۔‏ شاہی کاہنوں کا فرقہ۔‏ مُقدس قوم اور ایسی اُمت ہو جو خدا کی خاص ملکیت ہے تاکہ اُس کی خوبیاں ظاہر کرو جس نے تمہیں تاریکی سے اپنی عجیب روشنی میں بلایا ہے۔‏“‏ (‏1-‏پطر 2:‏9،‏ 10‏)‏ اِس قوم کے افراد کو دوسروں کے سامنے اُس خدا کی حمد اور بڑائی کرنی تھی جس کے نام سے وہ کہلاتے تھے۔‏ اُنہیں دلیری سے کائنات کے حاکم یہوواہ کے بارے میں گواہی دینی تھی۔‏

7 چونکہ اب روحانی اِسرائیل یہوواہ خدا کی قوم تھے اِس لیے یہوواہ خدا اُن سے بھی وہی بات کہہ سکتا تھا جو اُس نے بنی‌اِسرائیل سے کہی تھی۔‏ اُس نے کہا تھا:‏ ”‏مَیں نے اِن لوگوں کو اپنے لئے بنایا تاکہ وہ میری حمد کریں۔‏“‏ (‏یسع 43:‏21‏)‏ پہلی صدی کے مسیحیوں نے بڑی دلیری سے اپنے زمانے کے جھوٹے دیوتاؤں کو بےنقاب کِیا اور لوگوں کو بتایا کہ یہوواہ ہی سچا خدا ہے۔‏ (‏1-‏تھس 1:‏9‏)‏ اُنہوں نے ”‏یرؔوشلیم اور تمام یہوؔدیہ اور ساؔمریہ میں بلکہ زمین کی اِنتہا تک“‏ یہوواہ خدا اور یسوع مسیح کے بارے میں گواہی دی۔‏—‏اعما 1:‏8؛‏ کل 1:‏23‏۔‏

8.‏ پولُس رسول نے پہلی صدی کے مسیحیوں کو کس بات سے آگاہ کِیا؟‏

8 پولُس رسول یہوواہ کی  اُمت  کے  ایک  دلیر  فرد  تھے۔‏ اُنہوں نے بڑی دلیری سے بُت‌پرست فلاسفروں کو بتایا کہ یہوواہ ہی سچا خدا ہے۔‏ اُنہوں نے اُن سے کہا:‏ ”‏جس خدا نے دُنیا اور اُس کی سب چیزوں کو پیدا کِیا وہ آسمان اور زمین کا مالک“‏ ہے۔‏ (‏اعما 17:‏18،‏ 23-‏25‏)‏ اپنے تیسرے سفری دورے کے آخر پر اُنہوں نے مسیحیوں کو آگاہ کِیا:‏ ”‏مَیں یہ جانتا ہوں کہ میرے جانے کے بعد پھاڑنے والے بھیڑئے تُم میں آئیں گے جنہیں گلّہ پر کچھ ترس نہ آئے گا۔‏ اور خود تُم میں سے ایسے آدمی اُٹھیں گے جو اُلٹی اُلٹی باتیں کہیں گے تاکہ شاگردوں کو اپنی طرف کھینچ لیں۔‏“‏ (‏اعما 20:‏29،‏ 30‏)‏ پہلی صدی کے آخر تک یہ برگشتگی کلیسیاؤں میں صاف نظر آنے لگی۔‏—‏1-‏یوح 2:‏18،‏ 19‏۔‏

9.‏ رسولوں کی موت کے بعد ’‏یہوواہ کے نام کی اُمت‘‏ کے ساتھ کِیا ہوا؟‏

9 رسولوں کی موت کے بعد کلیسیا میں برگشتگی بہت تیزی سے پھیلنے لگی اور اِس سے جھوٹے مسیحی فرقوں کو جنم ملا۔‏ اِن فرقوں نے ’‏یہوواہ کے نام کی اُمت‘‏ ثابت ہونا تو دُور کی بات،‏ اُس کے نام تک کو بائبل کے بہت سے ترجموں سے نکال دیا۔‏ اُنہوں نے بُت‌پرست مذاہب کے رسم‌ورواج اپنا لیے اور اپنے عقیدوں،‏ خدا کے نام پر کی جانے والی جنگوں اور بدکاری سے خدا کے نام کی توہین کی۔‏ لہٰذا صدیوں تک زمین پر خدا کے بندوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر تھی اور اُس کے نام کی کوئی منظم قوم نہیں تھی۔‏

خدا کی قوم کی دوبارہ پیدائش

10،‏ 11.‏ ‏(‏الف)‏ یسوع مسیح نے گیہوں اور کڑوے دانوں کی تمثیل کے ذریعے کیا پیش‌گوئی کی؟‏ (‏ب)‏ یسوع مسیح کی پیش‌گوئی 1914ء کے بعد کیسے پوری ہوئی اور اِس کا کیا نتیجہ نکلا؟‏

10 یسوع مسیح نے گیہوں اور کڑوے دانوں کی تمثیل  کے ذریعے پیش‌گوئی کی کہ برگشتگی کی وجہ سے سچے مذہب کی پہچان کرنا بہت مشکل ہو جائے گا۔‏ یسوع مسیح نے کہا کہ ”‏لوگوں کے سوتے میں“‏ شیطان اُس کھیت میں کڑوے دانے بو دے گا جس میں اِبنِ‌آدم نے گیہوں بویا تھا۔‏ گیہوں اور کڑوے دانے ”‏دُنیا کے آخر“‏ تک ساتھ ساتھ بڑھنے تھے۔‏ یسوع مسیح نے بتایا کہ ”‏اچھا بیج“‏ ’‏بادشاہت کے فرزندوں‘‏ کی طرف اِشارہ کرتا ہے اور ”‏کڑوے دانے“‏ ’‏شریر کے فرزندوں‘‏ کی طرف۔‏ دُنیا کے آخر پر اِبنِ‌آدم ’‏کاٹنے والوں‘‏ یعنی فرشتوں کو بھیجے گا تاکہ وہ گیہوں کو کڑوے دانوں سے الگ کریں۔‏ پھر بادشاہت کے فرزندوں کو جمع کِیا جائے گا۔‏ (‏متی 13:‏24-‏30،‏ 36-‏43‏)‏ آئیں،‏ دیکھتے ہیں کہ یہ پیش‌گوئی کیسے پوری ہوئی۔‏ اور  اِس کا زمین پر خدا کے لوگوں کو ایک قوم کے طور پر منظم کرنے سے کیا تعلق ہے۔‏

11 ‏”‏دُنیا کا آخر“‏ 1914ء میں شروع ہوا۔‏ اِس سال  جب عالمی جنگ چھڑی تو اُس وقت زمین پر صرف چند ہزار ”‏بادشاہی کے فرزند“‏ یعنی ممسوح مسیحی تھے۔‏ یہ ممسوح مسیحی بڑے شہر بابل کی قید میں تھے۔‏ لیکن 1919ء میں یہوواہ خدا نے اُنہیں اِس قید  سے آزار کرایا اور یوں اُن میں اور ’‏کڑوے دانوں‘‏ یعنی جھوٹے مسیحیوں میں فرق واضح ہو گیا۔‏ خدا نے ’‏بادشاہت کے فرزندوں‘‏ کو ایک قوم کے طور پر منظم کِیا اور یوں وہ پیش‌گوئی پوری ہوئی جو یسعیاہ نبی نے کی تھی۔‏ اُنہوں نے کہا تھا:‏ ”‏کیا ایک دن میں کوئی ملک پیدا ہو سکتا ہے؟‏ کیا یکبارگی ایک قوم پیدا ہو جائے گی؟‏ کیونکہ صیوؔن کو درد لگے ہی تھے کہ اُس کی اولاد پیدا ہو گئی۔‏“‏ (‏یسع 66:‏8‏)‏ اِس آیت میں صیون سے مُراد فرشتوں پر مشتمل خدا کی تنظیم ہے جس نے مجازی معنوں میں ممسوح مسیحیوں کو پیدا کِیا۔‏ اِس کے بعد اُس نے اُنہیں ایک قوم کے طور پر منظم کِیا۔‏

12.‏ ممسوح مسیحیوں نے خود کو ’‏یہوواہ کے نام کی اُمت‘‏ کیسے ثابت کِیا ہے؟‏

12 پہلی صدی کے مسیحیوں کی طرح ”‏بادشاہی کے فرزند“‏ بھی یہوواہ خدا کے بارے میں گواہی دیتے ہیں۔‏ ‏(‏یسعیاہ 43:‏1،‏ 10،‏ 11 کو پڑھیں۔‏)‏ وہ اپنے چال‌چلن کو نیک رکھنے اور ’‏سب قوموں کو بادشاہت کی خوش‌خبری کی گواہی‘‏ دینے سے خود کو دوسروں سے فرق ثابت کرتے ہیں۔‏ (‏متی 24:‏14؛‏ فل 2:‏15‏)‏ اِس طرح اُنہوں نے لاکھوں لوگوں کی یہوواہ خدا کے قریب آنے میں مدد کی ہے۔‏‏—‏دانی‌ایل 12:‏3 کو پڑھیں۔‏

‏”‏ہم تمہارے ساتھ جائیں گے“‏

13،‏ 14.‏ ‏(‏الف)‏ جو لوگ روحانی اِسرائیل کا حصہ نہیں ہیں،‏ اُنہیں کیا کرنا چاہیے تاکہ یہوواہ خدا اُن کی عبادت قبول کرے؟‏ (‏ب)‏ خدا کی عبادت کے حوالے سے خدا کے نبیوں نے کیا پیش‌گوئیاں کی تھیں؟‏

13 ہم نے پچھلے مضمون میں دیکھا تھا کہ یہوواہ خدا  کسی غیراِسرائیلی کی عبادت کو اُسی صورت قبول کرتا تھا جب وہ شخص اُس کے لوگوں کے ساتھ مل کر ایسا کرتا تھا۔‏ (‏1-‏سلا 8:‏41-‏43‏)‏ اِسی طرح آج اُن لوگوں کو جو روحانی اِسرائیل کا حصہ نہیں ہیں،‏ ’‏بادشاہت کے فرزندوں‘‏ یعنی ممسوح مسیحیوں کے  ساتھ مل کر یہوواہ خدا کی عبادت کرنی چاہیے تاکہ یہوواہ اُن کی عبادت قبول کرے۔‏

14 خدا کے دو نبیوں نے پیش‌گوئی کی تھی کہ دُنیا کے آخر پر بہت سے لوگ یہوواہ خدا کی اُمت کے ساتھ مل کر اُس کی عبادت کریں گے۔‏ یسعیاہ نبی نے پیش‌گوئی کی کہ ”‏بہت سی اُمتیں آئیں گی اور کہیں گی آؤ [‏یہوواہ]‏ کے پہاڑ پر چڑھیں یعنی یعقوؔب کے خدا کے گھر میں داخل ہوں اور وہ اپنی راہیں ہم کو بتائے گا اور ہم اُس کے راستوں پر چلیں گے کیونکہ شریعت صیوؔن سے اور [‏یہوواہ]‏ کا کلام یرؔوشلیم سے صادر ہوگا۔‏“‏ (‏یسع 2:‏2،‏ 3‏)‏ اِسی طرح زکریاہ نبی نے بھی پیش‌گوئی کی کہ ”‏بہت سی اُمتیں اور زبردست قومیں ربُ‌الافواج کی طالب ہوں گی اور [‏یہوواہ]‏ سے درخواست کرنے کو یرؔوشلیم میں آئیں گی۔‏“‏ اُنہوں نے اِن لوگوں کو ”‏مختلف اہلِ‌لغت میں سے دس آدمی“‏ کہا جو مجازی معنوں میں روحانی اِسرائیل کا دامن پکڑ کر کہتے ہیں:‏ ”‏ہم تمہارے ساتھ جائیں گے کیونکہ ہم نے سنا ہے کہ خدا تمہارے ساتھ ہے۔‏“‏—‏زک 8:‏20-‏23‏۔‏

15.‏ یسوع مسیح کی ”‏اَور بھی بھیڑیں“‏ کس لحاظ سے روحانی اِسرائیل کے ساتھ جاتی ہیں؟‏

15 زکریاہ نبی نے جن دس آدمیوں کا ذکر کِیا،‏ وہ یسوع مسیح کی ’‏اَور بھی بھیڑوں‘‏ کی طرف اِشارہ کرتے ہیں۔‏ ”‏اَور بھی بھیڑیں“‏ اِس لحاظ سے روحانی اِسرائیل کے ساتھ جاتی ہیں کہ وہ اِس کے ساتھ مل کر بادشاہت کی خوش‌خبری کی مُنادی کرتی ہیں۔‏ (‏مر 13:‏10‏)‏ وہ خدا کے لوگوں میں شامل ہوتی ہیں اور ممسوح مسیحیوں کے ساتھ ”‏ایک گلّہ“‏ بن جاتی ہیں جس کی نگرانی ’‏اچھے چرواہے‘‏ یسوع مسیح کرتے ہیں۔‏‏—‏یوحنا 10:‏14-‏16 کو پڑھیں۔‏

یہوواہ کے لوگوں میں تحفظ پائیں

16.‏ یہوواہ خدا کیا کرے گا تاکہ ”‏بڑی مصیبت“‏ کا آخری مرحلہ شروع ہو؟‏

16 بڑے شہر بابل کی تباہی کے بعد یہوواہ  کے  لوگوں  پر حملہ کِیا جائے گا۔‏ اُس وقت ہمیں یہوواہ خدا کے تحفظ کی اشد ضرورت ہوگی۔‏ اِس حملے کے بعد ”‏بڑی مصیبت“‏ کا  آخری مرحلہ شروع ہوگا۔‏ دراصل یہوواہ خدا اپنے مقررہ وقت پر ایسے حالات پیدا کر دے گا جو اُس کے لوگوں پر حملے کا باعث بنیں گے۔‏ (‏متی 24:‏21؛‏ حز 38:‏2-‏4‏)‏ اُس وقت جوج خدا کے لوگوں پر ”‏جو تمام قوموں میں سے فراہم ہوئے ہیں،‏“‏ حملہ کرے گا۔‏ (‏حز 38:‏10-‏12‏)‏ یہ حملہ اِس بات کا نشان ہوگا کہ اب یہوواہ خدا جوج اور اُس کے لشکر کے خلاف کارروائی کرے گا۔‏ اِس طرح یہوواہ خدا ثابت کرے گا کہ وہی سچا خدا ہے اور وہ اپنے نام کو پاک ٹھہرائے گا۔‏ یہوواہ خدا نے کہا:‏ ”‏[‏مَیں]‏ بہت سی قوموں کی نظروں میں مشہور ہوں گا اور وہ جانیں گے کہ [‏یہوواہ]‏ مَیں ہوں۔‏“‏—‏حز 38:‏18-‏23‏۔‏

‏”‏بڑی مصیبت“‏ کے دوران ہمیں اپنی مقامی کلیسیا سے جڑے رہنا ہوگا۔‏ (‏پیراگراف 16-‏18 کو دیکھیں۔‏)‏

17،‏ 18.‏ ‏(‏الف)‏ جب جوج یہوواہ کے لوگوں پر حملہ کرے گا تو اُن لوگوں کو کیسی ہدایات دی جائیں گی؟‏ (‏ب)‏ اگر ہم چاہتے ہیں کہ یہوواہ خدا ہماری حفاظت کرے تو ہمیں کیا کرنا ہوگا؟‏

17 جب جوج یہوواہ کے لوگوں پر حملہ کرے گا تو یہوواہ خدا اپنے لوگوں سے کہے گا:‏ ”‏اَے میرے لوگو!‏ اپنے خلوت‌خانوں میں داخل ہو اور اپنے پیچھے دروازے بند کر لو اور اپنے آپ کو تھوڑی دیر تک چھپا رکھو جب تک کہ غضب ٹل نہ جائے۔‏“‏ (‏یسع 26:‏20‏)‏ اِس کٹھن دَور میں یہوواہ خدا ہمیں ایسی ہدایات دے گا جن سے ہماری زندگی بچ سکتی ہے۔‏ اُس وقت شاید ہماری مقامی کلیسیا ’‏خلوت‌خانہ‘‏ ثابت ہو جس میں ہمیں تحفظ ملے گا۔‏

18 اگر ہم چاہتے ہیں کہ یہوواہ خدا بڑی مصیبت کے دوران ہماری حفاظت کرے تو ہمیں اِس بات کو تسلیم کرنا ہوگا کہ زمین پر خدا کے لوگ ہیں جنہیں اُس نے کلیسیاؤں میں منظم کِیا ہوا ہے۔‏ ہمیں اِن لوگوں کے ساتھ ساتھ چلنا ہوگا اور اپنی مقامی کلیسیا سے جڑے رہنا ہوگا۔‏ آئیں،‏ ہم بھی زبور نویس کی طرح پورے دل سے کہیں:‏ ”‏نجات [‏یہوواہ]‏ کی طرف سے ہے۔‏ تیرے لوگوں پر تیری برکت ہو!‏“‏—‏زبور 3:‏8‏۔‏