مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

 یادوں کے ذخیرے سے

چڑھتے سورج کی سرزمین میں روشنی چمکی

چڑھتے سورج کی سرزمین میں روشنی چمکی

شہر ٹوکیو میں عوامی تقریر کے دعوت‌نامے تقسیم کیے گئے اور اِنہیں ہوائی جہازوں کے ذریعے شہر اوساکا میں بھی بکھیرا گیا۔‏

ریاستہائے متحدہ امریکہ میں سفری نگہبان کے طور پر خدمت کرنے والا ایک جاپانی 6 ستمبر 1926ء کو جاپان میں مشنری کے طور پر خدمت کرنے کے لیے پہنچا۔‏ یہاں اُس کا اِستقبال کرنے کے لیے جو شخص آیا تھا،‏ وہ واحد شخص تھا جو باقاعدگی سے مینارِنگہبانی حاصل کرتا تھا اور اُس نے شہر کوبے میں ایک گروپ شروع کِیا تھا۔‏ بائبل سٹوڈنٹس نے اِس شہر میں پہلی بار 2 جنوری 1927ء کو اِجتماع منعقد کِیا جس میں 36 لوگ آئے اور 8 نے بپتسمہ لیا۔‏ اُس وقت کے لحاظ سے یہ تعداد کافی اچھی تھی۔‏ لیکن اِس چھوٹے سے گروہ نے جاپان کی 6 کروڑ آبادی تک سچائی کی روشنی پہنچانے کے لیے کیا کِیا؟‏

مئی 1927ء میں بائبل سٹوڈنٹس نے بائبل پر مبنی تقریروں کے سلسلے کا  اِشتہار دینے کے لیے عوامی جگہوں پر گواہی دینے کی مہم شروع کی۔‏ پہلی تقریر شہر اوساکا میں پیش کی گئی۔‏ اِس کے لیے بھائیوں نے شہر میں راستوں پر چھوٹے چھوٹے بورڈ اور بڑے سائن‌بورڈ لگائے اور 3000 دعوت‌نامے شہر کی جانی مانی ہستیوں کو بھیجے۔‏ اُنہوں نے 1 لاکھ 50 ہزار دعوت‌نامے تقسیم کیے اور اوساکا کے بڑے بڑے اخباروں میں اور ٹرین کی 4 لاکھ ٹکٹوں پر تقریر کا اِشتہار دیا۔‏ تقریر والے دن اُنہوں نے دو ہوائی جہازوں کے ذریعے شہر میں 1 لاکھ دعوت‌نامے بکھیرے۔‏ تقریر اوساکا آساہی ہال میں پیش کی گئی اور اِس کا عنوان تھا:‏ ”‏خدا کی بادشاہت نزدیک ہے۔‏“‏ ہال تقریباً 2300 لوگوں سے کھچاکھچ بھر گیا اور تقریباً 1000 لوگوں کو جگہ نہ ہونے کی وجہ سے واپس بھیجنا پڑا۔‏ تقریر کے بعد 600 سے زیادہ حاضرین سوال جواب والے حصے کے لیے بھی رُکے۔‏ اگلے مہینوں میں بائبل پر مبنی تقریریں شہر کیوٹو اور مغربی جاپان کے دیگر شہروں میں بھی پیش کی گئیں۔‏

اکتوبر 1927ء میں بائبل سٹوڈنٹس نے دارالحکومت ٹوکیو میں بھی  تقریریں  پیش کرنے کا بندوبست کِیا۔‏ یہاں پر بھی بڑی بڑی ہستیوں کو دعوت‌نامے بھیجے گئے جن میں وزیرِاعظم،‏ پارلیمنٹ کے ارکان،‏ مذہبی رہنما اور فوجی افسر شامل تھے۔‏ اِس کے علاوہ پوسٹر لگائے گئے،‏ اخباروں میں اِشتہار دیے گئے اور 7 لاکھ 10 ہزار دعوت‌نامے تقسیم کیے گئے۔‏ ٹوکیو میں 3 تقریریں پیش کی گئیں جنہیں سننے کے لیے کُل 4800 لوگ آئے۔‏

پُرجوش پہلکار

کاتسو اور ہاگینو میورا

گھر گھر بادشاہت کا پیغام پہنچانے میں پہلکاروں نے بہت اہم کردار  ادا  کِیا۔‏ ماتسو اِشی نامی بہن جاپان میں خدمت کرنے والے سب سے پہلے پہلکاروں میں سے ایک تھیں۔‏ اُنہوں نے اور اُن کے شوہر جیزو نے جاپان کے تین چوتھائی حصے یعنی ساپورو سے لے کر سیندائی،‏ ٹوکیو،‏ یوکوہاما،‏ ناگویا،‏ اوساکا،‏ کیوٹو،‏ اوکایاما اور توکوشیما تک خوش‌خبری سنائی۔‏ ایک بار بہن اِشی اور ایک عمررسیدہ بہن ساکیکو تاناکا جاپان کا قومی لباس ”‏کیمونو“‏ پہن کر حکومتی افسروں کو گواہی دینے گئیں۔‏ اِن میں سے ایک افسر نے ہماری کتابوں دی ہارپ آف گاڈ اور ڈِیلورنس کی تین تین سو کاپیاں مانگیں تاکہ وہ اِنہیں جیل کی لائبریری میں رکھ سکے۔‏

جب ایک جوڑے ہاگینو اور کاتسو میورا کو بہن اِشی نے ہماری کتابیں پیش کیں تو اُنہوں نے اِن کتابوں کو خوشی سے قبول کر لیا۔‏ اِنہیں پڑھ کر وہ جان گئے کہ یہی  سچائی ہے۔‏ اُنہوں نے 1931ء میں بپتسمہ لیا اور پہلکاروں کے طور پر خدمت کرنے لگے۔‏ 1930ء سے کچھ عرصہ پہلے تانے اور ہاریوچی یمادا نامی میاں بیوی کے ساتھ ساتھ اُن کے بہت سے رشتےداروں نے بھی بادشاہت کے پیغام کو قبول کِیا۔‏ تانے اور ہاریوچی نے پہلکاروں کے طور پر خدمت شروع کی اور اُن کی بیٹی یوکیکو جاپان کے بیت‌ایل میں خدمت کرنے چلی گئیں۔‏

چھوٹے اور بڑے ”‏یاہو“‏

بڑی یاہو گاڑیوں میں چھ پہلکاروں کے رہنے کی جگہ تھی۔‏

اُس زمانے میں گاڑیاں بہت مہنگی اور سڑکیں بہت خستہ حال تھیں۔‏ اِس  لیے کازومی منورا اور دیگر نوجوان پہلکاروں نے مُنادی کا کام کرنے کے لیے بغیر انجن والی گاڑیاں اِستعمال کیں۔‏ اُنہوں نے اِن گاڑیوں کو ”‏یاہو“‏ نام دیا۔‏ یہ نام رتھ چلانے والے ایک اِسرائیلی کے نام پر رکھا گیا تھا جو بعد میں اِسرائیل کا بادشاہ بنا۔‏ (‏2-‏سلا 10:‏13-‏16‏)‏ تین بڑی یاہو گاڑیاں 2.‏2 میٹر (‏2.‏7 فٹ)‏ لمبی،‏ 9.‏1 میٹر (‏2.‏6 فٹ)‏ چوڑی اور 9.‏1 میٹر (‏2.‏6 فٹ)‏ اُونچی تھیں اور ہر گاڑی میں 6 پہلکاروں کے رہنے کی جگہ تھی۔‏ اِس کے علاوہ جاپان کی برانچ میں 11 چھوٹی یاہو گاڑیاں بنائی گئیں جن میں دو لوگوں کے رہنے کی جگہ تھی۔‏ اِن گاڑیوں کو سائیکل کے ذریعے دھکیلا جاتا تھا۔‏ کیچی اِواساکی نامی بھائی نے یاہو گاڑیاں بنانے میں مدد کی تھی۔‏ اُنہوں نے کہا:‏ ”‏ہر یاہو میں ایک خیمہ ہوتا تھا اور گاڑی کی بیٹری بھی ہوتی تھی جو لائٹیں جلانے کے کام آتی تھی۔‏“‏ پہلکار یاہو گاڑیوں کو شمال میں ہوکائیدو کے پہاڑوں اور وادیوں سے لے کر جنوب میں کیوشو تک دھکیلتے تھے اور یوں پورے جاپان میں سچائی کی روشنی پھیلا رہے تھے۔‏

چھوٹی یاہو گاڑیوں میں دو لوگوں کے رہنے کی جگہ تھی۔‏

ایک پہلکار جن کا نام اِکوماتسو اوتا ہے،‏ نے کہا:‏ ”‏جب ہم کسی شہر پہنچتے تھے تو ہم یاہو کو دریا کے کنارے یا کُھلے میدان میں کھڑا کر دیتے تھے۔‏ سب سے پہلے ہم شہر کی بڑی بڑی ہستیوں کے پاس جاتے تھے جیسے کہ ناظم وغیرہ اور اِس کے بعد ہم گھر گھر جا کر لوگوں کو اپنی کتابیں اور رسالے دیتے تھے۔‏ ایک علاقے میں مُنادی کرنے کے بعد ہم اگلے علاقے میں چلے جاتے تھے۔‏“‏

جب کوبے میں پہلی بار اِجتماع منعقد کِیا گیا تو اُس وقت وہاں صرف 36 بائبل سٹوڈنٹس موجود تھے۔‏ لیکن 5 سال بعد یعنی 1932ء میں جاپان میں 103 پہلکاروں اور مبشروں نے مُنادی کی رپورٹ دی۔‏ اِنہوں نے 14 ہزار سے زیادہ کتابیں تقسیم کی تھیں۔‏ آج جاپان کے بڑے بڑے شہروں میں بڑے منظم طریقے سے عوامی جگہوں پر گواہی دی جا رہی ہے اور تقریباً 2 لاکھ 20 ہزار مبشر اِس ”‏چڑھتے سورج کی سرزمین“‏ میں اپنی روشنی چمکا رہے ہیں۔‏—‏جاپان کے برانچ کے دفتر سے۔‏

جاپان کے بیت‌ایل میں یاہو گاڑیاں بنانے والے کیچی اِواساکی کے بنائے خاکے