مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

‏’‏سنیں اور سمجھیں‘‏

‏’‏سنیں اور سمجھیں‘‏

‏”‏تُم سب میری سنو اور سمجھو۔‏“‏—‏مر 7:‏14‏۔‏

1،‏ 2.‏ بہت سے لوگ یسوع مسیح کی باتیں کیوں نہیں سمجھ پائے؟‏

جب ایک شخص ہم سے بات کرتا ہے تو ہم اُس کی آواز سُن سکتے ہیں اور اُس کے  لہجے  کا  اندازہ بھی لگا سکتے ہیں۔‏ لیکن اگر ہم اُس کی بات کا مطلب نہیں سمجھتے تو ہمیں اِس سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔‏ (‏1-‏کر 14:‏9‏)‏ یسوع مسیح کے زمانے میں ہزاروں لوگوں نے اُن کی باتوں کو سنا۔‏ یسوع مسیح نے اِن لوگوں سے ایسی زبان میں بات کی جسے وہ آسانی سے سمجھ سکتے تھے۔‏ لیکن ہر کوئی اُن کی باتوں کا مطلب نہیں سمجھا۔‏ اِس لیے اُنہوں نے لوگوں سے کہا:‏ ”‏تُم سب میری سنو اور سمجھو۔‏“‏—‏مر 7:‏14‏۔‏

2 بہت سے لوگ یسوع مسیح کی باتیں کیوں نہیں سمجھ پائے؟‏ اِس کی وجہ یہ تھی کہ اِن میں سے کچھ لوگوں نے پہلے سے نظریے قائم کر رکھے تھے اور اُن کی نیت بھی صحیح نہیں تھی۔‏ یسوع مسیح نے اِن لوگوں سے کہا:‏ ”‏تُم اپنی روایت کو ماننے کے لئے خدا کے حکم کو بالکل رد کر دیتے ہو۔‏“‏ (‏مر 7:‏9‏)‏ اِن لوگوں نے یسوع مسیح کی باتوں کو سمجھنے کی کوشش نہیں کی۔‏ وہ اپنے طورطریقوں اور نظریات کو نہیں بدلنا چاہتے تھے۔‏ اُنہوں نے یسوع مسیح کی باتیں تو سنیں لیکن اِنہیں دل سے سمجھنے کی کوشش نہیں کی۔‏ ‏(‏متی 13:‏13-‏15 کو پڑھیں۔‏)‏ لیکن ہم کیا کر سکتے ہیں تاکہ ہم یسوع مسیح کی باتوں کو دل سے سمجھیں اور اِن سے فائدہ حاصل کریں؟‏

یسوع مسیح کی تعلیمات سے فائدہ حاصل کرنے کا طریقہ

3.‏ یسوع مسیح کے شاگرد اُن کی باتیں کیوں سمجھ پائے؟‏

3 ہمیں یسوع مسیح کے شاگردوں کی مثال پر عمل کرنا  چاہیے۔‏ یسوع مسیح نے اُن سے کہا:‏ ”‏مبارک ہیں تمہاری آنکھیں اِس لئے کہ وہ دیکھتی ہیں اور تمہارے کان اِس لئے کہ وہ سنتے ہیں۔‏“‏ (‏متی 13:‏16‏)‏ یسوع مسیح کے شاگرد اُن کی باتیں کیوں سمجھ پائے جبکہ دوسرے ایسا نہیں کر پائے؟‏ اِس کی پہلی وجہ یہ تھی کہ وہ سوال پوچھتے تھے اور یسوع مسیح کی باتوں کا مطلب جاننے کی کوشش کرتے تھے۔‏ (‏متی 13:‏36؛‏ مر 7:‏17‏)‏ دوسرا  یہ  کہ  وہ  غور کرتے تھے کہ جو باتیں وہ سیکھ رہے ہیں،‏ اُن کا اُن باتوں سے کیا تعلق ہے جو وہ پہلے سیکھ چکے ہیں۔‏ ‏(‏متی 13:‏11،‏ 12 کو پڑھیں۔‏)‏ تیسرا یہ کہ وہ سیکھی ہوئی باتوں پر عمل کرنے اور دوسروں کو بھی اِن سے فائدہ پہنچانے کی کوشش کرتے تھے۔‏—‏متی 13:‏51،‏ 52‏۔‏

4.‏ یسوع مسیح کی تمثیلوں کو سمجھنے کے لیے ہمیں کیا کرنا چاہیے؟‏

4 اگر ہم یسوع مسیح کی تمثیلوں کو سمجھنا چاہتے ہیں  تو  ہمیں اُن  کے شاگردوں کی طرح بننا ہوگا۔‏ ایسا کرنے میں تین باتیں شامل ہیں۔‏ سب سے پہلے تو ہمیں یسوع مسیح کی تعلیمات کا مطالعہ کرنے اور اِن پر سوچ بچار کرنے کے لیے وقت نکالنا چاہیے،‏ اِن کے بارے میں تحقیق کرنی چاہیے اور کچھ سوالوں پر غور کرنا چاہیے۔‏ یوں ہم معرفت یعنی علم حاصل کریں گے۔‏ (‏امثا 2:‏4،‏ 5‏)‏ اِس کے بعد ہمیں غور کرنا چاہیے کہ اِن تعلیمات کا اُن باتوں سے کیا تعلق ہے جو ہم نے پہلے سیکھی تھیں اور اِن سے ہمیں کیا فائدہ ہوگا۔‏ اِس طرح ہمیں فہم یعنی سمجھ حاصل ہوگی۔‏ (‏امثا 2:‏2،‏ 3‏)‏ آخر میں ہمیں سیکھی ہوئی باتوں پر عمل کرنا چاہیے۔‏ یوں ہم حکمت یعنی دانائی ظاہر کریں گے۔‏—‏امثا 2:‏6،‏ 7‏۔‏

5.‏ مثال دے کر بتائیں کہ علم،‏ سمجھ اور دانائی میں کیا فرق ہے۔‏

5 علم،‏ سمجھ اور دانائی میں کیا فرق ہے؟‏ اِس سلسلے میں اِس مثال پر غور کریں:‏ تصور کریں کہ آپ سڑک کے بیچ میں کھڑے ہیں اور ایک بس بڑی تیزی سے آپ کی طرف آ رہی ہے۔‏ سب سے پہلے آپ دیکھیں گے کہ بس آپ کی طرف بڑھ رہی ہے۔‏ یہ علم ہے۔‏ اِس کے بعد آپ کو احساس ہوگا کہ اگر آپ وہیں کھڑے رہے تو آپ کو بس کی ٹکر لگ جائے گی۔‏ یہ سمجھ ہے۔‏ پھر آپ وہاں سے ہٹ جائیں گے۔‏ یہ دانائی ہے۔‏ چونکہ دانائی کی وجہ سے ہماری زندگی بچ سکتی ہے اِس لیے بائبل میں اِس بات پر زور دیا گیا ہے کہ ہمیں ’‏دانائی کی حفاظت‘‏ کرنی چاہیے۔‏—‏امثا 3:‏21،‏ 22؛‏ 1-‏تیم 4:‏16‏۔‏

6.‏ یسوع مسیح کی سات تمثیلوں پر بات کرتے وقت ہم کن چار سوالوں پر غور کریں گے؟‏ (‏ساتھ دیے گئے بکس کو دیکھیں۔‏)‏

6 اِس مضمون اور اگلے مضمون میں ہم یسوع مسیح  کی  سات تمثیلوں پر بات کریں گے۔‏ اِس دوران ہم چار سوالوں پر غور کریں گے۔‏ سب سے پہلے یہ کہ اِس تمثیل کا کیا مطلب ہے؟‏ یوں ہمیں علم حاصل ہوگا۔‏ دوسرا یہ کہ یسوع مسیح نے یہ تمثیل کیوں دی؟‏ یوں ہمیں سمجھ حاصل ہوگی۔‏ تیسرا یہ کہ ہم اِس معلومات سے خود کو اور دوسروں کو کیسے فائدہ پہنچا سکتے ہیں؟‏ یوں ہم دانائی ظاہر کریں گے۔‏ اور چوتھا یہ کہ اِس تمثیل سے ہم یہوواہ خدا اور یسوع مسیح کے بارے میں کیا سیکھتے ہیں؟‏

رائی کے دانے کی تمثیل

7.‏ رائی کے دانے کی تمثیل کا کیا مطلب ہے؟‏

7 متی 13:‏31،‏ 32 کو پڑھیں۔‏ رائی کے دانے کی تمثیل  کا کیا مطلب ہے؟‏ رائی کا دانہ بادشاہت کے پیغام اور مسیحی کلیسیا کی طرف اِشارہ کرتا ہے۔‏ پنتِکُست 33ء میں مسیحی کلیسیا بہت ہی چھوٹی تھی یعنی یہ رائی کے دانے کی طرح تھی جو ”‏سب بیجوں سے چھوٹا“‏ ہوتا ہے۔‏ لیکن کچھ ہی عرصے میں یہ کلیسیا بڑی تیزی سے اور توقعات سے کہیں زیادہ بڑھ گئی۔‏ (‏کل 1:‏23‏)‏ کلیسیا کے بڑھنے سے بہت فائدہ ہوا۔‏ یسوع مسیح نے کہا تھا کہ ”‏ہوا کے پرندے آ کر اُس کی ڈالیوں پر بسیرا“‏ کریں گے۔‏ ’‏ہوا کے پرندوں‘‏ سے مُراد وہ لوگ ہیں جو روحانی خوراک،‏ سائے اور تحفظ کے لیے کلیسیا میں آتے ہیں۔‏—‏حزقی‌ایل 17:‏23 پر غور کریں۔‏

8.‏ یسوع مسیح نے رائی کے دانے کی تمثیل کیوں دی؟‏

8 یسوع مسیح نے یہ تمثیل کیوں دی؟‏ یسوع مسیح نے رائی  کے دانے کی تمثیل سے واضح کِیا کہ خدا کی بادشاہت میں بڑھنے،‏ تحفظ فراہم کرنے اور ہر مشکل پر غالب آنے کی طاقت ہے۔‏ 1914ء سے مسیحی کلیسیا جس تیزی سے بڑھی ہے،‏ وہ بہت  حیران‌کُن ہے۔‏ (‏یسع 60:‏22‏)‏ جو لوگ اِس کلیسیا میں شامل ہیں،‏ اُنہیں روحانی تحفظ حاصل ہے۔‏ (‏امثا 2:‏7؛‏ یسع 32:‏1،‏ 2‏)‏ اِس کے علاوہ کلیسیا کے مسلسل بڑھنے سے ثابت ہوا ہے کہ کوئی بھی چیز اِسے بڑھنے سے روک نہیں سکتی۔‏—‏یسع 54:‏17‏۔‏

9.‏ ‏(‏الف)‏ ہم رائی کے دانے کی تمثیل سے کیا سیکھتے ہیں؟‏ (‏ب)‏ اِس تمثیل سے ہم یہوواہ خدا اور یسوع مسیح کے بارے میں کیا سیکھتے ہیں؟‏

9 ہم رائی کے دانے کی تمثیل سے کیا سیکھتے  ہیں؟‏  شاید  ہم ایک ایسے علاقے میں رہتے ہیں جہاں یہوواہ کے گواہوں کی تعداد بہت کم ہے یا جہاں زیادہ ترقی نہیں ہو رہی۔‏ لیکن جب ہم یہ یاد رکھتے ہیں کہ خدا کی بادشاہت میں ہر طرح کی مشکل پر غالب آنے کی طاقت ہے تو ہم ہمت نہیں ہارتے۔‏ مثال کے طور پر جب بھائی ایڈوِن سکنر 1926ء میں بھارت گئے تو وہاں بس مٹھی بھر یہوواہ کے گواہ تھے۔‏ شروع شروع میں ایسا لگتا تھا کہ  یہاں مُنادی کرنا بہت مشکل ہوگا کیونکہ یہاں اِتنی زیادہ ترقی نہیں ہو رہی تھی۔‏ لیکن بھائی سکنر پھر بھی وہاں مُنادی کا کام کرتے رہے۔‏ اُنہوں نے دیکھا کہ بادشاہت کا پیغام مشکلات کے باوجود بھی پھیلتا جا رہا ہے۔‏ اب بھارت میں 37 ہزار سے زیادہ یہوواہ کے گواہ ہیں اور 2013ء میں یادگاری تقریب پر1 لاکھ 8 ہزار سے زیادہ لوگ آئے۔‏ ایک اَور مثال پر بھی غور کریں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ خدا کی بادشاہت میں بڑھنے کی کتنی طاقت ہے۔‏ جب بھائی سکنر بھارت گئے تھے تو اُس وقت زمبیا میں مُنادی کا کام شروع ہوئے زیادہ عرصہ نہیں ہوا تھا۔‏ اب وہاں پر 1 لاکھ 70 ہزار سے زیادہ مبشر ہیں۔‏ اور 2013ء میں یادگاری تقریب پر 7 لاکھ 63 ہزار 915 لوگ آئے۔‏ اِس کا مطلب ہے کہ زمبیا میں ہر 18 میں سے ایک شخص اِس تقریب پر آیا۔‏ یہ واقعی بہت شان‌دار ترقی ہے۔‏

خمیر کی تمثیل

10.‏ خمیر کی تمثیل کا کیا مطلب ہے؟‏

10 متی 13:‏33 کو پڑھیں۔‏ خمیر کی تمثیل کا کیا مطلب ہے؟‏ اِس تمثیل میں بادشاہت کے پیغام اور اِس سے حاصل ہونے والے نتائج کی طرف اِشارہ کِیا گیا ہے۔‏ آٹا تمام قوموں کی طرف اِشارہ کرتا ہے۔‏ خمیر کا پھیل جانا،‏ مُنادی کے کام کے ذریعے بادشاہت کے پیغام کے پھیل جانے کی طرف اِشارہ کرتا ہے۔‏ اگرچہ رائی کے دانے کا بڑھنا واضح طور پر نظر آتا ہے لیکن خمیر کا پھیلنا شروع شروع میں نظر نہیں آتا۔‏ اِس کے اثرات کچھ دیر بعد نظر آتے ہیں۔‏

11.‏ یسوع مسیح نے خمیر کی تمثیل کیوں دی؟‏

11 یسوع مسیح نے یہ تمثیل کیوں دی؟‏ اِس تمثیل کے  ذریعے یسوع مسیح نے واضح کِیا کہ بادشاہت کے پیغام میں پھیلنے اور تبدیلیاں لانے کی طاقت ہے۔‏ بادشاہت کا پیغام ”‏زمین کی اِنتہا تک“‏ پہنچ چُکا ہے۔‏ (‏اعما 1:‏8‏)‏ سچ ہے کہ اِس پیغام کے ذریعے جو تبدیلیاں ہوتی ہیں،‏ وہ ہمیشہ اِتنی واضح نہیں ہوتیں اور شاید شروع شروع میں تو اِن کا پتہ بھی نہیں چلتا۔‏ لیکن تبدیلیاں ہوتی ضرور ہیں۔‏ اِس کا ثبوت یہ ہے کہ خدا کے بندوں کی تعداد میں اِضافہ ہو رہا ہے اور اِس پیغام کو قبول کرنے والے لوگوں کی شخصیت بھی بدل رہی ہے۔‏—‏روم 12:‏2؛‏ افس 4:‏22،‏ 23‏۔‏

12،‏ 13.‏ مثال دے کر بتائیں کہ بادشاہت کا پیغام خمیر کی طرح کیسے پھیلا ہے۔‏

12 مُنادی کے کام کے نتائج اکثر  کئی  سال  بعد  نظر  آتے ہیں۔‏ اِس سلسلے میں فرانز اور مارگٹ کی مثال پر غور کریں جو بیت‌ایل میں خدمت کر رہے ہیں۔‏ 1982ء میں وہ برازیل کے برانچ کے دفتر میں خدمت کر رہے تھے۔‏ اِس دوران اُنہوں نے ایک گاؤں میں ایک عورت اور اُس کے چار بچوں کے ساتھ بائبل کا مطالعہ شروع کِیا۔‏ اِس عورت کا سب سے بڑا بیٹا اُس وقت 12 سال کا تھا۔‏ وہ بہت شرمیلا تھا اور اِس وجہ سے اکثر مطالعے سے پہلے کہیں چھپ جاتا تھا۔‏ کچھ عرصے بعد فرانز اور مارگٹ کو کہیں اَور بھیج دیا گیا جس کی وجہ سے وہ اِس خاندان کے ساتھ مطالعہ جاری نہ رکھ سکے۔‏ لیکن 25 سال بعد جب وہ اِس علاقے میں واپس گئے تو اُنہوں نے دیکھا کہ وہاں پر ایک کلیسیا بن چکی ہے جو ایک نئے کنگڈم ہال میں اِجلاس منعقد کرتی  ہے۔‏ اِس کلیسیا میں 69 مبشر تھے اور اِن میں سے 13 پہل‌کاروں کے طور پر خدمت کر رہے تھے۔‏ لیکن اُس لڑکے کا کیا ہوا جو بہت شرمیلا تھا؟‏ وہ اِس کلیسیا میں بزرگوں کی جماعت کے منتظم کے طور پر خدمت کر رہا تھا۔‏ اِس علاقے میں بادشاہت کا پیغام واقعی خمیر کی طرح پھیل چُکا تھا اور اِس نے بہت سے لوگوں کی زندگیوں کو تبدیل کر دیا تھا۔‏

13 بادشاہت کے پیغام میں لوگوں کی  زندگیاں  تبدیل  کرنے کی کتنی طاقت ہے،‏ اِس کا ثبوت خاص طور پر ایسے ملکوں سے ملتا ہے جہاں ہمارے کام پر پابندی لگی ہے۔‏ یہ اندازہ لگانا مشکل ہے کہ اِن ملکوں میں یہ پیغام کس حد تک پھیل چُکا ہے۔‏ لیکن اِس پیغام سے جو نتائج نکلتے ہیں،‏ اُنہیں دیکھ کر ہم اکثر حیران رہ جاتے ہیں۔‏ اِس سلسلے میں ملک کیوبا کی مثال پر غور کریں۔‏ یہاں پر بادشاہت کا پیغام 1910ء میں پہنچا اور بھائی رسل 1913ء میں یہاں آئے۔‏ شروع شروع میں یہاں پر اِتنی تیزی سے ترقی نہیں ہو رہی تھی۔‏ مگر اب یہاں پر 96 ہزار سے زیادہ مبشر خوش‌خبری کی مُنادی کر رہے ہیں۔‏ 2013ء میں یہاں یادگاری تقریب پر 2 لاکھ 29 ہزار 726 لوگ آئے۔‏ اِس کا مطلب ہے کہ کیوبا میں ہر 48 میں سے 1 شخص یادگاری تقریب میں آیا۔‏ جو بہن بھائی ایسے ملکوں میں رہتے ہیں جہاں ہم آزادی سے مُنادی کر سکتے ہیں،‏ شاید وہ سوچیں کہ اُن کے ملک کے کچھ علاقوں میں ابھی تک بادشاہت کا پیغام نہیں پہنچا۔‏ لیکن ہو سکتا ہے کہ اِن علاقوں میں بھی بادشاہت کا پیغام پہنچ چُکا ہو۔‏ *‏—‏واعظ 8:‏7؛‏ 11:‏5‏۔‏

14،‏ 15.‏ ‏(‏الف)‏ یسوع مسیح نے خمیر کی تمثیل سے جو بات سکھائی،‏ اُس سے ہمیں کیا فائدہ ہو سکتا ہے؟‏ (‏ب)‏ اِس تمثیل سے ہم یہوواہ خدا اور یسوع مسیح کے بارے میں کیا سیکھتے ہیں؟‏

14 یسوع مسیح نے خمیر کی تمثیل سے جو بات سکھائی،‏ اُس سے ہمیں کیا فائدہ ہو سکتا ہے؟‏ جب ہم خمیر کی تمثیل پر غور کرتے ہیں تو ہم سمجھ جاتے ہیں کہ ہمیں اِس بارے میں حد سے زیادہ پریشان نہیں ہونا چاہیے کہ بادشاہت کا پیغام اُن لاکھوں لوگوں تک کیسے پہنچے گا جنہوں نے ابھی تک اِسے نہیں سنا۔‏ ہمیں یاد رکھنا  چاہیے کہ یہوواہ خدا نے ساری صورتحال کو اپنے قابو میں رکھا ہوا ہے۔‏ لیکن ہماری ذمےداری کیا ہے؟‏ بائبل میں لکھا ہے:‏ ”‏صبح کو اپنا بیج بو اور شام کو بھی اپنا ہاتھ ڈھیلا نہ ہونے دے کیونکہ تُو نہیں جانتا کہ اُن میں سے کون سا بارور ہوگا۔‏ یہ یا وہ یا دونوں کے دونوں برابر برومند ہوں گے۔‏“‏ (‏واعظ 11:‏6‏)‏ ساتھ ہی ساتھ ہمیں یہ دُعا بھی کرتے رہنا چاہیے کہ بادشاہت کا پیغام اَور زیادہ پھیلے،‏ خاص طور پر ایسے ملکوں میں جہاں ہمارے کام پر پابندی لگی ہے۔‏—‏افس 6:‏18-‏20‏۔‏

15 اِس کے علاوہ جب ہم شروع شروع میں  دیکھتے  ہیں  کہ ہمارے مُنادی کے کام سے کوئی خاص نتیجہ نہیں نکل رہا تو ہمیں  بےحوصلہ نہیں ہونا چاہیے۔‏ ہو سکتا ہے کہ آخرکار اِس سے اِتنے  شان‌دار نتیجے نکلیں جن کی ہمیں توقع بھی نہ ہو۔‏—‏زبور 40:‏5‏۔‏

سوداگر اور چھپے خزانے کی تمثیل

16.‏ سوداگر اور چھپے خزانے کی تمثیل کا کیا مطلب ہے؟‏

16 متی 13:‏44-‏46 کو پڑھیں۔‏ سوداگر اور چھپے خزانے  کی تمثیل کا کیا مطلب ہے؟‏ یسوع مسیح کے زمانے میں کچھ سوداگر قیمتی موتیوں کی تلاش میں بحرِہند تک کا سفر کِیا کرتے تھے۔‏ اِس تمثیل میں سوداگر اُن لوگوں کی طرف اِشارہ کرتا ہے جو اپنی روحانی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے سخت کوشش کرتے ہیں۔‏ ”‏بیش‌قیمت موتی“‏ بادشاہت کے متعلق سچائی کی طرف اِشارہ کرتا ہے۔‏ جب سوداگر کو ”‏ایک بیش‌قیمت موتی ملا“‏ تو اُس نے فوراً جا کر اپنا سب کچھ بیچ ڈالا تاکہ وہ اِسے خرید سکے۔‏ یسوع مسیح نے ایک ایسے آدمی کی تمثیل بھی دی جسے کھیت میں کام کرتے وقت اچانک خزانہ مل گیا۔‏ اگرچہ وہ سوداگر کی طرح کسی قیمتی چیز کی تلاش میں تو نہیں تھا لیکن وہ بھی اپنا سب کچھ بیچنے کو تیار تھا تاکہ وہ خزانے کو حاصل کر سکے۔‏

17.‏ یسوع مسیح نے سوداگر اور چھپے خزانے کی تمثیل کیوں دی؟‏

17 یسوع مسیح نے یہ دو تمثیلیں کیوں دیں؟‏  اِن  تمثیلوں کے ذریعے یسوع مسیح نے ظاہر کِیا کہ لوگوں کو سچائی مختلف طریقوں سے ملتی ہے۔‏ کچھ لوگوں کو بہت کوشش کے بعد سچائی ملتی ہے جبکہ کچھ لوگوں کو اِس کی تلاش نہیں کرنی پڑتی بلکہ کوئی اَور اُن تک اِسے پہنچا دیتا ہے۔‏ سوداگر اور چھپے خزانے کی تمثیل میں دونوں ہی آدمیوں نے اُس چیز کی اہمیت کو پہچان لیا جو اُنہیں ملی  اور وہ اِس کی خاطر بڑی سے بڑی قربانی دینے کو بھی تیار ہو گئے۔‏

18.‏ ‏(‏الف)‏ سوداگر اور چھپے خزانے کی تمثیل پر غور کرنے سے ہمیں کیا فائدہ ہو سکتا ہے؟‏ (‏ب)‏ اِن تمثیلوں سے ہم یہوواہ خدا اور یسوع مسیح کے بارے میں کیا سیکھتے ہیں؟‏

18 اِن دونوں تمثیلوں پر غور کرنے سے ہمیں کیا فائدہ ہو  سکتا ہے؟‏ ‏(‏متی 6:‏19-‏21‏)‏ خود سے پوچھیں:‏ ”‏کیا میری سوچ بھی اِن دونوں آدمیوں جیسی ہے؟‏ کیا مَیں سچائی کو ایک قیمتی خزانے کی طرح خیال کرتا ہوں؟‏ کیا مَیں اِسے حاصل کرنے کے لیے قربانیاں دینے کو تیار ہوں؟‏ یا کیا روزمرہ کی ضروریات یا دوسری چیزوں کی وجہ سے میرا دھیان بٹا ہوا ہے؟‏“‏ (‏متی 6:‏22-‏24،‏ 33؛‏ لو 5:‏27،‏ 28؛‏ فل 3:‏8‏)‏ سچائی کے مل جانے پر ہمیں جتنی زیادہ خوشی ہوگی اُتنا ہی زیادہ ہمارا یہ عزم مضبوط ہوگا کہ ہم اِسے اپنی زندگی میں سب سے زیادہ اہمیت دیں گے۔‏

19.‏ اگلے مضمون میں ہم کس بات پر غور کریں گے؟‏

19 آئیں،‏ ہم ظاہر کریں کہ ہم نے بادشاہت کے متعلق اِن تمثیلوں کو سنا ہے اور واقعی سمجھ بھی لیا ہے۔‏ یاد رکھیں کہ اِن تمثیلوں کا صرف مطلب سمجھنا ہی کافی نہیں ہے بلکہ ہم نے اِن سے جو کچھ سیکھا ہے،‏ ہمیں اُس کے مطابق عمل بھی کرنا چاہیے۔‏ اگلے مضمون میں ہم یسوع مسیح کی تین اَور تمثیلوں پر غور کریں گے اور دیکھیں گے کہ ہم اِن سے کیا سیکھ سکتے ہیں۔‏

^ پیراگراف 13 ایسا ہی تجربہ جزیرہ رابنسن کروسو میں بھی پیش آیا۔‏ اِس کے لیے مینارِنگہبانی 15 جون 2000ء،‏ صفحہ 9 کو دیکھیں۔‏