مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

قارئین کے سوال

قارئین کے سوال

یرمیاہ نبی کی اِس بات کا کیا مطلب تھا کہ ’‏راخل اپنے بچوں کو رو رہی ہیں‘‏؟‏

یرمیاہ 31:‏15 میں لکھا ہے:‏ ”‏[‏یہوواہ]‏ یوں فرماتا ہے کہ راؔمہ میں ایک آواز سنائی دی۔‏ نوحہ اور زارزار رونا۔‏ راخلؔ اپنے بچوں کو رو رہی ہے وہ اپنے بچوں کی بابت تسلیپذیر نہیں ہوتی کیونکہ وہ نہیں ہیں۔‏“‏

جب راخل فوت ہوئی تھیں تو اُس وقت اُن کے دونوں بیٹے زندہ تھے۔‏ اِس لیے شاید ہمیں لگے کہ یرمیاہ نبی نے راخل کی موت کے 1000 سال بعد جو بات لکھی،‏ وہ درست نہیں۔‏

راخل کے پہلے بیٹے کا نام یوسف تھا۔‏ (‏پید 30:‏22-‏24‏)‏ بعد میں راخل کا ایک اَور بیٹا پیدا ہوا جس کا نام بنیمین رکھا گیا۔‏ لیکن بنیمین کی پیدائش کے وقت راخل فوت ہو گئیں۔‏ لہٰذا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یرمیاہ نبی نے کیوں کہا کہ راخل اپنے بچوں کو رو رہی ہیں کیونکہ ”‏وہ نہیں ہیں“‏؟‏

غور کریں کہ راخل کے بڑے بیٹے یوسف کے دو بیٹے تھے جن کے نام منسّی اور اِفرائیم تھے۔‏ (‏پید 41:‏50-‏52؛‏ 48:‏13-‏20‏)‏ بعد میں اِفرائیم کا قبیلہ اِسرائیل کی سلطنت کا حصہ بنا جو شمال میں واقع تھی۔‏ اِس سلطنت میں دس قبیلے تھے جن میں اِفرائیم کا قبیلہ سب سے نمایاں تھا اور اِس نے اِن دس قبیلوں کی نمائندگی کی۔‏ راخل کے دوسرے بیٹے بنیمین کا قبیلہ یہوداہ کی سلطنت کا حصہ بنا جو جنوب میں واقع تھی۔‏ اِس لیے ایک لحاظ سے راخل نے اُن سب اِسرائیلی ماؤں کی عکاسی کی جو اِسرائیل کی سلطنت اور یہوداہ کی سلطنت میں رہتی تھیں۔‏

جب یرمیاہ کی کتاب لکھی گئی تھی تو اُس وقت اِسرائیل کی سلطنت اسوری فوج سے شکست کھا چکی تھی اور بہت سے لوگ اسیر ہو گئے تھے۔‏  لیکن  شاید اِفرائیم کے قبیلے کے کچھ لوگ یہوداہ کے علاقے میں بھاگ گئے۔‏ پھر 607 قبل‌ازمسیح میں بابلیوں نے یہوداہ کی سلطنت کو شکست دی۔‏ ایسا لگتا ہے کہ فتح پانے کے بعد بابلی بہت سے لوگوں کو اسیر کرکے رامہ لے گئے جو یروشلیم سے آٹھ کلو میٹر (‏تقریباً 5 میل)‏ دُور شمال میں تھا۔‏ (‏یرم 40:‏1‏)‏ رامہ بنیمین کے علاقے میں تھا اور اِسی علاقے میں راخل کو دفنایا گیا تھا۔‏ شاید یہاں پر بھی بابلیوں نے کچھ کو قتل کر دیا۔‏ (‏1-‏سمو 10:‏2‏)‏ لہٰذا اِصطلاح ”‏راخلؔ اپنے بچوں کو رو رہی ہے“‏ اُس ماتم کی طرف اِشارہ کرتی ہے جو بنیمین کے قبیلے کے تمام لوگوں یا رامہ میں قتل ہونے والوں کی موت پر کِیا گیا۔‏ یہ بھی ممکن ہے کہ اِس کا اِشارہ اُن تمام اِسرائیلی ماؤں کی طرف ہو جو خدا کے لوگوں کے قتل ہونے یا اسیری میں چلے جانے پر رو رہی تھیں۔‏

یہ اِصطلاح چاہے اِن میں سے کسی بھی بات کی طرف اِشارہ کرتی ہو،‏ اصل میں یہ ایک پیش‌گوئی تھی جو سینکڑوں سال بعد اُس وقت پوری ہوئی جب ننھے یسوع کی جان خطرے میں تھی۔‏ بادشاہ ہیرودیس نے حکم دیا کہ بیت‌لحم میں اُن سب لڑکوں کو مار ڈالا جائے جو دو سال یا اِس سے کم عمر کے ہیں۔‏ ذرا اُس ماتم کا تصور کریں جو اِن بچوں کی ماؤں نے کِیا ہوگا۔‏ حالانکہ یہ ماتم بیت‌لحم میں ہو رہا تھا جو یروشلیم کے جنوب میں واقع تھا لیکن ایسے لگ رہا تھا جیسے اِس کی گُونج رامہ تک سنائی دے رہی ہو جو یروشلیم کے شمال میں واقع تھا۔‏—‏متی 2:‏16-‏18‏۔‏

لہٰذا اِصطلاح ”‏راخلؔ اپنے بچوں کو رو رہی ہے“‏ یرمیاہ نبی کے زمانے اور یسوع مسیح کے زمانے میں اُن یہودی ماؤں کے دُکھ کی طرف اِشارہ کرتی ہے جو اُنہیں اپنے بچوں کے قتل پر ہوا۔‏ بِلاشُبہ جو لوگ ”‏دُشمن کے ملک“‏ چلے گئے ہیں یعنی مر گئے ہیں،‏ اُنہیں زندہ کرکے اِس دُشمن کی گِرفت سے آزاد کِیا جائے گا۔‏—‏یرم 31:‏16؛‏ 1-‏کر 15:‏26‏۔‏