مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

شیطان کا مقابلہ کریں اور فتح پائیں

شیطان کا مقابلہ کریں اور فتح پائیں

‏”‏تُم ایمان میں مضبوط ہو کر .‏ .‏ .‏ [‏شیطان]‏ کا مقابلہ کرو۔‏“‏—‏1-‏پطر 5:‏9‏۔‏

1.‏ ‏(‏الف)‏ خاص طور پر اب ہمیں شیطان کا مقابلہ کیوں کرنا چاہیے؟‏ (‏ب)‏ ہم کیسے جانتے ہیں کہ ہم شیطان پر فتح پا سکتے ہیں؟‏

شیطان زمین پر موجود ممسوح مسیحیوں اور یسوع مسیح کی ’‏اَور بھی بھیڑوں‘‏ کے ساتھ لڑ رہا ہے۔‏ (‏یوح 10:‏16‏)‏ وہ جانتا ہے کہ اُس کا تھوڑا ہی سا وقت باقی ہے اِس لیے وہ یہوواہ خدا کے زیادہ سے زیادہ بندوں کو پھاڑ کھانا چاہتا ہے۔‏ ‏(‏مکاشفہ 12:‏9،‏ 12 کو پڑھیں۔‏)‏ کیا ہم شیطان پر فتح پا سکتے ہیں؟‏ جی ہاں۔‏ بائبل میں لکھا ہے:‏ ”‏اِبلیس کا مقابلہ کرو تو وہ تُم سے بھاگ جائے گا۔‏“‏—‏یعقو 4:‏7‏۔‏

2،‏ 3.‏ ‏(‏الف)‏ شیطان یہ کیوں چاہتا ہے کہ لوگ اُس کے وجود پر یقین نہ رکھیں؟‏ (‏ب)‏ آپ یہ کیوں مانتے ہیں کہ شیطان ایک حقیقی ہستی ہے؟‏

2 بہت سے لوگ شیطان کو ایک حقیقی ہستی نہیں سمجھتے اور جو سمجھتے ہیں اُن کا وہ مذاق اُڑاتے ہیں۔‏ اُن کی نظر میں شیطان اور شیاطین محض قصے کہانیوں،‏ ڈراؤنی فلموں اور ویڈیو گیمز کے کردار ہیں۔‏ اُن کا خیال ہے کہ بدروحوں کے وجود پر یقین رکھنا بےوقوفی ہے۔‏ لوگ شیطان اور شیاطین کے وجود پر یقین رکھیں یا نہ رکھیں،‏ اِس سے شیطان کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔‏ اُس کے لیے تو ایسے لوگوں کی ’‏عقلوں کو اندھا کرنا‘‏ اَور آسان ہو جاتا ہے جو یہ نہیں مانتے کہ وہ ایک حقیقی ہستی ہے۔‏ (‏2-‏کر 4:‏4‏)‏ اِس نظریے کو فروغ دینا شیطان کی ایک چال ہے جس سے وہ لوگوں کو گمراہ کرتا ہے۔‏

3 لیکن ہم گمراہ نہیں ہوئے ہیں۔‏ ہم جانتے ہیں کہ اِبلیس ایک حقیقی ہستی ہے۔‏ اُسی نے ایک سانپ کے ذریعے حوا سے بات کی تھی۔‏ (‏پید 3:‏1-‏5‏)‏ شیطان نے ہی ایوب کے بارے میں یہوواہ کو طعنہ دیا تھا۔‏ (‏ایو 1:‏9-‏12‏)‏ اُسی نے ہی یسوع مسیح کو بھی آزمانے کی کوشش کی تھی۔‏ (‏متی 4:‏1-‏10‏)‏ اور جب 1914ء میں خدا کی بادشاہت قائم ہوئی تھی تو شیطان ہی زمین پر موجود ممسوح مسیحیوں کے ساتھ ”‏لڑنے کو گیا“‏ تھا۔‏ (‏مکا 12:‏17‏)‏ یہ لڑائی آج بھی جاری ہے۔‏ وہ ممسوح مسیحیوں اور یسوع مسیح کی اَور بھی بھیڑوں کا ایمان تباہ کر دینا چاہتا ہے۔‏ اُس پر فتح پانے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اُس کا ڈٹ کر مقابلہ کریں اور اپنا ایمان مضبوط رکھیں۔‏ اِس مضمون میں ہم شیطان پر فتح پانے کے تین طریقوں پر بات کریں گے۔‏

غرور سے بچیں

4.‏ شیطان نے کیسے ظاہر کِیا ہے کہ وہ نہایت مغرور ہے؟‏

4 شیطان بہت ہی مغرور ہے۔‏ اُس نے خدا کے حکمرانی کرنے کے حق کو للکارا؛‏ اُس نے چاہا کہ اِنسان خدا کی بجائے اُس کی عبادت کریں۔‏ یہ غرور نہیں تو اَور کیا ہے؟‏ اِس لیے اُس کا مقابلہ کرنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ ہم غرور کے پھندے سے بچیں اور خاکساری اِختیار کریں۔‏ ‏(‏1-‏پطرس 5:‏5 کو پڑھیں۔‏)‏ لیکن دراصل غرور ہے کیا؟‏ اور یہ کس لحاظ سے فخر سے فرق ہے؟‏

5،‏ 6.‏ ‏(‏الف)‏ کیا فخر کرنا ہمیشہ غلط ہوتا ہے؟‏ (‏ب)‏ غرور کرنا کیوں خطرناک ہے؟‏ بائبل سے کچھ مثالیں دیں۔‏

5 فخر ایک ایسا احساس ہے جو اِعتماد کو فروغ دیتا ہے۔‏ جب ہم یا ہمارا کوئی عزیز اچھا کام کرتا ہے تو ہمیں فخر محسوس ہوتا ہے۔‏ مثال کے طور پر پولُس رسول نے تھسلُنیکے کے مسیحیوں سے کہا:‏ ”‏ہم آپ خدا کی کلیسیاؤں میں تُم پر فخر کرتے ہیں کہ جتنے ظلم اور مصیبتیں تُم اُٹھاتے ہو اُن سب میں تمہارا صبر اور ایمان ظاہر ہوتا ہے۔‏“‏ (‏2-‏تھس 1:‏4‏)‏ لہٰذا اپنے آپ پر یا اپنے کسی عزیز پر کسی حد تک فخر کرنے میں کوئی بُرائی نہیں ہے۔‏ اور ہمیں دوسروں کے ساتھ بات کرتے ہوئے اپنے خاندان،‏ ملک یا ثقافت کو چھپانے کی بھی ضرورت نہیں ہے۔‏—‏اعما 21:‏39‏۔‏

6 لیکن غرور دوسروں کے ساتھ اور خاص طور پر یہوواہ کے ساتھ ہماری دوستی کو خراب کرتا ہے۔‏ غرور کی وجہ سے ہم اچھی صلاح کو شاید رد کر دیں یا پھر صلاح دینے والے سے ناراض ہو جائیں۔‏ (‏زبور 141:‏5‏)‏ ایک مغرور اِنسان خود کو دوسروں سے بڑا سمجھتا ہے۔‏ یہوواہ خدا ایسے لوگوں سے نفرت کرتا ہے۔‏ (‏حز 33:‏28؛‏ عامو 6:‏8‏)‏ لیکن شیطان کو مغرور لوگ بڑے پسند ہیں کیونکہ وہ اُس جیسی خصلت ظاہر کرتے ہیں۔‏ ذرا سوچیں کہ شیطان کو اُس وقت کتنی خوشی ہوئی ہوگی جب نمرود،‏ فرعون اور ابی‌سلوم غرور کے گڑھے میں گِر گئے۔‏ (‏پید 10:‏8،‏ 9؛‏ خر 5:‏1،‏ 2؛‏ 2-‏سمو 15:‏4-‏6‏)‏ قائن بھی غرور کا شکار بنے۔‏ اُنہیں تو خود یہوواہ نے سمجھایا تھا لیکن اُنہوں نے یہوواہ کی بھی نہ سنی۔‏ اُنہوں نے غرور میں آ کر یہوواہ خدا کی صلاح کو رد کر دیا اور پھر سنگین گُناہ کر بیٹھے۔‏—‏پید 4:‏6-‏8‏۔‏

7،‏ 8.‏ ‏(‏الف)‏ نسل‌پرستی میں کیا کچھ شامل ہے اور اِس کا غرور سے کیا تعلق ہے؟‏ (‏ب)‏ غرور کلیسیا کے امن اور اِتحاد کو نقصان کیسے پہنچا سکتا ہے؟‏

7 آج‌کل دُنیا میں غرور کے کئی روپ نظر آتے ہیں،‏ مثلاً نسل‌پرستی۔‏ غرور دراصل نسل‌پرستی کو ہوا دیتا ہے۔‏ ایک لغت کے مطابق نسل‌پرستی کا مطلب دوسری نسل کے لوگوں سے تعصب یا دُشمنی رکھنا ہے۔‏ نسل‌پرست لوگوں کا خیال ہے کہ ہر نسل کے لوگوں میں خوبیاں اور صلاحیتیں تو ہوتی ہیں لیکن بعض نسلیں پیدائشی طور پر اعلیٰ یا کم‌تر ہوتی ہیں۔‏ نسل‌پرستی بہت سے فسادوں،‏ جنگوں اور قتل‌وغارت کا باعث بنی ہے۔‏

8 لیکن کلیسیا میں نسل‌پرستی کے لیے کوئی گنجائش نہیں ہے۔‏ پھر بھی غرور کی وجہ سے کبھی کبھار بہن بھائیوں میں رنجشیں پیدا ہو جاتی ہیں جو دیکھتے ہی دیکھتے جھگڑے کی صورت اِختیار کر لیتی ہیں۔‏ پہلی صدی کے کچھ مسیحیوں کے ساتھ ایسا ہی ہوا۔‏ اِس لیے یعقوب نے اُن سے پوچھا:‏ ”‏تُم میں لڑائیاں اور جھگڑے کہاں سے آ گئے؟‏“‏ (‏یعقو 4:‏1‏)‏ اگر ہمارے دل میں دوسروں کے لیے نفرت ہے یا ہم خود کو اُن سے بڑا سمجھتے ہیں تو ہم ایسی باتیں کہہ سکتے ہیں یا کوئی ایسا کام کر سکتے ہیں جن سے دوسروں کو تکلیف پہنچ سکتی ہے۔‏ (‏امثا 12:‏18‏)‏ واقعی غرور کلیسیا کے امن اور اِتحاد کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔‏

9.‏ پاک کلام کی مدد سے ہم غرور اور نسل‌پرستی پر کیسے غالب آ سکتے ہیں؟‏ (‏اِس مضمون کی پہلی تصویر کو دیکھیں۔‏)‏

9 اگر ہم بھی اپنے آپ کو دوسروں سے بڑا سمجھتے ہیں تو ہمیں اِس بات کو یاد رکھنا چاہیے:‏ ”‏ہر ایک سے جس کے دل میں غرور ہے [‏یہوواہ]‏ کو نفرت ہے۔‏“‏ (‏امثا 16:‏5‏)‏ ہمیں دوسری نسل،‏ قوم یا ثقافت کے لوگوں کے بارے میں اپنے نظریے کو بھی جانچنا چاہیے۔‏ اگر ہم میں نسل‌پرستی یا قوم‌پرستی کے آثار نظر آتے ہیں تو ہم دراصل اِس حقیقت کو بھول بیٹھے ہیں کہ ”‏[‏خدا]‏ نے ایک ہی اصل سے آدمیوں کی ہر ایک قوم .‏ .‏ .‏ پیدا کی۔‏“‏ (‏اعما 17:‏26‏)‏ اِس لحاظ سے دُنیا کے تمام اِنسان ایک ہی نسل سے ہیں کیونکہ سب کا باپ ایک ہی ہے یعنی آدم۔‏ اِس لیے یہ ماننا کتنی بےوقوفی کی بات ہے کہ بعض نسلیں پیدائشی طور پر اعلیٰ یا کم‌تر ہوتی ہیں۔‏ ایسی سوچ رکھنے سے ہم دراصل شیطان کو کلیسیا کی محبت اور اِتحاد کو نقصان پہنچانے کا موقع دیتے ہیں۔‏ (‏یوح 13:‏35‏)‏ شیطان پر فتح پانے کے لیے ضروری ہے کہ ہم ہر طرح کے غرور سے بچیں۔‏—‏امثا 16:‏18‏۔‏

دُنیا کی چیزوں سے محبت نہ کریں

10،‏ 11.‏ ‏(‏الف)‏ ہمارے دل میں دُنیا کی محبت کیسے پیدا ہو سکتی ہے؟‏ (‏ب)‏ دیماس نے کیسے ظاہر کِیا کہ وہ دُنیا سے محبت کرتے ہیں؟‏

10 شیطان اِس ”‏دُنیا کا سردار“‏ ہے اور ساری دُنیا اُس کے ”‏قبضہ میں پڑی ہوئی ہے۔‏“‏ (‏یوح 12:‏31؛‏ 1-‏یوح 5:‏19‏)‏ اِس لیے اِس دُنیا کے بہت سے کام بائبل کے معیاروں کے خلاف ہیں۔‏ اِس دُنیا کی ساری چیزیں تو بُری نہیں ہیں۔‏ لیکن شیطان ہماری خواہشوں سے ناجائز فائدہ ضرور اُٹھاتا ہے۔‏ وہ اِس دُنیا کی چیزوں کے ذریعے ہمیں ورغلانے کی کوشش کرتا ہے۔‏ وہ ہمارے دل میں دُنیا کی محبت جگاتا ہے تاکہ ہم یہوواہ کی عبادت سے کوتاہی کرنے لگیں۔‏‏—‏1-‏یوحنا 2:‏15،‏ 16 کو پڑھیں۔‏

11 پہلی صدی کے کچھ مسیحی دُنیا سے محبت کرنے لگے تھے۔‏ مثال کے طور پر پولُس نے کہا:‏ ”‏دیماؔس نے اِس موجودہ جہان کو پسند کر کے مجھے چھوڑ دیا۔‏“‏ (‏2-‏تیم 4:‏10‏)‏ بائبل میں یہ تو نہیں بتایا گیا کہ دیماس دُنیا کی کن چیزوں کو پسند کرنے کی وجہ سے پولُس کو چھوڑ گئے تھے۔‏ ہو سکتا ہے کہ دیماس یہوواہ کی خدمت سے زیادہ مال‌ودولت کو چاہنے لگے تھے۔‏ اگر یہ بات سچ ہے تو ذرا سوچیں کہ اُنہوں نے مال‌ودولت کی خاطر کیا کچھ کھو دیا۔‏ وہ ایسے شان‌دار اعزاز کھو بیٹھے جو اُنہیں پولُس رسول کے ساتھ رہنے سے مل سکتے تھے۔‏ لیکن کیا دُنیا اُنہیں کوئی ایسی چیز دے سکتی تھی جو خدا سے ملنے والی برکتوں سے بڑھ کر ہوتی؟‏—‏امثا 10:‏22‏۔‏

12.‏ ہم کس طرح ’‏دولت کے فریب‘‏ میں پھنس سکتے ہیں؟‏

12 ہم بھی دُنیا کی چیزوں کو پسند کرنے کی طرف مائل ہو سکتے ہیں۔‏ ہماری خواہش ہے کہ ہم اپنی اور اپنے گھر والوں کی ضروریات اچھی طرح سے پوری کریں۔‏ (‏1-‏تیم 5:‏8‏)‏ یہوواہ بھی چاہتا ہے کہ ہم زندگی سے لطف اُٹھائیں۔‏ اُس نے تو شروع میں ہی اِنسانوں کو خوب‌صورت گھر دیا اور ضرورت کی ہر شے سے نوازا۔‏ (‏پید 2:‏9‏)‏ لیکن شیطان ہماری خواہشات سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے ہمیں ’‏دولت کے فریب‘‏ میں پھنسا سکتا ہے۔‏ (‏متی 13:‏22‏)‏ بہت سے لوگ یہ مانتے ہیں کہ دولت اُنہیں خوشی دے سکتی ہے یا بہت ساری چیزیں حاصل کر لینا کامیابی کی نشانی ہے۔‏ یہ بس ایک فریب ہے۔‏ اِس کی وجہ سے ہم یہوواہ خدا کے ساتھ اپنی دوستی کھو سکتے ہیں جو ہماری زندگی کا سب سے قیمتی اثاثہ ہے۔‏ یسوع مسیح نے اپنے پیروکاروں سے کہا:‏ ”‏کوئی آدمی دو مالکوں کی خدمت نہیں کر سکتا کیونکہ یا تو ایک سے عداوت رکھے گا اور دوسرے سے محبت۔‏ یا ایک سے ملا رہے گا اور دوسرے کو ناچیز جانے گا۔‏ تُم خدا اور دولت دونوں کی خدمت نہیں کر سکتے۔‏“‏ (‏متی 6:‏24‏)‏ اگر ہم دولت کے غلام بن گئے ہیں تو اِس کا مطلب ہے کہ ہم نے خدا کی خدمت کرنا چھوڑ دیا ہے اور یہی شیطان چاہتا ہے۔‏ خدا کے ساتھ دوستی پر کبھی بھی مال‌ودولت کا سایہ نہ پڑنے دیں۔‏ شیطان پر فتح پانے کے لیے بہت ضروری ہے کہ ہم مال‌ودولت کو حد سے زیادہ اہمیت نہ دیں۔‏‏—‏1-‏تیمتھیس 6:‏6-‏10 کو پڑھیں۔‏

بدکاری میں پڑنے سے بچیں

13.‏ اِس دُنیا میں جنسی تعلقات اور شادی کے بارے میں کون سا غلط نظریہ پایا جاتا ہے؟‏

13 شیطان نے بہت سے لوگوں کو بدکاری کے پھندے میں بھی پھنسایا ہے۔‏ آج‌کل بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ شادی کرنے سے آزادی ختم ہو جاتی ہے۔‏ وہ سوچتے ہیں کہ ایک ہی شخص کے وفادار رہنے کا رواج اِس نئے زمانے میں لاگو نہیں ہوتا۔‏ مثال کے طور پر ایک مشہور اداکارہ نے کہا:‏ ”‏ایک ہی شخص کا وفادار رہنا نہ تو ایک مرد کے لیے ممکن ہے اور نہ ہی ایک عورت کے لیے۔‏ مَیں تو کسی ایسے شخص کو نہیں جانتی جو اپنے ساتھی کا وفادار ہے یا وفادار رہنا چاہتا ہے۔‏“‏ ایک اداکار نے کہا:‏ ”‏میرے خیال میں تو ایک شخص کا ہو کر رہنا ہماری فطرت میں ہی نہیں ہے۔‏“‏ جب ایسی مشہور ہستیاں ازدواجی بندھن جیسی نعمت کی ناقدری کرتی ہیں تو یقیناً شیطان بڑا خوش ہوتا ہے۔‏ اُس نے تو کبھی بھی خدا کے اِس اِنتظام کی حمایت نہیں کی اور وہ نہیں چاہتا کہ شادی کے بندھن کامیاب ہوں۔‏ شیطان پر فتح پانے کے لیے ہمیں ازدواجی بندھن کے بارے میں خدا کا نظریہ اپنانا چاہیے۔‏

14،‏ 15.‏ ہم بدکاری میں پڑنے سے کیسے بچ سکتے ہیں؟‏

14 چاہے ہم شادی‌شُدہ ہیں یا نہیں،‏ ہمیں ہر طرح کی بدکاری سے بچنے کی سخت کوشش کرنی چاہیے۔‏ لیکن ایسا کرنا آسان نہیں ہے۔‏ مثال کے طور پر اگر آپ سکول میں پڑھتے ہیں تو شاید آپ نے وہاں طالبِ‌علموں کو یہ کہتے سنا ہو کہ وہ جس سے بھی چاہیں جنسی تعلقات کرتے ہیں۔‏ شاید وہ بڑی شیخی سے بتاتے ہیں کہ وہ فون کے ذریعے ایک دوسرے کو ننگی تصویریں اور گندے پیغام بھیجتے ہیں۔‏ کبھی کبھار یہ تصویریں اِس قدر گندی ہوتی ہیں کہ بعض ملکوں میں اِن کا شمار فحش مواد میں ہوتا ہے۔‏ پاک کلام میں لکھا ہے:‏ ”‏حرام‌کار اپنے بدن کا بھی گُناہ‌گار ہے۔‏“‏ (‏1-‏کر 6:‏18‏)‏ جنسی بیماریوں کی وجہ سے بہت سے لوگ تکلیف اُٹھا رہے ہیں اور بہت سے تو اپنی جان گنوا بیٹھے ہیں۔‏ اور زیادہ‌تر غیرشادی‌شُدہ نوجوان اپنے کنوارپن سے محروم ہونے کے بعد بہت پچھتاتے ہیں۔‏ فلموں اور ڈراموں میں اکثر دِکھایا جاتا ہے کہ شادی کے بغیر جنسی تعلقات قائم کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔‏ اِس کی وجہ سے لوگ شاید یہ سوچنے لگتے ہیں کہ خدا کے قوانین کو توڑنے سے کوئی نقصان نہیں ہوتا۔‏ ایسے جھوٹے نظریے کو ماننے سے ہم ”‏گُناہ کے فریب“‏ میں آ سکتے ہیں۔‏—‏عبر 3:‏13‏۔‏

15 اگر آپ کو بدکاری سے بچنا مشکل لگتا ہیں تو آپ کیا کر سکتے ہیں؟‏ یہ مانیں کہ آپ بدکاری کرنے کی طرف مائل ہیں۔‏ (‏روم 7:‏22،‏ 23‏)‏ خدا سے مدد مانگیں۔‏ (‏فل 4:‏6،‏ 7،‏ 13‏)‏ ایسی صورتحال سے بچیں جو بدکاری میں پڑنے کا باعث بن سکتی ہے۔‏ (‏امثا 22:‏3‏)‏ جب بدکاری کرنے کی آزمائش سامنے آ کھڑی ہو تو اُسے فوراً رد کریں۔‏—‏پید 39:‏12‏۔‏

16.‏ ‏(‏الف)‏ جب شیطان نے یسوع مسیح کو آزمایا تو اُنہوں نے کیسا ردِعمل ظاہر کِیا؟‏ (‏ب)‏ ہم یسوع مسیح کی مثال سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟‏

16 یسوع مسیح نے آزمائشوں کا مقابلہ کرنے کے سلسلے میں بہت اچھی مثال قائم کی۔‏ وہ شیطان کی باتوں میں نہیں آئے تھے۔‏ یسوع نے اُس کی باتوں پر غور کرنے میں ایک پَل بھی ضائع نہ کِیا۔‏ اُنہوں نے شیطان کی باتوں کو فوراً رد کر دیا اور اُسے پاک کلام سے جواب دیا۔‏ ‏(‏متی 4:‏4-‏10 کو پڑھیں۔‏)‏ یسوع مسیح،‏ خدا کے کلام سے اچھی طرح واقف تھے اور اِسی وجہ سے آزمائش کے وقت وہ فوراً کلام سے حوالہ دینے کے قابل ہوئے۔‏ شیطان پر فتح پانے کے لیے ضروری ہے کہ ہم ایسی حالتوں سے دُور رہیں جو بدکاری میں پڑنے کا باعث بن سکتی ہیں۔‏—‏1-‏کر 6:‏9،‏ 10‏۔‏

آخر تک برداشت کرنے سے فتح پائیں

17،‏ 18.‏ ‏(‏الف)‏ شیطان ہمارے خلاف اَور کون سے ہتھیار اِستعمال کرتا ہے؟‏ (‏ب)‏ جب ہم پر مشکلات آتی ہیں تو ہمیں حیران کیوں نہیں ہونا چاہیے؟‏ (‏ج)‏ شیطان کا حال کیا ہوگا اور اِس سے آپ کو برداشت کرنے کی ترغیب کیوں ملتی ہے؟‏

17 ہم نے تین ایسے پھندوں پر بات کی ہے جو شیطان لوگوں کو پھنسانے کے لیے اِستعمال کرتا ہے یعنی غرور،‏ دُنیا کی چیزیں سے محبت اور بدکاری۔‏ لیکن شیطان کے پاس اَور بھی ہتھیار ہیں جو وہ ہمارے خلاف اِستعمال کرتا ہے۔‏ مثال کے طور پر بعض مسیحیوں کو اپنے رشتےداروں کی طرف سے مخالفت کا سامنا ہوتا ہے؛‏ کچھ نوجوان گواہوں کا سکول میں مذاق اُڑایا جاتا ہے جبکہ بعض ملکوں میں حکومتیں ہمارے بہن بھائیوں کو مُنادی کرنے سے منع کرتی ہیں۔‏ جب ہمیں ایسی مشکلات کا سامنا ہوتا ہے تو ہم حیران نہیں ہوتے کیونکہ یسوع مسیح نے بتا دیا تھا:‏ ”‏میرے نام کے باعث سے سب لوگ تُم سے عداوت رکھیں گے مگر جو آخر تک برداشت کرے گا وہی نجات پائے گا۔‏“‏—‏متی 10:‏22‏۔‏

شیطان کو ہمیشہ کے لیے تباہ کر دیا جائے گا۔‏ (‏پیراگراف 18 کو دیکھیں۔‏)‏

18 لہٰذا ہم شیطان پر فتح کیسے پا سکتے ہیں؟‏ یسوع مسیح نے اپنے شاگردوں سے کہا تھا:‏ ”‏اپنے صبر [‏یعنی برداشت]‏ سے تُم اپنی جانیں بچائے رکھو گے۔‏“‏ (‏لو 21:‏19‏)‏ کوئی بھی اِنسان ہمیں ایسا نقصان نہیں پہنچا سکتا جس کی تلافی نہ ہو سکے۔‏ کوئی بھی یہوواہ خدا کے ساتھ ہماری دوستی توڑ نہیں سکتا۔‏ ایسا تب ہی ہوتا ہے جب ہم خود اِس دوستی کی قدر نہیں کرتے۔‏ (‏روم 8:‏38،‏ 39‏)‏ اگر یہوواہ خدا کا کوئی بندہ مر بھی جاتا ہے تو یہ شیطان کی فتح نہیں ہوتی کیونکہ یہوواہ اُس وفادار بندے کو پھر سے زندہ کر دے گا۔‏ (‏یوح 5:‏28،‏ 29‏)‏ لیکن شیطان کے بچنے کا تو کوئی اِمکان نہیں ہے۔‏ جب اُس کی دُنیا کو ختم کر دیا جائے گا تو اُسے 1000 سال کے لیے قید میں ڈال دیا جائے گا۔‏ (‏مکا 20:‏1-‏3‏)‏ پھر مسیح کی ہزار سالہ حکمرانی کے آخر پر شیطان کو تھوڑی دیر کے لیے ”‏قید سے چھوڑ دیا جائے گا۔‏“‏ اُس وقت تک اِنسان گُناہ سے پاک ہو چکے ہوں گے۔‏ شیطان اِن بےعیب اِنسانوں کو گمراہ کرنے کی آخری کوشش کرے گا۔‏ اِس کے بعد اُسے ہمیشہ کے لیے تباہ کر دیا جائے گا۔‏ (‏مکا 20:‏7-‏10‏)‏ شیطان کی تباہی تو یقینی ہے لیکن آپ کا مستقبل روشن ہو سکتا ہے۔‏ اِس لیے ایمان میں مضبوط ہو کر شیطان کا مقابلہ کریں۔‏ آپ اُس پر فتح پا سکتے ہیں!‏