مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

‏”‏ایمان میں قائم رہو“‏

‏”‏ایمان میں قائم رہو“‏

‏”‏ایمان میں قائم رہو۔‏ .‏ .‏ .‏ مضبوط ہو۔‏“‏—‏1-‏کُر 16:‏13‏۔‏

گیت:‏ 23،‏ 34

1.‏ ‏(‏الف)‏ گلیل کی جھیل میں طوفان کے وقت پطرس نے کیا کِیا؟‏ (‏اِس مضمون کی پہلی تصویر کو دیکھیں۔‏)‏ (‏ب)‏ پطرس ڈوبنے کیوں لگے؟‏

یہ ایک طوفانی رات تھی۔‏ پطرس اور کچھ دوسرے شاگرد گلیل کی جھیل پار کرنے کے لیے کشتی چلانے کی سخت کوشش کر رہے تھے۔‏ اچانک اُنہوں نے دیکھا کہ یسوع مسیح پانی پر چلتے ہوئے اُن کی طرف آ رہے ہیں۔‏ پطرس نے یسوع سے کہا کہ ”‏مجھے حکم دیں کہ مَیں پانی پر چل کر آپ کے پاس آؤں۔‏“‏ جب یسوع نے کہا کہ ”‏آ“‏ تو پطرس کشتی سے اُتر کر لہروں پر چلنے لگے۔‏ لیکن تھوڑی ہی دیر بعد وہ ڈوبنے لگے۔‏ ایسا کیوں ہوا؟‏ دراصل وہ طوفان کی شدت کو دیکھ کر ڈر گئے۔‏ اُنہوں نے یسوع مسیح کو مدد کے لیے پکارا اور یسوع مسیح نے اُنہیں پکڑ لیا۔‏ پھر یسوع مسیح نے کہا:‏ ”‏اَے کم اِعتقاد تُو نے کیوں شک کِیا؟‏“‏—‏متی 14:‏24-‏32‏۔‏

2.‏ اِس مضمون میں ہم کن باتوں پر غور کریں گے؟‏

2 اِس واقعے سے ہم ایمان کے حوالے سے کچھ اہم باتیں سیکھتے ہیں۔‏ آئیں،‏ اِن میں سے تین پر غور کریں۔‏ (‏1)‏ پطرس نے اِس بات پر ایمان کیسے ظاہر کِیا کہ خدا اُن کی مدد کر سکتا ہے؟‏ (‏2)‏ اُن کا ایمان کمزور کیوں ہونے لگا؟‏ اور (‏3)‏ اُن کا ایمان دوبارہ مضبوط کیسے ہوا؟‏ اِن تین باتوں پر غور کرنے سے ہم سیکھیں گے کہ ہم ”‏ایمان میں قائم“‏ کیسے رہ سکتے ہیں۔‏—‏1-‏کُر 16:‏13‏۔‏

خدا کی مدد پر ایمان

3.‏ ‏(‏الف)‏ پطرس کشتی سے کیوں اُتر پڑے؟‏ (‏ب)‏ ہم نے یہوواہ کے لیے اپنی زندگی وقف کیوں کی ہے؟‏

3 جب یسوع مسیح نے پطرس کو پانی پر چلنے کے لیے بلایا تو وہ کشتی سے اُتر پڑے۔‏ یوں اُنہوں نے یہوواہ خدا اور یسوع مسیح پر ایمان ظاہر کِیا۔‏ اُنہیں اِس بات پر یقین تھا کہ جیسے خدا کی قوت یسوع مسیح کی مدد کر رہی ہے ویسے ہی اُن کی بھی مدد کرے گی۔‏ آج یسوع مسیح نے ہمیں اپنے نقشِ‌قدم پر چلنے کے لیے بلایا ہے۔‏ ہم نے خود کو یہوواہ خدا کے لیے وقف کِیا ہے اور بپتسمہ لیا ہے۔‏ ہم نے ایسا اِس لیے کِیا ہے کیونکہ ہم یہوواہ خدا اور یسوع مسیح پر ایمان رکھتے ہیں اور ہمیں پورا یقین ہے کہ وہ ہر صورتحال میں ہماری مدد کریں گے۔‏—‏یوح 14:‏1؛‏ 1-‏پطرس 2:‏21 کو پڑھیں۔‏

4،‏ 5.‏ ایمان ایک بیش‌قیمت چیز کیوں ہے؟‏

4 ایمان بہت ہی بیش‌قیمت چیز ہے۔‏ جس طرح پطرس اپنے ایمان کی بدولت پانی پر چلنے کے قابل ہوئے اُسی طرح ہم اپنے ایمان کی بدولت وہ کام کر سکتے ہیں جو شاید ویسے ناممکن لگیں۔‏ (‏متی 21:‏21،‏ 22‏)‏ مثال کے طور پر ہمارے بہت سے بہن بھائیوں نے اپنی شخصیت اور رویے کو اِتنا بدل لیا ہے کہ اُن کے واقف‌کار اِس بدلاؤ کو دیکھ کر حیران رہ جاتے ہیں۔‏ یہوواہ نے ہمارے اِن بہن بھائیوں کی کوششوں میں برکت ڈالی کیونکہ اُنہوں نے یہوواہ خدا پر ایمان رکھنے کی وجہ سے یہ تبدیلیاں کیں ہیں۔‏ ‏(‏کُلسّیوں 3:‏5-‏10 کو پڑھیں۔‏)‏ ہم نے یہوواہ پر ایمان سے ترغیب پا کر اپنی زندگی اُس کے لیے وقف کی اور ہم اُس کے دوست بن گئے۔‏ یہوواہ سے دوستی ایک ایسا اعزاز ہے جو ہم اُس کی مدد کے بغیر حاصل نہیں کر سکتے تھے۔‏—‏اِفس 2:‏8‏۔‏

5 ہمارا ایمان ہمیں طاقت بخشتا ہے۔‏ ایمان کے  ذریعے  ہم  اپنے سب سے بڑے دُشمن اِبلیس کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔‏ (‏اِفس 6:‏16‏)‏ اِس کے علاوہ ایمان ہی کی بدولت ہم مشکل وقت میں حد سے زیادہ پریشان نہیں ہوتے۔‏ یہوواہ نے وعدہ کِیا ہے کہ اگر ہم اُس پر ایمان رکھتے ہوئے اُس کی بادشاہت کو پہلا درجہ دیں گے تو وہ ہماری ضروریات پوری کرے گا۔‏ (‏متی 6:‏30-‏34‏)‏ سب سے بڑھ کر ایمان کے ذریعے ہم ہمیشہ کی زندگی حاصل کریں گے۔‏ یہ ایک ایسا اِنعام ہے جو کوئی بھی اِنسان ذاتی کوشش سے حاصل نہیں کر سکتا۔‏—‏یوح 3:‏16‏۔‏

دھیان کا ہٹنا،‏ ایمان کا گھٹنا

6،‏ 7.‏ ‏(‏الف)‏ ہم اُس آندھی اور لہروں کو کس سے تشبیہ دے سکتے ہیں جنہیں دیکھ کر پطرس ڈر گئے تھے؟‏ (‏ب)‏ ہمیں اِس بات کو نظرانداز کیوں نہیں کرنا چاہیے کہ ہمارا ایمان کمزور ہو سکتا ہے؟‏

6 پطرس کچھ دیر پانی پر چلنے کے بعد کیوں ڈر گئے؟‏ آندھی اور اُونچی لہروں کی وجہ سے۔‏ اِنہیں اُن آزمائشوں اور مشکلوں سے تشبیہ دی جا سکتی ہے جن کا سامنا آج مسیحی کرتے ہیں۔‏ یہ مشکلیں چاہے جتنی بھی بڑی ہوں،‏ ہم یہوواہ کی مدد سے اِن پر غالب آ سکتے ہیں۔‏ یاد رکھیں کہ پطرس آندھی اور لہروں کی وجہ سے نہیں بلکہ ایمان ڈگمگا جانے کی وجہ سے ڈوبنے لگے تھے۔‏ دراصل اُن کا دھیان یسوع مسیح سے ہٹ کر طوفانی لہروں اور ہواؤں پر لگ گیا تھا۔‏ (‏متی 14:‏30‏)‏ اِسی طرح اگر ہم اپنا دھیان اپنی مشکلوں پر رکھتے ہیں تو خدا کی مدد پر ہمارا ایمان کمزور پڑ سکتا ہے۔‏

7 ہمیں اِس بات کو نظرانداز نہیں کرنا چاہیے کہ ہمارا ایمان کمزور ہو سکتا ہے۔‏ بائبل میں بتایا گیا ہے کہ ایمان کا کمزور ہونا یا بالکل ختم ہونا ایسا گُناہ ہے جو ”‏ہمیں آسانی سے اُلجھا لیتا ہے۔‏“‏ (‏عبر 12:‏1‏)‏ پطرس کی طرح اگر ہم اپنے دھیان کو بھٹکنے دیں گے تو ہمارا ایمان ڈگمگا جائے گا۔‏ لیکن ہم کیسے جان سکتے ہیں کہ ہمارا ایمان خطرے میں ہے؟‏ اِس سلسلے میں اپنا جائزہ لینے کے لیے آئیں،‏ کچھ سوالوں پر غور کریں۔‏

8.‏ خدا کے وعدوں پر ہمارا ایمان پہلے کی نسبت کمزور کیوں ہو سکتا ہے؟‏

8 کیا اب خدا کے وعدوں پر میرا ایمان کمزور پڑ گیا ہے؟‏ مثال کے طور پر خدا نے اِس بُری دُنیا کو ختم کرنے کا وعدہ کِیا ہے۔‏ یہ جانتے ہوئے بھی،‏ کیا ہم اِس دُنیا کی رنگا رنگی اور تفریح میں مگن ہو جاتے ہیں اور خدا کے وعدوں پر ہمارا ایمان کمزور ہو جاتا ہے؟‏ شاید ہم سوچنے لگتے ہیں کہ خاتمہ ابھی نزدیک نہیں ہے۔‏ (‏حبق 2:‏3‏)‏ ایک اَور مثال پر غور کریں۔‏ خدا نے مسیح کی قربانی کی بِنا پر ہمارے گُناہ معاف کرنے کا وعدہ کِیا ہے۔‏ لیکن اگر ہم اپنے ماضی کے گُناہوں کو بھولتے ہی نہیں تو شاید اِس بات پر ہمارا ایمان کمزور پڑ جائے کہ یہوواہ نے ہمارے سب گُناہ مٹا دیے ہیں۔‏ (‏اعما 3:‏19‏)‏ یوں شاید ہم اپنی خوشی کھو بیٹھیں اور خدا کی خدمت کرنا چھوڑ دیں۔‏

9.‏ اپنی خواہشات پر زیادہ دھیان دینے کا نتیجہ کیا ہو سکتا ہے؟‏

9 کیا مَیں اب بھی دل‌وجان سے خدا کی خدمت کرتا ہوں؟‏ پولُس رسول نے بتایا کہ جب ہم محنت سے یہوواہ کی خدمت کرتے ہیں تو ہمارا دھیان اُس اِنعام پر رہتا ہے جو ہمیں مستقبل میں ملے گا۔‏ لیکن اگر ہم اپنی خواہشات کو ترجیح دینے لگتے ہیں تو کیا ہو سکتا ہے؟‏ مثال کے طور پر ہم کوئی ایسی نوکری کر لیتے ہیں جس میں ہمیں تنخواہ تو زیادہ ملتی ہے مگر ہم خدا کی خدمت میں بڑھ چڑھ کر حصہ نہیں لے پاتے۔‏ اپنی خواہشات پر زیادہ دھیان دینے سے ہمارا ایمان کمزور ہو سکتا ہے اور ہم خدا کی خدمت میں ”‏سُست“‏ پڑ سکتے ہیں۔‏—‏عبر 6:‏10-‏12‏۔‏

10.‏ دوسروں کو معاف کرنے سے ہم یہوواہ پر ایمان کیسے ظاہر کرتے ہیں؟‏

10 کیا مجھے دوسروں کو معاف کرنا مشکل لگتا ہے؟‏ جب کوئی ہمیں ٹھیس پہنچاتا ہے تو شاید ہم صرف اپنے احساسات کے بارے میں سوچیں اور پھر اُس شخص کے ساتھ سختی سے پیش آئیں یا اُس سے بات کرنا چھوڑ دیں۔‏ لیکن اگر ہم اُسے معاف کر دیتے ہیں تو ہم خدا پر ایمان ظاہر کرتے ہیں۔‏ ہم ایسا کیوں کہہ سکتے ہیں؟‏ جو لوگ ہمارے خلاف گُناہ کرتے ہیں،‏ وہ ہمارے قرض‌دار ہو جاتے ہیں بالکل ویسے ہی جیسے ہم گُناہ کرنے سے خدا کے قرض‌دار ہو جاتے ہیں۔‏ (‏لُو 11:‏4‏)‏ اُنہیں معاف کرنے سے ہم اِس بات پر ایمان ظاہر کرتے ہیں کہ اِس کے بدلے میں ہمیں یہوواہ کی خوشنودی ملے گی۔‏ اور یہ بات دوسروں کو اپنی غلطی ماننے پر مجبور کرنے سے کہیں زیادہ اہم ہے۔‏ یسوع کے شاگردوں نے بھی یہ تسلیم کِیا کہ دوسروں کو معاف کرنے کے لیے ایمان کی ضرورت ہے۔‏ ایک موقعے پر یسوع نے اُنہیں بتایا کہ اگر کوئی بار بار بھی اُن کے خلاف گُناہ کرتا ہے تو اُنہیں اُسے معاف کر دینا چاہیے۔‏ اِس پر شاگردوں نے یسوع مسیح سے درخواست کی کہ ”‏ہمارے ایمان کو بڑھا۔‏“‏—‏لُو 17:‏1-‏5‏۔‏

11.‏ جب ہماری اِصلاح کی جاتی ہے تو ہمیں کیا نہیں کرنا چاہیے؟‏

11 جب میری اِصلاح کی جاتی ہے تو کیا مَیں خفا ہو جاتا ہوں؟‏ جب ہماری اِصلاح کی جاتی ہے تو شاید ہم اِصلاح میں یا اِصلاح کرنے والے میں نقص نکالیں۔‏ ایسا کرنے کی بجائے اِس بات پر غور کریں کہ آپ اِصلاح سے فائدہ کیسے حاصل کر سکتے ہیں۔‏ (‏امثا 19:‏20‏)‏ اِصلاح سے ہمیں اپنی سوچ کو یہوواہ کی سوچ کے مطابق ڈھالنے کا موقع ملتا ہے۔‏ لہٰذا اِس موقعے کو نہ گنوائیں۔‏

12.‏ کلیسیا کے ذمےدار بھائیوں پر ہمیشہ نکتہ‌چینی کرنے سے کیا ظاہر ہوتا ہے؟‏

12 کیا مَیں کلیسیا کے ذمےدار بھائیوں پر نکتہ‌چینی کرتا ہوں؟‏ جب بنی‌اِسرائیل نے دس جاسوسوں کی باتوں پر دھیان دیا تو وہ موسیٰ اور ہارون کے خلاف بڑبڑانے لگے۔‏ اِس پر یہوواہ نے موسیٰ سے کہا:‏ ”‏یہ لوگ .‏ .‏ .‏ کب تک مجھ پر ایمان نہیں لائیں گے؟‏“‏ (‏گن 14:‏2-‏4،‏ 11‏)‏ بنی‌اِسرائیل یہوواہ پر بھروسا نہیں رکھتے تھے کیونکہ وہ موسیٰ اور ہارون پر نکتہ‌چینی کر رہے تھے جنہیں خود یہوواہ نے مقرر کِیا تھا۔‏ اِسی طرح اگر ہم ہمیشہ اُن بھائیوں کے خلاف بڑبڑاتے ہیں جنہیں خدا نے کلیسیا میں ذمےداریاں سونپی ہیں تو اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہوواہ پر ہمارا ایمان کمزور پڑ گیا ہے۔‏

13.‏ اگر ہمیں اپنا ایمان کمزور ہوتا ہوا لگتا ہے تو ہمیں بےدل کیوں نہیں ہونا چاہیے؟‏

13 اگر اپنا جائزہ لینے کے بعد آپ محسوس کرتے ہیں کہ آپ کا ایمان کسی حد تک کمزور ہو گیا ہے تو بےدل نہ ہوں۔‏ یاد رکھیں کہ پطرس حالانکہ ایک رسول تھے پھر بھی وہ ڈر گئے تھے اور اُن کا ایمان ڈگمگا گیا تھا۔‏ اصل میں تو یسوع نے بعض اوقات اپنے سارے رسولوں کو ”‏کم‌اِعتقادو“‏ کہا تھا۔‏ (‏متی 16:‏8‏)‏ لیکن ہم پطرس کی مثال سے ایک بہت ہی اہم بات سیکھتے ہیں۔‏ غور کریں کہ جب وہ ڈر گئے اور ڈوبنے لگے تو پھر اُنہوں نے کیا کِیا۔‏

ایمان کو مضبوط رکھنے کے لیے یسوع کو تکتے رہیں

14،‏ 15.‏ ‏(‏الف)‏ جب پطرس ڈوبنے لگے تو اُنہوں نے کیا کِیا؟‏ (‏ب)‏ ہم کیسے یسوع کو ”‏تکتے“‏ رہ سکتے ہیں؟‏

14 جب پطرس آندھی سے ڈر کر ڈوبنے لگے تو وہ خود سے  کوشش کر کے کشتی کی طرف لوٹ سکتے تھے کیونکہ وہ اچھی طرح تیرنا جانتے تھے۔‏ (‏یوح 21:‏7‏)‏ لیکن خود پر بھروسا کرنے کی بجائے اُنہوں نے اپنا دھیان یسوع مسیح کی طرف پھیرا اور اُن سے مدد لی۔‏ اگر ہمیں لگتا ہے کہ ہمارا ایمان کمزور پڑ رہا ہے تو ہمیں پطرس کی مثال پر عمل کرنا چاہیے۔‏ لیکن ہم ایسا کیسے کر سکتے ہیں؟‏

15 جس طرح پطرس نے اپنا دھیان یسوع مسیح کی طرف پھیرا اُسی طرح ہمیں بھی ”‏ایمان کے بانی اور کامل کرنے والے یسوؔع کو تکتے“‏ رہنا چاہیے۔‏ ‏(‏عبرانیوں 12:‏2،‏ 3 کو پڑھیں۔‏)‏ ہم پطرس کی طرح یسوع کو حقیقی معنوں میں تو نہیں دیکھ سکتے۔‏ لیکن ہم اُن کی باتوں اور کاموں کا جائزہ لینے سے اور اُن کی مثال پر عمل کرنے سے اُنہیں ”‏تکتے“‏ رہ سکتے ہیں۔‏ ایسا کرنے سے ہمیں اپنا ایمان مضبوط کرنے میں مدد ملے گی۔‏ آئیں،‏ ہم یسوع کی مثال پر عمل کرنے کے چند طریقوں پر غور کریں۔‏

یسوع کو تکتے رہنے اور اُن کے نقشِ‌قدم پر چلنے سے ہمارا ایمان مضبوط رہے گا۔‏ (‏پیراگراف 15 کو دیکھیں۔‏)‏

16.‏ بائبل کا مطالعہ ہمارے ایمان کو مضبوط کیسے کر سکتا ہے؟‏

16 بائبل پر اپنا ایمان مضبوط کریں۔‏ یسوع کو پورا یقین تھا کہ بائبل خدا کا کلام ہے جس میں سب سے بہترین صلاح پائی جاتی ہے۔‏ (‏یوح 17:‏17‏)‏ ہمیں یسوع کی طرح بائبل کو ہر روز پڑھنا چاہیے،‏ اِس پر سوچ بچار کرنا چاہیے اور تحقیق کرنی چاہیے۔‏ ہمیں پاک کلام سے اپنے سوالوں کے جواب بھی تلاش کرنے چاہئیں۔‏ مثال کے طور پر کیا آپ کو پورا یقین ہے کہ ہم آخری زمانے میں رہ رہے ہیں؟‏ اِس بات پر اپنا یقین مضبوط کرنے کے لیے کیوں نہ آپ آخری زمانے کے بارے میں پیش‌گوئیوں کا مطالعہ کریں؟‏ کیا آپ مستقبل کے بارے میں خدا کے وعدوں پر اپنا ایمان اَور مضبوط کرنا چاہتے ہیں؟‏ تو پھر اُن پیش‌گوئیوں پر غور کریں جو پوری ہو چکی ہیں۔‏ یہ سمجھنے کے لیے کہ بائبل کے اصول کتنے فائدہ‌مند ہیں،‏ اُن بہن بھائیوں کی آپ‌بیتیاں پڑھیں جنہوں نے اِن اصولوں پر عمل کرنے سے اپنی زندگیاں سنوار لی ہیں۔‏ *‏—‏1-‏تھس 2:‏13‏۔‏

17.‏ یسوع مسیح مشکلات کے باوجود وفادار کیوں رہے اور ہم اُن کی مثال پر کیسے عمل کر سکتے ہیں؟‏

17 اُن برکتوں پر دھیان رکھیں جو یہوواہ دینے والا ہے۔‏ یسوع مسیح کڑی آزمائشوں میں بھی خدا کے وفادار رہے کیونکہ اُن کا دھیان ’‏اُس خوشی پر تھا جو اُن کی نظروں کے سامنے تھی۔‏‘‏ (‏عبر 12:‏2‏)‏ دُنیا کی چیزوں کی وجہ سے اُن کی توجہ کبھی بھی خدا کی خدمت سے نہیں ہٹی تھی۔‏ (‏متی 4:‏8-‏10‏)‏ جو شان‌دار وعدے یہوواہ نے آپ سے کیے ہیں،‏ اُن پر غور کرنے سے آپ یسوع کی مثال پر عمل کر سکتے ہیں۔‏ تصور کریں کہ آپ نئی دُنیا میں ہیں۔‏ اُن کاموں کو لکھیں یا اُن کی تصویر بنائیں جو آپ فردوس میں کرنا چاہیں گے۔‏ یا ماضی کے اُن وفادار خادموں کی فہرست بنائیں جن سے آپ ملنا چاہیں گے اور یہ بھی لکھیں کہ آپ اُن سے کیا پوچھنا چاہیں گے۔‏ یہ سوچیں کہ یہ وعدے  نہ صرف سب اِنسانوں سے بلکہ ذاتی طور پر آپ سے کیے گئے ہیں۔‏

18.‏ ایمان کو مضبوط کرنے میں دُعا کیا کردار ادا کرتی ہے؟‏

18 خدا سے دُعا کریں کہ وہ آپ کے ایمان کو بڑھائے۔‏ یسوع مسیح نے اپنے شاگردوں کو سکھایا کہ وہ یہوواہ خدا سے پاک روح مانگیں۔‏ (‏لُو 11:‏9،‏ 13‏)‏ پاک روح مانگتے وقت خدا سے یہ درخواست بھی کریں کہ وہ آپ کے ایمان کو بڑھائے کیونکہ یہ روحُ‌القدس کے پھل کا ایک پہلو ہے۔‏ دُعا میں یہوواہ کو صاف طور پر بتائیں کہ آپ کو کس معاملے میں مدد کی ضرورت ہے۔‏ مثال کے طور پر دوسروں کو معاف نہ کرنا ایمان کے کمزور ہونے کا نشان ہے۔‏ لہٰذا اگر آپ دوسروں کو معاف کرنا مشکل پاتے ہیں تو یہوواہ سے دُعا کریں کہ وہ آپ کو دوسروں کو معاف کرنے کی توفیق دے اور یوں آپ کے ایمان کو بڑھائے۔‏

19.‏ ہمیں کیسے لوگوں سے دوستی کرنی چاہیے؟‏

19 مضبوط ایمان والوں سے دوستی کریں۔‏ یسوع مسیح نے اپنے دوستوں کا اِنتخاب بڑی احتیاط سے کِیا تھا۔‏ اُن کے قریبی دوستوں یعنی رسولوں نے اُن کے حکموں پر عمل کر کے ظاہر کِیا کہ وہ مضبوط ایمان رکھتے ہیں اور وفادار ہیں۔‏ ‏(‏یوحنا 15:‏14،‏ 15 کو پڑھیں۔‏)‏ یسوع کی طرح آپ بھی دوستوں کا اِنتخاب احتیاط سے کریں۔‏ اُنہیں مضبوط ایمان والے اور یسوع کے وفادار ہونا چاہیے۔‏ سچے دوست ایک دوسرے کے ساتھ کُھل کر بات کرتے ہیں۔‏ وہ ضرورت پڑنے پر نہ صرف ایک دوسرے کی اِصلاح کرتے ہیں بلکہ اِصلاح کو قبول بھی کرتے ہیں۔‏—‏امثا 27:‏9‏۔‏

20.‏ جب ہم ایمان کو مضبوط کرنے میں دوسروں کی مدد کرتے ہیں تو ہمیں اِس کا کیا فائدہ ہوتا ہے؟‏

20 ایمان کو مضبوط کرنے میں دوسروں کی مدد کریں۔‏ یسوع نے اپنی باتوں اور کاموں سے اپنے شاگردوں کے ایمان کو مضبوط کِیا۔‏ (‏مر 11:‏20-‏24‏)‏ ہمیں مسیح کی مثال پر عمل کرنا چاہیے۔‏ جب ہم ایمان کو مضبوط کرنے میں دوسروں کی مدد کرتے ہیں تو ہمارا اپنا ایمان بھی مضبوط ہوتا ہے۔‏ (‏امثا 11:‏25‏)‏ مُنادی کے دوران اور لوگوں کو تعلیم دیتے وقت اِس بات کے ثبوت پیش کریں کہ خدا موجود ہے؛‏ وہ اِنسانوں سے پیار کرتا ہے اور بائبل اُس کا کلام ہے۔‏ کلیسیا میں اپنے بہن بھائیوں کی بھی مدد کریں تاکہ اُن کا ایمان مضبوط رہے۔‏ اگر کوئی بہن یا بھائی ذمےدار بھائیوں پر نکتہ‌چینی کرنے لگتا ہے تو اُس سے میل جول رکھنا بند نہ کریں بلکہ پیار اور سمجھ‌داری سے اُس کی مدد کریں تاکہ وہ اپنا ایمان مضبوط کرنے کے لیے مناسب قدم اُٹھا سکے۔‏ (‏یہوداہ 22،‏ 23‏)‏ اگر آپ سکول میں پڑھتے ہیں اور آپ کا ٹیچر اِرتقا کے بارے میں بات کرتا ہے تو دلیری سے بتائیں کہ آپ تخلیق پر ایمان کیوں رکھتے ہیں۔‏ آپ کی بات کا آپ کے ٹیچر اور ہم‌جماعتوں پر شاید اِتنا اچھا اثر ہو کہ آپ نے کبھی سوچا بھی نہ ہو۔‏

21.‏ یہوواہ نے ہم سے کیا وعدہ کِیا ہے؟‏

21 یہوواہ اور یسوع مسیح کی مدد سے پطرس اپنے  ڈر  اور  خدشات پر غالب آئے۔‏ بعد میں پطرس تمام مسیحیوں کے لیے مضبوط ایمان کی زندہ مثال بن گئے۔‏ یہوواہ نے ہم سے بھی وعدہ کِیا ہے کہ وہ ایمان میں قائم رہنے میں ہماری مدد کرے گا۔‏ ‏(‏1-‏پطرس 5:‏9،‏ 10 کو پڑھیں۔‏)‏ یہ سچ ہے کہ ایمان کو مضبوط رکھنے کے لیے محنت درکار ہے لیکن اِس کا اجر ہماری سوچ سے بھی بڑھ کر ہے۔‏

^ پیراگراف 16 اِس سلسلے میں مینارِنگہبانی کے عوامی ایڈیشن میں شائع ہونے والے مضامین کے سلسلے ”‏پاک کلام کی تعلیم زندگی سنوارتی ہے“‏ کو پڑھیں۔‏