مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

جب مسیحیوں کا واسطہ سرکاری ملا‌زموں سے پڑتا ہے تو اُنہیں بائبل کے  اصولوں پر عمل کرنا چاہیے تاکہ اُن کا  ضمیر صاف رہے۔‏

قارئین کے سوال

قارئین کے سوال

مسیحی اِس بات کا اندازہ کیسے لگا سکتے ہیں کہ آیا سرکاری ملا‌زموں کو تحفہ یا بخشش دینا جائز ہے یا نہیں؟‏

اِس سلسلے میں کچھ باتوں پر غور کریں۔‏ مسیحیوں کو ایمان‌دار ہونا  چاہیے۔‏ اُنہیں اپنے ملک کے قوانین کی پابندی کرنی چاہیے بشرطیکہ یہ یہوواہ کے حکموں کے خلا‌ف نہ ہوں۔‏ (‏متی 22:‏21؛‏ روم 13:‏1،‏ 2؛‏ عبر 13:‏18‏)‏ اُنہیں مقامی طورطریقوں کو بھی مدِنظر رکھنا چاہیے اور ’‏اپنے پڑوسی سے اُسی طرح محبت کرنی چاہیے جس طرح وہ اپنے آپ سے کرتے ہیں۔‏‘‏ (‏متی 22:‏39؛‏ روم 12:‏17،‏ 18؛‏ 1-‏تھس 4:‏11،‏ 12‏)‏ ہر ملک میں صورتحال فرق ہوتی ہے۔‏ لیکن بائبل کے یہ اصول اُس وقت مسیحیوں کے کام آ سکتے ہیں جب سرکاری ملا‌زموں کو تحفہ یا بخشش دینے کی بات آتی ہے۔‏

بہت سے ملکوں میں سرکاری ملا‌زم لوگوں کا کام کرنے کے لیے بخشش یا تحفے کی توقع نہیں کرتے۔‏ ایسے ملکوں میں اگر کوئی سرکاری ملا‌زم اپنی ذمےداری پوری کرنے کے لیے اپنے لیے کچھ مانگتا ہے تو وہ غیرقانونی کام کرتا ہے۔‏ اور جو شخص بخشش یا تحفہ دیتا ہے،‏ وہ رشوت دیتا ہے،‏ چاہے وہ سرکاری ملا‌زم سے قانونی کام کرائے یا غیرقانونی۔‏ ایسے ملکوں میں ایک مسیحی کسی بھی صورت میں سرکاری ملا‌زموں کو بخشش یا تحفہ نہیں دے گا کیونکہ یہ رشوت دینے کے برابر ہے۔‏

لیکن کچھ ملکوں میں سرکاری ملا‌زموں کو تحفہ یا بخشش دینے  کے  خلا‌ف کوئی قانون نہیں ہے اور اگر ہے بھی تو حکومت اِس کی پابندی نہیں کرواتی۔‏ لہٰذا سرکاری ملا‌زم اپنے اِختیار سے فائدہ اُٹھاتے ہیں اور اُس وقت تک لوگوں کے لیے کوئی کام نہیں کرتے جب تک اُن کی جیبیں گرم نہ کی جائیں۔‏ وہ شادی رجسٹر کرنے،‏ ٹیکس وصول کرنے،‏ تعمیراتی منصوبوں کی منظوری دینے اور دوسرے کاموں کے لیے فیس کے علا‌وہ پیسے بٹورتے ہیں۔‏ اگر اُن کو پیسے نہ دیے جائیں تو وہ لوگوں کے لیے مشکلیں کھڑی کر دیتے ہیں اور اُن کا کام نہیں کرتے۔‏ یوں لوگوں کو وہ خدمات نہیں ملتیں جو اُن کا حق ہوتی ہیں۔‏ ایک ملک میں تو آگ بجھانے والا عملہ آگ لگنے کی صورت میں  اُس  وقت  تک  کوئی  کارروائی نہیں کرتا جب تک اُسے بھاری رقم نہ دی جائے۔‏

کچھ صورتحال میں کسی خدمت‌کے لیے اپنی شکرگزاری ظاہر کرنے کے لیے ایک چھوٹا سا تحفہ دینا غلط نہیں ہوتا۔‏

جن ملکوں میں یہ صورتحال پائی جاتی ہے،‏ وہاں کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ وہ سرکاری ملا‌زموں کو بخشش دیے بغیر اپنا کام نہیں کروا سکتے۔‏ ایسی صورت میں کچھ مسیحی اِس بخشش کو اِضافی فیس خیال کرتے ہیں جس کے ذریعے وہ ایسی خدمات حاصل کر سکتے ہیں جو اُن کا قانونی حق ہیں۔‏ لیکن جہاں رشوت‌خوری عام ہوتی ہے،‏ وہاں مسیحیوں کو محتاط رہنا چاہیے کہ وہ کوئی ایسا کام نہ کریں جو یہوواہ خدا کی نظر میں ناجائز ہو۔‏ کسی سرکاری ملا‌زم کو بخشش دے کر اپنا قانونی حق حاصل کرنے یا کوئی غیرقانونی کام کروانے میں بڑا فرق ہوتا ہے۔‏ کچھ لوگ سرکاری ملا‌زموں کی مٹھی گرم کر کے اُن سے کوئی ایسی خدمت وصول کرتے ہیں جن پر اُن کا حق نہیں ہے یا پھر وہ جُرمانے سے بچنے کے لیے کسی پولیس افسر یا سرکاری اِنسپکٹر کو بخشش دیتے ہیں۔‏ یہ رشوت دینے کے برابر ہوتا ہے اور اُتنا ہی غلط ہے جتنا کہ رشوت لینا۔‏—‏خر 23:‏8؛‏ اِست 16:‏19؛‏ امثا 17:‏23‏۔‏

زیادہ‌تر پُختہ مسیحیوں کا ضمیر اُنہیں یہ اِجازت  نہیں دیتا کہ  وہ  سرکاری ملا‌زموں کو کوئی تحفہ یا بخشش دیں۔‏ اُنہیں لگتا ہے کہ ایسا کرنے سے وہ رشوت‌خوری کو فروغ دے رہے ہوں گے۔‏ اِس لیے وہ سرکاری ملا‌زمین کو کسی طرح کا تحفہ یا بخشش نہیں دیتے۔‏

کوئی غیرقانونی کام کروانے کے لیے بخشش دینا  دراصل  رشوت  دینے کے برابر ہوتا ہے۔‏ لیکن مقامی طورطریقوں کو مدِنظر رکھ کر کچھ پُختہ مسیحی کسی خدمت کے لیے شکرگزاری ظاہر کرنے کے لیے ایک چھوٹا سا تحفہ دینے کو غلط خیال نہیں کرتے۔‏ یا پھر کچھ مسیحی کسی سرکاری ہسپتال میں مُفت علا‌ج کرانے کے بعد شاید وہاں کے ڈاکٹروں اور نرسوں کا شکریہ ادا کرنے کے لیے اُنہیں تحفے دینے کا فیصلہ کریں۔‏ مگر وہ علا‌ج مکمل ہونے کے بعد ہی ایسا کرتے ہیں تاکہ یہ نہ لگے کہ وہ زیادہ اچھی دیکھ‌بھال کرانے کی خاطر رشوت دے رہے ہیں۔‏

اِس مضمون میں ہر طرح کی صورتحال اور ہر ملک کے طورطریقوں کا ذکر کرنا ناممکن ہے۔‏ لیکن چاہے مقامی صورتحال اور طورطریقے کچھ بھی ہوں،‏ مسیحیوں کو ہمیشہ وہ راہ اِختیار کرنی چاہیے جس سے اُن کا ضمیر صاف رہے۔‏ (‏روم 14:‏1-‏6‏)‏ اُنہیں کوئی غیرقانونی کام نہیں کرنا چاہیے۔‏ (‏روم 13:‏1-‏7‏)‏ اُنہیں کوئی ایسا کام بھی نہیں کرنا چاہیے جس سے یہوواہ خدا کی بدنامی ہو یا بہن بھائیوں کے ضمیر کو ٹھیس پہنچے۔‏ (‏متی 6:‏9؛‏ 1-‏کُر 10:‏32‏)‏ اور اُن کے تمام کاموں  سے  ظاہر ہونا چاہیے کہ وہ اپنے پڑوسی سے محبت کرتے ہیں۔‏—‏مر 12:‏31‏۔‏

جب اِس بات کا اِعلا‌ن کِیا جاتا ہے کہ ایک خارج‌شُدہ شخص دوبارہ سے کلیسیا کا رُکن بن گیا ہے تو کلیسیا اپنی خوشی کا اِظہار کیسے کر سکتی ہے؟‏

لُوقا 15 باب میں یسوع مسیح نے ایک آدمی کی مثال دی جس کے پاس 100 بھیڑیں تھیں۔‏ جب اُن میں سے ایک گم ہو گئی تو آدمی 99 بھیڑوں کو چھوڑ کر اُسے اُس وقت تک تلا‌ش کرتا رہا جب تک وہ اُسے مل نہ گئی۔‏ جب آدمی کو بھیڑ مل گئی تو اُس نے اُسے کندھے پر اُٹھایا اور بہت خوش ہوا۔‏ گھر پہنچتے ہی اُس نے اپنے دوستوں اور پڑوسیوں کو بلا‌یا اور اُن سے کہا:‏ ”‏میرے ساتھ خوشی مناؤ کیونکہ میری جو بھیڑ گم ہو گئی تھی،‏ وہ مل گئی ہے۔‏“‏ یہ مثال دینے کے بعد یسوع مسیح نے کہا:‏ ”‏مَیں آپ سے کہتا ہوں کہ اِسی طرح 99 (‏ننانوے)‏ نیک لوگوں کے لیے جنہیں توبہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے،‏ آسمان میں اِتنی خوشی نہیں منائی جاتی جتنی کہ ایک گُناہ‌گار کے توبہ کرنے پر۔‏“‏—‏لُو 15:‏4-‏7‏۔‏

یسوع مسیح نے یہ مثال شریعت کے عالموں اور فریسیوں کی سوچ کو درست کرنے کے لیے دی جنہیں اِس بات پر اِعتراض تھا کہ یسوع ٹیکس وصول کرنے والوں اور گُناہ‌گاروں کے ساتھ میل جول رکھتے ہیں۔‏ (‏لُو 15:‏1-‏3‏)‏ یسوع مسیح نے اُن کو بتایا کہ جب ایک گُناہ‌گار شخص توبہ کرتا ہے تو آسمان میں خوشی منائی جاتی ہے۔‏ اگر ایسا ہے تو پھر کیا یہ مناسب نہیں کہ زمین پر بھی اُس وقت خوشی منائی جائے جب ایک گُناہ‌گار شخص توبہ کر کے دوبارہ سے سیدھی راہ پر چلنے لگتا ہے؟‏—‏عبر 12:‏13‏۔‏

جب ایک خارج‌شُدہ شخص دوبارہ سے کلیسیا کا رُکن بن جاتا ہے تو یہ واقعی خوشی کی بات ہوتی ہے۔‏ ظاہری بات ہے کہ اُسے آئندہ یہوواہ کا وفادار رہنا پڑے گا۔‏ لیکن اُس نے اپنے گُناہ سے توبہ کر لی ہے۔‏ لہٰذا جب کلیسیا میں اِعلا‌ن کِیا جاتا ہے کہ وہ دوبارہ سے کلیسیا کا رُکن بن گیا ہے تو یہ غلط نہیں ہوگا کہ بہن بھائی تالیاں بجا کر اپنی خوشی کا اِظہار کریں۔‏

یروشلیم کے تالاب،‏ بیت‌زاتا کا پانی کیوں ہلتا تھا؟‏

یسوع مسیح کے زمانے میں یروشلیم کے کچھ باشندوں کا خیال تھا کہ جب بیت‌زاتا کا ”‏پانی ہلتا“‏ تھا تو اِس میں شفا ہوتی تھی۔‏ (‏یوح 5:‏​1-‏7‏)‏ اِس لیے بہت سے لوگ شفا پانے کے لیے وہاں جمع ہوتے تھے۔‏

خیال کِیا جاتا ہے کہ یہودی بیت‌زاتا تالاب کو  طہارت  کے  لیے اِستعمال کِیا کرتے تھے۔‏ اُسی احاطے میں ایک بہت بڑا حوض بھی تھا جو بیت‌زاتا تالاب سے تھوڑی اُونچائی پر واقع تھا۔‏ ماہرِآثارِقدیمہ نے حوض اور تالاب کے بیچ میں ایک نالی دریافت کی ہے جو اِن دونوں کو جوڑتی تھی۔‏ عام طور پر یہ نالی بند رہتی تھی لیکن جب بیت‌زاتا تالاب میں پانی کم ہو جاتا تھا تو نالی کو کھول  کر  حوض سے اِس میں پانی بھرا جاتا تھا۔‏ اِس کے نتیجے میں پانی ہلنے لگتا تھا۔‏

بائبل کے کچھ ترجموں میں یوحنا 5:‏4 میں لکھا ہے کہ فرشتہ بیت‌زاتا کا پانی  ہلا‌تا تھا۔‏ لیکن یہ آیت کئی ایسے قدیم یونانی نسخوں میں نہیں پائی جاتی جنہیں  قابلِ‌بھروسا خیال کِیا جاتا ہے،‏ مثلاً چوتھی صدی عیسوی کے کوڈیکس سائنےٹیکس میں۔‏ البتہ جس آدمی کو یسوع مسیح نے بیت‌زاتا پر شفا دی،‏ وہ  تالاب میں اُترے بغیر ہی فوراً ٹھیک ہو گیا حالانکہ وہ 38 سال سے بیمار  تھا۔‏