مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

وہ بابلِ‌عظیم کی گِرفت سے آزاد ہو گئے

وہ بابلِ‌عظیم کی گِرفت سے آزاد ہو گئے

‏”‏اَے میرے بندو،‏ اُس میں سے نکل آؤ!‏“‏‏—‏مکا 18:‏4‏۔‏

گیت:‏ 10،‏  17

1.‏ ‏(‏الف)‏ خدا کے بندے بابلِ‌عظیم کے قبضے سے آزاد ہونے کی اُمید کیوں رکھ سکتے تھے؟‏ (‏ب)‏ ہم کن سوالوں پر غور کریں گے؟‏

پچھلے مضمون میں ہم نے دیکھا کہ مسح‌شُدہ مسیحی بابلِ‌عظیم کے قبضے میں کیسے آئے۔‏ خوشی کی بات ہے کہ وہ بابلِ‌عظیم کے قبضے سے آزاد ہونے کی اُمید رکھ سکتے تھے۔‏ ہم یہ کیوں کہہ سکتے ہیں؟‏ کیونکہ خدا نے اپنے بندوں کو یہ حکم دیا تھا:‏ ”‏اَے میرے بندو،‏ اُس میں سے نکل آؤ!‏“‏ ذرا سوچیں،‏ اگر بابلِ‌عظیم کے قبضے سے نکلنا ممکن نہ ہوتا تو خدا ایسا حکم کیوں دیتا؟‏ ‏(‏مکا‌شفہ 18:‏4 کو پڑھیں۔‏)‏ آئیں،‏ دیکھیں کہ خدا کے بندے بابلِ‌عظیم کے قبضے سے کب آزاد ہوئے۔‏ لیکن اِس سے پہلے ہم اِن سوالوں پر غور کریں گے:‏ 1914ء سے پہلے بائبل سٹوڈنٹس جھوٹے مذاہب کے بارے میں کیا نظریہ رکھتے تھے؟‏ کیا پہلی عالمی جنگ کے دوران مُنادی کے کام میں ہمارے بھائیوں کا جوش ٹھنڈا پڑ گیا تھا؟‏ کیا وہ اِس لیے بابلِ‌عظیم کے قبضے میں تھے کیونکہ خدا اُن کی اِصلا‌ح کرنا چاہتا تھا؟‏

‏”‏بابلِ‌عظیم نے شکست کھائی!‏“‏

2.‏ جھوٹے مذاہب کے بارے میں بائبل سٹوڈنٹس کا نظریہ کیا تھا؟‏

2 پہلی عالمی جنگ سے پہلے کی دہائیوں میں چارلس ٹیز رسل اور اُن کے ساتھیوں نے دیکھا کہ کوئی بھی مسیحی فرقہ سچائی نہیں سکھا رہا ہے۔‏ اِس لیے اُنہوں نے اِن سے تعلق توڑنے کا عزم کِیا۔‏ اُنہوں نے نومبر 1879ء کے زائنز واچ‌ٹاور میں صاف صاف لکھا:‏ ”‏اگر کوئی چرچ ایک پاکیزہ کنواری یعنی مسیح کی دُلہن ہونے کا دعویٰ کرتا ہے لیکن حقیقت میں اُس کو دُنیا (‏یعنی وحشی درندے)‏ کی حمایت حاصل ہے اور وہ اِس سے تعلقات رکھتا ہے تو ہم اِسے بائبل کی زبان میں فاحشہ کہیں گے۔‏“‏ اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بائبل سٹوڈنٹس اُس زمانے میں بھی اِن فرقوں کو بابلِ‌عظیم کا حصہ سمجھتے تھے۔‏‏—‏مکا‌شفہ 17:‏1،‏ 2 کو پڑھیں۔‏

3.‏ بائبل سٹوڈنٹس نے کیسے ظاہر کِیا کہ وہ بابلِ‌عظیم سے نکل آنے کی اہمیت سمجھ گئے تھے؟‏ (‏اِس مضمون کی پہلی تصویر کو دیکھیں۔‏)‏

3 مسح‌شُدہ مسیحی جانتے تھے کہ اگر وہ جھوٹے مذاہب سے تعلق نہیں توڑیں گے تو اُنہیں یہوواہ کی خوشنودی نہیں ملے گی۔‏ اِس لیے بہت سے بائبل سٹوڈنٹس نے اپنے چرچ کو ایسے خط لکھے جن میں اُنہوں نے اِس کا رُکن ہونے سے اِنکا‌ر کر دیا۔‏ کچھ بہن بھائیوں نے تو یہ خط عبادت کے دوران چرچ میں سب کو پڑھ کر سنائے۔‏ اور جن چرچوں میں اُنہیں ایسا کرنے کی اِجازت نہیں ملی،‏ وہاں کچھ بہن بھائیوں نے چرچ کے ہر رُکن کو اِس خط کی ایک ایک کاپی بھیجی۔‏ اِس طرح اُنہوں نے ثابت کر دیا کہ اُنہوں نے جھوٹے مذہب سے ہر ناتا توڑ لیا ہے۔‏ اُنیسویں صدی سے پہلے ایسا کرنا بہت خطرناک ہوتا لیکن اُس وقت صورتحال بدل چُکی تھی۔‏ بہت سے ملکوں میں حکومتیں چرچ کی اِتنی حمایت نہیں کر رہی تھیں جتنی وہ پہلے کِیا کرتی تھیں۔‏ اِن ملکوں کے باشندے بغیر روک‌ٹوک کے مذہبی معاملوں کے بارے میں بات‌چیت کر سکتے تھے اور چرچ کے خلا‌ف آواز اُٹھا سکتے تھے۔‏

4.‏ پہلی عالمی جنگ کے دوران بائبل سٹوڈنٹس نے بابلِ‌عظیم کے ساتھ کیسا رویہ اپنایا اور اِس سے ہم کیا نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں؟‏

4 بائبل سٹوڈنٹس نے اپنے رشتےداروں،‏ قریبی دوستوں اور چرچ کے رُکنوں کو بتا دیا کہ اُنہوں نے جھوٹے مذہب سے تعلق توڑ لیا ہے۔‏ لیکن وہ جانتے تھے کہ یہ کافی نہیں تھا بلکہ پوری دُنیا کو جاننے کی ضرورت تھی کہ بابلِ‌عظیم ایک فاحشہ ہے۔‏ اِس لیے بائبل سٹوڈنٹس نے دسمبر 1917ء سے 1918ء کے پہلے چند مہینوں تک ایک مہم چلا‌ئی جس میں اُنہوں نے پرچہ ”‏بابلِ‌عظیم نے شکست کھائی!‏“‏ کی 1 کروڑ کاپیاں تقسیم کیں۔‏ اِس پرچے میں جھوٹے مسیحی مذہب کا پردہ فاش کِیا گیا تھا۔‏ اِس پر پادری آگبگولا ہو گئے۔‏ لیکن ہمارے بہن بھائیوں نے بڑی دلیری سے اپنا کام جاری رکھا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ ”‏خدا کا کہنا ماننا اِنسانوں کا کہنا ماننے سے زیادہ ضروری ہے۔‏“‏ (‏اعما 5:‏29‏)‏ اِن باتوں سے ہم کیا نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں؟‏ یہ کہ مسح‌شُدہ مسیحی پہلی عالمی جنگ کے دوران بابلِ‌عظیم کے قبضے میں نہیں آئے۔‏ اُس وقت تو وہ اِس کی گِرفت سے آزاد ہو رہے تھے اور اِس کے قبضے سے نکلنے میں دوسروں کی بھی مدد کر رہے تھے۔‏

پہلی عالمی جنگ کے دوران مسح‌شُدہ مسیحیوں کا جوش

5.‏ ہم کیسے جانتے ہیں کہ پہلی عالمی جنگ کے دوران یہوواہ کے زیادہ‌تر بندے بڑھ چڑھ کر خوش‌خبری سنا رہے تھے؟‏

5 پہلے ہمارا خیال تھا کہ پہلی عالمی جنگ (‏1914ء-‏1918ء)‏ کے دوران مُنادی کے کام میں مسح‌شُدہ مسیحیوں کا جوش ٹھنڈا پڑ گیا تھا اِس لیے یہوواہ خدا اُن سے ناراض تھا اور اُن کو تھوڑے عرصے کے لیے بابلِ‌عظیم کے قبضے میں پڑنے دیا۔‏ لیکن جو بہن بھائی پہلی عالمی جنگ کے دوران خدا کی خدمت کر رہے تھے،‏ اُنہوں نے بتایا کہ اُس زمانے میں یہوواہ کے زیادہ‌تر بندے بڑھ چڑھ کر خوش‌خبری سنا رہے تھے۔‏ اور اِس بات کے بہت سے ثبوت بھی ہیں۔‏ جوں‌جوں ہم یہوواہ کے بندوں کی تاریخ سے بہتر طور پر واقف ہو رہے ہیں،‏ ہم کچھ ایسے واقعات کو بھی بہتر طور پر سمجھ رہے ہیں جن کا بائبل میں ذکر ہے۔‏

6،‏ 7.‏ ‏(‏الف)‏ بائبل سٹوڈنٹس نے پہلی عالمی جنگ کے دوران کن مشکلوں کا سامنا کِیا؟‏ (‏ب)‏ اِس بات کے کیا ثبوت ہیں کہ بائبل سٹوڈنٹس واقعی بڑھ چڑھ کر مُنادی کر رہے تھے؟‏

6 سچ تو یہ ہے کہ بائبل سٹوڈنٹس نے پہلی عالمی جنگ کے دوران بہت بڑے پیمانے پر گواہی دی۔‏ ایسا کرنا اُن کے لیے آسان نہیں تھا۔‏ آئیں،‏ اِس کی دو وجوہات پر غور کریں۔‏ پہلی وجہ یہ تھی کہ حکومت نے اُن کی کتاب دی فِنشڈ مِسٹری پر پابندی عائد کر دی تھی۔‏ اُس زمانے میں بہن بھائی مُنادی میں لوگوں سے بائبل پر بات‌چیت کرنے کے عادی نہیں تھے بلکہ وہ بس مطبوعات کو پیش کرتے تھے۔‏ اِس لیے اِس پابندی سے اُن کے لیے بہت بڑی مشکل کھڑی ہو گئی۔‏ دوسری وجہ یہ تھی کہ 1918ء میں سپینش فلو نامی جان‌لیوا وبا تیزی سے پھیل رہی تھی جس کی وجہ سے ایک جگہ سے دوسری جگہ سفر کرنا بہت مشکل ہو گیا۔‏ لیکن اِن تمام مشکلا‌ت کے باوجود بائبل سٹوڈنٹس نے مُنادی کے کام کو جاری رکھا۔‏

بائبل سٹوڈنٹس نے بڑے جوش‌وجذبے سے گواہی دی۔‏ (‏پیراگراف 6 اور 7 کو دیکھیں۔‏)‏

7 حالانکہ بائبل سٹوڈنٹس کی تعداد صرف چند ہزار تھی لیکن 1914ء میں اُنہوں نے 90 لاکھ لوگوں کو ”‏فوٹو ڈرامہ آف کریئیشن“‏ دِکھایا۔‏ ”‏فوٹو ڈرامہ“‏ میں فلموں اور سلا‌ئیڈز کو آڈیو ریکا‌رڈنگز کے ساتھ پیش کِیا گیا اور بائبل کی روشنی میں اِنسانی تاریخ کے بارے میں بتایا گیا۔‏ خاموش فلموں کے دَور میں ”‏فوٹو ڈرامہ“‏ واقعی ایک بہت بڑا کارنامہ تھا!‏ 1914ء میں اِس کو دیکھنے والوں کی تعداد یہوواہ کے گواہوں کی حالیہ کُل تعداد سے بھی زیادہ تھی۔‏ اُس زمانے کی رپورٹوں سے پتہ چلتا ہے کہ ریاستہائے متحدہ امریکہ میں 1916ء میں 8 لاکھ 9393 لوگ بائبل سٹوڈنٹس کے عوامی اِجلا‌سوں پر آئے اور 1918ء میں اِن لوگوں کی تعداد 9 لاکھ 49 ہزار 444 ہو گئی۔‏ اِن باتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ بائبل سٹوڈنٹس واقعی بڑھ چڑھ کر مُنادی کر رہے تھے۔‏

8.‏ پہلی عالمی جنگ کے دوران بائبل سٹوڈنٹس کو روحانی کھانا کیسے فراہم کِیا گیا؟‏

8 پہلی عالمی جنگ کے دوران ذمےدار بھائیوں نے تمام بائبل سٹوڈنٹس کو روحانی کھانا فراہم کرنے اور اُن کی حوصلہ‌افزائی کرنے کی ہر ممکن کوشش کی۔‏ یوں بہن بھائیوں کو مُنادی کے کام کو جاری رکھنے کی ہمت ملی۔‏ رچرڈ باربر جو اُس مشکل وقت میں خدا کی خدمت کر رہے تھے،‏ اُنہوں نے کہا:‏ ”‏ہم کچھ سفری نگہبانوں کو کلیسیاؤں کے دورے پر بھیج پائے،‏ رسالہ دی واچ‌ٹاور کو شائع کرتے رہے اور اِسے کینیڈا بھی بھیجتے رہے جہاں اِس پر پابندی عائد تھی۔‏ .‏ .‏ .‏ کچھ بہن بھائیوں کی کتاب دی فِنشڈ مِسٹری ضبط ہو گئی تھی لیکن مَیں نے اِنہیں اِس کتاب کا ایسا ایڈیشن بھیجا جو جیب میں فٹ آتا تھا۔‏ بھائی رتھرفورڈ کی ہدایت پر ہم نے ریاستہائے متحدہ کے کچھ شہروں میں اِجتماع منعقد کیے اور بہن بھائیوں کی حوصلہ‌افزائی کرانے کے لیے مقرر بھی بھیجے۔‏“‏

اِصلا‌ح کی ضرورت

9.‏ ‏(‏الف)‏ بائبل سٹوڈنٹس کو اِصلا‌ح کی ضرورت کیوں تھی؟‏ (‏ب)‏ اُنہیں کس معاملے میں اِصلا‌ح کی ضرورت نہیں تھی؟‏

9 البتہ 1914ء سے لے کر 1919ء کے عرصے میں بائبل سٹوڈنٹس کو اِصلا‌ح کی ضرورت تھی۔‏ دراصل وہ یہ نہیں سمجھ پائے تھے کہ حاکموں کے تابع‌دار ہونے میں کیا کچھ شامل ہے۔‏ (‏روم 13:‏1‏)‏ اِس لیے وہ پہلی عالمی جنگ کے دوران مکمل طور پر غیرجانب‌دار نہیں رہے۔‏ مثال کے طور پر جب ریاستہائے متحدہ امریکہ کے صدر نے 30 مئی 1918ء کو امن کی دُعا کا دن قرار دیا تو دی واچ‌ٹاور میں بائبل سٹوڈنٹس کو ہدایت دی گئی کہ وہ بھی اِس دن کو منائیں۔‏ کچھ بہن بھائیوں نے جنگ میں اپنے ملک کی مالی حمایت کرنے کے لیے بانڈ بھی خریدے اور کچھ تو ہتھیار اُٹھا کر مورچوں میں بھی گئے۔‏ لیکن یہ سوچنا غلط ہوگا کہ خدا نے بائبل سٹوڈنٹس کو اِس لیے بابلِ‌عظیم کے قبضے میں آنے دیا کیونکہ اُنہیں اِصلا‌ح کی ضرورت تھی۔‏ جہاں تک بابلِ‌عظیم سے تعلق رکھنے کی بات آتی ہے،‏ اُنہیں اِصلا‌ح کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ وہ واضح طور پر سمجھ گئے تھے کہ اُنہیں اُس میں سے نکل آنے کی ضرورت ہے اور پہلی عالمی جنگ کے دوران وہ اِس میں سے تقریباً نکل چُکے تھے۔‏‏—‏لُوقا 12:‏47،‏ 48 کو پڑھیں۔‏

10.‏ پہلی عالمی جنگ کے دوران بائبل سٹوڈنٹس نے کیا کرنے سے صاف اِنکا‌ر کر دیا؟‏

10 حالانکہ بائبل سٹوڈنٹس غیرجانب‌داری کے معاملے کو پوری طرح سے نہیں سمجھے تھے لیکن وہ ایک بات ضرور سمجھ گئے تھے اور وہ یہ تھی کہ بائبل کے مطابق کسی کی جان لینا گُناہ ہے۔‏ اِس لیے جو بھائی ہتھیار اُٹھا کر مورچوں میں گئے،‏ اُنہوں نے بھی کسی کی جان لینے سے صاف اِنکا‌ر کر دیا۔‏ جن بھائیوں نے ہتھیار اُٹھانے سے اِنکا‌ر کر دیا تھا،‏ اُن میں سے کچھ کو تو اِس لیے میدانِ‌جنگ میں بھیجا گیا تاکہ وہاں وہ جان سے ہاتھ دھو بیٹھیں۔‏

11.‏ بائبل سٹوڈنٹس کی غیرجانب‌داری کی وجہ سے حکومت کے اہلکا‌روں نے کیا کرنے کی ٹھان لی؟‏

11 ہمارے بھائی غیرجانب‌داری کے سلسلے میں بائبل کی تعلیمات کو جس حد تک سمجھ گئے تھے،‏ اُس حد تک اُنہوں نے اِن پر عمل بھی کِیا۔‏ یہ دیکھ کر شیطان کو بہت غصہ آیا اور اُس نے ’‏قانون کی آڑ میں بدی گھڑی۔‏‘‏ (‏زبور 94:‏20‏)‏ یہ اُس بات سے ظاہر ہو گیا جو ریاستہائے متحدہ امریکہ کے ایک میجر جنرل نے بھائی رتھرفورڈ اور بھائی وان ایمبرگ سے کہی تھی۔‏ اُس نے اُنہیں بتایا کہ کانگرس (‏یعنی امریکی پارلیمنٹ)‏ میں ایک ایسے قانون کو نافذ کرنے کے بارے میں بات ہوئی تھی جس کے تحت اُن لوگوں کو سزائےموت سنائی جائے جو جنگ میں ہتھیار اُٹھانے سے اِنکا‌ر کر رہے تھے۔‏ اِس قانون کا نشانہ خاص طور پر بائبل سٹوڈنٹس تھے۔‏ اُس میجر جنرل نے بڑے غصے میں کہا:‏ ”‏یہ قانون نافذ نہیں ہو سکا کیونکہ صدر وِلسن نے اِسے منظور نہیں کِیا۔‏ لیکن تُم لوگ ہمارے ہاتھ سے نہیں بچو گے!‏“‏

12،‏ 13.‏ ‏(‏الف)‏ واچ‌ٹاور سوسائٹی کی نمائندگی کرنے والے آٹھ بھائیوں کو لمبی قید کی سزا کیوں سنائی گئی؟‏ (‏ب)‏ کیا قید میں ہمارے بھائی سمجھوتا کرنے کو تیار ہو گئے؟‏ وضاحت کریں۔‏

12 حکومت کے اہلکا‌روں نے اپنی دھمکی پوری بھی کی۔‏ واچ‌ٹاور سوسائٹی کی نمائندگی کرنے والے آٹھ بھائیوں کو گِرفتار کر لیا گیا جن میں بھائی رتھرفورڈ اور بھائی وان ایمبرگ بھی شامل تھے۔‏ جج نے اُن پر فیصلہ سناتے وقت یہ کہا:‏ ”‏اِن آدمیوں کا تبلیغی کام جرمن فوجیوں کی پلٹن سے کہیں زیادہ خطرناک ہے۔‏ اِنہوں نے نہ صرف فوج اور عدلیہ کی خلا‌ف‌ورزی کی ہے بلکہ ہر چرچ کے پادری کو بھی بدنام کِیا ہے۔‏ اِنہیں کڑی سزا دی جانی چاہیے۔‏“‏ ‏[‏1]‏  اور ایسا ہی ہوا۔‏ اِن آٹھوں بھائیوں کو لمبی قید کی سزا سنائی گئی اور جیل میں بند کر دیا گیا۔‏ مگر جنگ کے بعد اِنہیں تمام اِلزامات سے بَری کر کے رِہا کر دیا گیا۔‏

13 یہ آٹھ بھائی جیل میں بھی بائبل کے اصولوں پر قائم رہے۔‏ یہ بات اُس خط سے ظاہر ہوتی ہے جو اُنہوں نے اپنی سزا کو کم کرانے کے لیے امریکہ کے صدر کے نام بھیجا تھا۔‏ اِس خط میں اُنہوں نے لکھا:‏ ”‏پاک کلام کے مطابق ہمارے مالک کی مرضی اِس حکم سے صاف ظاہر ہوتی ہے کہ ”‏قتل نہ کرو۔‏“‏ جو شخص بائبل سٹوڈنٹ ہوتے ہوئے جان بُوجھ کر کسی کا خون کرتا ہے،‏ وہ خدا کی خوشنودی کھو دیتا ہے اور اُسے ابدی سزا ملے گی۔‏ اِس لیے کسی بائبل سٹوڈنٹ کا ضمیر اِس بات کی اِجازت نہیں دے گا کہ وہ جان بُوجھ کر کسی کا خون کرے۔‏“‏ اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہمارے بھائی کسی طرح کا سمجھوتا کرنے کو تیار نہیں تھے۔‏

آخرکار بابلِ‌عظیم کی گِرفت سے آزاد!‏

14.‏ بائبل کی روشنی میں بتائیں کہ 1914ء سے لے کر 1919ء تک کیا واقع ہوا۔‏

14 ملا‌کی 3:‏1-‏3 میں جو پیش‌گوئی ہے،‏ یہ 1914ء سے لے کر 1919ء کے پہلے چند مہینوں کے دوران پوری ہوئی جب ”‏بنی‌لاؔوی“‏ یعنی مسح‌شُدہ مسیحیوں کو پاک صاف کِیا گیا۔‏ ‏(‏اِن آیتوں کو پڑھیں۔‏)‏ اِن آیتوں سے پتہ چلتا ہے کہ اُس وقت کے دوران ”‏خداوند“‏ یعنی یہوواہ خدا اور ”‏عہد کا رسول“‏ یعنی یسوع مسیح روحانی ہیکل میں خدمت کرنے والے لوگوں کا جائزہ لینے آئے۔‏ مسح‌شُدہ مسیحیوں کی اِصلا‌ح کی گئی اور اُنہیں پاک صاف کِیا گیا۔‏ اب وہ مزید ذمےداریاں اُٹھانے کے لائق ہو گئے تھے۔‏ 1919ء میں ”‏وفادار اور سمجھ‌دار غلا‌م“‏ کو مقرر کِیا گیا تاکہ وہ خدا کے بندوں کو روحانی کھانا فراہم کرے۔‏ (‏متی 24:‏45‏)‏ اب خدا کے بندے مکمل طور پر بابلِ‌عظیم کی گِرفت سے آزاد ہو گئے تھے۔‏ اُس وقت سے خدا کی مرضی کے بارے میں اُن کے علم میں اِضافہ ہوتا جا رہا ہے اور اُن کے دل میں اُس کے لیے محبت بڑھتی جا رہی ہے۔‏ کیا ہم شکرگزار نہیں کہ ہمارے آسمانی باپ نے اپنی عظیم رحمت کی بِنا پر ہمیں اِتنی برکتیں دی ہیں؟‏  ‏[‏2]‏ 

15.‏ ہم بابلِ‌عظیم کے قبضے سے آزاد ہونے پر اپنی شکرگزاری کیسے ظاہر کر سکتے ہیں؟‏

15 شیطان نے زمین پر سے سچے مسیحی مذہب کا نام‌ونشان مٹانے کی سر توڑ کوشش کی ہے۔‏ لیکن وہ بُری طرح سے ناکام رہا ہے کیونکہ خدا اپنی عظیم رحمت کی بِنا پر اپنے بندوں کو بابلِ‌عظیم کے قبضے سے نکا‌ل لایا۔‏ البتہ ہمیں اِس عظیم رحمت کو ضائع نہیں کرنا چاہیے۔‏ (‏2-‏کُر 6:‏1‏)‏ ابھی بھی بہت سے خاکسار لوگ جھوٹے مذاہب کی گِرفت میں جکڑے ہوئے ہیں۔‏ ہمیں اِن کو یہ بتانے کا شرف ملا ہے کہ وہ اِس گِرفت سے کیسے آزاد ہو سکتے ہیں۔‏ اِس لیے آئیں،‏ پچھلی صدی کے بہن بھائیوں کی مثال پر عمل کریں اور اُن کی طرح لوگوں کی مدد کریں تاکہ وہ بھی بابلِ‌عظیم میں سے نکل آئیں۔‏

^ ‏[‏1]‏ ‏(‏پیراگراف 12)‏ یہ اِقتباس بھائی میک‌ملن کی کتاب فیتھ آن دی مارچ،‏ صفحہ 99 سے لیا گیا ہے۔‏

^ ‏[‏2]‏ ‏(‏پیراگراف 14)‏ شہر بابل میں اسیری کے دوران یہودیوں کے ساتھ جو واقعات پیش آئے،‏ یہ اُن واقعات سے ملتے جلتے تو ہیں جو مسیحیوں کے ساتھ دوسری صدی عیسوی کے بعد سے پیش آئے لیکن یہ اِن کا عکس نہیں ہیں۔‏ اِس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ مسیحیوں نے بابلِ‌عظیم کی گِرفت میں جو عرصہ گزارا،‏ وہ اُن 70 سال سے زیادہ لمبا تھا جو یہودیوں نے شہر بابل میں گزارے۔‏ لہٰذا یہ سوچنا غلط ہے کہ یہودیوں کے ساتھ بابل میں جو کچھ ہوا،‏ اِس کی ایک ایک بات اُن واقعات کا عکس ہے جو مسح‌شُدہ مسیحیوں کے ساتھ 1919ء تک پیش آئے۔‏