یادوں کے ذخیرے سے
”برطانیہ کے مبشرو، بیدار ہو جائیں!“
یہ چونکا دینے والی شہسُرخی دسمبر 1937ء کے اِنفارمنٹ، * (لندن ایڈیشن) کے صفحہ اوّل پر تھی۔ اِس کے ساتھ یہ ذیلی سُرخی بھی تھی: ”پچھلے دس سال میں کوئی خاص اِضافہ نہیں ہوا“ اور پھر اِس کے نیچے 1928ء سے 1937ء کی مُنادی کی رپورٹیں چھپی تھیں۔
مزید پہلکاروں کے لیے گنجائش نہیں
مگر برطانیہ میں مُنادی کے کام میں ترقی کیوں نہیں ہو رہی تھی؟ اِس کی ایک وجہ یہ تھی کہ مبشروں نے مُنادی کے کام کے سلسلے میں سالوں سے ایک ہی معمول قائم کر رکھا تھا اور وہ اِس سے ہٹ کر کچھ نہیں کر رہے تھے۔ اِس کے علاوہ برانچ نے فیصلہ کِیا تھا کہ علاقے کے لحاظ سے برطانیہ میں صرف 200 پہلکاروں کی گنجائش ہے۔ دراصل اُس زمانے میں پہلکاروں کو صرف اُن علاقوں میں مُنادی کرنے کے لیے بھیجا جاتا تھا جہاں کلیسیائیں نہیں تھیں۔ اِس لیے جو بہن بھائی پہلکار کے طور پر خدمت کرنا چاہتے تھے، اُنہیں برانچ کی طرف سے کہا گیا کہ برطانیہ میں پہلکاروں کے لیے کوئی علاقہ نہیں بچا اور اُنہیں ہدایت دی گئی کہ وہ دوسرے یورپی ممالک میں جا کر خدمت کریں۔ اِس وجہ سے بہت سے برطانوی پہلکار فرانس اور دوسرے ملکوں میں جا کر خدمت کرنے لگے حالانکہ اُنہیں وہاں کی زبان تک نہیں آتی تھی۔
ایک اِعلان جس سے مبشروں میں جوش کی لہر دوڑ گئی
مُنادی کے کام میں بہن بھائیوں کے جوش کو بھڑکانے کے لیے اِنفارمنٹ کے اُسی مضمون میں 1938ء کے لیے 10 لاکھ گھنٹوں کا نشانہ رکھا گیا۔ مبشروں کو بتایا گیا کہ اگر ہر مبشر مہینے میں 15 گھنٹے مُنادی کرے گا اور ہر پہلکار 110 گھنٹے تو یہ نشانہ پورا کِیا جا سکتا ہے۔ مضمون میں یہ مشورہ دیا گیا کہ جب مُنادی کے گروپ ملتے ہیں تو وہ پانچ پانچ گھنٹے مُنادی کے کام میں صرف کریں۔ بہن بھائیوں کو ہفتے کے دوران شام کو واپسی ملاقاتیں کرنے کا بھی مشورہ دیا گیا۔
پہلکاروں نے بڑے جوشوجذبے سے مُنادی کے کام میں حصہ لیا۔
اِس مضمون کو پڑھ کر بہت سے بہن بھائیوں میں جوش کی لہر دوڑ گئی۔ بہن ہلڈا پاجٹ نے کہا: ”مرکزی دفتر کی طرف سے رکھے جانے والے نشانے سے ہمیں مُنادی کے کام میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کی ترغیب ملی اور اِس کے بہت اچھے نتائج نکلے۔ ہم تو بس اِسی طرح کے اِعلان کے اِنتظار میں تھے۔“ بہن والس نے کہا: ”ایک ہی دن میں پانچ گھنٹے مُنادی کرنے کا مشورہ زبردست تھا! پورا دن مالک کی خدمت کرنے سے بہتر بھلا اَور کیا ہو سکتا ہے؟ . . . اِتنی دیر تک مُنادی کرنے کے بعد ہم تھک تو جاتے تھے لیکن ہمارے چہرے خوشی سے دمک رہے ہوتے تھے۔“ بھائی سٹیفن ملر نوجوان تھے اور وہ بڑھ چڑھ کر مُنادی کے کام میں حصہ لینے کے موقعے کو ہاتھ سے نکلنے نہیں دینا چاہتے تھے۔ اُنہوں نے بتایا کہ بہت سے بہن بھائی مل کر سائیکلوں پر ایک علاقے میں جاتے تھے اور وہاں پورا پورا دن مُنادی کرتے تھے۔ جب شام ہو جاتی تھی تو وہ عوامی جگہوں پر تقریروں کی ریکارڈنگ چلاتے تھے۔ کبھی کبھار یہ بہن بھائی گواہی دینے کے لیے اِشتہاری بورڈ پہن کر قطار میں سڑکوں پر چلتے تھے۔ اِس کے علاوہ وہ سڑک پر چلتے لوگوں کو رسالے بھی پیش کرتے تھے۔
اُسی اِنفارمنٹ میں یہ ذیلی سُرخی بھی تھی: ”1000 پہلکاروں کا لشکر درکار ہے۔“ برانچ میں یہ طے پایا گیا تھا کہ اب سے پہلکار کلیسیا سے الگ دُوردراز علاقوں میں جا کر مُنادی کرنے کی بجائے کلیسیا کے ساتھ مل کر مُنادی کریں گے تاکہ بہن بھائیوں کی حوصلہافزائی ہو۔ اِس لیے اب برطانیہ میں مزید پہلکاروں کی گنجائش تھی۔ بہن جوئس ایلس کہتی ہیں: ”اُس وقت بہت سے بہن بھائیوں میں یہ احساس بیدار ہوا کہ اُنہیں پہلکار کے طور پر خدمت کرنی چاہیے۔ مَیں تو صرف 13 سال کی تھی لیکن مَیں بھی پہلکار بننا چاہتی تھی۔“ جولائی 1940ء میں جب بہن جوئس 15 سال کی ہوئیں تو اُن کی یہ خواہش پوری ہو گئی۔ بھائی پیٹر ایلس جنہوں نے بعد میں بہن جوئس سے شادی کی، اُن کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ جب اُنہوں نے 10 لاکھ گھنٹوں کے نشانے کا سنا تو وہ پہلکار کے طور پر خدمت کرنے کے بارے میں سوچنے لگے۔ پھر جون 1940ء میں جب وہ 17 سال کے تھے تو وہ سائیکل پر 105 کلومیٹر (65 میل) کا سفر طے کر کے شہر سکاربورو گئے جہاں اُنہوں نے پہلکار کے طور پر خدمت شروع کی۔
اِن پہلکاروں میں قربانی دینے کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا تھا۔ سِرل اور کیٹی جانسن کی مثال ہی لیجئے۔ اُنہوں نے اپنا گھر اور ساری چیزیں بیچ دیں تاکہ وہ کُلوقتی خدمت کرتے وقت اپنے خرچے پورے کر سکیں۔ بھائی سِرل نے ملازمت چھوڑ دی اور اِن دونوں نے ایک مہینے کے اندر اندر پہلکاروں کے طور پر خدمت شروع کر دی۔ بھائی سِرل نے کہا: ”ہم نے یہ سب کچھ اپنی خوشی سے کِیا۔ ہمیں اِس بات کی فکر نہیں تھی کہ ہمارا کیا بنے گا۔“
پہلکاروں کے لیے گھر
پہلکاروں کی تعداد میں تیزی سے اِضافہ ہو رہا تھا۔ اِس لیے برانچ نے غور کِیا کہ اِن کی مدد کیسے کی جا سکتی ہے۔ بھائی جم کار جو 1938ء میں سفری نگہبان کے طور پر خدمت کر رہے تھے، اُنہوں نے برانچ کی ہدایت پر عمل کرتے ہوئے بڑے بڑے شہروں میں پہلکاروں کے لیے گھروں کا بندوبست کِیا۔ ہدایت یہ تھی کہ ایسے گھر کرائے پر لیے جائیں جن میں زیادہ پہلکار مل کر رہ سکیں تاکہ خرچہ کم ہو۔ شہر شفیلڈ میں ایک بڑا گھر کرائے پر لیا گیا اور ایک بھائی کو اِس کا اِنتظام چلانے کے لیے مقرر کِیا گیا۔ مقامی کلیسیا نے گھر کے سلسلے میں پیدا ہونے والے اخراجات پورے کیے اور فرنیچر بھی مہیا کیا۔ بھائی جم نے کہا: ”سب نے برانچ کی ہدایت کو عملی جامہ پہنانے کے لیے تعاون کِیا۔“ اِس گھر میں دس محنتی پہلکار رہتے تھے اور اُنہوں نے عبادت کا اچھا معمول قائم کر رکھا تھا۔ بھائی جم نے بتایا کہ ”ہر صبح ناشتے کے وقت روز کی آیت پر باتچیت کی جاتی تھی اور پھر پہلکار شہر میں اپنے اپنے علاقے میں جا کر مُنادی کرتے تھے۔“
برطانیہ میں پہلکاروں کا بڑا لشکر کھڑا ہوا۔
برطانیہ میں مبشروں اور پہلکاروں نے مل کر بڑے جوشوخروش سے مُنادی کے کام میں حصہ لیا اور یوں وہ 1938ء میں 10 لاکھ گھنٹے کا نشانہ پورا کر پائے۔ دراصل اُس سال مُنادی کے کام کے ہر پہلو میں ترقی ہوئی اور اگلے پانچ سال کے اندر اندر مبشروں کی تعداد میں تقریباً تین گُنا اِضافہ ہوا۔ اب یہوواہ کے اِن بندوں کا سارا دھیان مُنادی کے کام پر تھا اور وہ اُن مشکلات سے نمٹنے کے لیے لیس تھے جو دوسری عالمی جنگ کے دوران اُن پر آنی تھیں۔
آج جبکہ ہرمجِدّون کی جنگ قریب آ رہی ہے، برطانیہ میں پہلکاروں کی تعداد پھر سے بڑھ رہی ہے۔ پچھلے دس سال میں پہلکاروں کی تعداد میں متواتر اِضافہ ہوا ہے اور اکتوبر 2015ء میں پہلکاروں کی اِنتہائی تعداد 13 ہزار 224 تک پہنچ گئی۔ اِن پہلکاروں کو معلوم ہے کہ کُلوقتی طور پر یہوواہ کی خدمت کرنے سے اُنہوں نے زندگی کی بہترین راہ چُنی ہے۔
^ پیراگراف 3 بعد میں اِسے ہماری بادشاہتی خدمتگزاری کا نام دیا گیا۔