مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

مطالعے کا مضمون نمبر 11

یہوواہ کی سنیں!‏

یہوواہ کی سنیں!‏

‏”‏یہ میرا پیارا بیٹا ہے ‏.‏ .‏ .‏ اِس کی سنو۔‏“‏‏—‏متی 17:‏5‏۔‏

گیت نمبر 6‏:‏ خدا کے خادموں کی دُعا

مضمون پر ایک نظر *

1،‏ 2.‏ ‏(‏الف)‏ یہوواہ نے اِنسانوں سے کس کس طرح بات کی ہے؟‏ (‏ب)‏ اِس مضمون میں ہم کن باتوں پر غور کریں گے؟‏

یہوواہ خدا کو ہم سے بات کرنا بہت اچھا لگتا ہے۔‏ ماضی میں اُس نے اپنے نبیوں،‏ فرشتوں اور اپنے بیٹے یسوع مسیح کے ذریعے اِنسانوں سے بات کی۔‏ (‏عامو 3:‏7؛‏ گل 3:‏19؛‏ مکا 1:‏1‏)‏ آج وہ ہم سے اپنے کلام بائبل کے ذریعے بات کرتا ہے۔‏ اُس نے ہمیں اپنا کلام اِس لیے دیا ہے تاکہ ہم اُس کے خیالات کو جان سکیں اور اُس کے مقصد کو سمجھ سکیں۔‏

2 جب یسوع مسیح زمین پر تھے تو یہوواہ نے تین موقعوں پر آسمان سے بات کی۔‏ آئیں،‏ دیکھیں کہ یہوواہ نے کیا کہا،‏ ہم یہوواہ کی باتوں سے کیا سیکھ سکتے ہیں اور اِن سے ہمیں کیا فائدہ ہوتا ہے۔‏

‏”‏تُم میرے پیارے بیٹے ہو“‏

3.‏ ‏(‏الف)‏ مرقس 1:‏9-‏11 کے مطابق جب یسوع مسیح نے بپتسمہ لیا تو یہوواہ خدا نے کیا کہا؟‏ (‏ب)‏ یہوواہ کے الفاظ سے کن اہم باتوں کی تصدیق ہوئی؟‏

3 مرقس 1:‏9-‏11 میں وہ پہلا واقعہ درج ہے جب یہوواہ نے آسمان سے بات کی۔‏ ‏(‏اِن آیتوں کو پڑھیں۔‏)‏ اُس نے کہا:‏ ”‏تُم میرے پیارے بیٹے ہو،‏ مَیں تُم سے خوش ہوں۔‏“‏ اپنے باپ کی آواز کو سُن کر اور یہ جان کر کہ وہ اُن سے پیار کرتا ہے اور اُن سے خوش ہے،‏ یسوع مسیح کا دل یقیناً خوشی سے بھر گیا ہوگا۔‏ یہوواہ کے اِن الفاظ سے یسوع مسیح کے بارے میں تین اہم باتوں کی تصدیق ہوئی۔‏ پہلی یہ کہ یسوع،‏ یہوواہ خدا کے بیٹے ہیں؛‏ دوسری یہ کہ یہوواہ اپنے بیٹے سے پیار کرتا ہے اور تیسری یہ کہ یہوواہ اپنے بیٹے سے خوش ہے۔‏ آئیں،‏ اِن تینوں باتوں پر ایک ایک کر کے غور کرتے ہیں۔‏

4.‏ جب یسوع مسیح نے بپتسمہ لیا تو وہ کس مفہوم میں خدا کے بیٹے بن گئے؟‏

4 ‏”‏تُم میرے .‏ .‏ .‏ بیٹے ہو۔‏“‏ یہ بات کہنے سے یہوواہ نے ظاہر کِیا کہ اب اُس کا پیارا بیٹا یسوع اُس کے ساتھ ایک نئے رشتے میں بندھ گیا ہے۔‏ زمین پر آنے سے پہلے بھی یسوع مسیح یہوواہ خدا کے بیٹے تھے۔‏ لیکن بپتسمہ لینے کے بعد وہ ایک نئے مفہوم میں خدا کے بیٹے بن گئے۔‏ وہ پاک روح سے مسح ہوئے اور اُنہیں واپس آسمان پر جا کر بادشاہ اور کاہنِ‌اعظم بننے کی اُمید ملی۔‏ (‏لُو 1:‏31-‏33؛‏ عبر 1:‏8،‏ 9؛‏ 2:‏17‏)‏ اِسی لیے یسوع مسیح کے بپتسمے کے وقت یہوواہ خدا کہہ سکتا تھا کہ ”‏تُم میرے .‏ .‏ .‏ بیٹے ہو۔‏“‏—‏لُو 3:‏22‏۔‏

جب ہماری تعریف اور حوصلہ‌افزائی کی جاتی ہے تو اِس کا ہم پر بہت اچھا اثر ہوتا ہے۔‏ (‏پیراگراف نمبر 5 کو دیکھیں۔‏)‏ *

5.‏ ہم محبت کا اِظہار کرنے اور داد دینے کے سلسلے میں یہوواہ کی مثال پر کیسے عمل کر سکتے ہیں؟‏

5 ‏”‏تُم میرے پیارے .‏ .‏ .‏ ہو۔‏“‏ اِس موقعے پر یہوواہ نے محبت کا اِظہار کرنے اور داد دینے کی جو مثال قائم کی،‏ اُس سے ہمیں یہ ترغیب ملتی ہے کہ ہم دوسروں کا حوصلہ بڑھانے کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیں۔‏ (‏یوح 5:‏20‏)‏ جب وہ لوگ جن سے ہم پیار کرتے ہیں،‏ ہمارے لیے محبت ظاہر کرتے ہیں اور ہمیں داد دیتے ہیں تو ہم خوشی سے کھل اُٹھتے ہیں۔‏ اِسی طرح ہماری کلیسیا کے بہن بھائیوں اور گھر کے افراد کو بھی ہماری محبت اور حوصلہ‌افزائی کی ضرورت ہوتی ہے۔‏ جب ہم اُن کو داد دیتے ہیں تو اُن کا ایمان مضبوط ہوتا ہے اور اُنہیں یہوواہ کی خدمت جاری رکھنے کی ترغیب ملتی ہے۔‏ والدین کو خاص طور پر اپنے بچوں کی حوصلہ‌افزائی کرنی چاہیے۔‏ جب والدین اپنے بچوں کو دل سے داد دیتے ہیں اور اُن کے لیے محبت ظاہر کرتے ہیں تو بچوں پر اچھا اثر پڑتا ہے۔‏

6.‏ ہم یسوع مسیح پر اِعتماد کیوں رکھ سکتے ہیں؟‏

6 ‏”‏مَیں تُم سے خوش ہوں۔‏“‏ اِن الفاظ سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہوواہ کو یسوع مسیح پر مکمل اِعتماد تھا کہ وہ اُس کی مرضی کو ضرور پورا کریں گے۔‏ اگر یہوواہ کو اپنے بیٹے پر اِتنا اِعتماد تھا تو ہمیں بھی اِس بات پر مکمل اِعتماد ہونا چاہیے کہ یسوع مسیح،‏ یہوواہ کے تمام وعدوں کو پورا کرنے میں اپنا کردار ادا کریں گے۔‏ (‏2-‏کُر 1:‏20‏)‏ جب ہم یسوع کی مثال پر غور کرتے ہیں تو ہمارا یہ عزم اَور مضبوط ہو جاتا ہے کہ ہم اُن کے نقشِ‌قدم پر چلیں گے۔‏ جس طرح یہوواہ کو یسوع پر اِعتماد تھا اُسی طرح اُسے اپنے بندوں پر بھی یہ اِعتماد ہے کہ وہ اُس کے بیٹے کی مثال پر چلتے رہیں گے۔‏—‏1-‏پطر 2:‏21‏۔‏

‏”‏اِس کی سنو“‏

7.‏ متی 17:‏1-‏5 کے مطابق یہوواہ نے کس موقعے پر آسمان سے بات کی اور اُس نے کیا کہا؟‏

7 متی 17:‏1-‏5 کو پڑھیں۔‏ دوسری بار جب یہوواہ نے آسمان سے بات کی تو یہ وہ موقع تھا جب ”‏یسوع کی صورت بدل گئی۔‏“‏ یسوع مسیح پطرس،‏ یعقوب اور یوحنا کو اپنے ساتھ ایک اُونچے پہاڑ پر لے گئے۔‏ وہاں اُن تینوں رسولوں نے ایک حیرت‌انگیز رُویا دیکھی۔‏ یسوع کا چہرہ چمکنے لگا اور اُن کے کپڑے روشنی کی طرح سفید ہو گئے۔‏ پھر موسیٰ اور ایلیاہ جیسے دِکھنے والے دو اشخاص نظر آئے جو یسوع سے اُن کی موت اور جی اُٹھنے کے بارے میں بات کرنے لگے۔‏ پہلے تو تینوں رسول ”‏اُونگھ رہے تھے“‏ لیکن جب اُنہوں نے اِس شان‌دار رُویا کو دیکھا تو وہ پوری طرح سے ہوش میں تھے۔‏ (‏لُو 9:‏29-‏32‏)‏ اِس کے بعد ایک سفید بادل اُن پر چھا گیا اور اُنہیں اِس میں سے خدا کی آواز سنائی دی۔‏ جس طرح یسوع کے بپتسمے کے موقعے پر ہوا تھا اُسی طرح اِس موقعے پر بھی یہوواہ نے اِس بات کا اِظہار کِیا کہ وہ اپنے بیٹے سے خوش ہے اور اُس سے پیار کرتا ہے۔‏ اُس نے کہا:‏ ”‏یہ میرا پیارا بیٹا ہے جس سے مَیں خوش ہوں۔‏“‏ لیکن اب کی بار اُس نے ساتھ میں یہ بھی کہا:‏ ”‏اِس کی سنو۔‏“‏

8.‏ یسوع کی صورت بدلنے والی رُویا کا اُن پر اور اُن کے رسولوں پر کیا اثر ہوا؟‏

8 اِس رُویا میں رسولوں نے اُس شان اور طاقت کی جھلک دیکھی جو یسوع کو مستقبل میں خدا کی بادشاہت کا بادشاہ بن کر ملنی تھی۔‏ اِس میں کوئی شک نہیں کہ اِس رُویا کے ذریعے یسوع کو حوصلہ ملا ہوگا اور اُنہوں نے آنے والی تکلیفوں اور دردناک موت کو برداشت کرنے کی طاقت پائی ہوگی۔‏ اِس رُویا نے رسولوں کے ایمان کو بھی بڑھایا ہوگا اور اُنہیں ہمت دی ہوگی تاکہ وہ اُن آزمائشوں کا سامنا کر پائیں جو اُن پر مستقبل میں آنی تھیں اور اُس کام کے لیے تیار ہو جائیں جو اُنہیں آنے والے سالوں کے دوران کرنا تھا۔‏ تقریباً 30 سال بعد پطرس رسول نے یسوع کی صورت بدلنے کی رُویا کا ذکر کِیا جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اُنہیں یہ رُویا اب بھی صاف صاف یاد تھی۔‏—‏2-‏پطر 1:‏16-‏18‏۔‏

9.‏ یسوع نے اپنے رسولوں کو کون سی مفید ہدایات دیں؟‏

9 ‏”‏اِس کی سنو۔‏“‏ یہوواہ خدا نے اِس بات کو واضح کِیا کہ وہ چاہتا ہے کہ ہم اُس کے بیٹے کی سنیں اور اُس کی فرمانبرداری کریں۔‏ جب یسوع زمین پر تھے تو اُنہوں نے بہت سی ایسی باتیں کہیں جنہیں سننا نہایت اہم تھا۔‏ مثال کے طور پر اُنہوں نے اپنے پیروکاروں کو خوش‌خبری کی مُنادی کرنی سکھائی اور اُنہیں بار بار نصیحت کی کہ وہ چوکس رہیں۔‏ (‏متی 24:‏42؛‏ 28:‏19،‏ 20‏)‏ یسوع نے اُن کی یہ حوصلہ‌افزائی بھی کی کہ وہ ”‏تنگ دروازے سے داخل ہونے کی جی‌توڑ کوشش کریں“‏ اور ہمت نہ ہاریں۔‏ (‏لُو 13:‏24‏)‏ یسوع نے اِس بات پر بھی زور دیا کہ اُن کے پیروکاروں کے لیے ایک دوسرے سے محبت کرنا،‏ متحد رہنا اور اُن کے حکموں پر عمل کرنا کتنا اہم ہے۔‏ (‏یوح 15:‏10،‏ 12،‏ 13‏)‏ یسوع نے واقعی اپنے شاگردوں کو بہت سی مفید ہدایات دیں۔‏ یہ ہدایات آج بھی اُتنی ہی فائدہ‌مند ہیں جتنی اُس زمانے میں تھیں۔‏

10،‏ 11.‏ ہم یہ کیسے ظاہر کر سکتے ہیں کہ ہم یسوع کی سُن رہے ہیں؟‏

10 یسوع مسیح نے کہا:‏ ”‏جو شخص سچائی کی طرف ہے،‏ وہ میری سنتا ہے۔‏“‏ (‏یوح 18:‏37‏)‏ جب ہم ’‏ایک دوسرے کی برداشت کرتے ہیں اور دل سے ایک دوسرے کو معاف کرتے ہیں‘‏ تو ہم یہ ظاہر کرتے ہیں کہ ہم یسوع کی بات سُن رہے ہیں۔‏ (‏کُل 3:‏13؛‏ لُو 17:‏3،‏ 4‏)‏ یسوع کی بات سننے کی ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ ”‏چاہے اچھا وقت ہو یا بُرا،‏“‏ ہم جوش سے خوش‌خبری کی مُنادی کریں۔‏—‏2-‏تیم 4:‏2‏۔‏

11 یسوع نے کہا:‏ ”‏میری بھیڑیں میری آواز سنتی ہیں۔‏“‏ (‏یوح 10:‏27‏)‏ یسوع کے پیروکار نہ صرف اُن کی باتوں پر دھیان دینے بلکہ اُن پر عمل کرنے سے بھی یہ ظاہر کرتے ہیں کہ وہ اُن کی سنتے ہیں۔‏ وہ ”‏زندگی کی فکروں“‏ کی وجہ سے اپنا دھیان بٹنے نہیں دیتے۔‏ (‏لُو 21:‏34‏)‏ اِس کی بجائے اُن کی نظر میں یہ بات سب سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے کہ چاہے حالات جتنے بھی کٹھن ہوں،‏ اُنہیں یسوع کے حکموں پر عمل کرنا ہے۔‏ ہمارے بہت سے بہن بھائیوں کو شدید قسم کی آزمائشوں کا سامنا ہے۔‏ مثال کے طور پر اُنہیں مخالفین کی طرف سے طرح طرح کے حملوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے،‏ غربت دیکھنی پڑتی ہے اور قدرتی آفتوں کی وجہ سے مشکلات سے گزرنا پڑتا ہے۔‏ لیکن وہ اِس سب کے باوجود یہوواہ کے وفادار رہتے ہیں پھر چاہے اِس کے لیے اُنہیں کوئی بھی قیمت چُکانی پڑے۔‏ یسوع نے اپنے اِن پیروکاروں کو یہ یقین دِلایا ہے:‏ ”‏جو میرے حکموں کو قبول کرتا ہے اور اِن پر عمل کرتا ہے،‏ وہ مجھ سے محبت کرتا ہے۔‏ اور جو مجھ سے محبت کرتا ہے،‏ میرا باپ اُس سے محبت کرے گا۔‏“‏—‏یوح 14:‏21‏۔‏

مُنادی کے کام میں مشغول رہنے سے ہم اپنا پورا دھیان خدا کی خدمت پر رکھ پاتے ہیں۔‏ (‏پیراگراف نمبر 12 کو دیکھیں۔‏)‏ *

12.‏ یسوع کی سننے کا ایک اَور طریقہ کیا ہے؟‏

12 یسوع کی سننے کا ایک اَور طریقہ یہ ہے کہ ہم اُن لوگوں کے ساتھ تعاون کریں جنہیں یسوع نے ہماری پیشوائی کے لیے مقرر کِیا ہے۔‏ (‏عبر 13:‏7،‏ 17‏)‏ حالیہ سالوں میں خدا کی تنظیم نے بہت سی تبدیلیاں کی ہیں،‏ مثلاً آج‌کل ہم مُنادی کے دوران نئے اوزار اور نئے طریقے اِستعمال کرتے ہیں؛‏ ہفتے کے دوران ہونے والے اِجلاس کو فرق طریقے سے منعقد کِیا جاتا ہے اور کنگڈم ہالز کی تعمیر اور مرمت کے طریقۂ‌کار میں بھی ردوبدل کِیا گیا ہے۔‏ بےشک ہم سب اُس رہنمائی کے لیے بہت شکرگزار ہیں جو تنظیم محبت کی بِنا پر اور بڑی سوچ بچار کے بعد ہمیں فراہم کرتی ہے۔‏ ہم یقین رکھ سکتے ہیں کہ اگر ہم تنظیم کی ہدایات پر عمل کریں گے تو یہوواہ ہماری کوششوں میں برکت ڈالے گا۔‏

13.‏ یسوع کی سننے سے ہمیں کون سے فائدے ہوتے ہیں؟‏

13 ہمیں یسوع کی سکھائی ہوئی تمام باتوں کو سننے سے فائدہ ہوتا ہے۔‏ یسوع نے اپنے شاگردوں سے وعدہ کِیا تھا کہ اُن کی تعلیمات کے ذریعے اُنہیں تازگی ملے گی۔‏ اُنہوں نے کہا تھا:‏ ”‏آپ تازہ‌دم ہو جائیں گے کیونکہ میرا جُوا آرام‌دہ ہے اور میرا بوجھ ہلکا ہے۔‏“‏ (‏متی 11:‏28-‏30‏)‏ خدا کا کلام جس میں یسوع کی زندگی اور خدمت کے بارے میں لکھی چار اناجیل بھی شامل ہیں،‏ ہمیں تازگی بخشتا ہے اور دانش‌مند بناتا ہے۔‏ (‏زبور 19:‏7؛‏ 23:‏3‏)‏ اِس لیے یسوع نے فرمایا:‏ ”‏وہ شخص برکت والا ہے جو خدا کے کلام کو سنتا ہے اور اُس پر عمل کرتا ہے۔‏“‏—‏لُو 11:‏28‏۔‏

‏’‏مَیں اپنے نام کی بڑائی کروں گا‘‏

14،‏ 15.‏ ‏(‏الف)‏ یوحنا 12:‏27،‏ 28 میں وہ کون سا تیسرا واقعہ درج ہے جب یہوواہ نے آسمان سے بات کی؟‏ (‏ب)‏ یہوواہ کے الفاظ سُن کر یسوع کو تسلی اور ہمت کیوں ملی ہوگی؟‏

14 یوحنا 12:‏27،‏ 28 کو پڑھیں۔‏ یوحنا کی اِنجیل میں وہ تیسرا واقعہ درج ہے جب یہوواہ نے آسمان سے بات کی۔‏ یسوع مسیح اپنی موت سے کچھ دن پہلے یروشلیم میں آخری بار عیدِفسح منانے کے لیے گئے۔‏ اُس موقعے پر اُنہوں نے کہا:‏ ”‏مَیں پریشان ہوں۔‏“‏ پھر اُنہوں نے دُعا کی:‏ ”‏باپ،‏ اپنے نام کی بڑائی کر۔‏“‏ اُن کے باپ نے آسمان سے اُنہیں یہ جواب دیا:‏ ”‏مَیں نے اِس کی بڑائی کی اور دوبارہ بھی اِس کی بڑائی کروں گا۔‏“‏

15 یسوع مسیح اِس لیے پریشان تھے کیونکہ وہ اِس بات سے واقف تھے کہ اُن کے لیے یہوواہ کا وفادار رہنا کتنا اہم ہے۔‏ وہ جانتے تھے کہ اُن کے ساتھ بڑی بےرحمی سے پیش آیا جائے گا اور اُنہیں ایک دردناک موت دی جائے گی۔‏ (‏متی 26:‏38‏)‏ لیکن یسوع کی نظر میں سب سے اہم بات یہ تھی کہ وہ اپنے باپ کے نام کی بڑائی کریں۔‏ یسوع پر کفر بکنے کا اِلزام لگایا جانا تھا اور وہ اِس حوالے سے فکرمند تھے کہ ایسے مُجرم کی موت مرنے سے خدا کی بدنامی ہوگی۔‏ ایسے حالات میں یہوواہ کے الفاظ سُن کر یسوع کو کتنی ہمت ملی ہوگی!‏ وہ اِس بات پر پورا یقین رکھ سکتے تھے کہ یہوواہ اپنے نام کی بڑائی کرے گا۔‏ اپنے باپ کی بات کو سُن کر یسوع کو دِلاسا ملا ہوگا اور وہ آنے والے حالات کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہو گئے ہوں گے۔‏ حالانکہ اُس موقعے پر صرف یسوع ہی اپنے باپ کی بات کا مطلب سمجھ سکتے تھے لیکن یہوواہ نے یہ بندوبست کِیا کہ اُس کے الفاظ ہمارے فائدے کے لیے اُس کے کلام میں محفوظ کروائے جائیں۔‏—‏یوح 12:‏29،‏ 30‏۔‏

یہوواہ اپنے نام کی بڑائی کرے گا اور اپنے بندوں کو نجات دِلائے گا۔‏ (‏پیراگراف نمبر 16 کو دیکھیں۔‏)‏ *

16.‏ ہم کن صورتحال میں خدا کی بدنامی کے حوالے سے فکرمند ہو سکتے ہیں؟‏

16 کبھی کبھار ایسی صورتحال کھڑی ہو سکتی ہیں جن میں شاید ہم بھی یسوع کی طرح فکرمند ہوں کہ یہوواہ کی بدنامی ہو جائے گی۔‏ مثال کے طور پر شاید یسوع کی طرح ہمیں بھی نااِنصافی کا سامنا کرنا پڑے۔‏ یا ہو سکتا ہے کہ ہم اُن جھوٹی خبروں کو سُن کر پریشان ہو جائیں جو ہمارے مخالفین ہمارے بارے میں پھیلاتے ہیں۔‏ شاید ہمیں یہ فکر ستائے کہ ایسی خبروں کی وجہ سے یہوواہ خدا اور اُس کی تنظیم کی بدنامی ہوگی۔‏ ایسے حالات میں یہوواہ کے وہ الفاظ ہمیں بہت ہمت دے سکتے ہیں جو یوحنا 12:‏28 میں درج ہیں۔‏ لہٰذا ہمیں حد سے زیادہ پریشان نہیں ہونا چاہیے۔‏ ہمیں اِس بات کا یقین رکھنا چاہیے کہ ”‏خدا [‏ہمیں]‏ وہ اِطمینان دے گا جو سمجھ سے باہر ہے اور یہ اِطمینان مسیح یسوع کے ذریعے [‏ہمارے]‏ دل اور سوچ کو محفوظ رکھے گا۔‏“‏ (‏فل 4:‏6،‏ 7‏)‏ اِس میں کوئی شک نہیں کہ یہوواہ ہمیشہ اپنے نام کی بڑائی کرے گا۔‏ اپنی بادشاہت کے ذریعے وہ اُس سارے نقصان کی بھرپائی کر دے گا جو شیطان اور اُس کی دُنیا کی وجہ سے اُس کے وفادار بندوں کو پہنچا ہے۔‏—‏زبور 94:‏22،‏ 23؛‏ یسع 65:‏17‏۔‏

یہوواہ کی آواز سنتے رہیں

17.‏ یسعیاہ 30:‏21 کو ذہن میں رکھتے ہوئے بتائیں کہ یہوواہ آج ہم سے کیسے بات کرتا ہے۔‏

17 یہوواہ آج بھی اِنسانوں سے بات کرتا ہے۔‏ ‏(‏یسعیاہ 30:‏21 کو پڑھیں۔‏)‏ سچ ہے کہ ہم آسمان سے خدا کی آواز نہیں سنتے لیکن اُس نے ہمیں اپنا پاک کلام دیا ہے جس میں وہ ہمیں مفید ہدایات فراہم کرتا ہے۔‏ اِس کے علاوہ یہوواہ کی پاک روح کی رہنمائی میں ’‏وفادار مختار‘‏ اُس کے بندوں کو باقاعدگی سے روحانی خوراک فراہم کرتا ہے۔‏ (‏لُو 12:‏42‏)‏ ہمیں چھپی ہوئی مطبوعات،‏ آن‌لائن مواد اور ویڈیوز اور آڈیو ریکارڈنگز کی صورت میں واقعی کثرت سے روحانی خوراک مل رہی ہے۔‏

18.‏ یہوواہ کے الفاظ پر غور کرنے سے آپ کا ایمان اور دلیری کیسے بڑھتی ہے؟‏

18 آئیں،‏ اُن الفاظ کو یاد رکھیں جو یہوواہ نے اُس وقت کہے تھے جب اُس کا بیٹا زمین پر تھا۔‏ دُعا ہے کہ اِن الفاظ کے ذریعے ہمیں یہ اِعتماد حاصل ہو کہ سب کچھ یہوواہ کے اِختیار میں ہے اور وہ اُس سارے نقصان کی بھرپائی کر دے گا جو شیطان اور اُس کی دُنیا کی وجہ سے ہمیں ہوتا ہے۔‏ یہ عزم کریں کہ آپ دھیان سے یہوواہ کی آواز سنتے رہیں گے۔‏ اگر آپ ایسا کریں گے تو آپ اُن تمام مشکلات کا کامیابی سے سامنا کر پائیں گے جن سے آپ کو اب گزرنا پڑ رہا ہے یا مستقبل میں گزرنا پڑ سکتا ہے۔‏ بائبل میں ہم سے یہ کہا گیا ہے:‏ ”‏آپ کو ثابت‌قدمی کی ضرورت ہے تاکہ آپ خدا کی مرضی پر چلتے رہیں اور وہ سب کچھ پائیں جس کا اُس نے وعدہ کِیا ہے۔‏“‏—‏عبر 10:‏36‏۔‏

گیت نمبر 22‏:‏ ‏’‏یہوواہ میرا چوپان ہے‘‏

^ پیراگراف 5 جب یسوع مسیح زمین پر تھے تو تین موقعوں پر آسمان سے یہوواہ کی آواز سنائی دی۔‏ اِن میں سے ایک موقعے پر یہوواہ نے مسیح کے شاگردوں کو ہدایت دی کہ وہ اُس کے بیٹے کی سنیں۔‏ آج یہوواہ اپنے کلام کے ذریعے ہم سے بات کرتا ہے جس میں یسوع مسیح کی تعلیمات شامل ہیں۔‏ اِس کے علاوہ وہ اپنی تنظیم کے ذریعے بھی ہم سے بات کرتا ہے۔‏ اِس مضمون میں ہم غور کریں گے کہ یہوواہ اور یسوع کی بات سننے سے ہمیں کون سے فائدے ہوتے ہیں۔‏

^ پیراگراف 52 تصویر کی وضاحت‏:‏ ایک بزرگ ایک خادم کو دیکھ رہا ہے جو پہلے کنگڈم ہال کی صفائی کر رہا ہے اور بعد میں مطبوعات والے شعبے میں کام کر رہا ہے۔‏ اِجلاس کے بعد بزرگ اُس خادم کو داد دے رہا ہے۔‏

^ پیراگراف 54 تصویر کی وضاحت‏:‏ سیرا لیون میں ایک جوڑا ایک مقامی مچھیرے کو اِجلاس کا دعوت‌نامہ دے رہا ہے۔‏

^ پیراگراف 56 تصویر کی وضاحت‏:‏ ایک ایسے ملک میں جہاں ہمارے کام پر پابندی ہے،‏ ہمارے بہن بھائی ایک گھر میں عبادت کے لیے جمع ہیں۔‏ اُنہوں نے ایسے کپڑے پہنے ہوئے ہیں جن کی وجہ سے وہ لوگوں کی نظروں میں آنے سے بچ سکتے ہیں۔‏