مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

مطالعے کا مضمون نمبر 25

پریشانیوں میں یہوواہ پر بھروسا کریں

پریشانیوں میں یہوواہ پر بھروسا کریں

‏”‏آدمی کا دل فکرمندی سے دب جاتا ہے۔‏“‏‏—‏امثا 12:‏25‏۔‏

گیت نمبر 51‏:‏ یہوواہ خدا سے لپٹے رہو

مضمون پر ایک نظر *

1.‏ ہمیں یسوع مسیح کی آگاہی پر دھیان کیوں دینا چاہیے؟‏

یسوع مسیح نے آخری زمانے کے بارے میں پیش‌گوئی کرتے وقت کہا:‏ ”‏خبردار رہیں کہ آپ کے دل .‏ .‏ .‏ زندگی کی فکروں کی وجہ سے دب نہ جائیں۔‏“‏ (‏لُو 21:‏34‏)‏ ہمارے لیے اِس آگاہی پر دھیان دینا بےحد ضروری ہے۔‏ ایسا کیوں ہے؟‏ کیونکہ ہم بہت سی ایسی پریشانیوں کا سامنا کر رہے ہیں جن کا سامنا سب لوگوں کو کرنا پڑتا ہے۔‏

2.‏ ہمارے بہن بھائیوں کو کن پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے؟‏

2 کبھی کبھار ہمیں ایک ہی وقت میں کئی پریشانیاں جھیلنی پڑتی ہیں۔‏ اِس سلسلے میں ذرا کچھ بہن بھائیوں کی مثال پر غور کریں۔‏ جان * نامی بھائی ایک ایسی بیماری میں مبتلا ہیں جس میں اِنسان کے پٹھے نہایت کمزور ہو جاتے ہیں۔‏ اِس کے علاوہ اُن کی بیوی اُنہیں شادی کے 19 سال بعد چھوڑ کر چلی گئی جس پر بھائی جان کو بہت دھچکا لگا اور وہ بالکل ٹوٹ کر رہ گئے۔‏ بعد میں اُن کی دو بیٹیوں نے یہوواہ کی خدمت کرنی چھوڑ دی۔‏ ذرا بھائی باب اور اُن کی بیوی لنڈا کی مثال پر بھی غور کریں جنہیں کچھ اَور طرح کی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا۔‏ اُن دونوں کی نوکریاں چلی گئیں اور اُنہیں اپنا گھر چھوڑنا پڑا کیونکہ وہ اِس کا کرایہ اور بِل وغیرہ نہیں بھر سکتے تھے۔‏ یہ پریشانیاں کم نہ تھیں کہ لنڈا کو پتہ چلا کہ اُنہیں دل کی جان‌لیوا بیماری ہے اور وہ ایک ایسی بیماری کا بھی شکار ہیں جس سے اُن کے دِفاعی نظام کو نقصان پہنچ رہا ہے۔‏

3.‏ فِلپّیوں 4:‏6،‏ 7 کے مطابق ہم کس بات کا یقین رکھ سکتے ہیں؟‏

3 ہم پورا یقین رکھ سکتے ہیں کہ ہمارا خالق اور شفیق خدا یہوواہ اِس بات سے بخوبی واقف ہے کہ پریشانیاں ہم پر کیا اثر ڈالتی ہیں۔‏ وہ مشکلوں اور پریشانیوں کا مقابلہ کرنے میں ہمارا ساتھ دینا چاہتا ہے۔‏ ‏(‏فِلپّیوں 4:‏6،‏ 7 کو پڑھیں۔‏)‏ بائبل میں ایسے بہت سے واقعات درج ہیں جن میں بتایا گیا ہے کہ خدا کے بندوں نے کون سی مشکلات سہیں۔‏ اِس میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ یہوواہ نے اِن پریشان‌کُن صورتحال سے نمٹنے میں اپنے اِن بندوں کی مدد کیسے کی۔‏ آئیں،‏ چند مثالوں پر غور کرتے ہیں۔‏

‏’‏ایلیاہ ہمارے جیسے احساسات رکھتے تھے‘‏

4.‏ ایلیاہ کو کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور وہ اِن کا سامنا کیسے کر پائے؟‏

4 ایلیاہ نہایت ہی کٹھن دَور میں یہوواہ کی خدمت کر رہے تھے اور اُنہیں کئی سنگین مسئلوں کا سامنا تھا۔‏ اخی‌اب اِسرائیل کے سرکش بادشاہوں میں سے ایک تھے۔‏ اُنہوں نے اِیزِبل نامی عورت سے شادی کی جو بعل کی پوجا کرتی تھی۔‏ اِن دونوں نے مل کر پورے ملک میں بعل کی پرستش کو پھیلا دیا اور یہوواہ کے بہت سے نبیوں کو موت کے گھاٹ اُتار دیا۔‏ لیکن ایلیاہ اُن کے ہاتھوں اپنی جان بچانے میں کامیاب ہو گئے۔‏ یہوواہ پر آس لگانے کی وجہ سے وہ اُس وقت بھی بچ گئے جب پورا ملک سخت قحط کا شکار تھا۔‏ (‏1-‏سلا 17:‏2-‏4،‏ 14-‏16‏)‏ اِس کے علاوہ ایلیاہ نے اُس وقت بھی یہوواہ پر بھروسا ظاہر کِیا جب اُن کے اور بعل کے نبیوں کے بیچ سچے خدا کو لے کر مقابلہ ہوا۔‏ اُنہوں نے اِسرائیلیوں کو تاکید کی کہ وہ یہوواہ کی عبادت کریں۔‏ (‏1-‏سلا 18:‏21-‏24،‏ 36-‏38‏)‏ ایلیاہ نے اِس بات کے بےشمار ثبوت دیکھے تھے کہ یہوواہ نے مشکل صورتحال میں پَل پَل اُن کا ساتھ دیا ہے۔‏

یہوواہ نے ایلیاہ کی طاقت بحال کرنے کے لیے اپنے فرشتے کو اُن کے پاس بھیجا۔‏ (‏پیراگراف نمبر 5،‏ 6 کو دیکھیں۔‏)‏ *

5،‏ 6.‏ ‏(‏الف)‏ 1-‏سلاطین 19:‏1-‏4 کی روشنی میں بتائیں کہ ایلیاہ کیسا محسوس کر رہے تھے۔‏ (‏ب)‏ یہوواہ نے کیسے ظاہر کِیا کہ وہ ایلیاہ سے محبت کرتا ہے؟‏

5 پہلا سلاطین 19:‏1-‏4 کو پڑھیں۔‏ جب ملکہ اِیزِبل نے ایلیاہ کو مار ڈالنے کی دھمکی دی تو وہ اِتنے خوف‌زدہ ہو گئے کہ وہ اپنی جان بچانے کے لیے بیرسبع کو بھاگ گئے۔‏ اُن کا حوصلہ اِس قدر پست ہو گیا کہ وہ ’‏اپنے لئے موت مانگنے‘‏ لگے۔‏ وہ ایسا کیوں محسوس کر رہے تھے؟‏ کیونکہ وہ بھی ”‏ہماری طرح اِنسان تھے اور ہمارے جیسے احساسات رکھتے تھے۔‏“‏ (‏یعقو 5:‏17‏)‏ ہو سکتا ہے کہ پریشانی اور جسمانی تھکاوٹ کی وجہ سے اُن کی ہمت جواب دے گئی۔‏ شاید ایلیاہ یہ سوچ رہے تھے کہ یہوواہ کی عبادت کو فروغ دینے کے لیے اُنہوں نے جو بھی کوششیں کی ہیں،‏ وہ سب رائیگاں گئی ہیں۔‏ اُنہیں لگ رہا تھا کہ ملک اِسرائیل میں رتی بھر بھی بہتری نہیں آئی اور صرف وہی اکیلے ابھی تک یہوواہ کی عبادت کر رہے ہیں۔‏ (‏1-‏سلا 18:‏3،‏ 4،‏ 13؛‏ 19:‏10،‏ 14‏)‏ شاید خدا کے اِس وفادار بندے کا ایسا ردِعمل دیکھ کر ہمیں حیرانی ہو۔‏ لیکن یہوواہ ایلیاہ کے احساسات کو پوری طرح سے سمجھتا تھا۔‏

6 یہوواہ نے ایلیاہ کو اپنے احساسات کا اِظہار کرنے پر ڈانٹا نہیں۔‏ اِس کی بجائے اُس نے ایلیاہ کی طاقت بحال کرنے کے لیے اُن مدد کی۔‏ (‏1-‏سلا 19:‏5-‏7‏)‏ بعد میں یہوواہ نے بڑی شفقت سے ایلیاہ کی سوچ کو درست کِیا اور ایسا کرنے کے لیے اُن کے سامنے اپنی شان‌دار قدرت کا مظاہرہ کِیا۔‏ پھر یہوواہ نے ایلیاہ کو بتایا کہ اِسرائیل میں ابھی بھی 7000 ایسے اشخاص ہیں جنہوں نے بعل کے آگے گھٹنے نہیں ٹیکے۔‏ (‏1-‏سلا 19:‏11-‏18‏)‏ اِن طریقوں سے ایلیاہ کی مدد کرنے سے یہوواہ نے اُنہیں اپنی محبت کا احساس دِلایا۔‏

یہوواہ ہماری مدد کیسے کرے گا؟‏

7.‏ یہوواہ نے جس طرح سے ایلیاہ کی مدد کی،‏ اُس سے ہم تسلی کیوں پا سکتے ہیں؟‏

7 کیا آپ کسی پریشانی سے دوچار ہیں؟‏ اگر ایسا ہے تو آپ یہ جاننے سے تسلی پا سکتے ہیں کہ یہوواہ ایلیاہ کے احساسات کو سمجھتا تھا۔‏ اِس بات پر غور کرنے سے ہمارا یہ یقین بھی مضبوط ہوتا ہے کہ یہوواہ ہمارے جذبات کو بھی اچھی طرح سے سمجھتا ہے۔‏ وہ یہ جانتا ہے کہ کون سے کام کرنا ہمارے بس میں ہیں اور کون سے نہیں۔‏ وہ تو ہمارے خیالات اور احساسات تک سے بخوبی واقف ہے۔‏ (‏زبور 103:‏14؛‏ 139:‏3،‏ 4‏)‏ اگر ہم بھی ایلیاہ کی طرح یہوواہ پر بھروسا رکھیں گے تو وہ اُن مشکلات سے نمٹنے میں ہماری مدد کرے گا جو پریشانیوں کا باعث بنتی ہیں۔‏—‏زبور 55:‏22‏۔‏

8.‏ یہوواہ خدا پریشانی سے نمٹنے میں آپ کی مدد کیسے کرے گا؟‏

8 جب ہم پریشان ہوتے ہیں تو ہم منفی سوچ کا شکار ہو سکتے ہیں اور اِس وجہ سے ہمارا حوصلہ ٹوٹ سکتا ہے۔‏ اگر آپ کے ساتھ ایسا ہو تو یاد رکھیں کہ یہوواہ پریشانی سے نمٹنے میں آپ کی مدد کرے گا۔‏ مگر وہ آپ کی مدد کیسے کرے گا؟‏ وہ آپ کی حوصلہ‌افزائی کرتا ہے کہ آپ اُسے اپنی پریشانیوں اور احساسات کے بارے میں بتائیں۔‏ وہ آپ کی اِلتجاؤں کا جواب ضرور دے گا۔‏ (‏زبور 5:‏3؛‏ 1-‏پطر 5:‏7‏)‏ لہٰذا دُعا میں یہوواہ سے اپنی مشکلوں کے بارے میں بات کرتے رہیں۔‏ سچ ہے کہ وہ آپ سے براہِ‌راست بات نہیں کرے گا جس طرح اُس نے ایلیاہ سے کی تھی لیکن وہ آپ سے اپنے کلام اور اپنی تنظیم کے ذریعے بات کرے گا۔‏ بائبل میں درج باتوں کو پڑھنے سے آپ کو تسلی اور اُمید مل سکتی ہے۔‏ اِس کے علاوہ ہمارے مسیحی بہن بھائی بھی ہمارا حوصلہ بڑھا سکتے ہیں۔‏—‏روم 15:‏4؛‏ عبر 10:‏24،‏ 25‏۔‏

9.‏ ایک قابلِ‌بھروسا دوست ہماری مدد کیسے کر سکتا ہے؟‏

9 یہوواہ نے ایلیاہ سے کہا کہ وہ اپنی کچھ ذمےداریاں اِلیشع کو نبھانے کے لیے دیں۔‏ یوں اُس نے ایلیاہ کو ایک ایسے قابل دوست کا ساتھ بخشا جو یقیناً پریشانی کے وقت اُن کا جذباتی سہارا بنا ہوگا۔‏ اِسی طرح جب ہم اپنے کسی قابلِ‌بھروسا دوست کو اپنے احساسات کے بارے میں بتاتے ہیں تو وہ ہمیں جذباتی طور پر سہارا دے سکتا ہے۔‏ (‏2-‏سلا 2:‏2؛‏ امثا 17:‏17‏)‏ اگر آپ کو لگتا ہے کہ آپ کا کوئی ایسا دوست نہیں جسے آپ اپنی پریشانیوں اور احساسات کے بارے میں بتا سکیں تو یہوواہ خدا سے دُعا کریں کہ وہ ایسا پُختہ مسیحی ڈھونڈنے میں آپ کی مدد کرے جو آپ کو جذباتی سہارا فراہم کر سکے۔‏

10.‏ ‏(‏الف)‏ ایلیاہ کی مثال سے ہمیں اُمید کیوں ملتی ہے؟‏ (‏ب)‏ یسعیاہ 40:‏28،‏ 29 میں درج وعدے سے ہمارا حوصلہ مضبوط کیوں ہوتا ہے؟‏

10 یہوواہ نے ایلیاہ کی مدد کی تاکہ وہ اپنی پریشانیوں سے نمٹ سکیں۔‏ یوں وہ کئی سالوں تک وفاداری سے اُس کی خدمت کرنے کے قابل ہوئے۔‏ ایلیاہ کی مثال سے ہمیں اُمید ملتی ہے کہ ہم بھی ثابت‌قدم رہ سکتے ہیں۔‏ کبھی کبھار ہم اِتنا زیادہ پریشانیوں کے بوجھ تلے دبا محسوس کرتے ہیں کہ ہم جسمانی اور جذباتی طور پر بالکل نڈھال ہو جاتے ہیں۔‏ لیکن اگر ہم یہوواہ پر بھروسا رکھیں گے تو وہ ہمیں طاقت دے گا تاکہ ہم اُس کی خدمت کو جاری رکھ سکیں۔‏‏—‏یسعیاہ 40:‏28،‏ 29 کو پڑھیں۔‏

حنّہ،‏ داؤد اور آسف نے یہوواہ پر بھروسا کِیا

11-‏13.‏ قدیم زمانے میں رہنے والے خدا کے تین بندوں پر پریشانی کا کیا اثر ہوا؟‏

11 بائبل میں خدا کے اَور بھی ایسے بندوں کا ذکر ملتا ہے جنہیں شدید پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔‏ مثال کے طور پر حنّہ کو بانجھ ہونے کی ذِلت جھیلنی پڑی اور ساتھ ہی ساتھ اپنی سوتن کے دل دُکھانے والے طعنے سننے پڑے۔‏ (‏1-‏سمو 1:‏2،‏ 6‏)‏ حنّہ اِس کٹھن صورتحال سے اِس قدر پریشان ہو گئیں کہ وہ زار زار روتی تھیں اور کھانا نہیں کھاتی تھیں۔‏—‏1-‏سمو 1:‏7،‏ 10‏۔‏

12 بعض اوقات بادشاہ داؤد بھی خود کو پریشانیوں کی دَلدل میں دھنسا ہوا محسوس کرتے تھے۔‏ ذرا اُن مشکلات کا سوچیں جن کا اُنہیں سامنا تھا۔‏ وہ شرمندگی کے بوجھ تلے دبے ہوئے تھے کیونکہ اُنہوں نے بہت سی غلطیاں کی تھیں۔‏ (‏زبور 40:‏12‏)‏ اُن کے عزیز بیٹے ابی‌سلوم نے اُن کے خلاف بغاوت کی جو کہ بعد میں ابی‌سلوم کی موت کا باعث بنی۔‏ (‏2-‏سمو 15:‏13،‏ 14؛‏ 18:‏33‏)‏ اِس کے علاوہ داؤد کے قریبی دوستوں میں سے ایک نے اُن سے دغا کی۔‏ (‏2-‏سمو 16:‏23–‏17:‏2؛‏ زبور 55:‏12-‏14‏)‏ داؤد کے تحریرکردہ بہت سے زبوروں میں اُن کے مایوسی کے احساسات واضح ہوتے ہیں لیکن اِس کے ساتھ ساتھ یہوواہ پر اُن کا مضبوط بھروسا بھی ظاہر ہوتا ہے۔‏—‏زبور 38:‏5-‏10؛‏ 94:‏17-‏19‏۔‏

زبورنویس دوبارہ سے خوشی کے ساتھ خدا کی خدمت کرنے کے قابل کیسے ہوا؟‏ (‏پیراگراف نمبر 13-‏15 کو دیکھیں۔‏)‏ *

13 بعد میں ایک زبورنویس بُرے لوگوں کے طرزِزندگی کو دیکھ کر اُن پر رشک کھانے لگا۔‏ یہ زبورنویس غالباً لاوی آسف کی نسل سے تھا جو ”‏خدا کے مقدِس میں“‏ خدمت کرتا تھا۔‏ وہ اِتنے شدید جذباتی دباؤ کا شکار تھا کہ وہ اپنی زندگی سے ناخوش اور غیر مطمئن ہو گیا۔‏ وہ تو یہ تک سوچنے لگا کہ خدا کی خدمت سے ملنے والی برکتیں کافی نہیں ہیں۔‏—‏زبور 73:‏2-‏5،‏ 7،‏ 12-‏14،‏ 16،‏ 17،‏ 21‏۔‏

14،‏ 15.‏ یہوواہ سے مدد حاصل کرنے کے سلسلے میں ہم بائبل میں ذکرکردہ خدا کے تین بندوں کی مثال سے کیا سیکھتے ہیں؟‏

14 خدا کے جن تین بندوں کا ہم ذکر کر چُکے ہیں،‏ اُنہوں نے مدد کے لیے یہوواہ پر آس لگائی۔‏ اُنہوں نے دُعا میں اپنی فکریں یہوواہ خدا کے سامنے رکھ دیں؛‏ اُنہوں نے کُھل کر اُسے بتایا کہ وہ اِتنے پریشان کیوں ہیں اور اُنہوں نے اُس جگہ جانا بند نہیں کِیا جہاں یہوواہ کی عبادت کی جاتی تھی۔‏—‏1-‏سمو 1:‏9،‏ 10؛‏ زبور 55:‏22؛‏ 73:‏17؛‏ 122:‏1‏۔‏

15 یہوواہ نے اُن تینوں کی دُعاؤں کا جواب دینے سے اُن کے لیے ہمدردی ظاہر کی۔‏ مثال کے طور پر حنّہ کو دلی سکون ملا۔‏ (‏1-‏سمو 1:‏18‏)‏ داؤد نے لکھا:‏ ”‏صادق کی مصیبتیں بہت ہیں لیکن [‏یہوواہ]‏ اُس کو اُن سب سے رِہائی بخشتا ہے۔‏“‏ (‏زبور 34:‏19‏)‏ اور زبورنویس نے یہ محسوس کِیا جیسے یہوواہ ”‏[‏اُس کا]‏ دہنا ہاتھ پکڑ“‏ کر پیار سے اُس کی رہنمائی کر رہا ہو۔‏ اِسی لیے اُس نے یہ گیت گایا:‏ ”‏میرے لئے یہی بھلا ہے کہ خدا کی نزدیکی حاصل کروں۔‏ مَیں نے [‏یہوواہ]‏ خدا کو اپنی پناہ‌گاہ بنا لیا ہے۔‏“‏ (‏زبور 73:‏23،‏ 24،‏ 28‏)‏ ہم اِن تینوں کی مثال سے کیا سیکھتے ہیں؟‏ کبھی کبھار ہمیں ایسے سنگین مسئلوں کا سامنا ہوتا ہے جن کی وجہ سے ہم پریشانی میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔‏ لیکن اگر ہم اِس بات پر سوچ بچار کرتے ہیں کہ یہوواہ نے اپنے بندوں کی مدد کیسے کی؛‏ دُعا میں اُس پر بھروسا ظاہر کرتے ہیں اور وہ کام کرتے ہیں جو وہ ہم سے کرنے کو کہتا ہے تو ہم پریشانیوں سے نمٹ سکتے ہیں۔‏—‏زبور 143:‏1،‏ 4-‏8‏۔‏

یہوواہ پر بھروسا رکھیں اور پریشانیوں پر غالب آئیں

شروع میں ایک بہن نے خود کو دوسروں سے الگ کر لیا۔‏ لیکن جب وہ دوسروں کی مدد کرنے کے موقعے تلاش کرنے لگی تو اُس کا دھیان اپنی پریشانی سے ہٹ گیا۔‏ (‏پیراگراف نمبر 16،‏ 17 کو دیکھیں۔‏)‏

16،‏ 17.‏ ‏(‏الف)‏ ہمیں خود کو دوسروں سے الگ کیوں نہیں کر لینا چاہیے؟‏ (‏ب)‏ ہماری طاقت کیسے بحال ہو سکتی ہے؟‏

16 حنّہ،‏ داؤد اور زبورنویس کی مثال سے ہم ایک اَور اہم سبق بھی سیکھتے ہیں۔‏ وہ سبق یہ ہے کہ پریشانی کی حالت میں ہمیں خود کو یہوواہ خدا اور اُس کے بندوں سے الگ نہیں کر لینا چاہیے۔‏ (‏امثا 18:‏1‏)‏ ذرا بہن نینسی کے تجربے پر غور کریں۔‏ وہ اُس وقت شدید پریشانی کا شکار ہو گئیں جب اُن کے شوہر اُن کو چھوڑ کر چلے گئے۔‏ وہ کہتی ہیں:‏ ”‏ایسا کئی بار ہوا کہ مَیں نہ تو کسی کو دیکھنا چاہتی تھی اور نہ ہی کسی سے بات کرنا چاہتی تھی۔‏ لیکن جتنا زیادہ مَیں خود کو دوسروں سے الگ رکھتی تھی اُتنا ہی زیادہ مَیں اُداس رہنے لگی۔‏“‏ لیکن پھر بہن نینسی ایسے لوگوں کی مدد کرنے کے موقعے تلاش کرنے لگیں جو مشکلات کا سامنا کر رہے تھے۔‏ یوں اُن کی صورتحال میں بہتری آنے لگی۔‏ وہ کہتی ہیں:‏ ”‏جب دوسرے مجھے اپنی مشکلوں اور پریشانیوں کے بارے میں بتاتے ہیں تو مَیں اُن کی بات سنتی ہوں۔‏ مَیں نے دیکھا ہے کہ جب مَیں اپنی توجہ دوسروں پر اور اُن کی پریشانیوں پر رکھتی ہوں تو میرا دھیان اپنی پریشانیوں سے ہٹ جاتا ہے۔‏“‏

17 اِجلاسوں میں جانے سے ہماری طاقت بحال ہو سکتی ہے۔‏ جب ہم اِجلاس پر ہوتے ہیں تو یہوواہ کو ’‏ہماری مدد کرنے اور ہمیں تسلی دینے‘‏ کا اَور زیادہ موقع ملتا ہے۔‏ (‏زبور 86:‏17‏)‏ وہاں وہ اپنی پاک روح،‏ اپنے کلام اور اپنے بندوں کے ذریعے ہمیں طاقت دیتا ہے۔‏ اِجلاسوں میں ہمیں ایک دوسرے کی حوصلہ‌افزائی کرنے کا موقع ملتا ہے۔‏ (‏روم 1:‏11،‏ 12‏)‏ ذرا غور کریں کہ صوفیہ نامی بہن نے اِس حوالے سے کیا بتایا۔‏ اُنہوں نے کہا:‏ ”‏یہوواہ اور بہن بھائیوں کی مدد سے مَیں اپنی پریشانیوں کے باوجود ثابت‌قدم رہ پائی ہوں۔‏ میرے لیے اِجلاس بہت معنی رکھتے ہیں۔‏ مَیں نے دیکھا ہے کہ جتنا زیادہ مَیں مُنادی کرنے میں مگن رہتی ہوں اور اِجلاسوں میں جانے اور اِن میں حصہ لینے کی کوشش کرتی ہوں اُتنا ہی مَیں اپنی پریشانیوں کا بہتر طور پر مقابلہ کرنے کے قابل ہوتی ہوں۔‏“‏

18.‏ جب ہم بےحوصلہ محسوس کرتے ہیں تو یہوواہ ہماری مدد کیسے کرتا ہے؟‏

18 جب آپ بےحوصلہ محسوس کرتے ہیں تو یاد رکھیں کہ یہوواہ نے ہم سے یہی وعدہ نہیں کیا کہ وہ مستقبل میں ہماری پریشانیوں کا نام‌ونشان مٹا دے گا بلکہ وہ آج بھی ہمیں اپنی پریشانیوں سے نمٹنے میں مدد فراہم کرتا ہے۔‏ وہ ہم میں مایوسی اور نااُمیدی کے احساسات پر غالب آنے کی ”‏خواہش اور طاقت پیدا“‏ کرتا ہے۔‏—‏فل 2:‏13‏۔‏

19.‏ رومیوں 8:‏37-‏39 میں ہمیں کیا یقین دِلایا گیا ہے؟‏

19 رومیوں 8:‏37-‏39 کو پڑھیں۔‏ پولُس رسول نے ہمیں یقین دِلایا کہ کوئی بھی چیز ہمیں یہوواہ کی محبت سے جُدا نہیں کر سکتی۔‏ ہم اپنے اُن بہن بھائیوں کی مدد کیسے کر سکتے ہیں جو پریشانی میں مبتلا ہیں؟‏ اگلے مضمون میں ہم اِس بات کا جائزہ لیں گے کہ ہم ایسے بہن بھائیوں کو سہارا دینے اور اُن کے لیے ہمدردی ظاہر کرنے کے لیے یہوواہ کی مثال پر کیسے عمل کر سکتے ہیں۔‏

گیت نمبر 38‏:‏ اپنا بوجھ یہوواہ پر ڈال دو

^ پیراگراف 5 اگر ہم حد سے زیادہ پریشان ہیں یا کافی لمبے عرصے سے پریشانی میں مبتلا ہیں تو اِس کا ہماری صحت اور جذبات پر بُرا اثر پڑ سکتا ہے۔‏ اِس صورت میں یہوواہ ہماری مدد کیسے کر سکتا ہے؟‏ اِس مضمون میں ہم غور کریں گے کہ یہوواہ نے اپنے نبی ایلیاہ کی مدد کیسے کی تاکہ وہ پریشانی سے نمٹ سکیں۔‏ ہم بائبل سے خدا کے کچھ اَور بندوں کی مثالوں پر بھی غور کریں گے۔‏ اِن سے ہم سیکھیں گے کہ ہم پریشانی کی حالت میں یہوواہ سے مدد حاصل کرنے کے لیے کیا کر سکتے ہیں۔‏

^ پیراگراف 2 فرضی نام اِستعمال کیے گئے ہیں۔‏

^ پیراگراف 53 تصویروں کی وضاحت‏:‏ یہوواہ کے فرشتے نے بڑے پیار سے ایلیاہ کو نیند سے جگایا ہے اور وہ اُنہیں روٹی کھانے اور پانی پینے کو دے رہا ہے۔‏

^ پیراگراف 55 تصویروں کی وضاحت‏:‏ ایک زبورنویس جو کہ شاید آسف کی نسل سے ہے،‏ زبور لکھ رہا ہے اور اپنے ساتھی لاویوں کے ساتھ خوشی سے اِسے گا رہا ہے۔‏