مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

مطالعے کا مضمون نمبر 28

پابندی کے باوجود یہوواہ کی عبادت کرنا جاری رکھیں

پابندی کے باوجود یہوواہ کی عبادت کرنا جاری رکھیں

‏”‏ہم اُن باتوں کے بارے میں چپ نہیں رہ سکتے جو ہم نے دیکھی اور سنی ہیں۔‏“‏‏—‏اعما 4:‏19،‏ 20‏۔‏

گیت نمبر 32‏:‏ سچائی کی راہ پر قائم رہو

مضمون پر ایک نظر *

1،‏ 2.‏ ‏(‏الف)‏ اگر ہمارے ملک میں یہوواہ کی عبادت پر پابندی لگا دی جائے تو یہ ہمارے لیے حیرانی کی بات کیوں نہیں؟‏ (‏ب)‏ اِس مضمون میں ہم کن باتوں پر غور کریں گے؟‏

سن 2018ء میں ہمارے 2 لاکھ 23 ہزار سے زیادہ بہن بھائی ایسے ملکوں میں رہ رہے تھے جہاں ہماری تمام یا پھر کچھ سرگرمیوں پر پابندی لگی ہوئی تھی۔‏ ہم اِس بات سے حیران نہیں ہوتے کیونکہ جیسے کہ ہم نے پچھلے مضمون میں سیکھا تھا،‏ سچے مسیحیوں کو اذیت کا نشانہ بنایا جانا ہے۔‏ (‏2-‏تیم 3:‏12‏)‏ چاہے ہم کہیں بھی رہتے ہوں،‏ سرکاری حکام ہمیں اچانک یہوواہ کی عبادت کرنے سے منع کر سکتے ہیں۔‏

2 اگر آپ کے ملک کی حکومت یہوواہ کی عبادت کرنے پر پابندی لگا دیتی ہے تو شاید آپ کے ذہن میں اِس طرح کے سوال آئیں:‏ ”‏کیا ہم پر آنے والی اذیت اِس بات کا نشان ہے کہ خدا ہم سے خوش نہیں ہے؟‏ اب جبکہ ہمارے کام پر پابندی لگ گئی ہے تو کیا ہمارے ملک سے یہوواہ کی عبادت کا نام‌ونشان مٹ جائے گا؟‏ کیا مجھے کسی ایسے ملک منتقل ہو جانا چاہیے جہاں مَیں آزادی سے یہوواہ کی عبادت کر سکوں؟‏“‏ اِس مضمون میں ہم اِن سوالوں پر غور کریں گے۔‏ اِس کے علاوہ ہم یہ دیکھیں گے کہ اگر ہمارے ملک میں ہمارے کام پر پابندی لگی ہو تو ہم یہوواہ کی عبادت کرنا کیسے جاری رکھ سکتے ہیں اور ایسے حالات میں ہمیں کن باتوں کے حوالے سے خبردار رہنے کی ضرورت ہے۔‏

کیا اذیت خدا کی ناراضگی کا نشان ہے؟‏

3.‏ ‏(‏الف)‏ 2-‏کُرنتھیوں 11:‏23-‏27 کو اِستعمال کرتے ہوئے بتائیں کہ خدا کے وفادار بندے پولُس کو کس طرح کی اذیتوں کا سامنا کرنا پڑا۔‏ (‏ب)‏ ہم پولُس کی زندگی سے کیا سیکھتے ہیں؟‏

3 اگر ہمارے ملک کی حکومت ہمارے کام پر پابندی لگا دیتی ہے تو شاید ہم اِس غلط‌فہمی کا شکار ہو جائیں کہ ہم نے خدا کی خوشنودی کھو دی ہے۔‏ لیکن یاد رکھیں کہ اذیت اِس بات کا نشان نہیں ہوتی کہ یہوواہ ہم سے ناخوش ہے۔‏ ذرا پولُس رسول کے بارے میں سوچیں۔‏ کون کہہ سکتا ہے کہ اُنہیں خدا کی خوشنودی حاصل نہیں تھی؟‏ اُنہیں تو یونانی صحیفوں کے 14 خطوط لکھنے اور غیرقوموں کے رسول کہلانے کا اعزاز بخشا گیا۔‏ پھر بھی اُنہیں اذیت کی آگ میں جھلسایا گیا۔‏ ‏(‏2-‏کُرنتھیوں 11:‏23-‏27 کو پڑھیں۔‏)‏ پولُس کی زندگی سے ہم سیکھتے ہیں کہ یہوواہ کبھی کبھار اپنے بندوں کو اذیت سے گزرنے دیتا ہے۔‏

4.‏ دُنیا ہم سے نفرت کیوں کرتی ہے؟‏

4 یسوع مسیح نے سمجھایا کہ ہمیں اِس بات کی توقع کیوں رکھنی چاہیے کہ ہم پر اذیت ڈھائی جائے گی۔‏ اُنہوں نے کہا کہ ہم سے اِس لیے نفرت کی جائے گی کیونکہ ہم دُنیا کا حصہ نہیں ہیں۔‏ (‏یوح 15:‏18،‏ 19‏)‏ لہٰذا جب ہم پر اذیت آتی ہے تو اِس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ ہم یہوواہ کی خوشنودی سے محروم ہو گئے ہیں۔‏ اِس کی بجائے یہ اِس بات کا ثبوت ہوتا ہے کہ ہم صحیح کام کر رہے ہیں۔‏

کیا پابندی یہوواہ کی عبادت کا نام‌ونشان مٹا دے گی؟‏

5.‏ کیا فانی اِنسان یہوواہ کی عبادت کا نام‌ونشان مٹا سکتے ہیں؟‏ وضاحت کریں۔‏

5 فانی اِنسان لامحدود قدرت کے مالک یہوواہ کی عبادت کا نام‌ونشان نہیں مٹا سکتے۔‏ بہت سے لوگوں نے ایسا کرنے کی کوشش کی اور مُنہ کی کھائی۔‏ ذرا غور کریں کہ دوسری عالمی جنگ کے دوران کیا ہوا۔‏ اُس وقت بہت سی حکومتیں یہوواہ کے بندوں پر شدید اذیت ڈھا رہی تھیں۔‏ نہ صرف جرمنی میں نازیوں نے بلکہ آسٹریلیا،‏ کینیڈا اور دیگر ملکوں کی حکومتوں نے بھی یہوواہ کے گواہوں کے کام پر پابندی لگائی ہوئی تھی۔‏ لیکن اِس پابندی کا نتیجہ اُن لوگوں کی توقع کے بالکل اُلٹ نکلا۔‏ 1939ء میں جب جنگ شروع ہوئی تو پوری دُنیا میں 72 ہزار 475 مبشر تھے۔‏ لیکن جب 1945ء میں جنگ ختم ہوئی تو 1 لاکھ 56 ہزار 299 لوگ یہوواہ کی تنظیم میں شامل ہو گئے تھے۔‏ یہوواہ کی برکت سے مبشروں کی تعداد دو گُنا سے زیادہ ہو چُکی تھی!‏

6.‏ مخالفت ہمیں کیا کرنے کی ترغیب دے سکتی ہے؟‏ ایک مثال دیں۔‏

6 مخالفت ہمیں دبک کر بیٹھنے کی بجائے بڑھ چڑھ کر یہوواہ کی خدمت کرنے کی ترغیب دے سکتی ہے۔‏ ذرا ایک جوڑے کی مثال پر غور کریں جن کا ایک چھوٹا سا بچہ تھا۔‏ وہ ایک ایسے ملک میں رہتے تھے جہاں حکومت نے یہوواہ کی عبادت کرنے پر پابندی لگائی ہوئی تھی۔‏ خوف‌زدہ ہو کر پیچھے ہٹنے کی بجائے اُس جوڑے نے پہل‌کار کے طور پر خدمت کرنے کا فیصلہ کِیا۔‏ بہن نے تو ایسا کرنے کے لیے اپنی اچھی خاصی تنخواہ والی ملازمت بھی چھوڑ دی۔‏ بھائی نے کہا کہ ہمارے کام پر پابندی کی وجہ سے بہت سے لوگوں میں یہوواہ کے گواہوں کے بارے میں جاننے کا تجسّس پیدا ہوا۔‏ اِس طرح اُس بھائی کے لیے لوگوں کو بائبل کورس شروع کرانا آسان ہو گیا۔‏ اُس پابندی کا دیگر اشخاص پر بھی مثبت اثر ہوا۔‏ اُسی ملک کے ایک بزرگ نے کہا کہ بہت سے ایسے اشخاص نے دوبارہ اِجلاسوں میں جانا اور مُنادی کے کام میں حصہ لینا شروع کر دیا جنہوں نے یہوواہ کی خدمت کرنی چھوڑ دی تھی۔‏

7.‏ ‏(‏الف)‏ ہم احبار 26:‏36،‏ 37 سے کیا سیکھتے ہیں؟‏ (‏ب)‏ اگر آپ کے ملک میں یہوواہ کی عبادت کرنے پر پابندی لگا دی جائے تو آپ کیا کریں گے؟‏

7 ہمارے دُشمن اِس اُمید سے ہمارے کام پر پابندی لگاتے ہیں کہ ہم خوف‌زدہ ہو کر یہوواہ کی خدمت کرنی چھوڑ دیں گے۔‏ ہمارے کام پر پابندی لگانے کے ساتھ ساتھ شاید وہ ہمارے بارے میں جھوٹی افواہیں پھیلائیں،‏ پولیس کو ہمارے گھر کی تلاشی لینے کے لیے بھیجیں،‏ ہمیں عدالتوں میں گھسیٹیں،‏ یہاں تک کہ ہم میں سے کچھ کو جیل میں بھی ڈلوا دیں۔‏ ہمارے مخالف اِس مقصد سے ہم میں سے کچھ کو جیل میں ڈالتے ہیں تاکہ ہم ڈر جائیں۔‏ لیکن اگر ہم اُن کی ایسی حرکتوں کی وجہ سے خوف‌زدہ ہو جائیں گے تو ہماری ہمت جواب دے جائے گی اور ہم یہوواہ کی خدمت سے پیچھے ہٹنے لگیں گے۔‏ یوں ہم بھی اُن لوگوں کی طرح بن جائیں گے جن کا ذکر احبار 26:‏36،‏ 37 میں کِیا گیا ہے۔‏ ‏(‏اِن آیتوں کو پڑھیں۔‏)‏ لہٰذا خوف کو خود پر اِس حد تک حاوی نہ ہونے دیں کہ آپ یہوواہ کی خدمت چھوڑنے کا سوچنے لگیں۔‏ یہوواہ پر مکمل بھروسا رکھیں اور ڈر کر پیچھے نہ ہٹیں۔‏ (‏یسع 28:‏16‏)‏ دُعا میں یہوواہ سے رہنمائی مانگیں۔‏ اور کبھی نہ بھولیں کہ اگر یہوواہ آپ کے ساتھ ہے تو طاقت‌ور سے طاقت‌ور حکومت بھی آپ کو اپنے خدا کی عبادت کرنے سے نہیں روک سکتی۔‏—‏عبر 13:‏6‏۔‏

کیا مجھے کسی دوسرے ملک منتقل ہو جانا چاہیے؟‏

8،‏ 9.‏ ‏(‏الف)‏ اگر کسی ملک میں ہمارے کام پر پابندی لگ جاتی ہے تو ہر خاندان کے سربراہ کو کون سا فیصلہ کرنا پڑتا ہے؟‏ (‏ب)‏ خاندان کا سربراہ اچھا فیصلہ کرنے کے قابل کیسے ہو سکتا ہے؟‏

8 اگر آپ کے ملک میں یہوواہ کی عبادت پر پابندی لگا دی جاتی ہے تو شاید آپ کسی ایسے ملک منتقل ہونے کا سوچیں جہاں آپ آزادی سے یہوواہ کی عبادت کر سکیں۔‏ یہ آپ کا ذاتی فیصلہ ہوگا جو کوئی اَور آپ کے لیے نہیں کر سکتا۔‏ فیصلہ کرتے وقت آپ اِس بات پر غور کر سکتے ہیں کہ جب پہلی صدی عیسوی کے مسیحیوں پر اذیت ڈھائی گئی تو اُنہوں نے کیا کِیا۔‏ جب ستفنُس کی موت کے بعد مسیحیوں کو اذیت کا نشانہ بنایا گیا تو اُن میں سے کچھ مسیحی یروشلیم کو چھوڑ کر یہودیہ اور سامریہ کے علاقوں میں چلے گئے اور باقی مسیحی دُور واقع فینیکے،‏ قبرص اور انطاکیہ منتقل ہو گئے۔‏ (‏متی 10:‏23؛‏ اعما 8:‏1؛‏ 11:‏19‏)‏ اِس کے برعکس جب کچھ سال بعد مسیحیوں کو دوبارہ سے اذیت کا سامنا ہوا تو پولُس نے اُن علاقوں سے نہ جانے کا فیصلہ کِیا جہاں مُنادی کے کام کی مخالفت کی جا رہی تھی۔‏ اُنہوں نے اپنی جان کا خطرہ مول لیتے ہوئے ایسے شہروں میں خوش‌خبری سنائی اور بھائیوں کی ہمت بندھائی جہاں مسیحی شدید اذیت سے گزر رہے تھے۔‏—‏اعما 14:‏19-‏23‏۔‏

9 اِن واقعات سے ہم کیا سیکھتے ہیں؟‏ ہر خاندان کے سربراہ کو خود یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ اپنے خاندان کو لے کر کہیں اَور منتقل ہوگا یا نہیں۔‏ لیکن کوئی بھی فیصلہ کرنے سے پہلے اُسے دُعا کرنی چاہیے،‏ اپنے خاندان کے حالات کو مدِنظر رکھنا چاہیے اور اِس بات غور کرنا چاہیے کہ کسی دوسری جگہ منتقل ہونے کے کیا فائدے ہوں گے اور کیا نقصان۔‏ یہ ایک ایسا معاملہ ہے جس میں ہر کسی کو ”‏اپنی ذمےداری کا بوجھ“‏ اُٹھانا چاہیے۔‏ (‏گل 6:‏5‏)‏ البتہ ہمیں اِس حوالے سے دوسروں کے فیصلوں پر تنقید نہیں کرنی چاہیے۔‏

ہم پابندی کی صورت میں یہوواہ کی عبادت کیسے کریں گے؟‏

10.‏ برانچ اور بزرگ آپ کو کس حوالے سے ہدایات دیں گے؟‏

10 اگر آپ کے ملک میں ہمارے کام پر پابندی لگ جائے تو آپ یہوواہ کی عبادت کرنا کیسے جاری رکھ سکتے ہیں؟‏ جو برانچ آپ کے ملک کی نگرانی کرتی ہے،‏ وہ روحانی خوراک حاصل کرنے،‏ عبادت کے لیے جمع ہونے اور خوش‌خبری کی مُنادی کرنے کے حوالے سے آپ کی کلیسیا کے بزرگوں کو کچھ ہدایات اور عملی مشورے دے گی۔‏ اگر برانچ کا بزرگوں سے رابطہ نہیں ہو پاتا تو بزرگ بائبل اور ہماری مطبوعات کی روشنی میں کلیسیا کو ہدایات دیں گے تاکہ وہ یہوواہ کی عبادت کرنا جاری رکھ سکیں۔‏—‏متی 28:‏19،‏ 20؛‏ اعما 5:‏29؛‏ عبر 10:‏24،‏ 25‏۔‏

11.‏ ‏(‏الف)‏ آپ اِس بات کا یقین کیوں رکھ سکتے ہیں کہ آپ کو روحانی خوراک ملتی رہے گی؟‏ (‏ب)‏ آپ روحانی خوراک کو مخالفین کی پہنچ سے دُور رکھنے کے لیے کیا کر سکتے ہیں؟‏

11 یہوواہ نے وعدہ کِیا ہے کہ وہ اپنے بندوں کو کثرت سے روحانی خوراک فراہم کرے گا۔‏ (‏یسع 65:‏13،‏ 14؛‏ لُو 12:‏42-‏44‏)‏ اِس لیے آپ بھروسا رکھ سکتے ہیں کہ اُس کی تنظیم سے جہاں تک ہو سکے گا،‏ وہ آپ کو ہر ضروری چیز فراہم کرے گی تاکہ آپ روحانی لحاظ سے مضبوط رہ سکیں۔‏ لیکن آپ کو بھی کچھ کرنے کی ضرورت ہوگی۔‏ اگر آپ کے ملک میں ہمارے کام پر پابندی لگ جائے تو اپنی بائبل اور ہماری دیگر مطبوعات کو چھپا کر رکھیں۔‏ آپ کے پاس تنظیم کا جو بھی مواد ہے پھر چاہے وہ چھپی ہوئی شکل میں ہو یا فون یا ٹیبلٹ وغیرہ میں،‏ اُسے ایسی جگہ محفوظ رکھیں جہاں مخالفین آسانی سے ڈھونڈ نہ سکیں۔‏ اگر ہمارے کام پر پابندی لگ جائے تو ہم میں سے ہر ایک کو ذاتی طور پر عملی اِقدام اُٹھانے کی ضرورت ہوگی تاکہ ہم اپنے ایمان کو مضبوط رکھ سکیں۔‏

اگر یہوواہ ہمارے ساتھ ہے تو ہم بغیر کسی خوف کے عبادت کے لیے جمع ہو سکتے ہیں۔‏ (‏پیراگراف نمبر 12 کو دیکھیں۔‏)‏ *

12.‏ بزرگ کس طرح سے اِجلاسوں کا اِنتظام کر سکتے ہیں تاکہ ہمارے مخالفین کو اِن کے بارے میں پتہ نہ چلے؟‏

12 ہمارے کام پر پابندی کے دوران اِجلاسوں کا اِنتظام کیسے کِیا جا سکتا ہے؟‏ آپ کی کلیسیا کے بزرگ یہ بندوبست کریں گے کہ اِجلاس ایسے طریقے سے منعقد کیے جائیں کہ مخالفین کو اِن کی بھنک نہ لگے۔‏ ہو سکتا ہے کہ وہ آپ کو چھوٹے چھوٹے گروپوں میں جمع ہونے کو کہیں اور اکثر اِجلاس کا وقت اور جگہ تبدیل کریں۔‏ آپ اِجلاس میں آنے والوں کی حفاظت کے پیشِ‌نظر آتے جاتے وقت اُونچی آواز میں بولنے سے گریز کر سکتے ہیں۔‏ اِس کے علاوہ آپ ایسے کپڑے پہن سکتے ہیں جنہیں دیکھ کر یہ نہ لگے کہ آپ عبادت کے لیے جا رہے ہیں۔‏

اگر حکومت ہمارے کام پر پابندی لگا دے تو بھی ہم مُنادی کرنا نہیں چھوڑیں گے۔‏ (‏پیراگراف نمبر 13 کو دیکھیں۔‏)‏ *

13.‏ ہم سابقہ سوویت یونین میں رہنے والے بہن بھائیوں کی مثال سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟‏

13 جہاں تک مُنادی کے کام کی بات ہے تو ہر ملک کی صورتحال فرق ہو سکتی ہے۔‏ لیکن چونکہ ہم یہوواہ سے محبت کرتے ہیں اور اُس کی بادشاہت کے بارے میں بات کرنے کا شوق رکھتے ہیں اِس لیے ہم مُنادی کرنے کا کوئی نہ کوئی طریقہ نکال ہی لیتے ہیں۔‏ (‏لُو 8:‏1؛‏ اعما 4:‏29‏)‏ تاریخ‌دان امیلی باران نے سابقہ سوویت یونین میں یہوواہ کے گواہوں کے مُنادی کے کام کے متعلق بات کرتے ہوئے لکھا:‏ ”‏جب حکومت نے گواہوں کو مُنادی کرنے سے منع کِیا تو اُنہوں نے اپنے پڑوسیوں،‏ اپنے ساتھ کام کرنے والوں اور اپنے دوستوں سے اپنے ایمان کے بارے میں بات‌چیت شروع کر دی۔‏ اور جب اُنہیں اِس وجہ سے قیدی کیمپوں میں ڈال دیا گیا تو وہ ساتھی قیدیوں کو مُنادی کرنے لگ پڑے۔‏“‏ ہمارے کام پر پابندی کے باوجود اُن بہن بھائیوں نے مُنادی کرنی بند نہیں کی۔‏ اگر آپ کے ملک میں یہوواہ کی عبادت کرنے پر پابندی لگا دی جائے تو اُمید ہے کہ آپ کا بھی یہی عزم ہوگا۔‏

ہمیں کن باتوں کے حوالے سے خبردار رہنا چاہیے؟‏

ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ہمیں کب چپ رہنا ہے۔‏ (‏پیراگراف نمبر 14 کو دیکھیں۔‏)‏ *

14.‏ ہم زبور 39:‏1 پر کیسے عمل کر سکتے ہیں؟‏

14 دوسروں کو حساس معلومات دینے سے گریز کریں۔‏ اگر ہمارے کام پر پابندی لگی ہو تو ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ ہمیں کب چپ رہنا ہے۔‏ (‏واعظ 3:‏7‏)‏ ہمیں حساس معلومات کو اپنے تک رکھنا چاہیے،‏ مثلاً ہمیں بہن بھائیوں کے نام نہیں ظاہر کرنے چاہئیں اور یہ بھی نہیں بتانا چاہیے کہ ہم کہاں عبادت کے لیے جمع ہوتے ہیں،‏ کیسے مُنادی کرتے ہیں اور کس طرح روحانی خوراک حاصل کرتے ہیں۔‏ ہم یہ تو جانتے ہیں کہ ہم سرکاری حکام کو ایسی معلومات ہرگز نہیں دیں گے لیکن ہمیں اِس بات کا بھی دھیان رکھنا چاہیے کہ ہم اپنے دوستوں اور رشتےداروں کو یہ باتیں نہ بتائیں پھر چاہے وہ ملک کے اندر رہتے ہوں یا ملک سے باہر۔‏ اگر ہم اِس حوالے سے محتاط نہیں رہیں گے تو ہم اپنے بہن بھائیوں کو خطرے میں ڈال دیں گے۔‏‏—‏زبور 39:‏1 کو پڑھیں۔‏

15.‏ شیطان ہمارے اِتحاد کو نقصان پہنچانے کی کوشش کیسے کرتا ہے اور ہم اُسے کامیاب ہونے سے کیسے روک سکتے ہیں؟‏

15 چھوٹے موٹے معاملات کی وجہ سے اِختلافات کھڑے نہ ہونے دیں۔‏ شیطان جانتا ہے کہ جس گھر میں پھوٹ پڑ جاتی ہے،‏ وہ قائم نہیں رہ سکتا۔‏ (‏مر 3:‏24،‏ 25‏)‏ اِس لیے وہ مسلسل ہمارے درمیان پھوٹ ڈالنے کی کوشش کرتا ہے۔‏ وہ چاہتا ہے کہ ہم اُس سے لڑنا چھوڑ کر آپس میں لڑنے لگ جائیں۔‏

16.‏ بہن گرٹروڈ نے کون سی عمدہ مثال قائم کی؟‏

16 پُختہ مسیحیوں کو بھی اِس حوالے سے محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔‏ اِس سلسلے میں ذرا دو مسح‌شُدہ بہنوں گرٹروڈ پوئٹ‌زینگر اور ایل‌فریڈے لوئر کی مثال پر غور کریں۔‏ اُنہیں دیگر بہنوں کے ساتھ نازیوں کے ایک قیدی کیمپ میں رکھا گیا تھا۔‏ بہن ایل‌فریڈے دوسری بہنوں کی حوصلہ‌افزائی کے لیے تقریریں کرتی تھیں۔‏ اِس وجہ سے بہن گرٹروڈ اُن سے حسد کرنے لگیں۔‏ بعد میں بہن گرٹروڈ کو اِس بات پر شرمندگی ہوئی اور اُنہوں نے یہوواہ سے مدد کے لیے اِلتجا کی۔‏ اُنہوں نے لکھا:‏ ”‏جب دوسروں کے پاس ہم سے زیادہ قابلیت یا ذمےداریاں ہوتی ہیں تو ہمیں اِس بات کو خوشی سے قبول کرنا چاہیے۔‏“‏ بہن گرٹروڈ اپنے دل سے حسد کیسے نکال پائیں؟‏ اُنہوں نے بہن ایل‌فریڈے کی خوبیوں اور اُن کے دوستانہ مزاج پر غور کِیا۔‏ یوں وہ اُن کے ساتھ پھر سے اچھے تعلقات قائم کر پائیں۔‏ وہ دونوں بہنیں قیدی کیمپ سے سلامت بچ نکلیں اور اپنی زمینی زندگی کے آخر تک وفاداری سے یہوواہ کی خدمت کرتی رہیں۔‏ اگر ہم بھی اپنے درمیان کھڑے ہونے والے چھوٹے موٹے مسائل کو حل کرنے کی پوری کوشش کریں گے تو ہم اپنے اِتحاد کو برقرار رکھ پائیں گے۔‏—‏کُل 3:‏13،‏ 14‏۔‏

17.‏ ہمیں اپنی من‌مانی کرنے سے کیوں بچنا چاہیے؟‏

17 اپنی من‌مانی کرنے سے بچیں۔‏ اگر ہم ذمےدار بھائیوں کی طرف سے ملنے والی ہدایات پر عمل کریں گے تو ہم مسئلوں سے بچ سکیں گے۔‏ (‏1-‏پطر 5:‏5‏)‏ اِس حوالے سے ایک مثال پر غور کریں۔‏ ایک ملک میں جہاں ہمارے کام پر پابندی تھی،‏ بھائیوں نے ہدایت دی کہ مبشر مُنادی کے دوران لوگوں کو چھپی ہوئی مطبوعات نہ دیں۔‏ لیکن ایک پہل‌کار بھائی نے اِس ہدایت کو نظرانداز کِیا اور لوگوں کو مطبوعات دے دیں۔‏ جب اُس بھائی اور اُس کے ساتھ غیرمنظم گواہی دینے والے دیگر بہن بھائیوں نے کام ختم کِیا تو پولیس اُن سے پوچھ‌گچھ کرنے آ گئی۔‏ ایسا لگتا ہے کہ پولیس نے اُن کا پیچھا کِیا تھا اور وہ مطبوعات ضبط کر لی تھیں جو اُنہوں نے لوگوں کو دی تھیں۔‏ اِس سے ہم کیا سیکھتے ہیں؟‏ ہمیں اُس صورت میں بھی بزرگوں کی ہدایت پر عمل کرنا چاہیے اگر ہم اِس سے متفق نہیں ہوتے۔‏ جب ہم اُن بھائیوں کے ساتھ تعاون کرتے ہیں جنہیں یہوواہ نے ہماری پیشوائی کرنے کے لیے مقرر کِیا ہے تو ہمیں یہوواہ کی طرف سے برکت ملتی ہے۔‏—‏عبر 13:‏7،‏ 17‏۔‏

18.‏ بزرگوں کو بہن بھائیوں کے لیے غیرضروری قاعدے قانون کیوں نہیں بنانے چاہئیں؟‏

18 غیرضروری قاعدے قانون نہ بنائیں۔‏ اگر بزرگ غیرضروری قاعدے قانون بنائیں گے تو وہ دوسروں پر بوجھ ڈال رہے ہوں گے۔‏ بھائی جوراج کمین‌سکی نے اُس وقت کو یاد کرتے ہوئے جب سابقہ چیکوسلواکیہ میں ہمارے کام پر پابندی تھی،‏ کہا:‏ ”‏جب ذمےدار بھائیوں اور بہت سے بزرگوں کو گِرفتار کر لیا گیا تو باقی بزرگوں اور حلقے کے نگہبانوں نے بہن بھائیوں کے لیے قاعدے قانون بنانا یعنی اُنہیں یہ بتانا شروع کر دیا کہ اُنہیں کیا کرنا چاہیے اور کیا نہیں۔‏“‏ یہوواہ نے ہمیں یہ اِختیار نہیں دیا کہ ہم دوسروں کے ذاتی فیصلوں کو اپنے ہاتھ میں لیں۔‏ جو شخص غیرضروری طور پر بہن بھائیوں کے لیے قوانین بناتا ہے،‏ وہ اُن کی حفاظت کرنے کی بجائے اُن کے ایمان کا مالک بننے کی کوشش کر رہا ہوتا ہے۔‏—‏2-‏کُر 1:‏24‏۔‏

کبھی یہوواہ کی عبادت کرنا نہ چھوڑیں

19.‏ چاہے شیطان جو بھی کر لے،‏ ہم 2-‏تواریخ 32:‏7،‏ 8 کے مطابق کیا اِعتماد رکھ سکتے ہیں؟‏

19 ہمارا بدترین دُشمن شیطان اِبلیس ہمیں اذیت پہنچانا بند نہیں کرے گا۔‏ (‏1-‏پطر 5:‏8؛‏ مکا 2:‏10‏)‏ وہ اور اُس کا ساتھ دینے والے یہوواہ کی عبادت پر پابندی لگانے کی کوشش کرتے رہیں گے۔‏ لیکن ہمیں اِس وجہ سے خوف میں مبتلا ہو کر یہوواہ کی عبادت کرنی نہیں چھوڑ دینی چاہیے۔‏ (‏اِست 7:‏21‏)‏ یہوواہ ہمارے ساتھ ہے اور وہ ہمیشہ ہماری مدد کرے گا،‏ اُس صورت میں بھی اگر ہمارے کام پر پابندی لگا دی جائے۔‏‏—‏2-‏تواریخ 32:‏7،‏ 8 کو پڑھیں۔‏

20.‏ آپ نے کیا عزم کِیا ہے؟‏

20 دُعا ہے کہ ہم بھی پہلی صدی عیسوی کے اُن بھائیوں جیسا عزم کریں جنہوں نے اپنے زمانے کے حاکموں سے کہا:‏ ”‏اگر آپ سمجھتے ہیں کہ خدا کی نظر میں یہ مناسب ہے کہ ہم اُس کی بات ماننے کی بجائے آپ کی بات مانیں تو یہ آپ کی رائے ہے۔‏ لیکن جہاں تک ہمارا تعلق ہے،‏ ہم اُن باتوں کے بارے میں چپ نہیں رہ سکتے جو ہم نے دیکھی اور سنی ہیں۔‏“‏—‏اعما 4:‏19،‏ 20‏۔‏

گیت نمبر 33‏:‏ اُن سے نہ ڈرو!‏

^ پیراگراف 5 اگر حکومت یہوواہ کی عبادت کرنے پر پابندی لگا دیتی ہے تو ہمیں کیا کرنا چاہیے؟‏ اِس مضمون میں یہ بتایا جائے گا کہ ایسے حالات میں ہمیں کون سے کام کرنے چاہئیں اور کن کاموں سے خبردار رہنا چاہیے۔‏ اِن مشوروں پر عمل کرنے سے ہم خدا کی خدمت جاری رکھنے کے قابل ہوں گے۔‏

^ پیراگراف 59 تصویر کی وضاحت:‏ تمام تصویروں میں اُن ملکوں میں رہنے والے یہوواہ کے گواہوں کی تصویرکشی کی گئی ہے جہاں ہمارے کام پر پابندی ہے۔‏ اِس تصویر میں بہن بھائیوں کا ایک چھوٹا گروپ ایک بھائی کے سٹورروم میں اِجلاس کے لیے جمع ہے۔‏

^ پیراگراف 61 تصویر کی وضاحت:‏ ایک بہن (‏بائیں طرف)‏ ایک عورت سے عام بات‌چیت کرتے ہوئے اُسے بائبل سے کچھ بتانے کا موقع پیدا کر رہی ہے۔‏

^ پیراگراف 63 تصویر کی وضاحت:‏ پولیس ایک بھائی سے پوچھ‌گچھ کر رہی ہے لیکن وہ بھائی کلیسیا کے بارے میں معلومات نہیں دے رہا۔‏