مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

مطالعے کا مضمون نمبر 44

خاتمہ آنے سے پہلے گہرے دوست بنائیں

خاتمہ آنے سے پہلے گہرے دوست بنائیں

‏”‏ایک سچا دوست ہمیشہ محبت ظاہر کرتا ہے۔‏“‏‏—‏امثا 17:‏17‏،‏ ترجمہ نئی دُنیا۔‏

گیت نمبر 101‏:‏ یہوواہ کی خدمت میں یک‌دل

مضمون پر ایک نظر *

‏”‏بڑی مصیبت“‏ کے دوران ہمیں اچھے دوستوں کی ضرورت ہوگی۔‏ (‏پیراگراف نمبر 2 کو دیکھیں۔‏)‏ *

1،‏ 2.‏ پہلا پطرس 4:‏7،‏ 8 کو ذہن میں رکھ کر بتائیں کہ مشکل حالات کا سامنا کرنے میں کون ہماری مدد کر سکتے ہیں۔‏

جیسے جیسے یہ ’‏آخری زمانہ‘‏ اپنے اِختتام کو پہنچ رہا ہے،‏ ہمیں کڑی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔‏ (‏2-‏تیم 3:‏1‏)‏ مثال کے طور پر مغربی افریقہ کے ایک ملک میں الیکشن کی مہم کے بعد بہت دنگے فساد ہونے لگے۔‏ ہمارے کچھ بہن بھائی ایسے علاقے میں رہ رہے تھے جہاں ہر طرف ہنگامے اور مار دھاڑ ہو رہی تھی۔‏ اِس لیے تقریباً چھ مہینے تک اُن بہن بھائیوں کا گھروں سے نکلنا مشکل رہا۔‏ اُنہوں نے اُن کٹھن حالات میں کیا کِیا؟‏ کچھ بہن بھائی ایک محفوظ علاقے میں رہنے والے بہن بھائیوں کے گھروں میں چلے گئے۔‏ ایک بھائی نے کہا:‏ ”‏مجھے اِس بات کی بڑی تسلی تھی کہ اُن حالات میں میرے دوست میرے ساتھ تھے۔‏ ہمیں اُس دوران ایک دوسرے کا حوصلہ بڑھانے کا موقع ملا۔‏“‏

2 جب ”‏بڑی مصیبت“‏ شروع ہوگی تو اُس وقت ہمارے لیے بھی یہ بات تسلی کا باعث ہوگی کہ ہمارے دوست ہمارے ساتھ ہیں۔‏ (‏مکا 7:‏14‏)‏ لہٰذا یہ بہت ضروری ہے کہ ہم ابھی بہن بھائیوں کے ساتھ گہری دوستیاں قائم کریں۔‏ ‏(‏1-‏پطرس 4:‏7،‏ 8 کو پڑھیں۔‏)‏ اِس سلسلے میں ہم یرمیاہ سے بہت اہم سبق سیکھ سکتے ہیں۔‏ جب یروشلیم کی تباہی میں تھوڑا عرصہ رہ گیا تھا تو اِس دوران یرمیاہ کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔‏ * اُن کے قریبی دوستوں نے اُن مشکلات میں اُن کی مدد کی۔‏ تو پھر آئیں،‏ دوست بنانے کے حوالے سے یرمیاہ کی مثال پر غور کریں۔‏

یرمیاہ کی مثال

3.‏ ‏(‏الف)‏ یرمیاہ کیوں لوگوں سے کٹ کر رہنے کی طرف مائل ہو سکتے تھے؟‏ (‏ب)‏ یرمیاہ نے کیا کِیا اور اِس کا کیا نتیجہ نکلا ہوگا؟‏

3 یرمیاہ نبی کم از کم 40 سال تک ایسے لوگوں کے درمیان رہے جنہوں نے اُن سے بےوفائی کی۔‏ اُن لوگوں میں یرمیاہ کے پڑوسی اور شاید اُن کے کچھ رشتےدار بھی شامل تھے جن کا تعلق اُن کے آبائی شہر عنتوت سے تھا۔‏ (‏یرم 11:‏21؛‏ 12:‏6‏)‏ لیکن اِس وجہ سے یرمیاہ لوگوں سے کٹ کر نہیں رہنے لگ پڑے۔‏ اُنہوں نے اپنے وفادار مُنشی باروک کے سامنے کُھل کر اپنے احساسات کا اِظہار کِیا۔‏ اور چونکہ اُن کے احساسات کے متعلق بائبل میں بھی لکھا ہے اِس لیے ہم بھی اِن سے واقف ہیں۔‏ (‏یرم 8:‏21؛‏ 9:‏1؛‏ 20:‏14-‏18؛‏ 45:‏1‏)‏ جب باروک نے یرمیاہ کے ساتھ پیش آنے والے واقعات کے بارے میں لکھا ہوگا تو بےشک اُن دونوں کے دل میں ایک دوسرے کے لیے محبت اور احترام بڑھا ہوگا۔‏—‏یرم 20:‏1،‏ 2؛‏ 26:‏7-‏11‏۔‏

4.‏ یہوواہ نے یرمیاہ کو کیا کام کرنے کے لیے کہا اور اِسے انجام دیتے وقت یرمیاہ اور باروک کی دوستی کیسے مضبوط ہوئی ہوگی؟‏

4 یرمیاہ نے بہت سالوں تک دلیری سے بنی‌اِسرائیل کو بتایا کہ یروشلیم کا کیا انجام ہوگا۔‏ (‏یرم 25:‏3‏)‏ یہوواہ ایک بار پھر لوگوں کو توبہ کی طرف مائل کرنا چاہتا تھا۔‏ اِس لیے اُس نے یرمیاہ سے کہا کہ وہ ایک طومار پر وہ سارے پیغامات لکھیں جو اُس نے اب تک اُن پر نازل کیے تھے۔‏ (‏یرم 36:‏1-‏4‏)‏ یرمیاہ اور باروک نے مل کر یہ کام کِیا جسے پورا کرنے میں شاید اُنہیں کچھ مہینے لگے ہوں۔‏ بِلاشُبہ اِس دوران اُنہوں نے اپنی باتوں سے ایک دوسرے کے ایمان کو مضبوط کِیا ہوگا۔‏

5.‏ باروک،‏ یرمیاہ کے اچھے دوست کیسے ثابت ہوئے؟‏

5 جب طومار میں سب کچھ لکھ لیا گیا تو یرمیاہ نے اپنے دوست باروک پر اِعتماد ظاہر کرتے ہوئے اُنہیں کہا کہ وہ اِس میں لکھے پیغامات لوگوں کے سامنے جا کر پڑھیں۔‏ (‏یرم 36:‏5،‏ 6‏)‏ باروک نے بڑی دلیری سے اِس خطرناک کام کو انجام دیا۔‏ ذرا سوچیں کہ جب باروک ہیکل کے صحن میں گئے ہوں گے اور دلیری سے اپنی ذمےداری پوری کی ہوگی تو یرمیاہ کو اُن پر کتنا فخر محسوس ہوا ہوگا!‏ (‏یرم 36:‏8-‏10‏)‏ جب یہوداہ کے اُمرا نے سنا کہ باروک نے کیا کِیا ہے تو اُنہوں نے باروک کو بلایا اور اُنہیں اُونچی آواز میں وہ طومار پڑھنے کے لیے کہا۔‏ (‏یرم 36:‏14،‏ 15‏)‏ اور پھر اُمرا نے فیصلہ کِیا کہ وہ بادشاہ یہویقیم سے اُن باتوں کا ذکر کریں گے جو یرمیاہ نے باروک سے لکھوائی تھیں۔‏ لیکن اُنہوں نے باروک کے لیے فکرمندی دِکھاتے ہوئے کہا:‏ ”‏جا اپنے آپ کو اور یرؔمیاہ کو چھپا اور کوئی نہ جانے کہ تُم کہاں ہو۔‏“‏ (‏یرم 36:‏16-‏19‏)‏ یہ بڑا اچھا مشورہ تھا۔‏

6.‏ یرمیاہ اور باروک نے مخالفت کا سامنا کیسے کِیا؟‏

6 جب بادشاہ یہویقیم نے یرمیاہ کی لکھوائی ہوئی باتوں کو سنا تو وہ آگ‌بگولا ہو گیا۔‏ غصے میں اُس نے طومار کو جلا دیا اور یرمیاہ اور باروک کی گِرفتاری کا حکم دیا۔‏ لیکن یرمیاہ خوف‌زدہ نہیں ہوئے۔‏ اُنہوں نے ایک اَور طومار لیا اور اُسے باروک کو دیا۔‏ اور پھر باروک نے اُس طومار کی ”‏سب باتیں جسے شاہِ‌یہوؔداہ یہوؔیقیم نے آگ میں جلایا تھا یرؔمیاہ کی زبانی اُس میں لکھیں۔‏“‏—‏یرم 36:‏26-‏28،‏ 32‏۔‏

7.‏ مل کر کام کرنے سے یرمیاہ اور باروک کو کیا فائدہ ہوا ہوگا؟‏

7 عموماً جب دو لوگ مل کر کسی مشکل کا سامنا کرتے ہیں تو اُن کا بندھن مضبوط ہو جاتا ہے۔‏ یرمیاہ اور باروک کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا ہوگا۔‏ اُنہوں نے مل کر اُس طومار کو دوبارہ لکھا جسے بُرے بادشاہ یہویقیم نے جلا دیا تھا۔‏ ایسا کرتے ہوئے یقیناً اُن کی دوستی مضبوط ہوئی ہوگی اور وہ ایک دوسرے کو اَور اچھی طرح جان پائے ہوں گے۔‏ خدا کے اِن وفادار بندوں کی مثال میں ہمارے لیے بڑے عمدہ سبق پائے جاتے ہیں۔‏

کُھل کر بات کریں

8.‏ ‏(‏الف)‏ کون سی باتیں ہمیں گہرے دوست بنانے سے روک سکتی ہیں؟‏ (‏ب)‏ ہمیں دوست بنانے کی کوشش کیوں نہیں چھوڑنی چاہیے؟‏

8 اگر ہم نے ماضی میں کسی کے سامنے کُھل کر اپنے جذبات کا اِظہار کِیا ہے اور اُس نے ہمیں ٹھیس پہنچائی ہے تو شاید ہمیں اگلی بار کسی کو اپنے جذبات کے بارے میں بتانا مشکل لگے۔‏ (‏امثا 18:‏19‏)‏ یا شاید ہم سوچیں کہ ہمارے پاس اِتنا وقت اور توانائی نہیں ہے کہ ہم دوسروں سے گہری دوستی قائم کر سکیں۔‏ لیکن ایسی باتوں کی وجہ سے ہمیں دوست بنانے کی کوشش چھوڑ نہیں دینی چاہیے۔‏ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے بہن بھائی مشکلات میں ہمارے ساتھ کھڑے ہوں تو ہمیں ابھی اُن کے ساتھ گہری دوستی کرنی چاہیے۔‏ اور ایسا کرنے کا ایک اہم طریقہ یہ ہے کہ ہم کُھل کر اُن کے سامنے اپنے خیالات اور احساسات کا اِظہار کریں۔‏—‏1-‏پطر 1:‏22‏۔‏

9.‏ ‏(‏الف)‏ یسوع مسیح نے اپنے دوستوں پر اِعتماد کیسے ظاہر کِیا؟‏ (‏ب)‏ دوسروں سے کُھل کر بات کرنے سے اُن کے ساتھ آپ کے تعلقات کیسے مضبوط ہوتے ہیں؟‏ ایک مثال دیں۔‏

9 یسوع مسیح نے اپنے دوستوں سے کُھل کر بات کی اور یوں اُن پر اِعتماد ظاہر کِیا۔‏ (‏یوح 15:‏15‏)‏ ہم بھی یسوع کی مثال پر عمل کر سکتے ہیں۔‏ ہم دوسروں سے اپنی خوشیاں اور غم بانٹ سکتے ہیں اور اُنہیں اپنے خدشات بتا سکتے ہیں۔‏ اِس کے علاوہ جب کوئی ہم سے بات کرتا ہے تو ہم دھیان سے اُس کی بات سُن سکتے ہیں۔‏ اگر ہم ایسا کریں گے تو شاید ہم دیکھیں کہ دوسرے شخص کی سوچ،‏ احساسات اور منصوبے بھی ہمارے جیسے ہی ہیں۔‏ اِس سلسلے میں ذرا 29 سالہ سینڈی کی مثال پر غور کریں۔‏ اُنہوں نے میری‌لوئس نامی پہل‌کار بہن سے دوستی کی جن کی عمر 67 سال ہے۔‏ وہ دونوں ہر جمعرات کی صبح مل کر مُنادی کرتی ہیں اور فرق فرق موضوعات پر کُھل کر ایک دوسرے سے بات کرتی ہیں۔‏ سینڈی کہتی ہیں:‏ ”‏مجھے اپنے دوستوں سے اہم موضوعات پر بات‌چیت کرنا بہت اچھا لگتا ہے کیونکہ اِس طرح مَیں اُنہیں اَور اچھی طرح جان اور سمجھ پاتی ہوں۔‏“‏ دوستی کا پھول خوش‌گوار بات‌چیت کی فضا میں کھلتا ہے۔‏ لہٰذا سینڈی کی طرح آپ بھی پہل کریں۔‏ اپنے دوستوں کو کُھل کر اپنے خیالات اور احساسات کے بارے میں بتائیں اور دھیان سے اُن کی بات سنیں۔‏ یوں اُن کے ساتھ آپ کی دوستی اَور مضبوط ہو جائے گی۔‏—‏امثا 27:‏9‏۔‏

مل کر کام کریں

اچھے دوست مل کر مُنادی کرتے ہیں (‏پیراگراف نمبر 10 کو دیکھیں۔‏)‏

10.‏ امثال 27:‏17 کی روشنی میں بتائیں کہ اپنے ہم‌ایمانوں کے ساتھ مل کر کام کرنے کا کیا فائدہ ہوتا ہے۔‏

10 ہم نے دیکھا ہے کہ مل کر کام کرنے سے یرمیاہ اور باروک کی دوستی مضبوط ہوئی تھی۔‏ اُن کی طرح ہم بھی اپنے ہم‌ایمانوں کے ساتھ مل کر کام کر سکتے ہیں۔‏ جب ہم ایسا کریں گے تو ہم دیکھیں گے کہ وہ کتنی عمدہ خوبیوں کے مالک ہیں۔‏ یوں ہم اُن سے سیکھ پائیں گے اور اُن کے اَور قریب ہو جائیں گے۔‏ ‏(‏امثال 27:‏17 کو پڑھیں۔‏)‏ مثال کے طور پر جب آپ کا کوئی دوست آپ کے ساتھ مُنادی کرتے وقت دلیری سے اپنے عقیدوں کی وضاحت کرتا ہے تو آپ کو کیسا لگتا ہے؟‏ یا جب وہ مُنادی کے دوران پورے دل سے یہوواہ اور اُس کے مقاصد کے بارے میں بات کرتا ہے تو آپ کیسا محسوس کرتے ہیں؟‏ بےشک یہ دیکھ کر آپ کے دل میں اُس کے لیے محبت بڑھ جاتی ہوگی۔‏

11،‏ 12.‏ بہن بھائیوں کے ساتھ مل کر مُنادی کرنے سے اُن کے ساتھ ہماری دوستی کیسے مضبوط ہوتی ہے؟‏ ایک مثال دیں۔‏

11 ذرا دو مثالوں پر غور کریں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ بہن بھائیوں کے ساتھ مل کر مُنادی کرنے سے ہم اُن کے اَور قریب ہو جاتے ہیں۔‏ ایک مثال 23 سالہ ایڈلین اور اُن کی دوست کینڈس کی ہے۔‏ وہ دونوں کچھ عرصے کے لیے ایک ایسے علاقے میں مُنادی کرنے گئیں جہاں کبھی کبھار مُنادی کی جاتی ہے۔‏ ایڈلین کہتی ہیں:‏ ”‏ہم چاہتی تھیں کہ ہم اَور زیادہ لگن سے مُنادی کریں اور ہمیں اِس کام میں مزہ آئے۔‏ ہمیں اپنے اندر خدا کی خدمت کے لیے ایک نیا جوش بھرنے کی ضرورت تھی۔‏“‏ اُن دونوں بہنوں کو مل کر کام کرنے سے کیا فائدہ ہوا؟‏ ایڈلین کہتی ہیں:‏ ”‏ہر دن کے آخر پر ہم ایک دوسرے کو بتاتیں کہ آج ہمیں مُنادی کر کے کیسا لگا،‏ کس بات نے ہمارے دل کو چُھوا اور ہم نے مُنادی کے دوران کیسے یہوواہ کی مدد کو محسوس کِیا۔‏ ہم دونوں کو ایسی بات‌چیت کرنا بہت اچھا لگتا تھا اور یوں ہم ایک دوسرے کو اَور اچھی طرح جان پاتی تھیں۔‏“‏

12 اب ذرا لائلہ اور میریئن نامی دو غیرشادی‌شُدہ بہنوں کی مثال پر غور کریں جن کا تعلق فرانس سے ہے۔‏ وہ پانچ ہفتوں کے لیے وسطی افریقی جمہوریہ کے دارالحکومت بانگوئی میں مُنادی کرنے گئیں جہاں بہت بِھیڑبھاڑ ہوتی ہے۔‏ لائلہ کہتی ہیں:‏ ”‏مجھے اور میریئن کو کچھ مشکلوں کا سامنا تو ہوا لیکن ہم آپس میں کُھل کر بات کرتی تھیں اور ایک دوسرے سے حقیقی محبت رکھتی تھیں۔‏ اِس وجہ سے ہماری دوستی مضبوط ہوتی گئی۔‏ میریئن خود کو حالات کے مطابق ڈھال لیتی تھیں،‏ مقامی لوگوں سے بہت محبت سے پیش آتی تھیں اور بڑے جوش سے مُنادی کرتی تھیں۔‏ یہ سب باتیں دیکھ کر میرے دل میں اُن کے لیے عزت اَور بڑھ گئی۔‏“‏ اگر آپ بہن بھائیوں کے ساتھ اپنی دوستی مضبوط کرنا چاہتے ہیں تو آپ کو کسی دوسرے ملک جانے کی ضرورت نہیں ہے۔‏ آپ جب بھی اپنی کلیسیا کے علاقے میں کسی بہن بھائی کے ساتھ مُنادی کرتے ہیں تو آپ کے پاس یہ موقع ہوتا ہے کہ آپ اُس بہن یا بھائی کو اچھی طرح جانیں اور اُس کے ساتھ اپنی دوستی گہری کریں۔‏

خوبیوں پر دھیان دیں اور معاف کریں

13.‏ جب ہم اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر کام کرتے ہیں تو کبھی کبھار کیا ہو سکتا ہے؟‏

13 جب ہم اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر کام کرتے ہیں تو ہمیں نہ صرف اُن کی خوبیوں کا پتہ چلتا ہے بلکہ اُن کی غلطیاں بھی ہمارے سامنے آتی ہیں۔‏ ایسے حالات میں ہم کیا کر سکتے ہیں؟‏ ذرا پھر سے یرمیاہ کے بارے میں سوچیں۔‏ وہ دوسروں کی خوبیوں پر دھیان دینے اور اُن کی غلطیوں کو نظرانداز کرنے کے قابل کیسے ہوئے؟‏

14.‏ یرمیاہ نے یہوواہ کے بارے میں کیا سیکھا اور اِس سے اُنہیں کیا ترغیب ملی؟‏

14 یرمیاہ نے یرمیاہ کی کتاب کے علاوہ غالباً سلاطین کی پہلی اور دوسری کتاب بھی لکھی۔‏ اِس ذمےداری کو پورا کرتے ہوئے بےشک یرمیاہ نے دیکھا ہوگا کہ یہوواہ عیب‌دار اِنسانوں کے ساتھ کتنے رحم سے پیش آتا ہے۔‏ مثال کے طور پر جب بادشاہ اخی‌اب نے اپنے بُرے کاموں سے توبہ کی تو یہوواہ نے اُس کے جیتے جی اُس کے خاندان پر سزا نازل نہیں کی۔‏ (‏1-‏سلا 21:‏27-‏29‏)‏ اِس کے علاوہ جب منسّی نے توبہ کی تو یہوواہ نے اُسے بھی معاف کر دیا حالانکہ اُس نے اخی‌اب سے بھی زیادہ بُرے کام کیے تھے۔‏ (‏2-‏سلا 21:‏16،‏ 17؛‏ 2-‏توا 33:‏10-‏13‏)‏ اِن واقعات سے یقیناً یرمیاہ کو یہوواہ کی مثال پر عمل کرنے کی ترغیب ملی ہوگی۔‏ ہم ایسا اِس لیے کہہ سکتے ہیں کیونکہ جب وہ اپنے قریبی دوستوں کے ساتھ پیش آئے تو اُنہوں نے بھی صبر اور مہربانی کا مظاہرہ کِیا۔‏—‏زبور 103:‏8،‏ 9‏۔‏

15.‏ جب باروک کا دھیان یہوواہ کی خدمت سے ہٹ گیا تو یرمیاہ نے یہوواہ کی مثال پر کیسے عمل کِیا؟‏

15 یرمیاہ کے دوست باروک کا دھیان کچھ عرصے کے لیے یہوواہ کی خدمت سے ہٹ گیا۔‏ اِس پر یرمیاہ نے یہ نہیں سوچا کہ باروک کی سوچ ٹھیک نہیں ہو سکتی۔‏ اِس کی بجائے اُنہوں نے باروک کو یہوواہ کا پیغام سنایا جس میں خدا نے شفقت سے مگر صاف لفظوں میں اُن کی اِصلاح کی تھی۔‏ (‏یرم 45:‏1-‏5‏)‏ ہم اِس واقعے سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟‏

اچھے دوست دل سے ایک دوسرے کو معاف کرتے ہیں (‏پیراگراف نمبر 16 کو دیکھیں۔‏)‏

16.‏ اگر ہم بہن بھائیوں سے اپنی دوستی مضبوط رکھنا چاہتے ہیں تو امثال 17:‏9 کے مطابق ہمیں کیا کرنا چاہیے؟‏

16 ہم اپنے بہن بھائیوں سے یہ توقع نہیں کر سکتے کہ اُن سے کوئی غلطی نہیں ہوگی۔‏ اِس لیے اُن کے ساتھ گہری دوستی کرنے کے بعد ہمیں اِن دوستیوں کو مضبوط رکھنے کے لیے سخت کوشش کرنی چاہیے۔‏ اگر ہمارے کسی دوست سے کوئی غلطی ہو جاتی ہے تو ہمیں اُس کی اِصلاح کرنی پڑ سکتی ہے۔‏ شاید ایسا کرتے وقت ہمیں شفقت سے مگر صاف لفظوں میں اُسے خدا کے کلام سے سمجھانا پڑے۔‏ (‏زبور 141:‏5‏)‏ اور اگر ہمارا کوئی دوست ہمارا دل دُکھاتا ہے تو ہمیں اُسے معاف کر دینا چاہیے۔‏ اور پھر جب ہم اُسے معاف کر دیتے ہیں تو ہمیں کبھی اُس بات کا دوبارہ ذکر نہیں کرنا چاہیے۔‏ ‏(‏امثال 17:‏9 کو پڑھیں۔‏)‏ اِس آخری زمانے میں یہ نہایت ضروری ہے کہ ہم اپنے بہن بھائیوں کی غلطیوں کی بجائے اُن کی خوبیوں پر دھیان دیں۔‏ ایسا کرنے سے اُن کے ساتھ ہماری دوستی گہری ہو جائے گی۔‏ اور ہمارے لیے ابھی ایسا کرنا اہم ہے کیونکہ یہ گہری دوستیاں ہی بڑی مصیبت کے دوران ہمارے کام آئیں گی۔‏

حقیقی محبت ظاہر کریں

17.‏ ہم کیوں کہہ سکتے ہیں کہ یرمیاہ ایک ایسے دوست تھے جو مصیبت میں اپنے دوست کے کام آتا ہے؟‏

17 یرمیاہ نبی ایک ایسے دوست ثابت ہوئے جو مصیبت میں اپنے دوست کے کام آتا ہے۔‏ مثال کے طور پر ایک دفعہ عبدملک نامی افسر نے یرمیاہ کو کیچڑ سے بھرے حوض سے نکالا اور اُن کی جان بچائی۔‏ عبدملک کو ڈر تھا کہ یرمیاہ کی مدد کرنے کی وجہ سے اُمرا اُنہیں نہیں چھوڑیں گے۔‏ جب یرمیاہ کو اِس بارے میں پتہ چلا تو وہ یہ سوچ کر خاموش نہیں رہے کہ یہ عبدملک کا مسئلہ ہے،‏ وہ خود ہی نمٹ لیں گے۔‏ حالانکہ اُس وقت یرمیاہ قیدخانے میں تھے لیکن پھر بھی وہ اپنے دوست کے لیے جو کر سکتے تھے،‏ اُنہوں نے کِیا۔‏ اُنہوں نے عبدملک کو یہوواہ کے تسلی‌بخش وعدے کے بارے میں بتایا۔‏—‏یرم 38:‏7-‏13؛‏ 39:‏15-‏18‏۔‏

اچھے دوست ضرورت پڑنے پر اپنے مسیحی بہن بھائیوں کی مدد کرتے ہیں۔‏ (‏پیراگراف نمبر 18 کو دیکھیں۔‏)‏

18.‏ جب ہمارا کوئی دوست مشکل سے گزر رہا ہوتا ہے تو امثال 17:‏17 کے مطابق ہمیں کیا کرنا چاہیے؟‏

18 آج ہمارے بہن بھائیوں کو طرح طرح کی مشکلات کا سامنا ہے۔‏ مثال کے طور پر بہت سے بہن بھائی قدرتی آفتوں یا جنگوں وغیرہ سے متاثر ہوتے ہیں۔‏ ایسے حالات میں ہم میں سے کچھ اُن بہن بھائیوں کو اپنے گھر ٹھہرا سکتے ہیں۔‏ بعض بہن بھائی مالی طور پر اُن کی مدد کر سکتے ہیں۔‏ لیکن جو کام ہم سب کر سکتے ہیں،‏ وہ یہ ہے کہ ہم اُن بہن بھائیوں کے لیے دُعا کریں۔‏ کبھی کبھار یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ہمارا کوئی بھائی یا بہن بےحوصلہ ہو جائے۔‏ اگر ہمیں پتہ چلتا ہے کہ فلاں بھائی یا بہن بےحوصلہ ہے تو شاید ہمیں سمجھ نہ آئے کہ ہم اُس سے کیا کہیں یا کیسے اُس کی مدد کریں۔‏ لیکن ہم سب فرق فرق طریقوں سے ایسے بہن بھائیوں کی مدد کر سکتے ہیں۔‏ مثال کے طور پر ہم اُن کے ساتھ وقت گزار سکتے ہیں۔‏ اور جب وہ ہم سے بات کرتے ہیں تو ہم دھیان سے اُن کی بات سُن سکتے ہیں۔‏ اِس کے علاوہ ہم اُنہیں کوئی ایسی آیت دِکھا سکتے ہیں جس سے ہمیں مشکل وقت میں تسلی ملتی ہو۔‏ (‏یسع 50:‏4‏)‏ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہم ضرورت کے وقت اپنے دوستوں کے ساتھ ہوں۔‏‏—‏امثال 17:‏17 کو فٹ‌نوٹ سے پڑھیں۔‏ *

19.‏ بہن بھائیوں کے ساتھ ابھی گہری دوستی کرنے سے ہمیں مستقبل میں کیا فائدہ ہوگا؟‏

19 ہمیں یہ عزم کرنا چاہیے کہ ہم اپنے بہن بھائیوں کے ساتھ گہری دوستی قائم کریں گے اور اِن دوستیوں کو مضبوط رکھیں گے۔‏ لیکن ہمیں یہ عزم کیوں کرنا چاہیے؟‏ کیونکہ ہمارے دُشمن جھوٹی باتیں پھیلا کر ہم میں پھوٹ ڈالنے کی کوشش کریں گے اور ہمیں ایک دوسرے کے خلاف کرنا چاہیں گے۔‏ لیکن اُن کی ساری کوششیں خاک میں مل جائیں گی۔‏ وہ محبت کی اُس ڈور کو نہیں توڑ پائیں گے جس نے ہمیں جوڑا ہوا ہے۔‏ وہ ہمارے بہن بھائیوں کے ساتھ ہماری دوستیوں کو توڑنے میں ہرگز کامیاب نہیں ہوں گے۔‏ دراصل ہمارے بہن بھائیوں کے ساتھ ہماری دوستیاں صرف اِس دُنیا کے خاتمے تک ہی نہیں بلکہ ہمیشہ تک قائم رہیں گی!‏

گیت نمبر 24‏:‏ یہوواہ کے پہاڑ پر آئیں!‏

^ پیراگراف 5 جوں‌جوں اِس دُنیا کا خاتمہ قریب آ رہا ہے،‏ ہمیں بہن بھائیوں کے ساتھ اپنی دوستی کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔‏ اِس مضمون میں ہم دیکھیں گے کہ ہم اِس سلسلے میں یرمیاہ سے کیا سیکھ سکتے ہیں۔‏ ہم اِس بات پر بھی غور کریں گے کہ اگر ہم ابھی گہرے دوست بنائیں گے تو مشکلات کے دوران ہمیں کیسے فائدہ ہوگا۔‏

^ پیراگراف 2 یرمیاہ کی کتاب میں درج واقعات ترتیب سے نہیں لکھے ہوئے۔‏

^ پیراگراف 18 امثال 17:‏17 ‏(‏ترجمہ نئی دُنیا)‏:‏ ‏”‏ایک سچا دوست ہمیشہ محبت ظاہر کرتا ہے۔‏ وہ ایسے بھائی کی طرح ہے جو مصیبت میں کام آنے کے لیے پیدا ہوا ہے۔‏“‏

^ پیراگراف 58 تصویر کی وضاحت‏:‏ اِس تصویر میں دِکھایا گیا ہے کہ ”‏بڑی مصیبت“‏ کے دوران خدا کے بندوں کی صورتحال کیا ہو سکتی ہے۔‏ کچھ بہن بھائیوں نے ایک بھائی کے گھر میں پناہ لی ہوئی ہے۔‏ اُنہیں اُس مشکل وقت میں ایک دوسرے کے ساتھ سے تسلی مل رہی ہے۔‏ پچھلی تصویر میں دِکھائے گئے بہن بھائی بڑی مصیبت آنے سے پہلے ہی آپس میں گہری دوستیاں قائم کر رہے ہیں۔‏