مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

مطالعے کا مضمون نمبر 8

حسد کے رُجحان کا مقابلہ کرنے سے امن کو فروغ دیں

حسد کے رُجحان کا مقابلہ کرنے سے امن کو فروغ دیں

‏”‏ایسے کام کریں جن سے امن کو فروغ ملے اور دوسروں کی حوصلہ‌افزائی ہو۔‏“‏‏—‏روم 14:‏19‏۔‏

گیت نمبر 113‏:‏ امن کو فروغ دیں

مضمون پر ایک نظر *

1.‏ حسد کا یوسف کے خاندان پر کیا اثر ہوا؟‏

یوں تو یعقوب اپنے سب بیٹوں سے پیار کرتے تھے لیکن اُنہیں اپنے 17 سالہ بیٹے یوسف سے گہرا لگاؤ تھا۔‏ یہ دیکھ کر یوسف کے بھائیوں کا کیا ردِعمل تھا؟‏ وہ اپنے بھائی سے حسد کرنے لگے اور پھر یہ حسد نفرت میں بدل گیا۔‏ یوسف نے ایسا کچھ نہیں کِیا تھا کہ اُن کے بھائی اُن سے نفرت کرتے۔‏ لیکن پھر بھی اُنہوں نے یوسف کو غلام کے طور پر بیچ دیا اور اپنے باپ سے جھوٹ بولا کہ ایک جنگلی جانور نے اُس کے پیارے بیٹے کو مار دیا ہے۔‏ حسد کی اِس آگ نے اُن کے گھر کا امن برباد کر دیا اور اُن کے باپ کو گہرا صدمہ پہنچایا۔‏—‏پید 37:‏3،‏ 4،‏ 27-‏34‏۔‏

2.‏ گلتیوں 5:‏19-‏21 کے مطابق حسد اِتنا نقصان‌دہ کیوں ہے؟‏

2 پاک کلام میں حسد * کا شمار ’‏جسم کے کاموں‘‏ میں کِیا گیا ہے جو ایک شخص کو خدا کی بادشاہت کا وارث بننے سے روک سکتے ہیں۔‏ ‏(‏گلتیوں 5:‏19-‏21 کو پڑھیں۔‏)‏ حسد ایک ایسا پودا ہے جس پر دُشمنی،‏ لڑائی جھگڑے اور غصے کے دوروں جیسے زہریلے پھل لگتے ہیں۔‏

3.‏ اِس مضمون میں ہم کیا سیکھیں گے؟‏

3 یوسف کے بھائیوں کی مثال سے ظاہر ہوتا ہے کہ حسد خاندان کے امن اور رشتوں کو تباہ کر سکتا ہے۔‏ بےشک ہم کبھی بھی ایسا کچھ نہیں کریں گے جیسا یوسف کے بھائیوں نے کِیا تھا مگر ہم سب عیب‌دار ہیں اور ہمارا دل دھوکےباز ہے۔‏ (‏یرم 17:‏9‏)‏ اِسی لیے ہمیں کبھی کبھار حسد کے رُجحان کا مقابلہ کرنا پڑتا ہے۔‏ آئیں،‏ بائبل سے کچھ مثالوں پر غور کریں اور دیکھیں کہ کن وجوہات کی بِنا پر حسد ہمارے دل میں جڑ پکڑ سکتا ہے۔‏ ہم کچھ عملی مشوروں پر بھی غور کریں گے جن کی مدد سے ہم حسد کے رُجحان کا مقابلہ کر سکتے ہیں اور امن کو فروغ دے سکتے ہیں۔‏

حسد کا باعث بننے والی وجوہات

4.‏ فلستی،‏ اِضحاق سے حسد کیوں کرتے تھے؟‏

4 جب کسی کے پاس مال‌ودولت ہو۔‏ اِضحاق ایک امیر آدمی تھے اور اِس وجہ سے فلستی اُن سے جلتے تھے۔‏ (‏پید 26:‏12-‏14‏)‏ وہ اِضحاق سے اِس قدر حسد کرتے تھے کہ اُنہوں نے وہ کنوئیں بھی بند کر دیے جن سے اِضحاق کے مویشی پانی پیتے تھے۔‏ (‏پید 26:‏15،‏ 16،‏ 27‏)‏ فلستیوں کی طرح آج بھی کچھ لوگ دوسروں سے اِس لیے حسد کرنے لگتے ہیں کیونکہ دوسروں کے پاس اُن سے زیادہ مال‌ودولت ہوتی ہے۔‏ وہ نہ صرف یہ چاہتے ہیں کہ جو چیزیں دوسروں کے پاس ہیں،‏ وہ اُن کے پاس بھی آ جائیں بلکہ یہ بھی چاہتے ہیں کہ دوسرے اُن چیزوں سے محروم ہو جائیں۔‏

5.‏ مذہبی رہنما،‏ یسوع سے حسد کیوں کرتے تھے؟‏

5 جب کوئی دوسروں میں مقبول ہو۔‏ یہودی مذہبی رہنما،‏ یسوع سے حسد کرتے تھے کیونکہ بہت سے لوگ یسوع کو پسند کرتے تھے۔‏ (‏متی 7:‏28،‏ 29‏)‏ یسوع،‏ خدا کے نمائندے تھے اور دوسروں کو سچائی کی تعلیم دیتے تھے۔‏ مگر پھر بھی مذہبی رہنما یسوع کی بدنامی کرنے کے لیے اُن کے خلاف جھوٹی باتیں پھیلاتے تھے۔‏ (‏مر 15:‏10؛‏ یوح 11:‏47،‏ 48؛‏ 12:‏12،‏ 13،‏ 19‏)‏ اِس میں ہمارے لیے کیا سبق ہے؟‏ اگر کسی بہن یا بھائی کو اُس کی خوبیوں کی وجہ سے کلیسیا میں پسند کِیا جاتا ہے تو ہمیں اُس کے لیے اپنے دل میں ذرا بھی حسد نہیں پیدا ہونے دینا چاہیے۔‏ اِس کی بجائے ہمیں اُس جیسی خوبیاں ظاہر کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔‏—‏1-‏کُر 11:‏1؛‏ 3-‏یوح 11‏۔‏

6.‏ دیُترِفیس نے حسد کی وجہ سے کیا کِیا؟‏

6 جب کسی کے پاس کلیسیا میں کوئی شرف ہو۔‏ پہلی صدی عیسوی میں دیُترِفیس اُن بھائیوں سے حسد کرنے لگا جو کلیسیا میں پیشوائی کرتے تھے۔‏ وہ کلیسیا کا ”‏سردار بننا چاہتا“‏ تھا۔‏ اِس لیے اُس نے یوحنا رسول اور دوسرے ذمےدار بھائیوں کی بدنامی کرنے کے لیے جھوٹی افواہیں پھیلائیں۔‏ (‏3-‏یوح 9،‏ 10‏)‏ شاید ہم اِس حد تک تو نہ جائیں لیکن ہمارے دل میں اُس بہن یا بھائی کے لیے حسد پیدا ہو سکتا ہے جسے کلیسیا میں کوئی ایسا شرف ملتا ہے جو ہم حاصل کرنا چاہتے ہیں۔‏ ایسا خاص طور پر اُس وقت ہو سکتا ہے جب ہمیں لگتا ہے کہ ہم اُس شرف کے اُتنے ہی لائق ہیں جتنا کہ وہ۔‏

ہمارا دل مٹی کی طرح ہے اور ہماری خوبیاں خوب‌صورت پھولوں کی طرح۔‏ لیکن حسد ایک زہریلے پودے کی طرح ہے۔‏ حسد کا پودا محبت،‏ ہمدردی اور مہربانی جیسی خوبیوں کو بڑھنے سے روک سکتا ہے۔‏ (‏پیراگراف نمبر 7 کو دیکھیں۔‏)‏

7.‏ حسد کا ہم پر کیا اثر ہو سکتا ہے؟‏

7 جیسے کہ پہلے بیان کِیا گیا ہے،‏ حسد ایک زہریلے پودے کی طرح ہے۔‏ جب حسد کا بیج ہمارے دل میں جڑ پکڑ لیتا ہے تو اِسے اُکھاڑنا بہت مشکل ہو سکتا ہے۔‏ حسد کا پودا غرور،‏ مقابلہ‌بازی اور خودغرضی کی مٹی میں پھلتا پھولتا ہے۔‏ یہ پودا محبت،‏ ہمدردی اور مہربانی جیسی خوبیوں کو بڑھنے سے روک سکتا ہے۔‏ جیسے ہی ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ حسد ہمارے دل میں جڑ پکڑ رہا ہے،‏ ہمیں اِسے اُکھاڑ پھینکنا چاہیے۔‏ لیکن ہم حسد کے رُجحان کا مقابلہ کیسے کر سکتے ہیں؟‏

خاکسار اور قناعت‌پسند بنیں

ہم حسد کے زہریلے پودے کو اپنے دل سے کیسے اُکھاڑ سکتے ہیں؟‏ خدا کی پاک روح ہماری مدد کر سکتی ہے تاکہ ہم ایسا کر سکیں اور حسد کی جگہ خاکساری اور قناعت‌پسندی کے بیج بو سکیں۔‏ (‏پیراگراف نمبر 8،‏ 9 کو دیکھیں۔‏)‏

8.‏ کون سی خوبیاں حسد سے بچنے میں ہماری مدد کر سکتی ہیں؟‏

8 خاکسار اور قناعت‌پسند بننے سے ہم دوسروں سے حسد کرنے سے بچ سکتے ہیں۔‏ اگر ہم میں یہ خوبیاں ہوں گی تو حسد ہمارے دل میں جڑ نہیں پکڑ پائے گا۔‏ خاکساری کی وجہ سے ہم خود کو حد سے زیادہ اہم خیال نہیں کریں گے۔‏ ایک خاکسار شخص یہ نہیں سوچتا کہ اُسے دوسروں سے زیادہ اہمیت ملنی چاہیے۔‏ (‏گل 6:‏3،‏ 4‏)‏ اور جو شخص قناعت‌پسند ہوتا ہے،‏ وہ اُن چیزوں پر راضی رہتا ہے جو اُس کے پاس ہوتی ہیں اور دوسروں سے اپنا موازنہ نہیں کرتا۔‏ (‏1-‏تیم 6:‏7،‏ 8‏)‏ اگر ہم خاکسار اور قناعت‌پسند ہوں گے تو ہم اُس وقت خوش ہوں گے جب کسی کو کوئی اچھی چیز ملے گی۔‏

9.‏ گلتیوں 5:‏16 اور فِلپّیوں 2:‏3،‏ 4 کے مطابق پاک روح کیا کرنے میں ہماری مدد کر سکتی ہے؟‏

9 خدا کی پاک روح کی مدد سے ہم حسد کے رُجحان سے بچ سکتے ہیں اور اپنے اندر خاکساری اور قناعت‌پسندی کی خوبیاں پیدا کر سکتے ہیں۔‏ ‏(‏گلتیوں 5:‏16؛‏ فِلپّیوں 2:‏3،‏ 4 کو پڑھیں۔‏)‏ یہوواہ کی پاک روح ہماری مدد کر سکتی ہے تاکہ ہم اپنے خیالات اور اِرادوں کا جائزہ لے سکیں۔‏ خدا کی مدد سے ہم اپنے دل سے منفی سوچ اور احساسات کو نکال کر مثبت سوچ اور احساسات بھر سکتے ہیں۔‏ (‏زبور 26:‏2؛‏ 51:‏10‏)‏ آئیں،‏ موسیٰ اور پولُس کی مثال پر غور کریں جنہوں نے کامیابی سے حسد کے رُجحان کا مقابلہ کِیا۔‏

ایک نوجوان اِسرائیلی لڑکے نے موسیٰ اور یشوع کے پاس آ کر اُنہیں بتایا ہے کہ خیمے میں دو آدمی نبوّت کر رہے ہیں۔‏ یشوع،‏ موسیٰ سے کہہ رہے ہیں کہ وہ اُن آدمیوں کو روکیں۔‏ لیکن موسیٰ اُنہیں روکنے کی بجائے اِس بات پر خوشی کا اِظہار کر رہے ہیں کہ یہوواہ نے اپنی روح اُن آدمیوں پر نازل کی ہے۔‏ (‏پیراگراف نمبر 10 کو دیکھیں۔‏)‏

10.‏ کون سی صورتحال موسیٰ کے لیے آزمائش کا باعث بن سکتی تھی؟‏ (‏سرِورق کی تصویر کو دیکھیں۔‏)‏

10 موسیٰ کے پاس کافی اِختیار تھا لیکن وہ یہ نہیں چاہتے تھے کہ یہ اِختیار صرف اُنہی کے پاس رہے۔‏ مثال کے طور پر ایک موقعے پر موسیٰ نے کچھ اِسرائیلی بزرگوں کو خیمے کے گِرد جمع کِیا۔‏ پھر یہوواہ خدا نے اُس پاک روح میں سے جو اُس نے موسیٰ کو دی ہوئی تھی،‏ کچھ حصہ لے کر اُن بزرگوں کو دیا۔‏ کچھ دیر کے بعد موسیٰ کو پتہ چلا کہ دو بزرگ جو خیمے کے گِرد موجود نہیں تھے،‏ اُنہیں بھی پاک روح ملی ہے اور وہ نبوّت کر رہے ہیں۔‏ اِس پر یشوع نے موسیٰ سے کہا کہ وہ اُن بزرگوں کو روکیں۔‏ موسیٰ نے کیا کِیا؟‏ موسیٰ نے اُن بزرگوں سے حسد نہیں کِیا اور یہ نہیں سوچا کہ یہوواہ نے اُنہیں پاک روح کیوں دی ہے۔‏ موسیٰ خاکسار تھے اور اِسی وجہ سے وہ اِس بات پر خوش تھے کہ اُن آدمیوں کو نبوّت کرنے کا اعزاز ملا ہے۔‏ (‏گن 11:‏24-‏29‏)‏ ہم موسیٰ کی مثال سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟‏

کلیسیا کے بزرگ خاکساری کے سلسلے میں موسیٰ کی مثال پر کیسے عمل کر سکتے ہیں؟‏ (‏پیراگراف نمبر 11،‏ 12 کو دیکھیں۔‏)‏ *

11.‏ بزرگ،‏ موسیٰ کی مثال پر کیسے عمل کر سکتے ہیں؟‏

11 فرض کریں کہ آپ کلیسیا میں ایک بزرگ ہیں اور آپ سے کہا جاتا ہے کہ آپ کسی بھائی کو کلیسیا میں کوئی ایسا کام کرنے کی تربیت دیں جسے آپ بڑے شوق سے کر رہے ہیں۔‏ مثال کے طور پر شاید آپ کو ہر ہفتے ‏”‏مینارِنگہبانی“‏ کے مطالعے کی پیشوائی کرنا بہت اچھا لگتا ہے۔‏ آپ سے کہا گیا ہے کہ آپ کسی دوسرے بھائی کو اِس کام کی تربیت دیں تاکہ وقت آنے پر وہ اِس ذمےداری کو سنبھال سکے۔‏ اگر آپ موسیٰ کی طرح خاکسار ہوں گے تو آپ خوشی سے اُس بھائی کی مدد کریں گے اور یہ نہیں چاہیں گے کہ یہ ذمےداری آپ کے پاس ہی رہے۔‏

12.‏ بہت سے بہن بھائی خاکساری اور قناعت‌پسندی کیسے ظاہر کر رہے ہیں؟‏

12 ذرا ایک اَور صورتحال پر غور کریں جس کا بہت سے عمررسیدہ بھائی سامنا کر رہے ہیں۔‏ وہ سالوں تک بزرگوں کی جماعت کے منتظم کے طور پر خدمت کرتے ہیں لیکن پھر جب وہ 80 سال کے ہو جاتے ہیں تو وہ خوشی خوشی اِس بات پر راضی ہوتے ہیں کہ اُن کی ذمےداری کسی اَور بھائی کو سونپ دی جائے۔‏ اور جب حلقے کے نگہبان 70 سال کے ہو جاتے ہیں تو وہ بھی خاکساری سے ایسا ہی کرتے ہیں اور یہوواہ کی خدمت کے حوالے سے اپنی نئی ذمےداری کو قبول کرتے ہیں۔‏ حالیہ سالوں کے دوران پوری دُنیا میں بیت‌ایل کے بہت سے بہن بھائیوں کو پہل‌کار کے طور پر خدمت کرنے کے لیے کہا گیا ہے۔‏ یہ بہن بھائی اپنے دل میں اُن بہن بھائیوں کے لیے حسد نہیں رکھتے جو اب اُن کی ذمےداریاں نبھا رہے ہیں۔‏

13.‏ پولُس کے دل میں 12 رسولوں کے لیے حسد کیوں پیدا ہو سکتا تھا؟‏

13 پولُس رسول نے بھی خاکساری اور قناعت‌پسندی کی خوبیاں پیدا کرنے کے سلسلے میں اچھی مثال قائم کی۔‏ پولُس نے اپنے دل میں حسد کو بالکل جگہ نہیں دی۔‏ اُنہوں نے بڑی محنت سے مُنادی کا کام کِیا مگر پھر بھی کہا:‏ ”‏میرا مرتبہ تمام رسولوں میں سب سے چھوٹا ہے اور مَیں اِس لائق نہیں کہ مجھے رسول کہا جائے۔‏“‏ (‏1-‏کُر 15:‏9،‏ 10‏)‏ 12 رسول زمین پر یسوع کے دورِخدمت میں اُن کے پیروکار بنے لیکن پولُس،‏ یسوع کے جی اُٹھنے کے بعد مسیحی بنے۔‏ پولُس کو بعد میں ”‏غیریہودیوں کا رسول“‏ تو مقرر کِیا گیا مگر اُنہیں 12 رسولوں میں شامل ہونے کا اعزاز نہیں ملا۔‏ (‏روم 11:‏13؛‏ اعما 1:‏21-‏26‏)‏ پولُس نے اُن 12 رسولوں سے حسد نہیں کِیا اور نہ ہی اِس بات پر اُن سے جلے کہ اُنہیں یسوع کے ساتھ وقت گزارنے اور اُنہیں اِتنے قریب سے جاننے کا موقع ملا تھا۔‏ اِس کی بجائے وہ اُس اعزاز پر خوش تھے جو اُنہیں ملا تھا۔‏

14.‏ اگر ہم خاکسار اور قناعت‌پسند ہوں گے تو ہم کیا کریں گے؟‏

14 اگر ہم بھی خاکسار اور قناعت‌پسند ہوں گے تو پولُس کی طرح ہم اُس اِختیار کا احترام کریں گے جو یہوواہ نے دوسروں کو سونپا ہے۔‏ (‏اعما 21:‏20-‏26‏)‏ اُس نے کچھ آدمیوں کو کلیسیا میں پیشوائی کرنے کے لیے مقرر کِیا ہے۔‏ اُن کے عیب‌دار ہونے کے باوجود یہوواہ اُنہیں ”‏آدمیوں کے رُوپ میں نعمتیں“‏ خیال کرتا ہے۔‏ (‏اِفس 4:‏8،‏ 11‏)‏ جب ہم اِن آدمیوں کا احترام کرتے ہیں اور خاکساری سے اِن کی ہدایات پر عمل کرتے ہیں تو ہم یہوواہ کے قریب رہتے ہیں اور کلیسیا میں امن کو فروغ دیتے ہیں۔‏

‏”‏ایسے کام کریں جن سے امن کو فروغ ملے“‏

15.‏ ہمیں کیا کرنے کی ضرورت ہے؟‏

15 جس مٹی میں حسد جڑ پکڑ لے،‏ وہاں امن کا پودا نہیں بڑھ سکتا۔‏ ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے دل سے حسد کو اُکھاڑ پھینکیں اور دوسروں کے دل میں بھی حسد کا بیج نہ بوئیں۔‏ اگر ہم یہ دو اہم کام کریں گے تو پھر ہی ہم یہوواہ کے اِس حکم پر عمل کر پائیں گے:‏ ”‏ایسے کام کریں جن سے امن کو فروغ ملے اور دوسروں کی حوصلہ‌افزائی ہو۔‏“‏ (‏روم 14:‏19‏)‏ ہم حسد سے بچنے میں دوسروں کی مدد کیسے کر سکتے ہیں اور امن کو کیسے فروغ دے سکتے ہیں؟‏

16.‏ ہم حسد سے بچنے میں دوسروں کی مدد کیسے کر سکتے ہیں؟‏

16 ہمارے رویے اور کاموں کا دوسروں پر گہرا اثر ہو سکتا ہے۔‏ یہ دُنیا چاہتی ہے کہ ہم اُن چیزوں کا ”‏دِکھاوا“‏ کریں جو ہمارے پاس ہیں۔‏ (‏1-‏یوح 2:‏16‏)‏ لیکن ایسے رویے سے حسد کو فروغ ملتا ہے۔‏ اگر ہم دوسروں کو حسد سے بچانا چاہتے ہیں تو ہمیں چاہیے کہ ہر وقت اُن چیزوں کے بارے میں بات نہ کریں جو ہمارے پاس ہیں یا جنہیں ہم خریدنے کا اِرادہ رکھتے ہیں۔‏ دوسروں کو حسد سے بچانے کا ایک اَور طریقہ یہ ہے کہ ہم کلیسیا میں شرف رکھنے کے باوجود خاکسار رہیں۔‏ اگر ہماری بات‌چیت کا موضوع بس یہی ہوگا کہ ہم کلیسیا میں کیا کچھ کر رہے ہیں تو ہم حسد کے پودے کے لیے زرخیز زمین تیار کر رہے ہوں گے۔‏ اپنی ذات پر حد سے زیادہ توجہ دِلانے کی بجائے ہمیں دوسروں کی ذات میں دلچسپی لینی چاہیے اور اُن کے اچھے کاموں کو سراہنا چاہیے۔‏ اِس سے دوسروں کو ترغیب ملے گی کہ وہ اُن چیزوں پر راضی رہیں جو اُن کے پاس ہیں۔‏ اِس کے علاوہ اِس سے کلیسیا میں امن اور اِتحاد کو بھی فروغ ملے گا۔‏

17.‏ یوسف کے بھائی کیا کرنے کے قابل ہوئے اور اِس کا کیا فائدہ ہوا؟‏

17 حسد کے رُجحان پر قابو پانا ممکن ہے!‏ اِس سلسلے میں ذرا پھر سے یوسف کے بھائیوں کی مثال پر غور کریں۔‏ یوسف کے ساتھ بدسلوکی کرنے کے سالوں بعد وہ مصر میں اُن سے ملے۔‏ یوسف نے اپنے بھائیوں پر اپنی اصل شناخت ظاہر کرنے سے پہلے اُنہیں آزمایا کہ آیا وہ بدلے ہیں یا نہیں۔‏ اُنہوں نے اپنے بھائیوں کے لیے کھانا تیار کروایا اور اپنے سب سے چھوٹے بھائی بنیمین کو دوسرے بھائیوں سے زیادہ اہمیت دیتے ہوئے کھانے کا زیادہ حصہ دیا۔‏ (‏پید 43:‏33،‏ 34‏)‏ لیکن یوسف کے بھائیوں نے کوئی ایسا تاثر نہیں دیا کہ وہ بنیمین سے حسد کر رہے ہیں۔‏ اِس کی بجائے اُنہوں نے اپنے بھائی اور اپنے ابو یعقوب کے لیے گہری فکرمندی دِکھائی۔‏ (‏پید 44:‏30-‏34‏)‏ چونکہ یوسف کے بھائیوں نے اپنے دل سے حسد نکال دیا تھا اِس لیے اُن کے خاندان میں پھر سے امن ہو گیا۔‏ (‏پید 45:‏4،‏ 15‏)‏ اگر ہمارے دل میں ذرا سا بھی حسد ہے تو ہمیں بھی اِسے اپنے دل سے نکال دینا چاہیے۔‏ یوں ہم اپنے خاندان اور کلیسیا میں پُرامن ماحول قائم کر پائیں گے۔‏

18.‏ یعقوب 3:‏17،‏ 18 کے مطابق اگر ہم ایک پُرامن اور خوش‌گوار ماحول قائم کرنے کی کوشش کریں گے تو کیا ہوگا؟‏

18 یہوواہ چاہتا ہے کہ ہم حسد کرنے سے بچیں اور امن کو فروغ دیں۔‏ ہمیں یہ دونوں کام کرنے کی سخت کوشش کرنی چاہیے۔‏ جیسے کہ اِس مضمون میں بتایا گیا ہے،‏ ہم سب میں حسد کا رُجحان پایا جاتا ہے۔‏ (‏یعقو 4:‏5‏)‏ اور ہم ایسی دُنیا میں رہتے ہیں جہاں حسد کو بڑھاوا دیا جاتا ہے۔‏ لیکن اگر ہم خاکسار اور قناعت‌پسند بنیں گے اور دوسروں کے اچھے کاموں کے لیے قدر ظاہر کریں گے تو ہمارے دل میں حسد کے لیے کوئی جگہ نہیں رہے گی۔‏ یوں ہم ایک پُرامن اور خوش‌گوار ماحول قائم کر پائیں گے جس میں نیکی کا پھل بڑھ سکے گا۔‏‏—‏یعقوب 3:‏17،‏ 18 کو پڑھیں۔‏

گیت نمبر 130‏:‏ دل سے معاف کریں

^ پیراگراف 5 یہوواہ کی تنظیم ایک پُرامن تنظیم ہے۔‏ لیکن اگر ہم اپنے دل میں حسد کو جگہ دیں گے تو یہ امن خطرے میں پڑ سکتا ہے۔‏ اِس مضمون میں ہم کچھ ایسی وجوہات پر غور کریں گے جو حسد کا باعث بن سکتی ہیں۔‏ ہم یہ بھی سیکھیں گے کہ ہم حسد کرنے کے نقصان‌دہ رُجحان کا مقابلہ کیسے کر سکتے ہیں اور امن کو فروغ کیسے دے سکتے ہیں۔‏

^ پیراگراف 2 اِصطلاح کی وضاحت:‏ بائبل میں جس طرح سے لفظ حسد اِستعمال ہوا ہے،‏ اُس کے مطابق حسد کرنے والا شخص نہ صرف یہ چاہتا ہے کہ جو چیز دوسرے شخص کے پاس ہے،‏ وہ اُس کے پاس بھی آ جائے بلکہ یہ بھی چاہتا ہے کہ دوسرا شخص اُس چیز سے محروم ہو جائے۔‏

^ پیراگراف 61 تصویر کی وضاحت‏:‏ بزرگوں کی جماعت کے ایک اِجلاس میں ایک عمررسیدہ بھائی کو جو ‏”‏مینارِنگہبانی“‏ کے مطالعے کی پیشوائی کرتا ہے،‏ کہا جا رہا ہے کہ وہ اپنے سے کم‌عمر بھائی کو یہ ذمےداری نبھانے کی تربیت دے۔‏ حالانکہ اُس عمررسیدہ بھائی کو اِس شرف سے بڑا لگاؤ ہے لیکن وہ خوشی سے بزرگوں کے فیصلے کی حمایت کر رہا ہے۔‏ وہ اُس بھائی کو عملی مشورے دے رہا ہے اور دل سے اُس کی تعریف کر رہا ہے۔‏