مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

مطالعے کا مضمون نمبر 9

یہوواہ سے تسلی اور اِطمینان پائیں

یہوواہ سے تسلی اور اِطمینان پائیں

‏”‏جب میرے دل میں فکروں کی کثرت ہوتی ہے تو تیری تسلی میری جان کو شاد کرتی ہے۔‏“‏‏—‏زبور 94:‏19‏۔‏

گیت نمبر 44‏:‏ دُکھی بندے کی فریاد

مضمون پر ایک نظر *

1.‏ ہم کن باتوں کی وجہ سے پریشان ہو سکتے ہیں اور اِس کا ہم پر کیا اثر ہو سکتا ہے؟‏

کیا آپ کبھی کسی بات کی وجہ سے شدید پریشانی * میں مبتلا ہوئے ہیں؟‏ ہو سکتا ہے کہ آپ اِس وجہ سے پریشان ہوں کیونکہ کسی نے کچھ ایسا کہا یا کِیا ہے جس سے آپ کو ٹھیس پہنچی ہے۔‏ یا پھر آپ اپنی ہی کسی بات یا کام کی وجہ سے پریشان ہو سکتے ہیں۔‏ مثال کے طور پر شاید آپ سے کوئی غلطی ہوئی ہو اور آپ کو یہ فکر کھائے جا رہی ہو کہ یہوواہ آپ کو کبھی معاف نہیں کرے گا۔‏ شاید آپ یہاں تک سوچنے لگیں کہ ”‏میری پریشانی اِس لیے میرے سر پر سوار ہو گئی ہے کیونکہ میرا ایمان کمزور ہے اور مَیں ایک اچھا اِنسان نہیں ہوں۔‏“‏ لیکن کیا ایسا سوچنا صحیح ہے؟‏

2.‏ بائبل کی کن مثالوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ پریشان ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ ہمارا ایمان کمزور ہے؟‏

2 ذرا پاک کلام سے کچھ مثالوں پر غور کریں۔‏ سموئیل نبی کی ماں حنّہ مضبوط ایمان کی مالک تھیں۔‏ لیکن پھر بھی وہ بہت پریشان رہتی تھیں کیونکہ اُن کی سوتن نے اُن کا جینا دوبھر کر رکھا تھا۔‏ (‏1-‏سمو 1:‏7‏)‏ پولُس رسول کا ایمان بہت پُختہ تھا لیکن وہ بھی کافی پریشان تھے کیونکہ اُنہیں ”‏کلیسیاؤں کی فکر ستاتی رہتی“‏ تھی۔‏ (‏2-‏کُر 11:‏28‏)‏ بادشاہ داؤد اِس قدر پُختہ ایمان کے مالک تھے کہ اُنہیں یہوواہ کی خاص پسندیدگی حاصل تھی۔‏ (‏اعما 13:‏22‏)‏ پھر بھی اُن سے ایسی غلطیاں ہوئیں جن کی وجہ سے وہ شدید پریشانی کے بوجھ تلے دب گئے۔‏ (‏زبور 38:‏4‏)‏ یہوواہ نے اپنے اِن تینوں بندوں کو تسلی اور اِطمینان بخشا۔‏ آئیں،‏ دیکھیں کہ ہم اُن کی مثالوں سے کیا سیکھ سکتے ہیں۔‏

ہم خدا کی وفادار بندی حنّہ سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟‏

3.‏ دوسروں کی باتیں کس طرح ہمیں پریشانی میں مبتلا کر سکتی ہیں؟‏

3 جب دوسرے ہم سے تلخ باتیں یا بُرا سلوک کرتے ہیں تو شاید ہم پریشان ہو جائیں۔‏ ایسا خاص طور پر اُس وقت ہوتا ہے جب ہمارا کوئی قریبی دوست یا رشتےدار ہمیں چوٹ پہنچاتا ہے۔‏ شاید ہم سوچنے لگ جائیں کہ اب اُس شخص کے ساتھ ہمارے تعلقات کبھی بحال نہیں ہو پائیں گے۔‏ شاید ہمیں ٹھیس پہنچانے والا شخص بِلاسوچے سمجھے ہمیں کچھ کہہ دے اور ہمیں ایسا لگے جیسے کوئی تیز تلوار سے ہمارے دل پر وار کر رہا ہو۔‏ (‏امثا 12:‏18‏)‏ یا شاید کوئی شخص جان بُوجھ کر ایسی باتیں کہے جن سے ہمارا دل دُکھے۔‏ ایک جوان بہن کو ایسی ہی صورتحال کا سامنا ہوا۔‏ وہ کہتی ہے:‏ ”‏کچھ سال پہلے ایک لڑکی نے جسے مَیں اپنی اچھی دوست سمجھتی تھی،‏ اِنٹرنیٹ پر میرے خلاف افواہیں پھیلانی شروع کر دیں۔‏ یہ دیکھ کر مَیں بہت دُکھی اور پریشان ہو گئی۔‏ مجھے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وہ میری پیٹھ میں خنجر کیوں گھونپ رہی ہے۔‏“‏ اگر آپ کو بھی کسی قریبی دوست یا رشتےدار نے ٹھیس پہنچائی ہے تو آپ حنّہ کی مثال سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔‏

4.‏ حنّہ کو کن مشکلات کا سامنا تھا؟‏

4 حنّہ کو کٹھن مشکلات کا سامنا تھا۔‏ کئی سالوں تک اُن کی کوئی اولاد نہیں ہوئی۔‏ (‏1-‏سمو 1:‏2‏)‏ قدیم اِسرائیل میں لوگ مانتے تھے کہ اگر کسی عورت کی اولاد نہیں ہے تو اِس کا مطلب ہے کہ خدا اُس سے خوش نہیں۔‏ لہٰذا حنّہ کے لیے اُن کا بانجھ‌پن بڑی رُسوائی کا باعث تھا۔‏ (‏پید 30:‏1،‏ 2‏)‏ لیکن حنّہ کی پریشانی کی وجہ صرف یہی نہیں تھی۔‏ اُن کے شوہر کی دوسری بیوی فننہ کی اولاد تھی۔‏ وہ حنّہ سے جلتی تھی اور اُنہیں چڑھانے کے لیے ہر وقت طعنے دیتی رہتی تھی۔‏ (‏1-‏سمو 1:‏6‏)‏ شروع میں حنّہ سے اپنی یہ مشکلیں جھیلی نہیں جاتی تھیں۔‏ وہ ”‏روتی اور کھانا نہ کھاتی“‏ تھیں اور ”‏نہایت دل‌گیر“‏ رہتی تھیں۔‏ (‏1-‏سمو 1:‏7،‏ 10‏)‏ لیکن پھر حنّہ کو تسلی مل گئی۔‏ وہ کیسے؟‏

5.‏ دُعا کرنے سے حنّہ کو کیا فائدہ ہوا؟‏

5 حنّہ نے دُعا میں یہوواہ کے سامنے اپنا دل اُنڈیل دیا۔‏ دُعا کرنے کے بعد اُنہوں نے کاہنِ‌اعظم عیلی کو اپنی صورتحال کے بارے میں بتایا۔‏ اِس پر عیلی نے اُن سے کہا:‏ ”‏تُو سلامت جا اور اِؔسرائیل کا خدا تیری مُراد جو تُو نے اُس سے مانگی ہے پوری کرے۔‏“‏ اِس کا کیا نتیجہ نکلا؟‏ وہ وہاں سے ’‏چلی گئیں اور کھانا کھایا اور پھر اُن کا چہرہ اُداس نہ رہا۔‏‘‏ (‏1-‏سمو 1:‏17،‏ 18‏)‏ دُعا کرنے سے حنّہ کو بہت اِطمینان ملا۔‏

ہم کیا کر سکتے ہیں تاکہ ہم حنّہ کی طرح اِطمینان حاصل کر سکیں اور اِسے برقرار رکھ سکیں؟‏ (‏پیراگراف نمبر 6-‏10 کو دیکھیں۔‏)‏

6.‏ ہم حنّہ کی مثال اور فِلپّیوں 4:‏6،‏ 7 سے دُعا کے بارے میں کیا سیکھ سکتے ہیں؟‏

6 اگر ہم دُعا کرنے میں لگے رہتے ہیں تو ہم اِطمینان حاصل کر سکتے ہیں۔‏ ‏”‏حنّہ بڑی دیر تک“‏ اپنے آسمانی باپ سے دُعا کرتی رہیں۔‏ (‏1-‏سمو 1:‏12‏،‏ اُردو جیو ورشن‏)‏ ہم بھی دیر تک یہوواہ سے دُعا کر سکتے ہیں اور اُسے اپنی پریشانیوں،‏ خدشات اور کمزوریوں کے بارے میں بتا سکتے ہیں۔‏ یہ لازمی نہیں کہ ہم دُعا میں بڑے بڑے الفاظ اور بالکل صحیح جملے اِستعمال کریں۔‏ ہو سکتا ہے کہ ہم یہوواہ کو اپنی پریشانیوں کے بارے میں بتاتے ہوئے کچھ تلخ باتیں کہہ جائیں اور اپنے آنسوؤں کو نہ روک پائیں۔‏ لیکن پھر بھی یہوواہ ہماری دُعائیں سننے سے کبھی نہیں اُکتائے گا۔‏ دُعا کرتے وقت یہوواہ کو اپنی پریشانیوں کے بارے میں بتانے کے ساتھ ساتھ ہم فِلپّیوں 4:‏6،‏ 7 میں درج ہدایت کو بھی یاد رکھ سکتے ہیں۔‏ ‏(‏اِن آیتوں کو پڑھیں۔‏)‏ پولُس رسول نے اِس بات پر زور دیا کہ ہمیں دُعا میں یہوواہ کے شکرگزار بھی ہونا چاہیے۔‏ ہمارے پاس یہوواہ کا شکرگزار ہونے کی بہت سی وجوہات ہیں۔‏ مثال کے طور پر ہم زندگی کی نعمت،‏ اُس کی بنائی ہوئی خوب‌صورت چیزوں،‏ اُس کی محبت اور اُس شان‌دار اُمید کے لیے اُس کے شکرگزار ہو سکتے ہیں جو اُس نے ہمیں دی ہے۔‏ ہم حنّہ کی مثال سے اَور کیا سیکھ سکتے ہیں؟‏

7.‏ حنّہ اور اُن کے شوہر باقاعدگی سے کہاں جاتے تھے؟‏

7 اپنی مشکلات کے باوجود حنّہ اپنے شوہر کے ساتھ باقاعدگی سے یہوواہ کی عبادت کرنے سیلا جاتی تھیں۔‏ (‏1-‏سمو 1:‏1-‏5‏)‏ جب حنّہ خیمۂ‌اِجتماع میں تھیں تو کاہنِ‌اعظم عیلی نے اُن کا حوصلہ بڑھاتے ہوئے کہا کہ اُنہیں اُمید ہے کہ یہوواہ اُن کی دُعا کا جواب ضرور دے گا۔‏—‏1-‏سمو 1:‏9،‏ 17‏۔‏

8.‏ اِجلاسوں میں جانے سے ہمیں کیا فائدہ ہوتا ہے؟‏ وضاحت کریں۔‏

8 اگر ہم باقاعدگی سے اِجلاسوں میں جاتے ہیں تو ہم اِطمینان حاصل کر سکتے ہیں۔‏ عام طور پر ہمارے اِجلاسوں کے آغاز میں خدا سے یہ دُعا کی جاتی ہے کہ پاک روح ہمارے ساتھ ہو۔‏ اور پاک روح کے پھل کا ایک حصہ اِطمینان ہے۔‏ (‏گل 5:‏22‏)‏ جب ہم پریشانی کے باوجود اِجلاسوں میں جاتے ہیں تو یہوواہ خدا اور ہمارے بہن بھائیوں کو یہ موقع ملتا ہے کہ وہ ہمارا حوصلہ بڑھائیں اور ذہنی اور دلی اِطمینان حاصل کرنے میں ہماری مدد کریں۔‏ دُعا اور ہمارے اِجلاس وہ اہم ذریعے ہیں جن سے یہوواہ ہمیں تسلی دیتا ہے۔‏ (‏عبر 10:‏24،‏ 25‏)‏ آئیں،‏ اب غور کریں کہ ہم حنّہ کی مثال سے اَور کون سا سبق سیکھ سکتے ہیں۔‏

9.‏ حنّہ کی صورتحال میں کون سی باتیں جوں کی توں رہیں اور کس چیز نے اِس صورتحال کو برداشت کرنے میں اُن کی مدد کی؟‏

9 حنّہ کی پریشانی کی وجہ فوراً دُور نہیں ہوئی۔‏ جب حنّہ خیمۂ‌اِجتماع میں دُعا کرنے کے بعد واپس گھر گئیں تو اُنہیں پھر سے اپنی سوتن کے ساتھ رہنا تھا۔‏ اور بائبل میں یہ نہیں بتایا گیا کہ فننہ کے رویے میں کوئی تبدیلی آئی تھی۔‏ اِس لیے حنّہ کو اب بھی اپنی سوتن کی دل دُکھانے والی باتیں سننی پڑتی ہوں گی۔‏ لیکن اب حنّہ فننہ کی باتوں کو دل پر نہیں لیتی تھیں۔‏ یاد کریں کہ حنّہ نے اپنے معاملے کو یہوواہ پر چھوڑنے کے بعد پریشانی کو خود پر حاوی نہیں ہونے دیا۔‏ اُنہوں نے تسلی اور اِطمینان کے لیے یہوواہ پر بھروسا کِیا۔‏ کچھ عرصے بعد یہوواہ نے حنّہ کی دُعا کا جواب دیا اور اُنہیں اولاد کی نعمت سے نوازا۔‏—‏1-‏سمو 1:‏19،‏ 20؛‏ 2:‏21‏۔‏

10.‏ ہم حنّہ کی مثال سے کیا سیکھتے ہیں؟‏

10 اگر ہماری پریشانی کی وجہ دُور نہیں ہوتی پھر بھی ہم اِطمینان حاصل کر سکتے ہیں۔‏ دل سے دُعا کرنے اور باقاعدگی سے اِجلاسوں میں جانے کے باوجود بھی ہو سکتا ہے کہ ہماری مشکلات حل نہ ہوں۔‏ لیکن حنّہ کی مثال سے ہم سیکھتے ہیں کہ کوئی بھی چیز یہوواہ کو ہمارے دُکھی دل کو اِطمینان دینے سے نہیں روک سکتی۔‏ یہوواہ ہمیں کبھی نہیں بھولے گا اور وقت آنے پر ہمیں ہماری وفاداری کا اجر ضرور دے گا۔‏—‏عبر 11:‏6‏۔‏

ہم پولُس رسول سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟‏

11.‏ پولُس کن باتوں کی وجہ سے پریشان ہوتے تھے؟‏

11 پولُس کے پریشان رہنے کی بہت سی وجوہات تھیں۔‏ مثال کے طور پر چونکہ وہ اپنے بہن بھائیوں سے پیار کرتے تھے اِس لیے وہ اُن کی مشکلات کی وجہ سے بےحد فکرمند ہوتے تھے۔‏ (‏2-‏کُر 2:‏4؛‏ 11:‏28‏)‏ رسول کے طور پر خدمت انجام دیتے ہوئے اُنہیں مخالفوں کا سامنا کرنا پڑا جنہوں نے اُنہیں مارا پیٹا اور قید میں ڈال دیا۔‏ اُنہیں اَور بھی بہت سی مشکلات کا سامنا ہوا جیسے کہ اُنہیں ”‏تھوڑے میں بھی گزارہ“‏ کرنا پڑتا تھا۔‏ (‏فل 4:‏12‏)‏ اور ذرا سوچیں کہ کم از کم تین مرتبہ سمندر میں اپنے جہاز کو تباہ ہوتا دیکھنے کے بعد پولُس جہاز میں سفر کرتے وقت کتنا ڈر محسوس کرتے ہوں گے!‏ (‏2-‏کُر 11:‏23-‏27‏)‏ پولُس اِن پریشانیوں سے نمٹنے کے قابل کیسے ہوئے؟‏

12.‏ کس چیز نے پولُس کی پریشانی کو کم کِیا ہوگا؟‏

12 جب بہن بھائیوں کو مشکلات کا سامنا ہوتا تھا تو پولُس پریشان ہوتے تھے۔‏ لیکن اُنہوں نے خود اُن کے سب مسئلے حل کرنے کی کوشش نہیں کی۔‏ پولُس جانتے تھے کہ وہ اکیلے سب کچھ نہیں کر سکتے۔‏ اُنہوں نے کلیسیا کی دیکھ‌بھال کرنے کے لیے دوسروں سے مدد لی۔‏ مثال کے طور پر اُنہوں نے تیمُتھیُس اور طِطُس جیسے قابلِ‌بھروسا بھائیوں کو ذمےداریاں سونپیں۔‏ بےشک اِن بھائیوں کی مدد سے پولُس کی پریشانی کم ہوئی ہوگی۔‏—‏فل 2:‏19،‏ 20؛‏ طط 1:‏1،‏ 4،‏ 5‏۔‏

پولُس کی مثال پر عمل کرتے ہوئے ہم پریشانیوں کو خود پر حاوی ہونے سے کیسے روک سکتے ہیں؟‏ (‏پیراگراف نمبر 13-‏15 کو دیکھیں۔‏)‏

13.‏ بزرگ،‏ پولُس کی مثال پر کیسے عمل کر سکتے ہیں؟‏

13 دوسروں سے مدد لیں۔‏ پولُس کی طرح آج بھی شفیق بزرگ کلیسیا کے اُن بہن بھائیوں کے لیے فکرمند ہوتے ہیں جو مشکلات جھیل رہے ہیں۔‏ لیکن کلیسیا کے سب بہن بھائیوں کی مدد کرنا شاید ایک بزرگ کے بس کی بات نہ ہو۔‏ ایسی صورت میں اُسے تسلیم کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ سارے کاموں کا بیڑا اکیلے نہیں اُٹھا سکتا۔‏ یوں اُسے یہ ترغیب ملے گی کہ وہ اپنی ذمےداریوں کا بوجھ دوسرے لائق بھائیوں کے ساتھ بانٹے اور نوجوان بھائیوں کو خدا کے گلّے کی دیکھ‌بھال کرنے کی تربیت دے۔‏—‏2-‏تیم 2:‏2‏۔‏

14.‏ پولُس نے کس بات کی پرواہ نہیں کی اور ہم اُن کی مثال سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟‏

14 تسلیم کریں کہ آپ کو تسلی کی ضرورت ہے۔‏ پولُس خاکسار تھے اِس لیے وہ اِس بات کو سمجھتے تھے کہ اُنہیں اپنے دوستوں سے حوصلہ حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔‏ اُنہوں نے تسلیم کِیا کہ اُنہیں دوسروں سے تسلی ملی ہے اور ایسا کرتے وقت اِس بات کی پرواہ نہیں کی کہ اُنہیں ایک کمزور شخص خیال کِیا جائے گا۔‏ فلیمون کے نام خط میں پولُس نے کہا:‏ ”‏آپ کی محبت کے بارے میں سُن کر مجھے بہت خوشی اور تسلی ہوئی۔‏“‏ (‏فلیمون 7‏)‏ پولُس نے اپنے کئی اَور ہم‌خدمتوں کا بھی ذکر کِیا جنہوں نے مشکل وقت میں اُنہیں بڑی تسلی دی تھی۔‏ (‏کُل 4:‏7-‏11‏)‏ جب ہم خاکساری سے یہ تسلیم کرتے ہیں کہ ہمیں حوصلہ‌افزائی کی ضرورت ہے تو ہمارے بہن بھائی خوشی سے ہمیں سہارا دیتے ہیں۔‏

15.‏ جب پولُس شدید پریشانی کے عالم میں تھے تو اُنہوں نے تسلی حاصل کرنے کے لیے کیا کِیا؟‏

15 خدا کے کلام سے مدد حاصل کریں۔‏ پولُس جانتے تھے کہ اُنہیں پاک صحیفوں کو پڑھنے سے تسلی ملے گی۔‏ (‏روم 15:‏4‏)‏ وہ یہ بھی جانتے تھے کہ پاک صحیفوں کے ذریعے اُنہیں وہ دانش‌مندی ملے گی جو کسی بھی مشکل کا سامنا کرنے میں اُن کے کام آ سکتی ہے۔‏ (‏2-‏تیم 3:‏15،‏ 16‏)‏ جب وہ دوسری بار روم میں قید تھے تو اُنہیں لگا کہ اب اُن کی زندگی کے کچھ ہی دن بچے ہیں۔‏ پریشانی کے اِس عالم میں پولُس نے کیا کِیا؟‏ اُنہوں نے تیمُتھیُس سے کہا کہ وہ جلد از جلد اُن کے پاس آنے کی کوشش کریں اور اپنے ساتھ ”‏طومار“‏ بھی لیتے آئیں۔‏ (‏2-‏تیم 4:‏6،‏ 7،‏ 9،‏ 13‏)‏ مگر کیوں؟‏ کیونکہ شاید وہ طومار عبرانی صحیفوں کے کچھ حصوں پر مشتمل تھے جنہیں پولُس اپنے ذاتی مطالعے میں اِستعمال کر سکتے تھے۔‏ جب ہم پولُس کی طرح باقاعدگی سے خدا کے کلام کا مطالعہ کرتے ہیں تو یہوواہ صحیفوں کے ذریعے ہمیں کٹھن سے کٹھن حالات میں بھی اِطمینان بخش سکتا ہے۔‏

ہم بادشاہ داؤد سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟‏

اگر ہم سے کوئی سنگین غلطی ہو جاتی ہے تو بادشاہ داؤد کی طرح ہم مدد کہاں سے حاصل کر سکتے ہیں؟‏ (‏پیراگراف نمبر 16-‏19 کو دیکھیں۔‏)‏

16.‏ داؤد کو اپنی غلطیوں کی وجہ سے کن نتائج کا سامنا ہوا؟‏

16 داؤد نے ایسے کام کیے تھے جن کی وجہ سے اُن کا ضمیر اُنہیں پریشان کرتا تھا۔‏ اُنہوں نے بت‌سبع کے ساتھ حرام‌کاری کی،‏ اُن کے شوہر کو مروانے کی چال چلی اور کچھ عرصے تک اپنی غلطیوں کو چھپانے کی کوشش کی۔‏ (‏2-‏سمو 12:‏9‏)‏ شروع میں داؤد اپنے ضمیر کی آواز کو نظرانداز کرتے رہے۔‏ اِس کا نتیجہ یہ نکلا کہ یہوواہ کے ساتھ اُن کی دوستی متاثر ہوئی اور اُنہیں ذہنی اور جسمانی تکلیف کا سامنا کرنا پڑا۔‏ (‏زبور 32:‏3،‏ 4‏)‏ داؤد اپنی پریشانیوں سے کیسے نکل پائے؟‏ اور اگر ہم سے کوئی سنگین غلطی ہو جاتی ہے تو ہم کہاں سے مدد حاصل کر سکتے ہیں؟‏

17.‏ زبور 51:‏1-‏4 میں درج الفاظ سے کیسے ظاہر ہوتا ہے کہ داؤد اپنے کیے پر دل سے شرمندہ تھے؟‏

17 معافی کے لیے دُعا کریں۔‏ آخرکار داؤد نے یہوواہ سے دُعا کی۔‏ اُنہوں نے دل سے توبہ کی اور یہوواہ کے سامنے اپنے گُناہوں کا اِعتراف کِیا۔‏ ‏(‏زبور 51:‏1-‏4 کو پڑھیں۔‏)‏ ایسا کرنے سے اُن کے دل سے ایک بھاری بوجھ اُتر گیا۔‏ (‏زبور 32:‏1،‏ 2،‏ 4،‏ 5‏)‏ اگر آپ سے بھی کوئی سنگین گُناہ ہوا ہے تو اِسے چھپانے کی کوشش نہ کریں۔‏ اِس کی بجائے کُھل کر یہوواہ کے سامنے اِس کا اِقرار کریں۔‏ یوں آپ کسی حد تک اُس پریشانی سے نکل پائیں گے جو آپ کو اپنے ضمیر کے ملامت کرنے پر ہو رہی ہے۔‏ لیکن اگر آپ یہوواہ کے ساتھ اپنی دوستی کو بحال کرنا چاہتے ہیں تو آپ کو دُعا کرنے کے علاوہ کچھ اَور بھی کرنے کی ضرورت ہے۔‏

18.‏ داؤد نے اِصلاح ملنے پر کیسا ردِعمل ظاہر کِیا؟‏

18 اِصلاح کو قبول کریں۔‏ یہوواہ نے ناتن نبی کو داؤد کے پاس بھیجا تاکہ وہ اُنہیں اُن کی غلطی کے بارے میں بتا سکیں۔‏ اِس پر داؤد نے نہ تو اپنی صفائیاں پیش کیں اور نہ ہی یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ اُن کی غلطی اِتنی سنگین نہیں تھی۔‏ اُنہوں نے فوراً یہ تسلیم کِیا کہ اُنہوں نے نہ صرف بت‌سبع کے شوہر کے خلاف گُناہ کِیا ہے بلکہ سب سے بڑھ کر یہوواہ کے خلاف گُناہ کِیا ہے۔‏ داؤد نے یہوواہ کی طرف سے ملنے والی اِصلاح کو قبول کِیا۔‏ اِس پر یہوواہ نے اُنہیں معاف کر دیا۔‏ (‏2-‏سمو 12:‏10-‏14‏)‏ اگر ہم سے کوئی سنگین گُناہ ہوا ہے تو ہمیں اُن بھائیوں سے بات کرنی چاہیے جنہیں یہوواہ نے ہماری دیکھ‌بھال کرنے کے لیے مقرر کِیا ہے۔‏ (‏یعقو 5:‏14،‏ 15‏)‏ اِس کے علاوہ ہمیں اپنی غلطی کے لیے صفائیاں پیش نہیں کرنی چاہئیں۔‏ ہم جتنی جلدی یہوواہ کی طرف سے ملنے والی اِصلاح کو قبول کریں گے اُتنی ہی جلدی ہمیں دلی اِطمینان حاصل ہوگا۔‏

19.‏ ہمیں کیا کرنے کا عزم کرنا چاہیے؟‏

19 عزم کریں کہ آپ وہ غلطیاں نہیں دُہرائیں گے۔‏ بادشاہ داؤد جانتے تھے کہ وہ یہوواہ کی مدد سے ہی اپنی غلطیوں کو دُہرانے سے بچ سکتے ہیں۔‏ (‏زبور 51:‏7،‏ 10،‏ 12‏)‏ یہوواہ سے معافی حاصل کرنے کے بعد داؤد نے عزم کر لیا کہ اب وہ اپنے دل میں غلط خواہشات کو سر نہیں اُٹھانے دیں گے۔‏ ایسا کرنے سے وہ دلی اِطمینان حاصل کر پائے۔‏

20.‏ ہم اِس بات کے لیے قدر کیسے ظاہر کر سکتے ہیں کہ یہوواہ نے ہمیں معاف کر دیا ہے؟‏

20 جب ہم دُعا کرتے ہیں،‏ اِصلاح کو قبول کرتے ہیں اور اپنی غلطیوں کو نہ دُہرانے کی سخت کوشش کرتے ہیں تو ہم اِس بات کے لیے قدر ظاہر کرتے ہیں کہ یہوواہ نے ہمیں معاف کر دیا ہے۔‏ یہ اِقدام اُٹھانے سے ہمیں دلی اِطمینان حاصل ہوتا ہے۔‏ جیمز نامی ایک بھائی نے جن سے ایک سنگین غلطی ہوئی تھی،‏ اِس بات کا تجربہ کِیا۔‏ وہ بتاتے ہیں:‏ ”‏جب مَیں نے بزرگوں کے سامنے اپنے گُناہ کا اِقرار کِیا تو مجھے ایسے لگا جیسے میرے کندھوں سے کوئی بھاری بوجھ اُتر گیا ہو۔‏ یوں مجھے بڑا اِطمینان حاصل ہوا۔‏“‏ پاک کلام میں لکھی یہ بات واقعی بڑی تسلی کا باعث ہے:‏ ”‏[‏یہوواہ]‏ شکستہ دلوں کے نزدیک ہے اور خستہ جانوں کو بچاتا ہے۔‏“‏—‏زبور 34:‏18‏۔‏

21.‏ ہم یہوواہ سے اِطمینان پانے کے لیے کیا کر سکتے ہیں؟‏

21 جیسے جیسے یہ آخری زمانہ اپنے اِختتام کو پہنچ رہا ہے،‏ ہماری پریشانی کی وجوہات بڑھتی چلی جائیں گی۔‏ جب آپ کے ذہن میں پریشان‌کُن خیالات پیدا ہوں تو فوراً یہوواہ سے مدد کے لیے دُعا کریں۔‏ گہرائی سے پاک کلام کا مطالعہ کریں۔‏ حنّہ،‏ پولُس اور داؤد کی مثالوں پر عمل کریں۔‏ اپنے آسمانی باپ سے اِلتجا کریں کہ وہ آپ کی پریشانی کی وجہ کو سمجھنے میں آپ کی مدد کرے۔‏ (‏زبور 139:‏23‏)‏ اپنی پریشانیوں کا بوجھ یہوواہ کو اُٹھانے دیں،‏ خاص طور پر ایسی پریشانیوں کا جن سے نمٹنا آپ کے بس میں نہیں ہے۔‏ اگر آپ ایسا کریں گے تو آپ بھی زبورنویس کی طرح یہ کہہ پائیں گے:‏ ”‏جب میرے دل میں فکروں کی کثرت ہوتی ہے تو تیری تسلی میری جان کو شاد کرتی ہے۔‏“‏—‏زبور 94:‏19‏۔‏

گیت نمبر 4‏:‏ یہوواہ میرا چوپان ہے

^ پیراگراف 5 ہم سب کو کبھی کبھار ایسی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے جن کی وجہ سے ہم پریشان ہو جاتے ہیں۔‏ اِس مضمون میں ہم قدیم زمانے سے یہوواہ کے تین ایسے بندوں کی مثالوں پر غور کریں گے جو پریشانی میں مبتلا تھے۔‏ ہم یہ بھی دیکھیں گے کہ یہوواہ نے اُن میں سے ہر ایک کو کیسے تسلی اور اِطمینان بخشا۔‏

^ پیراگراف 1 اِصطلاح کی وضاحت:‏ ہماری پریشانی کی وجہ مالی مشکلات،‏ بیماری یا گھریلو یا ذاتی مسائل ہو سکتے ہیں۔‏ اِس کے علاوہ ماضی کی غلطیاں یا مستقبل کی فکریں بھی ہمیں پریشان کر سکتی ہیں۔‏