مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

مطالعے کا مضمون نمبر 13

‏”‏ایک دوسرے سے دل کی گہرائی سے محبت کریں“‏

‏”‏ایک دوسرے سے دل کی گہرائی سے محبت کریں“‏

‏”‏ایک دوسرے سے دل کی گہرائی سے محبت کریں۔‏“‏‏—‏1-‏پطر 1:‏22‏۔‏

گیت نمبر 109‏:‏ دل کی گہرائی سے محبت کریں

مضمون پر ایک نظر *

یسوع اپنی موت سے کچھ گھنٹے پہلے اپنے رسولوں سے بات کرتے ہوئے محبت کی اہمیت پر توجہ دِلا رہے ہیں۔‏ (‏پیراگراف نمبر 1،‏ 2کو دیکھیں۔‏)‏

1.‏ یسوع نے اپنے شاگردوں کو کون سا خاص حکم دیا؟‏ (‏سرِورق کی تصویر کو دیکھیں۔‏)‏

یسوع نے اپنی موت سے چند گھنٹے پہلے اپنے شاگردوں کو ایک خاص حکم دیا۔‏ اُنہوں نے کہا:‏ ”‏جیسے مَیں نے آپ سے محبت کی ہے ویسے آپ بھی ایک دوسرے سے محبت کریں۔‏“‏ پھر اُنہوں نے کہا:‏ ”‏اگر آپ کے درمیان محبت ہوگی تو سب لوگ پہچان جائیں گے کہ آپ میرے شاگرد ہیں۔‏“‏—‏یوح 13:‏34،‏ 35‏۔‏

2.‏ ایک دوسرے کے لیے محبت ظاہر کرنا اہم کیوں ہے؟‏

2 یسوع نے کہا کہ اگر اُن کے شاگرد ویسی ہی محبت دِکھائیں گے جیسی اُنہوں نے دِکھائی تو اُن کی پہچان سچے مسیحیوں کے طور پر ہو گی۔‏ یسوع کی یہ بات پہلی صدی میں بھی سچ تھی اور آج بھی سچ ہے۔‏ یہ کیوں اہم ہے کہ ہم اُس وقت بھی دوسروں کے لیے محبت ظاہر کریں جب ایسا کرنا ہمارے لیے مشکل ہو؟‏

3.‏ اِس مضمون میں ہم کیا سیکھیں گے؟‏

3 عیب‌دار ہونے کی وجہ سے ہمارے لیے ایک دوسرے سے دل کی گہرائی سے محبت کرنا مشکل ہو سکتا ہے۔‏ لیکن پھر بھی ہمیں یسوع کی مثال پر عمل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔‏ اِس مضمون میں ہم دیکھیں گے کہ محبت کیسے صلح‌پسند بننے،‏ تعصب نہ کرنے اور مہمان‌نواز بننے میں ہماری مدد کرتی ہے۔‏ اِس مضمون کا مطالعہ کرتے وقت خود سے پوچھیں:‏ ”‏مَیں اُن بہن بھائیوں کی مثال سے کیا سیکھتا ہوں جنہوں نے مشکلات کے باوجود ایک دوسرے کے لیے محبت ظاہر کرنا نہیں چھوڑا؟‏“‏

صلح‌پسند بنیں

4.‏ متی 5:‏23،‏ 24 کے مطابق ہمیں اپنے اُس بھائی سے صلح کیوں کرنی چاہیے جو ہم سے خفا ہے؟‏

4 یسوع نے ہمیں سکھایا کہ اگر ہماری کسی بہن یا بھائی کے ساتھ اَن‌بن ہے تو اُس کے ساتھ صلح کرنا کتنا اہم ہے۔‏ ‏(‏متی 5:‏23،‏ 24 کو پڑھیں۔‏)‏اُنہوں نے کہا کہ اگر ہم خدا کو خوش کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں دوسروں کے ساتھ اچھے تعلقات رکھنے کی ضرورت ہے۔‏ جب ہم اپنے بہن بھائیوں کے ساتھ صلح سے رہنے کی پوری کوشش کرتے ہیں تو یہوواہ کو بہت خوشی ہوتی ہے۔‏ لیکن اگر ہم اپنے کسی بھائی یا بہن کے لیے اپنے دل میں رنجش پال لیتے ہیں اور اُس سے صلح کرنے کی کوشش بھی نہیں کرتے تو خدا ہماری عبادت کو قبول نہیں کرتا۔‏—‏1-‏یوح 4:‏20‏۔‏

5.‏ ایک بھائی کے لیے صلح کرنا مشکل کیوں تھا؟‏

5 شاید ہمیں کسی سے صلح کرنا مشکل لگے۔‏ اِس کی کیا وجہ ہو سکتی ہے؟‏ ذرا غور کریں کہ مارک * نامی ایک بھائی کے ساتھ کیا ہوا تھا۔‏ جب ایک بھائی نے اُن پر تنقید کی اور دوسرے بہن بھائیوں سے اُن کے خلاف بُری باتیں کہیں تو اُنہیں بڑا دُکھ ہوا۔‏ اِس پر مارک نے کیا کِیا؟‏ وہ بتاتے ہیں:‏ ”‏مَیں نے اُس بھائی سے بڑے غصے میں بات کی۔‏“‏ بعد میں مارک کو اپنے کیے پر پچھتاوا ہوا اور اُنہوں نے اُس بھائی سے معافی مانگنے اور اُس سے صلح کرنے کی کوشش کی۔‏ لیکن وہ بھائی،‏ مارک سے صلح کرنے کے لیے بالکل تیار نہیں تھا۔‏ شروع میں مارک نے سوچا:‏ ”‏اگر وہ بھائی صلح کرنا ہی نہیں چاہتا تو مَیں کیوں بار بار کوشش کروں؟‏“‏ لیکن حلقے کے نگہبان نے مارک کی حوصلہ‌افزائی کی کہ وہ اپنے بھائی سے صلح کرنے میں ہمت نہ ہاریں۔‏ پھر مارک نے کیا کِیا؟‏

6.‏ ‏(‏الف)‏ مارک نے صلح کرنے کی کوشش کیسے جاری رکھی؟‏ (‏ب)‏ مارک نے کُلسّیوں 3:‏13،‏ 14 میں درج ہدایت پر کیسے عمل کِیا؟‏

6 جب مارک نے اپنی سوچ کا جائزہ لیا تو اُنہوں نے دیکھا کہ اُن میں خاکساری کی کمی ہے اور وہ خود کو دوسروں سے بہتر خیال کرنے کی طرف مائل ہیں۔‏ وہ اِس بات کو سمجھ گئے کہ اُنہیں اپنی سوچ میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔‏ (‏کُل 3:‏8،‏ 9،‏ 12‏)‏ اُنہوں نے خاکساری سے کام لیا اور دوبارہ اُس بھائی کے پاس گئے اور اُس سے اپنے رویے کے لیے معافی مانگی۔‏ مارک نے اُس بھائی کو خط بھی لکھے اور اُن میں بتایا کہ وہ کتنے شرمندہ ہیں اور اُن سے اپنی دوستی بحال کرنا چاہتے ہیں۔‏ یہاں تک کہ مارک نے اُس بھائی کو چھوٹے چھوٹے تحفے بھی دیے۔‏ لیکن افسوس کی بات ہے کہ اِس سب کے باوجود اُس بھائی کے دل سے خفگی دُور نہیں ہوئی۔‏ پھر بھی مارک اپنے بھائی سے محبت کرنے کے حوالے سے یسوع مسیح کے حکم پر عمل کرنے کی کوشش کرتے رہے اور اُسے معاف کرنے کے لیے ہر وقت تیار رہے۔‏ ‏(‏کُلسّیوں 3:‏13،‏ 14 کو پڑھیں۔‏)‏ کبھی کبھار ایسا ہوتا ہے کہ ہماری بہت کوششوں کے باوجود بھی دوسرے ہم سے صلح کرنے کو تیار نہیں ہوتے۔‏ لیکن ایسی صورتحال میں بھی ہم یسوع جیسی محبت ظاہر کرتے ہوئے دوسروں کو معاف کرنے کے لیے تیار رہتے ہیں اور دُعا کرتے رہتے ہیں کہ اُن کے ساتھ ہماری صلح ہو جائے۔‏—‏متی 18:‏21،‏ 22؛‏ گل 6:‏9‏۔‏

اگر کوئی ہم سے خفا ہے تو شاید ہمیں اُس سے صلح کرنے کے لیے فرق فرق طریقے آزمانے پڑیں۔‏ (‏پیراگراف نمبر 7،‏ 8کو دیکھیں۔‏)‏ *

7.‏ ‏(‏الف)‏ یسوع نے ہمیں کیا کرنے کی نصیحت کی؟‏ (‏ب)‏ ایک بہن کو کس مشکل صورتحال کا سامنا تھا؟‏

7 یسوع نے ہمیں نصیحت کی کہ ہم دوسروں کے ساتھ ویسا ہی سلوک کریں جیسا ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے ساتھ کِیا جائے۔‏ اُنہوں نے یہ بھی کہا کہ ہمیں صرف اُن لوگوں سے ہی محبت نہیں کرنی چاہیے جو ہم سے محبت کرتے ہیں۔‏ (‏لُو 6:‏31-‏33‏)‏ آپ اُس صورت میں کیا کریں گے جب کلیسیا کا کوئی بھائی یا بہن آپ کو نظرانداز کرتا ہے یہاں تک کہ آپ کو سلام کرنا بھی پسند نہیں کرتا؟‏ یہ سچ ہے کہ ایسی صورتحال کلیسیا میں بہت کم ہوتی ہے لیکن لارا نامی ایک بہن کو ایسی ہی مشکل کا سامنا تھا۔‏ وہ بتاتی ہیں:‏ ”‏ایک بہن نے مجھ سے بات کرنا بالکل بند کر دیا۔‏ مجھے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ ایسا کیوں کر رہی ہے۔‏ مَیں بہت پریشان رہتی تھی اور میرا اِجلاسوں میں جانے کا بالکل دل نہیں چاہتا تھا۔‏“‏ شروع میں لارا نے سوچا:‏ ”‏مَیں نے کچھ غلط نہیں کِیا۔‏ اور صرف مجھے ہی نہیں بلکہ کلیسیا میں دوسروں کو بھی اِس بہن کا رویہ عجیب لگتا ہے۔‏“‏

8.‏ لارا نے صلح کرنے کے لیے کیا کچھ کِیا اور ہم اُن کی مثال سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟‏

8 لارا نے اُس بہن کے ساتھ صلح کرنے کے لیے کچھ اِقدام اُٹھائے۔‏ اُنہوں نے یہوواہ سے دُعا کی اور اُس بہن سے بات کرنے کا فیصلہ کِیا۔‏ اُن دونوں نے مل کر مسئلے پر بات کی،‏ ایک دوسرے کو گلے لگایا اور صلح کر لی۔‏ ایسا لگ رہا تھا کہ اب سب کچھ ٹھیک ہو گیا ہے۔‏ لیکن لارا بتاتی ہیں:‏ ”‏کچھ عرصے بعد وہ بہن میرے ساتھ ویسے ہی پیش آنا شروع ہو گئی جیسے پہلے آتی تھی۔‏ مَیں بڑی بےحوصلہ ہو گئی۔‏“‏ شروع میں لارا کو لگا کہ وہ اُس صورت میں ہی خوش ہوں گی اگر وہ بہن اپنا رویہ بدل لے۔‏ لیکن بعد میں لارا سمجھ گئیں کہ اِس مسئلے سے نمٹنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ وہ اُس بہن کے لیے محبت ظاہر کرتی رہیں اور اُسے ”‏دل سے معاف“‏ کرتی رہیں۔‏ (‏اِفس 4:‏32–‏5:‏2‏)‏ لارا نے اِس بات کو یاد رکھا کہ سچی محبت ”‏غلطیوں کا حساب نہیں رکھتی۔‏ ‏.‏ .‏ .‏ سب کچھ برداشت کرتی ہے،‏ سب باتوں پر یقین کرتی ہے،‏ سب چیزوں کی اُمید رکھتی ہے اور ہر حال میں ثابت‌قدم رہتی ہے۔‏“‏ (‏1-‏کُر 13:‏5،‏ 7‏)‏ اب لارا اِس مسئلے کو لے کر پریشان نہیں ہوتیں۔‏ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اُس بہن کے رویے میں کافی بدلاؤ آ گیا۔‏ جب آپ اپنے بہن بھائیوں کے ساتھ صلح سے رہنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں اور اُن کے لیے محبت ظاہر کرتے رہتے ہیں تو آپ یقین رکھ سکتے ہیں کہ ”‏خدا جو محبت اور اِطمینان کا بانی ہے،‏ آپ کے ساتھ رہے گا۔‏“‏—‏2-‏کُر 13:‏11‏۔‏

تعصب نہ کریں

9.‏ اعمال 10:‏34،‏ 35 کے مطابق ہمیں دوسروں سے تعصب کیوں نہیں کرنا چاہیے؟‏

9 یہوواہ تعصب نہیں کرتا۔‏ ‏(‏اعمال 10:‏34،‏ 35 کو پڑھیں۔‏)‏ جب ہم تعصب سے کام نہیں لیتے تو ہم ثابت کرتے ہیں کہ ہم اُس کے بچے ہیں۔‏ ہم یسوع کے حکم پر عمل کرتے ہوئے اپنے پڑوسی سے اُسی طرح محبت کرتے ہیں جیسے ہم اپنے آپ سے کرتے ہیں اور اپنے بہن بھائیوں کے ساتھ صلح سے رہنے کی پوری کوشش کرتے ہیں۔‏—‏روم 12:‏9،‏ 10؛‏ یعقو 2:‏8،‏ 9‏۔‏

10،‏ 11.‏ ایک بہن اپنے منفی احساسات پر قابو پانے کے قابل کیسے ہوئی؟‏

10 کچھ لوگوں کے لیے تعصب سے بچنا مشکل ہو سکتا ہے۔‏ ذرا غور کریں کہ رُوت نامی ایک بہن کے ساتھ کیا ہوا تھا۔‏ جب وہ نوجوان تھیں تو اُن کا ایک ایسی عورت کے ساتھ مسئلہ ہو گیا جو کسی دوسرے ملک سے آئی تھی۔‏ اِس کا رُوت پر کیا اثر ہوا؟‏ وہ بتاتی ہیں:‏ ”‏مَیں اُس ملک کی ہر چیز سے نفرت کرنے لگی۔‏ مجھے لگنے لگا کہ اُس ملک کے سارے لوگ یہاں تک کہ ہمارے بہن بھائی بھی ایک جیسے ہی ہیں۔‏“‏ رُوت نے اپنے منفی احساسات پر کیسے قابو پایا؟‏

11 رُوت کو اِس بات کا احساس ہو گیا کہ اُنہیں اپنے منفی احساسات پر قابو پانے کے لیے سخت محنت کرنی ہوگی۔‏ اُنہوں نے ہماری سالانہ کتاب سے اُس ملک کے متعلق تجربات اور رپورٹیں پڑھیں۔‏ وہ کہتی ہیں:‏ ”‏مَیں نے پوری کوشش کی کہ مَیں اُس ملک کے لوگوں کے بارے میں مثبت سوچ اپنا سکوں۔‏ مَیں نے دیکھا کہ وہاں کے بہن بھائی یہوواہ کی عبادت کے لیے کتنا جوش رکھتے ہیں۔‏ مَیں یہ سمجھ گئی کہ وہ بہن بھائی بھی ہماری عالم‌گیر برادری کا حصہ ہیں۔‏“‏ آہستہ آہستہ رُوت جان گئیں کہ اُنہیں اپنی سوچ کو مثبت رکھنے کے علاوہ کچھ اَور بھی کرنا ہوگا۔‏ وہ بتاتی ہیں:‏ ”‏مَیں جب بھی اُس ملک کے بہن بھائیوں سے ملتی تو اُن سے دوستی کرنے کی پوری کوشش کرتی۔‏ مَیں اُنہیں بہتر طور پر جاننے کے لیے اُن سے بات کرتی۔‏“‏ اِس کا کیا نتیجہ نکلا؟‏ رُوت بتاتی ہیں:‏ ”‏وقت کے ساتھ ساتھ میرے منفی احساسات ختم ہو گئے۔‏“‏

اگر ہم اپنے ”‏تمام ہم‌ایمانوں سے محبت کریں“‏ گے تو ہم کسی سے تعصب نہیں کریں گے۔‏ (‏پیراگراف نمبر 12،‏ 13 کو دیکھیں۔‏)‏ *

12.‏ سارہ نامی بہن کس غلط سوچ کا شکار تھی؟‏

12 یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کچھ بہن بھائیوں کو یہ احساس ہی نہ ہو کہ وہ تعصب سے کام لے رہے ہیں۔‏ مثال کے طور پر سارہ نامی ایک بہن کو لگتا تھا کہ اُن کے دل میں کسی کے لیے تعصب نہیں ہے کیونکہ وہ کسی کی نسل،‏ مالی حیثیت یا تنظیم میں اُن کی ذمےداری کی وجہ سے اُن کے بارے میں رائے قائم نہیں کرتی تھیں۔‏ لیکن آہستہ آہستہ اُنہیں احساس ہونے لگا کہ دراصل وہ تعصب سے کام لے رہی تھیں۔‏ مگر کس طرح کا تعصب؟‏ سارہ کا تعلق ایک پڑھے لکھے گھرانے سے تھا اور وہ ایسے بہن بھائیوں کے ساتھ اُٹھنا بیٹھنا پسند کرتی تھیں جو پڑھے لکھے ہوں۔‏ ایک بار تو اُنہوں نے اپنی ایک دوست سے یہ تک کہا:‏ ”‏مَیں اُن بہن بھائیوں کے ساتھ وقت گزارتی ہوں جو پڑھے لکھے ہوں۔‏ اور جو بہن بھائی اِتنے پڑھے لکھے نہیں ہوتے،‏ اُن سے زیادہ نہیں گھلتی ملتی۔‏“‏ بےشک سارہ کو اپنی سوچ بدلنے کی ضرورت تھی۔‏ وہ ایسا کیسے کر پائیں؟‏

13.‏ جس طرح سے سارہ نے اپنی سوچ کو بدلا،‏ اُس سے ہم کیا سیکھتے ہیں؟‏

13 حلقے کے ایک نگہبان نے سارہ کی مدد کی تاکہ وہ اپنی سوچ کا جائزہ لے سکیں۔‏ وہ بتاتی ہیں:‏ ”‏اُس بھائی نے میری تعریف کی کہ مَیں وفاداری سے یہوواہ کی خدمت کرتی ہوں،‏ اِجلاسوں میں اچھے جواب دیتی ہوں اور بائبل کا علم رکھتی ہوں۔‏ پھر اُس بھائی نے بتایا کہ جوں‌جوں ہمارا علم بڑھتا ہے،‏ ہمارے اندر خاکساری اور رحم جیسی خوبیاں بھی بڑھنی چاہئیں۔‏“‏ سارہ نے حلقے کے نگہبان کی بات کو پلے سے باندھ لیا۔‏ وہ کہتی ہیں:‏ ”‏مَیں سمجھ گئی کہ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہم دوسروں سے مہربانی اور محبت سے پیش آئیں۔‏“‏ اِس کے بعد بہن بھائیوں کے متعلق سارہ کی سوچ بالکل بدل گئی۔‏ وہ بتاتی ہیں:‏ ”‏مَیں نے بہن بھائیوں کی ایسی خوبیوں پر غور کِیا جن کی وجہ سے یہوواہ اُنہیں بیش‌قیمت خیال کرتا ہے۔‏“‏ ہم اِس سے کیا سیکھتے ہیں؟‏ ہمیں کبھی اپنی تعلیم کی وجہ سے خود کو دوسروں سے بہتر خیال نہیں کرنا چاہیے۔‏ اگر ہم اپنے ”‏تمام ہم‌ایمانوں سے محبت کریں“‏ گے تو ہم کسی سے تعصب نہیں کریں گے۔‏—‏1-‏پطر 2:‏17‏۔‏

ایک دوسرے کی مہمان‌نوازی کریں

14.‏ عبرانیوں 13:‏16 کے مطابق جب ہم دوسروں کی مہمان‌نوازی کرتے ہیں تو یہوواہ کیسا محسوس کرتا ہے؟‏

14 جب ہم دوسروں کی مہمان‌نوازی کرتے ہیں تو یہوواہ اِس کی بڑی قدر کرتا ہے۔‏ ‏(‏عبرانیوں 13:‏16 کو پڑھیں۔‏)‏ وہ اِسے ہماری عبادت کا ایک اہم حصہ خیال کرتا ہے،‏ خاص طور پر تب جب ہم ضرورت‌مندوں کی مدد کرتے ہیں۔‏ (‏یعقو 1:‏27؛‏ 2:‏14-‏17‏)‏ اِسی لیے پاک کلام میں ہماری حوصلہ‌افزائی کی گئی ہے کہ ہم ”‏مہمان‌نوازی کرتے رہیں۔‏“‏ (‏روم 12:‏13‏)‏ دوسروں کی مہمان‌نوازی کرنے سے ہم ظاہر کرتے ہیں کہ ہمیں اُن کی فکر ہے،‏ ہم اُن سے محبت کرتے ہیں اور اُن سے دوستی مضبوط کرنا چاہتے ہیں۔‏ چاہے ہم دوسروں کے ساتھ اپنی کھانے پینے کی چیزیں بانٹیں یا اُنہیں اپنا وقت اور توجہ دیں،‏ یہوواہ اِس سے بڑا خوش ہوتا ہے۔‏ (‏1-‏پطر 4:‏8-‏10‏)‏ لیکن کچھ باتوں کی وجہ سے مہمان‌نوازی کا جذبہ ظاہر کرنا مشکل ہو سکتا ہے۔‏

‏”‏ماضی میں مَیں دوسروں کی مہمان‌نوازی کرنے سے ہچکچاتی تھی لیکن پھر مَیں نے اپنی سوچ کو بدلا اور اِس سے مجھے بہت سی خوشیاں ملیں۔‏“‏ (‏پیراگراف نمبر 16 کو دیکھیں۔‏)‏ *

15،‏ 16.‏ ‏(‏الف)‏ کچھ بہن بھائیوں کے لیے مہمان‌نوازی کا جذبہ دِکھانا مشکل کیوں ہو سکتا ہے؟‏ (‏ب)‏ کس چیز نے ایڈٹ کی مدد کی کہ وہ دوسروں کی مہمان‌نوازی کرنے سے نہ ہچکچائیں؟‏

15 ہو سکتا ہے کہ ہمیں اپنے حالات کی وجہ سے دوسروں کی مہمان‌نوازی کرنا مشکل لگے۔‏ ذرا ایڈٹ نامی ایک بیوہ کی مثال پر غور کریں۔‏ یہوواہ کی گواہ بننے سے پہلے وہ دوسروں کے ساتھ زیادہ میل جول نہیں رکھتی تھیں۔‏ اُنہیں لگتا تھا کہ اُن کے برعکس دوسرے لوگ زیادہ بہتر طور پر مہمان‌نوازی کا جذبہ ظاہر کر سکتے ہیں۔‏

16 لیکن یہوواہ کی گواہ بننے کے بعد ایڈٹ نے اپنی سوچ بدل لی۔‏ اُنہوں نے اپنے اندر دوسروں کی مہمان‌نوازی کرنے کا جذبہ پیدا کِیا۔‏ وہ بتاتی ہیں:‏ ”‏جب ہمارا نیا کنگڈم ہال تعمیر ہو رہا تھا تو ایک بزرگ نے مجھے بتایا کہ ایک شادی‌شُدہ جوڑا تعمیر کے کام میں مدد کرنے کے لیے آ رہا ہے۔‏ اُس بزرگ نے مجھ سے پوچھا کہ کیا مَیں اُس جوڑے کو دو ہفتوں کے لیے اپنے گھر میں ٹھہرا سکتی ہوں۔‏ اُس وقت مَیں نے اِس بات پر غور کِیا کہ یہوواہ نے صارپت کی بیوہ کو کیسے برکت دی تھی۔‏“‏ (‏1-‏سلا 17:‏12-‏16‏)‏ ایڈٹ اُس جوڑے کو اپنے گھر ٹھہرانے کے لیے تیار ہو گئیں۔‏ اِس کے بدلے میں اُنہیں کیا برکتیں ملیں؟‏ وہ بتاتی ہیں:‏ ”‏وہ میرے گھر دو ہفتے نہیں بلکہ دو مہینے تک رُکے اور اِس دوران ہماری بہت اچھی دوستی ہو گئی۔‏“‏ کلیسیا میں بھی ایڈٹ کے بہت سے قریبی دوست بن گئے۔‏ اب وہ ایک پہل‌کار ہیں اور اُنہیں اُس وقت بہت اچھا لگتا ہے جب اُن کے ساتھ مُنادی کرنے والے بہن بھائی چائے شائے پینے اُن کے گھر آتے ہیں۔‏ وہ کہتی ہیں:‏ ”‏دوسروں کو اپنا وقت دینے اور اُن کے ساتھ اپنی چیزیں بانٹنے سے مجھے بڑی خوشی ملتی ہے اور بہت سی برکتیں بھی۔‏“‏—‏عبر 13:‏1،‏ 2‏۔‏

17.‏ لُوک اور اُن کی بیوی کو کس بات کا احساس ہوا؟‏

17 ہو سکتا ہے کہ آپ پہلے سے ہی دوسروں کی مہمان‌نوازی کر رہے ہوں لیکن کیا آپ اِس حلقے میں اَور بہتری لا سکتے ہیں؟‏ مثال کے طور پر لُوک اور اُن کی بیوی دوسروں کی مہمان‌نوازی کرتے تھے۔‏ وہ اکثر اپنے گھر پر اپنے والدین،‏ رشتےداروں،‏ قریبی دوستوں اور حلقے کے نگہبان اور اُس کی بیوی کو بلاتے تھے۔‏ لیکن لُوک نے کہا:‏ ”‏ہمیں احساس ہوا کہ ہم اپنے گھر صرف اُن لوگوں کو بلا رہے تھے جو ہمارے قریبی تھے۔‏“‏ لُوک اور اُن کی بیوی مہمان‌نوازی کا جذبہ دِکھانے کے حوالے سے بہتری کیسے لائے؟‏

18.‏ لُوک اور اُن کی بیوی مہمان‌نوازی کا جذبہ دِکھانے کے حوالے سے بہتری کیسے لائے؟‏

18 لُوک اور اُن کی بیوی نے یسوع مسیح کی اِس بات پر غور کِیا کہ ”‏اگر آپ صرف اُن لوگوں سے محبت رکھتے ہیں جو آپ سے محبت رکھتے ہیں تو آپ کو کیا اجر ملے گا؟‏“‏ (‏متی 5:‏45-‏47‏)‏ اِس سے وہ دونوں سمجھ گئے کہ صحیح معنوں میں مہمان‌نواز ہونے کا کیا مطلب ہے۔‏ اُنہوں نے جان لیا کہ اُنہیں یہوواہ کی مثال پر عمل کرنا چاہیے جو سب کے لیے فیاضی دِکھاتا ہے۔‏ اِس لیے اُنہوں نے فیصلہ کِیا کہ وہ اُن بہن بھائیوں کو بھی اپنے گھر بلائیں گے جنہیں اُنہوں نے پہلے نہیں بلایا۔‏ لُوک کہتے ہیں:‏ ”‏جب ہم فرق فرق بہن بھائیوں کے ساتھ وقت گزارتے ہیں تو اُنہیں اور ہمیں سب کو بڑا اچھا لگتا ہے۔‏ اِس سے نہ صرف ایک دوسرے کے ساتھ بلکہ یہوواہ کے ساتھ بھی ہمارا رشتہ مضبوط ہوتا ہے۔‏“‏

19.‏ ‏(‏الف)‏ ہم کیسے ثابت کر سکتے ہیں کہ ہم یسوع کے شاگرد ہیں؟‏ (‏ب)‏ آپ نے کیا کرنے کا عزم کِیا ہے؟‏

19 ہم نے سیکھ لیا ہے کہ ایک دوسرے کے لیے گہری محبت رکھنے سے ہمیں صلح‌پسند بننے،‏ تعصب سے کام نہ لینے اور مہمان‌نوازی کا جذبہ دِکھانے کی ترغیب ملتی ہے۔‏ ہمیں ہر طرح کے منفی احساسات پر قابو پانا چاہیے اور اپنے بہن بھائیوں سے دل کی گہرائیوں سے محبت رکھنی چاہیے۔‏ ایسا کرنے سے ہم خوش رہیں گے اور یہ ثابت کریں گے کہ ہم واقعی یسوع کے شاگرد ہیں۔‏—‏یوح 13:‏17،‏ 35‏۔‏

گیت نمبر 88‏:‏ ‏”‏اپنی راہیں مجھے دِکھا“‏

^ پیراگراف 5 یسوع نے کہا کہ سچے مسیحیوں کی پہچان محبت ہے۔‏ اپنے بہن بھائیوں کے لیے محبت ہمیں ترغیب دیتی ہے کہ ہم صلح‌پسند بنیں،‏ تعصب نہ کریں اور مہمان‌نوازی کا جذبہ دِکھائیں۔‏ ایسا کرنا ہمیشہ آسان نہیں ہوتا۔‏ اِس مضمون میں کچھ ایسے مشورے دیے گئے ہیں جن کی مدد سے ہم ایک دوسرے سے دل کی گہرائی سے محبت کر سکتے ہیں۔‏

^ پیراگراف 5 اِس مضمون میں کچھ فرضی نام اِستعمال کیے گئے ہیں۔‏

^ پیراگراف 57 تصویر کی وضاحت‏:‏ ایک بہن دوسری بہن سے صلح کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔‏ اُس کی پہلی کوشش ناکام ہو گئی ہے لیکن اُس نے ہمت نہیں ہاری۔‏ چونکہ وہ اُس بہن کے لیے محبت دِکھاتی رہی اِس لیے اُن کی آپس میں صلح ہو گئی ہے۔‏

^ پیراگراف 59 تصویر کی وضاحت‏:‏ ایک عمررسیدہ بھائی خود کو کلیسیا کے دوسرے بہن بھائیوں سے الگ تھلگ محسوس کر رہا ہے۔‏

^ پیراگراف 61 تصویر کی وضاحت‏:‏ ایک بہن نے جو پہلے دوسروں کی مہمان‌نوازی کرنے سے ہچکچاتی تھی،‏ اپنی سوچ کو بدل لیا ہے اور اِس سے اُسے بہت سی خوشیاں ملی ہیں۔‏