مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

مطالعے کا مضمون نمبر 15

کیا آپ سمجھتے ہیں کہ ”‏فصل کٹائی کے لیے تیار ہے“‏؟‏

کیا آپ سمجھتے ہیں کہ ”‏فصل کٹائی کے لیے تیار ہے“‏؟‏

‏”‏اپنی نظریں اُٹھا کر دیکھیں کہ کھیت سنہرے ہیں اور فصل کٹائی کے لیے تیار ہے۔‏“‏‏—‏یوح 4:‏35‏۔‏

گیت نمبر 64‏:‏ فصل کی کٹائی

مضمون پر ایک نظر *

1‏،‏ 2‏.‏ یسوع نے یوحنا 4:‏35،‏ 36 میں درج بات غالباً کیوں کہی تھی؟‏

یسوع مسیح کھیتوں میں سے گزر رہے تھے۔‏ اِن کھیتوں میں غالباً جَو کی فصل لگی ہوئی تھی اور ابھی ابھی اِس کی کونپلیں نکلنی شروع ہوئی تھیں۔‏ (‏یوح 4:‏3-‏6‏)‏ یہ فصل تقریباً چار مہینوں میں کٹائی کے لیے تیار ہونی تھی۔‏ اُس موقعے پر یسوع نے ایک ایسی بات کہی جسے سُن کر اُن کے شاگردوں کو بہت حیرانی ہوئی ہوگی۔‏ اُنہوں نے فرمایا:‏ ”‏اپنی نظریں اُٹھا کر دیکھیں کہ کھیت سنہرے ہیں اور فصل کٹائی کے لیے تیار ہے۔‏“‏‏(‏یوحنا 4:‏35،‏ 36 کو پڑھیں۔‏)‏ یسوع کی اِس بات کا کیا مطلب تھا؟‏

2 ایسا لگتا ہے کہ فصل سے یسوع مسیح کا اِشارہ لوگوں کی طرف تھا اور فصل کی کٹائی سے اُن کی مُراد لوگوں کو جمع کرنا تھا۔‏ اِس بات کو سمجھنے کے لیے ذرا غور کریں کہ جب یسوع نے فصل کی کٹائی کی بات کی تو اِس سے تھوڑی ہی دیر پہلے کیا ہوا تھا۔‏ یسوع نے ایک سامری عورت کو گواہی دی تھی حالانکہ یہودی عام طور پر سامریوں سے کوئی واسطہ نہیں رکھتے تھے۔‏ اِس سامری عورت نے یسوع کے پیغام کو قبول کِیا تھا اور جا کر دیگر سامریوں کو بھی اِس بارے میں بتایا تھا۔‏ دراصل جب یسوع نے کہا کہ ”‏کھیت سنہرے ہیں اور فصل کٹائی کے لیے تیار ہے“‏ تو اِن میں سے بہت سے سامری یسوع سے مزید تعلیم پانے کے لیے آ رہے تھے۔‏ (‏یوح 4:‏9،‏ 39-‏42‏)‏ ایک کتاب جس میں بائبل کی آیتوں کی تشریح کی گئی ہے،‏ کہتی ہے:‏ ”‏اُن لوگوں کا شوق دیکھ کر ‏.‏ .‏ .‏ یہ کہا جا سکتا تھا کہ وہ ایسی فصل کی طرح ہیں جو کٹائی کے لیے تیار ہو۔‏“‏

اگر ہم اپنے علاقے کے لوگوں کو ایسی فصل کی طرح خیال کرتے ہیں جو کٹائی کے لیے تیار ہو تو ہم کیا کریں گے؟‏ (‏پیراگراف نمبر 3 کو دیکھیں۔‏)‏

3‏.‏ اگر آپ لوگوں کے بارے میں ویسی سوچ رکھیں گے جیسی یسوع مسیح رکھتے تھے تو آپ کے مُنادی کے کام پر کیا اثر پڑے گا؟‏

3 اب ذرا اُن لوگوں کے بارے میں سوچیں جنہیں آپ خوش‌خبری سناتے ہیں۔‏ کیا آپ اُنہیں ایسی فصل کی طرح خیال کرتے ہیں جو کٹائی کے لیے تیار ہو؟‏اگر آپ اُن کے متعلق ایسا سوچیں گے تو پھر یہ تین باتیں پکی ہیں:‏ پہلی بات،‏ آپ وقت کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے لوگوں کو اَور زیادہ جوش سے گواہی دیں گے۔‏ کٹائی صرف کچھ عرصہ ہی چلتی ہے اِس لیے ہمارے پاس ضائع کرنے کے لیے بالکل بھی وقت نہیں ہے۔‏ دوسری بات،‏ جب آپ لوگوں کو بادشاہت کا پیغام قبول کرتے دیکھیں گے تو آپ خوش ہوں گے۔‏ بائبل میں لکھا ہے:‏ ‏”‏فصل کاٹتے وقت ‏.‏ .‏ .‏ لوگ خوش ہوتے ہیں۔‏“‏ (‏یسع 9:‏3‏)‏ اور تیسری بات،‏ آپ ہر شخص کو اِس سوچ کے ساتھ گواہی دیں گے کہ وہ مسیح کا شاگرد بن سکتا ہے۔‏ اِس لیے آپ کسی شخص کو گواہی دیتے وقت اپنے پیغام کو کسی ایسی بات کے ساتھ جوڑیں گے جس میں وہ دلچسپی رکھتا ہو۔‏

4‏.‏ اِس مضمون میں ہم پولُس رسول کی مثال سے کیا سیکھیں گے؟‏

4 شاید یسوع مسیح کے کچھ پیروکاروں کو اِس بات کی بالکل توقع نہیں تھی کہ سامری،‏ یسوع کے شاگرد بن سکتے ہیں۔‏ لیکن یسوع کی سوچ فرق تھی۔‏ وہ ہر شخص کے بارے میں یہ سوچتے تھے کہ وہ اُن کا شاگرد بن سکتا ہے۔‏ ہمیں بھی اپنے علاقے کے تمام لوگوں کے بارے میں ایسی ہی سوچ رکھنی چاہیے۔‏ پولُس رسول نے اِس سلسلے میں بڑی عمدہ مثال قائم کی۔‏ اِس مضمون میں ہم اُن کی مثال پر غور کریں گے اور دیکھیں گے کہ (‏1)‏ اُنہوں نے یہ کیسے پتہ لگایا کہ اُن کے سامعین کیا مانتے ہیں،‏ (‏2)‏ اُنہوں نے یہ کیسے سمجھا کہ لوگوں کی دلچسپی کن باتوں میں ہے اور (‏3)‏ اُنہوں نے یہ کیسے ظاہر کِیا کہ وہ ہر طرح کے لوگوں کے بارے میں یہ سوچتے ہیں کہ وہ مسیح کے شاگرد بن سکتے ہیں۔‏

وہ کن باتوں پر ایمان رکھتے ہیں؟‏

5‏.‏ پولُس یہودیوں کی عبادت‌گاہ میں اِعتماد سے بات کیوں کر سکتے تھے؟‏

5 پولُس رسول اکثر یہودیوں کی عبادت‌گاہوں میں مُنادی کرتے تھے۔‏ مثال کے طور پر وہ تھسلُنیکے میں یہودیوں کی عبادت‌گاہ میں گئے اور ”‏صحیفوں میں سے دلیلیں دے کر یہودیوں کو قائل کرنے کی کوشش کی۔‏ اُنہوں نے تین ہفتے تک ہر سبت کے دن ایسا کِیا۔‏“‏ (‏اعما 17:‏1،‏ 2‏)‏ پولُس یہودیوں کی عبادت‌گاہ میں بڑے اِعتماد سے بات کرتے ہوں گے کیونکہ اُنہوں نے ایک یہودی کے طور پر پرورش پائی تھی۔‏ (‏اعما 26:‏4،‏ 5‏)‏ چونکہ وہ یہودیوں کے عقیدوں اور رسم‌ورواج کو سمجھتے تھے اِس لیے وہ اُنہیں گواہی دیتے وقت پُراِعتماد ہوتے تھے۔‏—‏فل 3:‏4،‏ 5‏۔‏

6‏.‏ پولُس کو جو لوگ یہودیوں کی عبادت‌گاہ میں ملے اور جو ایتھنز کے بازار میں ملے،‏ اُن میں کیا فرق تھا؟‏

6 مخالفت کے ہاتھوں مجبور ہو کر پولُس کو تھسلُنیکے سے بیریہ اور پھر ایتھنز جانا پڑا۔‏ وہاں بھی ”‏وہ عبادت‌گاہ میں یہودیوں اور خدا کی عبادت کرنے والے دوسرے لوگوں کو قائل کرنے کی کوشش“‏ کرنے لگے۔‏ (‏اعما 17:‏17‏)‏ لیکن جب پولُس بازار میں مُنادی کر رہے تھے تو وہاں صرف یہودی نہیں تھے۔‏ وہاں فلسفی اور دیگر غیریہودی بھی تھے جنہوں نے پولُس کی باتوں کو”‏نئی تعلیم“‏ قرار دیا۔‏ اُنہوں نے پولُس سے کہا:‏ ”‏تُم کچھ ایسی باتیں کہہ رہے ہو جو ہمیں عجیب لگتی ہیں۔‏“‏—‏اعما 17:‏18-‏20‏۔‏

7‏.‏ اعمال 17:‏22،‏ 23 کے مطابق پولُس نے ایتھنز کے لوگوں کو گواہی دیتے وقت کون سا فرق طریقہ اپنایا؟‏

7 اعمال 17:‏22،‏ 23 کو پڑھیں۔‏ پولُس نے ایتھنز میں غیریہودیوں کو ویسے گواہی نہیں دی جیسے یہودیوں کو اُن کی عبادت‌گاہ میں دی تھی۔‏ شاید پولُس نے اِس سوال پر سوچ بچار کی ہو کہ ”‏ایتھنز کے لوگ کیا مانتے ہیں؟‏“‏اُنہوں نے اِردگِرد کی چیزوں اور ماحول کا جائزہ لیا اور اِس بات پر غور کِیا کہ وہ لوگ کیسے عبادت کرتے ہیں۔‏ اِس کے بعد اُنہوں نے ایک ایسی بات کے بارے میں سوچا جس کی تعلیم صحیفوں میں بھی دی گئی تھی اور جسے ایتھنز کے لوگ بھی مانتے تھے۔‏ بائبل کی آیتوں کی تشریح کرنے والے ایک عالم نے کہا:‏ ”‏پولُس ایک مسیحی تھے اور اُن کا تعلق یہودی قوم سے تھا۔‏ وہ جانتے تھے کہ بُت‌پرست یونانی اُس سچے خدا کی عبادت نہیں کرتے جس کی عبادت یہودی اور مسیحی کرتے ہیں۔‏ لیکن اُنہوں نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ جس خدا کے بارے میں وہ مُنادی کرتے ہیں،‏ اُسے ایتھنز کے لوگ بھی مانتے ہیں۔‏“‏ لہٰذا پولُس نے اُنہیں اُس طریقے سے گواہی نہیں دی جیسے اُنہوں نے یہودیوں کو دی تھی۔‏ اُنہوں نے ایتھنز کے لوگوں کو بتایا کہ وہ اُس خدا کا پیغام سنا رہے ہیں جسے وہ ”‏نامعلوم خدا“‏ کہتے ہیں اور جس کی وہ انجانے میں عبادت کر رہے ہیں۔‏ اگرچہ ایتھنز کے لوگ صحیفوں سے واقف نہیں تھے تو بھی پولُس نے یہ نہیں سوچا کہ وہ کبھی مسیحی نہیں بن سکتے۔‏ اِس کی بجائے اُنہوں نے اُن لوگوں کو ایک ایسی فصل کی طرح خیال کِیا جو کٹائی کے لیے تیار ہو اور اُنہیں فرق طریقے سے خوش‌خبری سنائی۔‏

لوگوں کو گواہی دیتے وقت پولُس رسول کی طرح اِردگِرد کی چیزوں اور ماحول کا جائزہ لیں،‏ اپنی بات‌چیت کو لوگوں کی صورتحال کے مطابق ڈھالیں اور ہر شخص کے بارے میں یہ سوچیں کہ وہ مسیح کا شاگرد بن سکتا ہے۔‏ (‏پیراگراف نمبر 8،‏ 12،‏ 18کو دیکھیں۔‏)‏ *

8‏.‏ ‏(‏الف)‏ آپ یہ کیسے جان سکتے ہیں کہ آپ کے علاقے کے لوگ کن باتوں پر ایمان رکھتے ہیں؟‏ (‏ب)‏ اگر کوئی شخص آپ سے کہتا ہے کہ اُس کا تعلق فلاں مذہب سے ہے تو آپ اُس سے کیسے بات کر سکتے ہیں؟‏

8 پولُس کی طرح مُنادی کے دوران اِردگِرد کی چیزوں اور ماحول کا جائزہ لیں۔‏ یہ جاننے کی کوشش کریں کہ آپ کے علاقے کے لوگ کن باتوں پر ایمان رکھتے ہیں۔‏ اِس کے لیے آپ فرق فرق چیزوں پر غور کر سکتے ہیں،‏ مثلاً صاحبِ‌خانہ نے اپنے گھر اور گاڑی وغیرہ کو کن چیزوں سے سجایا ہوا ہے؟‏ کیا اُس کے نام،‏ کپڑوں،‏ بناؤسنگھار یا اُس کی بات‌چیت سے اُس کے مذہب کے بارے میں کوئی اِشارہ ملتا ہے؟‏ ہو سکتا ہے کہ ایک شخص آپ سے سیدھا سیدھا کہہ دے کہ اُس کا تعلق فلاں مذہب سے ہے۔‏ جب فلوٹرا نامی ایک خصوصی پہل‌کار سے کوئی ایسا کہتا ہے تو وہ اُس سے کہتی ہیں:‏ ”‏میرا مقصد یہ ہرگز نہیں ہے کہ مَیں آپ کو اپنے مذہب کی تعلیمات ماننے پر مجبور کروں۔‏ مَیں بس آپ سے اِس موضوع پر بات کرنا چاہتی ہوں ‏.‏ .‏ .‏۔‏“‏

9‏.‏ ایسے کون سے عقیدے ہو سکتے ہیں جن پر آپ ایک مذہبی شخص سے بات کر سکتے ہیں؟‏

9 آپ ایک مذہبی شخص سے کن موضوعات پر بات کر سکتے ہیں؟‏ کسی ایسے عقیدے کے بارے میں سوچیں جس پر آپ بھی ایمان رکھتے ہوں اور وہ بھی۔‏ شاید وہ شخص ایک خدا کو مانتا ہو؛‏ شاید وہ یسوع مسیح کو اِنسانوں کا نجات‌دہندہ سمجھتا ہو یا شاید وہ یہ مانتا ہو کہ ہم ایک بُرے زمانے میں رہ رہے ہیں جو جلد ختم ہونے والا ہے۔‏ ایسے عقیدوں کو بنیاد بنا کر بات کریں جن پر آپ اور وہ شخص متفق ہوں تاکہ وہ آپ کے پیغام کو سننے کی طرف مائل ہو سکے۔‏

10.‏ ہمیں کیا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے اور کیوں؟‏

10 لازمی نہیں کہ ایک شخص اُن تمام باتوں کو مانتا ہو جو اُس کے مذہب میں سکھائی جاتی ہیں۔‏ لہٰذا اگر آپ کو پتہ چل جاتا ہے کہ ایک شخص کا تعلق فلاں مذہب سے ہے تو بھی یہ جاننے کی کوشش کریں کہ وہ خود کن باتوں پر ایمان رکھتا ہے۔‏ آسٹریلیا میں رہنے والے ایک خصوصی پہل‌کار ڈیوڈ کہتے ہیں:‏ ”‏آج‌کل بہت سے لوگ مذہبی عقیدوں میں فرق فرق عالموں کے نظریات شامل کر دیتے ہیں۔‏“‏ ڈونلٹا نامی بہن جن کا تعلق البانیہ سے ہے،‏کہتی ہیں:‏ ”‏کبھی کبھار ہماری ملاقات ایسے لوگوں سے ہوتی ہے جو ہمیں بتاتے ہیں کہ وہ فلاں مذہب کے پیروکار ہیں لیکن بعد میں وہ کہتے ہیں کہ وہ خدا پر ایمان نہیں رکھتے۔‏“‏ ارجنٹائن میں رہنے والا ایک مشنری بھائی بتاتا ہے کہ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ وہ تثلیث پر ایمان رکھتے ہیں لیکن ضروری نہیں کہ وہ باپ،‏بیٹے اور پاک روح کو ایک خدا مانتے ہوں۔‏ وہ بھائی کہتا ہے:‏ ”‏جب مجھے اِس بات کا پتہ چل جاتا ہے تو میرے لیے اُس شخص کے ساتھ کسی ایسے موضوع پر بات کرنا آسان ہو جاتا ہے جس پر ہم دونوں متفق ہوں۔‏“‏ لہٰذا یہ پتہ لگانے کی کوشش کریں کہ ایک شخص اصل میں کیا مانتا ہے۔‏ پھر آپ بھی پولُس کی طرح”‏ہر طرح کے لوگوں کی خاطر سب کچھ“‏ بن سکیں گے۔‏—‏1-‏کُر 9:‏19-‏23‏۔‏

وہ کن باتوں میں دلچسپی رکھتے ہیں؟‏

11.‏ اعمال 14:‏14-‏17 کو ذہن میں رکھتے ہوئے بتائیں کہ پولُس نے لِسترہ کے لوگوں کے دل تک اپنا پیغام پہنچانے کے لیے کیا کِیا۔‏

11 اعمال 14:‏14-‏17 کو پڑھیں۔‏ پولُس نے یہ سمجھنے کی کوشش کی کہ اُن کے سامعین کن باتوں میں دلچسپی رکھتے ہیں اور پھر اُسی کے مطابق خوش‌خبری سنائی۔‏ مثال کے طور پر لِسترہ میں پولُس نے جن لوگوں سے بات کی،‏ وہ صحیفوں کا بہت کم یا بالکل بھی علم نہیں رکھتے تھے۔‏ اِس لیے پولُس نے ایسی دلیلیں دیں جن کے ذریعے وہ لوگ قائل ہو سکتے تھے۔‏ اُنہوں نے فصلوں کی پیداوار اور زندگی کی نعمت سے لطف اُٹھانے کا ذکر کِیا۔‏ اُنہوں نے ایسے الفاظ اور مثالیں اِستعمال کیں جو آسانی سے اُن لوگوں کی سمجھ میں آ سکتی تھیں۔‏

12.‏ ‏(‏الف)‏ آپ یہ کیسے جان سکتے ہیں کہ ایک شخص کن باتوں میں دلچسپی رکھتا ہے؟‏ (‏ب)‏ آپ اپنے پیغام کو اُن باتوں سے کیسے جوڑ سکتے ہیں جن میں ایک شخص دلچسپی رکھتا ہے؟‏

12 سمجھ‌داری سے کام لیتے ہوئے یہ پتہ لگانے کی کوشش کریں کہ آپ کے علاقے کے لوگ کن باتوں میں دلچسپی رکھتے ہیں اور پھر اپنی بات‌چیت کو اُسی کے مطابق ڈھالیں۔‏ جب آپ کسی شخص کے گھر جاتے ہیں تو آپ یہ کیسے جان سکتے ہیں کہ وہ کن باتوں میں دلچسپی رکھتا ہے؟‏ جیسے کہ پہلے بتایا گیا ہے،‏ اِردگِرد کی چیزوں اور ماحول کا جائزہ لیں۔‏ شاید وہ شخص پودوں کو پانی وغیرہ دے رہا ہو،‏ کوئی کتاب پڑھ رہا ہو،‏ اپنی گاڑی کی مرمت کر رہا ہو یا کسی اَور کام میں مصروف ہو۔‏ اگر مناسب ہو تو آپ اُس شخص سے بات‌چیت شروع کرنے کے لیے اُس کام کے بارے میں بات کر سکتے ہیں جو وہ کر رہا ہے۔‏ (‏یوح 4:‏7‏)‏ کبھی کبھار ایک شخص کے کپڑوں سے بھی اُس کے بارے میں کچھ پتہ چل سکتا ہے جیسے کہ اُس کی قوم،‏ پیشے یا پسندیدہ ٹیم کا۔‏ گسٹاوو نامی ایک بھائی بتاتے ہیں:‏ ”‏مَیں نے ایک 19 سالہ لڑکے سے بات‌چیت شروع کی جس کی ٹی‌شرٹ پر ایک مشہور گلوکار کی تصویر بنی ہوئی تھی۔‏ جب مَیں نے اُس سے اِس بارے میں بات کی تو اُس نے بتایا کہ اُسے وہ گلوکار کیوں پسند ہے۔‏اِس بات‌چیت کی وجہ سے اُس لڑکے نے بائبل کورس شروع کر دیا اور اب وہ ہمارا ایک بھائی ہے۔‏“‏

13.‏ کسی شخص کو بائبل کورس کی پیشکش کرتے وقت آپ اُس کے دل میں بائبل کورس کرنے کا شوق کیسے پیدا کر سکتے ہیں؟‏

13 جب آپ کسی شخص کو بائبل کورس کی پیشکش کرتے ہیں تو اِس طرح سے بات کریں کہ اُس کے دل میں بائبل کورس کرنے کا شوق پیدا ہو۔‏ اُسے بتائیں کہ بائبل کورس کرنے سے اُسے ذاتی طور پر کیا فائدہ ہوگا۔‏ (‏یوح 4:‏13-‏15‏)‏ اِس سلسلے میں ذرا پاپئی نامی بہن کے تجربے پر غور کریں۔‏ ایک مرتبہ ایک عورت نے اُنہیں اپنے گھر کے اندر بلایا اور پاک کلام کے پیغام میں دلچسپی دِکھائی۔‏ پاپئی نے اُس گھر کی ایک دیوار پر ایک ڈگری دیکھی جس سے پتہ چل رہا تھا کہ وہ عورت ایک پروفیسر ہے اور اُسے علم حاصل کرنے میں دلچسپی ہے۔‏ پاپئی نے اُسے بتایا کہ ہم بھی بائبل کورس اور اپنے اِجلاسوں کے ذریعے لوگوں کو تعلیم دیتے ہیں۔‏ اُس عورت نے بائبل کورس کی پیشکش قبول کی،‏ اگلے دن اِجلاس پر گئی اور تھوڑے عرصے بعد ایک اِجتماع پر حاضر ہوئی۔‏ اور پھر ایک سال بعد اُس نے بپتسمہ لے لیا۔‏ خود سے پوچھیں:‏ ”‏میری واپسی ملاقاتیں کن باتوں میں دلچسپی رکھتی ہیں؟‏ جب مَیں کسی شخص کو بائبل کورس کی پیشکش کرتا ہوں تو مَیں کس طریقے سے بات کر سکتا ہوں تاکہ اُس کے دل میں بائبل کورس کرنے کا شوق پیدا ہو؟‏“‏

14.‏ آپ فرق فرق لوگوں کو مؤثر طریقے سے بائبل کورس کیسے کرا سکتے ہیں؟‏

14 جب آپ کسی شخص کو بائبل کورس شروع کرا لیتے ہیں تو اِس کے بعد ہر بار اُسے بائبل کورس کرانے سے پہلے تیاری کریں۔‏ تیاری کرتے وقت یہ ذہن میں رکھیں کہ اُس شخص کا خاندان کیسا ہے،‏ اُس کی تعلیم کتنی ہے اور وہ کن باتوں میں دلچسپی رکھتا ہے۔‏ یہ فیصلہ بھی کریں کہ آپ کون سی آیتیں پڑھیں گے،‏ کون سی ویڈیوز دِکھائیں گے اور بائبل میں درج سچائیوں کو سمجھانے کے لیے کون سی مثالیں اِستعمال کریں گے۔‏خود سے پوچھیں:‏ ”‏مجھے کس طریقے سے بات کرنی چاہیے تاکہ معلومات اُس شخص کے دل تک پہنچ سکیں؟‏“‏ (‏امثا 16:‏23‏)‏ ایک مرتبہ البانیہ میں فلورا نامی ایک پہل‌کار ایک عورت سے بات کر رہی تھی۔‏ اُس عورت نے فلورا سے کہا:‏ ”‏مَیں اِس تعلیم کو قبول نہیں کر سکتی کہ مُردوں کو زندہ کِیا جائے گا۔‏“‏ فلورا نے اُس وقت اِس موضوع پر بات نہ کرنا مناسب سمجھا۔‏ وہ کہتی ہیں:‏ ”‏مَیں نے سوچا کہ پہلے اُسے اُس خدا کے بارے میں جاننے کی ضرورت ہے جس نے مُردوں کو زندہ کرنے کا وعدہ کِیا ہے۔‏“‏ اِس کے بعد ہر بار بائبل کورس کے دوران فلورا نے یہوواہ کی محبت،‏ دانش‌مندی یا طاقت کے بارے میں بات کی۔‏ بعد میں وہ عورت مُردوں کے جی اُٹھنے پر ایمان لے آئی۔‏ اب وہ یہوواہ کی ایک گواہ ہے اور بڑے جوش سے اُس کی خدمت کر رہی ہے۔‏

ہر شخص کے بارے میں یہ سوچیں کہ وہ مسیح کا شاگرد بن سکتا ہے

15.‏ ‏(‏الف)‏ اعمال 17:‏16-‏18 کے مطابق پولُس ایتھنز میں کن باتوں کی وجہ سے نااُمید ہو سکتے تھے؟‏ (‏ب)‏ پولُس ایتھنز کے لوگوں کو مُنادی کرنے سے پیچھے کیوں نہیں ہٹے؟‏

15 اعمال 17:‏16-‏18 کو پڑھیں۔‏ ایتھنز میں بُت‌پرستی اور بدچلنی عام تھی،‏ جھوٹے معبودوں کے متعلق من‌گھڑت نظریات پھیلے ہوئے تھے اور لوگ پولُس کے ساتھ بدتمیزی سے پیش آئے تھے۔‏ لیکن پھر بھی پولُس نے نااُمید ہو کر یہ نہیں سوچا کہ ایتھنز کے لوگ کبھی مسیح کے شاگرد نہیں بن سکتے۔‏ پولُس کو یاد تھا کہ وہ بھی مسیحی بننے سے پہلے ’‏کفر بکتے تھے،‏ لوگوں کو اذیت پہنچاتے تھے اور بہت بدتمیز تھے۔‏‘‏ (‏1-‏تیم 1:‏13‏)‏ یسوع مسیح نے پولُس کے بارے میں یہ نہیں سوچا تھا کہ وہ مسیحی نہیں بن سکتے۔‏ لہٰذا پولُس نے بھی ایتھنز کے لوگوں کے بارے میں ایسا نہیں سوچا۔‏ اور واقعی ایتھنز کے کچھ لوگ مسیحی بن گئے۔‏—‏اعما 9:‏13-‏15؛‏ 17:‏34‏۔‏

16،‏ 17.‏ یہ کیسے ثابت ہوتا ہے کہ ہر طرح کے لوگ مسیح کے شاگرد بن سکتے ہیں؟‏ مثال دیں۔‏

16 پہلی صدی عیسوی میں فرق فرق پس‌منظر کے لوگ یسوع کے شاگرد بنے۔‏ جب پولُس نے کُرنتھس کے مسیحیوں کے نام خط لکھا تو اُنہوں نے بتایا کہ اُس کلیسیا کے کچھ بہن بھائی مسیحی بننے سے پہلے سنگین جرائم یا بدچلنی میں ملوث تھے۔‏ اِس کے بعد اُنہوں نے کہا:‏ ”‏آپ میں سے کچھ لوگ ایک زمانے میں ایسے تھے۔‏ مگر خدا نے آپ کو ‏.‏ .‏ .‏ پاک صاف ‏.‏ .‏ .‏ کِیا ہے۔‏“‏ (‏1-‏کُر 6:‏9-‏11‏)‏ اگر آپ اُس زمانے میں ہوتے تو کیا آپ کو یہ توقع ہوتی کہ وہ لوگ اپنی زندگی کو بدل کر مسیح کے شاگرد بن سکتے ہیں؟‏

17 آج بھی بہت سے لوگ اپنی زندگی میں ایسی تبدیلیاں کرنے کو تیار ہوتے ہیں جو مسیح کا شاگرد بننے کے لیے ضروری ہیں۔‏ آسٹریلیا میں رہنے والی خصوصی پہل‌کار یوکینا نے ذاتی تجربے سے دیکھا کہ ہر طرح کے لوگ بائبل کے پیغام کو قبول کر سکتے ہیں۔‏ ایک دن وہ ایک اسٹیٹ ایجنسی میں گئیں جہاں اُنہوں نے ایک عورت کو دیکھا۔‏ اُس عورت کے جسم پر ٹیٹو بنے ہوئے تھے اور اُس نے بےڈھنگے سے کپڑے پہنے ہوئے تھے۔‏ یوکینا نے کہا:‏ ”‏پہلے تو مَیں اُس سے بات کرنے سے ہچکچائی لیکن پھر مَیں نے اُس سے بات کرنی شروع کر دی۔‏ اُس نے اپنے جسم پر جو ٹیٹوز بنوائے ہوئے تھے،‏ اُن میں سے کچھ میں اُس نے زبور کی آیتیں لکھوائی ہوئی تھیں۔‏ اِس سے مجھے اندازہ ہوا کہ وہ بائبل میں کتنی دلچسپی رکھتی ہے۔‏“‏ اُس عورت نے بائبل کورس شروع کر دیا اور اِجلاسوں پر جانے لگی۔‏ *

18.‏ ہمیں لوگوں کے بارے میں کوئی رائے قائم کیوں نہیں کر لینی چاہیے؟‏

18 جب یسوع مسیح نے کہا کہ ”‏فصل کٹائی کے لیے تیار ہے“‏ تو کیا وہ یہ توقع کر رہے تھے کہ زیادہ‌تر لوگ اُن کے پیروکار بن جائیں گے؟‏ بالکل نہیں۔‏ صحیفوں میں پیش‌گوئی کی گئی تھی کہ کم ہی لوگ یسوع مسیح پر ایمان لائیں گے۔‏ (‏یوح 12:‏37،‏ 38‏)‏اِس کے علاوہ یسوع مسیح کے پاس یہ صلاحیت تھی کہ وہ لوگوں کے دلوں کو پڑھ سکتے تھے اِس لیے وہ جانتے تھے کہ بہت سے لوگ اُن کے پیغام کو قبول نہیں کریں گے۔‏ (‏متی 9:‏4‏)‏ یہ سچ ہے کہ یسوع مسیح کی زیادہ توجہ اُن لوگوں پر تھی جو اُن پر ایمان لا سکتے تھے لیکن اُنہوں نے جوش سے سب کو خوش‌خبری سنائی۔‏ اگر یسوع مسیح نے ایسا کِیا تو ہمیں تو اَور بھی زیادہ ایسا کرنا چاہیے کیونکہ ہم اُن کی طرح لوگوں کے دل نہیں پڑھ سکتے۔‏ ہمیں کسی بھی علاقے یا لوگوں کے بارے میں کوئی رائے قائم نہیں کر لینی چاہیے۔‏ اِس کی بجائے ہمیں لوگوں میں ایسی باتیں تلاش کرنی چاہئیں جن سے ظاہر ہو کہ وہ مسیح کے شاگرد بن سکتے ہیں۔‏ ملک بُرکینا فاسو میں رہنے والے مشنری جن کا نام مارک ہے،‏ کہتے ہیں:‏ ”‏جن لوگوں کے سلسلے میں مجھے یہ اُمید ہوتی ہے کہ وہ خدا کی خدمت کے حوالے سے کوئی قدم اُٹھائیں گے،‏ وہ اکثر بائبل کورس کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔‏ اور جن لوگوں کے سلسلے میں مجھے کوئی خاص اُمید نہیں ہوتی،‏ وہ خدا کی خدمت کرنے کے لیے بڑی اچھی طرح آگے بڑھتے ہیں۔‏ لہٰذا مَیں نے سیکھ لیا ہے کہ مجھے اپنی طرف سے اندازے لگانے کی بجائے یہوواہ کی روح کی رہنمائی میں چلنا چاہیے۔‏“‏

19.‏ ہمیں اپنے علاقے کے لوگوں کے بارے میں کیسی سوچ رکھنی چاہیے؟‏

19 شروع شروع میں شاید ہمیں لگے کہ ہمارے علاقے میں زیادہ‌تر لوگ اُس فصل کی طرح نہیں ہیں جو کٹائی کے لیے تیار ہو۔‏ لیکن ہمیں یسوع مسیح کی اِس بات کو یاد رکھنا چاہیے جو اُنہوں نے اپنے شاگردوں سے کہی تھی:‏ ”‏کھیت سنہرے ہیں اور فصل کٹائی کے لیے تیار ہے۔‏“‏ لوگ اپنی زندگی میں تبدیلیاں لا کر مسیح کے شاگرد بن سکتے ہیں۔‏ یہوواہ خدا ایسے لوگوں کو ”‏مرغوب چیزیں“‏ خیال کرتا ہے۔‏ (‏حج 2:‏7‏)‏ اگر ہم بھی لوگوں کے بارے میں ویسی سوچ رکھیں گے جیسی یہوواہ خدا اور یسوع مسیح رکھتے ہیں تو ہم یہ جاننے کی کوشش کریں گے کہ اُن کا پس‌منظر کیا ہے اور وہ کن باتوں میں دلچسپی رکھتے ہیں۔‏ ہم اُنہیں اجنبی خیال نہیں کریں گے بلکہ یہ سوچیں گے کہ ایک دن وہ ہمارے بہن بھائی بن سکتے ہیں۔‏

گیت نمبر 57‏:‏ ہر طرح کے لوگوں کو مُنادی کریں

^ پیراگراف 5 اِس مضمون میں بتایا جائے گا کہ یسوع مسیح اور پولُس رسول اپنے سامعین کے بارے میں کیسی سوچ رکھتے تھے۔‏ ہم دیکھیں گے کہ اگر ہم بھی اپنے علاقے کے لوگوں کے بارے میں اُن جیسی سوچ رکھتے ہیں تو اِس کا ہمارے مُنادی اور تعلیم دینے کے کام پر کیا اثر ہوتا ہے۔‏ ہم یسوع اور پولُس کی مثال کے ذریعے یہ تین باتیں سیکھیں گے:‏ پہلی،‏ یہ جاننے کی کوشش کریں کہ لوگ کیا مانتے ہیں؛‏ دوسری،‏ یہ سمجھنے کی کوشش کریں کہ وہ کن کاموں میں دلچسپی رکھتے ہیں اور تیسری،‏ ہر شخص کو اِس سوچ سے گواہی دیں کہ وہ مسیح کا شاگرد بن سکتا ہے۔‏

^ پیراگراف 17 مضامین کے سلسلے ”‏پاک کلام کی تعلیم زندگی سنوارتی ہے‏“‏ میں اَور بھی ایسے لوگوں کے بارے میں بتایا گیا ہے جنہوں نے پاک کلام کی مدد سے اپنی زندگی کو سنوار لیا۔‏ مضامین کا یہ سلسلہ 2017ء تک ‏”‏مینارِنگہبانی“‏ میں شائع ہوتا تھا مگر اب ® jw.org پر آتا ہے۔‏ حصہ ”‏ہمارے بارے میں“‏ کے تحت ”‏آپ‌بیتیاں“‏ پر جائیں۔‏

^ پیراگراف 57 تصویر کی وضاحت‏:‏ ایک جوڑا گھر گھر مُنادی کے دوران جائزہ لے رہا ہے کہ (‏1)‏ ایک گھر صاف ستھرا ہے اور پھولوں سے سجا ہوا ہے؛‏ (‏2)‏ ایک گھر میں بچے ہیں؛‏ (‏3)‏ ایک گھر اندر اور باہر سے گندا ہے اور (‏4)‏ ایک گھر میں مذہبی لوگ رہتے ہیں۔‏ کون سے گھر میں آپ کو کوئی ایسا شخص مل سکتا ہے جو آگے چل کر مسیح کا شاگرد بن سکتا ہے؟‏