مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

نرم‌مزاجی—‏ایک دلکش اور فائدہ‌مند خوبی

نرم‌مزاجی—‏ایک دلکش اور فائدہ‌مند خوبی

سارہ * بتاتی ہیں:‏ ”‏مَیں بہت شرمیلی ہوں اور مجھ میں اِعتماد کی بھی بہت کمی ہے۔‏ مجھے ایسے لوگوں کی موجودگی میں گھبراہٹ ہوتی ہے جو پُراِعتماد ہیں اور اپنی چلاتے ہیں۔‏ لیکن جب مَیں ایسے لوگوں کے ساتھ ہوتی ہوں جو نرم‌مزاج اور خاکسار ہیں تو مَیں پُرسکون رہتی ہوں۔‏ اِس طرح کے لوگوں کو مَیں کُھل کر اپنے مسئلے اور احساسات بتا سکتی ہوں۔‏ میرے قریبی دوست بھی ایسے ہی لوگ ہیں۔‏“‏

سارہ کی بات سے ظاہر ہوتا ہے کہ لوگ ایسے اشخاص کی طرف کھنچے چلے آتے ہیں جو نرم‌مزاج ہوتے ہیں۔‏ یہوواہ بھی ایسے لوگوں کو پسند کرتا ہے۔‏ اُس کے کلام میں ہمیں نصیحت کی گئی ہے کہ ہم ”‏نرمی .‏ .‏ .‏ کا لباس پہنیں۔‏“‏ (‏کُل 3:‏12‏)‏ اِس مضمون میں ہم دیکھیں گے کہ نرم‌مزاجی کیا ہے؟‏ یسوع مسیح نے اِس خوبی کو کیسے ظاہر کِیا؟‏ اور اِس خوبی کو ظاہر کرنے سے ہماری زندگی اَور خوش‌گوار کیسے ہو سکتی ہے؟‏

نرم‌مزاجی کیا ہے؟‏

نرم‌مزاجی کا تعلق صلح‌پسندی کی خوبی سے ہے۔‏ ایک نرم‌مزاج شخص دوسروں کے ساتھ شفقت اور مہربانی سے پیش آتا ہے۔‏ وہ ایسی صورتحال میں بھی پُر سکون رہتا ہے اور خود پر قابو رکھتا ہے جو غصے کا باعث بن سکتی ہیں۔‏

نرم‌مزاجی کمزوری کا نام نہیں بلکہ اِس خوبی سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایک شخص اندر سے کتنا مضبوط ہے۔‏ بائبل میں جس یونانی لفظ کا ترجمہ ”‏نرم‌مزاجی“‏ کِیا گیا ہے،‏ وہ ایک ایسے جنگلی گھوڑے کے لیے اِستعمال ہوا ہے جسے سدھایا گیا ہو۔‏ اِس گھوڑے کی طاقت میں تو کمی نہیں آتی لیکن تربیت کرنے پر اُس کی طاقت کو قابو میں رکھا جا سکتا ہے۔‏ اِسی طرح جب ہم میں نرم‌مزاجی کی خوبی ہوتی ہے تو ہم اپنے جذبات کو قابو میں رکھ پاتے ہیں اور دوسروں کے ساتھ صلح سے پیش آنے کے قابل ہوتے ہیں۔‏

شاید ہم اپنے بارے میں سوچیں کہ ”‏مَیں ایک نرم‌مزاج شخص نہیں ہوں۔‏“‏اِس کے علاوہ ہمیں نرمی سے کام لینا اِس لیے بھی مشکل لگ سکتا ہے کیونکہ ہم ایک ایسی دُنیا میں رہ رہے ہیں جہاں بہت سے لوگ غصیلے اور بےصبرے ہیں۔‏ (‏روم 7:‏19‏)‏ لہٰذا نرم‌مزاجی کی خوبی پیدا کرنے کے لیے ہمیں سخت کوشش کرنے کی ضرورت ہے۔‏ لیکن یہوواہ کی پاک روح ہمیں نرم‌مزاج شخص بننے کی ترغیب دے سکتی ہے۔‏ (‏گل 5:‏22،‏ 23‏)‏ آئیں،‏ دیکھیں کہ ہمیں اپنے اندر نرم‌مزاجی پیدا کرنے کی کوشش کیوں کرنی چاہیے۔‏

نرم‌مزاجی ایک ایسی خوبی ہے جو لوگوں کو اپنی طرف کھینچتی ہے۔‏ سارہ کی طرح جن کا مضمون کے شروع میں ذکر ہوا،‏ ہمیں بھی ایسے لوگوں کے ساتھ وقت گزار کر راحت محسوس ہوتی ہے جو نرم‌مزاج ہوتے ہیں۔‏ نرم‌مزاجی اور مہربانی کی سب سے شان‌دار مثال یسوع مسیح ہیں۔‏ (‏2-‏کُر 10:‏1‏)‏ یسوع اِس قدر نرم‌مزاج تھے کہ بچے بھی اُن کے قریب رہنا چاہتے تھے حالانکہ یہ بچے اُنہیں جانتے تک نہیں تھے۔‏—‏مر 10:‏13-‏16‏۔‏

نرم‌مزاج ہونے سے نہ صرف ہمیں بلکہ ہمارے اِردگِرد لوگوں کو بھی فائدہ ہوتا ہے۔‏ اگر ہم نرم‌مزاج ہیں تو ہم جلدی سے غصے میں آ کر کوئی غلط قدم نہیں اُٹھائیں گے۔‏ (‏امثا 16:‏32‏)‏ یوں نہ صرف دوسرے تکلیف جھیلنے سے بچ جائیں گے بلکہ ہم بھی شرمندگی کے اُس احساس سے بچ جائیں گے جو دوسروں کو اور خاص طور پر اپنے کسی عزیز کو دُکھ پہنچانے کے بعد ہمیں ہو سکتا ہے۔‏

نرم‌مزاجی کی بہترین مثال

حالانکہ یسوع مسیح پر بہت سی بھاری ذمےداریاں تھیں اور وہ بہت مصروف رہتے تھے لیکن پھر بھی وہ سب کے ساتھ نرمی سے پیش آتے تھے۔‏ اُن کے زمانے میں بہت سے لوگ زندگی کی پریشانیوں سے لڑ رہے تھے اور بوجھ تلے دبے ہوئے تھے۔‏ اِن لوگوں کو تازگی کی اشد ضرورت تھی۔‏ ذرا سوچیں کہ اُنہیں یسوع مسیح کی یہ بات سُن کر کتنا حوصلہ ملا ہوگا:‏ ”‏میرے پاس آئیں .‏ .‏ .‏ کیونکہ مَیں نرم‌مزاج اور دل سے خاکسار ہوں۔‏“‏—‏متی 11:‏28،‏ 29‏۔‏

ہم یسوع کی طرح نرم‌مزاج کیسے بن سکتے ہیں؟‏ خدا کے کلام کا مطالعہ کرنے سے ہم سیکھ سکتے ہیں کہ یسوع لوگوں کے ساتھ کیسے پیش آتے تھے اور مشکل صورتحال سے کیسے نمٹتے تھے۔‏ پھر جب ہمیں ایسی صورتحال کا سامنا ہوگا جس میں ہماری نرم‌مزاجی کا اِمتحان ہو سکتا ہے تو ہم یسوع کی مثال پر عمل کرنے کی کوشش کریں گے۔‏ (‏1-‏پطر 2:‏21‏)‏ آئیں،‏ تین ایسی وجوہات پر غور کریں جن کی بِنا پر یسوع نرم‌مزاجی ظاہر کر پائے۔‏

یسوع دل سے خاکسار تھے۔‏ یسوع مسیح نے کہا کہ وہ ”‏نرم‌مزاج اور دل سے خاکسار“‏ ہیں۔‏ (‏متی 11:‏29‏)‏ بائبل میں اِن دو خوبیوں کا ذکر ایک ساتھ اِس لیے ہوا ہے کیونکہ نرم‌مزاجی اور خاکساری میں گہرا تعلق ہے۔‏ (‏اِفس 4:‏1-‏3‏)‏ ہم ایسا کیوں کہہ سکتے ہیں؟‏

ایک خاکسار شخص فوراً دوسروں کی باتوں کو دل پر نہیں لے لیتا۔‏ اِس سلسلے میں یسوع نے بہت اچھی مثال قائم کی۔‏ جب دوسروں نے اُن پر ”‏پیٹ‌پجاری اور شرابی“‏ ہونے کا اِلزام لگایا تو اُن کا کیا ردِعمل تھا؟‏ اُنہوں نے اپنے کاموں سے اُن کے اِلزامات کو جھوٹا ثابت کِیا اور بڑی نرمی سے کہا:‏ ”‏دانش‌مندی اپنے کاموں سے نیک ثابت ہوتی ہے۔‏“‏—‏متی 11:‏19‏۔‏

اگر کوئی آپ کی قوم،‏ جنس یا پس‌منظر کو لے کر بِلا سوچے سمجھے کوئی بات کہہ جاتا ہے تو کیوں نہ اُسے نرمی سے جواب دینے کی کوشش کریں؟‏ جنوبی افریقہ میں رہنے والے ایک بزرگ جن کا نام پیٹر ہے،‏ کہتے ہیں:‏ ”‏جب کبھی مجھے کسی کی بات پر غصہ آتا ہے تو مَیں خود سے پوچھتا ہوں:‏ ”‏اگر یسوع مسیح میری جگہ ہوتے تو وہ کیا کرتے؟‏“‏“‏ بھائی پیٹر نے یہ بھی کہا:‏ ”‏اب مَیں دوسروں کی بات کو فوراً دل پر نہیں لیتا۔‏“‏

یسوع جانتے تھے کہ اِنسان عیب‌دار ہیں۔‏ یسوع کے شاگرد اچھے کام کرنا چاہتے تھے لیکن عیب‌دار ہونے کی وجہ سے کبھی کبھار وہ ایسا کرنے میں چُوک جاتے تھے۔‏ مثال کے طور پر یسوع کی موت سے پہلے کی رات پطرس،‏ یعقوب اور یوحنا جاگتے رہنے کے سلسلے میں یسوع کی ہدایت پر عمل کرنے میں ناکام رہے۔‏ اِس وجہ سے وہ کٹھن وقت میں یسوع کا ساتھ نہیں دے پائے۔‏ لیکن اُنہیں دیکھ کر یسوع نے کہا:‏ ”‏بےشک دل جوش سے بھرا ہے لیکن جسم کمزور ہے۔‏“‏ (‏متی 26:‏40،‏ 41‏)‏ چونکہ یسوع مسیح جانتے تھے کہ اُن کے رسول عیب‌دار ہیں اِس لیے وہ غصے میں نہیں آئے۔‏

ذرا مینڈی نامی بہن کی مثال پر غور کریں جو پہلے دوسروں پر بہت تنقید کِیا کرتی تھیں۔‏ لیکن اب وہ نرم‌مزاجی ظاہر کرنے کے حوالے سے یسوع کی مثال پر عمل کرنے کی سخت کوشش کرتی ہیں۔‏ وہ کہتی ہیں:‏ ”‏مَیں ہمیشہ یہ یاد رکھتی ہوں کہ سب اِنسان عیب‌دار ہیں۔‏ مَیں یہوواہ کی مثال پر عمل کرنے کی کوشش کرتی ہوں اور دوسروں میں خوبیاں تلاش کر کے اِنہی پر اپنا دھیان رکھتی ہوں۔‏“‏ کیا یسوع مسیح کی طرح ہم یہ یاد رکھتے ہیں کہ سب اِنسان عیب‌دار ہیں اور اُن کے ساتھ نرمی سے پیش آتے ہیں؟‏

یسوع نے معاملات کو خدا کے ہاتھ میں چھوڑ دیا۔‏ جب یسوع زمین پر تھے تو اُنہیں نااِنصافی کا نشانہ بنایا گیا،‏ اُن سے نفرت کی گئی اور اُن پر اذیت ڈھائی گئی۔‏ اِس سب کے باوجود اُنہوں نے نرم‌مزاجی سے کام لینا نہیں چھوڑا۔‏ کیوں؟‏ کیونکہ اُنہوں نے ”‏اپنے آپ کو اُس کے سپرد کِیا جو راستی سے اِنصاف کرتا ہے۔‏“‏ (‏1-‏پطر 2:‏23‏)‏ یسوع جانتے تھے کہ اُن کا آسمانی باپ مشکلات کو برداشت کرنے میں اُن کی مدد کرے گا اور صحیح وقت پر اُن لوگوں کو سزا دے گا جنہوں نے اُن کے ساتھ بُرا سلوک کِیا ہے۔‏

اگر ہمارے ساتھ نااِنصافی ہوتی ہے اور ہم غصے میں شدید ردِعمل ظاہر کرتے ہیں تو مسئلہ اَور بگڑ سکتا ہے۔‏ اِس لیے ہمیں پاک کلام کی اِس ہدایت کو یاد رکھنا چاہیے:‏ ”‏جو شخص غصے پر قابو نہیں رکھتا،‏ وہ خدا کی نظروں میں نیک نہیں ٹھہرتا۔‏“‏ (‏یعقو 1:‏20‏)‏ اگر ہمارا غصہ جائز بھی ہو تو بھی عیب‌دار ہونے کی وجہ سے ہم مسئلے کو سلجھانے کے لیے غلط طریقہ اپنانے کی طرف مائل ہو سکتے ہیں۔‏

جرمنی میں رہنے والی بہن جن کا نام کیتھی ہے،‏ یہ سوچا کرتی تھیں کہ ”‏ہمیں اپنے حق کے لیے خود ہی لڑنا پڑتا ہے۔‏ کوئی اَور ہمارے لیے ایسا نہیں کر سکتا۔‏“‏ لیکن جب اُنہوں نے یہوواہ پر بھروسا کرنا سیکھا تو اُن کی سوچ بدل گئی۔‏ وہ کہتی ہیں:‏ ”‏اب مجھے اپنے لیے لڑنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔‏ مَیں کسی بھی صورتحال میں نرم‌مزاجی سے کام لے سکتی ہوں کیونکہ مَیں جانتی ہوں کہ یہوواہ ہر طرح کے مسئلے کو حل کر سکتا ہے۔‏“‏ اگر آپ بھی کبھی نااِنصافی کا نشانہ بنے ہیں تو یسوع کی طرح یہوواہ پر بھروسا رکھیں۔‏ یوں آپ نرم‌مزاجی سے کام لیتے رہنے کے قابل ہوں گے۔‏

‏”‏وہ لوگ خوش رہتے ہیں جو نرم‌مزاج ہیں“‏

جب ہمارے صبر کا اِمتحان ہوتا ہے تو نرم‌مزاجی کی خوبی ہمارے کام آ سکتی ہے۔‏

یسوع نے واضح کِیا کہ خوشی حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم نرم‌مزاج ہوں۔‏ اُنہوں نے کہا:‏ ”‏وہ لوگ خوش رہتے ہیں جو نرم‌مزاج ہیں۔‏“‏ (‏متی 5:‏5‏)‏ آئیں،‏ غور کریں کہ اِن صورتحال میں نرم‌مزاجی ظاہر کرنا کیوں فائدہ‌مند ہے:‏

نرم‌مزاجی شوہر اور بیوی کے درمیان پیدا ہونے والی پریشانی کو کم کر سکتی ہے۔‏ آسٹریلیا سے تعلق رکھنے والے ایک بھائی جن کا نام رابرٹ ہے،‏ تسلیم کرتے ہیں:‏ ”‏مَیں نے کئی بار غصے میں اپنی بیوی سے بہت سی ایسی باتیں کہہ ڈالیں جن سے اُس کا بڑا دل دُکھا۔‏ لیکن غصے میں کہیں باتوں کو واپس نہیں لیا جا سکتا۔‏ جب مَیں دیکھتا تھا کہ مَیں نے اپنی باتوں سے اُس کو کتنی ٹھیس پہنچائی ہے تو مجھے بہت پچھتاوا ہوتا تھا۔‏“‏

ہم سب بات کرتے ہوئے ”‏بار بار غلطی کرتے ہیں“‏ جس سے ہماری شادی‌شُدہ زندگی کا سکون برباد ہو سکتا ہے۔‏ (‏یعقو 3:‏2‏)‏ ایسے موقعوں پر نرم‌مزاجی کی خوبی ہمیں اپنے جذبات اور اپنی زبان کو قابو میں رکھنے کے قابل بنا سکتی ہے۔‏—‏امثا 10:‏19‏۔‏

بھائی رابرٹ نے نرمی ظاہر کرنے اور خود پر قابو رکھنے کے سلسلے میں سخت کوشش کی۔‏ اِس کا کیا فائدہ ہوا؟‏ وہ بتاتے ہیں:‏ ”‏اب جب بھی میرے اور میری بیوی کے بیچ کسی بات کو لے کر اِختلاف ہو جاتا ہے تو مَیں پوری کوشش کرتا ہوں کہ اُس کی بات دھیان سے سنوں،‏اُس سے نرمی سے بات کروں اور غصے میں نہ آؤں۔‏ اب ہمارا شادی کا بندھن پہلے سے مضبوط ہو گیا ہے۔‏“‏

نرم‌مزاجی کی وجہ سے دوسروں کے ساتھ ہمارے تعلقات اچھے رہتے ہیں۔‏ دیکھا گیا ہے کہ ایسے لوگوں کے کم ہی دوست ہوتے ہیں جو جلدی سے غصے میں آ جاتے ہیں۔‏ لیکن نرم‌مزاجی کی خوبی ”‏صلح کے بندھن کو قائم“‏ رکھتی ہے۔‏ (‏اِفس 4:‏2،‏ 3‏)‏ کیتھی جن کا پہلے بھی ذکر ہو چُکا ہے،‏ کہتی ہیں:‏ ”‏نرم‌مزاجی کی وجہ سے مَیں دوسروں کے ساتھ زیادہ خوش‌گوار وقت گزار سکتی ہوں،‏ اُن لوگوں کے ساتھ بھی جن کی دوسروں سے نہیں بنتی۔‏“‏

نرم‌مزاجی دلی سکون کا باعث بنتی ہے۔‏ بائبل میں خدا کی طرف سے ملنے والی دانش‌مندی کو نرم‌مزاجی اور صلح‌پسندی سے منسلک کِیا گیا ہے۔‏ (‏یعقو 3:‏13،‏ 17‏)‏ ایک نرم‌مزاج شخص ”‏پُرسکون دل“‏ کا مالک ہوتا ہے۔‏ (‏امثا 14:‏30‏،‏ اُردو جیو ورشن‏)‏ مارٹن نامی بھائی نے نرم‌مزاجی کی خوبی کو پیدا کرنے کے لیے سخت کوشش کی۔‏ وہ کہتے ہیں:‏ ”‏اب مَیں ہمیشہ اپنی چلانے کی نہیں کرتا اور جلدی غصے میں نہیں آتا۔‏ اِس وجہ سے مجھے پہلے سے زیادہ دلی سکون حاصل ہے اور مَیں اَور خوش رہنے لگا ہوں۔‏“‏

بلا شُبہ ہمیں نرم‌مزاج بننے کے لیے سخت محنت کرنی پڑ سکتی ہے۔‏ غور کریں کہ ایک بھائی نے کہا:‏ ”‏سچ کہوں تو آج بھی کبھی کبھار میرے اندر غصہ اُبل آتا ہے۔‏“‏ لیکن یہوواہ جو ہمیں نرم‌مزاج بننے کی حوصلہ‌افزائی کرتا ہے،‏ اِس خوبی کو ظاہر کرنے میں ہماری مدد کر سکتا ہے۔‏ (‏یسع 41:‏10؛‏ 1-‏تیم 6:‏11‏)‏ وہ ’‏ہماری اچھی طرح تربیت کر سکتا ہے‘‏ اور ہمیں ’‏طاقت بخش‘‏ سکتا ہے۔‏ (‏1-‏پطر 5:‏10‏)‏ پھر وقت کے ساتھ ساتھ پولُس رسول کی طرح ہم بھی”‏مسیح جیسی نرم‌مزاجی اور تحمل“‏ ظاہر کر پائیں گے۔‏—‏2-‏کُر 10:‏1‏۔‏

^ پیراگراف 2 کچھ نام فرضی ہیں۔‏